Azm

Azm Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Azm, Media/News Company, .

کون کہتا ہے پاکستان ترقی نہیں کر رہا 😉
02/10/2021

کون کہتا ہے پاکستان ترقی نہیں کر رہا 😉

30/09/2021

معصوم😂😂😂

18/04/2021

شرائطِ نماز

ہرنماز (فرض، واجب، سنت، نفل) میں اللہ اکبر کہنے سے پہلے ان "شرائط" کاپڑھناسب مسلمانوں کو بہت ضروری ہے جہاں سمجھ نہ آئے اُس کو لکھ کرسوال کریں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایک نماز پڑھنے سے ہزاروں ”احادیث“ پر عمل ہوتا ہے اور نماز میں داخلہ ان چھ(6)شرطوں کے بغیرملتا نہیں۔

پہلی شرط: نماز کیلئے پہلی شرط پاک(طہارت) ہونا اور اس کی تین صورتیں(جسم، کپڑے اور جگہ پاک ہونا) ہیں۔ اس لئے عام مسلمان صرف نہانے کو پاک ہونا کہتے ہیں لیکن ”نماز“ کیلئے پاک ہونے کا مطلب ہے کہ ”پانی“سے ”وضو اور غسل“ اور اگر کبھی کہیں پانی نہ ملے تو مٹی سے”تیمم“کرنا۔

مسائل وضو: نماز ادا کرنے کے لئے بندہ ہمیشہ وضو میں رہتا ہے اگر وضو ٹوٹنے والے یہ کام نہ ہوں:

1۔ ضروری حاجت (nature call) کرنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ دونوں شرم گاہوں سے کچھ نکلنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اسلئے دونوں شرم گاہوں کو ضروری حاجت کے بعد دھویاجاتا ہے، البتہ اگرضروری حاجت کی بجائے ہوا خارج ہو تو شرم گاہ دھونے کی ضرورت نہیں لیکن وضو کرنا ضروری ہے۔

پریشانی: اگر شک ہو کہ شرم گاہ کو دھونے کے بعد بھی قطرہ آتا ہے، ایسی صورت میں پہلے (2یا3مرتبہ) ضروری حاجت کرنے کے بعد کپڑے وغیرہ سے شرم گاہ صاف کریں پھر کھانس کر یا تھوڑی دیر چل کردیکھیں اورجب محسوس ہوکہ قطرہ نکلا ہے لیکن کپڑاگیلانہیں ہوا تویہ آپ کا وہم ہے۔

حل: اگر قطرہ آئے توتھوڑی سی محنت کرنی ہو گی، حاجت سے فارغ ہونے کے بعد ”شرم گاہ“ کے سوراخ کے آگے ٹیشو پیپر وغیرہ رکھیں، جب قطرہ نکل جائے تو پھر وضو کریں کیونکہ قطرہ نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔

2۔ جسم کے کسی بھی حصّے سے خون نکل کر بہہ جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے ناک سے خون، پھنسی پھوڑے کی پیپ (کچا خون)، درد سے نکلا ہواآنکھ کا پانی اندرونی زخم کی پیپ وریشہ وغیرہ سے لیکن آنکھ میں تنکاپڑنے سے نہیں، تھوک میں خون دانتوں کی وجہ سے”سُرخ“ رنگ کاہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن اگر زرد رنگ کاہو تو پھر نہیں، زخم کی پٹی پر خون ظاہر ہوجائے، خون ٹیسٹ کروانے سے خون سوئی کے ذریعے سرنج میں آئے، ان سب سے ”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے۔

3۔ قے،اُلٹی(vomitting) سے جو معدہ (پیٹ) کا بدبو دار”گند“ منہ کے راستے باہر نکلتا ہے اس سے”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے لیکن جو تھوڑا ہو اور منہ کے اندر آ کر واپس چلا جائے تو اس کو ”قے“ نہیں کہیں گے، اس لئے وضو بھی نہیں ٹوٹتا۔

4۔ محض سونے یا نیند سے نہیں بلکہ شرم گاہ سے ہوانکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔ نیند کا ہر وہ انداز (style) جس سے ہوا خارج نہ ہو سکتی ہو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا جیسے (1) نماز میں التحیات پڑھنے کیلئے بیٹھتے ہیں (2) چوکڑی مار کربیٹھتے ہیں (3) toyota ویگن میں پھنس کربیٹھتے ہیں، ایسی صورتوں میں سو بھی جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا، البتہ لیٹے کھڑے بیٹھے سونے کا ہر وہ انداز جس میں ہوا خارج ہو سکتی ہے، اس پر وضو کرنا ہوگا۔

5۔ نماز میں اگر کوئی مسکرائے یہاں تک کہ اُس کے دانت بھی نظر آئیں تو وضو نہیں ٹوٹتا لیکن ہلکی سی ”ہی ہی ہا ہا“ کی آواز سنائی دینے پر”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے،جس پر دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ اس لئے نماز پڑھنے والے کے پاس ایسا کوئی عمل کرنے والاگناہ گار ہے جس سے وہ ہنس پڑے۔

غلط فہمیاں: جھوٹ، غیبت، بہتان،گالی نکالنا اور گندی باتوں سے”وضو“ نہیں ٹوٹتا البتہ وضو کر لے تو بہتر ہے۔ شرمگاہ کو کپڑے کے بغیر ہاتھ لگانے یا خارش کرنے، ناک یا منہ سے بلغم آنے، آنسوبہنے، پسینہ آنے، کھانا کھانے،خوب ہنسنے، عورت کا بچے کو دودھ پلانے سے”وضو“ نہیں ٹوٹتا۔ خنزیر کا نام لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور نہ ہی زبان پلید ہوتی ہے۔

غیر ضروری بال: مرد اور عورت کو بغلوں اور شرم گاہ کے بال صاف کرنے کا حُکم ہے اور یہ بال عورت عورت اور مرد کسی بھی شے سے صاف کر سکتے ہیں کوئی گناہ نہیں ہے۔

مسئلہ: یہ بال مرد اور عورت ناف کے نیچے سے لے کر شرم گاہ تک صاف کریں۔کم از کم کا تعین نہیں، زیادہ سے زیادہ 40دن کے اندر یہ بال صاف کرنے ہوتے ہیں ”لیکن“ 40دن گذرنے کے بعد غیر ضروری بال صاف نہ کرنے والا مسلمان گناہ گارہو گا مگر ”نماز“ ہو جائے گی کیونکہ نماز نہ ہونے سے ان بالوں کا کوئی تعلق نہیں۔

فرائض وضو: مسائل علماء کرام کے پاس جا کر سیکھنے سے آتے ہیں، البتہ عوام وضو تقریباً سنت کے مطابق کرتی ہے لیکن وضو میں (3) اعضاء دھونے اور سر کا مسح کرنے میں احتیاط کرے:

1۔ تمام چہرہ دھونا اور داڑھی کوٹونٹی یا نلکے کے نیچے رکھ کر جلد تک پانی پہنچائیں۔ 2۔ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھو ئیں 3۔ ہاتھ پرپانی لگا کر سر کے 1/4(چوتھائی) حصے پر لگائیں جسے مسح کہتے ہیں۔ 4۔ دونوں پاؤں کا مسح شیعہ حضرات کرتے ہیں لیکن اہلسنت ٹخنے، ایڑیاں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کر کے اچھی طرح دھوتے ہیں۔

٭ نہر، دریا یا باتھ روم میں نہاتے وقت یہ چار وں فرض دُھل گئے تو نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
٭ اگر نیت نہ کی اور بسم اللہ نہ پڑھی تو ”وضو“ ہو جائے گا لیکن بہتر ہے دونوں کام کر لئے جائیں۔
٭ نہانے کے بعد حاجت ضروریہ پیش آئی تو”وضو“ ٹوٹ جائے گا۔
٭ اگر دانت پیلے ہوں یامنہ سے سگریٹ، پیاز، مولی کی بدبو آتی ہو تو مسواک، ٹوتھ پیسٹ، منجن وغیرہ سے صاف کریں کیونکہ بدبو سے فرشتوں اور نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے اور تکلیف پہنچانا حرام ہے اور ایک دفعہ مسواک، منجن، ٹوتھ پیسٹ کرنے سے دانت جتنی دیر تک صاف رہیں گے 70نمازوں کا ثواب ملتا رہے گا۔

بہتر صورتیں: جس کو قطرہ آتا ہے وہ نماز کے لئے وضو پہلے کرے۔گھر سے وضو کر کے مسجد میں جانابہتر ہے، مسجد میں وضو کرنے میں ایک دوسرے پر پانی کے چھینٹے پڑنے کے علاوہ بھی کئی پریشانیاں ہیں۔نلکے سے وضو کرتے ہوئے10یا12لٹر پانی ضائع ہونے سے بچانے کیلئے ٹونٹی کم کھولی جائے یا وضو کرنے کے لئے ”لوٹا“ استعمال کیا جائے۔ با وضو رہنے کے بہت سے فضائل ہیں اورنبی کریمﷺ وضو خاموشی سے کرتے۔ اسلئے مشورہ ہے کہ ہمیشہ باوضو رہیں اور وضو ”خاموشی“ سے کریں حالانکہ علماء نے دعائیں پڑھنے کو جائز فرمایا ہے۔

مسائل غسل: غسل اسلئے فرض ہوتا ہے کہ ہم یہ کام ہوتے ہیں:

1۔ رات کو نیند کی حالت میں پیشاب والے سوراخ سے گاڑھاپانی (منی) نکل آئے اور کپڑوں پر نجاست کے نشان نظر آئیں جسے ’’اح**ام‘‘ کہتے ہیں۔

2 ۔ اپنے ہاتھ(مشت زنی، ہتھ رسی، ایک ہاتھ سے نکاح، کھلونا) یا اس طرح کے کسی بھی انداز سے جب اپنی ’’شرم گاہ‘‘ سے کھیلنے پر گاڑھا پانی لذت کے ساتھ کود کر (منی) نکل آئے۔

3 ۔ لڑکا لڑکے کے ساتھ یا لڑکی لڑکی کے ساتھ گناہ کرے، مرد عورت کے پچھلے سوراخ کو استعمال کرے، عورت اور مرد کا ایک دوسرے کی شرم گاہ کو چومنا چاٹنا، جس سے نجاست گندگی منہ کو لگ جائے تو منہ ’’پلید‘‘ ہو جاتا ہے، یہ جانوروں کی طرح جنسی تسکین کی بدترین (حرام) صورتیں ہیں اور روح کو ناپاک کر دیتی ہیں۔

4 ۔ میاں بیوی اپنی جسمانی و نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے صحبت کریں گے تو ایک دوسرے میں گُم ہوتے ہی غسل کرنا پڑے گا چاہے ابھی انزال یا اختتام کو نہ پہنچے ہوں اور یہ عمل غیر شادی شدہ بھی کریں گے توان کے لئے یہ عمل حرام(زنا) ہے لیکن ’’ غسل ‘‘ان کو بھی کرنا پڑے گا۔

فارمولہ: غسل کے لئے شرط یہی ہے کہ جب پانی(منی) اُچھل کر جھٹکے سے باہر نکل کر بندے کا نفسانی شوق پورا کردے تو اس پر’’غسل ‘‘کرنا پڑتا ہے اوراگر گندہ خیال آنے پر شہوت بڑھ جائے یا عورت کو چھونے سے لیسدار پانی (مذی) شرم گاہ سے نکلا تونماز کے لئے ’’وضو‘‘ کرنا پڑتا ہے۔

حالت : سونے کے دوران محسوس ہوا کہ اح**ام ہو گیا ہے مگر جب بیدار ہوا تو کپڑے پر نشان نہیں تھے تو غسل نہیں کرتے اور اگر خواب بھی نہیں دیکھا لیکن صبح کپڑوں پر نشان تھے تو غسل کرنا پڑے گا۔

بیماری: عورت کو لیکوریا اور مرد کو جریان جیسی بیماری کی وجہ سے’’غسل‘‘ نہیں ’’وضو‘‘ کرنا ہوتا ہے۔عورت کے لئے غسل کی دو صورتیں یہ بھی ہیں:

1۔ خون حیض: یہ خون عورت کی شرم گاہ سے آتا ہے جس کے پہلی بار آتے ہی عورت بالغ ہو جاتی ہے۔حیض تین دن رات سے کم اور دس رات دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس مدت سے کم یا زیادہ ہو تو اس کو’’ استحاضہ‘‘ کہیں گے۔

بیماری: استحاضہ میں عورت کی شرم گاہ کے اندر کی کوئی رگ زخمی ہو جاتی ہے جس سے خون آتا ہے۔

علامت: استحاضہ کے خون میں بدبو نہیں ہوتی اور حیض کے خون میں بدبو ہوتی ہے۔استحاضہ والی عورت سے مردصحبت کر سکتا ہے اورعورت نماز بھی پڑھے گی مگر ہر نماز کے لئے ’’وضو‘‘ نیا کرے گی۔

دو حیض: عورت کو ایک ماہ میں دو حیض بھی آ سکتے ہیں۔ حیض کے دوران نمازیں پڑھنا گناہ ہے اور بعد میں بھی ان نمازوں کی معافی ہے البتہ حیض میں چُھوٹے رمضان کے روزے بعد میں رکھنے پڑتے ہیں۔

حساب: ایک عورت کو دو دن خون آیا پھر بند ہو گیا، پھر چھٹے دن خون آیا اور بیچ کے تین دن پاک رہی لیکن نمازیں پڑھتی رہی تو ایسی عورت کا یہ عرصہ حیض کا تھا اور نمازیں پڑھنے پر گناہ گار نہیں ہو گی۔
اسی طرح حیض نہیں تھالیکن دو دن خون آنے سے نمازیں نہیں پڑھیں تو ان نمازوں کی قضا کرنی پڑے گی کیونکہ کچھ عورتوں کے مخصوص دن بدل بھی جاتے ہیں اور ان کو اپنے مزاج اور عادت کے مطابق ’’حیض ‘‘اور ’’استحاضہ‘‘ میں فرق کرنے کے علاوہ اپنی نمازوں اور روزوں کا حساب بھی رکھنا ہو گا۔

2۔ نفاس: اسی طرح عورت کو بچہ پیدا ہونے پر اس کی شرم گاہ سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے جس کو نفاس کا خون کہتے ہیں۔ یہ خون پانچ منٹ میں بھی بند ہو سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت40دن تک ہوتی ہے، 40دن کے بعد اس خون کونفاس کا نہیں بلکہ’’ استحاضہ‘‘ کہتے ہیں۔ 40دن کے بعد یا جس وقت خون بند ہو جائے، اسی وقت سے عورت غسل کر کے نماز، روزہ کرے اور مرد سے صحبت ’’جائز‘‘ ہے۔

حل: جس مرد یا عورت کا مسلسل خون (بواسیر، نکسیر، استحاضہ)، مسلسل پھنسی پھوڑے سے پیپ، مسلسل پیشاب، مسلسل ہوا گیس وغیرہ ، 2رکعت یا 4رکعت’’ نماز‘‘پڑھتے وقت بھی نہ رُکے تواس کو ’’معذور‘‘کہتے ہیں اور جب تک یہ’’ معذوری‘‘ہے اگر ظہر کے وقت وضو کیاتو عصر تک وضو رہے گا اور عصر کا وضو کیا تو مغرب تک رہے گا۔ اسی ایک وضو سے فرض نماز، قضا نماز، نفل، قرآن کی تلاوت، سجدہ تلاوت کرتا رہے البتہ ’’معذوری‘‘ کی وجہ سے نہیں بلکہ وضو توڑنے والی کوئی اور صورت (پیشاب، پاخانہ،قے، اُلٹی،مذی، نماز میں ہنسنا،خون کا نکل آنا، ہوا کا نکل جانا وغیرہ)ہو تو دوبارہ وضو کریں۔یہ بھی یاد رہے کہ معذور مسلمان کو امام نہیں بنانا چاہئے اور امام کو اس طرح کی بیماری میں امام بننا نہیں چاہئے کیونکہ بیماری کا علم امام کو ہو گا عوام کو نہیں۔

آسانی: اسی معذوری میں نماز کے لئے ’’ پاک‘‘ کپڑا پہنا لیکن نماز سے فارغ ہونے سے پہلے وہ کپڑا بھی ’’ناپاک‘‘ ہوگیا تو اس کو بغیر دھوئے نماز پڑھ سکتے ہیں۔

ممانعت: جس پر غسل ضروری ہو، اس کیلئے قرآن پاک کو پکڑنا، پڑھنا اور چھونا منع ہے۔ اگر قرآن پاک پکڑنا پڑے تو پاک کپڑے سے پکڑ کر ادھر ادھر رکھ سکتے ہیں۔ مسجد میں جانا منع ہے لیکن کسی مدرسے یا مرکز میں جا سکتے ہیں۔حائضہ اور نفاس والی عورت اگر ٹیچر بھی ہو توکسی کو قرآن پاک نہ پڑھائے اور بہت ضروری ہو تو ناظرہ پڑھاتے ہوئے قرآن کا ایک ایک لفظ الگ الگ کر کے طالبات کو سمجھا سکتی ہے۔

وقت: بہتر یہی ہے کہ جنابت کاغسل جلد کر لیا جائے لیکن اگرعشاء کے بعد غسل کی حاجت ہوئی تو نماز فجر سے پہلے تک ناپاک رہے تو کوئی بات نہیں لیکن اگرنماز فجر قضا ہوگئی تو سخت گناہ گار ہیں۔

مشورہ: حیض یا نفاس والی عورت نماز کے پانچ وقت ’’مصلے‘‘ پر بیٹھ کر درود، کلمہ، استغفار، دعائیں پڑھے کیونکہ مصلے پر بیٹھنا منع نہیں اور نہ ہی تسبیح پکڑنا اور پڑھنا منع ہے ۔ قرآن پاک پڑھنا منع ہے البتہ رات کو سونے سے پہلے آیت الکرسی، الحمد شریف وغیرہ ’’قرآن‘‘سمجھ کر نہیں بلکہ دُعا کی نیت سے پڑھی جا سکتی ہیں۔

اجازت: حیض اور نفاس والی عورت کھانا پکا سکتی ہے، بچے کو دودھ پلا سکتی ہے، صاف ستھرا رہنے کے لئے نہا بھی سکتی ہے، میاں بیوی آپس میں دل لگی کر سکتے ہیں لیکن صحبت نہیں کر سکتے اور اگرکوئی اپنی بیوی سے حیض میں صحبت کر لے تو غریب آدمی’’ توبہ‘‘ کرے اور امیر آدمی کچھ ’’صدقہ‘‘ بھی کرے۔

غسل سنت: ہر فضیلت والے دن اور رات میں غسل کرنا بہترہے اورنبی اکرمﷺ نے جمعہ یاعیدین کی نماز کیلئے غسل کرنے کا فرمایا ہے۔ غسل کرنے کے بعد نبی کریمﷺ وضو نہیں کرتے تھے۔

آسان طریقہ: جب بھی نہائیں 3 فرض پورے کر لیں۔( 1) منہ بھر کرکلی (غرغرہ کرنا) (2) ناک کی ہڈی تک پانی ڈال کرجمی ہوئی مٹی صاف کرنا (3) سارے بدن کو مَل مَل کر ایسے دھونا کہ کوئی بال بھی خشک نہ رہے۔

بہتر: غسل کرنے سے پہلے دونوں ہاتھ دھو کر جسم پر لگی’’گندگی‘‘صاف کر کے فرش پر پانی بہا دیں ، اس کے بعد اگر جسم اور فرش پرسے چھینٹے اُڑ کر بالٹی میں بھی پڑ جائیں تو پانی ناپاک نہیں ہو گا۔وضو کریں، 2 فرض غرغرہ اور ناک میں پانی اچھے طرح ڈالیں اور سر سے لے کر پاؤں تک سارے جسم پر پانی بہا ئیں۔

اہم : سارے جسم کو دھونا ضروری ہے ، اس لئے ناک میں جمی مٹی اور ہاتھوں میں لگا ہوا آٹا، ناک کان کی بالیاں اور نیل پالش وغیرہ اتار کر ’’غسل‘‘ کریں البتہ جو رنگ یاقلعی کا کام کرتا ہے اور رنگ ہاتھوں وغیرہ پر اسطرح جَم گیا ہو کہ اتارنے پر زخم بن جائے گاتو معافی ہے ۔ایسی اشیاء جیسے مہندی یا تیل بالوں اور جسم پرلگا ہولیکن پانی اس کے باوجود جسم اور بالوں کی جڑوں تک پہنچ جاتاہے،اس سے غسل ہو جاتا ہے۔

* عورتوں کی چوٹی گُندھی ہوئی ہو تو کھولنے کی ضرورت نہیں بلکہ بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچائے۔ اگر بال کُھلے ہوئے ہوں یا گُیسو چوٹی سے علیحدہ گُندھے ہوئے ہوں تو ان کو کھول کر غسل کرے۔

آسان تیمم: نمازی کو وضو یا غسل کرنے کی حاجت ہو لیکن ”پانی“کافی تلاش کے باوجود نہ ملے اور نماز قضا ہونے لگے تووہ نماز نہیں چھوڑتا بلکہ قانون کے مطابق”تیمم“ کرکے نماز پڑھتاہے۔ اگر کپڑے اُس وقت ناپاک ہیں تو بدل لیتا ہے اور اگردوسرے کپڑے بھی پاس نہ ہوں تو نمازبھی ناپاک کپڑوں سے ادا کر لیتا ہے۔

وجوہات: کتابوں میں ”تیمم“ کرنے کی کئی وجوہات لکھی ہیں جیسے(1) ہسپتال کے بیڈ پر پڑا نمازی”پانی“ کا استعمال نہ کر سکتا ہو (2) سفر میں پانی پینے کے لئے ہو مگر وضو اور غسل کرنے سے پانی ختم ہو جائے اور مزید پانی ملنے کی امید نہ ہو (3) پانی کے استعمال سے بیماری، زخم یا تکلیف بڑھنے کا اندیشہ ہو وغیرہ۔

طریقہ مسلمان بسم اللہ پڑھ کر پاک صاف ہونے کی نیت سے مٹی کے ڈھیلے کوایک دفعہ دونوں ہاتھوں پر مَل کر اپنے چہرے پر مَلے اوروہ ہاتھ داڑھی کے بالوں (خلال) سے بھی گذارے۔ دوسری دفعہ مٹی کا ڈھیلا ہاتھوں پر مَل کر بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کی کہنیوں تک مَلے اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کہنیوں تک مَلے (مسح)، اس کو تیمم کہتے ہیں۔ یہ عمل دیکھ کر سیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، اسلئے کسی عالم سے ضرورسیکھا جائے۔

حصے: جسم کے صرف دو حصے چہرے اور ہاتھوں پر مٹی سے”مسح“ کرنے کو تیمم کہتے ہیں۔ تیمم میں یہ آسانی ہے کہ ”مٹی“ کے ایک ڈھیلے(روڑا) سے ساری زندگی اور سارے لوگ ”تیمم“ کر سکتے ہیں۔

٭ پانی جب تک نہ ملے تیمم کر کے نمازیں پڑھی جائیں اورجب پانی مل جائے تو وضو کریں۔ تیمم ان باتوں سے ٹوٹ جاتا ہے جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اسلئے تیمم ٹوٹنے پر ”نماز“ پڑھنے کیلئے پھر تیمم کیا جائے۔

٭ اگر کسی کے پاس پانی ہو تو نمازی تیمم کرنے سے پہلے اُس سے پوچھ لے کہ وضو کے لئے پانی مل سکتا ہے اور اگر پوچھے بغیر تیمم کر ے گا تو نماز نہیں ہو گی کیونکہ پانی ملنے کا امکان تھا۔

موزوں پر مسح کرنا: موزے پاؤں میں پہنے جاتے ہیں اور اس کے اصول یہ ہیں:(1) جن سے دونوں ”ٹخنے“ چُھپ جائیں (2) ان کو پہن کرچلنے میں کوئی دشواری نہ ہو (3) موزوں کے باہر پانی لگے تو اندر سرایت یا داخل نہ ہو، اس لئے ”موزے“ لکڑی اور لوہے کے نہیں ہوتے کیونکہ اُن کوپہن کر آسانی سے چلا نہیں جاتااورجرابوں کو ”موزے“ نہیں کہا جاتا کیونکہ وہ پانی سے گیلی ہوجاتی ہیں، لہذا”موزے“زیادہ تر چمڑے کے ہوتے ہیں۔

فائدہ: خاص طور پر سردیوں میں وضو کر کے جب موزے پہن لئے جائیں تو وضوٹوٹنے پر سارا وضو کریں لیکن موزں پر مسح (ہاتھوں پر پانی لگا کر موزوں پر ہاتھ پھیرنا)کرتے ہیں۔

مقیم(گھر میں رہنے والا) نے صبح8بجے وضو کیا اور موزے پہنے،2بجے وضو ٹوٹا تو دوپہر کے 2بجے سے 24گھنٹوں تک موزوں پر مسح کیا جا سکتا ہے اور مسافروضو ٹوٹنے کے بعد 72گھنٹے مُوزوں پرمسح کرسکتا ہے۔

قانون: وضو ٹوٹنے کے بعد(1) دونوں پاؤں یا ایک پاؤں سے بھی موزہ اُتار لیا (2) گھر میں رہتے ہوئے 24گھنٹے اور سفر میں 72گھنٹے گذر گئے تو پھر پورا وضو کریں اور پاؤں دھو کر موزے پہنیں۔

طریقہ: دونوں ہاتھوں کو پانی لگا کردائیں ہاتھ کی انگلیاں داہنے پیر کی انگلیوں اور بائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں پیر کی انگلیوں پر ”موزوں“ کے اوپرسے ایک ہی دفعہ پنڈلی کی طرف کو ٹخنے سے اوپر تک کھینچ دے۔

مسح: صرف موزوں پر کیا جاتا ہے لیکن دستانوں، عمامہ،ٹوپی وغیرہ پرنہیں کیا جاتا۔

2۔ پاک کپڑے: اکثر مسلمان کہتے ہیں میرے کپڑے ناپاک ہیں اس لئے نماز نہیں پڑھتا لیکن کپڑے ناپاک ہوتے ہیں:

نجاست غلیظہ: سخت گندی چیزیں (1) پوٹی، فضلہ، منی، مذی، پیشاب(بچہ بچی کا)، خون، پیپ، قے، شراب (2) سب حرام جانوروں کا پیشاب و پاخانہ (3) حلال جانوروں کا گوبر، مینگنی، پاخانہ ہیں۔

اس لئے کسی جانور کی بیٹ، گوبر وغیرہ ساڑھے چار ماشے ”وزن“ کی ہو یا پتلی نجاست (پیشاب، مذی وغیرہ) اس قدر جتنا ہتھیلی کے گڑھے کے اندر پانی کھڑا ہو سکتا ہے، اگر جسم یاکپڑے پرلگ جائے تو”نماز“ ہو جائے گی لیکن دھو کر پڑھنا بہتر ہے۔

نجاست خفیفہ: حلال جانور جیسے گائے، بکری اونٹ کے ساتھ گھوڑے کے ”پیشاب“ کو کہتے ہیں، اگر حلال جانوروں کا پیشاب چوتھائی(1/4) یعنی بہت زیادہ بھی کپڑے پر بھی لگ جائے تو ”نماز“ ہوجاتی ہے۔

پاک اور ناپاک گھوڑے، گدھے اور خچر کا جھوٹا پانی، پسینہ، تھوک ”پاک“ ہوتا ہے اور جس گھر میں حرام جانورپالے جاتے ہوں تو ان کا پسینہ، جھوٹا، تھوک ناپاک ہوتاہے۔ اس لئے حرام جانور کا پسینہ، تھوک وغیرہ جسم یا کپڑے پر لگ جائے تو دھونا پڑے گا لیکن حلال جانور کانہیں۔

کافرانسان، جنبی یاحائضہ(مرد عورت) کی ”روح“ ناپاک ہوتی ہے لیکن کپڑے، جسم، جھوٹا پانی، پسینہ، آنسو”پاک“ ہوتے ہیں۔ ان سے بات کرنے، ہاتھ ملانے اور چھونے کے بعدوضو یاغسل کی حاجت نہیں۔

طریقہ: پیشاب، پاخانہ، خون، قے،منی، مذی کپڑوں پر لگ جانے سے سارا کپڑا نہیں دھوتے بلکہ جہاں پرلگی ہے وہاں سے کلمہ پڑھے بغیر دھو لیں کیونکہ کلمہ پڑھنا ضروری نہیں۔ 3، 5یا7مرتبہ بھی نہیں بلکہ اتنا پانی بہائیں کہ ”نشان“ ختم اور”بدبو“ نہ آئے۔

٭ کپڑے کی موٹی دری کوپاک کرنے کے لئے نچوڑا نہیں جاتا بلکہ گندگی صاف کر کے پانی اُتنی جگہ پر ڈالیں جو نیچے سے نکل جائے۔فرش دھونے سے پاک ہو جاتا ہے۔

٭ غسل کرنے کے بعد نجاست(منی) والے کپڑے بھی پہن سکتے ہیں البتہ جسم گیلا ہو اور نجاست گیلی ہو کر جسم پر لگ جائے تو دھونی پڑے گی۔ اسی طرح پاک کپڑے جنبی بندے کے پہننے سے ناپاک نہیں ہوتے۔

٭ مشین میں دھوئے جانے والے کپڑے پاک ہیں۔اسلئے کہ سارے نجاست والے کپڑے مشین میں ڈالتے ہیں اور ایک ایک کر کے دھوئے جاتے ہیں یا آٹو میٹک مشین پرپانی علیحدہ سے ڈال کر دھو تے ہیں۔

٭ تیز بارش جب ہوتی ہے تو گٹر کا پانی بہہ کر بارش کا پانی گٹر اور سڑکوں پر رہ جاتا ہے، اس سے کپڑے اور جسم ناپاک نہیں ہوتے لیکن جہاں گٹر بند ہو نے سے فضلہ،گار یا گند باہر نکلا ہو تو کپڑے دھو کر نماز پڑھیں۔

3۔ پاک جگہ نماز پڑھنے کی جگہ پاک ہو، اگر فرش ناپاک ہو تو کپڑا بچھا کر نماز پڑھیں۔
ٹینکی: پانی کی ٹینکی پر ڈھکن ہونا چاہئے اوراگرٹینکی(کنواں، حوض) میں چوہا، چھپکلی، کوے چیل کی بیٹ وغیرہ گر جائے توپانی ناپاک ہوجاتا ہے۔

نمازیں: اگر کوئی جانور پانی میں گر کر مر گیا اوراسی پانی سے وضو یا غسل کر کے نمازیں پڑھیں، اگر جانور کا جسم پَھٹا نہیں تو پانچ(5) نمازیں اور اگر پُھول کر پھٹ گیا ہو تو تین(3) دن کی نمازیں دوبارہ پڑھیں۔

بدبُو: بَور کیا ہوا پانی نکلنے پرہلکی سی بدبودیتا ہے لیکن مسلسل آنے پر بدبو نہیں آتی، ایسا پانی پاک ہے۔

دوسری شرط: کپڑے پہن کر نماز ادا کرنا دوسری شرط ہے۔ اس دور میں ہر مُلک، ہر شعبے، ہر کام میں ”نمازی“ ہر طرح کا کپڑا پہن کر نماز پڑھ رہا ہے البتہ ایسے لباس میں نماز پڑھیں جس سے رکوع وسجود کرنے میں آسانی ہو۔ پینٹ ہاف شرٹ یا فُل شرٹ کے ساتھ پہنی ہوتو شرٹ کو پینٹ کے اندر رکھیں تاکہ سجدے کے دوران جسم پیچھے سے ننگا نہ ہو کیونکہ نماز میں مرد کے کاندھے اور ناف (تُنّی) سے لے کر گھٹنوں (گوڈے) تک کپڑا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح دھوتی باندھنے والا دھیان رکھے کہ نماز کے دوران گُھٹنوں سے لے کر ران تک کا حصہ نظر نہ آئے۔ کوئی ٹوپی پہن لے یا عمامہ (دستار) باندھ لے تو زیادہ ثواب ہے۔

عورت نماز میں سر ڈھانپنے کے لئے ایساکپڑا لے، جس سے اس کے بال نہیں بلکہ بالوں کی چمک بھی نظر نہ آئے، فُل بازو پہنے گی اور شلوار بھی پیروں تک ہو تاکہ سجدے میں جاتے ہوئے ٹخنوں سے اوپرکپڑا نہ ہو کیونکہ عورت کا چہرہ، دونوں ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ سارا جسم پردے میں ہونا ضروری ہے۔

تیسری شرط: بہت سے نمازی ٹرین یا جہاز میں سفر کرتے ہوئے ”قبلہ رُخ“ نہیں ہوتے حالانکہ نمازکے لئے قبلہ رُخ ہوناشرط ہے۔ اس دور میں نمازی کو چاہئے کہ قبلہ کا رُخ بتانے والا آلہ (compass) اپنے پاس ضرور رکھے البتہ ستارے کے ذریعے، مسلمان کی قبر کا رُخ دیکھ کر، مسجد کی محراب دیکھ کر یا کسی سے پوچھ کر”قبلہ“ کا اندازہ کرے اور پوچھے بغیر نماز نہ پڑھی جائے۔ ایسا وقت جہاں کوئی بتانے والا نہ ہو، ستاروں سے مدد لینی بھی نہ آتی ہو تو وہاں پر جدھر دل مطمئن ہو، اُدھر رُخ کر کے نماز پڑھ لے۔

قبلہ رُخ ہونا ضروری ہے لیکن اگر45درجے تک بھی قبلہ رُخ رہا تو نماز ہو جائے گی۔ 45درجہ ایسے ہے جیسے مشرق مغرب شمال جنوب ہوتے ہیں تو آپ”مغرب“ کی طرف نماز پڑھتے ہوئے شمال کی طرف یا جنوب کی طرف ”آدھا“ مُڑ (turn) گئے۔ نماز کے دوران قبلہ سے”سینہ“پھر جانے سے نماز نہیں ہوتی۔

چوتھی شرط: نماز وقت پر پڑھنا ہے، ہر مسلمان کوشش کرے کہ نمازوں کے اوقات کا کیلنڈر اپنے اپنے علاقے کے حساب سے بازار سے خرید لے لیکن پھر بھی مختصر بیان کر دیتے ہیں۔ پانچ نمازوں کا تعلق سورج کی حرکت کے ساتھ ہے لیکن کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ رات کے 12بجے بھی زوال کا وقت ہوتا ہے حالانکہ زوال کا تعلق سورج سے ہے چاند سے نہیں۔

* فجر کی نماز کا وقت صبح کے اُجالے سے شروع ہو تا ہے اور سورج کے نکلنے پر ختم ہو جاتا ہے۔
* ظہر کی نماز کا وقت سورج کے زوال سے شروع ہوتا ہے۔ لاہور میں پورا سال گرمیوں اور سردیوں میں 11:05سے لے کر12:16کے درمیان زوال کا وقت رہتا ہے۔اس لئے ظہر کی نماز کا وقت پورا سال 12:16پر شروع ہو جاتا ہے۔ ظہر کی نماز اہلسنت عوام کی آسانی کے لئے سمجھا دیتے ہیں کہ’’اہلحدیث حضرات‘‘ کی عصر کی اذان سے پہلے پہلے پڑھ لے تو بہت بہتر ہے اوراہلسنت کی عصر کی اذان سے15منٹ پہلے تک بھی پڑھی جا سکتی ہے۔

* عصر کا وقت ’’ غروب آفتاب‘‘ تک رہتاہے مگر سورج کے غروب ہونے سے 20منٹ پہلے پہلے پڑھ لیں اور جان بوجھ کر دیر کرنے والا گناہ گار ہے مگر نماز ہو جائے گی۔ کسی بھی وجہ سے( سفر ،بیمار کی خدمت) غروب آفتاب سے پہلے بھی اگرایک رکعت عصر نماز پڑھ لی توباقی رکعتیں پوری کر لے نماز ہو جائے گی۔

* مغرب کا وقت غروب آفتاب کے بعدسے تقریباً ایک گھنٹہ بیس منٹ تک رہتا ہے اور کچھ لوگ صرف جماعت سے نماز چھوٹ جائے یا تھوڑی تاخیر ہو جائے تو نماز نہیں پڑھتے۔ البتہ مغرب کی اذان کے بعد نماز جلدی پڑھنے کا حُکم ہے، اس لئے مکہ پاک اور مدینہ پاک والے جو نفل مغرب کی نماز سے پہلے پڑھتے ہیں وہ نفل ہم نہیں پڑھتے بلکہ نمازِ مغرب میں جلدی کرتے ہیں۔

* عشاء کا وقت غروب آفتاب سے تقریباً ایک گھنٹہ بیس منٹ کے بعد سے لے کر صبح فجر کی اذان تک ہوتا ہے لیکن آدھی رات سے پہلے پہلے اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو پڑھ لینی چاہئے ورنہ مکروہ ہے۔

فجر کی سنتیں: اگر جماعت میں ’’سلام‘‘ سے پہلے شامل ہو سکتا ہے تو پڑھ لے اور اگر نہ پڑھی جائیں توبعد میں فجر کی سنتوں کی قضا کر لے۔ البتہ نمازِ فجر قضا ہو گئی تو زوال سے پہلے پہلے سنتیں اور فرض دونوں پڑھتے ہیں اور اتنی دیر کر دی کہ ظہر کا وقت آ گیا تو فرض اداکریں گے مگر سنتیں نہیں۔

ظہر کی چار سنتیں: ’’ امام ہو یا عوام‘‘ (دونوں) اگر پہلے نہ پڑھ سکیں تونبی کریمﷺ کی اس حدیث کے مطابق پڑھ لیں۔ رسول اللہ ﷺ سے ظہر کے فرض سے پہلے والی 4سنتیں رہ جاتیں تو آپ انہیں ظہر کی دو سنتیں پڑھنے کے بعد پڑھتے۔(ابن ماجہ شریف)

* فجر کی سنتیں واجب کے قریب ہیں، ظہر کی سنتوں کی بھی تاکید ہے لیکن عصر و عشاء کی چار سنتیں نفلوں کی طرح ہیں۔ ظہر کی چار اور عصر و عشاء کی چار’’ سنتوں‘‘ میں فرق ہے۔ ظہر کی چار سنتوں کی دوسری رکعت میں التحیات پڑھ کر کھڑے ہو کر الحمد سے تیسری رکعت شروع کرتے ہیں لیکن عصر و عشاء کی چار سنتوں میں دوسری رکعت میں التحیات، درود پاک اور دعا کے بعد تیسری رکعت کھڑے ہو کر سبحانک اللہ سے شروع کرتے ہیں لیکن اگرکسی کو علم نہ تھا اور وہ عصر یا عشاء کی سنتیں’’ ظہر ‘‘کی سنتوں کی طرح پڑھ گیا توسنتیں ہو جاتی ہیں۔

زوال کاوقت: فرض، سنت ، نفل یا قضا ’’نماز‘‘ ان تین مکروہ (زوال) وقتوں میں نہیں پڑھتے۔ (1)سورج نکلنے کے بعد(20) منٹ تک (2) دن کے12بجے اوریہ پورا سال لاہور میں(11:05سے 12:16) (3) سورج کے غروب ہونے سے پہلے (20) منٹ البتہ نمازِ عصر کا پہلے بیان کر دیا گیا ہے۔

قضا نمازیں: نماز فجر کے بعد (سورج نکلنے سے پہلے تک)، نمازِعصر کے بعد (سورج کے غروب ہونے کے (20) منٹ سے پہلے تک) پڑھ سکتے ہیں حالانکہ نفل نہیں پڑھے جا سکتے۔

جنازہ: مکروہ اوقات میں ادا کر سکتے ہیں البتہ جان بوجھ کر اس وقت پڑھنا جائز نہیں۔

سجدہ تلاوت: مکروہ اوقات میں قرآن پڑھتے ہوئے ’’سجدہ تلاوت‘‘آ جائے تو کر سکتے ہیں۔ قرآن پاک میں کل 14سجدے ہیں، ہر مسلمان بالغ جب بھی سجدہ تلاوت کی آیت سُنے یا پڑھے تو سجدہ کرے۔ اگر کسی کو سجدہ تلاوت کی آیت کا علم نہیں اور نہ ہی کسی نے بتایا تو پھر معافی ہے۔

طریقہ: با وضو ، کپڑے پہن کر ،قبلہ رُخ، نیت سجدہ تلاوت کی کر کے ،کھڑی یا بیٹھی حالت میں ہاتھ اُٹھائے بغیر’’ اللہ اکبر‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں جائے اور پھر ’’ اللہ اکبر‘‘ کہتے ہی جب سجدے سے اُٹھا تو سجدہ تلاوت ادا ہو گیا۔

* نماز میں سجدہ تلاوت آ گیا تو اُسی وقت کیا جاتا ہے۔ البتہ کچھ لوگ قرآن پاک پڑھنے کے بعد 14 سجدے اکٹھے ادا کر دیتے ہیں یہ بھی جائز ہے لیکن بہتریہی ہے کہ ساتھ ساتھ ادا کریں۔اگرکوئی سجدہ تلاوت کی آیت ایک وقت میں بار بار پڑھے تو ایک دفعہ سجدہ اور اگر مختلف اوقات میں پڑھے تو ہر دفعہ سجدہ کرے۔

**رمضان میں فجر کی نماز پڑھنے لوگ جاتے ہیں، کافی وقت ہوتا ہے تو نفل پڑھنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ فجر کی اذان سے لے کر سورج طلوع ہونے تک ’’نفل‘‘ نہیں پڑھتے۔اس کے علاوہ جن لوگوں کی نمازیں قضا ہیں ان کو نفل نہیں پڑھنے چاہئیں بلکہ قضا نماز پڑھیں۔ کوئی بھی’’ نفل‘‘ شروع کرنے پر ساری زندگی پڑھنے نہیں پڑھتے بلکہ ہفتہ میں ایک بار بھی تہجد ، اشراق، تسبیح نماز وغیرہ پڑھ سکتے ہیں توضرورپڑھیں۔

تعداد: نفل تہجد ، اشراق، چاشت وغیرہ کوئی بھی ہوں ، کم از کم 2اور زیادہ کی کوئی حد فرض نہیں۔

سورت: نفلوں میں کوئی بھی خاص سورت تلاوت کرنے کا حکم نہیں بلکہ کوئی بھی سورت پڑھ سکتے ہیں۔

منع: تہجد کے نفل پڑھنے سے فجر کی’’ جماعت‘‘ چھوٹ جائے یا کام پر سستی پڑی رہے تو نہ پڑھیں۔

اشراق: کا وقت سورج طلوع ہونے کے 20منٹ بعد سے لے کرایک ڈیرھ گھنٹہ تک رہتا ہے۔

چاشت: کا وقت اشراق کا وقت ختم ہونے سے شروع ہو کر سورج کے زوال تک رہتا ہے۔

تہجد: عشاء کی نماز کے بعد سو گیا اور اگر نہ بھی سوئیں تو تہجد کے ’’نفل‘‘ پڑھ سکتے ہیں۔

اوابین: مغرب کے بعد اورنمازِ عشاء سے پہلے پڑھتے ہیں۔

پانچویں شرط: نبی کریم ﷺ نے کبھی زبان سے "نیت" نہیں کی، اس لئے زیادہ بہتر ہے کہ زبان سے نیت نہ کریں۔ عوام کا زبان سے نیت کرنا جائز ہے مگر’’ نیت‘‘ دل کے ارادے کو کہتے ہیں اورارادہ کرنا آسان ہے۔

ارادہ: ہر مسلمان قبلہ رُخ ہو کر (اکیلے یا امام کے پیچھے) ’’دل ‘‘میں ایک لمحے کیلئے سوچے کہ کیا پڑھنے لگا ہوں جیسے 2رکعت فجرفرض یا 4سنت ظہر یا 3فرض مغرب وغیرہ اور ساتھ ہی ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ دے۔

سوچ : امام اور عوام کا منہ’’ قبلہ ‘‘کی طرف ہی ہوتا ہے ، امام کی نیت امامت کروانے اور عوام کی نیت امام کے پیچھے’’ نماز‘‘ پڑھنے کی ہوتی ہے۔ اسلئے منہ قبلہ کی طرف اور پیچھے اس امام کے کہنے کی ضرورت نہیں۔

اتحاد اُمت: دو حرفی بات ہے دیوبندی اور بریلوی علماء اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں پر کفر کا فتوی ہے جو ملک حجاز، چار مصلے، 36اہلسنت علماء کرام(حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نے دیا اور وہ فتاوی واپس نہیں ہوئے، ان فتوؤں سے توبہ کرنے پر ہم ایک اہلسنت بن جائیں گے۔ اہلحدیث حضرات صرف اتنا بتا دیں کہ تقلید کو شرک فی الرسالت، بدعت و شرک کس نے کہا۔ اُس محدث اور مجتہد کا نام بتائیں جس نے ان کو محمدی نماز سکھائی؟

دُعا: یا اللہ پاکستان میں دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث کومُلک حجاز کے چار مصلے والے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے متفقہ عقائد پر اکٹھا فرما کر امت کو متحد کر دے۔ روزانہ7.30 PM پر کسی نہ کسی مسئلے پر پوسٹ لگائی جاتی ہے۔ہر پوسٹ کاپی یا شئیر کرنے کی اجازت ہے اور جس مسلمان (ما انا علیہ و اصحابی) /سُنّی کو سمجھ آئے وہ yes کا کمنٹ کرے ورنہ سوال پوچھ سکتا ہے۔شرائطِ نماز

ہرنماز (فرض، واجب، سنت، نفل) میں اللہ اکبر کہنے سے پہلے ان "شرائط" کاپڑھناسب مسلمانوں کو بہت ضروری ہے جہاں سمجھ نہ آئے اُس کو لکھ کرسوال کریں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایک نماز پڑھنے سے ہزاروں ”احادیث“ پر عمل ہوتا ہے اور نماز میں داخلہ ان چھ(6)شرطوں کے بغیرملتا نہیں۔

پہلی شرط: نماز کیلئے پہلی شرط پاک(طہارت) ہونا اور اس کی تین صورتیں(جسم، کپڑے اور جگہ پاک ہونا) ہیں۔ اس لئے عام مسلمان صرف نہانے کو پاک ہونا کہتے ہیں لیکن ”نماز“ کیلئے پاک ہونے کا مطلب ہے کہ ”پانی“سے ”وضو اور غسل“ اور اگر کبھی کہیں پانی نہ ملے تو مٹی سے”تیمم“کرنا۔

مسائل وضو: نماز ادا کرنے کے لئے بندہ ہمیشہ وضو میں رہتا ہے اگر وضو ٹوٹنے والے یہ کام نہ ہوں:

1۔ ضروری حاجت (nature call) کرنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ دونوں شرم گاہوں سے کچھ نکلنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اسلئے دونوں شرم گاہوں کو ضروری حاجت کے بعد دھویاجاتا ہے، البتہ اگرضروری حاجت کی بجائے ہوا خارج ہو تو شرم گاہ دھونے کی ضرورت نہیں لیکن وضو کرنا ضروری ہے۔

پریشانی: اگر شک ہو کہ شرم گاہ کو دھونے کے بعد بھی قطرہ آتا ہے، ایسی صورت میں پہلے (2یا3مرتبہ) ضروری حاجت کرنے کے بعد کپڑے وغیرہ سے شرم گاہ صاف کریں پھر کھانس کر یا تھوڑی دیر چل کردیکھیں اورجب محسوس ہوکہ قطرہ نکلا ہے لیکن کپڑاگیلانہیں ہوا تویہ آپ کا وہم ہے۔

حل: اگر قطرہ آئے توتھوڑی سی محنت کرنی ہو گی، حاجت سے فارغ ہونے کے بعد ”شرم گاہ“ کے سوراخ کے آگے ٹیشو پیپر وغیرہ رکھیں، جب قطرہ نکل جائے تو پھر وضو کریں کیونکہ قطرہ نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔

2۔ جسم کے کسی بھی حصّے سے خون نکل کر بہہ جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے ناک سے خون، پھنسی پھوڑے کی پیپ (کچا خون)، درد سے نکلا ہواآنکھ کا پانی اندرونی زخم کی پیپ وریشہ وغیرہ سے لیکن آنکھ میں تنکاپڑنے سے نہیں، تھوک میں خون دانتوں کی وجہ سے”سُرخ“ رنگ کاہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن اگر زرد رنگ کاہو تو پھر نہیں، زخم کی پٹی پر خون ظاہر ہوجائے، خون ٹیسٹ کروانے سے خون سوئی کے ذریعے سرنج میں آئے، ان سب سے ”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے۔

3۔ قے،اُلٹی(vomitting) سے جو معدہ (پیٹ) کا بدبو دار”گند“ منہ کے راستے باہر نکلتا ہے اس سے”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے لیکن جو تھوڑا ہو اور منہ کے اندر آ کر واپس چلا جائے تو اس کو ”قے“ نہیں کہیں گے، اس لئے وضو بھی نہیں ٹوٹتا۔

4۔ محض سونے یا نیند سے نہیں بلکہ شرم گاہ سے ہوانکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔ نیند کا ہر وہ انداز (style) جس سے ہوا خارج نہ ہو سکتی ہو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا جیسے (1) نماز میں التحیات پڑھنے کیلئے بیٹھتے ہیں (2) چوکڑی مار کربیٹھتے ہیں (3) toyota ویگن میں پھنس کربیٹھتے ہیں، ایسی صورتوں میں سو بھی جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا، البتہ لیٹے کھڑے بیٹھے سونے کا ہر وہ انداز جس میں ہوا خارج ہو سکتی ہے، اس پر وضو کرنا ہوگا۔

5۔ نماز میں اگر کوئی مسکرائے یہاں تک کہ اُس کے دانت بھی نظر آئیں تو وضو نہیں ٹوٹتا لیکن ہلکی سی ”ہی ہی ہا ہا“ کی آواز سنائی دینے پر”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے،جس پر دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ اس لئے نماز پڑھنے والے کے پاس ایسا کوئی عمل کرنے والاگناہ گار ہے جس سے وہ ہنس پڑے۔

غلط فہمیاں: جھوٹ، غیبت، بہتان،گالی نکالنا اور گندی باتوں سے”وضو“ نہیں ٹوٹتا البتہ وضو کر لے تو بہتر ہے۔ شرمگاہ کو کپڑے کے بغیر ہاتھ لگانے یا خارش کرنے، ناک یا منہ سے بلغم آنے، آنسوبہنے، پسینہ آنے، کھانا کھانے،خوب ہنسنے، عورت کا بچے کو دودھ پلانے سے”وضو“ نہیں ٹوٹتا۔ خنزیر کا نام لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور نہ ہی زبان پلید ہوتی ہے۔

غیر ضروری بال: مرد اور عورت کو بغلوں اور شرم گاہ کے بال صاف کرنے کا حُکم ہے اور یہ بال عورت عورت اور مرد کسی بھی شے سے صاف کر سکتے ہیں کوئی گناہ نہیں ہے۔

مسئلہ: یہ بال مرد اور عورت ناف کے نیچے سے لے کر شرم گاہ تک صاف کریں۔کم از کم کا تعین نہیں، زیادہ سے زیادہ 40دن کے اندر یہ بال صاف کرنے ہوتے ہیں ”لیکن“ 40دن گذرنے کے بعد غیر ضروری بال صاف نہ کرنے والا مسلمان گناہ گارہو گا مگر ”نماز“ ہو جائے گی کیونکہ نماز نہ ہونے سے ان بالوں کا کوئی تعلق نہیں۔

فرائض وضو: مسائل علماء کرام کے پاس جا کر سیکھنے سے آتے ہیں، البتہ عوام وضو تقریباً سنت کے مطابق کرتی ہے لیکن وضو میں (3) اعضاء دھونے اور سر کا مسح کرنے میں احتیاط کرے:

1۔ تمام چہرہ دھونا اور داڑھی کوٹونٹی یا نلکے کے نیچے رکھ کر جلد تک پانی پہنچائیں۔ 2۔ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھو ئیں 3۔ ہاتھ پرپانی لگا کر سر کے 1/4(چوتھائی) حصے پر لگائیں جسے مسح کہتے ہیں۔ 4۔ دونوں پاؤں کا مسح شیعہ حضرات کرتے ہیں لیکن اہلسنت ٹخنے، ایڑیاں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کر کے اچھی طرح دھوتے ہیں۔

٭ نہر، دریا یا باتھ روم میں نہاتے وقت یہ چار وں فرض دُھل گئے تو نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
٭ اگر نیت نہ کی اور بسم اللہ نہ پڑھی تو ”وضو“ ہو جائے گا لیکن بہتر ہے دونوں کام کر لئے جائیں۔
٭ نہانے کے بعد حاجت ضروریہ پیش آئی تو”وضو“ ٹوٹ جائے گا۔
٭ اگر دانت پیلے ہوں یامنہ سے سگریٹ، پیاز، مولی کی بدبو آتی ہو تو مسواک، ٹوتھ پیسٹ، منجن وغیرہ سے صاف کریں کیونکہ بدبو سے فرشتوں اور نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے اور تکلیف پہنچانا حرام ہے اور ایک دفعہ مسواک، منجن، ٹوتھ پیسٹ کرنے سے دانت جتنی دیر تک صاف رہیں گے 70نمازوں کا ثواب ملتا رہے گا۔

بہتر صورتیں: جس کو قطرہ آتا ہے وہ نماز کے لئے وضو پہلے کرے۔گھر سے وضو کر کے مسجد میں جانابہتر ہے، مسجد میں وضو کرنے میں ایک دوسرے پر پانی کے چھینٹے پڑنے کے علاوہ بھی کئی پریشانیاں ہیں۔نلکے سے وضو کرتے ہوئے10یا12لٹر پانی ضائع ہونے سے بچانے کیلئے ٹونٹی کم کھولی جائے یا وضو کرنے کے لئے ”لوٹا“ استعمال کیا جائے۔ با وضو رہنے کے بہت سے فضائل ہیں اورنبی کریمﷺ وضو خاموشی سے کرتے۔ اسلئے مشورہ ہے کہ ہمیشہ باوضو رہیں اور وضو ”خاموشی“ سے کریں حالانکہ علماء نے دعائیں پڑھنے کو جائز فرمایا ہے۔

مسائل غسل: غسل اسلئے فرض ہوتا ہے کہ ہم یہ کام ہوتے ہیں:

1۔ رات کو نیند کی حالت میں پیشاب والے سوراخ سے گاڑھاپانی (منی) نکل آئے اور کپڑوں پر نجاست کے نشان نظر آئیں جسے ’’اح**ام‘‘ کہتے ہیں۔

2 ۔ اپنے ہاتھ(مشت زنی، ہتھ رسی، ایک ہاتھ سے نکاح، کھلونا) یا اس طرح کے کسی بھی انداز سے جب اپنی ’’شرم گاہ‘‘ سے کھیلنے پر گاڑھا پانی لذت کے ساتھ کود کر (منی) نکل آئے۔

3 ۔ لڑکا لڑکے کے ساتھ یا لڑکی لڑکی کے ساتھ گناہ کرے، مرد عورت کے پچھلے سوراخ کو استعمال کرے، عورت اور مرد کا ایک دوسرے کی شرم گاہ کو چومنا چاٹنا، جس سے نجاست گندگی منہ کو لگ جائے تو منہ ’’پلید‘‘ ہو جاتا ہے، یہ جانوروں کی طرح جنسی تسکین کی بدترین (حرام) صورتیں ہیں اور روح کو ناپاک کر دیتی ہیں۔

4 ۔ میاں بیوی اپنی جسمانی و نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے صحبت کریں گے تو ایک دوسرے میں گُم ہوتے ہی غسل کرنا پڑے گا چاہے ابھی انزال یا اختتام کو نہ پہنچے ہوں اور یہ عمل غیر شادی شدہ بھی کریں گے توان کے لئے یہ عمل حرام(زنا) ہے لیکن ’’ غسل ‘‘ان کو بھی کرنا پڑے گا۔

فارمولہ: غسل کے لئے شرط یہی ہے کہ جب پانی(منی) اُچھل کر جھٹکے سے باہر نکل کر بندے کا نفسانی شوق پورا کردے تو اس پر’’غسل ‘‘کرنا پڑتا ہے اوراگر گندہ خیال آنے پر شہوت بڑھ جائے یا عورت کو چھونے سے لیسدار پانی (مذی) شرم گاہ سے نکلا تونماز کے لئے ’’وضو‘‘ کرنا پڑتا ہے۔

حالت : سونے کے دوران محسوس ہوا کہ اح**ام ہو گیا ہے مگر جب بیدار ہوا تو کپڑے پر نشان نہیں تھے تو غسل نہیں کرتے اور اگر خواب بھی نہیں دیکھا لیکن صبح کپڑوں پر نشان تھے تو غسل کرنا پڑے گا۔

بیماری: عورت کو لیکوریا اور مرد کو جریان جیسی بیماری کی وجہ سے’’غسل‘‘ نہیں ’’وضو‘‘ کرنا ہوتا ہے۔عورت کے لئے غسل کی دو صورتیں یہ بھی ہیں:

1۔ خون حیض: یہ خون عورت کی شرم گاہ سے آتا ہے جس کے پہلی بار آتے ہی عورت بالغ ہو جاتی ہے۔حیض تین دن رات سے کم اور دس رات دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس مدت سے کم یا زیادہ ہو تو اس کو’’ استحاضہ‘‘ کہیں گے۔

بیماری: استحاضہ میں عورت کی شرم گاہ کے اندر کی کوئی رگ زخمی ہو جاتی ہے جس سے خون آتا ہے۔

علامت: استحاضہ کے خون میں بدبو نہیں ہوتی اور حیض کے خون میں بدبو ہوتی ہے۔استحاضہ والی عورت سے مردصحبت کر سکتا ہے اورعورت نماز بھی پڑھے گی مگر ہر نماز کے لئے ’’وضو‘‘ نیا کرے گی۔

دو حیض: عورت کو ایک ماہ میں دو حیض بھی آ سکتے ہیں۔ حیض کے دوران نمازیں پڑھنا گناہ ہے اور بعد میں بھی ان نمازوں کی معافی ہے البتہ حیض میں چُھوٹے رمضان کے روزے بعد میں رکھنے پڑتے ہیں۔

حساب: ایک عورت کو دو دن خون آیا پھر بند ہو گیا، پھر چھٹے دن خون آیا اور بیچ کے تین دن پاک رہی لیکن نمازیں پڑھتی رہی تو ایسی عورت کا یہ عرصہ حیض کا تھا اور نمازیں پڑھنے پر گناہ گار نہیں ہو گی۔
اسی طرح حیض نہیں تھالیکن دو دن خون آنے سے نمازیں نہیں پڑھیں تو ان نمازوں کی قضا کرنی پڑے گی کیونکہ کچھ عورتوں کے مخصوص دن بدل بھی جاتے ہیں اور ان کو اپنے مزاج اور عادت کے مطابق ’’حیض ‘‘اور ’’استحاضہ‘‘ میں فرق کرنے کے علاوہ اپنی نمازوں اور روزوں کا حساب بھی رکھنا ہو گا۔

2۔ نفاس: اسی طرح عورت کو بچہ پیدا ہونے پر اس کی شرم گاہ سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے جس کو نفاس کا خون کہتے ہیں۔ یہ خون پانچ منٹ میں بھی بند ہو سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت40دن تک ہوتی ہے، 40دن کے بعد اس خون کونفاس کا نہیں بلکہ’’ استحاضہ‘‘ کہتے ہیں۔ 40دن کے بعد یا جس وقت خون بند ہو جائے، اسی وقت سے عورت غسل کر کے نماز، روزہ کرے اور مرد سے صحبت ’’جائز‘‘ ہے۔

حل: جس مرد یا عورت کا مسلسل خون (بواسیر، نکسیر، استحاضہ)، مسلسل پھنسی پھوڑے سے پیپ، مسلسل پیشاب، مسلسل ہوا گیس وغیرہ ، 2رکعت یا 4رکعت’’ نماز‘‘پڑھتے وقت بھی نہ رُکے تواس کو ’’معذور‘‘کہتے ہیں اور جب تک یہ’’ معذوری‘‘ہے اگر ظہر کے وقت وضو کیاتو عصر تک وضو رہے گا اور عصر کا وضو کیا تو مغرب تک رہے گا۔ اسی ایک وضو سے فرض نماز، قضا نماز، نفل، قرآن کی تلاوت، سجدہ تلاوت کرتا رہے البتہ ’’معذوری‘‘ کی وجہ سے نہیں بلکہ وضو توڑنے والی کوئی اور صورت (پیشاب، پاخانہ،قے، اُلٹی،مذی، نماز میں ہنسنا،خون کا نکل آنا، ہوا کا نکل جانا وغیرہ)ہو تو دوبارہ وضو کریں۔یہ بھی یاد رہے کہ معذور مسلمان کو امام نہیں بنانا چاہئے اور امام کو اس طرح کی بیماری میں امام بننا نہیں چاہئے کیونکہ بیماری کا علم امام کو ہو گا عوام کو نہیں۔

آسانی: اسی معذوری میں نماز کے لئے ’’ پاک‘‘ کپڑا پہنا لیکن نماز سے فارغ ہونے سے پہلے وہ کپڑا بھی ’’ناپاک‘‘ ہوگیا تو اس کو بغیر دھوئے نماز پڑھ سکتے ہیں۔

ممانعت: جس پر غسل ضروری ہو، اس کیلئے قرآن پاک کو پکڑنا، پڑھنا اور چھونا منع ہے۔ اگر قرآن پاک پکڑنا پڑے تو پاک کپڑے سے پکڑ کر ادھر ادھر رکھ سکتے ہیں۔ مسجد میں جانا منع ہے لیکن کسی مدرسے یا مرکز میں جا سکتے ہیں۔حائضہ اور نفاس والی عورت اگر ٹیچر بھی ہو توکسی کو قرآن پاک نہ پڑھائے اور بہت ضروری ہو تو ناظرہ پڑھاتے ہوئے قرآن کا ایک ایک لفظ الگ الگ کر کے طالبات کو سمجھا سکتی ہے۔

وقت: بہتر یہی ہے کہ جنابت کاغسل جلد کر لیا جائے لیکن اگرعشاء کے بعد غسل کی حاجت ہوئی تو نماز فجر سے پہلے تک ناپاک رہے تو کوئی بات نہیں لیکن اگرنماز فجر قضا ہوگئی تو سخت گناہ گار ہیں۔

مشورہ: حیض یا نفاس والی عورت نماز کے پانچ وقت ’’مصلے‘‘ پر بیٹھ کر درود، کلمہ، استغفار، دعائیں پڑھے کیونکہ مصلے پر بیٹھنا منع نہیں اور نہ ہی تسبیح پکڑنا اور پڑھنا منع ہے ۔ قرآن پاک پڑھنا منع ہے البتہ رات کو سونے سے پہلے آیت الکرسی، الحمد شریف وغیرہ ’’قرآن‘‘سمجھ کر نہیں بلکہ دُعا کی نیت سے پڑھی جا سکتی ہیں۔

اجازت: حیض اور نفاس والی عورت کھانا پکا سکتی ہے، بچے کو دودھ پلا سکتی ہے، صاف ستھرا رہنے کے لئے نہا بھی سکتی ہے، میاں بیوی آپس میں دل لگی کر سکتے ہیں لیکن صحبت نہیں کر سکتے اور اگرکوئی اپنی بیوی سے حیض میں صحبت کر لے تو غریب آدمی’’ توبہ‘‘ کرے اور امیر آدمی کچھ ’’صدقہ‘‘ بھی کرے۔

غسل سنت: ہر فضیلت والے دن اور رات میں غسل کرنا بہترہے اورنبی اکرمﷺ نے جمعہ یاعیدین کی نماز کیلئے غسل کرنے کا فرمایا ہے۔ غسل کرنے کے بعد نبی کریمﷺ وضو نہیں کرتے تھے۔

آسان طریقہ: جب بھی نہائیں 3 فرض پورے کر لیں۔( 1) منہ بھر کرکلی (غرغرہ کرنا) (2) ناک کی ہڈی تک پانی ڈال کرجمی ہوئی مٹی صاف کرنا (3) سارے بدن کو مَل مَل کر ایسے دھونا کہ کوئی بال بھی خشک نہ رہے۔

بہتر: غسل کرنے سے پہلے دونوں ہاتھ دھو کر جسم پر لگی’’گندگی‘‘صاف کر کے فرش پر پانی بہا دیں ، اس کے بعد اگر جسم اور فرش پرسے چھینٹے اُڑ کر بالٹی میں بھی پڑ جائیں تو پانی ناپاک نہیں ہو گا۔وضو کریں، 2 فرض غرغرہ اور ناک میں پانی اچھے طرح ڈالیں اور سر سے لے کر پاؤں تک سارے جسم پر پانی بہا ئیں۔

اہم : سارے جسم کو دھونا ضروری ہے ، اس لئے ناک میں جمی مٹی اور ہاتھوں میں لگا ہوا آٹا، ناک کان کی بالیاں اور نیل پالش وغیرہ اتار کر ’’غسل‘‘ کریں البتہ جو رنگ یاقلعی کا کام کرتا ہے اور رنگ ہاتھوں وغیرہ پر اسطرح جَم گیا ہو کہ اتارنے پر زخم بن جائے گاتو معافی ہے ۔ایسی اشیاء جیسے مہندی یا تیل بالوں اور جسم پرلگا ہولیکن پانی اس کے باوجود جسم اور بالوں کی جڑوں تک پہنچ جاتاہے،اس سے غسل ہو جاتا ہے۔

* عورتوں کی چوٹی گُندھی ہوئی ہو تو کھولنے کی ضرورت نہیں بلکہ بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچائے۔ اگر بال کُھلے ہوئے ہوں یا گُیسو چوٹی سے علیحدہ گُندھے ہوئے ہوں تو ان کو کھول کر غسل کرے۔

آسان تیمم: نمازی کو وضو یا غسل کرنے کی حاجت ہو لیکن ”پانی“کافی تلاش کے باوجود نہ ملے اور نماز قضا ہونے لگے تووہ نماز نہیں چھوڑتا بلکہ قانون کے مطابق”تیمم“ کرکے نماز پڑھتاہے۔ اگر کپڑے اُس وقت ناپاک ہیں تو بدل لیتا ہے اور اگردوسرے کپڑے بھی پاس نہ ہوں تو نمازبھی ناپاک کپڑوں سے ادا کر لیتا ہے۔

وجوہات: کتابوں میں ”تیمم“ کرنے کی کئی وجوہات لکھی ہیں جیسے(1) ہسپتال کے بیڈ پر پڑا نمازی”پانی“ کا استعمال نہ کر سکتا ہو (2) سفر میں پانی پینے کے لئے ہو مگر وضو اور غسل کرنے سے پانی ختم ہو جائے اور مزید پانی ملنے کی امید نہ ہو (3) پانی کے استعمال سے بیماری، زخم یا تکلیف بڑھنے کا اندیشہ ہو وغیرہ۔

طریقہ مسلمان بسم اللہ پڑھ کر پاک صاف ہونے کی نیت سے مٹی کے ڈھیلے کوایک دفعہ دونوں ہاتھوں پر مَل کر اپنے چہرے پر مَلے اوروہ ہاتھ داڑھی کے بالوں (خلال) سے بھی گذارے۔ دوسری دفعہ مٹی کا ڈھیلا ہاتھوں پر مَل کر بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کی کہنیوں تک مَلے اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کہنیوں تک مَلے (مسح)، اس کو تیمم کہتے ہیں۔ یہ عمل دیکھ کر سیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، اسلئے کسی عالم سے ضرورسیکھا جائے۔

حصے: جسم کے صرف دو حصے چہرے اور ہاتھوں پر مٹی سے”مسح“ کرنے کو تیمم کہتے ہیں۔ تیمم میں یہ آسانی ہے کہ ”مٹی“ کے ایک ڈھیلے(روڑا) سے ساری زندگی اور سارے لوگ ”تیمم“ کر سکتے ہیں۔

٭ پانی جب تک نہ ملے تیمم کر کے نمازیں پڑھی جائیں اورجب پانی مل جائے تو وضو کریں۔ تیمم ان باتوں سے ٹوٹ جاتا ہے جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اسلئے تیمم ٹوٹنے پر ”نماز“ پڑھنے کیلئے پھر تیمم کیا جائے۔

٭ اگر کسی کے پاس پانی ہو

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Azm posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share