Danish Zafar

Danish Zafar DIGITAL CREATOR
(3)

16/09/2023
ایک پانی سے بھرے برتن میں ایک زندہ مینڈک ڈالیں اور پانی کو گرم کرنا شروع کریں جیسے ہی پانی کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گ...
25/08/2023

ایک پانی سے بھرے برتن میں ایک زندہ مینڈک ڈالیں اور پانی کو گرم کرنا شروع کریں
جیسے ہی پانی کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گا ، مینڈک بھی اپنی باڈی کا درجہ حرارت پانی کے مطابق ایڈجسٹ کرے گا اور تب تک کرتا رہے گا جب تک پانی کا درجہ حرارت "بوائلنگ پوائنٹ" تک نہیں پہنچ جاتا ۔۔۔۔
جیسے ہی پانی کا ٹمپریچر بوائلنگ پوائنٹ تک پہنچے گا تو مینڈک اپنی باڈی کا ٹمپریچر پانی کے ٹمپریچر کے مطابق ایڈجسٹ نہیں کر پائے گا اور برتن سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا لیکن ایسا کر نہیں پائے گا کیونکہ تب تک مینڈک اپنی ساری توانائی خود کو "ماحول کے مطابق" ڈھالنے میں صرف کر چکا ہو گا
بہت جلد میندک مر جائے گا۔۔۔
یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے
"وہ کونسی چیز ہے جس نے مینڈک کو مارا؟"
سوچیئے!
میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے اکثر یہ کہیں گے کہ
مینڈک کو مارنے والی چیز وہ " انسان" ہے جس نے مینڈک کو پانی میں ڈالا
یا پھر کچھ یہ کہیں گے کہ
مینڈک اُبلتے ہوئے پانی کی وجہ سے مرا۔۔۔
لیکن،
سچ یہ ہے کہ مینڈک صرف اس وجہ سے مرا کیونکہ وہ وقت پر جمپ کرنے کا فیصلہ نہ کر سکا اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے میں لگا رہا ۔۔۔
ہماری زندگیوں میں بھی ایسے وقت اور حالات آتے ہیں جب ہمیں خود کو حالات کے مطابق ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے خیال رکھیں کہ کب آپ نے خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا ہے اور کب حالات کو اپنے مطابق
اگر ہم دوسروں کو اپنی زندگیوں کے ساتھ جسمانی، جذباتی، مالی، روحانی اور دماغی طور پر کھیلنے کا موقع دیں گے تو وہ ایسا کرتے ہی رہیں گے
اس لیے وقت اور توانائی کے ہوتے ہوئے "جمپ" کرنے کا فیصلہ کریں اور ہر دفعہ کنوئیں کا مینڈک بننے سے پرہیز کریں۔

*6 Corporate Lessons from  ...*1. *Never underestimate experience:*  A 67 year old Sunny Deol comes and destroys all maj...
23/08/2023

*6 Corporate Lessons from ...*

1. *Never underestimate experience:* A 67 year old Sunny Deol comes and destroys all major box office records. The guy who delivered his last hit a decade back (Yamla Pagla Deewana 2) and faced a flurry of flops and disasters in years to follow returned to deliver an all-time blockbuster

2. *Respect your product:* Gadar - Ek Prem Katha was an all-time blockbuster too. The makers didn’t rush up to make a sequel. They waited for 20 years to find an ideal follow up and created a product which was much loved all over again.

3. *Don’t overspend:* It’s the big idea that matters, not the big spend. In the times when even love stories are being made at a budget of around Rs. 200 crores, here comes an action film which has been made at just Rs. 70 crores. That’s the kind of moolah that’s being spent on so-called ‘content based films’ these days, and Gadar 2 makes an out and out mass masala commercial film out of it

4. *KYC - Always the most important point - Know Your Customer:* The makers (Anil Sharma, ZEE Studios) knew that they were catering to the length and breadth of the country, especially the interiors, and not just those 5-6 major cities. They didn’t make a classy feel for the multiplexes to earn quick money; they made a massy film to reach out to the lowest common denominator. The ticket price would be less, but the footfalls would be exponential, and that will take care of the revenue

5. *Same, same but different:* The product needs to be a mix of what the consumer wants and what they could potentially need. Give them something new but don’t deprive them of something that they have loved. They want Sunny Deol? Give them that. They want enemy bashing? Give them that. They want patriotism? Give them that. However, add a pinch of something new. This time, let the son (Utkarsh Sharma) go to Pakistan to hunt his father (different), but then eventually let the father save his son and bring him back to India (same same)

6. *Save the USP:* Every product worth its salt has a USP to it; something that distinguishes it from everything else, and just can’t be replicated. That’s where the hand pump scene comes into picture. You can make an entire Gadar 2 to Gadar 10, but you need to have the USP intact. Bring it at just that point of the narrative when audiences can no more bear the agony of the legendary moment make a comeback. 21 gun salute to the person who conceived the hand pump scene and ensured that the USP lives on for next two decades as well.🧿🔥🕉️

23/08/2023

🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨

*عبدالستار ایدھی(مرحوم) کی زندگی کا ایک دلخراش واقعہ*

عبدالستار ایدھی مرحوم سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا، آپ نے ہزاروں لاوارث لاشیں دفنائیں، کبھی کسی لاش کی بگڑی حالت یا اس پر تشدد دیکھ کر رونا آیا؟
انھوں نےآنکھیں بند کرکے گہری سوچ میں غوطہ زن ہوتے ہوئے کہا تشدد یا بگڑی لاش تو نہیں البتہ ایک مرتبہ میرے رضاکار ایک صاف ستھری لاش لے کر آئے جو تازہ انتقال کئے بوڑھے، مگر کسی پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانے کی لگ رہی تھی...
اس کےسفید چاندی جیسے بالوں میں تیل لگا ہوا تھا. اور سلیقے سے کنگھی کی ہوئی تھی. دھوبی کے دھلے ہوئے سفید اجلے کلف لگے سوٹ میں اس کی شخصیت بڑی باوقار لگ رہی تھی. مگر تھی وہ اب صرف ایک لاش، ایدھی صاحب پھر کچھ سوچتے ہوئے گویا ہوئے...
ہمارے پاس روزانہ کئی لاشیں لائی جاتی ہیں. مگر ایسی لاش جو اپنے نقش چھوڑ جائے. کم ہی آتی ہیں.. اس لاش کو میں غور سے دیکھ رہا تھا. کہ میرے رضاکار نے بتایا. اس نے کراچی کی ایک پوش بستی کا نام لے کر کہا کہ یہ لاش اس کے بنگلے کے باہر پڑی تھی
ہم جونہی بنگلے کے سامنے پہنچے تو ایک گاڑی میں سوار فیملی جو ہمارا ہی انتظار کر رہی تھی اس میں سے ایک نوجواں برآمد ہوا اور جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک لفافہ ہمیں تھماتے ہوئے بولا۔ یہ تدفین کے اخراجات ہیں۔ پھر وہ خود ہی بڑبڑایا۔ یہ میرے والد ہیں۔ انکا خیال رکھنا اچھی طرح غسل دے کر تدفین کر دینا اتنے میں گاڑی سے آواز آئی۔ تمھاری تقریر میں فلائٹ نکل جائے گی۔ یہ سنتے ہی نوجوان پلٹا اور مزید کوئی بات کئے گاڑی میں سوار ہو گیا اور گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔
ایدھی صاحب بولے اس لاش کے متعلق جان کر مجھے بہت دکھ ہوا اور میں ایک بار پھر اس بدقسمت شخص کی جانب دیکھنے لگا تو مجھے ایسے لگا جیسے وہ بازو وا کئے مجھے درخواست کر رہا ہو کہ ایدھی صاحب ساری لاوارث لاشوں کے وارث آپ ہوتے ہیں، مجھ بدقسمت کے وارث بھی آپ بن جائیں
میں نےفوراً فیصلہ کیا کہ اس لاش کو غسل بھی میں دونگا اور تدفین بھی خود کرونگا
پھر جونہی غسل دینے لگا تو اس اجلے جسم کو دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ جو شخص اپنی زندگی میں اس قدر معتبر اور حساس ہوگا۔ اس نے اپنی اولاد کی پرورش میں کیا کيا ناز و نعم نہ اٹھائے ہونگے۔ مگر بیٹے کے پاس تدفین کا وقت بھی نہ تھا۔ اسے باپ کو قبر میں اتارنے سے زیادہ فلائٹ نکل جانے کی فکر تھی۔ اور یوں اس لاش کو غسل دیتے ہوئے میرے آنسو چھلک پڑے۔ پھر وہ اپنے کندھے پر رکھے کپڑے سے آنسو پونچھتے ہوئے بولے...
اس دن میں انسانیت کی ڈوبتی نیّا پر رو پڑا. کاش کہ ہم اپنی اولادوں کی عیش و عشرت کی بجائے بہتر تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ دیں...

23/08/2023

🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨

*اپنے آپ کو پہچانو*

ایک بوڑھے باپ نے اپنے بیٹے کو بلا کر ایک پرانی خستہ حال گھڑی دی اور کہا بیٹا یہ گھڑی تمہارے پڑدادا کی ہے اس کی عمر دو سو سال ہوگی یہ گھڑی میں تمہیں دینا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے تمہیں میرا کام کرنا ہوگا اسے لیکر گھڑیوں والی دکان پر جاؤ اور پوچھو وہ یہ گھڑی کتنے میں خریدیں گے
وہ لڑکا جب واپس لوٹا تو کہنے لگا دکان دار گھڑی کی حالت دیکھتے ہوئے پانچ درھم سے زیادہ قیمت دینے کو تیار نہیں
بوڑھے باپ نے کہا اب اسے وہاں لے جا کر بیچو جہاں نوادرات فروخت ہوتے ہیں
وہ لڑکا جب وہاں سے واپس آیا تو بولا وہ لوگ پانچ ہزار درھم دینے کو تیار ہیں
یہ سن کر وہ شخص بولا اب اسے عجائب گھر لے جاو اور فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کرو
لڑکے نے واپس آکر کہا وہ لوگ اسے پچاس ہزار درھم میں خریدنے کو تیار ہیں
یہ سن کر اس بوڑھے شخص نے بیٹے کو مخاطب کیا اور کہا
بیٹا گھڑی کی قیمت لگا کر میں تمہیں سمجھانا چاہتا تھا اپنی ذات کو اس جگہ ضائع نہ کرنا جہاں تمہاری قدر و منزلت نا ہو تمہاری اہمیت کا اندازہ وہیں لگایا جائیگا جنہیں پرکھنے کی سمجھ ہوگی
اگر دیکھا جائے تو ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی صلاحیتوں کو ایسی جگہ ضائع کر رہے ہوتے ہیں جہاں سوائے وقت ضائع کرنے کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا اپنی صلاحیتوں خوبیوں کو صحیح سمت استعمال کرو ایسی جگہ خود کو مت تھکاؤ جہاں بدلے میں سوائے تھکاوٹ کے کچھ حاصل نہ ہو۔

23/08/2023

# زندگی بھر بیمار نا ہونے کا راز #
ایک قدیم مسجد دیکھنے کو ملی اور اس کے ساتھ ہی چائے کی کینٹن جس کے باہر بینچ پر کئی عربی بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ان میں ایک کافی بوڑھا شخص بھی تھا جو شکل سے بلوچ لگتا تھا-
میں علم کی تلاش میں سرگرداں، خود سے شرط باندھی کے اس بوڑھے کے ساتھ چائے نہ پی تو نام رہے اللہ کا؟
اسٹاف کو دور بٹھا کر اور چائے لیکر ان کے پاس جاکر سلام کیا تو اندازہ درست نکلا، وہ بلوچ ہی تھے۔ اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو انھوں پاس بٹھا لیا اور پھر میرے اصرار پر اونٹوں پر نہایت مفید اور تفصیلی معلومات فراہم کیں جسکا ذکر پھر کبھی کرونگا-لیکن ایک دلچسپ بات کہے بنا نہیں رہ سکتا کے نسلی اونٹ میں انا کا بڑا معاملہ ہوتا ہے ہر اونٹنی کا اس کےنبھا نہیں ھو سکتا ۔
خیر بات ختم کرتے وقت میں نے اپنی عمر بتائی اور ان کی پوچھی تو معلوم ہوا ۹۵ برس کے تھے اور ان کی والدہ کا انتقال ۱۰۵ برس کی عمر میں ہوا تھا
میں نے زرا ہچکچاہٹ سے پوچھا کہ اچھی صحت کا راز تو بتائیں
کہنے لگے بس بیمار نہ پڑو؟
میں نے کہا یہ تو ہمارے بس کی بات نہیں۔
ھنستے ہوئے کہنے لگے بس کی بات ہے
میں نے کہا آپ بتائیں میں ضرور عمل کرونگا
میرے قریب آکر آہستہ سے کہنے لگے منہ میں کبھی کوئی چیز بسم اللّٰہ کے بغیر نہ ڈالنا چاہے پانی کا قطرہ ہو یا چنے کا دانہ؟
مین خاموش سا ہوگیا
پھر کہنے لگے اللّٰہ نے کوئی چیز بے مقصد اور بلاوجہ نہیں بنائی ہر چیز میں ایک حکمت ہے اور اس میں فائدے اور نقصان دونوں پوشیدہ ہیں- جب ہم کوئی بھی چیز بسم اللّٰہ پڑھ کر منہ میں ڈالتے ہیں تو اللّٰہ اس میں سے نقصان نکال دیتا ہے-
ہمیشہ بسم اللّٰہ پڑھ کر کھاؤ پیو اور دل میں بار بار خالق کا شکر ادا کرتے رہو اور جب ختم کرلو تو بھی ہاتھ اٹھا کر شکر ادا کرو کبھی بیمار نہ پڑوگے- میری انکھیں تر ہوچکی تھیں ہماری مسجدوں کے ملا اور عالموں سے یہ کتنا بڑا عالم تھا؟
دیر ہورہی تھی میں سلام کرکے اٹھنے لگا تو میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے، کھانے کے حوالے سے آخری بات بھی سنتے جاؤ،
میں جی کہہ کر پھر بیٹھ گیا
کہنے لگے اگر کسی کے ساتھ بیٹھ کر کھا رہے ہو تو کبھی بھول کے بھی پہل نا کیا کرو چاہے کتنی ہی بھوک لگی ہو پہلے سامنے والی کی پلیٹ میں ڈالو اور وہ جب تک لقمہ اپنے منہ میں نہ رکھ لے تم نہ شروع کیا کرو
میری ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ اسکا فائدہ پوچھوں؟
لیکن وہ خود ہی کہنے لگے یہ تمہارے کھانے کا صدقہ ادا ہوگیا اور ساتھ ہی اللّٰہ بھی راضی ہوا کہ تم نے پہلے اس کے بندے کا خیال کیا- یاد رکھو غذا جسم کی اور بسم اللّٰہ روح کی غذا ہے- اب بتاؤ کیا تم ایسے کھانے سے بیمار پڑ سکتے ہو؟
میں بے ساختہ ان کے چہرے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر تیزی سے جانے کے لئے مڑ گیا کہ دین کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہمُ اور ہماری اولاد کتنی محروم ہے

Copy

23/08/2023

🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨

*اعلیٰ قرآن یافتہ مائیں*

ہماری مائیں "قرآن پڑھی" مائیں تھیں، جو سکول کالج نہیں گئی تھیں، قرآن بھی کسی مسجد کے ملاں جی سے نہیں پڑھا تھا، گھر ہی کی کسی بڑی بوڑھی سے "قرآن یافتہ" اور تہذیب یافتہ اور تربیت یافتہ ہوتی تھیں۔۔۔ جن کو صبر کے اصلی مفہوم کا علم تھا، جن کو اپنے خاوند کی محبت میں اس سے ڈرنا بھی آتا تھا اور خدمت کرنی بھی۔

عام گھروں کے "ابا جی" کا جب گھر آنے کا وقت ہوتا تو ہر گھر میں اک افراتفری ہوتی۔ بچے پتنگ اڑاتے چھت سے نیچے اتر آتے، گلیوں میں کھیلتے بچے کھیل چھوڑ کر گھروں میں جا دبکتے۔ ماوؑں کے لئے یہ وقت بڑا بھاری ہوتا تھا۔ تیاریاں ایسے ہو رہی ہوتیں جیسے کوئی مہمان پہلی بار کسی کے ہاں آ رہا ہو ۔۔۔اُلٹے توّے کی تازہ روٹی ، تازہ سالن، اچار، چٹنی، مربہ، مکھن، سلاد سب ساتھ ساتھ ۔۔۔ روٹیوں کا پٙرنا دُھلا ہوا نرم، چھابی صاف ستھری ۔۔۔ کھانے سے پہلے خاوند کے ہاتھ دھلوانا۔ کھانے شروع ہونے سے پہلے پانی دسترخوان پر رکھنا، بہترین بوٹیاں ابا جی کے لئے ۔۔۔ پھل کاٹ کر، سجا کر رکابی میں رکھنا ۔۔۔ میٹھا، گُڑ کا زردہ ۔۔۔ اور اس سب کے دوران احتراماً اپنے میاں سے آنکھ نہ ملانا ۔۔۔

اس زمانے میں میاں بیوی کا مہمانوں کی موجودگی میں سرِعام ایک ہی چارپائی پر بیٹھنا بھی بےحیائی سمجھا جاتا تھا ۔۔۔ میاں کی پسند ناپسند کا خیال رکھنا، کبھی بھولے سے بھی میاں کا نام نہ لینا بلکہ "بھولے دے ابا" "پروین دی ماں" جیسے الفاظ ایک دوجے کو بلانے کے لئے استعمال کئے جاتے تھے ۔۔۔ کبھی غیرموجودگی میں بھی واحد کا صیغہ استعمال نہ کرنا ۔۔۔ میاں کے صابن تولیہ کا خیال رکھنا۔ موسمی پھلوں کا اچار ڈالنا ۔۔۔ یہ وہ "امیاں" ہوا کرتی تھیں جن کو بچوں نے کبھی کھانا کھاتے نہیں دیکھا تھا، جانے وہ کب کھانا کھاتی تھیں۔

پھوپھیاں خالائیں سب ایک سی ہی لگا کرتی تھیں۔ ان کو محرم نا محرم کا بھی خوب پتہ تھا مگر گرمی بھلے پچاس ڈگری ہو چادر میں ہی لپٹی رہتی تھیں ، بچوں نے بھی کبھی ان کو ننگے سر نہ دیکھا تھا۔ ان بچوں نے کبھی اپنی ماں کو سوتے نہ دیکھا ۔۔۔ ان کے جاگنے سے پہلے جاگتیں ۔ ان کے سونے کے بعد سوتیں ۔۔۔

پنجیری کی جگہ دیسی گھی کی پنیاں اس لئے ایجاد ہوئیں تھیں کہ بچے ہاسٹلز میں رہنے لگے تھے ۔۔۔ ہاسٹل میں جس مرضی کمرے میں چلے جائیں ماوؑں کی سوغاتیں ہی سوغاتیں۔ السی کے لڈو, پتیسے۔ پنیاں ۔۔۔

وہ "قرآن پڑھی" امیوں کا آخری دور تھا ۔ تاریخ نے اولاد آدم کی ہزاروں لاکھوں سالوں کی تہذیب اور تربیت اُن انپڑھ عورتوں کی جھولی میں ڈال دی تھی ۔۔۔ جن کی وفا آسمانی دلیل کی مانند تھی ، جن کی حیاء زینبؓ کی چادر کا اثر اوڑھے رکھتی تھی ۔۔۔ جن کی خدمت ۔۔۔ سب سسرالیوں کا مشترکہ حق ہوا کرتی تھی ۔۔۔

وفا کی، حیا کی، تہذیب کی آخری علامت ایسے رخصت ہوئی کہ کسی کے پیپرز چل رہے تھے تو کسی بچے کے پریکٹیکلز کا رولا تھا ۔۔۔ کسی نے اسائنمنٹ جمع کروانی تھی تو کسی کا کلاس ٹور تھا ۔۔۔

کسی کو ٹھیک سے پتہ بھی نہ چل سکا کہ لاکھوں سال کی تہذیب ہمارے ہاتھوں خاموشی سے قبر میں اتر گئی ۔۔۔

اور پھر ہم ٹنڈ منڈ میکڈولنڈز تہذیب میں ڈھل گئے ۔ فاسٹ فوڈ کے فیور میں مبتلا ہو گئے۔ مغرب کے پراپیگنڈہ کے زیر اثر اپنی ہی بیگم کو پارٹنر بنا لیا ۔۔۔ گاڑی کا دوسرا پہیہ سمجھ لیا یہ جانے بغیر کے دو پہیئے تو سائیکل کے ہوتے ہیں اور ان میں سے بھی ایک ڈائریکشن وہیل ہوتا ہے اور دوسرا ڈرائیونگ وہیل ۔۔۔

"ماما" ان دنوں ماں کو نہیں ماں کے بھائی کو کہا جاتا تھا۔ "امی جی" بہت ہی پیار کا لفظ تھا شاید وہ بھی ان امیوں کے ساتھ ہی رخصت ہو گیا۔۔۔

اللہ ان امیوں کو جنت کے اچھے محلوں میں سنبھال لے اور ہمیں معاف فرما دے ۔۔۔

🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨🌸✨*

23/08/2023

ایک عالم اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لئے کھیتوں میں سے گزر رہے تھے۔
چلتے چلتے ایک پگڈنڈی پر ایک بوسیدہ جوتا دکھائی دیا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ کسی بڑے میاں کا ہے۔ قریب کے کسی کھیت کھلیان میں مزدوری سے فارغ ہو کر اسے پہن کر گھر کی راہ لیں گے۔ شاگرد نے جنابِ شیخ سے کہا؛ حضور! کیسا رہے گا کہ تھوڑی دل لگی کا سامان کرتے ہیــــں۔ جوتا ادھر ادھر کر کے خود بھی چھپ جاتے ہیــــں۔ وہ بزرگوار آن کر جوتا مفقود پائیں گے تو ان کا ردِ عمل دلچسپی کا باعث ہو گا۔
شیخ کامل نے کہا؛ بیٹا اپنے دلوں کی خوشیاں دوسروں کی پریشانیوں سے وابستہ کرنا کسی طور بھی پسندیدہ عمل نہیـں۔ بیٹا تم پر اپنے رب کے احسانات ہیــــں۔ ایسی قبیح حرکت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے رب کی ایک نعمت سے تم اس وقت ایک اور طریقے سے خوشیاں اور سعادتیں سمیٹ سکتے ہو۔ اپنے لئے بھی اور اس بیچارے مزدور کے لئے بھی۔ ایسا کرو کہ جیب سے کچھ نقد سکے نکالو اور دونوں جوتوں میں رکھ دو۔ پھر ہم چھپ کے دیکھیں گے جو ہو گا۔ بلند بخت شاگرد نے تعمیل کی اور استاد و شاگرد دونوں جھاڑیوں کے پیچھے دبک گئے۔

کام ختم ہوا، بڑے میاں نے آن کر جوتے میں پاؤں رکھا ۔۔۔ تو سکے جو پاؤں سے ٹکرائے تو ایک ہڑبڑاہٹ کے ساتھ جوتا اتارا تو وہ سکے اس میں سے باہر آ گئے۔ ایک عجیب سی سرشاری اور جلدی میں دوسرے جوتے کو پلٹا تو اس میں سے سکے کھنکتے باہر آ گئے۔ اب بڑے میاں آنکھوں کو ملتے ہیــــں، دائیں بائیں نظریں گھماتے ہیــــں۔ یقین ہو جاتا ہے کہ خواب نہیـں، تو آنکھیں تشکر کے آنسوؤں سے بھر جاتی ہیــــں۔ بڑے میاں سجدے میں گر جاتے ہیــــں۔ استاد و شاگرد دونوں سنتے ہیــــں کہ وہ اپنے رب سے کچھ یوں مناجات کر رہے ہیــــــــں۔
میرے مولا! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، تو میرا کتنا کریم رب ہے۔ تجھے پتہ تھا کہ میری بیوی بیمار ہے، بچے بھی بھوکے ہیــــں، مزدوری بھی مندی جا رہی ہے ۔۔۔ تو نے کیسے میری مدد فرمائی۔ ان پیسوں سے بیمار بیوی کا علاج بھی ہو جائے گا، کچھ دنوں کا راشن بھی آ جائے گا۔ ادھر وہ اسی گریہ و زاری کے ساتھ اپنے رب سے محو مناجات تھے اور دوسری طرف استاد و شاگرد دونوں کے ملے جلے جذبات اور ان کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ کچھ دیر کے بعد شاگرد نے دست بوسی کرتے ہوئے عرض کیا؛ استاد محترم! آپ کا آج کا سبق کبھی نہیـں بھول پاؤں گا۔ آپ نے مجھے مقصدِ زندگی اور اصل خوشیاں سمیٹنے کا ڈھنگ بتا دیا ہے۔ شیخ جی نے موقعِ مناسب جانتے ہوئے بات بڑھائی، بیٹا! صرف پیسے دینا ہی عطا نہیں بلکہ باوجود قدرت کے کسی کو معاف کرنا ﻋﻄﺎﺀ ہے۔ مسلمان بھائی بہن کے لئے غائبانہ دعا ﻋﻄﺎﺀ ہے۔ مسلمان بھائی بہن کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت ﻋﻄﺎﺀ ہے۔
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. جزاک اللہ خیر

22/08/2023

*"ہم بھی کیا لوگ ہیں؟"*
*اپنی انڈسٹری اپنے ہاتھوں سے تباہ کرکے اب ہم دنیا کی منتیں کررہے ہیں کہ یہاں انڈسٹری لگائے*

*پاکستان کے قیام کے بعد آٹو موبائل انجینئرنگ کی ابتدائی تاریخ اور اس صنعت پر بدترین خودکش حملہ :
جب پاکستان میں ١٠٠% بیوروکریسی مہاجروں پر مشتمل تھی جو انڈیا سے CSS کرکے آے تھے اور میرٹ پر یقین رکھتے تھے۔ملک کو ترقی دینا چاہتے تھے۔
*1953 نینشل موٹر کارپوریشن نے امریکن جنرل موٹرز کے اشتراک سے پاکستان کی پہلی واکس ہال گاڑی تیار کی، جبکہ بعد میں پاکستاں کے مشہور زمانہ بیڈ فورڈ ٹرک اسی پلانٹ پر تیار کیے گئے*
*1953 میں ایکسائڈ بیٹریز نے پاکستان کا پہلا بیٹری پلانٹ لگایا*
*1954 میں علی موٹرز نے فورڈ موٹرز امریکہ کے ساتھ مل کر پہلی کار، ٹرک اور اس کے بعد پک اپ ٹرک تیار کرنے کی غرض سے پلانٹ لگایا*
*1956 میں ہارون انڈسٹریز نے ڈوجے امریکہ کے برینڈ نیم سے پک اپ ٹرک تیار کیا*
*1961 میں آل ون انجینئرنگ نے پاکستان میں گاڑیوں کے پارٹس تیار کرنے کا جدید پلانٹ لگایا*
*1962 میں وزیر انڈسٹریز نے اٹالین لمبریٹا سکوٹر کمپنی کے اشتراک سے پاکستان کا پہلا سیکوٹر تیار لمبریٹا TV200 تیار کیا*
*1962 میں کندھنوالہ انڈسٹریز نے امریکن جیپ کمپنی کے مختلف ماڈل سیریز CJ 5, CJ 6, Cj 7 ملک میں پہلی بار تیار کی*
*1963 میں جنرل ٹائرز نے کراچی میں پہلا ٹائروں کا پلانٹ کانٹنٹل ٹائرز جرمنی کے تعاون سے قائم کیا*
*1963 میں ہائے سن گروپ نے امریکن ماک ٹرک کی پیداوار شروع کی*
*1964 میں رانا ٹریکٹرز (موجودہ ملت) نے میسی فرگوسن ٹریکٹرز کی ملکی سطح پر پیداوار کا آغاز کیا*
*1964 میں نینشل موٹرز کو خٹک خاندان نے خریدا تو وہ گندھارا موٹر انڈسٹریز بنی*
*1964 میں ہی راجا موٹرز نے اٹالین مشہور زمانہ ویسپا سکوٹر کی پاکستان میں پیدوار شروع کی*
*1964 اٹلس آٹوز نے پہلا ہنڈا موٹر سائیکل کا پلانٹ لگایا*
*1965 میں جعفر موٹرز نے مختلف آپریشن جیسے ٹریلر بیڈ ، ایمبولینس، فائر بریگیڈ کے لیے گاڑیاں تیار کرنے کا آغاز کیا*
*1965 میں مانو موٹرز نے ٹیوٹا گاڑیوں کی مقامی سطح پر پیداوار کی بنیاد رکھی۔۔*

*پھر آتا یے کہانی میں وہ موڑ جہاں سے شروع ہونے والا انٹرول آج تک ختم ہونے کا نام نہیں لیتا*
*1972 میں بھٹو نے تمام آٹو صنعتوں کو قومیا کر پاکستان آٹو موبائل کارپوریشن کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے*
*علی موٹرز کو عوامی موٹرز، وزیر علی انجینئرنگ کو سندھ انجینرنگ، ہارون انڈسٹریز کو ریپبلک موٹرز، گندھارا موٹرز کو نیشنل موٹرز، کندھنوالہ موٹرز کو نیا دور موٹرز، ہائے سن کو ماک ٹرک، جعفر موٹرز کو ٹریلر ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا نام دیا جاتا ہے*
*جبکہ رانا ٹریکٹرز کو ملت ٹریکٹرز کا نام دے کر پاکستان ٹریکٹر کارپوریشن کا ادارہ قائم کیا گیا*
*معذرت کے ساتھ بھٹو صاحب بھی کسی کے منصوبوں پر اپنی تختی لگاتے رہے، جس کی بدولت آج تک ہماری صنعت مکمل بحال نہیں ہو سکی، اگر یہ تمام ادارے اپنے اصل مالکان کے پاس ہوتے تو آج پاکستان کے اپنے برینڈ لانچ ہو چکے ہوتے، آج ہمارے ملک کی بنی گاڑیاں، موٹر سائیکل،ٹریکٹر اور ٹرک دوسرے ممالک کی سڑکوں پر نظر آ رہے ہوتے، بالکل ایسے جیسے ٹاٹا اور مہاہندرہ کی مصنوعات عرب دنیا اور افریقہ میں نظر آ رہی ہیں*
*آج ان قومیائی گئی صنعتوں میں سے صرف 3 ٹوٹی پھوٹی حالت میں کسی نہ کسی طرح زندہ ہیں، باقی سب کا وقت کے ساتھ انتقال ہو گیا*

*ساٹھ کی دہائی تک پاکستان میں انڈسٹری فروغ پا رہی تھی، اصفہانی ، آدم جی ، سہگل ،جعفر برادرز ، رنگون والا، افریقہ والا برادرز جیسے ناموں نے پاکستان کو انڈسٹر یلائزیشن کے راستے پر ڈال دیا تھا، دنیا پاکستان کو انڈسٹریل پیراڈائز کہا کرتی تھی*
*ماہرین کا کہنا تھا ترقی کی رفتار یہی رہی تو پاکستان ایشیاء کا ٹائیگر بن جائے گا*
*یہاں فیکٹریاں ، ملیں اور کارخانے لگ رہے تھے، بجائے ان کاروباری خاندانوں کے مشکور ہونے کے کہ وہ معاشی سرگرمی کو زندہ رکھے ہوئے تھے، ہمارے ہاں سرمایہ دار کو ہمیشہ دشمن سمجھا گیا‘ رہی سہی کسر بھٹو کے سوشلزم کے خواب نے پوری کر دی، ہمارے ہاں نظمیں پڑھی جانے لگیں ’’چھینو مل لٹیروں سے ‘‘*
*چنانچہ ایک دن بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کے ذریعے یہ سب کچھ چھین لیا، لوگ رات کو سوئے تو بڑے وسیع کاروبار کے مالک تھے صبح جاگے تو سب کچھ ان سے چھینا جا چکا تھا*

*بھٹو نے 31 صنعتی یونٹ، 13 بنک ، 14 انشورنش کمپنیاں ، 10 شپنگ کمپنیاں اور 2 پٹرولیم کمپنیوں سمیت بہت کچھ نیشنلائز کر لیا، اسٹیل ملز کارپوریشن آف پاکستان، کراچی الیکٹرک، گندھارا انڈسٹریز ، نیشنل ریفائنریز، پاکستان فرٹیلائزرز، انڈس کیمیکلز اینڈ اندسٹریز، اتفاق فاؤنڈری، پاکستان اسٹیلز، حبیب بینک ، یونائیٹڈ بینک ، مسلم کمرشل بینک ، پاکستان بینک ، بینک آف بہاولپور ، لاہور کمرشل بینک ، کامرس بینک ، آدم جی انشورنس، حبیب انشورنس، نیو جوبلی، پاکستان شپنگ، گلف اسٹیل شپنگ، سنٹرل آئرن ایند اسٹیل سمیت کتنے ہی اداروں کو ایک حکم کے ذریعے ان کے جائز مالکان سے چھین لیا گیا*
*مزدوروں اور ورکرز کو خوش کرنے کے لیے سوشلزم کے نام پر یہ واردات اس بے ہودہ طریقے سے کی گئی، شروع میں کہا گیا حکومت ان صنعتوں کا صرف انتظام سنبھال رہی ہے ، جب کہ ملکیت اصل مالکان ہی کی رہے گی، پھر کہا گیا ان صنعتوں کی مالک بھی حکومت ہو گی، پہلے کہا گیا کسی کو کوئی زر تلافی نہیں ملے گا، پھر کہا گیا دیا جائے گا، کبھی کہا گیا مارکیٹ ریٹ پر دیا جائے گا پھر کہا گیا ریٹ کا تعین حکومت کرے گی، یوں سمجھیے ایک تماشا لگا دیا گیا*
*مزدور اور مالکان کے درمیان معاملات خراب تھے یا دولت کا ارتکاز ہو رہا تھا تو اس معاملے کو اچھے طریقے سے بیٹھ کر حل کیا جا سکتا تھا، مزدوروں کی فلاح کے لیے کچھ قوانین بنائے جا سکتے تھے لیکن وہ مزدور اور کارکن کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ سرمایہ داروں کے خلاف انہوں نے انقلاب برپا کر دیا ہے، یہ تاثر قائم کرتے کرتے انہوں نے پاکستانی معیشت کو برباد کر دیا*

* رزاق داؤد کے دادا سیٹھ احمد داؤد کو جیل میں ڈال کر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا، بعد ازاں وہ مایوس ہو کر امریکہ چلے گئے اور وہاں تیل نکالنے کی کمپنی بنا لی، اس کمپنی نے امریکہ میں تیل کے چھ کنویں کھودے اور کامیابی کی شرح 100 فیصد رہی*
*آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم تیل کی تلاش کی کھدائی کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کے محتاج ہیں، صادق داؤد نے بھی ملک چھوڑ دیا ، وہ کینیڈا شفٹ ہو گئے*

*ایم اے رنگون والا ایک بہت بڑا کاروباری نام تھا، وہ رنگون سے بمبئی آئے اور قیام پاکستان کے وقت سارا کاروبار لے کر پاکستان آ گئے، وہ یہاں ایک یا دو نہیں پینتالیس کمپنیاں چلا رہے تھے، انہوں نے بھی مایوسی اور پریشانی میں ملک چھوڑ دیا، وہ ملائیشیا چلے گئے*

*بٹالہ انجینئرنگ کمپنی والے سی ایم لطیف بھی بھارت سے پاکستان آ چکے تھے اور بادامی باغ لاہور میں انہوں نے پاکستان کا سب سے بڑا انجینئرنگ کمپلیکس قائم کیا تھا جو ٹویوٹا کے اشتراک سے کام کر رہا تھا، یہ سب بھی ضبط کر لیا گیا، انہیں اس زمانے میں ساڑھے تین سو ملین کا نقصان ہوا اور دنیا نے دیکھا بٹالہ انجینئرنگ کے مالک نے دکھ اور غم میں شاعری شروع کر دی*
*رنگون والا ، ہارون ، جعفر سنز ، سہگل پاکستان چھوڑ گئے، کچھ نے ہمت کی اور ملک میں ہی رہے‘ جیسے دادا گروپ ، آدم جی، گل احمد اور فتح، لیکن ان کا اعتماد یوں مجروح ہوا کہ پھر کسی نے انڈسٹر یلائزیشن کو سنجیدہ نہیں لیا*
*احمد ابراہیم کی جعفر برادرز اس زمانے میں مقامی طور پر کار بنانے کے قریب تھی، ہم آج تک کار تیار نہیں کر سکے*
*فینسی گروپ اکتالیس صنعتیں تباہ کروا کے یوں ڈرا کہ اگلے چالیس سالوں میں اس نے صرف ایک فیکٹری لگائی ، وہ بھی بسکٹ کی*
*ہارون گروپ کی پچیس صنعتیں تھیں، وہ اپنا کاروبار لے کر امریکہ چلے گئے، آج پاکستان میں ان کے صرف دو یونٹ کام کر رہے ہیں، کاروباری خاندان ملک چھوڑ گئے یا پاکستان میں سرمایہ کاری سے تائب ہو گئے*

*ادھر حکومت نے صنعتیں قبضے میں تو لے لیں لیکن چلا نہ سکے،ان اداروں میں سیاسی کارکنوں کی فوج بھرتی کر دی گئی، مزدور اب سرکار کے ملازم تھے ، کام کرنے کی کیا ضرورت تھی، نتیجہ یہ نکلا ایک ہی سال میں قومیائی گئی صنعت کا 80 فیصد برباد ہو گیا*
*زرعی گروتھ کی شرح میں تین گنا کمی واقع ہوئی،نوبت قرضوں تک آ گئی، جتنا قرض مشرقی اور مغربی یعنی متحدہ پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں لیا تھا اس سے زیادہ قرض بھٹو صاحب کی حکومت نے چند سالوں میں لے لیا، خطے میں سب سے زیادہ افراط زر پاکستان میں تھا، ادائیگیوں کے خسارے میں 795 فیصد اضافہ ہو گیا*
*اسٹیٹ بنک ہر سال ایک رپورٹ پیش کرتا ہے، بھٹو نے چار سال اسٹیٹ بنک کو یہ رپورٹ ہی پیش نہ کرنے دی تاکہ لوگوں کو علم ہی نہ ہو سکے کتنی تباہی ہو چکی*

*اور اب حال یہ ہے*

*دنیا چالیس سال سے کمپیوٹر استعمال کر رہی ہے اور ہم آج تک ایک ماؤس نہیں بنا سکے*
*دنیا تیس سال سے موبائل فون استعمال کر رہی ہے اور ہم آج تک ایک چارجر نہیں بنا سکے*

21/08/2023

ایک بینک ڈکیتی کے دوران ڈکیت نے چیخ کر سب سے کہا کوئی بھی نہ ہلے، سب چپ چاپ زمین پر لیٹ جائیں، رقم لوگوں کی ہے اور جان آپ کی اپنی ہے۔

سب چپ چاپ زمین پر لیٹ گئے۔ کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ اسے کہتے ہیں مائنڈ چینج کانسیپٹ سوچ بدلنے کا تصور) ڈکیتی کے بعد گھر واپس آئے تو ایم بی اے پاس نوجوان ڈکیت نے پرائمری پاس بوڑھے ڈکیٹ سے کہا چلو رقم گنتے

ہیں۔

بوڑھے ڈکیت نے کہا تم پاگل ہو گئے ہو اتنے زیادہ نوٹ کون گنے، رات کو خبروں میں سن لینا کہ ہم کتنا مال لوٹ کر لائے ہیں۔ اسے کہتے ہیں تجربہ جو کہ آج کل ڈگریوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

دوسری جانب جب ڈاکو بینک سے چلے گئے تو منیجر نے سپروائزر سے کہا کہ پولیس کو فون کرو۔ سپروائز نے جواب دیا رک جائیں سر ! پہلے بینک سے ہم دونوں اپنے لیے دس لاکھ ڈالرز نکال لیتے ہیں اور ہاں وہ چالیس لاکھ ڈالرز کا گھپلہ جو ہم نے حالیہ دنوں میں کیا ہے وہ بھی ڈاکوؤں پر ڈال دیتے ہیں کہ وہ لوٹ کر لے گئے ۔ اسے کہتے ہیں وقت کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا، اور مشکل حالات کو اپنے فائدے کے مطابق استعمال کرنا۔

منیجر ہنس کر بولا ہر مہینے ایک ڈکیتی ہونی چاہیے۔ اسے

کہتے ہیں بوریت ختم کرنا کیونکہ ذاتی مفاد اور خوشی جاب

سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ اگلے دن اخبارات اور ٹی وی پر خبریں تھیں کہ ڈاکو بینک سے سو ملین ڈالرز لوٹ کر فرار ڈاکوؤں نے بار بار رقم گنی لیکن وہ پچاس ملین ڈالرز زیادہ نہ نکلی۔ بوڑھا ڈاکو غصے میں آ گیا اور چیخا ہم نے اسلحہ اٹھایا۔ اپنی جانیں رسک پر لگائیں اور پچاس ملین ڈالرز لوٹ سکے، جبکہ بینک منیجر نے بیٹھے سے بیٹھے چند انگلیاں ہلا کر پچاس ملین ڈالرز لوٹ لیا۔ اس سے کہ تعلیم کتنی ضروری ہے۔ ہم چور نہیں پڑھے لکھے پتا چلتا ہے ہونا چاہیے تھا۔

اسی لئے کہتے ہیں علم کی قیمت سونے کے برابر ہوتی

20/08/2023

‏ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی پانچ بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ھے ،
اِس یونیورسٹی میں 16 ہزار اسٹاف ہیں۔
جن میں سے ڈھائی ہزار لیکچرز اور پروفیسر ہیں ۔
سٹوڈنٹس کی تعداد 36 ہزار ھے۔

اس یونیورسٹی کے 160 سائنسدانوں اور پروفیسرز نے نوبل انعام حاصل کئے ہیں

ہارورڈ یونیورسٹی کا یہ دعویٰ ھے کہ ہم نے دنیا کو آج تک جتنے عظیم دماغ دیۓ ہیں وہ دنیا نے مجموعی طور پر پروڈیوس نہیں کیۓ اور یہ دعویٰ غلط بھی نہیں ھے کیونکہ دنیا کے 90 فیصد سائنسدان ، پروفیسرز ، مینجمنٹ گرو اور ارب پتی بزنس منیجرز اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ہارورڈ یونیورسٹی کے طالب علم رھے ہیں ،

اس یونیورسٹی نے ہر دور میں کامیاب ہونے والے لوگوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ھے.

ہارورڈ یونیورسٹی کا ایک میگزین ھے ، جس کا نام ھے

Harvard University Business Review

اور اس کا دنیا کے پانچ بہترین ریسرچ میگزینز میں شمار ہوتا ھے ،

اس میگزین نے پچھلے سال تحقیق کے بعد یہ ڈکلئیر کیا کہ ہماری یونیورسٹی کی ڈگری کی شیلف لائف محض پانچ سال ھے ، یعنی اگر آپ دنیا کی بہترین یونیورسٹی میں سے بھی ڈگری حاصل کرتے ہیں تو وہ محض پانچ سال تک کارآمد ھو گی.

یعنی پانچ سال بعد وہ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا رہ جائے گی ۔

آپ خود بھی اگر ایک ڈگری ہولڈر ہیں ، چند لمحوں کے لیے ذرا سوچئے اور جواب دیجئے
آپ نے آخری مرتبہ اپنی ڈگری کب دیکھی تھی اور آپ کی ڈگری اِس وقت کہاں پڑی ھے شائد آپ کو یہ یاد بھی نہ ہو ۔

ہمارے پاس اِس وقت جو علم ھے اُس کی شیلف لائف محض پانچ سال ھے یعنی پانچ سال بعد وہ آوٹ ڈیٹڈ ہو چکا ہوگا اور اس کی کوئی ویلیو نہیں ہوگی

آپ اگر آج ایک سافٹ ویئر انجینئر بنتے ہیں تو پانچ سال بعد آپ کا نالج کارآمد نہیں رہے گا اور آپ اس کی بنیاد پر کوئی جاب حاصل نہیں کر سکیں گے ۔

اس کو اس طرح سمجھ لیں جیسے کمپیوٹر کی ڈپریسیشن ویلیو %25 ہے مطلب چار سال بعد ٹیکنالوجی اتنا آگے بڑھ جا چکی ہوگی کہ آج خریدا ہوا کمپیوٹر چار سال بعد مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔

*آج کے دور میں انسان کے لۓ بہت زیادہ ضروری ھے*

*مسلسل نالج*

آپ خود کو مسلسل اَپ ڈیٹ اور اَپ گریڈ کرتے رھیں ۔۔پھر ہی آپ دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں

*آپ سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے شعبے سے متعلق کوئی نیا کورس ضرور کریں*
یہ کورس آپ کے نالج کو بڑھا دے گا اور نئی آنے والی ٹیکنالوجی سے آپ کو باخبر رکھے گا۔

نالج بھی اس وقت تک نالج رہتا ھے جب تک آپ اُس کو ریفریش کرتے رہتے ہیں ۔۔
آپ اسے ریفریش نہیں کریں گے تو وہ ٹہرے ہوئے گندے پانی کی طرح بدبو دینے لگے گا۔

آج آپ دیکھیں ہم دنیا سے بہت پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔
دو وجوہات تو بہت واضع ہیں اکثر شعبوں میں ہم 50 سال یا اس سے بھی پرانی ٹیکنالوجی سے کام چلا رہے ہیں۔۔مثال کے طور پر ہمارا ریلوے نظام۔۔ہمارا نہری نظام، فی ایکڑ پیداواری نظام ،خوراک کو محفوظ کرنے کا طریقہ کار وغیرہ وغیرہ

دوسری وجہ نوکری مل جانے کے بعد مکھی پر مکھی مارنے کی عادت ، ہم شعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب نوکری کا حصول تھا وہ مل گئی۔۔جس طرح سالوں سے وہ شعبے چل رہے ہیں ہم اس کا حصہ بن جاتے ہیں بجائے اس کے کہ اپنے علم سے وہاں بہتری لائیں ، ادارے کی کارکردگی میں ایفشینسی لائیں اور خود اپنے اور لوگوں کے لئیے سہولتیں پیدا کریں۔

دنیا میں بارہ برس میں آئی فون کے چودا ورژن آگئے ، لیکن آپ اپنے پرانے نالج سے آج کے دور میں کام چلانا چاہ رھے ھیں ۔۔

یہ کیسے ممکن ھے؟
یہ اَپ گریڈیشن آپ کو ہر سال دوسروں کے مقابلے کی پوزیشن میں رکھے گی ۔ ورنہ دنیا آپ کو اٹھا کر کچرے میں پھینک دے گے۔۔۔۔۔ ✍️

20/08/2023

سنگا پور 1965ء تک ملائیشیا کا انتہائی پس ماندہ علاقہ ہوتا تھا

زمین دلدلی، ویران اور بنجر تھی۔

لوگ سست، بےکار اور نالائق تھے،

یہ صرف تین کام کرتے تھے ۔۔

بحری جہازوں سے سامان اتارتے تھے،

چوری چکاری کرتے تھے،

بحری جہازوں سے چوہے نکال کر کھاتے تھے اور بس۔

ملائیشیا ان سے بہت تنگ تھا۔۔۔

بڑا مشہور واقعہ ہے۔۔

تنکو عبدالرحمن کے دورمیں سنگا پور نے آزادی مانگی اور پارلیمنٹ کے کل 126 ارکان نے سنگاپور
کے حق میں ووٹ دے دیے۔

بل کے خلاف ایک بھی ووٹ نہیں تھا۔ پارلیمنٹ کا کہنا تھا ہم نے ان بےکار لوگوں اور دلدلی زمین کو اپنے پاس رکھ کر کیا کرنا ہے اور یوں سنگا پور آزاد ہو گیا۔

یہ قدرت کی طرف سے سنگا پور کے لیے پہلا تحفہ تھا۔

دوسرا تحفہ اسے 'لی کوآن یو' کی شکل میں دیا‘ لی کو آل سنگا پور کے وزیراعظم بنے اور اس شخص نے ان دلدلی زمینوں کا مقدر بدل کر رکھ دیا

اور بیس سال بعد 42 بائی 23 کلو میٹر کی یہ سٹیٹ دنیا کی کامیاب اور تیزی سے ترقی کرتی ریاست بن چکی تھی،

اس میں امن بھی تھا، خوش حالی بھی، روزگار بھی، سرمایہ بھی اور مستقبل بھی۔

سنگا پور دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اقوام عالم کو بتایا کہ ملکوں کے لیے وسائل نہیں 'قوت ارادی' کی ضروری ہوتی ہے۔

ملکوں کو آبادی، ہنر مندی، رقبہ اور تیل بھی درکار نہیں ہوتا۔۔۔ ان میں بس آگے بڑھنے کا ارادہ ہونا چاہیے۔

لی کو آن یو ایک پوری یونیورسٹی تھے، اس شخص نے دو دہائیوں میں پوری قوم بدل کر رکھ دی، کیسے؟

انہوں نے پانچ اہم کام کیے۔

1️⃣امن امان مذہبی آزادی
وزیراعظم لی نے سب سے پہلے ملک میں امن قائم کر دیا‘ مذہب کو ذاتی مسئلہ بنا دیا‘ آپ مسلمان ہیں یا سکھ‘ عیسائی‘ بدھ یا ہندو کسی کو کوئی غرض نہیں‘ مسجد کے ساتھ چرچ‘ مندر اور ٹمپل بنا دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کوئی شخص‘ کسی شخص کے مذہب کے بارے میں سوال نہیں اٹھائے گا اور ایک مذہب کا پیروکار دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں جا سکے گا اور اس پر نہ کوئی اعتراض کرے گا نہ تبلیغ۔
قانون کی نظر میں سب کو برابر کر دیا، ملک میں کوئی کلاس کلچر نہیں تھا۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں تھی، سب برابر تھے اور ہیں۔

2️⃣ سیاسی شعور
ملک میں ہر قسم کے احتجاج پر بھی پابندی لگا دی اور سڑکیں، گلیاں اور بازار ہر قیمت پرکھلے رہیں گے اور کوئی شخص کسی کے لیے سیکورٹی رسک نہیں بنے گا۔

3️⃣ بہترین ایماندار دیانتدار لیڈر شپ
لی کو آن یو نے چن چن کر اہل اور ایمان دار لوگ اہم عہدوں پر تعینات کر دیے اور انہیں کام کرنے کا بھرپور موقع دیا۔ لوگ آج بھی تیس تیس سال سے اپنے عہدوں پر بیٹھے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ایمان داری کا یہ عالم تھا لی کوآن یو کے ڈیڑھ درجن منسٹر اور بیوروکریٹس کرپشن کے الزام کے بعد خودکشی کرگئے۔

حکومت اہل لوگوں کو دوسرے ملکوں سے بھی بھرتی کر لیتی تھی۔

سابق صدر ممنون حسین نے ایک بار بتایا، میں 1999ء میں گورنر سندھ تھا، لی کو آن یو دورے پر آئے، میں نے انہیں کھانے پر بلایا، دعوت کے دوران میں نے ان سے کہا، ہم کراچی پورٹ کو بھی سنگا پور پورٹ کی طرح ڈویلپ کرنا چاہتے ہیں آپ ہمیں کوئی ٹپ دیں،

میری بات سن کر 'لی کوآن یو' دیر تک ہنستے رہے اور پھر بولے۔۔۔

*"آپ کیپٹن سعید سے رابطہ کریں.. یہ پاکستانی بھی ہیں اور کراچی کے شہری بھی ہیں ہم نے ان کی مدد سے سنگاپور پورٹ ڈویلپ کی تھی"

ممنون حسین یہ سن کر شرمندہ ہو گئے اور دیر تک لی کو آن یو کی طرف دیکھتے رہے۔

4️⃣ ہنرمند لوگ + سرمایا کاری
لی کو آن یو نے اپنا ملک پوری دنیا کے بزنس مینوں کے لیے کھول دیا۔ کوئی کہیں سے بھی آ سکتا تھا اور ملک میں کام کر سکتا تھا بس ایک شرط تھی۔ اس کے پاس پیسہ اور تجربہ ہونا چاہیے،

مثلاًبھارت کے ایک مسلمان مشتاق احمد نے 1971ء میں سنگاپور میں المصطفیٰ سٹور بنایا یہ اب ایک طویل کمپلیکس بن چکا ہے مشتاق احمد نیک نیت بزنس مین ہے منافع کم اور کوالٹی زیادہ پر یقین رکھتا ہے لہٰذا یہ اب تک کھرب پتی بن چکا ہے اور کسی نے آج تک اسے تنگ نہیں کیا اور یہ یہاں اکیلا نہیں ہے ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں

اور ہر شخص نے مشتاق احمدکی طرح ترقی بھی کی اور یہ دوسروں کے لیے روشن مثال بھی بنا۔

5️⃣ لی کو آن یو نے تعلیم اور ہنر پر خصوصی توجہ دی, سنگا پور کے تعلیمی ادارے محض تعلیمی ادارے نہیں ہیں,

یہ ہنر مند اور اہلیت کی لیبارٹریاں ہیں لہٰذا یہاں جہاں ایک طرف 96 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں وہاں یہ ہنر مند بھی ہیں یہ خود بھی کما رہے ہیں اور ملک کو بھی کما کر دے رہے ہیں.

لی کو آن یو نے پوری قوم کو تہذیب بھی سکھا دی, اس کا آغاز شخصی صفائی سے کیا گیا.
لوگوں کو ٹوائلٹ استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا گیا۔

ملک میں مسلم شاور اور ٹوائلٹ پیپر لازمی قرار دے دیا۔
ہاتھوں کی صفائی کو قانون بنا دیا۔ تھوکنے پر پابندی لگا دی۔
سنگاپور دنیا کا واحد ملک ہے جس میں آج بھی آپ اگر کسی سڑک یا عوامی جگہ پر تھوکتے, پان کی پیک گراتے یا ناک صاف کرتے پکڑے جائیں تو آپ سیدھے جیل جائیں گے

لہٰذا آپ کو پورے ملک میں کوئی شخص گلا صاف کرتا یا تھو تھوکرتا دکھائی نہیں دے گا,

آپ یہ جان کر بھی حیران ہونگے اس پابندی کے بعد اب سنگا پور کے لوگوں میں تھوکنے کی خواہش ہی ختم ہو گئی ہے۔

مزید لی کو آن یوکا خیال تھا سگریٹ، پان اور چیونگم گند پھیلاتے ہیں لہٰذا اس نے ان پر بھی پابندی لگا دی،

سنگاپور میں سگریٹ بہت مہنگا ہے اور پینے کے لیے جگہیں بھی مختص ہیں اگرکوئی شخص ان کے علاوہ کسی جگہ ہاتھ میں ڈبی یا سگریٹ پکڑ کر کھڑا ہو تو اسے پولیس پکڑ لیتی ہے۔

چیونگم پر آج بھی پابندی ہے۔ آپ ملک میں چیونگم لا بھی نہیں سکتے۔

6️⃣ ‘لی کو آن یو نے پورے ملک میں انفراسٹرکچر کا جال بچھا دیا, سنگا پور میں ہائی ویز، میٹروز اور پل اس وقت بنے جب مشرق میں ان کا تصوربھی نہیں تھا،

پورے ملک میں پینے کا صاف پانی حکومت سپلائی کرتی ہے، آپ کسی بھی ٹونٹی کا پانی پی سکتے ہیں، میں نے آئی ایل او کی کانفرنس میں شرکت کی، کانفرنس میں 48 ممالک کے وفود آئے تھے لیکن کسی کے میز پر پانی کی بوتل نہیں تھی،

پانی کے جگ تھے اور یہ جگ عملہ ٹونٹی سے بھر کر رکھتا تھا، ہوٹلوں کے اندر بھی ٹونٹیاں لگی ہیں ائیرپورٹ کے بزنس لائونجز میں بھی پانی کی بوتلیں نہیں ہوتیں۔

7️⃣ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا تصور تک نہیں تاہم وسائل کی بچت ضرور کی جاتی ہے۔ فالتو لائیٹ اور جلتا ہوا چولہا گناہ سمجھا جاتا ہے۔

اگر اس ملک کو چلانا ہے تو ہمیں لی کو آن یو بننا پڑے گا۔

خدا کی پناہ 683 مربع کلو میٹر کے سنگاپور کے مالیاتی ذخائر اڑھائی سو بلین ڈالر ہیں اور ہم "سونے کی چڑیا" اور ایک "ایٹمی طاقت" ہوتے ہوئے ، ایک ایک بلین کے لیئے "کشکول" لیئے پھر رہے ہیں ۔

آئیے ھم عہد کریں کہ ھم بھی پاکستان کو سنگاپور سے بھی بہترین بنانے کے لیے مثبت سوچ سے اپنا حصہ ڈالیں

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Danish Zafar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share