Sirat e Mustaqeem

  • Home
  • Sirat e Mustaqeem

Sirat e Mustaqeem Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Sirat e Mustaqeem, Magazine, .

سنت کی ادائیگی اور خدمت خلق ساتھ ساتھ ۔۔۔۔
23/06/2022

سنت کی ادائیگی اور خدمت خلق ساتھ ساتھ ۔۔۔۔

21/04/2022

قرض آج چکا دیا ۔۔۔۔۔یہ تحریر بہت دنوں سے تقاضا کررہی تھی کہ مجھے سپرد قلم کیا جاٸے ۔جب سے رمضان کا آغاز ہوا ہے ہمارے پڑوس کی مسجد میں ایک صاحب اذان سے پندرہ بیس منٹ پہلے لاٶڈ سپیکر پر اپنے فن کا مظاہرہ شروع کردیتے ہیں ۔عموماً نعت کسی مشہور و معروف ہندوستانی گانے کی طرز پر ہوتی ہے ۔اب یہ فرماٸش ان سے کون کرتا ہے ۔یہ راز ابھی تک راز ہی ہے ۔جہاں سے عوام الناس کو قانون اور آداب کی پاسداری کا سبق ملنا چاہٸے وہی پلیٹ فارم اس کی دھجیاں بکھیر رہا ہے ۔اب ان لوگوں کو کون آداب و اخلاق سمجھا سکتا ہے جو اپنے آپ کو دینی رہمناٸی کے منصب پر فاٸز ایک برتر مخلوق سمجھتے ہیں ۔چھوٹے بچوں نے سونا ہے ۔دوسرے بچوں نے اسکول جانا ہے ۔کسی شوگر کے مریض کی ابھی بمشکل آنکھ لگی ہے ۔بہت سے غیر مسلم گھرانے مسلم معاشرے میں رہنے کی کیا قیمت چکا رہے ہیں یہ ان سے پوچھ لیجٸے۔یہ وہ ہی جانتے ہیں جو عذاب وہ بھگت کررہے ہیں ۔بعض حضرات و خواتین گھروں میں دعا ذکر تلاوت میں مصروف ہیں ۔ان کی بلا سے ۔انھیں زبردستی اپنے عاشق رسول ہونے کا ثبوت دینا ہے ۔اس بات کو کسی اور موقع کے چھوڑ دیتے ہیں کہ ان نعتوں کا علمی اور فنی معیار کیا ہے اور عقیدے و ادب کا نعت خوانی میں کتنا خیال رکھا گیا ہے ۔ایک طوفان بدتمیزی ہے جو نعت خوانی کے مقدس نام پر سوساٸٹی کو یرغمال بنا چکا ہے ۔کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ جس شوق اور ذوق سے نعت پڑھی جاتی ہے اس کا عشر عشیر بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے لیے دیکھنے میں نہیں آتا ۔مارکیٹ میں وہی سودا لایاجاتا ہے جس کا گاہک ہو ۔اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے والےکو کون عزت اور روپے سے تولتا ہے ؟ خیر بات دوسری طرف نکل گٸی ۔میرا مشورہ ہے کہ جہاں اتنا تکلف کیا جاتا ہے ایک صاحب پہلے یہ بھی بتا دیا کریں کہ اب آپ کے سامنے نعت کے لیے زحمت دی جاتی ۔۔۔۔۔۔۔صاحب کو کہ وہ آٸیں اور اپنی آج کی نعت کا آغاز کریں ۔جس کی دھن فلاں ہندوستانی فلم کے فلاں گیت پر ترتیب دی گٸی ہے ۔۔۔۔۔کیونکہ بسا اوقات ذہن الجھ جاتا ہے اور گیت کی دیگر تفصیلات تک پہنچنے میں خاصا وقت لگتا ہے ۔ڈھلتی عمر کے مساٸل میں سے ایک یہ بھی ہے ۔اگرچہ لاٶڈ سپیکر خطبہ جمعہ کے لیے استعمال نہیں ہوتا ۔لیکن اس کام کے لیے قانون کی خلاف وزی گوارا کر لی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ پولیس بھی کیا کرے ۔آٸے دن ملک میں ہونے والے توہین رسالت کے واقعات سب کے سامنے ہیں ۔اور عام آدمی تو مولوی صاحب سے جرات سوال ہی نہیں رکھتے مبادا گستاخ رسول کا فتویٰ نہ لگ جاٸے ۔ان تمام عوامل کی بن پر ایک دینیہ اشرافیہ بدمعاشیہ وجود میں آچکی ہے ۔جس کے نزدیک آپ کا جینا حرام کرنا ان کے لیے حلال ہے ۔میرا مشورہ ہے آپ بھی کسی سے مت کہیے گا ۔ورنہ اپنے انجام کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے ۔۔۔۔۔ہم نیک وبد حضور کو سمجھاٸے دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔حافظ محمد فہیم ۔ایڈیٹر ماہ نامہ صراط مستقیم ۔فیصل آباد

31/03/2022

سب رحمت ہی رحمت ہے
یہ آنٹی ہماری ساس کی سہیلی ہیں، اور ہماری سہیلی کی ساس۔ شوگر کی مریضہ ہیں اور تیز شوگر کی وجہ سے گھٹنوں کے نیچے سے انکی ٹانگیں اور پاؤں سن رہتے ہیں۔ چند سال پہلے سردیوں میں ایسا ہوا کہ دوپہر میں غسل لے کر نکلیں تو بہو کو چائے کا کہہ کر ہیٹر کے سامنے ہی صوفے پر ٹانگیں لمبی کر کے بیٹھ گئیں۔ بزرگ بھی ہیں، کچھ غسل کی تھکن ہو گئی ہو گی، کچھ ہیٹر کا اثر کہ انکی آنکھ لگ گئی۔ بہو جب چائے لے کر آئی تو اماں کو سوتا دیکھ کر خاموشی سے واپس پلٹ گئی۔ کچھ دیر یونہی گزری کہ گھر میں موجود لوگوں کو جلنے کی کچھ ناگوار سی بو آئی۔ جب سراغ لگایا تو پتہ چلا کہ اماں کے پاؤں جو ہیٹر کے قریب تھے، وہ بری طرح جل گئے تھے۔ چونکہ انکے پاؤں سن رہتے تھے اسلئے وہ کوئی تکلیف محسوس ہی نہ کر سکی تھیں۔
جب میں ان سے ملنے گئی، انکے پاؤں پٹیوں میں تھے۔ زخم بھرنے میں بہت وقت لگ رہا تھا۔ چھالے پھٹ جاتے تھے اور وہی پاؤں سن رہنے کی وجہ سے زخم بھر کے نہیں دے رہا تھا۔
ان کی عیادت سے واپسی پر یہی خیال آتا رہا کہ یہ جو ہم جسم پر کوئی تکلیف محسوس کرتے ہیں، یہ بھی اللہ کی رحمت ہے۔ یہ ہمیں بڑی تکلیف سے بچاتی ہے۔ یا جب کبھی مجھے یہ خیال آئے کہ میں لوگوں کے مسئلوں میں کیوں پریشان ہوں، تو بھی خود سے یہی کہتی ہوں کہ یہ محسوس کرنے کی صلاحیت بھی اللہ کی رحمت ہے۔ کبھی دیکھا سنا ہو گا کہ شدید صدمے سے لوگ سکتے میں چلے جاتے ہیں، رو نہیں پاتے، تب بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں رونا چاہیے۔ یہ آنسو آ جانا بھی رحمت ہے، دل کی یہ نرمی بھی رحمت، دکھ محسوس کر سکنا بھی ایک رحمت ہے۔ ہماری آسودگی تو ہے ہی سراسر رحمت، ہماری وقتی پریشانیاں اور تکلیفیں بھی رحمت ہیں۔ ہاں اللہ سے اسکا فضل مانگتے رہیں لیکن الحمدللّٰہ علی کل حال کا ورد جاری رکھتے ہوئے ۔

12/03/2022
17/02/2022

عشق کے مراحل
قاری حنیف ڈار

عشق کے مراحل میں وہ بھی مقام آتا ہے
آفتیں برستی ہیں ، دل سکون پاتا ہے
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ گرمیوں میں جب چھٹیاں ہوتی تھیں تو امیروں کے بچے موج کرتے تھے اور غریبوں کے بچے ہنر سیکھتے تھے، میں انہی غریب بچوں میں سے تھا، گرمیوں میں درزی کا کام سیکھتا تھا، اور پھوپھیاں، ماسیاں اپنے بچوں کے کپڑے چھوٹے کرانے لے آیا کرتی تھیں ، یوں فری میں ہمارا ہاؤس جاب مکمل ہو جاتا، ماسٹر محمد عالم مرحوم ، اللہ پاک ان کی قبر کو نور سے بھر دے نہایت شریف النفس اور ہنس مکھ انسان تھے، جس گھر کا کوئی فرد سلائی کے بارے میں جانتا ہوتا تو وہ خبردار کر دیا کرتے تھے کہ خیال کرنا یہ سلائی کے بارے میں خود بھی سدھ بدھ رکھتا ہے، لہٰذا سلائی سیدھی مارنا ۔
وقت عصر کا تھا ، میں سر نیچے کیے تن دہی سے کام میں لگا ہوا تھا کیونکہ شام سے پہلے سوٹ دینا تھا اسی دوران سامنے کھلے دروازے میں سے اچانک زور کا پتھر میرے سر پہ آلگا، میں نے بیساختہ زور کی گالی ہلکے سے دی اور سر پہ ہاتھ رکھے پتھر مارنے والے کے پیچھے لپکا مگر پتھر مارنے والی کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا ، وہ نہایت اطمینان سے گھڑا سر پہ رکھے مٹکتی ہوئی پانی بھرنے جا رہی تھی، یہ دیکھ کر کہ پتھر کس نے مارا ہے میرا غصہ مسکراہٹ میں تبدیل ہو گیا، اب وہ پتھر بھی مجھے عزیز ہو گیا تھا ، میں اس پتھر کو دل پہ بنی جیب میں رکھنے کے لئے تلاش کرنے لگا، پتھر ملا تو دیکھا وہ گُڑ کی روڑی تھی جو میری طرف کھانے کے لئے پھینکی گئی تھی اور نشانے کے خطا ہونے کی وجہ سے سر میں آ کر لگی تھی !
اللہ والے جو مصائب کی حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں، وہ مصائب کو محبت کی چھیڑ چھاڑ سمجھ کر عزیز رکھتے ہیں، جنہیں لوگ پتھر سمجھتے ہیں وہ ان کے لئے گڑ ہوتا ہے۔
جنھاں دکھاں تے دلبر راضی سُکھ اُنہاں توں وارے!
دُکھ قبول محمد بخشا راضی رہن پیارے!

16/02/2022

اکیلا پودا‎

بچپن میں ایک پنجابی گیت سنا کرتے تھے ؎
کَلا بندہ ہووے بھانویں کَلا رُکھ نی ـ
دونواں کَلیاں نوں ہوندا بڑا دُکھ نی ـ
میری بیوی نے کچھ دنوں پہلے گھر کی چھت پرکچھ گملے رکھوا دیے اور ایک چھوٹا سا باغ بنا لیا،گزشتہ دنوں میں چھت پر گیا تو یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ بہت گملوں میں پھول کھلتے گئےہیں، نیبو کے پودے میں دو نیبو بھی لٹکے ہوئے ہیں اوردو چار ہری مرچ بھی لٹکی ہوئی نظر آئی،میں نے دیکھا کہ گزشتہ ہفتے اس نے بانس کا جو پودا گملے میں لگایا تھا، اس گملےکو گھسیٹ کر دوسرے گملے کے پاس کر رہی تھی، میں نے کہا تم اس بھاری گملے کو کیوں گھسیٹ رہی ہو؟ بیوی نے مجھ سے کہا کہ یہاں یہ بانس کا پودا سوکھ رہا ہے، اسے کھسکا کر اس پودے کے پاس کر دیتے ہیں،میں ہنس پڑا اور کہا ارے پودا سوکھ رہا ہےتو کھاد ڈالو، پانی ڈالو۔ اسےکھسکا کر کسی اور پودےکے پاس کر دینے سے کیا ہو گا؟ ’’بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا یہ پودا یہاں اکیلا ہے اس لئے مرجھا رہا ہے، اسے اس پودے کے پاس کر دیں گے تو یہ پھرلہلہا اٹھے گا، پودے اکیلے میں سوکھ جاتے ہیں،لیکن انہیں اگر کسی اور پودے کا ساتھ مل جائے تو جی اٹھتے ہیں۔‘‘یہ بہت عجیب سی بات تھی، ایک ایک کر کے کئی فوٹو آنکھوں کے آگے بنتی چلی گئیں، ماں کی موت کے بعد والد صاحب کیسے ایک ہی رات میں بوڑھے، بہت بوڑھے ہو گئے تھے۔اگرچہ ماں کے جانے کے بعد سولہ سال تک وہ رہے، لیکن سوکھتے ہوئے پودے کی طرح۔
ماں کے رہتے ہوئے جس والد صاحب کو میں نے کبھی اداس نہیں دیکھا تھا۔ وہ ماں کے جانے کے بعد خاموش سے ہو گئے تھے۔ مجھے بیوی کے یقین پر مکمل اعتمادہو رہا تھا۔ لگ رہا تھا کہ سچ مچ پودے اکیلے میں سوکھ جاتے ہوں گے۔ بچپن میں میں ایک بار بازار سے ایک چھوٹی سی رنگین مچھلی خرید کر لایا تھا اور اسے شیشے کےجار میں پانی بھر کر رکھ دیا تھا،مچھلی سارا دن گم سم رہی۔ میں نے اس کے لئےکھانا بھی ڈالا، لیکن وہ چپ چاپ ادھر ادھر پانی میں گھومتی رہی۔ ساراکھانا جار کے پیندے میں جا کر بیٹھ گیا، مچھلی نے کچھ نہیں کھایا، دو دنوں تک وہ ایسے ہی رہی، اور ایک صبح میں نےدیکھا کہ وہ پانی کی سطح پر الٹی پڑی تھی۔ آج مجھے گھر میں پالی وہ چھوٹی سی مچھلی یاد آرہی تھی، بچپن میں کسی نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا، اگرمعلوم ہوتا تو کم سے کم دو، تین یا ساری مچھلیاں خرید لاتا اورمیری وہ پیاری مچھلی یوں تنہا نہ مر جاتی۔
مجھے لگتا ہے کہ دنیا میں کسی کو تنہائی پسند نہیں۔ آدمی ہو یا پودا، ہرکسی کوکسی نہ کسی کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ اپنے ارد گرد جھانکیں، اگر کہیں کوئی اکیلا نظر آئے تو اسے اپنا ساتھ دیجئے، اسے مرجھانے سے بچائیے۔ اگر آپ اکیلے ہوں،تو آپ بھی کسی کا ساتھ لیجئے، آپ خود کو بھی مرجھانے سے روکیے۔
تنہائی دنیا میں سب سے بڑی سزا ہے۔ گملے کےپودے کو تو ہاتھ سے کھینچ کر ایک دوسرے پودے کے پاس کیا جا سکتا ہے، لیکن آدمی کو قریب لانے کے لئے ضرورت ہوتی ہے رشتوں کو سمجھنے کی، محفوظ کرنےکی اور سمیٹنے کی۔ اگر دل کے کسی گوشے میں آپ کو لگےکہ زندگی کا رس سوکھ رہا ہے، زندگی مرجھا رہی ہے تو اس پر رشتوں کی محبت کا رس ڈالئے، خوش رہیے اور مسکرائیے۔
کوئی یوں ہی کسی اور کی غلطی سے آپ سے دورہو گیا ہو تو اسے اپنے قریب لانے کی کوشش کیجئے اور ہو جایئے هہرے بھرے ۔

12/02/2022

سب رحمت ہی رحمت ہے
یہ آنٹی ہماری ساس کی سہیلی ہیں، اور ہماری سہیلی کی ساس۔ شوگر کی مریضہ ہیں اور تیز شوگر کی وجہ سے گھٹنوں کے نیچے سے انکی ٹانگیں اور پاؤں سن رہتے ہیں۔ چند سال پہلے سردیوں میں ایسا ہوا کہ دوپہر میں غسل لے کر نکلیں تو بہو کو چائے کا کہہ کر ہیٹر کے سامنے ہی صوفے پر ٹانگیں لمبی کر کے بیٹھ گئیں۔ بزرگ بھی ہیں، کچھ غسل کی تھکن ہو گئی ہو گی، کچھ ہیٹر کا اثر کہ انکی آنکھ لگ گئی۔ بہو جب چائے لے کر آئی تو اماں کو سوتا دیکھ کر خاموشی سے واپس پلٹ گئی۔ کچھ دیر یونہی گزری کہ گھر میں موجود لوگوں کو جلنے کی کچھ ناگوار سی بو آئی۔ جب سراغ لگایا تو پتہ چلا کہ اماں کے پاؤں جو ہیٹر کے قریب تھے، وہ بری طرح جل گئے تھے۔ چونکہ انکے پاؤں سن رہتے تھے اسلئے وہ کوئی تکلیف محسوس ہی نہ کر سکی تھیں۔ جب میں ان سے ملنے گئی، انکے پاؤں پٹیوں میں تھے۔ زخم بھرنے میں بہت وقت لگ رہا تھا۔ چھالے پھٹ جاتے تھے اور وہی پاؤں سن رہنے کی وجہ سے زخم بھر کے نہیں دے رہا تھا۔ ان کی عیادت سے واپسی پر یہی خیال آتا رہا کہ یہ جو ہم جسم پر کوئی تکلیف محسوس کرتے ہیں، یہ بھی اللہ کی رحمت ہے۔ یہ ہمیں بڑی تکلیف سے بچاتی ہے۔ یا جب کبھی مجھے یہ خیال آئے کہ میں لوگوں کے مسئلوں میں کیوں پریشان ہوں، تو بھی خود سے یہی کہتی ہوں کہ یہ محسوس کرنے کی صلاحیت بھی اللہ کی رحمت ہے۔ کبھی دیکھا سنا ہو گا کہ شدید صدمے سے لوگ سکتے میں چلے جاتے ہیں، رو نہیں پاتے، تب بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں رونا چاہیے۔ یہ آنسو آ جانا بھی رحمت ہے، دل کی یہ نرمی بھی رحمت، دکھ محسوس کر سکنا بھی ایک رحمت ہے۔ ہماری آسودگی تو ہے ہی سراسر رحمت، ہماری وقتی پریشانیاں اور تکلیفیں بھی رحمت ہیں۔ ہاں اللہ سے اسکا فضل مانگتے رہیں لیکن الحمدللّٰہ علی کل حال کا ورد جاری رکھتے ہوئے ۔

07/02/2022

معروف صحافی اسلم ملک کی ایک چشم کشا تحریر
آپ کا یہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟
سروے کے مطابق 80 فی صد برطانوی اس طرح کا کالم ضرور پڑھتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی تعداد اس سے کم کیا ہوگی، میں بچپن سے اخبار پڑھتا آرہا ہوں۔ یہ کالم بھی ضرور پڑھتا تھا۔
روزنامہ امروز میں اس کالم پر نادر حسین نام درج ہوتا تھا. تھرڈ ائیر میں تھا کہ ایک ہفتے اپنے سٹار کے خانے میں پڑھا کہ ہفتے کے وسط میں غیر متوقع طور پر رقم ہاتھ آئے گی۔ پھر یوں ہوا کہ عین وسط ہفتہ، بدھ کے روز کالج آفس والوں نے بلاکر بتایا کہ میرا سکالر شپ آیا ہے. پچھلے آٹھ نو ماہ کا اکٹھا تھا، اس لئے بھاری رقم ملی۔ سکالر شپ ملنا میرے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا۔ فرسٹ ڈویژن تو تھی لیکن نمبر اتنے غیر معمولی بھی نہیں تھے۔ پتہ چلا کہ آرٹس گروپ میں اتنے نمبر بلکہ فرسٹ ڈویژنز بھی کم ہی ہوتی ہیں(اب تو بے شمار! ) سو اس نجومی پر یقین پختہ ہوگیا۔ اس کو ٹھیس چند سال بعد اس وقت پہنچی جب میں اسی اخبار کا سب ایڈیٹر بنا۔
ایک دن سنڈے میگزین تیار ہوتے دیکھا تو پتہ چلا کہ انھی نادر حسین صاحب کا کوئی تین چار سال پرانا آپ کا ہفتہ والا کالم پرانی کاپی سے کاٹ کر لگایا جارہا ہے۔ پوچھا، یہ کیوں؟ تو بتایا گیا کہ یہ کالم نیشنل پریس ٹرسٹ سے آتا تھا، اب نہیں آرہا، پتہ نہیں ان کا معاہدہ ختم ہوگیا ہے یا مرکھپ گئے۔ اس کالم کی ریڈرشپ بہت ہے، اس لئے پرانے لگا دیتے ہیں، کبھی ایک سٹار کا احوال دوسرے میں، اور کبھی یہ تکلف بھی نہیں.... اس کا کبھی کسی کو پتہ نہیں چلا۔ درمیانی عرصے کی ایک بات رہ گئی۔ یونیورسٹی پہنچے تو دیکھا کہ کوئی کسی لڑکی سے سٹار پوچھتا اور بتانے پر کہتا، میرا پہلے ہی یہی اندازہ تھا، اتنی خوبصورت آنکھیں اسی سٹار والوں کی ہوتی ہیں۔ یہ طریقہ عموماً بہت مفید ثابت ہوتا۔ اور اگر سٹار ایک ہی نکل آتا تو پھر تو ویسے ہی دوستی پکی، پھر ایک دفتر میں دیکھا کہ افسر مجاز کا جو سٹار تھا، ہر خوشامدی نے وہی اختیار کرلیا۔ اس سٹار والوں کا ایک کلب بھی بن گیا۔
لیکن ...! برطانیہ میں ماہرین نے ایک ہی وقت پیدا ہونے والوں کے بارے میں ایک سٹڈی کی ہے. بنیادی طور پر تو یہ طبی مقاصد کیلئے تھی لیکن پھر اسے وسیع کردیا گیا۔
مارچ 1958 کےاوائل کے دنوں میں منٹوں کے حساب سے ایک ہی وقت پیدا ہونے والے 2000 بچوں کے کئی گروپ بنائے گئے، پھر ان ایک ہی سٹار اور برج والوں کو اگلے پچاس سال سے زیادہ عرصہ زیر مطالعہ رکھا گیا، پیشے، طبیعت، مزاج، ازدواجی تعلقات، غصے، سوشل ہونے، آئی کیو لیول،آرٹ، سپورٹ، ریاضی، مطالعے کے حوالے سے صلاحیتوں سمیت کوئی100 خصائص کا جائزہ لیا گیا جو ماہرین نجوم یازائچہ بنانے والوں کے لحاظ سے یکساں ہونے چاہئیں تھے۔ حاصل ہونے والے ڈیٹا کا آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی کے سائنسدان اور سابق آسٹرولوجر اور کینیڈا کی یونیورسٹی کے نفسیات کے پروفیسر نے تجزیہ کیا۔ نتائج نے علم نجوم والوں کے اس دعوے کے غبارے سے ہوا نکال دی کہ پیدائش کے وقت چاند، سورج اور ستاروں کی پوزیشن ہی ہمارے اوصاف تشکیل دیتی ہے۔
ایک ہی وقت پیدا ہونے والوں میں کچھ بھی مشترک نہیں نکلا !اتنی بڑی اور پوری احتیاط سے کی گئی اس سائنسی تحقیق کے نتائج آئے کافی عرصہ ہوگیا لیکن اس کا میڈیا میں اتنا چرچا کیوں نہیں ہوا؟
اس لئے کہ اس ریسرچ اور اس کے نتائج کو جان بوجھ کر دبا دیا گیا، یا پردہ ڈالا گیا۔ وجہ یہ ہے کہ یہ زائچہ بنانا آج کا دن، ہفتہ کیسے گزرے گا، اربوں کا دھندا ہے۔ روزانہ ٹیلی فون، ویب سائٹس اور اخبار رسالوں کے کالموں میں کروڑوں لوگ یہ تلاش کرتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ سالانہ کتابیں الگ چھپتی ہیں۔
کوئی طبقہ بھی اس سے محفوظ نہیں. سروے کے مطابق سائنس کے طلبا میں سے بھی ایک تہائی یہ دیکھتے ہیں۔

19/12/2021

استاد، مصنف، مترجم اور منفرد شاعر
پروفیسر اشرف عارف…الوداع
حافظ محمد فہیم
زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، اُنھی اجزا کا پریشاں ہونا
چکبست کا یہ شعر زندگی اور موت کے نظام پرغور کرنے والے ہر شخص کو کچھ نہ کچھ بات سمجھا دیتا ہے۔ ذکر ایک شاعر کا ہے، اس لیے بھی آغاز ایک شعر سے کرنا مناسب سمجھا۔
اپریل 2010ء کی کوئی صبح تھی، مکتبہ ’’طارق اکیڈمی‘‘ سے وابستگی کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا۔ کتابوں کی شیلف میں سلیقے سے رکھی ایک کتاب ’’عکسِ خیال‘‘ پر نظر پڑی۔ اٹھائی اور ورق گردانی شروع کر دی، غزلیں تازہ ہوا کا جھونکا سا محسوس ہوئیں، پلٹ کر سرورق پر نام دیکھا ’’اشرف عارف‘‘ جگمگا رہا تھا۔ ذہن پر زور دیا کہ اس شاعر کا نام پہلے کب کہاں دیکھا، سنا ہے، کچھ یاد نہ آیا۔ شعر، شاعر اور شاعری ہمیشہ سے اپنی طرف کھینچتے آئے ہیں۔ معلوم ہوا اسی شاعر نے علامہ اقبال کی شُہرہ آفاق نظموں، شکوہ اور جوابِ شکوہ کا بھی منظوم انگریزی ترجمہ کیا ہے، جس کا نام ’’دی پلینٹ اینڈ دی آنسر‘‘ ہے۔ یہ خبر ایک خوشگوار جھٹکا تھی۔ کتاب دیکھی، پڑھنا شروع کی اور ایک ہی نشست میں ختم کر دی۔
اقبالیات کا ذوق بھی ہر ادب سے لگاؤ رکھنے والے اور ہر پڑھے لکھے شخص میں نہیں پایا جاتا۔ ابھی اس حیرت کے آثار باقی تھے کہ ایک دوست نے بتایا انھی صاحب نے مکمل سورہ یوسف کا منظوم انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ جس کا نام ’’دی بیسٹ آف سٹوریز‘‘ہے۔ فوراً ذہن اس طرف گیا کہ کیا شاندار نام رکھا ہے۔ قرآن میں بھی اسے ’’اَحْسَنُ الْقَصَصْ‘‘ سب سے بہترین قصہ ہی کہا ہے۔ معلوم ہوا شاعر کو قرآن سے بھی عشق ہے۔ یہ کام ورنہ کون کرتا ہے اور کیسے ہوسکتا ہے۔ سوائے اُس کے، جس پر اس کی نظر عنایت ہو۔ شاعروں کے بارے میں قرآن کا عمومی تبصرہ بہت واضح ہے۔ ’’یہ لوگ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں‘‘ یہی حق ہے۔
انھیں اس بات کا بھرپور احساس تھا کہ کہیں کوئی اخلاق اور معیار سے کم تر چیز ان کے قلم سے نہ نکلے۔ اس لیے جو لکھا، منفرد لکھا۔ حج کی سعادت نصیب ہوئی تو اس کی روداد ’’منظوم سفر نامہ حج‘‘ کی شکل میں سامنے آئی۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت اور اثر انگیز تجربہ ثابت ہوئی۔
ان کی کتابوں پر تبصرے اور محاسن کے بیان کے لیے ایک الگ دفتر درکار ہے۔ جب ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا، تو پتہ چلا کہ 1954ء سے بطور سینئر انگلش ٹیچر محکمہ تعلیم سے منسلک ہوئے اور ترقی کرتے کرتے 1984ء میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر آف ایجوکیشن تعینات ہوئے، اور 1988ء میں ریٹائر ہوئے۔ تدریسی ذمہ داریوں سے انتظامی عہدوں تک کا تمام سفر بڑی دیانت داری محنت اور لگن سے طے کیا۔ صاحبِ اختیار ہوتے ہوئے اپنے دامن کو آلودہ کیے بغیر سرکاری اداروں میں فرائض انجام دینا کسی کرامت سے کم نہیں۔
علامہ اقبال کی محبت کا دم بھرنے والے تو بہت ملیں گے، لیکن اُس جیسی فکر کو لے کرچلنے والوں اور اس کی فکر کو عام کرنے والے، تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ اشرف عارف روحانی طور پر اقبال کے شاگرد تھے۔ جس طرح اقبال کے کلام میں مقصدیت اور خدا کے کلام کی بھرپور ترجمانی ملتی ہے۔ اسی طرح اشرف عارف نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ وہ اقبال کے پیروکار ہیں۔ ایک مرتبہ انھوں نے بتایا کہ میں نے کلام اقبال کو بہت گہرائی سے پڑھا ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد جب اکثر لوگ صرف آرام کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر کوئی مصروفیت اختیاربھی کریں تو صرف مالی منفعت کی وجہ سے کرتے ہیں۔ لیکن اشرف عارف نے اپنے شب وروز کو قرآن کے آفاقی پیغام کو انگریزی دان طبقے تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا۔
اپنی تمام کتابو ں کو اپنی ذاتی گرہ سے شائع کیا اور احباب کو تحفہ دیں۔ کچھ عرصہ پہلے ’’دی بیسٹ آف سٹوریز‘‘ کو کئی منتخب آیات اور سورتوں کے اضافے کے ساتھ شائع کیا، جس کی ترتیب وتدوین میں راقم نے بھی اپنے ذوق کی آبیاری کےلیے خدمات انجام دیں۔ بیسیوں ملاقاتوں اور ہزاروں باتوں میں سے کس کس کا ذکر کیا جائے۔ وہ کسی پامال موضوع پر تصنیف یا فکر سخن کے قائل نہ تھے۔ اپنی گفتگو میں ہمیشہ عاجزی وانکسار کا دامن تھامے رکھا اور سامنے بیٹھے شخص کو کبھی یہ باور نہ کرایا کہ تم ایک نادرِ روزگارہستی سے محو گفتگو ہو۔ جس طرح میسر نعمت کی قدر اس کے چھن جانے کے بعد ہوتی ہے، اسی طرح علم وادب کی آبرو یہ ہستیاں جب دنیا چھوڑ جاتی ہیں، تو ان کی قدردانی کا مرحلہ آتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے’’ سٹیفن آر کوے ‘‘کی کتاب ’’پراثر لوگوں کی سات عادات‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں مصنف ایک باب ’’آغاز سے پہلے انجام پر نظر رکھیں‘‘ میں یہی بات سمجھا رہا ہے کہ آپ اپنی وفات کے بعد اپنے اعزہ واقارب، دوست احباب اور دیگر سماجی رابطے کے لوگوں سے اپنے بارے میں کن خیالات کے اظہار کی توقع رکھتے ہیں، آپ جن الفاظ کو ان کی زبان سے سننے کے خواہش مند ہیں، اپنی زندگی کو اُسی طرز پر ڈھال لیں۔ ابھی یہ آپ کے اختیار میں ہے۔
آج اگر ہم اشرف عارف صاحب کا ذکر ِخیر کر رہے ہیں، تو دراصل اس کا سامان وہ اپنی زندگی میں فراہم کر گئے ہیں۔ دو سال پہلے جب ان کے چھوٹے بھائی مقبول صاحب کا انتقال ہوا تو اسلام آباد سے آئے۔ میں مصافحہ کر کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ بڑی سادگی سے کہنے لگے مقبول مجھ سے عمر میں دس سال چھوٹا تھا۔ جانے کی تیاری تو میں کر کے بیٹھا ہوا تھا اور چلا یہ گیا۔ جس شخص کی زبان سے یہ بات نکلے کہ ’’میں جانے کی تیاری کر کے بیٹھا ہوا ہوں‘‘ وہ اطمینان قلب کے کس مقام پر اور راضی بہ رضا ہونے کے کس درجہ پر فائز ہوگا۔ ہم میں سے کتنے ہیں، جو جانے کی تیاری کیے بیٹھے ہیں۔
فیصل آباد جب بھی کسی کام سے آئے، ملاقات کے لیے ضرور حاضر ہوا۔ گزرے اگست کی چھ، سات تاریخ کو ان سے آخری ملاقات ہوئی۔ اس وقت بھی انھیں زیر طبع کتاب ’’دی میسج آف دی ایسٹ‘‘ کا فائنل پروف دکھانے کےلیے حاضر ہوا۔ گھنٹہ بھر ملاقات رہی اسی طرح چاق چوبند، حاضر دماغ اور بھرپور یادداشت کے ساتھ۔ بھائی عثمان اشرف صاحب نے بتایا کہ ہفتہ بھر طبیعت خراب رہی، کووڈ19 کی بھی تصدیق ہوگئی اور آخری پیغام آگیا۔ یہ عالی شان شخص 5 ستمبر1928ء کو جہانِ رنگ وبُو میں آیا اور 6ستمبر2021ء کو زندگی کی 93 بہاریں دیکھ کر چل دیا۔ زبان نبوت کے مطابق خوش بخت ہے، وہ شخص جس کی عمر بھی طویل ہو اور عمل بھی صالح ہو۔
خدا اپنی رحمت کی چادر اپنے بندے پر دراز فرمائے۔ بشری لغزشوں سے درگزر اور اعمال صالحہ کو قبولیت سے نوازے۔ بھائی عثمان اشرف، ڈاکٹر عرفان اشرف اور دیگر اہلِ خانہ اور عزیزواقارب کو صبر جمیل سے نوازے۔(آمین)
(نوٹ:محترم بھائی عثمان اشرف اور ڈاکٹر عرفان اشرف اپنے والد گرامی کی تمام کتب کی نشر واشاعت کے لیے سرگرم ہیں، ’’دی میسج آف دی ایسٹ‘‘ پرنٹنگ کے مراحل میں ہے اور دیگر تمام کتب عنقریب
شائقین علم کےلیے پی، ڈی، ایف میں دستیاب ہوں گی)

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sirat e Mustaqeem posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share