Tahqeeqi News تحقیقی نیوز

  • Home
  • Tahqeeqi News تحقیقی نیوز

Tahqeeqi News تحقیقی نیوز Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Tahqeeqi News تحقیقی نیوز, Media/News Company, .

23/10/2022
قصور وار کون ؟ تحریر: اویس احمد، دماسیہ حقیقت ہے کہ فٹبال کی دنیا میں گلگت بلتستان میں ضلع غذر کو ایک منفرد مقام حاصل ہے...
23/10/2022

قصور وار کون ؟

تحریر: اویس احمد، دماس

یہ حقیقت ہے کہ فٹبال کی دنیا میں گلگت بلتستان میں ضلع غذر کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ میرے خیال سے یقينًا اسکے پیچھے یہاں کے کھلاڑیوں کی محنت ٹیلنٹ، عوام کی حوصلہ افزاٸی اور انتظامیہ کا تعاون شامل ہے۔ ضلع غذر کا فٹبال کی دنیا میں ایسے نام کمانا بہت سارے لوگوں کو ہضم نہیں ہو نے لگا ہے اورایسے افراد میں ضلع غذر کے اپنے کچھ نوجوان بھی شانہ بشانہ کھڑے ہوکر بلاجواز تنقيد کا کوٸی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ اگر دیکھا جاٸے تو حقیقت اسکے برعکس ہے۔
گزشتہ روز صدر فٹبال ایسوسی ایشن غذر کی قیادت میں ٹیم غذر بلتستان سکردو انٹر ڈسٹرکٹ فٹبال میں شرکت کے لٸے پہنچ گٸی۔ پہلے روز میچ شام ڈھلنے کے سبب تین صفر سے اختتام ہوا ۔ فٹبال کے رولز کے مطابق اگلے روز فل میچ ہونا تھا لیکن بد نیتی کہے یا کچھ اور اگلے روز صرف 20 منٹ کا ٹائم دینے پر ٹیم غذر واک آوٹ کرکے واپس آگٸی۔ اگرچہ ٹیم غذر کیساتھ ایسا سلوک پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ پہلے بھی اسی گراونڈ سنیر پلیئر نوید احمد کی قیادت میں ناقص ایمپائرنگ کی وجہ سے ٹیم غذر واک آوٹ کرکے واپس آئی تھی۔ اتنے بڑے اور میگا ایونٹ میں ناقص ریفری سمجھ سے بالاتر ہے۔ بے شک ٹیم غذر پرفارم نہیں کرسکی اس کی خاص وجہ ایمرجنسی میں کھلاڑیوں کا چناو اور کمزور ٹیم کمبنیشن ہوسکتی ہے۔
بحر حال ہار جیت میچ کا حصہ ہے لیکن دکھ اس وقت زیادہ ہوا جب ٹیم غذر یہاں پہنچی تو بے جا تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ حالانکہ ان میں سے ان کی کوٸی غلطی نہیں تھی۔ لیکن یہاں اصل ماجرا کچھ اور ہی ہے۔ آپکو یاد ہوگا اس سال انٹر ڈسٹرکٹ فٹبال ٹورنامنٹ گلگت کے لٸے غذر سے ایک ٹیم سلیکٹ کی گٸی۔ بد قسمتی سے اس ٹیم میں پونیال سے تعلق رکھنے والے کھلاڈی زیادہ تھے ٹیم اشکومن اس وقت چترال لیگ میں تھیں۔ صرف اس بات کو سامنے رکھ کر ٹیم غذر پر نہ صرف تنقید کی گٸی بلکہ اسے پونیال کی ٹیم بھی کہا گیا۔ اس بار صدر فٹبال ایسوسی ایشن نے مشورے کے بعد فیصلہ کیا کہ بلتستان کے لٸے اشکومن اور یاسین کو موقع دیا جاٸے کہ وہ ایک اچھی سی ٹیم بناٸے اور سکردو جاکر غذر کی نماٸندگی کریں۔ لیکن آخر کار وہی ہوا عین موقع پر یاسین کا کوٸی کھلاڈی سکردو جانے کے لٸے تیار نہیں ہوا۔ مجبوراً ایمرجنسی میں اشکومن اور پونیال سے کھلاڈی لیکر جانا پڑا۔ صدر فٹبال ایسوسی ایشن غذر حافظ عبدالرحیم انتہاہی اچھے اور زمہ دار شخصیت ہے انہوں نے ہمیشہ جہاں بھی ایونٹ ہوں وہاں پہنچ جاتے ہیں اور مکمل تعاون کرتے ہیں۔ سپورٹس کے پریزڈنٹس اس سے پہلے بھی تھے لیکن اتنی تعاون میسر کبھی نہیں تھیں۔
بلاوجہ کسی پر تنقید بد نیتی پر مبنی ہوگی۔
کیوں نہ ہم متحد ہوکر ایک ٹیم بناٸے اور اسی طرح ٹیم غذر کا وقار بلند کریں۔
کیوں نہ ہم اپنی گزشتہ کوتاہی اور غلطیوں سے سیکھتے ہوٸے ٹیم سپرٹ کے ساتھ میدان میں اترے۔
ضلع غذر میں فٹبال کو بے حد پسند کیا جاتا ہے اسکے باوجود ہماری کچھ دانستہ اور غیر دانستہ طور پر ہماری غلطیوں کی وجہ سے فٹبال کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے۔ اسکا واضح ثبوت یہ ہے۔ ضلع غذر میں بہت سارے فٹبال گراونڈز ہونے کے باوجود چندایک ٹورنامنٹس کراٸے جاتے ہیں۔ اور وہاں پر بھی ہماری تنقید اور شرارتیں رکاوٹ بن رہٕی ہے۔
خدانخواستہ اگلے ایک دو سالوں میں یہاں سے فٹبال ہی مکمل ختم نہ ہو۔ اگرایسا ہوا تو پھر اسکا فاٸدہ کس کوہوگا اور قصور وار کون ہوگا؟؟
زرا نہیں پورا سوچیے🙏🏻

جنگ آزادی گلگت بلتستان..جنگ آزادی گلگت بلتستان  کے عظيم ہیرو صوبیدار شیر علی مرحوم اور مجاہد اول مولانا عبدالمنان صاحب ک...
19/10/2022

جنگ آزادی گلگت بلتستان..

جنگ آزادی گلگت بلتستان کے عظيم ہیرو صوبیدار شیر علی مرحوم اور مجاہد اول مولانا عبدالمنان صاحب کے درمیان دراس ,پرانداس سيکٹرمیں ایک دلچسپ مکالمہ...

محترم مولانا عبدالمنان صاحب اپنی کتاب ڈویاں سے لیکر زوجیلہ تک میرا سفر جہاد نام کتاب میں لکھتے ..
دراس اور پرنداس سے ہوتے ہوئے جس رات ہمیں زوجیلہ کیطرف بڑھنا تھا ٱسى رات میرے اور صوبيدار شيرعلی مرحوم کے مابين ایک دلچسپ مکالمہ ہوا اس موقعے پر صوبيدارامین ہنزہ والے بھی موجود تھے .صوبيدار شيرعلى مرحوم نے اپنی جوانوں کو ہدایات دیں کہ ھمیں زوجیلہ کی طرف بڑھنے کے موقع پر دراس اور پرنداس میں دشمن کی سرگرمیوں اور اچانک حملہ کرنے کے خطرے سے نمٹنےکے لئے اپنا پہرہ مضبوط کرنا ہے

صوبیدار صاحب نے زوجیلہ کے بجائے زیادہ فورس دراس کی طرف بڑھا نے کا حکم دیا میں نے صوبیدار صاحب کوکہا دراس سے ہم آئےہیں دراس میں نفری تعینات کرنے کی کیا ضرورت؟

صوبيدار مرحوم نے جواب دیا مولوی صاحب آپ دشمن کی حربی چالوں سے باخبر نہیں اگر ہم نے غفلت کی! دراس میں محصوردشمن ہم پر اچانک حملہ کرے گا اور ہمیں نقصان ٱٹھانا پڑے گا
میں نے کہا صوبيدار صاحب شايد آپ ڈر گئے ہیں صوبیدار صاحب نے میری بات کا جواب نہ دیا اور نماز کی اقامت کیلئے کھڑا ہوا,

اسی رات ہمیں اطلاع ملی در اس میں محصور دشمن ھماری طرف بڑھی ہیں

چونکہ صوبیدار شیر علی مرحوم نے موثر حکمت عملی سے دفاعی لائن مضبوط کی تھی
لہذا دشمن کا حملہ ناکام ہوا انہیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ان کے 40 سپاہی قید ہوئے اسی دوران 3 دن تک جنگ جاری رہی.

میں آج 70 سال کے بعد بھی یہ سوچتا ہوں اگر صوبیدار شیر علی مرحوم میری بات مان کر دراس سيكٹرکی طرف اپنی دفاع مضبوط نہ کرتےتو شاید ہم زوجیلہ کو فتح کرنے میں کامیاب نہ ہوتے صوبیدار شیر علی مرحوم مرحوم ایک جرى فوجی کمانڈر اور باعمل مسلمان تھے..

(ڈویاں سے زوجیلہ تک میرا سفر جہاد مصنف مجاہد اول مولانا عبد المنان صاحب استورى)

17/10/2022

پاکستانی سیاست میں عمران خان ایک ناقابل شکست لیڈر ہے
6سیٹوں سے جتنا آساں نہیں

انقلاب گلگت یکم نومبر 1947ء پر تاریخی نظر .. انقلاب گلگت اچانک ظهور پزیر نہیں ہوابلکہ إسكے پس منظر میں کئ تاريخى،سياسى ا...
17/10/2022

انقلاب گلگت یکم نومبر 1947ء پر تاریخی نظر ..

انقلاب گلگت اچانک ظهور پزیر نہیں ہوا
بلکہ إسكے پس منظر میں کئ تاريخى،سياسى اور عسكرى محركات کار فرماتھے.زمانہ سلف میں تبتى افواج شمشیر وسنان کیساتھ مشرق سے إس خطے پر حملہ آور ہوئے,کبھی شمال سے چینی افواج اپنےجدید ہتھیاروں کی مدد سے إس خطے میں داخل ہوۓ,
اور إسى طرح کبھی ڈوگرہ افواج یلغار كرکے إس علاقے پر قابض هوئے

,غرضیکہ کبھی موڈوری کوٹ(یاسین)اورطاؤس كا میدان کارزار بنا,اور کبھی پوپ سنگھ پڑی پر حملہ کردیا.
مختصر يکہ گلگت بلتستان فوجی ,سیاسی بلکہ جغرافائی لحاظ سے ایک حساس خطہ تصور ہوتارہا.

سن1849ءسے لیکر1936 تک یہ علاقہ انگریزوں کےزیر نگین رہا,مرکزی حکومت دہلی سے الحاق رهى.

26مارچ1936کو انگریزوں اور ڈوگروں کے درمیان گلگت کو اجارہ پر لینے کا معاہدہ ہوا,
1947ءمیں برصغير كى تقسيم سے پہلے5اگست کوگلگت بمعہ پولیٹکل علاقہ جات مہارجہ کشمیر ہری سنگھ کے حوالے کردیاگیا

إس تبدیلی کے فورا بعد بريگیڈیر گھنسارا سنگھ بحثيت گورنر گلگت بلتستان پہنچےإنکے ہمراہ جنرل سکاؤٹ کیپٹن سعید دورانی بھی تھے سعید دورانی کی بحثيت كمانڈنٹ گلگت سکاؤٹ پوسٹنگ ہوئی تھی, بعد ميں اسی عہدے پر آخرى برٹش کمانڈنٹ میجر ولیم براؤن
مصنفThe Gilgit Rebillion(ستارہ پاکستان)
فائز ہوئے.

گورنر کا گلگت بلتستان آنے کے بعد گلگت سکاؤٹ نے پلان ترتیب دی اس پلان میں گلگت سکاؤٹس کے اعلی عہدہدارن شامل تھے..ان میں مندرجہ زیل افسرز اور پلاٹون کمانڈر گلگت میں موجود تھے..
1- صوبیدار میجر بابر خان ہیڈ کواٹر گلگت
2-
2- مستحسن خان ونگ کمانڈر چلاس
3-صوبیدار شیرعلی خان پلاٹون کمانڈر یاسین
4- صوبیدار غلام مرتضی سپلائی افیسر گلگت
5- صوبیدار صفی اللہ بیگ ہنزہ
6- صوبیدار جان عالم پلاٹون کما نڈر نگر
7- جمعدار فدا علی کواٹر ماسٹر گلگت
8- جمعدار میرزادہ محمد شاہ خان ہنزہ
9- حوالدار فیض آمان حوالدار نمبر 1 یاسین پلاٹون

تاریخ میں یہ بات بھی لکھی گئی یاسین پلاٹون کے کمانڈر صوبیدار شیر علی سے ہانزائس مہتر آف چترال نے غذر کو پاکستان میں شامل کرنے کیلئے خطوط بھی لکھے تھے مگر صوبیدار شیرعلی نے مناسب وقت کا انتظار کرنے کا چترال کے مہتر کو اعتماد میں لیے تھے کیونکہ گلگت میں انقلاب کی ہوائے چل گئے تھے,

یاد رکھیں گلگت کو آزاد کراکے پاکستان سے الحاق کرانے کیلئے قسم اٹھاتے وقت مندرجہ بالا کمانڈر اور پلاٹون کمانڈر ز گلگت میں موجود تھے تما م جوانوں کو ایک بیرک میں جمع کیا گیا سب سے یاسین پلاٹون کو قسم دیا گیا,
(قسم کے الفاظ )
اے کلام پاک ہم آپ پر ایمان لائیں ہیں ہم اپنے علاقے کو ڈوگروں سے آزاد کیے بغیر چھوڑیں گے نہیں خواہ ہمیں شوٹ کیا جائے یا نوکری سے نکال دیا جائے یاجیل بھیج دیں,
یہ سلسلہ یکم نومبر تک جاری رہا, اس پلان کو کامیاب کرانے کیلئے دن رات ایک کی گئی,

بلاآخر وه وقت آيا

جب مہارجہ کشمیر نے27 اکتوبر1947ءکو ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کیا تو فوراً گلگت سکاؤٹس نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بغاوت برپاکی ,

گلگت ہیڈ کوارٹر میں صوبیدار میجر بابر خان نے گورنر گنسار اسنگھ کو معمولی مزاحمت کا سامنا کرنے بعد گرفتاری کیا ،
کیپٹن مرزہ حسن خان اور صفی اللہ بیگ صاحب نےبونجی میں موجود مسلمان کمانڈر عبد المجید خان پوپ سنگھ پڑی لانے میں کامیاب ہوئے،
گورنر کے ہتھیار ڈالنے کے بعد چند مقامات پر حملہ کرنا ضروری ہوگیا تھا
وہ مقامات کشمیرسکھ انفنٹری کے کنٹرول میں تھی
1-رمگھاٹ پل 2-جگلوٹ چوکی 3-پرتاب پل ..

آزادی گلگت پر لکھنے والےچند کے علاوہ اكثرو بيشتر مصنفین اور کالم نگاروں نے إن مقامات کے بارےمیں تفصیل سے لکھنے سے گریزاں نظر آئے البتہ انگریز میجر ولیم الیگزنڑر براؤن نے The Gilgit Rebellion
اردو ترجمہ ,بغاوت گلگت, میں تفصیل سے جگلوٹ چوکی اور پرتاب پل پر روشنی ڈالی ہیں.ل،میری بھی یہی کوشش رہی تفصیل سے ان جنگوں کےبارےلکھوں

یکم نومبر کی صبح پانچ بجے جنگ آزادی گلگت بلتستان کے عظيم ہیرو صوبیدارشیر علی خان مرحوم( نے منصوبے کے مطابق )چلاس سے تین سکشینوں کو لیکر رمگھاٹ پل ,پرتاب پل اور جگلوٹ چوکی پر حملہ کرنے کیلئے روانہ ہوئے...

دریا دسندھ کےقریب سے ہوکر رمگھاٹ پل کے پچاس گز کے فیصلے پر پہنچ کر حوالدار فیض آمان کو چند نوجوانوں کے ساتھ رمگھاٹ پُل پر حملہ کرنے کیے لیے پلان سمجھا کر خود جگلوٹ کی طرف روانہ ہوئے...

(بعض تاريخ لکھنے والوں کے مطابق حوالدار فيض آمان كو انگریز آفسر میتھی سن نے بعد میں چلاس سے رمگھاٹ پل کو جلانے کیلیے روانہ کیاتھا)

حوالدار فیض آمان پلان کے مطابق4 نومبر کی صبح کو رامگھاٹ پل( جو دریااستور پر واقع تھی) حملہ کیا ،
رامگھاٹ پل پر حملے کیوجہ سے 120 نفری اور 4 آفیسرز جنگی سازوں سامان 50 خچر قبضے میں لیے،
اور
جلدی سے دو کنستر پٹرول ڈال کے پل کوآگ لگایا, آگ کے شعلے فضا میں بلند ہو گئے لوہے کی رسیوں کی ڈھانچے کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہا .

ٱدھر صوبیدار شیر علی مرحوم (ساکن یاسین )نے ساٹھ رائفل برادر اور میڈیم گن لے کر رات کے اندھیرے میں جگلوٹ کے قریب پہنچ کر مقامی لوگوں سے رابطہ قائم کیا جو قریب ہی ڈموٹ, چکرکوٹ میں رہتے تھے ٱن سے جگلوٹ چوکی اور پرتاب پل پر مامور سکھ انفنٹری کے معمولات,فوج کی ترتیب اور نفری کےبارےمیں معلومات حاصل کی
,جگلوٹ چوکی پر ایک ہندو صوبیدار آفیسر کے ماتحت سترہ عہدیدار تھے جبکہ پرتاپ پر متعین ایک حوالدار کی سرکردگی میں اٹھ سکھ سپاہی تھے. دونوں چوکیاں سکاؤٹ کے مقابلے میں مضبوط تھے

صوبیدارشیر علی مرحوم نے سابق سکائیٹوں کو حکم دیا وہ خاموشی سے دریائے سندھ کے کناروں پر اتر جائیں دریا پارکرانے والی کشتیوں کو وہاں سے ہٹا کر نچلی طرف لے جائیں
اور حوالدار ندیلو نگری کو حکم دیا تیس رائفل بردار جوانوں کو لیکرپرتاب پل کےاوپر پوزیشن سنبھالے جگلوٹ چوکی سے فائرنگ کی آواز سن کر پرتاپ پر حملہ کرے ..
باقی ماندہ آدھا حصہ یعنی 30 جوان شیرعلی مرحوم کی قیادت میں مشین گن کے آڑلیتے ہوئے جگلوٹ چوکی کے بلکل قریب پوزیشن سنبھالی رات کے اندھیرے میں چوکی کوگھیرے میں لے لیا

جونہی آسمان کی مشرقی جانب پھوٹ پڑی
صوبیدار صاحب آپنے جوانوں کی فنی لحاظ سےپوزیشن مضبوط کر رہے تھے 1سیکشن سے سکھ سنتری نے دیکھ لیا حیرانگی کے عالم میں اپنے ساتھیوں کو چوکناکردیا دوسرے ہی لمحے میں مورچے سے ہر قسم کے ہتھیاروں کے ساتھ چہار جوانب سے فائر کھول دیا گیا فضاءگولیوں سے گونج اٹھی چھے کے قریب ہینڈ گرینڑ بھی پہنکے گئے صوبیدار شیر علی مرحوم کے الفاظ کے مطابق

( جہنم کا منہ کھول دیا گیا )

اسی دوران سکھوں نے پولو گراو نڈ پر قبضہ کرکےپولو گراونڈکی دیواروں کی بہترین اڈلیتے ہوئے فائرنگ جاری رکھی
اسوقت شیر علی مرحوم نے ایک نہایت دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئےمشین گن کو ایک جگہ متعین کیا اور اپنے دو سیکشنوں کو اشارہ دیا مشین گن کی آڈ میں آگے بڑھا جائیں لیکن بدقسمتی سے دفاع کرنے والوں کی بھاری فائرنگ سے کم عمر جوان گھبرا گئے کیونکہ انہوں نے اس سے قبل کوئی جنگ نہیں لڑی تھی اس سے ایک خطرناک قسم کا میدان کارزار برپاہوگیا تھا

لیکن چھوٹے قد کا ایک سخت جان یاسینی بہادر جوان صوبیدار شیر علی بالکل نہیں گھبرایا کسی بھگوڑے کی پھینکی ہوئی ایک رائفل اس کے قبضہ میں آگئی ٱس پر سنگین چڑاھائی اکیلا ہی پولو گراونڈ کی جانب چڑھ دوڑا

صوبیدار شیر علی مرحوم کے پہل کرنے سے چند پرانے اور تجربہ کار سکاؤٹس بھی متاثر ہوکر ان کے پیچھے ہوئے, اپنے ٹارگٹ پر پہنچ کر سنگینوں کو پکڑے اللہ اکبر کا اثر انگیز نعرے بلندکرتے ہوئے حملہ آور ہوئے اور بارہ سکھ فوجیوں کو واصل جھنم کردیئے

اب صرف ایک جگہ باقی رہ گئی تھی جہاں ڈوگرہ صوبیدار اور اس کے ساتھ تین ڈوگرہ سپاہی پناہ گزین تھے پس سکاوٹس نے مکان پر رائفلوں اور مشین گن کے فائروں کی اسقدر بو چھاڈکی,مکان کا حلیہ ہی بگاڈ دیا تینوں ڈوگرہ اب مرچکے تھے ..

لیکن ڈوگره صوبيدار نے سکاؤٹس کو تقریباًپندرہ منٹ تک روک رکھا,

پھر صوبیدار شیرعلی مرحوم نے فیصلہ کیا کچھ نہ کچھ ہونا چاہیے ایک مرتبہ پھر سامنے سے خود حملے کرنے کی ٹھان لی اور ڈوگر صوبیدارکو واصل جہنم کیا.
جگلوٹ چوکی سے بہت زیادہ تعداد میں ہتھیار .. چھ کے قریب برین گنیں , بارہ کی تعداد میں مشین گنیں اور ایک تین انچ ماٹر اور لاتعداد ہینڈ گرینڈقبضے میں لےلیے..

جگلوٹ چوکی کو فتح كرنے بعد صوبیدار شیر علی آپنی حالت كو استحکام دینے میں کوئی وقت ضائع نہیں كيا اور بڑی ہوشیاری سے فیصلہ کیا جس قدر ممکن ہوسکے اپنی تمام قوتوں کوپرتاب پل پر لگائیں
پرتاب پُل کا قصّہ کچھ یوں ہے جگلوٹ کی جانب سے فائرنگ کی آواز سنی حوالدار ندیلو نگری اور اس کےآدمیوں نےپرتاب پل کے اوپرچوکیداری پر متعین سنتری کو فائرنگ کر کے مار گرایا وہ نیچے دریا کی لہروں کی نذر ہوگیا
باقی ماندہ سپاہی انتہائی خوف کے عالم میں گارڈ ہاوس سے باہر نکلے انہیں فورا گولی مار دی گئی ,کچھ سپاہیوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے پانی میں غوطہ زن ہوگئے ,سکاؤٹس نےپانی کے اندر ہی بہت جلد نشانے پررکھ لیۓ کیونکہ سکاؤٹس ٹارگٹ کےمعاملے میں اچھی تربیت یافتہ تھی..

ایک سپاہی گارڈ ہاوس میں رہ گئے تھے جس وقت سکاوٹس کی توجہ پانی میں گھسے سپاہیوں کو نشانہ بنانے کی طرف مبذول تھی ٱس سپاہی نے بکری کی ایک کھال آپنے اوپر ڈال کر پل کو تقریب ادھاعبور کر چکا تھا سکاوٹس کو معلوم ہوا کوئی عجیب و غریب قسم کی بکری پل عبور کر رہی ہے انھوں نے فائر کھول دئے لیکن سپاہی اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر دوڑتے ہوئے باقی فیصلہ طے کر دیا

یہ واحد آدمی تھا جو جگلوٹ سے اپنی زندگی بچا کر بونجی میں جگلوٹ کی کہانی سنانے کے لیے پہنچ گیا تھا اس وقت بونجی کی جانب سے 150 نفری پر مشتمل ہتھیاروں سے لیس سکھ فوجی نکل کر مخالف جانب سے گلگت سکاؤٹس پر فائرنگ کرنے کے لیے آرہے تھے . فورا صوبیدار صاحب نے دوسکشنوں کو مخالف سمت سے آنے والے فائر کا جواب دینے کے لیئے اوپر بھیج دیے اور تیسرےسیکشن کو حکم دیا پل کو جلا دیا جائے..

پلان کےمطابق پیٹرول کے تین کنسٹر پل کےتختوں پر پھینک دیے اور رسی کوپٹرول میں بگو کر آگ لگانے کے بعد پل کے تختوں کےدرمیان اچھال دیےپل کی خشک لکڑی سیلولائیڈ کی طرف فورا آگ کو پکڑ لیے آگ کا شعلہ فضاء میں بلند ہو گئےصرف لوہے کی رسیوں کا ڈھانچہ باقی بچیےجس پر ایک آدمی کا گزرنا محال تھا.
:بونجی سے آنے والے سکھ فوجی تباہ شدہ پل پار خوفزدہ اور خاموش ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے

اس کے بعد سکھ اور ڈوگرہ فوج دور دریا کے دوسرے کنارے پر سے ہی بتدریجا واپس بونجی کی جانب چلی گئی بلاآخر مہارجہ کشمیر کے وہ افوج جو جنگ عظيم دوئم لڑنےکا وسیع تجربہ رکتھی تھی بونجى میں محصور هوكر مجبوری سے سفید جھنڈا بلند کرتےہوئے ہتھیار ڈال دیئے.. جگلوٹ چوکی, پرتاب پل اور رامگھاٹ پل پر حملے میں شریک چند جوانوں کے نام
...1'2'3حوالدار غلام جان ڈموٹ انکے دو بھائی صوبیدار ولی اور عبدالغفور،
4- جہاندر شاہ یاسین،
5-محمد ولی ولد غنی رائیکوٹ گوہرآباد
6-صوبیدار مجید بونجی
7-جمعدار محمد علی شاہ یاسین
8- صوبیدار محمد ولی ڈموٹ
9-صوبیدار جمیل جگلوٹ
10-نائک نقیب اللہ جگلوٹ
11-عبدالحمید خاور ڈموٹ سئ انسپکٹر پولیس
12-سب انسپکٹر پولیس عبداللہ خان مناور
13-صوبیدار جان عالم نگری
14 نائک جعفر علی وغیرہ انکے علاوہ بھی بھت گمنام جوان تھے جو تلاش جاری ہیں،
یوں جنگ آزادی کے عظيم ہیرو صوبیدار شیر علی خان كى قيادت میں لڑی گئی جگلوٹ ،رمگھاٹ پل اور پرتاب پل كى جنگوں کا اختتام ہوا،

حوالہ جات،
گلگت سکاؤٹس مصنف میرزادہ شاہ خان
صبح آزادی گلگت بلتستان مصنف حشمت اللہ سابق ڈپٹی ڈائریکٹرFIA گلگت بلتستان
ڈوئیاں سے زوجیلہ تک میرا سفر جہاد مصنف عبدالمنان
شمشیر لیکر زنجیر تک مصنف کپٹن حسن خان
Gilgit BEFORe 1947گورنر گھنسارا سنگھ

The Gilgit Rebellionمیجر ولیم براؤن

راجہ اصغر

{عالمی  #یوم  #اساتذہ  # 5اکتوبر}استاد محترم کو میرا سلام کہنا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے دوستو م...
04/10/2022

{عالمی #یوم #اساتذہ # 5اکتوبر}

استاد محترم کو میرا سلام کہنا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے دوستو ملیں تو بس اک پیام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا

کتنی محبتوں سے پہلا سبق پڑھایا
میں کچھ نہ جانتا تھا سب کچھ مجھے سکھایا
ان پڑھ تھا اور جاہل ۔۔۔۔قابل مجھے بنایا
دنیا ئے علم و دانش کا راستہ دکھایا
اے دوستو ملیں تو بس ایک پیام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا

مجھ کو خبر نہیں تھی آیاہوں میں کہاں سے
ماں باپ اس زمیں پر لائے تھے آسمان سے
پہنچا دیافلک تک استاد نے یہاں سے
واقف نہ تھا ذرا بھی اتنے بڑے جہاں سے
استاد محترم کو میرا سلام کہنا

جینے کا فن سکھایا،مرنے کا بانکپن بھی
عزت کے گر بتائے ، رسوائی کے چلن بھی
کانٹے بھی راہ میں ہیں ،پھولوں کی انجمن بھی
تم فخر قوم بننا اور نازش وطن بھی
ہے یاد مجھ کو ان کا اک اک کلام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا

جو علم کا علم (جھنڈا)ہے استاد کی عطا ہے
ہاتھوں میں جو قلم ہے استاد کی عطا ہے
جو فکر تازہ دم ہے استاد کی عطا ہے
جو کچھ کیا رقم ہے استاد کی عطا ہے
اسی عطا سے چمکا حاطب کا نام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا

شاعر ادیب
احمد حاطبؔ صدیقی
#عالمی #یوم #اساتذہ #5اکتوبر

*میری۰بیٹی۰میرا۰غرور۰ہے* کچھ دن پہلے اسکے موبائل پر انجانے نمبر سے کال آنے لگی. اس نے یہ سوچ کر کہ کسی دوست یا جاننے وال...
02/10/2022

*میری۰بیٹی۰میرا۰غرور۰ہے*

کچھ دن پہلے اسکے موبائل پر انجانے نمبر سے کال آنے لگی. اس نے یہ سوچ کر کہ کسی دوست یا جاننے والی کی کال ہوگی, کال ریسیو کرلی. مگر دوسری طرف سے مردانہ آواز سنتے ہی رانگ نمبر کہہ کر کال منقطع کردی. بس وہ دن ہے اور آج کا دن میسجز اور کالز کا ایسا تانتا بندھا جو رکنے کا نام ہی نہ لیتا.
کال تو اس نے کوئی رسیو نہ کی مگر میسجز پڑھتی رہی. نام پوچھا جاتا، فون اٹھانے پر اصرار کیا جاتا اور اسکی آواز کی خوب تعریف کی جاتی، اپنے بارے میں بتایا جاتا،
جواب نہ دینے کے باوجود میسجز اور کالز کا سلسلہ مستقل مزاجی سے جاری تھا.
#بیٹی کے لیے یہ سب نیا تھا، چھوٹی سی عمر کا ایک انجانا سا احساس تھا جسے وہ خود سمجھنے سے قاصر تھی.
کیا ہوا اگر میں بھی ایک میسج کردوں یہی پوچھ لیتی ہوں کہ کون ہو اور کیوں مجھے تنگ کررہے ہو، اس لمحے اسکے دماغ میں خیال آیا. رات کے تین بج رہے تھے. کتنی ہی بار اس نے میسج لکھ کر مٹایا, عجیب شش و پنج کا شکار تھی. کوئی اس سے بات کرنے کے لیۓ بےچین تھا، یہ خیال اسے نہ جانے کیوں ایک انجانی سی خوشی دے رہا تھا.
بالآخر سوچ بچار کے بعد اس نے ایک میسج ٹائپ کرلیا. جس میں اس نے لکھا کہ وہ کون ہے اور رات کے اس پہر اسے کیوں تنگ کررہا ہے. ہاں کوئی بات نہیں ایک میسج ہی تو ہے اور پوچھ لینے میں قباحت ہی کیا ہے, اس نے خود کو تسلی دی.
بٹن دبانے ہی لگی تھی کہ اچانک اک چہرہ اسکی دماغ کی اسکرین پر ابھرا.
*"میری بیٹی تو میرا مان ہے"*

یہ جملہ جو اسکے بابا اس کا ماتھا چومتے ہوۓ اکثر دہرایا کرتے تھے. اس کے حلق میں کانٹے چبھنے لگے.

*"بیٹیاں جب معاشرے میں سر جھکا کر چلتی ہیں تب ہی اس کےبھائی اور باپ سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوتے ہیں* "
شفقت و محبت سے کہا گیا بابا کا ایک اور جملہ دل کی تار چھیڑ گیا.
جب کبھی امی جی بابا کو اسے سر چڑھانے کا طعنہ دیتیں تو بابا کی طرف سے ایک مخصوص جواب آتا کہ
*"میری بیٹی تو اپنے بابا کا غرور ہے"*
اور ہمیشہ ہی اسے یہ جملہ سرشار کر دیتا.
اسے اپنا سارا وجود سن ہوتا ہوا محسوس ہوا، بڑی مشکل سے بستر سے اٹھی. پسینے سے شرابور لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ بالکونی میں جا کھڑی ہوئی.
"میری بیٹی تو میرا غرور ہے"
"میری بیٹی تو میرا مان ہے"
"میری بیٹی بہت بہادر ہے"
کانوں میں گونجتی بابا کی آواز اب تک سنائی دے رہی تھیں.
جی بابا جانی میں کمزور نہیں ہوں, آپکی عِفّت آپکا غرور نہیں توڑے گی ان شاءاللہ.
آپکا سر کبھی جھکنے نہیں دے گی، آپکا یہ مان ہمیشہ قائم رکھے گی. آپ کی دی گئی محبت کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھاۓ گی.
وہ سرگوشی میں بولتی گئی، آنسو اسکے گالوں کو بھگو رہے تھے.
اس نے جلدی سے اس نمبر کو بلاک کیا. سکون کے احساس کے ساتھ اس نے گہرا سانس لیا اور آسمان کی جانب دیکھنے لگی رات کی آخری پہر تھی کچھ دیر میں سحر ہونے کو تھی.
نیچے صحن کی طرف دیکھا تو بابا تہجد پڑھنے کے بعد اللہ رب العزت کے سامنے ہاتھ پھیلاۓ دعا مانگنے میں مصروف نظر آۓ.
باپ اللہ سے اسکی عزت و آبرو کی دعا مانگیں اور اللہ پاک اسے گناہوں کی دلدل سے نہ بچائیں ایسا کیسے ہوسکتا تھا.
اسے اس لمحے اپنے بابا پر بےحد پیار آیا. انکی صحت و سلامتی کی دعا کرتی وہ وضو کے لیۓ اٹھ کھڑی ہوئی.
*انجان نمبروں کے ذریعے پھینکا ہوا یہ شیطان کا جال ہوتا ہے جو وہ صنف نازک پر پھینکتا ہے, ایک جگہ سے نشانہ چھوٹ جاۓ تو دوسری جگہ آزماتا ہے اور جہاں نشانہ لگ گیا رسوائی و پچھتاوا لڑکی کے حصے میں ہی آتی ہے.*
*قابل تعریف ہیں وہ لڑکیاں جو ان جالوں سے اپنی اور اپنے سے وابستہ رشتوں کی ناموس کو بچالیتی ہیں اور اپنے والدین کا مان ٹوٹنے نہیں دیتیں.اللّٰہ پاک تمام بہن بیٹیوں کی حفاظت فرما۔*
*آمین یارب العالمین* 🤲🏻✨

جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ایک ناقابلِ فراموش باب -معرکہٕ جگلوٹ اور فتح بونجی                موجودہ موونٹین ایگری ریسرچ س...
02/10/2022

جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ایک ناقابلِ فراموش باب -معرکہٕ جگلوٹ اور فتح بونجی

موجودہ موونٹین ایگری ریسرچ سنٹرفارم جگلوٹ کے ایک کونے میں چنار کے چند بوڑھے درختوں کے زیر سایہ اس متروک پرانی عمارت کا ایک حصہ اب بھی موجود ہے۔ جس میں نومبر 1947 ٕتک ایک ڈوگرہ فوجی چوکی قاٸم تھی۔ اس نگران چوکی کا اہم مقصد گلگت چلاس روڈ پر نظر رکھنا تھا۔ اس چوکی کے مشرقی جانب بونجی ،غرباً خوبصورت نالہ سٸی شمالاً گلگت کی جانب جانے والا روڈ جبکہ جنوباً علاقہ گوہر آباد دیامر کا گاٶں تھلیچی واقع ہے۔ اس محل وقوع کے اندر اواٸل نومبر 1947 ٕمیں تحریک آزادی گلگت بلتستان کا ایک اہم ترین معرکہ کامیابی سے لڑا گیا۔ اس معرکے کی کامیابی موجودہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے کچھ علاقوں پر مشتمل وسیع علاقے کی آزادی اور ان کے الحاق پاکستان کی بنیاد بنی۔
اس معرکے کی ابتدا 2 اور 3 نومبر 1947 ٕ کی درمیانی رات علی الصبح اس وقت ہوٸی جب گلگت میں ڈوگرہ ریاست کے خلاف اعلانِ بغاوت کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چلاس سے یکم نومبر 1947 ٕ کو صبح پانچ بجےصوبیدار شیر علی اپنی زیر کمان گلگت سکاٶٹس کی 60 نفوس پر مشتمل نفری کو لیکر جگلوٹ کی طرف روانہ ہوگٸے۔ پھرحسب منصوبہ جگلوٹ پہنچ کر ڈوگرہ آرمی کی اس چوکی پر حملہ کردیا ۔ اس چوکی پر ایک ڈوگرہ صوبیدار سنیت سنگھ کی قیادت میں کم وبیش سترہ نفری تعینات تھی جوکہ ہلکی مشین گنوں ، سٹین گنوں اور گرینیڈذ سے مسلح تھی۔ تفصیلی احوال کے مطابق صوبیدار شیر علی اپنے زیر کمان گلگت سکاٶٹس کے دستےکو لیکر 2 نومبر 1947 ٕ کو رات کے پہلےپہر جگلوٹ سٸی پہنچے اور علاقہ سٸی جگلوٹ سے تعلق رکھنے والے بااعتماد سابق سکاوٹس ساتھیوں سے رابطہ کرکے ان سے چوکی میں موجود نفری کی تعداد ، پوزیشنوں اور روزمرہ معمولات کے حوالے سے اہم معلومات حاصل کیں اور انھیں ہدایت کی کہ دریا پار کرنے کے لٸے موجودہ بونجی پل کے پاس لنگر انداز کشتی کو دریاکے بہاٶ کے رخ پر تین چار کلومیٹر آگے لے جاکر کسی آڑ میں چھپا دیں۔ ان سابق سکاٶٹس کو یہ ہدایات دینے کے بعد انھوں نے اپنے زیر کمان سکاٶٹس کے ایک دستے کو نگر کے حوالدار ندیلو کی قیادت میں پرتاب پل چوکی پر تعینات ڈوگرہ فوجیوں سے نمٹنے اور پل کو جلانے کے مشن پر روانہ کیا۔ کشتی کو چھپانے اور پرتاب پل جلانے سے انکا مقصد بونجی بٹالین ہیڈکوارٹر میں اس وقت تعینات 6th جموں وکشمیر انفنٹری کو کسی قسم کی جوابی کارواٸی کرنے سے روکنا تھا۔ 6thجموں و کشمیر انفنٹری زیادہ تر ڈوگرہ اورسکھ فوجیوں پر مشتمل تھی۔ جبکہ مسلمان سپاہیوں کی تعداد نسبتاً کم تھی اور ان میں سے بھی زیادہ تر ڈوگرہ گورنر بریگیڈیٸر گھنسارا سنگھ کے طلب کرنے پر 31 اکتوبر 1947 ٕ کو کیپٹین مرزا حسن خان کی قیادت میں گلگت روانہ ہوچکے تھے۔ اس لٸے بونجی چھاٶنی میں اس وقت مسلمان سپاہیوں اور افسروں کی تعدار انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی۔ صوبیدار شیر علی نے باقی ماندہ ساتھیوں کے ہمراہ آدھی رات کوجگلوٹ چوکی کا محاصرہ کرلیا ۔ دونوں دستوں نے صبح صادق کے وقت ایک ساتھ حملے کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ طے شدہ وقت پر حملے کا آغاز کردیا گیا۔ جگلوٹ چوکی میں تعینات ڈوگرہ آرمی کے دستے نے گھیرے میں آنے کے باوجود سخت مزاحمت کی۔ مگر آخرکار تقریباً ایک گھنٹے پر محیط شدید لڑاٸی کے بعد گلگت سکاٶٹس کے مجاہدین نے چوکی پر تعینات تمام ڈوگرہ سپاہیوں کو ہلاک کردیا۔ اور چوکی پر قبضہ کرلیا ۔ اس جھڑپ میں گلگت سکاٶٹس کا ایک جوان امیر حیات شہید ہوا اور ایک زخمی ہوا۔ یہی انجام پرتاب پل پر تعینات دشمن کا ہوا۔ وہاں پر پل کی حفاظت پر تعینات تمام ڈوگرہ سپاہیوں کو کامیابی سے نشانہ گیا۔ جس کے بعد اس دستے میں شامل ناٸیک نقیب اللہ جگلوٹی نے پہاڑی سے اتر کر پل پر تیل چھڑک کر اسے جلا کر خاکستر کرڈالا۔ فاٸرنگ کی آواز سن کر دشمن کے سپاہی پرتاب پل کی طرف دوڑ کر آٸے مگر پل کو جلتا دیکھ کر پیچ و تاب کھاتے ہوٸے واپس لوٹ گٸے۔ اور جگلوٹ کی آبادی کی طرف مارٹر گنوں سے شیلنگ شروع کردی ۔ جس پر اہلیانِ جگلوٹ اور گلگت سکاٶٹس کے جوانوں کو نالہ سٸی کے علاقے میں عارضی طور پر محفوظ جگہوں پر پناہ لینی پڑی۔ گلگت میں یکم نومبر کو ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ اوراگلے دن 6th جموں کشمیر انفنٹڑی کے کمانڈنگ آفیسر کرنل مجید کی گرفتاری کے بعد کرنل مرزا حسن خان اپنی زیر کمان 6th جموں کشمیر انفنٹڑی کے مسلم جوانوں اور گلگت سکاٶٹس کے صوبیدار صفی اللہ بیگ کی زیرکمان سکاٶٹس کے ایک دستےکو لیکر گلگت سے 6th جموں و کشمیر انفنٹڑی کے ہیڈ کوارٹر بونجی پر حملے کی نیت سے 4 نومبر 1947 ٕ کی شام کو جگلوٹ پہنچے تو انھیں راستے میں جلا ہوا پرتاب پل نظر آیا اور جگلوٹ میں داخل ہونے پر انھوں نے پورے جگلوٹ کو خالی پایا۔ ان لمحات کا تذکرہ کرنل مرزا حسن نے اپنی یاد داشتوں پرمشتمل کتاب ” شمشیر سے زنجیر تک “ میں ان الفاظ میں کیا ہے ، ” ۔ ۔ ۔ ۔ سارا گاٶں آدمیوں سے خالی تھا ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ہم لوگ پوری احتیاط اور لڑنے کی اس تیاری سے اس مبارک ساعت ، خوفِ خدا دل میں لٸے اسکے نافرمان بندوں کو صفحہٕ ہستی سےیک سو مٹانے آگے بڑھے، کوٸی چیز ہم سے مزاحم نہیں ہوٸی،کوٸی شے متحرک اور زندہ نظر نہیں آٸی۔جگلوٹ کا گاٶں اس نیم تاریکی میں بھی ایک بددعا پہاڑی کے دامن میں ہُو کے عالم میں ڈوبا ہوا تھا، پوسٹ سےکوٸی سنتری آداب سفر سکھانے پکار نہیں رہا تھا۔ چوکی کے گرداگرد صرف موت منڈلا رہی تھی۔ بکھری بکھری لاشیں کسی مارشل لإ کا اعلان کر ریی تھیں۔سنیت سنگھ کی فریادی لاش بھی فوجی بیرک کے واحد دروازے کی دہلیز پر دراز جاہلانہ کسی کو اندر جانےنہیں دیتی تھی۔“
اسی دن یعنی 4نومبر 1947 ٕ رات 11 بجے گلگت سکاٶٹس کے کمانڈنٹ میجر براٶن بھی صوبیدار میجر بابر خان سمیت گلگت سے سر پٹ گھوڑے دوڑاتے تھلیچی میں بقایا گلگت سکاٶٹس اورچلاس لیویز کی نفری کے ہمراہ مورچہ زن کیپٹن میتھی سن اور صوبیدار مظفر سے ملنے کے ارادے سے جگلو ٹ پہنچے۔ تو انھوں نے بھی جگلوٹ کو مکینوں سے خالی پایا۔ اس کا ذکر انھوں نے اپنی کتاب ” Gilgit Rebellion “ میں ان الفاظ میں کیا ہے ۔
”As we climbed on to the Juglote plateau,I started moving warily. . .. . . . .. . .. . . Every house and hamlet was deserted. I looked at my watch . It was 11.00 p.m."
اور جب یہ دونوں ہم سفر مزید آگے بڑھ کر جگلوٹ ڈوگرہ چوکی کے قریب جا پہنچے تو وہاں تباہی اور ویرانی چھاٸی ہوٸی تھی ۔ وہ احتیاط سے چوکی کے باکل قریب گٸے تو انکو ایک خوفناک منظر دیکھنے کو ملا ۔
“ There was a long shallow trench, lined by poplar trees, and it was filled with naked corpses.I moved closer and gave them a quick check with my shaded torch . They were all sikhs and dogras."
ان واقعات کے رونما ہونے کے درمیان کیپٹین میتھی سن جو کہ ابتداً گلگت سکاٶٹس اور چلاس لیویز کی کچھ نفری کے ساتھ رایٸکوٹ بریج پر قیام پزیر رہے ۔اس دوران انھوں نے صوبیدار فیض امان کی قیادت میں گلگت سکاٶٹس کی ایک پلاٹون دریاٸے سندھ کے باٸیں کنارے سے رام گھاٹ پل کو نذرآتش کرنے اور اس اہم جگہ پر قبضہ کرکے ڈوگرہ سپاہیوں کی نقل وحرکت کو مسدود کرنے کے لٸے روانہ کی تھی۔ راٸیکوٹ گوہر آباد کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک سویلین مجاہد محمد ولی المعروف ولی جرگہ دار بھی کفار کے خلاف جہاد کی نیت سےاس پلاٹون کےساتھ ہوگٸے۔ رام گھاٹ پل کے عین اوپر پہنچ کر صوبیدار فیض امان کی یاسین پلاٹون نے اوپر پہاڑی پر پوزیشنیں لیں اور محمد ولی کو پل کی طرف اکیلے روانہ کردیا ۔ ان کے پاس ایک ٹوپی دار بندوق اور کلہاڑی تھی۔ کلہاڑی سے انھوں نے پل سے لکڑی کاٹی اور اسی لکڑی کو پل کے اوپر جمع کرکے آگ لگادی ۔ جس سے پل جل کر راکھ ہوگیا۔ پل کو آگ لگا کر واپس بھاگنے سے پہلے انھوں نے منصوبے کے مطابق ٹیلی فون لاٸنیں بھی کاٹ دی تھیں۔ یہ کارواٸی مکمل کرکے وہ بحفاظت اوپر پہاڑی پر پوزیشن سنبھالے بیٹھی گلگت سکاٶٹ کی پلاٹون کے پاس پہنچ گٸے اور وہاں سے پلاٹون سمیت ڈوٸیاں کی طرف چلےگٸے۔ بغاوت گلگت کی کامیابی کے بعد 1948 ٕ میں یہ گمنام مجاہد کرنل مرزا حسن کی ٹاٸیگر فورس میں شامل ہوا اور استورسے آگے گریز اور تراگبل تک مرزاحسن کی قیادت میں انڈین آرمی کے خلاف کٸی کارواٸیوں میں حصہ لیا ۔ اس دوران انھوں نے مرزا حسن کے باڈی گارڈ کے طور پر بھی اپنےفراٸض سرانجام دیے۔
چاروں طرف سے مسدود ہونے اور جگلوٹ چوکی پر مجاہدین کے قبضے سے بونجی میں موجود ڈوگرہ آرمی میں سراسیمگی پھیل گٸی اور وہاں موجود ہندو سکھ اور مسلم فوجی جوان آپس میں مورچہ زن ہوگٸے۔ جس سے وہاں شدید افراتفری پیدا ہو گٸ۔ ایسے حالات میں 5 نومبر 1947 ٕ کومرزا حسن خا ن نے جگلوٹ سے اپنی مسلم کمپنی کے جوانوں اور گلگت سکاٶٹس کےصوبیدار صفی اللہ بیگ کی پلاٹون کے جوانوں کے ہمراہ جھالے پر سوار ہوکر دریاٸے سندھ عبور کرکے بونجی چھاٶنی کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ کرنل مرزا حسن خان کے مطابق اس دوران اندیشہ تھا کہ بونجی میں موجود ڈوگرہ،سکھ اور قلیل مسلمان سپاہ میں مسلح تصادم شروع ہوجاتا مگر ”کیپٹن محمد خان (جو اس وقت بونجی میں موجود تھے ) نے اس نازک وقت پر اپنا ٹرمپ کارڈ کھیلااور سکھوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ہتھیار ، ایمونیشن اور کچھ راشن بھی جو وہ خود اٹھا سکتےتھےلیکر پہاڑ کی جانب بھاگ جاٸیں تاکہ قتل عام شروع نہ ہو، دشمن نے ہرطرف سے اپنے کو گھیرے میں پاکر اور مورچوں کے اندر اور باہر سے مقابلہ کی حالت دیکھ کر بھاگنے کا فیصلہ کیا۔ وہ جنوب کی طرف اونچے پہاڑ کے اوپر چڑھ چکا تھا۔ محمد خان اپنے وعدہ کے مطابق انھیں بھاگنے دے رہا تھا اور وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ “ ( بحوالہ کتاب ”شمشیرسےزنجیر تک“ )
چنانچہ مجاہدین کرنل مرزا حسن کی قیادت میں فاتحانہ انداز میں بونجی میں داخل ہوگٸے۔ بونجی میں موجود 6th جموں کشمیر انفنٹڑی کے مسلم جونوں اور افسروں نے آگے بڑھ کر مجاہدین آزادی کا والہانہ استقبال کیا۔ یوں بونجی چھاٶنی پر بغیر کسی مزید خون خرابے کے قبضہ ہوگیا۔ اس شام تھلیچی سے میجر براٶن ، کیپٹین میتھی سن، صوبیدار میجر بابر خان اور گلگت سے کیٹین سعید درانی اور لیفٹننٹ غلام حیدر بھی بونجی پہنچ گٸے۔ 6th جموں وکشمیر انفنٹڑی کے مفرور سکھ اور ہندوسپاہی اس رات جنوبی پہاڑی سے رات بھر چھاٶنی کی طرف اکا دکا فاٸر کرتے رہے۔ ان میں سے کچھ دستوں نے استور اور کچھ نے سکردوکی طرف راہ فرار اختیار کرلی۔ مجاہدین نے ان دستوں کا پھیچا کرکے مختلف جگہوں سے انھیں گرفتار کرلیا اور واپس بونجی چھاٶنی بھجوا دیا۔ جگلوٹ اور بونجی کے اس معرکے کے دوران علاقہ گور ،سٸی جگلوٹ اور بونجی کی عوام نے مجاہدین آزادی کا بھرپور ساتھ دیا اور انکو راشن سمیت ہر ممکن مدد بہم پہنچاٸی ۔ گلگت اور بونجی میں کامیاب بغاوت اور مستحکم قبضے کے بعد مجاہدین جنگ آزادی نے استور ، کشمیر اور بلتستان کی آزادی کی طرف اپنی توجہ مبذول کرلی اور مختصر عرصے میں سردیوں کے فوراً بعد ان علاقوں کی طرف قافلہ حریت کے دستے روانہ کیٸے گٸے ۔ جنہوں نے اپنی بے لوث اور عظیم قربانیوں سے بلتستان سے لداخ اور استور سے گریز تک ہزاروں مربع میل علاقے کو انڈین قبضے میں جانے سے بچایا اور مملکت پاکستان کا حصہ بنایا۔ اس دشوار ترین پہاڑی علاقے میں جنگ آزادی کی اس جاں گسل مہم میں گلگت سکاٶٹس، 6th جموں کشمیر انفنٹڑی, چترال سکاٶٹس اور نوزاٸیدہ پاک آرمی کے آفیسران اور جوانوں سمیت سینکڑوں گمنام سویلین مجاہدین بھی مصروف جہاد رہے اور اپنا بھرپور کردارادا کیا ۔یہاں تک کہ ان میں سے بہت ساروں نے اپنی قیمتی جانوں کی قربانی تک پیش کی ۔ اللہ تعالیٰ قوم کے ان محسنین کو اسکا اجر دے اور انکے درجات بلند فرماٸے ۔ آمین
بنا کر دند خوش رسمے بخون و بخاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

حوالہ کتب :۔
1. The Gilgit Rebellion by William A. Brown
2. شمشیر سے زنجیر تک از کرنل مرزا حسن خان
3. Gilgit Before 1947 by Brig.Ghansara Sing
4. تحریک پاکستان میں شمالی علاقہ جات کا کردار از سید عالم استوری
5.ماہ نامہ پربت چلاس دیامر ماہ نومبر
1988
6. ڈوٸیاں سے زوجیلاتک میرا سفر جہاد از عبدالمنان
Tahreer. Tanweer bhai

گلگت بلتستان/غذر چترال ایکسپریس روڑ پر تیزی سے کام جاری,این ایچ اے کے زیر نگرانی تینوں کمپنیاں دن رات کام میں مصروف  5 س...
01/10/2022

گلگت بلتستان/
غذر چترال ایکسپریس روڑ پر تیزی سے کام جاری,

این ایچ اے کے زیر نگرانی تینوں کمپنیاں دن رات کام میں مصروف 5 سال کی قلیل مدت میں کام مکمل ہوگا

بیٹیوں کا عالمی دن اور مسلم معاشرہاے اہل ایمان ہمارے گھروں کی پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ بہنوں اور بیٹیوں کو حق وراثت سے م...
27/09/2022

بیٹیوں کا عالمی دن اور مسلم معاشرہ

اے اہل ایمان ہمارے گھروں کی پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ بہنوں اور بیٹیوں کو حق وراثت سے محروم کرنا ہے،

یاد رکھیں یہ گناہ کبیرہ اور ظلم عظیم ہے۔

ہمارے معاشرے میں مختلف حیلوں بہانوں سے عورتوں کو میراث سے محروم کر دیا جاتا ہے،
1۔ یا تو والد اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر کے بیٹیوں کو محروم کر دیتے ہیں۔ حالانکہ شریعتِ محمدی کے رو سے زندگی میں بیٹوں اور بیٹیوں میں برابر تقسیم کرنا پڑے گا۔
2۔ یا جہیز کا بہانا بنا کر بھائی بہنوں کو وراثت سے محروم کر دیتے ہیں۔
3۔ یا سوشل پریشر ڈال کر بہنوں سے انکا حصہ بھائیوں کے حق میں معاف کروا لیتے ہیں۔
4۔ یا کچھ لے دے کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے بیٹیوں یا بہنوں کو خوش کر دیا ہے اور ان سے انکی جائیداد ہتھیا لیتے ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ عزوجل آیت میراث کی ابتداء عورتوں کے حق وراثت سے کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ تمھیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت فرماتے ہیں کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصوں برابر ہے"
پھر فرماتے ہیں: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ (وراثت کے مذکور حصے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود ہیں)
اگلی آیت میں وارثوں کو محروم کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں: وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ
(النساء، الایۃ14)
ترجمہ: اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا، اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا، اسے اللہ دوزخ میں داخل کرے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کو ایسا عذاب ہوگا، جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص ( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی بطورِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پرڈالی جائے گی۔

بیٹیوں اور بہنوں کا حصہ آپکی عزت کا مسئلہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ حق ہے، جسکا دینا فرض عین ہے، اور اسکا روکنا حرام ہے، اور حرام کھاتے ہوئے آپکی کوئی عبادت صدقات خیرات اور حج و عمرہ قبول نہیں ہوگا۔
جو بندہ عورتوں کو انکا حصہ بخوشی دیگا ان کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:
ترجمہ: (میراث کے احکام ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں) یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ایسے لوگ ہمیشہ ان (باغات) میں رہیں گے، اور یہ زبردست کامیابی ہے۔
اگر ہمارا معاشرہ صرف اس ایک حکم پر عمل کر لے تو ہماری پچاس فیصد پریشانیاں اور جھگڑے بھی ختم ہو جائیں گے اور ہمارا رب بھی ہم سے راضی ہو جائے گا۔
راجہ اصغر

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Tahqeeqi News تحقیقی نیوز posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share