17/10/2022
انقلاب گلگت یکم نومبر 1947ء پر تاریخی نظر ..
انقلاب گلگت اچانک ظهور پزیر نہیں ہوا
بلکہ إسكے پس منظر میں کئ تاريخى،سياسى اور عسكرى محركات کار فرماتھے.زمانہ سلف میں تبتى افواج شمشیر وسنان کیساتھ مشرق سے إس خطے پر حملہ آور ہوئے,کبھی شمال سے چینی افواج اپنےجدید ہتھیاروں کی مدد سے إس خطے میں داخل ہوۓ,
اور إسى طرح کبھی ڈوگرہ افواج یلغار كرکے إس علاقے پر قابض هوئے
,غرضیکہ کبھی موڈوری کوٹ(یاسین)اورطاؤس كا میدان کارزار بنا,اور کبھی پوپ سنگھ پڑی پر حملہ کردیا.
مختصر يکہ گلگت بلتستان فوجی ,سیاسی بلکہ جغرافائی لحاظ سے ایک حساس خطہ تصور ہوتارہا.
سن1849ءسے لیکر1936 تک یہ علاقہ انگریزوں کےزیر نگین رہا,مرکزی حکومت دہلی سے الحاق رهى.
26مارچ1936کو انگریزوں اور ڈوگروں کے درمیان گلگت کو اجارہ پر لینے کا معاہدہ ہوا,
1947ءمیں برصغير كى تقسيم سے پہلے5اگست کوگلگت بمعہ پولیٹکل علاقہ جات مہارجہ کشمیر ہری سنگھ کے حوالے کردیاگیا
إس تبدیلی کے فورا بعد بريگیڈیر گھنسارا سنگھ بحثيت گورنر گلگت بلتستان پہنچےإنکے ہمراہ جنرل سکاؤٹ کیپٹن سعید دورانی بھی تھے سعید دورانی کی بحثيت كمانڈنٹ گلگت سکاؤٹ پوسٹنگ ہوئی تھی, بعد ميں اسی عہدے پر آخرى برٹش کمانڈنٹ میجر ولیم براؤن
مصنفThe Gilgit Rebillion(ستارہ پاکستان)
فائز ہوئے.
گورنر کا گلگت بلتستان آنے کے بعد گلگت سکاؤٹ نے پلان ترتیب دی اس پلان میں گلگت سکاؤٹس کے اعلی عہدہدارن شامل تھے..ان میں مندرجہ زیل افسرز اور پلاٹون کمانڈر گلگت میں موجود تھے..
1- صوبیدار میجر بابر خان ہیڈ کواٹر گلگت
2-
2- مستحسن خان ونگ کمانڈر چلاس
3-صوبیدار شیرعلی خان پلاٹون کمانڈر یاسین
4- صوبیدار غلام مرتضی سپلائی افیسر گلگت
5- صوبیدار صفی اللہ بیگ ہنزہ
6- صوبیدار جان عالم پلاٹون کما نڈر نگر
7- جمعدار فدا علی کواٹر ماسٹر گلگت
8- جمعدار میرزادہ محمد شاہ خان ہنزہ
9- حوالدار فیض آمان حوالدار نمبر 1 یاسین پلاٹون
تاریخ میں یہ بات بھی لکھی گئی یاسین پلاٹون کے کمانڈر صوبیدار شیر علی سے ہانزائس مہتر آف چترال نے غذر کو پاکستان میں شامل کرنے کیلئے خطوط بھی لکھے تھے مگر صوبیدار شیرعلی نے مناسب وقت کا انتظار کرنے کا چترال کے مہتر کو اعتماد میں لیے تھے کیونکہ گلگت میں انقلاب کی ہوائے چل گئے تھے,
یاد رکھیں گلگت کو آزاد کراکے پاکستان سے الحاق کرانے کیلئے قسم اٹھاتے وقت مندرجہ بالا کمانڈر اور پلاٹون کمانڈر ز گلگت میں موجود تھے تما م جوانوں کو ایک بیرک میں جمع کیا گیا سب سے یاسین پلاٹون کو قسم دیا گیا,
(قسم کے الفاظ )
اے کلام پاک ہم آپ پر ایمان لائیں ہیں ہم اپنے علاقے کو ڈوگروں سے آزاد کیے بغیر چھوڑیں گے نہیں خواہ ہمیں شوٹ کیا جائے یا نوکری سے نکال دیا جائے یاجیل بھیج دیں,
یہ سلسلہ یکم نومبر تک جاری رہا, اس پلان کو کامیاب کرانے کیلئے دن رات ایک کی گئی,
بلاآخر وه وقت آيا
جب مہارجہ کشمیر نے27 اکتوبر1947ءکو ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کیا تو فوراً گلگت سکاؤٹس نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بغاوت برپاکی ,
گلگت ہیڈ کوارٹر میں صوبیدار میجر بابر خان نے گورنر گنسار اسنگھ کو معمولی مزاحمت کا سامنا کرنے بعد گرفتاری کیا ،
کیپٹن مرزہ حسن خان اور صفی اللہ بیگ صاحب نےبونجی میں موجود مسلمان کمانڈر عبد المجید خان پوپ سنگھ پڑی لانے میں کامیاب ہوئے،
گورنر کے ہتھیار ڈالنے کے بعد چند مقامات پر حملہ کرنا ضروری ہوگیا تھا
وہ مقامات کشمیرسکھ انفنٹری کے کنٹرول میں تھی
1-رمگھاٹ پل 2-جگلوٹ چوکی 3-پرتاب پل ..
آزادی گلگت پر لکھنے والےچند کے علاوہ اكثرو بيشتر مصنفین اور کالم نگاروں نے إن مقامات کے بارےمیں تفصیل سے لکھنے سے گریزاں نظر آئے البتہ انگریز میجر ولیم الیگزنڑر براؤن نے The Gilgit Rebellion
اردو ترجمہ ,بغاوت گلگت, میں تفصیل سے جگلوٹ چوکی اور پرتاب پل پر روشنی ڈالی ہیں.ل،میری بھی یہی کوشش رہی تفصیل سے ان جنگوں کےبارےلکھوں
یکم نومبر کی صبح پانچ بجے جنگ آزادی گلگت بلتستان کے عظيم ہیرو صوبیدارشیر علی خان مرحوم( نے منصوبے کے مطابق )چلاس سے تین سکشینوں کو لیکر رمگھاٹ پل ,پرتاب پل اور جگلوٹ چوکی پر حملہ کرنے کیلئے روانہ ہوئے...
دریا دسندھ کےقریب سے ہوکر رمگھاٹ پل کے پچاس گز کے فیصلے پر پہنچ کر حوالدار فیض آمان کو چند نوجوانوں کے ساتھ رمگھاٹ پُل پر حملہ کرنے کیے لیے پلان سمجھا کر خود جگلوٹ کی طرف روانہ ہوئے...
(بعض تاريخ لکھنے والوں کے مطابق حوالدار فيض آمان كو انگریز آفسر میتھی سن نے بعد میں چلاس سے رمگھاٹ پل کو جلانے کیلیے روانہ کیاتھا)
حوالدار فیض آمان پلان کے مطابق4 نومبر کی صبح کو رامگھاٹ پل( جو دریااستور پر واقع تھی) حملہ کیا ،
رامگھاٹ پل پر حملے کیوجہ سے 120 نفری اور 4 آفیسرز جنگی سازوں سامان 50 خچر قبضے میں لیے،
اور
جلدی سے دو کنستر پٹرول ڈال کے پل کوآگ لگایا, آگ کے شعلے فضا میں بلند ہو گئے لوہے کی رسیوں کی ڈھانچے کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہا .
ٱدھر صوبیدار شیر علی مرحوم (ساکن یاسین )نے ساٹھ رائفل برادر اور میڈیم گن لے کر رات کے اندھیرے میں جگلوٹ کے قریب پہنچ کر مقامی لوگوں سے رابطہ قائم کیا جو قریب ہی ڈموٹ, چکرکوٹ میں رہتے تھے ٱن سے جگلوٹ چوکی اور پرتاب پل پر مامور سکھ انفنٹری کے معمولات,فوج کی ترتیب اور نفری کےبارےمیں معلومات حاصل کی
,جگلوٹ چوکی پر ایک ہندو صوبیدار آفیسر کے ماتحت سترہ عہدیدار تھے جبکہ پرتاپ پر متعین ایک حوالدار کی سرکردگی میں اٹھ سکھ سپاہی تھے. دونوں چوکیاں سکاؤٹ کے مقابلے میں مضبوط تھے
صوبیدارشیر علی مرحوم نے سابق سکائیٹوں کو حکم دیا وہ خاموشی سے دریائے سندھ کے کناروں پر اتر جائیں دریا پارکرانے والی کشتیوں کو وہاں سے ہٹا کر نچلی طرف لے جائیں
اور حوالدار ندیلو نگری کو حکم دیا تیس رائفل بردار جوانوں کو لیکرپرتاب پل کےاوپر پوزیشن سنبھالے جگلوٹ چوکی سے فائرنگ کی آواز سن کر پرتاپ پر حملہ کرے ..
باقی ماندہ آدھا حصہ یعنی 30 جوان شیرعلی مرحوم کی قیادت میں مشین گن کے آڑلیتے ہوئے جگلوٹ چوکی کے بلکل قریب پوزیشن سنبھالی رات کے اندھیرے میں چوکی کوگھیرے میں لے لیا
جونہی آسمان کی مشرقی جانب پھوٹ پڑی
صوبیدار صاحب آپنے جوانوں کی فنی لحاظ سےپوزیشن مضبوط کر رہے تھے 1سیکشن سے سکھ سنتری نے دیکھ لیا حیرانگی کے عالم میں اپنے ساتھیوں کو چوکناکردیا دوسرے ہی لمحے میں مورچے سے ہر قسم کے ہتھیاروں کے ساتھ چہار جوانب سے فائر کھول دیا گیا فضاءگولیوں سے گونج اٹھی چھے کے قریب ہینڈ گرینڑ بھی پہنکے گئے صوبیدار شیر علی مرحوم کے الفاظ کے مطابق
( جہنم کا منہ کھول دیا گیا )
اسی دوران سکھوں نے پولو گراو نڈ پر قبضہ کرکےپولو گراونڈکی دیواروں کی بہترین اڈلیتے ہوئے فائرنگ جاری رکھی
اسوقت شیر علی مرحوم نے ایک نہایت دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئےمشین گن کو ایک جگہ متعین کیا اور اپنے دو سیکشنوں کو اشارہ دیا مشین گن کی آڈ میں آگے بڑھا جائیں لیکن بدقسمتی سے دفاع کرنے والوں کی بھاری فائرنگ سے کم عمر جوان گھبرا گئے کیونکہ انہوں نے اس سے قبل کوئی جنگ نہیں لڑی تھی اس سے ایک خطرناک قسم کا میدان کارزار برپاہوگیا تھا
لیکن چھوٹے قد کا ایک سخت جان یاسینی بہادر جوان صوبیدار شیر علی بالکل نہیں گھبرایا کسی بھگوڑے کی پھینکی ہوئی ایک رائفل اس کے قبضہ میں آگئی ٱس پر سنگین چڑاھائی اکیلا ہی پولو گراونڈ کی جانب چڑھ دوڑا
صوبیدار شیر علی مرحوم کے پہل کرنے سے چند پرانے اور تجربہ کار سکاؤٹس بھی متاثر ہوکر ان کے پیچھے ہوئے, اپنے ٹارگٹ پر پہنچ کر سنگینوں کو پکڑے اللہ اکبر کا اثر انگیز نعرے بلندکرتے ہوئے حملہ آور ہوئے اور بارہ سکھ فوجیوں کو واصل جھنم کردیئے
اب صرف ایک جگہ باقی رہ گئی تھی جہاں ڈوگرہ صوبیدار اور اس کے ساتھ تین ڈوگرہ سپاہی پناہ گزین تھے پس سکاوٹس نے مکان پر رائفلوں اور مشین گن کے فائروں کی اسقدر بو چھاڈکی,مکان کا حلیہ ہی بگاڈ دیا تینوں ڈوگرہ اب مرچکے تھے ..
لیکن ڈوگره صوبيدار نے سکاؤٹس کو تقریباًپندرہ منٹ تک روک رکھا,
پھر صوبیدار شیرعلی مرحوم نے فیصلہ کیا کچھ نہ کچھ ہونا چاہیے ایک مرتبہ پھر سامنے سے خود حملے کرنے کی ٹھان لی اور ڈوگر صوبیدارکو واصل جہنم کیا.
جگلوٹ چوکی سے بہت زیادہ تعداد میں ہتھیار .. چھ کے قریب برین گنیں , بارہ کی تعداد میں مشین گنیں اور ایک تین انچ ماٹر اور لاتعداد ہینڈ گرینڈقبضے میں لےلیے..
جگلوٹ چوکی کو فتح كرنے بعد صوبیدار شیر علی آپنی حالت كو استحکام دینے میں کوئی وقت ضائع نہیں كيا اور بڑی ہوشیاری سے فیصلہ کیا جس قدر ممکن ہوسکے اپنی تمام قوتوں کوپرتاب پل پر لگائیں
پرتاب پُل کا قصّہ کچھ یوں ہے جگلوٹ کی جانب سے فائرنگ کی آواز سنی حوالدار ندیلو نگری اور اس کےآدمیوں نےپرتاب پل کے اوپرچوکیداری پر متعین سنتری کو فائرنگ کر کے مار گرایا وہ نیچے دریا کی لہروں کی نذر ہوگیا
باقی ماندہ سپاہی انتہائی خوف کے عالم میں گارڈ ہاوس سے باہر نکلے انہیں فورا گولی مار دی گئی ,کچھ سپاہیوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے پانی میں غوطہ زن ہوگئے ,سکاؤٹس نےپانی کے اندر ہی بہت جلد نشانے پررکھ لیۓ کیونکہ سکاؤٹس ٹارگٹ کےمعاملے میں اچھی تربیت یافتہ تھی..
ایک سپاہی گارڈ ہاوس میں رہ گئے تھے جس وقت سکاوٹس کی توجہ پانی میں گھسے سپاہیوں کو نشانہ بنانے کی طرف مبذول تھی ٱس سپاہی نے بکری کی ایک کھال آپنے اوپر ڈال کر پل کو تقریب ادھاعبور کر چکا تھا سکاوٹس کو معلوم ہوا کوئی عجیب و غریب قسم کی بکری پل عبور کر رہی ہے انھوں نے فائر کھول دئے لیکن سپاہی اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر دوڑتے ہوئے باقی فیصلہ طے کر دیا
یہ واحد آدمی تھا جو جگلوٹ سے اپنی زندگی بچا کر بونجی میں جگلوٹ کی کہانی سنانے کے لیے پہنچ گیا تھا اس وقت بونجی کی جانب سے 150 نفری پر مشتمل ہتھیاروں سے لیس سکھ فوجی نکل کر مخالف جانب سے گلگت سکاؤٹس پر فائرنگ کرنے کے لیے آرہے تھے . فورا صوبیدار صاحب نے دوسکشنوں کو مخالف سمت سے آنے والے فائر کا جواب دینے کے لیئے اوپر بھیج دیے اور تیسرےسیکشن کو حکم دیا پل کو جلا دیا جائے..
پلان کےمطابق پیٹرول کے تین کنسٹر پل کےتختوں پر پھینک دیے اور رسی کوپٹرول میں بگو کر آگ لگانے کے بعد پل کے تختوں کےدرمیان اچھال دیےپل کی خشک لکڑی سیلولائیڈ کی طرف فورا آگ کو پکڑ لیے آگ کا شعلہ فضاء میں بلند ہو گئےصرف لوہے کی رسیوں کا ڈھانچہ باقی بچیےجس پر ایک آدمی کا گزرنا محال تھا.
:بونجی سے آنے والے سکھ فوجی تباہ شدہ پل پار خوفزدہ اور خاموش ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے
اس کے بعد سکھ اور ڈوگرہ فوج دور دریا کے دوسرے کنارے پر سے ہی بتدریجا واپس بونجی کی جانب چلی گئی بلاآخر مہارجہ کشمیر کے وہ افوج جو جنگ عظيم دوئم لڑنےکا وسیع تجربہ رکتھی تھی بونجى میں محصور هوكر مجبوری سے سفید جھنڈا بلند کرتےہوئے ہتھیار ڈال دیئے.. جگلوٹ چوکی, پرتاب پل اور رامگھاٹ پل پر حملے میں شریک چند جوانوں کے نام
...1'2'3حوالدار غلام جان ڈموٹ انکے دو بھائی صوبیدار ولی اور عبدالغفور،
4- جہاندر شاہ یاسین،
5-محمد ولی ولد غنی رائیکوٹ گوہرآباد
6-صوبیدار مجید بونجی
7-جمعدار محمد علی شاہ یاسین
8- صوبیدار محمد ولی ڈموٹ
9-صوبیدار جمیل جگلوٹ
10-نائک نقیب اللہ جگلوٹ
11-عبدالحمید خاور ڈموٹ سئ انسپکٹر پولیس
12-سب انسپکٹر پولیس عبداللہ خان مناور
13-صوبیدار جان عالم نگری
14 نائک جعفر علی وغیرہ انکے علاوہ بھی بھت گمنام جوان تھے جو تلاش جاری ہیں،
یوں جنگ آزادی کے عظيم ہیرو صوبیدار شیر علی خان كى قيادت میں لڑی گئی جگلوٹ ،رمگھاٹ پل اور پرتاب پل كى جنگوں کا اختتام ہوا،
حوالہ جات،
گلگت سکاؤٹس مصنف میرزادہ شاہ خان
صبح آزادی گلگت بلتستان مصنف حشمت اللہ سابق ڈپٹی ڈائریکٹرFIA گلگت بلتستان
ڈوئیاں سے زوجیلہ تک میرا سفر جہاد مصنف عبدالمنان
شمشیر لیکر زنجیر تک مصنف کپٹن حسن خان
Gilgit BEFORe 1947گورنر گھنسارا سنگھ
The Gilgit Rebellionمیجر ولیم براؤن
راجہ اصغر