Weekly Nigar

Weekly Nigar The weekly Nigar presents everyday fresh news and interviews who are based on Pakistan film and drama industry.

Big shout out to my newest top fans! 💎 Syed ShahenshahDrop a comment to welcome them to our community,
25/01/2025

Big shout out to my newest top fans! 💎 Syed Shahenshah

Drop a comment to welcome them to our community,

راگنی لاہور کی فلمی صنعت کی پہلی سپر اسٹار ہیروئن تھیں، جنہوں نے 1940 کی دہائی میں پنجابی اور ہندی/اردو فلموں پر گہرا اث...
18/01/2025

راگنی لاہور کی فلمی صنعت کی پہلی سپر اسٹار ہیروئن تھیں، جنہوں نے 1940 کی دہائی میں پنجابی اور ہندی/اردو فلموں پر گہرا اثر چھوڑا۔

انہوں نے 1940 میں فلم "دُلا بھٹی" سے ڈیبیو کیا اور جلد ہی انڈسٹری کی نمایاں شخصیت بن گئیں، اس دہائی کے دوران متعدد پنجابی اور ہندی/اردو فلموں میں کام کیا۔ راگنی نے بمبئی کی فلمی صنعت میں بھی قدم رکھا اور فلم "شاہ جہاں" (1946) میں ممتاز محل کے کردار کے لیے 50,000 روپے معاوضہ حاصل کر کے اس وقت کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ہیروئن بن گئیں۔

ان کی نمایاں فلموں میں "نیک پروین" (1946) شامل ہے، جو لاہور میں بمبئی کے ہدایتکار ایس ایم یوسف کی قیادت میں تیار کی گئی تھی۔

1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد راگنی نے پاکستان میں اپنا فلمی کیریئر جاری رکھا۔ انہوں نے 1950 میں اپنی دوسری شوہر ایس گل کے ساتھ فلم "بے قرار" میں اداکاری اور پروڈکشن کی۔ ان کی فلم "نوکر" (1955) بڑی کامیاب رہی، اور "انارکلی" (1958) میں دل آرام کے کردار کو بے حد سراہا گیا۔

اپنے کیریئر کے آخر میں راگنی نے کردار اداکاری میں قدم رکھا اور "بیداری" (1958)، "نیلہ" (1965)، "لاڈو" (1966)، "تاج محل" (1968)، "شیراں دی جوڑی" (1969)، "چڑھدا سورج" (1970) جیسی فلموں میں یادگار کردار ادا کیے۔

راگنی کا اصل نام شمشاد بیگم تھا اور وہ 1923 میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ مسلمان اور والد ہندو زمیندار تھے۔ وہ 27 فروری 2007 کو لاہور میں وفات پا گئیں، اور پاکستانی سنیما کی ابتدائی اداکاراؤں میں سے ایک کے طور پر اپنی ایک منفرد میراث چھوڑ گئیں۔











゚viral

اداکارہ روزینہ ایک پرکشش اور مشہور معاون اداکارہ تھیں۔فلم ہمیں بھی جینے دو (1963) میں پہلی بار معاون اداکارہ کے طور پر س...
18/01/2025

اداکارہ روزینہ ایک پرکشش اور مشہور معاون اداکارہ تھیں۔

فلم ہمیں بھی جینے دو (1963) میں پہلی بار معاون اداکارہ کے طور پر سامنے آنے والی روزینہ کو اپنا آپ منوانے کے لیے خاصی جدوجہد کرنا پڑی۔ اگرچہ وہ اپنی تیسری فلم عشق حبیب (1965) میں مرکزی کردار میں تھیں، لیکن اس مذہبی نوعیت کی قابل تعریف فلم کی کہانی طلعت صدیقی اور ابراہیم نفیس کے گرد گھومتی تھی۔ فلم کامیاب رہی، مگر روزینہ کو کوئی خاص فائدہ نہ دے سکی۔

معاون اداکارہ کے طور پر آغاز

اسی سال کراچی کی فلم چوری چھپے (1965) میں بھی روزینہ کو سیٹھی نامی گمنام ہیرو کے ساتھ جوڑا گیا، لیکن یہ فلم ناکام رہی۔ تاہم، روزینہ کو پاکستان کی پہلی اردو پلاٹینم جوبلی فلم ارمان (1966) میں مزاحیہ اداکار نرالا کے مقابل کاسٹ کیا گیا۔ اس مشہور زمانہ نغماتی اور رومانٹک فلم میں زیبا، وحید مراد، اور ترنم نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔

اسی سال کی فلم جوش (1966) میں روزینہ اور وحید مراد کی جوڑی پہلی بار بنی۔ اس فلم میں ان دونوں پر احمد رشدی اور ناہید نیازی کا گیت رات چلی ہے جھوم کے، آ بھی جا فلمایا گیا تھا۔

پہلی بڑی کام یابی

ایک درجن سے زائد فلموں میں معاون کردار ادا کرنے کے بعد روزینہ نے سیکنڈ ہیروئن کے طور پر اپنی پہلی بڑی کامیابی سنگ دل (1968) سے حاصل کی۔ ندیم کی مغربی پاکستان میں بننے والی اس پہلی سپر ہٹ گولڈن جوبلی فلم کی ہیروئن دیبا تھیں۔ فلم کے ایک دوگانے بادشاہ عشق ہیں ہم اور حسن کے سائل ہیں ہم میں روزینہ کو ندیم کے ساتھ دکھایا گیا۔

اسی سال کی فلم سمندر (1968) میں موسیقار دیبو نے آئرن پروین اور نظیر بیگم سے گوایا گیا گیت ہمارے دلوں کی انوکھی خوشی کو نظر نہ لگے روزینہ پر فلمایا۔ فلم منزل دور نہیں (1968) میں بھی روزینہ تھیں۔

کام یابی کا سنہرا دور

فلم سنگ دل (1968) کے بعد روزینہ کے لیے فلموں کے دروازے کھل گئے، اور 1969ء میں وہ پہلی بار دس فلموں میں نظر آئیں، جن میں سے تین میں وہ فرسٹ ہیروئن تھیں۔

سزا (1969) روزینہ کی سب سے یادگار فلم ثابت ہوئی۔ اس نغماتی فلم میں مہدی حسن کا مشہور گیت جب بھی چاہیں ایک نئی، صورت بنا لیتے ہیں لوگ اور مالا کے گائے ہوئے تین سپر ہٹ گیت روزینہ پر فلمائے گئے تھے۔ فلم سزا کا مشہور گیت اداکار جمیل پر فلمایا گیا تھا جو حال کی بالی وڈ اداکارہ فرح اور تبو کے والد ہیں.

پنجابی فلموں میں آغاز

1970ء میں روزینہ نے اپنی پہلی پنجابی فلم پردیسی میں اعجاز کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کی مادری زبان اردو تھی، لیکن پنجابی زبان میں بھی مہارت حاصل کر چکی تھیں۔ اس فلم میں ان کی کارکردگی نے ان کے لیے پنجابی سنیما میں جگہ بنائی۔

بشیرا اور دیگر یادگار فلمیں

1972ء میں روزینہ کی سب سے بڑی فلم بشیرا ریلیز ہوئی، جس میں حبیب ان کے مقابل تھے۔ اس فلم کے مشہور گانے، خاص طور پر پہلے اکھ لڑدی، پھر دل ملدے اور بنو رانی بڑی دلگیر وے، میڈم نور جہاں نے گائے۔ اسی سال فلم ٹھاہ (1972) بھی خاصی مشہور ہوئی، جس میں روزینہ کے گانے تیرے ملنے نوں آئی کنی چاہ کر کے نے مقبولیت حاصل کی۔

کیریئر کا اختتام

روزینہ کا فلمی کیریئر 1985ء میں فلم مشرق و مغرب کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ ان کی کل 90 فلموں میں سے 59 اردو اور 31 پنجابی فلمیں تھیں۔ وحید مراد کے ساتھ ان کی جوڑی 14 فلموں میں بنی، جبکہ دیبا کے ساتھ 13 فلموں میں کام کیا۔

نجی زندگی

روزینہ 1948ء میں کراچی میں ایک کرسچن گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ شادی کے بعد انہوں نے اسلام قبول کیا۔ لپٹن چائے کے ایک ریڈیو اور ٹی وی کمرشل نے بھی انہیں خاصی شہرت دی۔ ان کی بیٹی صائمہ قریشی ماڈلنگ اور اداکاری میں نام ور مقام رکھتی ہیں۔











゚viral

موسیقار ذوالفقار علی(مرحوم) نے 1982 میں فلم "نوکر تے مالک" کے ذریعے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کی مشہور فلمیں "چوڑیاں" (...
17/01/2025

موسیقار ذوالفقار علی(مرحوم) نے 1982 میں فلم "نوکر تے مالک" کے ذریعے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کی مشہور فلمیں "چوڑیاں" (1998) اور "مجاجن" (2006) ہیں۔
ذیل میں ذوالفقار علی صاحب کی ان فلموں کی لسٹ دی گئی ہے جن میں انہوں نے موسیقی ترتیب دی تھی.

1. 1982: Noukar Tay Malik (Punjabi)
2. 1982: Wohti Da Sawal A (Punjabi)
3. 1983: Dillan day Souday (Punjabi)
4. 1983: Bau Ji (Punjabi)
5. 1983: Moti Tay Dogar (Punjabi)
6. 1984: Shikari (Urdu)
7. 1984: Ishq Pecha (Punjabi)
8. 1984: Lagaan (Punjabi)
9. 1984: Devar Bhabhi (Punjabi)
10. 1985: Sajjan Dushman (Punjabi)
11. 1985: Muqaddar (Punjabi)
12. 1986: Dara Gujjar (Punjabi)
13. 1988: Pyar Tera Mera (Punjabi)
14. 1988: Taqatvar (Punjabi)
15. 1988: Sheru Tay Sultan (Punjabi)
16. 1989: Taqat Ka Toofan (Urdu)
17. 1989: Aakhri Qatal (Punjabi)
18. 1989: Rogi (Punjabi)
19. 1989: Bilaval (Punjabi)
20. 1989: Kalka (Punjabi)
21. 1989: Karma (Punjabi)
22. 1989: Sheran Di Maa (Punjabi)
23. 1989: Pani (Punjabi)
24. 1989: Mazdoor (Punjabi)
25. 1989: Dushman Dada (Punjabi)
26. 1990: Babul (Punjabi)
27. 1990: Jangloos (Urdu)
28. 1990: Tezab (Punjabi/Urdu double version)
29. 1990: Allah Shehanshah (Punjabi)
30. 1990: Siren (Punjabi)
31. 1990: Zehreelay (Punjabi/Urdu double version)
32. 1991: Ishq (Punjabi/Urdu double version)
33. 1991: Wehshi Dogar (Punjabi)
34. 1991: Naag Devta (Punjabi/Urdu double version)
35. 1991: Ziddi Mera Naa (Punjabi)
36. 1991: Chattan (Punjabi/Urdu double version)
37. 1991: Billu Badshah (Punjabi)
38. 1991: Lahori Badmash (Punjabi)
39. 1991: Badmash Thug (Punjabi/Urdu double version)
40. 1991: Cobra (Punjabi/Urdu double version)
41. 1991: Qanoon Apna Apna (Punjabi)
42. 1991: Aslah (Punjabi/Urdu double version)
43. 1991: Mastan Khan (Punjabi/Urdu double version)
44. 1991: Sailab (Punjabi/Urdu double version)
45. 1991: Betab (Punjabi/Urdu double version)
46. 1991: Medan-e-Jang (Punjabi/Urdu double version)
47. 1992: Dillagi (Punjabi)
48. 1992: Qurbani (Punjabi)
49. 1992: Ashqi (Punjabi/Urdu double version)
50. 1992: Tarazoo (Punjabi)
51. 1992: Consular (Punjabi)
52. 1992: Abdullah The Great (Punjabi/Urdu double version)
53. 1992: Zindagi (Punjabi/Urdu double version)
54. 1992: BeNaam Badshah (Punjabi/Urdu double version)
55. 1992: Fateh (Punjabi/Urdu double version)
56. 1992: Supra (Punjabi)
57. 1992: Parinday (Punjabi)
58. 1992: Boxer (Punjabi/Urdu double version)
59. 1992: Hero (Punjabi/Urdu double version)
60. 1992: Babra (Punjabi)
61. 1992: Gavah Tay Badmash (Punjabi)
62. 1993: Rambo 303 (Punjabi/Urdu double version)
63. 1993: Hina (Punjabi/Urdu double version)
64. 1993: Sapni (Punjabi/Urdu double version)
65. 1993: Subay Khan (Punjabi)
66. 1993: Katval (Punjabi/Urdu double version)
67. 1993: Guru Chela (Punjabi/Urdu double version)
68. 1993: Roshan Jatt (Punjabi)
69. 1993: Behrupia (Urdu)
70. 1993: Sheeda Talli (Punjabi/Urdu double version)
71. 1993: Soudagar (Punjabi/Urdu double version)
72. 1993: Faqeera (Punjabi)
73. 1993: Teesri Dunya (Punjabi/Urdu double version)
74. 1993: Anhoni (Urdu)
75. 1993: Jadoo Nagri (Punjabi/Urdu double version)
76. 1993: Akri Shehzada (Punjabi)
77. 1994: Sanam Bewafa (Punjabi/Urdu double version)
78. 1994: Khandan (Punjabi/Urdu double version)
79. 1994: Mahallaydar (Punjabi/Urdu double version)
80. 1994: Saranga (Punjabi)
81. 1994: Pyasa Savan (Punjabi/Urdu double version)
82. 1994: Jameela (Punjabi/Urdu double version)
83. 1994: Hathkari (Punjabi/Urdu double version)
84. 1994: But Shikkan (Punjabi/Urdu double version)
85. 1994: Ghunda Raj (Punjabi)
86. 1994: Puttar Jeeray Blade Da (Punjabi/Urdu double version)
87. 1994: Ziddi Gujjar (Punjabi)
88. 1995: Gabhar Singh (Punjabi)
89. 1995: Sultan-e-Azam (Punjabi)
90. 1996: Munda Tera Divana (Urdu)
91. 1996: Saboot (Pashto)
92. 1996: 2 Jeedar (Punjabi)
93. 1996: Munda Shararti (Punjabi)
94. 1996: Cheez Bari Hay Mast Mast (Urdu)
95. 1996: Khilona (Urdu)
96. 1996: Mehndi (Urdu)
97. 1997: Mafia (Punjabi/Urdu double version)
98. 1997: Kurri Munda Razi (Punjabi)
99. 1997: Dushman Da Kharak (Punjabi)
100. 1997: Umar Mukhtar (Urdu)
101. 1997: Takkar (Punjabi)
102. 1998: Khalnaik (Urdu)
103. 1998: Harjai (Urdu)
104. 1998: Sahib, Bibi Aur Tavaif (Urdu)
105. 1998: Choorian (Punjabi)
106. 1999: Nikki Jei Haan (Punjabi)
107. 1999: Jannat Ki Talash (Urdu)
108. 1999: Paranda (Punjabi)
109. 1999: Chohdrani (Punjabi)
110. 1999: Babul Da Vehra (Punjabi)
111. 1999: Gustakh Akhian (Punjabi)
112. 2000: Bali Jatti (Punjabi)
113. 2000: Peengan (Punjabi)
114. 2000: Long Da Lashkara (Punjabi)
115. 2000: Gabhru Punjab Da (Punjabi)
116. 2000: Mehndi Valay Hath (Punjabi)
117. 2000: Lazawal (Urdu)
118. 2001: Dil Kach Da Khadona (Punjabi)
119. 2001: Meri Pukar (Punjabi)
120. 2001: Mukhra Chann Varga (Punjabi)
121. 2001: Nizam Lohar (Punjabi)
122. 2001: Toofan Mail (Punjabi)
123. 2001: Aasoo Billa (Punjabi)
124. 2001: Mehar Badshah (Punjabi)
125. 2001: Sapnay Apnay Apnay (Urdu)
126. 2002: Budha Gujjar (Punjabi)
127. 2002: Manila Kay Jasoos (Urdu)
128. 2003: Khar Damagh Gujjar (Punjabi)
129. 2004: Medan (Punjabi)
130. 2004: Nagri Daata Di (Punjabi)
131. 2006: Majajan (Punjabi)
132. 2006: Mahi Aavay Ga (Punjabi)
133. 2007: Potra Shahiye Da (Punjabi)
134. 2008: Zill-e-Shah (Punjabi)
135. 2010: Channa Sachi Muchi (Punjabi)
136. 2010: Numberdarni (Punjabi)
137. 2011: Danay Pay Dana (Urdu)
138. 2012: Wardatiey (Punjabi)
139. 2015: Sanam (Urdu)
140. 2016: Best Of Luck (Punjabi)
141. 2017: Shor Sharaba (Urdu)
142. 2022: Teray Bajray Di Rakhi (Punjabi)
143. 2023: Rang Ishqay Da (Punjabi)






゚viral

شیریںشیریں نے صرف نو برسوں میں 33 فلموں میں کام کیا۔اداکارہ شیریں نے اپنی پہلی فلم تیس مار خان (1963) میں شاندار آغاز کی...
16/01/2025

شیریں

شیریں نے صرف نو برسوں میں 33 فلموں میں کام کیا۔
اداکارہ شیریں نے اپنی پہلی فلم تیس مار خان (1963) میں شاندار آغاز کیا اور اپنے مختصر فلمی کیریئر میں غیرمعمولی عروج پایا۔

1963ء کی پنجابی فلم تیس مار خان میں فلم ساز شباب کیرانوی نے ایک ایسی حسین اداکارہ کو متعارف کروایا جس نے فلم بینوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ یہ فلم معاشرتی، اصلاحی، نغماتی اور تفریحی تھی۔ دلکش نقوش اور نشیلی آنکھوں والی اس اداکارہ نے "نمبوآں دا جوڑا" اور "میری جھانجھر چھن چھن چھنکے" جیسے گانوں میں اپنی دلکشی اور رقص سے ایک نئی روایت قائم کی۔

علاؤالدین بطور سولو ہیرو

فلم تیس مار خان میں پہلی بار علاؤالدین کو سولو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ اداکار ساون نے اس فلم میں بطور ولن اور آصف جاہ نے بطور مزاحیہ اداکار شاندار کارکردگی دکھائی۔

ہدایت کار حیدر چوہدری کی یہ پہلی فلم تھی، جس میں بابا عالم سیاہ پوش کے مکالمے، منظور اشرف کی موسیقی اور مقبول گیتوں نے فلم کو یادگار بنایا۔

شیریں اور لیلیٰ

1964ء شیریں کے لیے مزید چار فلمیں لایا، جن میں واحد اردو فلم واہ بھئی واہ بھی شامل تھی۔ یہ واحد فلم تھی جس میں اداکارائیں لیلیٰ اور شیریں ایک ساتھ نظر آئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں کے فلمی کیریئر مختصر لیکن انتہائی مقبول رہے۔

پہلی پلاٹینم جوبلی پنجابی فلم

1965ء شیریں کے کیریئر کا سب سے یادگار سال تھا۔ اس سال سات فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں جی دار لاہور میں پلاٹینم جوبلی کرنے والی پہلی فلم بنی۔

فلم ملنگی

1965ء کی بلاک بسٹر فلم ملنگی میں شیریں کی جوڑی اکمل کے ساتھ تھی۔ اس فلم میں وقت کے دو سپر اسٹارز، یوسف خان اور اکمل، ایک ساتھ نظر آئے۔

اردو فلموں میں کام

شیریں کی اردو فلمیں کم تھیں۔ 1966ء میں بانکی نار اور جانباز جیسی فلمیں سامنے آئیں۔ فلم جانباز میں شیریں کا کردار قابلِ ذکر تھا، اور اس میں محمد علی کے ساتھ ان کی جوڑی بنی۔

شیریں کا فلمی کیریئر اختتام پذیر

1967ء میں شیریں کی فلمی سرگرمیاں کم ہو گئیں، اور لگتا ہے کہ اسی سال وہ فلمی دنیا سے کنارہ کش ہو گئیں۔
1968ء میں ان کی رنگین فلم پنج دریا ریلیز ہوئی، جو اکمل کے ساتھ ان کی واحد رنگین فلم تھی۔

کل فلمی سفر

شیریں نے نو برسوں کے مختصر کیریئر میں 33 فلموں میں کام کیا، جن میں 17 فلمیں اکمل اور 7 علاؤالدین کے ساتھ تھیں۔

゚viral

"پاکستان فلم انڈسٹری کی مشہور آئٹم گرلز"اداکارہ نگوپاکستانی فلموں کی مقبول ترین ڈانسر تھیںہماری فلموں میں جہاں ہیرو، ہیر...
16/01/2025

"پاکستان فلم انڈسٹری کی مشہور آئٹم گرلز"

اداکارہ نگو
پاکستانی فلموں کی مقبول ترین ڈانسر تھیں
ہماری فلموں میں جہاں ہیرو، ہیروئن، ولن، ویمپ، مزاحیہ، معاون، کیریکٹر ایکٹر، فائٹر اور ایکسٹرا اداکار ہوتے تھے وہاں ایک اہم ترین شعبہ مجرا کرنے والی اداکاراؤں کا بھی ہوتا تھا جنہیں دور حاضر میں item girls اور ان کے گیتوں کو item song یا item number بھی کہتے ہیں۔

ویسے تو فلمی صورت حال کے مطابق ہیروئن بھی بھرپور رقص کیا کرتی تھیں لیکن پنجابی فلموں میں روایتی مجروں یا اردو فلموں میں کلب ڈانس کے لیے ایسی پیشہ ور رقاصاؤں کو نچایا جاتا تھا جو اس فن میں مشاق ہوتی تھیں۔
عام طور پر ایسے 'آئٹم نمبرز' کا فلم کی کہانی اور دیگر کرداروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا لیکن فلم بینوں میں ایسی آئٹم گرلز کی مقبولیت مسلم ہوتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں فلم بینی سے زیادہ تماش بینی ہوتی رہی ہے۔

پاکستانی فلموں کی پہلی رقاصہ ہیروئن
پاکستانی فلموں میں نیلو پہلی بڑی رقاصہ تھیں جو اپنی فلموں کی کوریوگرافی بھی خود کرتی تھیں لیکن وہ بھی زمرد، رانی، فردوس، عالیہ، عشرت چوہدری، ممتاز، نازلی اور نجمہ وغیرہ کی طرح اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر فلمی ہیروئن بن گئی تھیں۔

رخشی
پاکستانی فلموں کی پہلی مشہور آئٹم گرل تھیں

ایمی مینوالا
پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والی اداکارہ ایمی مینوالا، پاکستانی فلموں کی دوسری نامور رقاصہ تھیں جنھوں نے فلم سوہنی (1955) سے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

پنا
اداکارہ پنا ایک کلاسیکل رقاصہ تھیں جنہوں نے فلموں کے علاوہ سرکاری تقاریب میں بیرونی سربراہوں کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔

چھم چھم
ساٹھ کے عشرہ کی انتہائی مقبول و مصروف رقاصہ چھم چھم نے سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔ وہ اپنے وقت کی مقبول ترین ڈانسر تھیں۔

فریدہ
سو سے زائد فلموں میں نظر آنے والی اداکارہ فریدہ کا آغاز ہی بڑا دھماکہ خیز ہوا تھا جب ان کی پہلی فلم تیس مارخاں (1963) میں ان پر فلمایا ہوا نذیربیگم کا یہ گیت سپر ہٹ ہوا تھا۔

نگو
ڈانسر نگو نے بمشکل آٹھ نو سالہ فلمی کیریئر میں سو سے زائد فلموں میں مجرے کیے تھے۔ وہ اپنے وقت کی سب سے مقبول آئٹم گرل تھیں۔

مینا چوہدری
مینا چوہدری ایک ایسے وقت میں فلموں میں آئیں جب ایمی مینوالا، پنا، چھم چھم، فریدہ اور نگو جیسی بڑی بڑی آئٹم گرلز موجود تھیں۔

انیتا
انیتا، پاکستان کی پہلی آئٹم اداکارہ تھیں جنہوں نے فحاشی، عریانی اور بے ہودگی میں خوب نام کمایا تھا۔

امروزیہ
ستر اور اسی کے عشروں کی مقبول ترین ڈانسر اداکارہ امروزیہ کی پہلی فلم علاقہ غیر (1972) تھیں۔

مزلہ
مزلہ کو پہلی بار فلم آرپار (1973) میں متعارف کروایا گیا تھا۔ وہ اپنی ہم عصر ڈانسر امروزیہ کے ساتھ بڑی مقبول تھیں۔


゚viral

ماسٹر مرادماسٹر مراد پاکستانی فلموں کے مشہور ترین چائلڈ اسٹار، نے اپنے فن سے ایک یادگار مقام حاصل کیا۔ ان پر فلمایا گیا ...
16/01/2025

ماسٹر مراد

ماسٹر مراد پاکستانی فلموں کے مشہور ترین چائلڈ اسٹار، نے اپنے فن سے ایک یادگار مقام حاصل کیا۔ ان پر فلمایا گیا گیت، "پیاری ماں، کرو دعا، میں جلد بڑا ہو جاؤں!"، گلوکارہ ناہید نیازی کی آواز میں سپرہٹ ثابت ہوا۔ اس گیت نے نہ صرف فلم بینوں کو متاثر کیا بلکہ مراد کی معصومیت اور اداکاری نے بھی شائقین کے دل جیتے۔

ابتدائی کیریئر اور عروج
ماسٹر مراد کی پہلی فلم پردہ (1966) تھی، جس کے بعد وہ دیکھتے ہی دیکھتے فلمی دنیا کی ضرورت بن گئے۔ فلم عادل (1966) میں انہوں نے اپنی فلمی ماں صابرہ سلطانہ کے لیے ایک یادگار گیت گایا۔ اس فلم میں محمد علی نے پہلی بار بطور سرمایہ کار کام کیا۔ بھارت سے آئے ہدایتکار اکبر علی اکو کی یہ پہلی پاکستانی فلم تھی، جو ان کی بھارتی فلم الہلال (1958) کا ری میک تھی۔

منفرد حیثیت
ماسٹر مراد واحد چائلڈ اسٹار تھے جنہوں نے فلم ہم لوگ (1970) میں مرکزی ہیرو کا کردار نبھایا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ جگنو نامی بچی تھیں، اور ان پر کئی مقبول گیت فلمائے گئے، جیسے:

"خدا کے نام پر ہم غریبوں کو دینا"

زوال کا آغاز
چائلڈ اسٹارز عموماً نوجوانی میں گمنامی کا شکار ہو جاتے تھے، اور مراد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جب ان کی شکل و صورت میں تبدیلی آئی، تو فلمی دنیا نے انہیں بھلا دیا۔

بطور ہدایت کار
سالوں بعد، ماسٹر مراد نے "مراد علی یوسف" کے نام سے فلم جان تو پیارا (2014) بنائی۔

ماسٹر مراد نے کئی فلموں میں شاندار کردار ادا کیے:

فلم مرزا جٹ (1967) میں اعجاز کے بچپن کا کردار۔

فلم میری بھابھی (1969)، جس میں نیر سلطانہ کے ساتھ ان کا کردار اور گیت "ماں، مجھے اپنے سائے سے لگا لے" مشہور ہوا۔

دیگر چائلڈ اسٹارز

ماسٹر مراد کے علاوہ، پاکستانی فلم انڈسٹری میں بےبی نورجہاں، رتن کمار، ماسٹر مشتاق، ماسٹر خرم، اور فیصل جیسے چائلڈ اسٹارز نے بھی اپنی صلاحیتوں سے شائقین کو متاثر کیا۔ ان میں سب سے نمایاں نام بےبی نورجہاں کا ہے، جو بعد میں "ملکہ ترنم نورجہاں" بنیں۔










゚viral

ہمالیہ والاپاکستانی فلموں میں ہمالیہ والا کے یادگار کرداروں میں ہدایت کار انور کمال پاشا کی تاریخی اور نغماتی فلم انار ک...
16/01/2025

ہمالیہ والا
پاکستانی فلموں میں ہمالیہ والا کے یادگار کرداروں میں ہدایت کار انور کمال پاشا کی تاریخی اور نغماتی فلم انار کلی (1958) کا ذکر ناقابلِ فراموش ہے۔

سید امتیاز علی تاج کی لکھی ہوئی مشہور زمانہ کہانی پر بننے والی اس فلم کا مرکزی کردار میڈم نورجہاں نے ادا کیا، جبکہ شہزادہ سلیم کا کردار سدھیر نے نبھایا۔ راگنی نے دل آرام کے منفی کردار میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ لیکن ان سب کرداروں پر ہمالیہ والا کا اکبرِ اعظم کا کردار غالب رہا، جس میں وہ حقیقتاً شہنشاہ اکبر کے روپ میں نظر آئے۔ اگرچہ عام طور پر بھارتی فلم مغلِ اعظم (1960) میں پرتھوی راج کپور کا کردار زیادہ یاد کیا جاتا ہے، لیکن انار کلی (1958) میں ہمالیہ والا کا کردار اپنی مثال آپ تھا۔

فلم انار کلی جو کہ 1958 میں ریلیز ہوئی تھی ایک فلم کم اور گیت مالا زیادہ معلوم ہوتی تھی، جس کے تمام گیت بے حد مقبول ہوئے۔ ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں ملکہ ترنم نورجہاں نے دو یادگار گیت گائے، جو ہمالیہ والا کے دربارِ اکبری کے مناظر میں شامل تھے:

1. کیا جانے کیا ارماں لے کر، ہم تیری گلی میں آ نکلے...

2. پہلے تو اپنے دل کی ادا جان جائیے، پھر جو نگاہِ یار کہے، مان جائیے...

ہمالیہ والا کون تھے؟

ایک دراز قد، باوقار شخصیت اور بارعب آواز کے مالک ہمالیہ والا کا اصل نام محمد افضل الدین تھا۔ وہ 1919ء میں ایک پنجابی نژاد خاندان میں بھارتی شمالی ریاست اترکھنڈ کے دارالحکومت دہرہ دون میں پیدا ہوئے۔ ان کے بھائیوں کی "ہمالیہ ڈرگ کمپنی" کے باعث انہیں فلمی دنیا میں "ہمالیہ والا" کا نام دیا گیا۔

فلمی دنیا سے کنارہ کشی کے بعد انہوں نے واپڈا ہاؤس لاہور میں ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کھولا اور بعد ازاں پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے پوری زندگی شاہانہ انداز میں زندگی گزاری۔

ہمالیہ والا نے اپنی زندگی میں دو شادیاں کیں، پہلی تقسیم سے قبل کی ایک معروف گلوکارہ امیر بائی کرناٹکی سے، اور دوسری اداکارہ بیگم پروین سے۔ وہ یکم جنوری 1984ء کو انتقال کر گئے۔
















゚viral ゚

I've just reached 7K followers! Thank you for continuing support. I could never have made it without each one of you. 🙏🤗...
16/01/2025

I've just reached 7K followers! Thank you for continuing support. I could never have made it without each one of you. 🙏🤗🎉

12/01/2025

Hi everyone! 🌟 You can support me by sending Stars - they help me earn money to keep making content you love.

Whenever you see the Stars icon, you can send me Stars!

اداکار حنیف کا فلمی سفرحنیف کو دلیپ کمار کے متبادل کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ ان کا فلمی کیرئر فلم ہمیں بھی جینے دو (1963...
12/01/2025

اداکار حنیف کا فلمی سفر
حنیف کو دلیپ کمار کے متبادل کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ ان کا فلمی کیرئر فلم ہمیں بھی جینے دو (1963) سے شروع ہوا۔ یہ فلم نہ صرف ان کے لیے، بلکہ اداکارہ روزینہ اور طلعت صدیقی کے لیے بھی ڈیبیو ثابت ہوئی۔

حنیف کی سب سے بڑی کامیابی فلم آرزو (1965) رہی، جہاں ان پر مسعود رانا کی دلکش آواز میں کئی یادگار گانے فلمائے گئے۔ ان کی دیگر نمایاں فلموں میں مے خانہ (1964) اور آزادی یا موت (1966) شامل ہیں۔

حنیف کا فلمی اختتام
حنیف کا تعلق کراچی سے تھا اور وہ اداکاری کو ایک شوق کے طور پر دیکھتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ہیرو سے معاون کرداروں تک محدود ہو گئے۔ لیکن ان کا فلمی سفر ان کی محنت اور لگن کا ثبوت ہے۔ 1990 میں ان کا انتقال ہوا لیکن ان کا نام آج بھی پاکستانی فلمی صنعت کی تاریخ کا حصہ ہے۔


゚ ゚viral

پاکستان کی پہلی سپرہٹ فلمپھیرے (1949)28 اگست 1949 کو عید الفطر کے دن پاکستان کی پہلی سپرہٹ فلم "پھیرے" ریلیز ہوئی۔ یہ پا...
12/01/2025

پاکستان کی پہلی سپرہٹ فلم

پھیرے (1949)
28 اگست 1949 کو عید الفطر کے دن پاکستان کی پہلی سپرہٹ فلم "پھیرے" ریلیز ہوئی۔ یہ پاکستان کی پہلی پنجابی، پہلی سلور جوبلی اور پہلی میوزیکل فلم بھی تھی۔
ہدایتکار اور اداکار نذیر نے اس فلم میں اپنی بیوی سورن لتا کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیا۔

پاکستان کی فلم "شاہدہ (1949)" کا پہلا مکالمہ
"اللہ، میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔۔۔"
یہ مکالمہ اداکارہ شمیم پر فلمایا گیا تھا۔

پاکستان کی سب سے بڑی فلم کمپنی، ایورنیو پکچرز کی پہلی فلم مندری (1949) تھی، جو 18 نومبر 1949 کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ہدایتکار داؤد چاند تھے اور اس میں راگنی اور الیاس کاشمیری نے مرکزی کردار ادا کیے۔

نذیر اور سورن لتا
نذیر اور سورن لتا پاکستان کی پہلی سپرہٹ فلمی جوڑی تھے۔ ان کی پہلی فلم سچائی (1949) تھی۔

پہلے سپر اسٹار ہیرو

سدھیر، پاکستان کے پہلے سپر اسٹار ہیرو تھے۔ ان کی پہلی فلم ہچکولے (1949) تھی۔

ہمالیہ والا
ہمالیہ والا کو پاکستان کا پہلا کامیاب ولن اداکار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

پاکستان کی پہلی نغماتی فلم

پاکستان کی پہلی نغماتی فلم پھیرے (1949) تھی۔ اس فلم کے موسیقار جی اے چشتی تھے، جنہوں نے کئی مشہور گیت تخلیق کیے۔

مشہور گیت:

"مینوں رب دی سونہہ تیرے نال پیار ہو گیا۔۔۔"

"اکھیاں لاویں نہ، فیر پچھتاویں











وحید مراد، پاکستان کے مشہور فلمی اداکار، پروڈیوسر اور مصنف تھے، جنہیں "چاکلیٹی ہیرو" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اپنے دلک...
11/01/2025

وحید مراد، پاکستان کے مشہور فلمی اداکار، پروڈیوسر اور مصنف تھے، جنہیں "چاکلیٹی ہیرو" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اپنے دلکش تاثرات، پرکشش شخصیت، نرم آواز اور اداکاری کے غیر معمولی ہنر کی بدولت، وحید مراد کو جنوبی ایشیا کے سب سے مشہور اور بااثر اداکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

وحید مراد سیالکوٹ، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کراچی کے ایس ایم آرٹس کالج سے گریجویشن کیا اور بعد ازاں کراچی یونی ورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز ایک مختصر کردار سے کیا۔ ان کی پروڈیوس کردہ فلم "ارمان" پہلی پاکستانی فلم تھی جو کئی ہفتوں تک سینما گھروں میں چلتی رہی۔ وحید مراد پاکستانی فلم انڈسٹری کے واحد اداکار ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ پلاٹینم، ڈائمنڈ، گولڈن اور سلور جوبلیز حاصل کیں۔

اپنے شاندار کیریئر میں، وحید مراد نے کل ایک سو پچیس فلموں میں اداکاری کی اور بتیس فلمی ایوارڈز حاصل کیے۔ انہوں نے اپنے وقت کے بڑے اداکاروں اور اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا، جن میں زیبا، شمیم آرا، رانی، شبنم اور بابرہ شریف شامل ہیں۔ ان کے زیادہ تر فلمی گانے احمد رشدی نے گائے، جو ان کے لیے کئی یادگار گیت تخلیق کرنے کا ذریعہ بنے۔

وحید مراد کی ذاتی زندگی کافی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی۔ وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے اور ان کا خاندان قیام پاکستان سے پہلے بھارت سے ہجرت کرکے کراچی آیا تھا۔ ان کے والد، نثار مراد، بمبئی میں فلم ڈسٹری بیوٹر تھے۔

اپنے فلمی کیریئر کے آخری دنوں میں وحید مراد کو مختلف ذاتی اور پیشہ ورانہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے وہ افسردگی کا شکار ہوگئے۔ ان کی صحت متاثر ہوئی اور ان کی ازدواجی زندگی میں بھی مسائل پیدا ہوئے۔ وحید مراد نے اپنی آخری فلم "ہیرو" کے چند مناظر کی شوٹنگ مکمل کرنے کے بعد زندگی کی بازی ہار دی۔ ان کی وفات کو لے کر مختلف قیاس آرائیاں کی گئیں، لیکن ان کی موت کا سبب ایک معمہ ہی رہا۔

پاکستان کی حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں "ستارہ امتیاز" سے نوازا اور ان کے نام پر لاہور میں ایک سڑک اور چوک کا نام بھی رکھا گیا۔ ان کی سال گرہ کے موقع پر گوگل نے انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے خصوصی ڈوڈل بھی تیار کیا تھا۔















جھرنا باسک، جو اپنے فلمی نام شبنم کے ذریعے جانی جاتی ہیں، بنگلا دیشی اور پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک ممتاز اداکارہ ہیں۔ ...
11/01/2025

جھرنا باسک، جو اپنے فلمی نام شبنم کے ذریعے جانی جاتی ہیں، بنگلا دیشی اور پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک ممتاز اداکارہ ہیں۔ انہیں پاکستانی فلم انڈسٹری(مغربی پاکستان) میں اداکار وحید مراد نے متعارف کروایا، جنہوں نے انہیں اپنی فلم سمندر میں مرکزی کردار کی پیشکش کی۔ شبنم نے ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائیوں میں لالی وڈ میں اہم مقام حاصل کیا۔ اپنی صلاحیتوں کے باعث، انہوں نے بہترین اداکارہ کے طور پر کئی نگار ایوارڈز جیتے اور سب سے زیادہ ایوارڈز جیتنے کا ریکارڈ بنایا۔ اپنے کیریئر کے دوران، انہوں نے ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں کام کیا اور تقریباً تین دہائیوں تک پاکستانی سنیما کی نمایاں اداکارہ رہیں۔

شبنم مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان منتقل ہوئیں اور کئی دہائیوں تک یہاں قیام کیا، بعد میں وہ اپنے وطن بنگلا دیش واپس چلی گئیں۔ وہ اس وقت کے برطانوی ہندوستان کے شہر ڈھاکا میں پیدا ہوئیں اور ایک بنگالی ہندو خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے والد نانی باسک ایک فٹ بال ریفری تھے۔ بچپن میں شبنم ایک مہم جو اور لڑکوں جیسی طبیعت کی مالکہ تھیں، جو ان کی گانے میں دلچسپی رکھنے والی بہن سے مختلف تھی۔ تاہم، وہ رقص کی مشق کرتی تھیں اور آخر کار ایک فلم میں معاون رقاصہ کے طور پر اپنا کیریئر شروع کیا۔

بعد کے سالوں میں، شبنم نے ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد پاکستان کا دوبارہ دورہ کیا۔ انہیں اور ان کے شوہر کو پاکستانی حکومت کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ تقریب پی ٹی وی نے منعقد کی، جس کی میزبانی بشریٰ انصاری نے کی۔ اس میں انٹرویوز کے علاوہ شبنم اور ان کے شوہر روبن گھوش کے مشہور گانوں کی پرفارمنسز شامل تھیں۔ تقریب میں ممتاز شخصیات، بشمول اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان، نے شرکت کی۔

شبنم نے اردو سنیما میں قابل ذکر خدمات انجام دیں، اور ان کی بہت سی فلموں نے اہم سنگ میل عبور کیے۔ انہوں نے پاکستانی تفریحی صنعت میں واپسی کرتے ہوئے ڈرامہ سیریل موہنی مینشن کی سنڈریلائیں میں بھی کام کیا، جس کی ہدایت کاری علی طاہر نے کی۔ وہ آئینہ 2 میں بھی کام کرنے کے لیے رضامند ہوئیں، جو ان کی مشہور فلم آئینہ کا سیکوئل ہے اور سید نور کی ہدایت کاری میں بن رہی ہے۔

شبنم نے موسیقار روبن گھوش سے شادی کی، اور ان کا ایک بیٹا رونی گھوش ہے۔ روبن گھوش ڈھاکا میں سانس کی بیماری کے باعث وفات پا گئے۔ شبنم نے انہیں ایک محبت کرنے والے اور سمجھ دار انسان کے طور پر یاد کیا، جو ان کے فلمی کیریئر کا احترام کرتے تھے۔ فلم انڈسٹری سے ریٹائرمنٹ کے بعد، شبنم نے اپنے خاندان کی دیکھ بھال کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ اب وہ ڈھاکا میں ایک پر سکون زندگی گزار رہی ہیں۔

شبنم کی زندگی میں ایک اہم واقعہ اس وقت پیش آیا جب لاہور میں ان کے گھر پر ڈاکا ڈالا گیا۔ اس واقعے نے عوام کی توجہ حاصل کی، اور مجرموں کو فوجی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی۔ تاہم، شبنم اور روبن گھوش کے معاف کرنے کے بعد یہ سزا کم کر دی گئی۔ اس مقدمے کی تفصیلات کو ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب میرے مشہور مقدمے میں قلم بند کیا۔

اپنے شان دار کیریئر کے دوران، شبنم نے اردو، بنگالی اور پنجابی فلموں میں کام کیا۔ ان کا سفر ایک بنگالی فلم سے شروع ہوا، اور ان کی پہلی اردو فلم چندا بنگلا دیش میں شوٹ کی گئی تھی۔ اپنے کئی کارناموں کے باوجود، ان کی چند فلمیں ریلیز نہ ہو سکیں، جو ان کے سنیما کے سفر کو مزید دلچسپ بناتی ہیں۔











محمد علی پاکستان کے ایک مشہور اداکار تھے۔ انہیں "شہنشاہِ جذبات" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، جو یقینا ان کی جذباتی اداکاری...
11/01/2025

محمد علی پاکستان کے ایک مشہور اداکار تھے۔ انہیں "شہنشاہِ جذبات" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، جو یقینا ان کی جذباتی اداکاری کا اعتراف ہے۔ محمد علی نے اپنے کیریئر میں ڈرامائی، رومانوی اور تاریخی نوعیت کی فلموں میں کام کیا اور اپنی ورسٹائل اداکاری کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔ سی این این کے 2010 کے ایک سروے میں انہیں ایشیا کے 25 عظیم ترین اداکاروں میں شامل کیا گیا۔

محمد علی کا تعلق رام پور، اس وقت کے برٹش انڈیا سے تھا جہاں وہ ایک اسلامی اسکالر مولانا سید مرشد علی کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ دو بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے خاندان نے قیام پاکستان کے بعد مختلف شہروں سے ہجرت کرتے ہوئے بالآخر ملتان میں سکونت اختیار کی۔
انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ملت ہائی اسکول ملتان سے حاصل کی اور پھر گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے تعلیم مکمل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ حیدرآباد گئے اور وہاں سٹی کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔

محمد علی نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے 1956 میں بطور براڈکاسٹر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ ان کے بڑے بھائی ارشاد پہلے ہی ریڈیو پر بطور ڈرامہ آرٹسٹ کام کر رہے تھے۔ بعد میں محمد علی بہاولپور ریڈیو اور پھر ریڈیو پاکستان کراچی منتقل ہوئے، جہاں زیڈ اے بخاری نے ان کی رہنمائی کی اور ان کی اداکاری کے کیریئر کو آگے بڑھایا۔

زیڈ اے بخاری کے توسط سے محمد علی کی ملاقات فلم پروڈیوسر فضل احمد کریم فضلی سے ہوئی اور انہوں نے فلم "چراغ جلتا رہا" میں پہلی بار کام کیا۔ یہ فلم 1962 میں کراچی کے نشاط سینما میں محترمہ فاطمہ جناح کے ہاتھوں پریمیئر کی گئی۔ اس کے بعد وہ مختلف فلموں میں بطور ولن نظر آئے، جن میں "بہادر"، "دال میں کالا" اور "دل نے تجھے مان لیا" شامل ہیں۔

محمد علی نے بطور ہیرو اپنی پہلی فلم "مسٹر ایکس" میں کام کیا، لیکن ان کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم "شرارت" تھی۔ ان کی کامیابی کا آغاز فلم "خاموش رہو" سے ہوا۔ انہوں نے مجموعی طور پر 94 فلموں میں مرکزی کردار ادا کیا، جن میں آخری فلم "آج کی رات" تھی۔ ان کی فلمی کیریئر کی آخری فلم "دم مست قلندر" تھی۔

محمد علی کے کرداروں کو زیادہ تر مہدی حسن اور احمد رشدی نے اپنی آواز دی۔ مہدی حسن نے ان کے لیے 115 گانے گائے جبکہ احمد رشدی نے 100 گانے ان کی 57 فلموں کے لیے گائے۔ دیگر گلوکاروں میں مسعود رانا، اخلاق احمد، غلام عباس اور رجب علی شامل ہیں۔

محمد علی کی ملاقات زیبا سے 1962 میں ہوئی اور دونوں نے 1966 میں شادی کر لی۔ یہ جوڑا محمد علی کی وفات تک ساتھ رہا۔ انہوں نے زیبا کی پہلی شادی سے بیٹی کو قانونی طور پر گود لے کر "ثمینہ علی" کا نام دیا۔

محمد علی نے شاہد علی زیدی کے ساتھ مل کر 1995 میں تھلیسیمیا کے مریضوں کی مدد کے لیے "علی زیب فاؤنڈیشن" کی بنیاد رکھی، جو مختلف شہروں میں ہسپتالوں کا انتظام کرتی ہے۔

محمد علی نے اپنے کیریئر میں کئی نگار ایوارڈ جیتے، جن میں بہترین اداکار کے کئی ایوارڈز شامل ہیں۔ انہیں 1984 میں صدر پاکستان کی جانب سے "پرائیڈ آف پرفارمنس" سے نوازا گیا۔ مزید اعزازات میں تمغہ امتیاز، نگار لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، ملینیم لیجنڈ اسٹار ایوارڈ، اور کئی قومی و بین الاقوامی اعزازات شامل ہیں۔

محمد علی 2006 میں دل کا دورہ پڑنے کے باعث لاہور میں انتقال کر گئے۔ ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔











Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Weekly Nigar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share