مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گُنہگار ہُوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خودار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو پتھر یونہی رستے میں پڑے رہتے ہیں
اُن کے سینے میں بھی شہکار ہُوا کرتے ہیں
صبح کی پہلی کرن جن کو رُلا دیتی ہے،
وہ ستاروں کے عزادار ہُوا کرتے ہیں
جن کی آنکھوں میں سدا پیاس کے صحرا چمکیں
در حقیقت وہی فنکار ہُوا کرتے ہیں
شرم آتی ہے کہ دُشمن کِسے سمجھیں محسن
دُشمنی کے بھی تو معیار ہُوا کرتے ہیں
(محسن نقوی )
#شہباز
23/10/2023
Truth
23/10/2023
تم جہاں اپنی مسافت کے نشاں چھوڑ گئے
وہ گزر گاہ مری ذات کا ویرانہ تھا
زبیر رضوی
#شہباز
20/10/2023
Gaza destruction by n**i zionists
19/10/2023
دین کی مضبوطی اس کو کہتے ہیں
19/10/2023
18/10/2023
احمد فراز
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تری نذر کر رہا ہوں
یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کے نئے سفر میں
تجھے کسی وقت یاد آئیں
تو ایک اک حرف جی اٹھے گا
پہن کے انفاس کی قبائیں
اداس تنہائیوں کے لمحوں
میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں
مجھے ترے درد کے علاوہ بھی
اور دکھ تھے یہ مانتا ہوں
ہزار غم تھے جو زندگی کی
تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں
مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں
درد کی ریت چھانتا ہوں
مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر
یہ ریت رنگ حنا بنی ہے
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں
یہ آہ سوزاں گھٹا بنی ہے
یہ درد موج صبا ہوا ہے
یہ آگ دل کی صدا بنی ہے
اور اب یہ ساری متاع ہستی
یہ پھول یہ زخم سب ترے ہیں
یہ دکھ کے نوحے یہ سکھ کے نغمے
جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں
جو تیری قربت تری جدائی
میں کٹ گئے روز و شب ترے ہیں
وہ تیرا شاعر ترا مغنی
وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں
وہ جس کے وہ جس کے انداز خسروانہ تھے
اور ادائیں غریب سی تھیں
وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی
خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں
نہ پوچھ اس کا کہ وہ دوانہ
بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے
وہ کوہ کن تو نہیں تھا لیکن
کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے
وہ تھک چکا تھا اور اس کا تیشہ
اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے
#عامر
16/10/2023
. آہستہ چل زندگی، ابھی کئی قرض چکانا باقی ہے .
کچھ درد مٹانا باقی ہے کچھ فرض نبھانا باقی ہے
رفتار میں تیرے چلنے سے کچھ روٹھ گئے کچھ چھوٹ گئے
روٹھوں کو منانا باقی ہے روتوں کو ہنسانا باقی ہے
.. کچھ حسرتیں ابھی ادھوری ہیں،کچھ کام بھی اور ضروری ہے...
خواہشیں جو گھٹ گئیں اس دل میں،ان کو دفنانا باقی ہے ..
کچھ رشتے بن کر ٹوٹ گئے کچھ جڑتے جڑتے چھوٹ گئے
ان ٹوٹتے جڑتے رشتوں کے زخموں کو مٹانا باقی ہے
تو آگے چل میں آتا ہوں . کیا چھوڑ تجھے جی پاونگا
ان سانسوں پہ حق ہے جن کا . ان کو سمجھانا باقی ہے
# عامر
13/10/2023
سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے، ہم اپنے کام سے
نشّے میں ڈگمگا کے نہ چل، سیٹیاں بجا
شاید کوئی چراغ اُتر آئے بام سے
غصّے میں دوڑتے ہیں ٹرک بھی لدے ہوئے
میں بھی بھرا ہُوا ہوں بہت انتقام سے
دشمن ہے ایک شخص بہت، ایک شخص کا
ہاں عشق ایک نام کو ہے ایک نام سے
میرے تمام عکس مرے کرّ و فر کے ساتھ
میں نے بھی سب کو دفن کیا دھوم دھام سے
مجھ بے عمل سے ربط بڑھانے کو آئے ہو
یہ بات ہے اگر، تو گئے تم بھی کام سے
رئیس فروغ
#عامر
13/10/2023
تیری دوا نہ جینیوا میں ہے نہ لندن میں ۔
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے ۔
سُنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات ۔
خودی کی پرورش ولذت نمود میں ہے
علامہ اقبال نے ا931 میں یہ اشعار فلسطین اور عربوں کے لیے کہے تھے
نمود: عمل میں لانے کی لذت ۔
مطلب: علامہ کہتے ہیں کہ میں نے تجربہ کار، اور بزرگ لوگوں سے یہ بات سن رکھی ہے کہ اگر کوئی غلام قوم غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے پہلے اپنے اندر اپنی خودی کو بیدار کرنا چاہیے اپنی خود آگاہی حاصل کر کے اپنی قوتوں او ر صلاحیتوں سے آشنا ہونا چاہیے اور پھر ان کو عمل میں لا کر آقاؤں اور مالکوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے ۔ اس میں آزادی کا راز پوشیدہ ہے ۔ اقوام متحدہ یا انگریزوں کے سامنے مطالبات پیش کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔
#عامر
12/10/2023
’’قطعہ‘‘
سلیم احمد
بہت تیزی سے گُزری جا رہی ہے
یہ سانسیں زِندگی ہیں رائیگاں کی
اَگر پِھر ہو تِرے مِلنے کا اِمکاں
مَیں باگیں کھینچ لُوں عُمرِ رَواں کی
#عامر
۔
11/10/2023
وقت اچھا بھی آے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ناصر کاظمی
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
یاد کے بےنشان جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی
سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
#عامر
10/10/2023
نصیبِ عشق، دِلِ بے قرار بھی تو نہِیں
بہت دِنوں سے تِرا اِنتظار بھی تو نہِیں
تلافیٔ ستمِ روز گار کون کرے
تُو ہم سُخن بھی نہِیں، راز دار بھی تو نہیں
زمانہ پُرسشِ غم بھی کرے تو کیا حاصل
کہ تیرا غَم ــــ غمِ لیل و نہار بھی تو نہِیں
تِری نگاہِ تغافل کو کون سمجھائے
کہ اَپنے دِل پہ مُجھے اِختیار بھی تو نہِیں
تو ہی بتا کہ تِری خامشی کو کیا سمجُھوں
تِری نِگاہ سے کُچھ آشکار بھی تو نہِیں
وفا نہِیں، نہ سہی ، رسم و راہ کیا کم ہے
تِری نظر کا مگر اعتبار بھی تو نہِیں
اگرچہ دِل تِری منزل نہ بن سکا اے دوست
مـگر چراغِ سرِ رہگُزار بھی تو نہِیں
بہت فسردہ ہے دِل ، کون اِس کو بہلائے
اُداس بھی تو نہیں ، بے قرار بھی تو نہِیں
تو ہی بتا ، تِرے بے خانماں کِدھر جائیں؟
کہ راہ میں شجرِ سایہ دار بھی تو نہیں
فلک نے پھینک دیا برگِ گُل کی چھاؤں سے دُور
وہاں پڑے ہیں جہاں خار زار بھی تو نہِیں
جو زندگی ہے تو بس تیرے دَرد مندوں کی
یہ جبر بھی تو نہِیں ، اِختیار بھی تو نہِیں
وفا ذریعۂ اِظہارِ غَم سہی ناصرؔ
یہ کاروبار ، کوئی کاروبار بھی تو نہ نہِیں
شاعر : ناصرؔ کاظمی
#عامر
09/10/2023
سر اٹھانے کا کیا ہنر آیا
بس یہ سمجھو میں دار پر آیا
آئینے پر نظر پڑی یکدم
دیکھا دیکھا کوئی نظر آیا
خامشی روح تک اتر آئی
تو مری بات میں اثر آیا
کل گیا تھا میں ایک گلشن میں
پھول شاخوں پہ باندھ کر آیا
اس نے پوچھا کہ کون، فہمی کون ؟
اور میں سیڑھیاں اتر آیا
شوکت فہمی
#شہباز
09/10/2023
ساحل سے سمندر کا تو رشتہ ہے پُرانا
تم بھول گئے میری طرف لوٹ کے آنا
رکھنا ہے تمھیں یاد ہر اک بات بُھلا کر
میں بُھول بھی جاؤں تو مجھے یاد دلانا
اک شخص کی امید میں کھوئے ہوئے رہنا
اک یاد کی دہلیز پہ دن اپنا گنوانا
ہم جاگتے لمحوں میں تمھیں بھول چُکے ہیں
سوجائیں تو ہرگز نہ کبھی خواب میں آنا
تم موجِ ہوا ہو مجھے معلوم ہے لیکن
دیکھو یہ مری شمعِِ تمنا نہ بُجھانا
جب کچھ نہ ترے پاس رہے غم کے علاوہ
اک ہجر پُرانے میں نیا ہجر ملانا
رکھا نہ بھرم اُس نے سحر میری وفا کا
کہتی بھی رہی میں کہ مرا ساتھ نِبھانا
نادیہ سحر
#عامر
08/10/2023
ہوا کا تخت بچھاتا ہوں رقص کرتا ہوں
بدن چراغ بناتا ہوں رقص کرتا ہوں
میں بیٹھ جاتا ہوں تکیہ لگا کے باطن میں
خود اپنی بزم سجاتا ہوں رقص کرتا ہوں
زمین ہانپنے لگتی ہے اک جگہ رک کر
میں اس کا ہاتھ بٹاتا ہوں رقص کرتا ہوں
مرا سرور مجھے کھینچتا ہے اپنی طرف
میں اپنے آپ میں آتا ہوں رقص کرتا ہوں
میں جانتا ہوں مجھے کیسے شانت ہونا ہے
کہو تو ہو کے دکھاتا ہوں رقص کرتا ہوں
مری مثال دھواں ہے بجھے چراغوں کا
جب اپنا سوگ مناتا ہوں رقص کرتا ہوں
عجیب لہر سی انجمؔ مرے خمیر میں ہے
جسے وجود میں لاتا ہوں رقص کرتا ہوں
انجمؔ سلیمی
#شہباز
08/10/2023
یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتا ہے
سفر میں اب کے یہ تم تھے کہ خوش گمانی تھی
یہی لگا کہ کوئی ساتھ ساتھ چلتا ہے
غلاف گل میں کبھی چاندنی کے پردے میں
سنا ہے بھیس بدل کر بھی وہ نکلتا ہے
لکھوں وہ نام تو کاغذ پہ پھول کھلتے ہیں
کروں خیال تو پیکر کسی کا ڈھلتا ہے
رواں دواں ہے ادھر ہی تمام خلق خدا
وہ خوش خرام جدھر سیر کو نکلتا ہے
امید و یاس کی رت آتی جاتی رہتی ہے
مگر یقین کا موسم نہیں بدلتا ہے
منظور ہاشمی
#عامر
08/10/2023
ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
پھر اُس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں
وہ جس کے نام کی نسبت سے روشن تھا وجود
کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں
جنہیں متاعِ دل و جاں سمجھ رہے تھے ہم
وہ آئینے بھی ہوئے بے حجاب آنکھوں میں
عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اڑتی ہے
وہ دن بھی تھے کے کِھلے تھے گلاب آنکھوں میں
مری غزال تری وحشتوں کی خیر کی ہے
بہت دنوں سے بہت اِضطراب آنکھوں میں
نہ جانے کیسی قیامت کا پیش خیمہ ہے
یہ الجھنیں تیری بے انتساب آنکھوں میں
افتخار عارف
#عامر
07/10/2023
مجھ کو جادو نہیں آتا تھا، پری سے سیکھا
بن آگیا آپ بھی پتھر کی بنا دی وہ بھی
فیصل عجمی
کچھ پرندے ہیں نہیں پیڑ کے عادی وہ بھی،
چھوڑ جائیں گے کسی روز یہ وادی وہ بھی
خواب میں کچھ در و دیوار بنا رکھے ہیں،
جانے کیا سوچ کے تعمیر گِرا دی وہ بھی
میرے گھر میں نئی تصویر تھی اس چہرے کی،
رنگ دیوار کا بدلا تو ہٹا دی وہ بھی
میں نے کچھ پھول بناے تھے مِٹا ڈالے ہیں،
ایک تتلی بھی بنای تھی اڑا دی وہ بھی
مجھ کو جادو نہیں آتا تھا پری سے سیکھا،
بن گیا آپ بھی ... پتھر کی بنا دی وہ بھی
میں نے اِک راہ نِکالی تھی زمانے سے الگ،
تو نے آتے ہی زمانے سے مِلا دی وہ بھی
فیصل عجمی
#عامر
06/10/2023
فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر
ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں
خود انہی کو پکاریں گے ہم دور سے راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے
ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے اور گلیوں میں قصداً بھٹک جائیں گے
ہم وہاں جا کے واپس نہیں آئیں گے ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے
جیسے ہی سبز گنبد نظر آئے گا
بندگی کا قرینہ بدل جائے گا
سر جھکانے کی فرصت ملے گی کسے خود ہی پلکوں سے سجدے ٹپک جائیں گے
نام آقا جہاں بھی لیا جائے گا
ذکر ان کا جہاں بھی کیا جائے گا
نور ہی نور سینوں میں بھر جائے گا ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے
اے مدینے کے زائر خدا کے لیے
داستان سفر مجھ کو یوں مت سنا
بات بڑھ جائے گی دل تڑپ جائے گا
میرے محتاط آنسو چھلک جائیں گے
ان کی چشم کرم کو ہے اس کی خبر
کس مسافر کو ہے کتنا شوق سفر
ہم کو اقبالؔ جب بھی اجازت ملی
ہم بھی آقا کے دربار تک جائیں گے
اقبال عظیم
#عامر
05/10/2023
زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے
اب جدھر دیکھیے لگتا ہے کہ اس دنیا میں
کہیں کچھ چیز زیادہ ہے کہیں کچھ کم ہے
آج بھی ہے تری دوری ہی اداسی کا سبب
یہ الگ بات کہ پہلی سی نہیں کچھ کم ہے
شہریار
#عامر
04/10/2023
بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے
بچا ہے جو تجھ میں میرا حصہ نکالنا ہے
یہ روح برسوں سے دفن ہے تم مدد کرو گے
بدن کے ملبے سے اس کو زندہ نکالنا ہے
نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہک
مجھے سخن بیچنا ہے خرچہ نکالنا ہے
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
یہ تیس برسوں سے کچھ برس پیچھے چل رہی ہے
مجھے گھڑی کا خراب پرزہ نکالنا ہے
خیال ہے خاندان کو اطلاع دے دوں
جو کٹ گیا اس شجر کا شجرہ نکالنا ہے
میں ایک کردار سے بڑا تنگ ہوں قلم کار
مجھے کہانی میں ڈال غصہ نکالنا ہے
عمیر نجمی
#شہباز
04/10/2023
آ جا ، کہ ابھی ضبط کا ، موسم نہیں گزرا
آ جا ، کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ھے !
خوشبو کے جزیروں سے ، ستاروں کی حدوں تک
اِس شہر میں سب کچھ ھے ، بس تیری کمی ھے
حالات دنیا نے کب چاک کیا دل.......؟
تیرے ہجر کے غم میں میری سانس تھمی ہے
تو بہار، تو ہی بارش، تو ہی موسم ہے گرم و سرد
یہ دنیا تو تیرے بن دنیا ہی نہیں ہے
محسن یہ تیرے لفظ ہیں یا پاگل کا حال دل
تیرے لفظوں میں میرا درد، اور ایک شخص کی کمی ہے
محسن نقوی
#عامر
03/10/2023
اب جو بکھرے تو بکھرنے کی شکایت کیسی ؟
خشک پتوں کی ہواؤں سے رفاقت کیسی ؟
میں نے ہر دور میں بس اس سے محبت کی ہے،
جرم سنگین ہے اب اس میں رعایت کیسی ؟
زندگی تجھ کو تو لمحوں کا سفر کہتے تھے،
راہ میں آ گئی صدیوں کی مسافت کیسی ؟
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوے چراغ تھے ہم
جو بجھ گئے تو ہوائوں سے شکایت کیسی
محسن نقوی
#عامر
02/10/2023
دست عیسیٰ بھی وہی بازوئے قاتل بھی وہی
کتنا نازک ہے چراغوں سے ہوا کا رشتہ
غلام ربانی تاباں
لطف کا ربط ہے کوئی نہ جفا کا رشتہ
دل سے کچھ دور ہے ظالم کی انا کا رشتہ
دست عیسیٰ بھی وہی بازوئے قاتل بھی وہی
کتنا نازک ہے چراغوں سے ہوا کا رشتہ
جبر حالات کہو غم کی مکافات کہو
ٹوٹ بھی جاتا ہے ہونٹوں سے نوا کا رشتہ
سوچیے تو سبھی اپنے ہیں کوئی غیر نہیں
حاکم شہر سے ہے جرم و سزا کا رشتہ
منظر زیست میں کچھ رنگ تو بھر دیتا ہے
خار زاروں سے کسی آبلہ پا کا رشتہ
پھول نایاب سہی زخم تو نایاب نہیں
آج بھی دل سے وہی آب و ہوا کا رشتہ
کیا کریں رسم زمانہ کی شکایت تاباںؔ
درد سے رکھتے ہیں ہم لوگ سدا کا رشتہ
#عامر
01/10/2023
رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ
غم لگے رہتے ہیں ہر آن خوشی کے پیچھے
دشمنی دھوپ کی ہے سایۂ دیوار کے ساتھ
کس طرح اپنی محبت کی میں تکمیل کروں
غم ہستی بھی تو شامل ہے غم یار کے ساتھ
لفظ چنتا ہوں تو مفہوم بدل جاتا ہے
اک نہ اک خوف بھی ہے جرأت اظہار کے ساتھ
دشمنی مجھ سے کئے جا مگر اپنا بن کر
جان لے لے مری صیاد مگر پیار کے ساتھ
دو گھڑی آؤ مل آئیں کسی غالبؔ سے قتیلؔ
حضرت ذوقؔ تو وابستہ ہیں دربار کے ساتھ
قتیلؔ شفائی
#شہباز
01/10/2023
فلک سے توڑ لایا ہوں مگر پھر سے نئی ضد ہے
ستارے میں نہیں لونگی ، مجھے تو چاند لا کر دو
تمہارا کیا بگاڑا تھا، جو تم نے توڑ ڈالا ہے
یہ ٹکڑے میں نہیں لونگا ، مجھے تو دل بنا کر دو۔۔
عالی جاہ
#عامر
30/09/2023
بجھے چراغ سرِ طاق دھر کے روئے گا
وہ گزرا وقت کبھی یاد کر کے روئے گا
یہ جس مقام پہ بچھڑے ہیں آ کے ہم دونوں
اسی مقام سے تنہا گزر کے روئے گا
مری ستائشی آنکھیں کہاں ملیں گی تجھے
تُو آئینے میں بہت بن سنور کے روئے گا
میں جانتا ہوں، مرے پر کتَر رہا ہے وہ
میں جانتا ہوں مرے پر کتر کے روئے گا
اسے تو صرف بچھڑنے کا دکھ ہے اور مجھے
یہ غم بھی ہے وہ مجھے یاد کر کے روئے گا
مقامِ ربط کے زینے وہ جلد بازی میں
اتر تو جائے گا، لیکن اتر کے روئے گا
وہ سخت جاں سہی، لیکن مری جدائی میں
ظہیر ریت کی صورت بکھر کے روئے گا
ظہیر مشتاق
ش ہ ب ا ز
30/09/2023
ﷺ تیئس سال کے مختصر عرصہ میں دنیا کو تبدیل کردینے والے
وہ ﷺسینکڑوں سال پہلے ہماری بخشش کیلیئے خدا سے گھنٹوں دعائیں مانگنے والے
وہ ﷺمسکرا کر روشنیاں بکھیرنے والے
وہ ﷺامت کے غم میں دکھی ہوجانے والے وہﷺ بے مثال شوہروہﷺ باکمال باپ وہﷺ قابل فخر ناناوہﷺ پیرِ کامل
وہ ﷺجن کی محبت ہماری رگ رگ میں شامل وہﷺ چلیں تو فاصلے سمٹ کر معراج بن جائیں
وہ ﷺچاند کے دو ٹکڑے کرنے والے
وہ ﷺٹوٹے دلوں کو جوڑنے والے
وہ ﷺیتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنے والے
وه ﷺجرنیل اعظم امام المجاہدین
ہماری جان، ہمارا مال، ہمارے ماں باپ، ہماری زندگی ان پر قربان وہ ﷺوجہِ تخلیق کائنات لاکھوں کروڑوں درود و سلام ان پر انکی آل پر ﷺ
(محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم)
28/09/2023
تجھ سے تعبیر نہیں مانگی مگر یاد تو کر
تونے ان آنکھوں کو اک خواب دکھایا تھا کبھی
محمد ندیم بھابھہ
تیرے ہونے کا یقیں تجھ کو دلایا تھا کبھی
میں نے اے شخص تجھے جینا سکھایا تھا کبھی
آخر اک روز مجھے تجھ سے نکلنا تھا کہ میں
وہم کی طرح تِرے ذہن میں آیا تھا کبھی
تجھ سے تعبیر نہیں مانگی مگر یاد تو کر
تونے ان آنکھوں کو اک خواب دکھایا تھا کبھی
اب لہو تھوک رہا ہے وہ تری فرقت میں
جس نے محفل میں تری رنگ جمایا تھا کبھی
تُو جنہیں کاٹ رہا ہے بڑی بے دردی سے
انہیں ہاتھوں سے تجھے میں نے بنایا تھا کبھی
قہقہے اس لیے اب راس نہیں آتے مجھے
میں نے اِک شخص کو جی بھر کے ہنسایا تھا کبھی
#عامر
27/09/2023
شوق کو عازم سفر رکھیے
بیخبر بن کر سب خبر رکھیے
چاہے نظریں ہو آسمانوں پر
پاوں لکن زمیں پر رکھیے
بات ہے کیا یہ کون پرکھےگا
آپ لہجےکو پر اثر رکھیے
جانے کس وقت کوچ کرنا ہو
اپنا سامان مختصر رکھیے
دل کو خود دل سے راہ ہوتی ہے
کس لئے نامہ بر رکھیے
ایک ٹک مجھکو دیکھے جاتی ہے
اپنی نظروں پہ کچھ نظر رکھیے
نکہت افتخار
#عامر
26/09/2023
ہجر میں اتنا خسارہ تو نہیں ہو سکتا
ایک ہی عشق دوبارہ تو نہیں ہو سکتا
چند لوگوں کی محبت بھی غنیمت ہے میاں
شہر کا شہر ہمارا تو نہیں ہو سکتا
کب تلک قید رکھوں آنکھ میں بینائی کو
صرف خوابوں سے گزارا تو نہیں ہو سکتا
رات کو جھیل کے بیٹھا ہوں تو دن نکلا ہے
اب میں سورج سے ستارہ تو نہیں ہو سکتا
دل کی بینائی کو بھی ساتھ ملا لے گوہرؔ
آنکھ سے سارا نظارا تو نہیں ہو سکتا
افضل گوہرؔ راو
#شہباز
26/09/2023
مالا راجپوت
یہ ایک کام نہیں ہو سکا ذرا تجھ سے
کہ عشق مرتے ہوئے بھی نہیں مرا تجھ سے
مٹا رہی ہے کوئی بیل اس کو اندر سے
تبھی وہ پیڑ نہیں ہو رہا ہرا تجھ سے
ذرا سا بیٹھ ابھی ! اور بات کر مجھ سے !
حسین شخص ! مرا دل نہیں بھرا تجھ سے
تجھے یہ دوغلے چہروں میں یاد آئے گا
کہ ایک شخص ملا تھا بہت کھرا تجھ سے
کبھی تو مجھ کو تری باتوں سے یہ لگتا ہے
نہیں کوئی بھی نہیں ہے یہاں برا تجھ سے
اگر تو چاہے بھی اب نہ سمیٹ پائے گا
تجھے خبر ہی نہیں وہ کہاں گرا تجھ سے
Be the first to know and let us send you an email when Wahshat hi Sahi 2 وحشت ہی سہی posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.