توار ءِ بلوچستان

  • Home
  • توار ءِ بلوچستان

توار ءِ بلوچستان Media

مسلم باغ، بھتہ نہ دینے پر وزیراعلیٰ کے کوآرڈینیٹر کے بیٹے نے آئل ٹینکر کو جلا دیا، مقدمہ درج میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع ق...
18/06/2023

مسلم باغ، بھتہ نہ دینے پر وزیراعلیٰ کے کوآرڈینیٹر کے بیٹے نے آئل ٹینکر کو جلا دیا، مقدمہ درج

میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے میں وزیراعلیٰ کے کوآرڈینیٹر کے بیٹے کے خلاف بھتہ نہ دینے پر آئل ٹینکر کو جلانے کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق لیویز تھانہ مسلم باغ میں گاڑی کو جلا نے کامقدمہ سلام خان سمیت تین افراد کے خلاف در ج کر لیا گیا ہے۔ مقدمہ عبدالمالک نامی شخص کی مدعیت میں تعزیراتِ پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔ آئل ٹینکر میں ڈیزل میختر لے جایا جا رہا تھا۔

مبینہ طور پر بھتہ نہ دینے پر سلام خان مہترزئی اور ان کے ساتھیوں نے آئل ٹینکر پر فائرنگ کی۔ فائرنگ سے گاڑی مکمل طور پر جل گئی۔ گاڑی میں لاکھوں روپے کا تیل بھی جل کر ضائع ہو گیا۔

ملزم سلام خان، وزیر اعلیٰ بلوچستان کے کوآرڈینیٹر کے قریبی عزیز ہیں۔

18/06/2023

اس ویڈیو میں صاف نظر آتا ہے کہ دہشت گرد کون ہے
پاکستانی فوج یا بلوچ؟
پھر بھی کہتے ہے بلوچ غدار ہے۔
تمہارے ایسے ہتھکنڈوں سے غدار ہی پیدا ہونگے وفادار نہیں۔

دنیا کے تحریکوں میں فدائی حملوں کے اثرات اور فدائی شاری بلوچJune 13, 2023تحریر: ماہ روش بلوچدی بلوچستان پوسٹبلوچوں کو اس...
13/06/2023

دنیا کے تحریکوں میں فدائی حملوں کے اثرات اور فدائی شاری بلوچ
June 13, 2023
تحریر: ماہ روش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچوں کو اس بات پر فخر ہونی چاہیے کہ بلوچوں کی تاریخ مزاحمت اور حمیت کی تاریخ ہے۔ بلوچ نے بحیثیت ایک قوم ہر صدی اپنی شناخت اور سرزمین کی حفاظت ؤ محبت میں جنگیں لڑ کربے شمار قربانیاں دی ہیں چاہے پرتگیزیوں کے خلاف ہو، ایران اور برطانیہ یا موجودہ دور میں پاکستان کے خلاف جاری بلوچ انسرجنسی ہو۔

ہر دور میں مختلف شکل و صورت میں بلوچوں کا اپنی شناخت اور آزادی کی دفاع میں اغیار کے خلاف جدوجہد جاری رہا ہے، موجودہ دور میں مضبوط ادارتی شکل میں بلوچ مزاحمت جاری ہے وہیں بلوچ تحریک کے تسلسل نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے پہ مجبور کیا ہے۔

26 اپریل 2022 کو شاری بلوچ کی فدائی حملے نے اس بلوچ جنگ آزادی کو ایک نیا رخ دیا ہے اور دنیا بھر کے تھنک ٹینک اور فوجی صنعتی کمپلکس جیسے بڑے لوتھین( Leviathan) کو اپنی جانب توجہ مبذول کرائی ہے ۔

جہاں بھی انقلابی یا آزادی کی جنگیں لڑی گئی ہیں وہاں خواتین کا کردار ہر دور میں نمایاں رہا ہے، بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں دیکھا جائے ویتنام سے لیکر الجیریا تک خواتین نے تاریخ کے درخشاں باب قربانیوں کی داستان رقم کی ہیں۔

انگولہ، نمیبیا اور موزمبیق کی آزادی کی تحریک میں گوریلہ حملے ہوں یا فدائی حملے، وہاں کی جرات مند عورتوں نے لاجواب قربانیاں دی ہیں اور عورتوں کی اس قومی تحریک سے جڑے ہوئے سوچ نے ہزاروں انقلابی جہدکار پیدا کئے ہیں۔

دنیا میں ایسی کوئی تحریک نہیں ہے جہاں عورتوں کا کردار نہیں رہا ہے۔ انگولہ میں پرتگالی سامراج کے خلاف ” پی ایم ایل اے“ ( people’s movement for the liberation of Angola) میں جتنی مردوں کی تعداد تھی اتنی عورتوں کی اور آزادی کی تحریک میں مرد اور عورت نے کندھے سے کندھے ملا کر دشمن کے خلاف لڑے۔ ملکہ گنگہ (Queen Ginga) جیسے بہادر عورتوں نے تیس سال تک پرتگال کے خلاف مزاحمت کو برقرار رکھا۔

اسی طرح ” ایم ایل ایف“ (mozambican liberation front ) کی عورتوں نے قومی تحریک میں اپنا کام الگ طریقے سے سرانجام دیا۔ 1967 میں عورتوں کی سیاسی اور فوجی تربیت شروع کی گئی اور عورتوں کو تحریک میں شامل کرنے کے لئے مزمبیق میں باقاعدہ “ ایم ڈبلیو ایل“ (mozambican women league ) قائم کی گئی ۔ اور اس تنظیم میں (women detachmant ) کی ونگ بنائی گئی اور یہ (women detachmant ) کا بازو عورتوں کی جنگی تربیت کرتی تھی اور آگے چل کر 1972 میں ” او اہم ڈبلیو یو“ کی بنیاد رکھ دی گئی جس کے ذریعے موزمبیق کے ساری عورتوں کو سیاسی حوالے سے منظم کرنے کی جدوجہد کی گئی، جو آگے چل کر قومی تحریک میں اپنا کردار ادا کرنے والے تھے۔

الجیریا میں ” ایف ایل این“ ( national liberation front) کے عورتوں نے جنگی قوانین میں شاندار مثال قائم کی تھی۔

فلسطین میں بھی عورتوں نے قومی تحریک کے مختلف محاذوں میں بڑے کارنامے سرانجام دے ہیں، چاہیے وہ سیاسی، معاشی، سماجی یا جنگی محاذ ہوں۔

فلسطین کے قومی تحریک میں عورتوں نے سب سے پہلے ”پی ڈبلیو او“ (palestinian women union ) کو انیس سو اکیس میں قائم کیا اور یونین کو دو حصوں میں تقسیم کی گئی ۔ ایک حصے میں تعلیم یافتہ اور مڈل کلاس عورتیں تھیں، جن کا کام تھا تنظیم کے لئے فنڈز جمع کرنا، بائیکاٹ اور احتجاج کرنا تھا۔ جبکہ دوسری گروپ دیہاتی علاقوں سے عورتوں کی تھیں اور ان عورتوں کو جنگی ذمہ داری دی جاتی تھی، جیسا کہ ہتھیاروں کی فراہمی اور ہتھیاروں کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل کرنا۔

2000 میں فدائی حملوں اور خودکش حملوں میں فرق واضح کیا گیا ۔ ایک مظلوم قوم جو آزادی کی جنگ لڑرہی ہو، اس قوم کے لئے دشمن پر ایسے حملے فدائی حملے کہلاتے ہیں خودکش نہیں۔ نائن الیون کے بعد دنیا کی سیاست اور معاشی ڈھانچہ بدل گئی اور کئی ریاستوں میں مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے مذہب کے نام پر خودکوش حملے کئے، جیسا کہ القاہدہ اور داعش اور بوکوحرام جیسے مذہبی انتہا پسند تنظیوں سے تعلق رکھنے والے عورتیں مختلف احداف پر خودکش حملے کرتے رہے ہیں۔

فدائی حملے ایک نیا جنگی اسٹراٹیجی نہیں ہے۔ اس کا وجود قدیم زمانے میں بھی تھی ۔ ( judea) جہاں یہودیوں کی تعداد تھی، جب سلطنت روم نے اس جگہ پر قبضہ کیا تو یہودیوں کی ایک فرقہ جسے (zealot ) کہتے ہیں، لاطینی سپاہیوں پر فدائی حملہ کرتے تھے۔ اس کے بعد ایسے حملے ہوتے رہے جیسا کہ انارکسٹوں نے روس میں زار روس کے زمانے میں ایسے حملے کئے تھے ۔ فدائی حملے ایک نفسیاتی جنگی اسٹراٹیجی ہے۔ ایسے حملے پوری آبادی کو ذہنی طور پر بہت متاثر اور اثرانداز کرتا ہے اور دشمن ریاست کے جنگی حکمت عملیوں کو مفلوج کردیتے ہیں۔

سماجی سائنسدان اس حقیقت کو تین پرتوں کے لحاظ سے تجربہ کرتے ہیں۔ سیاسی سٹراٹیجی، سماجی و ثقافت اور ذاتی۔

شکاگو پروجیکٹ کے ڈائرکٹر روبلٹ پیپ اس جیسے حملوں کے لئے سیاسی اسٹراٹیجی کو استعمال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسے حملوں کو قومی آزادی کی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے اور یہ بھی کہتا ہے کہ قومی آزادی کی تحریک میں فدائی حملے عقلی اور حکمت عملی کے تحت کئے جاتے ہیں ناکہ نفسیاتی مسئلہ ہے۔ایسے حملوں کا مقصد قابض کے ہاتھوں اپنے زمین کو آزاد کرنا ہے۔

روبلٹ پیپ اپنے اس نظریہ کو معیاری ثابت کرنے کے تین سو مقدمات بہ طور دلیل پیش کرتا ہے، جیسا کے لبنان میں اسرائیل کے خلاف عورت اور مرد فدائی حملے کرتے ہیں، اسی طرح تامل ٹائیگر نے ایک نئی تامل ریاست بنانے کے لئے ایسے حملے کئے ہیں۔ فلسطین کے لوگوں نے غزہ اور مغربی کنارے میں اس اسٹراٹیجی کو اپنایا ہے اور چیچن باغیوں نے روس کے خلاف فدائی حملے کئے ہیں۔

مختلف قابضیںن نے ایسے فدائی حملوں کو کاونٹر کرنے کی کوشش کی ہے۔ فدائیں حملے کی وجہ نفسیاتی اور معاشی مسائل کو قرار دیا ہے ۔فدائی شاری بلوچ کے کاز کو نقصان دینے کے لئے ریاست پاکستان نے بھی یہی حربہ استعمال کیا لیکن ( Ji Hea Maleckova , Alan kureger ) ایسے بیانات کو رد کرتے ہیں اور دلیل دے کر ثابت کرتے ہیں کہ فلسطین میں فدائی حملے کرنے والے لوگ امیر گھروں سے تعلق رکھتے تھے اور اعلی سطح کے تعلیم یافتہ تھیں اور ایسے ہی شاری بلوچ معاشی مسائل سے دوچار نہ تھے اور ایک اعلی تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق تھا اور سیاسی حوالے سے باشعور استانی تھی۔

اقوام متحدہ کے منشیات اور جرم کے افسر نصرہ حسن کا کہناہے کہ ایسے لوگ نفسیاتی حوالے سے بھی نورمل ہیں ۔

شکاگو پروجیکٹ آن سیکورٹی اور دہشت گردی کے مطابق 1982 سے لیکر 2014 تک 176 خودکش اور فدائیں حملے عورتوں نے کئے ہیں۔

کلاڈیا برنر اپنی کتاب ( “Female Su***de Bombers” by Claudia Brunner ) میں لکھتے ہیں کہ جدید تاریخ میں پہلی فدائی حملہ آور خاتون ” ایس ایس این پی“ (Syrian socialist national party ) سے تعلق رکھتی تھی، جس نے 1985 میں لبنان میں اسرائیل کی فوجیوں پر حملہ کیا اور 2009 تک 85 فیصد فدائی حملے عورتوں نے قومی آزادی کی بنیاد پرکئے ہیں ۔

مرد اور عورت کی فدائی حملوں میں یہ فرق دیکھا گیا ہیکہ جب کوئی عورت فدائی حملہ کرتی ہے تو بین القوامی میڈیا میں اسے زیادہ ملتی ہے اور جس مقصد کے لئے کرتی ہے وہ زیادہ مقبول ہوتا ہے ۔ جیسا کہ فلسطینی اور کرد فدائی حملہ آور عورتوں کو دنیا میں زیادہ سنجیدگی سے لیا گیا ہے ۔

2006 میں 18 سال کی مروہ مسعود اور 57 سال کی فاطمہ عمر جو ایک بوڑھی عورت تھی نے فدائی حملے کر کے پوری دنیا کی میڈیا کا توجہ حاصل کیا تھا، شاہد شاری بلوچ کی فدائی حملے کو اس قدر دنیا میں توجہ نہیں دیا گیا اور لکھا نہیں گیا لیکن اس حملے نے دنیا کی تھنک ٹینک اداروں کو بلوچ آزادی کی جہدوجہد کی طرف متوجہ کرنے اور سنجیدگی سے سوچنے مجبور پر کیا ہے۔

قابض اور مقبوضہ قومیں فدائی حملوں کو دو مختلف نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں ۔ جب فلسطین کی عورتیں اسرائیل کے خلاف فدائی حملے کرتے تھے تو عرب میڈیا میں ان عورتوں کی قربانیوں اور کردار کی تشہیر کی جاتی تھی اور فدائی حملوں کو قانونی بنیاد پر صحیح ثابت کرنے کی کوشش ہوتی تھی، عرب تاریخ میں ان عورتوں کو ہیروئن اور سرخیل (Pioneer ) سے یاد کی جاتی ہے۔

دوسرا نقطہ نظر قابض کا ہے جو ان کو گمراہ اور نفسیاتی قرار دیتے ہیں۔ بلوچوں کے پاس خود تو ایک آزاد میڈیا نہیں ہے لیکن سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارم پر شاری بلوچ کو بلوچوں نے ایک اساطیری کردار کا مقام دیا ہے اور ریاست کے ہر حربے کو ناکام کرنے کی کوشش کی ہے ۔ قابض ریاست پاکستان فدائیں حملوں سے سخت خوفزدہ ہے اور فدائیں حملوں کو روکنے کے لئے عام بلوچ عورتوں کو جبری گمشدہ کرنے سے بھی دریغ نہیں کررہا ۔

دنیا بھر میں عورتوں کو ہمیشہ بہت جزباتی اور نازک ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جنیوا معاہدہ اور دوسرے بین القوامی معاہدوں میں جنگوں میں عورتیں غیرجنگجو قرار دی گئی ہیں لیکن قومیت کے بنیاد پر لڑی جانے والی جنگوں اور عوامی تحریکوں نے اس عمل کو مسترد کیا ہے۔ قوموں کی تاریخ میں ایسے واقعات کی برمار ہے جس میں عورتوں نے جنگوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

بائیس سالہ عبوعیشہ نے فلیسطیں کی آزادی کے خاطر قربان کرتے ہوئے اسرائیل کے قابض فوج پر 2002 میں فدائی حملہ کی تھی۔

حیات زینہ عینادی، پامارہ اور پیش مرگہ کی ہزاروں عورتوں نے داعش کی خلاف جنگ میں اہم ترین کردار ادا کر کے مذہبی شدت پسندی کو شکست دی ہے اور شاری بلوچ نے بلوچ قومی تحریک میں فدائی حملہ کرکے ایسا ہی کردار ادا کرکے قدامت پسندی کو مسترد کرکے بلوچ سماج میں ایک شمع روشن کی ہے، جس کو مشعل بناکر بلوچ خواتیں تحریک کے اول دستے میں روشنی کا پرچم بلند کررہے ہیں ۔

دنیا میں اب عورت خود جنگ اور مزاحمت کی سربراہی کررہی ہیں۔ دنیا میں فدائی حملہ کرنے والوں میں 30 فیصد فدائی حملے عورتوں نے کی ہیں جو قومی آزادی کی تحریکوں سے وابستہ تھے۔

فدائیں حملے کرنے والے عورتیں انقلاب اور آزادی کے بہترین اور باشعور سپاہی تھے۔ انہیں نہ کوئی معاشرتی روایات روک سکی اور نہ ہی ریاستی پروپگنڈہ، یہ انقلابی عورتیں نہ صرف قابض کے خلاف مزاحمت کرتے ہے بلکہ نوآبادکار کی روایتی بوسیدہ نظام کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔

دنیا میں قربانی کی کوئی پیمائش نہیں ہوتی، مرد اور عورت، دونوں مختلف محاذوں پر قومی تحریکوں کے لئے قربان ہوتے ہیں لیکن دنیا میں فدائی حملوں کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور قربانی کی عظیم شکل قرار دی جاتی ہے، جس کے اثرات قابض کے لئے سخت نقصاندہ ہوتے ہیں ۔ ان فدائی حملوں نے دنیا کے مختلف خطوں اور ملکوں میں دشمن کے خلاف سخت اثرات چھوڑے ہیں، سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کے فدائی حملوں نے سری لنکا کے سیاحت کی صنعت اور اور غیرملکی سرمایہ کاری کو تبا کردیا تھا ۔

ترکی میں کرد عورتوں کی فدائی حملے زیادہ تر اس جگہ پر کی جاتی تھیں جو سیاحت کے لئے بہت مقبول ہیں جیسے کہ انقرہ اور استنبول، کردوں کی فدائی حملوں نے ترکی کو معاشی حوالے سے سخت متاثر کیا تھا اور پورپی اقوام نے سیاحت کے لئے ترکی کا رک کرنا چھوڑ دیا تھا جس سے ترکی جی ڈی پی میں کمی آئی، اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتی ہے کہ کردوں کی فدائی حملوں نے ترکی کو کس قدر متاثر کیا ہے۔

26 اپریل 2022 کو شاری بلوچ نے کراچی یونیورسٹی میں چین پاکستان معاشی راہداری سے منسلک کنفیوشن انسٹی ٹیوٹ کے اساتذہ کو فدائی حملے میں نشانہ بنایا جس میں تین چینی استاد ہلاک ہوئے، جس کے بعد چین پاکستان میں کنفیوشن انسٹی ٹیوٹ کے پروگرام کو وقتی طور پر بند کرنے پر مجبور ہوا۔

کنفیوشین انسٹی ٹیوب چینی ثقافت کو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلارہی ہے جس کے ذریعے چین اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کرنا چاہتا ہے ۔ آج کے نئی نوآبادیاتی نظام میں چین کی کنفیوشین انسٹی ٹیوٹ چین کی معاشی، ثقافتی اور سیاسی توسیع پسندی کی نشانی ہے۔

بلوچستان میں چین بڑے اہم پروجیکٹس سے منسلک ہے اور دنیا کی دوسری کمپنیاں بلوچستان میں سرمایہ کاری کرکے بلوچستان کی قدرتی وسائل کی لوٹ مار کرنے میں ریاست پاکستان کے ساتھ شریک ہیں ۔ چین پاکستان معاشی راہداری اور دوسرے استحصالی منصوبے سیندک یا ریکوڈک کی وجہ سے چین بلوچ قوم کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے پاکستان کو فوجی اور مالی امداد فراہم کررہی ہے، جیسا کی جنرل اسلم بلوچ نے 2018 میں اے این آئی نیوز سے انٹرویو میں کہا تھا کہ چین، چین پاکستان معاشی راہداری اور دوسرے سرمایہ کاری پروجیکٹ کے نام پر بلوچستان کی معاشی استحصال کر رہا ہے۔ چین کے تھینک ٹینک ادارے اور پیپلز لبریشن آرمی بھی بلوچستان میں موجود ہے اور بلوچوں کی قومی تحریک کے خلاف پاکستان کی مدد کررہا ہے۔

2018 میں چینی قونصل خانہ ، 2019 میں گوادر پی سی ہوٹل، 2020 میں کراچی میں اسٹاک ایکسچینج پر فدائی حملے ہوچکے ہیں، ان سارے حملوں نے پاکستان اور چین کے بلوچستان میں سرمایہ کاری کے منصوبوں کو سخت مشکلات کا شکار کردیا ہے جس کے بعد چین، بلوچ قومی تحریک کے خلاف پاکستان کی مدد میں اضافہ کررہا ہے اور مسلح تنظیموں سے نمٹنے کے لئے جنگی ڈرونز دے رہا ہے۔

26 اپریل 2022 کے حملے نے چین کو سخت پریشانی میں مبتلا کردیا ہے اور چین نے پاکستان کو چینی شہریوں کو حفاظت فراہم کرنے کے لۓ چینی سیکورٹی یونٹس کو پاکستان میں سیکورٹی سرانجام دینے کی اجازت دینے پر زور دے رہا ہے اور اس واقع کے بعد پاکستان میں کنفیوشین انسٹی ٹیوٹ اور چینی ریسٹوران، مارکیٹ اور سمندری مصنوعات کمپنی وقتی طور پر بند کر دی گئی تھی۔

شادی بلوچ کی فدائی حملے نے پاکستان میں موجود چین کے منصوبوں سے منسلک ہزاروں چینی شہریوں کو خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان میں چینی مزدور خوف کے سائے تلے کام کررہے ہے۔ شاری بلوچ کے فدائیں حملے نے پاکستان اور چین کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ اس حملے کی سالگرہ کے دن پاکستان کےچیف آف آرمی عاصم منیر چین کے دورے پر گئے ۔ چین کے ایک اہم تھنک تینک ادارے نے چین پر زور دیا ہے کہ بلوچستان میں بلوچ قومی تحریک سے وابستہ مسلح تنظیموں کے خلاف چین خود فوجی آپریشن کرے۔

بلوچستان کی تحریک ایک قومی آزادی کی تحریک ہے اور چین یہ بہ خوبی جانتا ہے کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو ختم کرنا آسان نہیں ہے اور بلوچ انسرجنسی سے منسلک ادارے ؤ جماعتیں بیرونی قوتوں کو سرمایہ کاری کی بھی اجارت نہیں دیں گے اسی لئے چین پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ بلوچ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش کرے، جو بلوچ قومی وحدانیت اور منظم ہونا کا اظہار ہے ۔
Copied

سب یاد رکھا جائے گاعزیز سنگھور بلوچستان ضلع آواران کے علاقے گیشکور میں ایک 22 سالہ استانی نے سرکاری اہلکاروں کی بلیک می...
13/06/2023

سب یاد رکھا جائے گا
عزیز سنگھور

بلوچستان ضلع آواران کے علاقے گیشکور میں ایک 22 سالہ استانی نے سرکاری اہلکاروں کی بلیک میلنگ سے تنک آکر خود کشی کرلی۔ اس کے پاس زندہ رہنے کے لئے دو آپشن تھے۔ بے عزتی یا موت!
تاہم بائیس سالہ ٹیچر نجمہ بلوچ نے غیرت کی زندگی کو چُنا اور موت کو گلے لگاکر بے غیرتی کو شکست دے دی اور بے غیرتوں کے منہ پر طمانچہ رسید کردیا۔ نجمہ بلوچ نے 15 مئی 2023 کو اس وقت خودکشی کی جب لیویز اہلکار نوربخش کی جانب سے انہیں ہراساں کیا جارہا تھا۔ انہیں مختلف بہانوں سے تنگ کیا گیا، غلط تعلق رکھنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے گئے۔ یہ سلسلہ چھ مہینے سے چل رہا تھا۔ بالاخر خودکشی سے ایک روز قبل سرکاری اہلکار نے نجمہ سے کہا کہ وہ گیشکور میں قائم آرمی کیمپ میں آجائے جہاں ان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے۔ نجمہ بلوچ نے جب یہ سنا تو ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔ ایک لڑکی ذات کیسے آرمی کیمپ میں حاضری لگائی گی؟۔ بالاخر نجمہ بلوچ نے موت کو ترجیح دی۔ ایسی موت پر ہر بلوچ کو فخر ہے۔ ایسی بیٹیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں جو اپنے بھائیوں اور والدین کا نام روشن کرتی ہیں۔

نجمہ بلوچ ایک معمولی لڑکی نہیں بلکہ ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی ۔ انہیں تعلیم کی اہمیت و افادیت کا اچھی طرح اندازہ تھا۔

وہ شادی شدہ تھی ، میاں دبئی میں ملازمت کرتے ہیں جو ان کے کزن بھی ہیں۔ نجمہ کے والد دلسرد بلوچ زراعت کے شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ زمینداری سے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ نجمہ بلوچ نے تعلیم کے حصول کے لئے ضلع آواران سے ضلع حب کا رخ کیا تھا۔ جہاں انہوں نے انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔ کیونکہ ان کے علاقے میں کالج تو دور کی بات اسکول تک نہیں ہے اور پورے علاقے میں تعلیم ناپید ہے۔

اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے نجمہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے علاقے میں ایک اسکول تعمیر کرے گی۔ جہاں غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جائے گی ۔ اس نے جیسا سوچا ویسا کرکے بھی دکھایا۔

نجمہ نے اپنی مدد آپ کے تحت جھونپڑی میں اسکول قائم کیا ۔ جس میں بچوں کو مفت تعلیم دینا شروع کردی۔ یہ سلسلہ تین سال تک چلتا رہا۔ اس اسکول کے قیام میں ان کے شوہر اور والد نے انہیں مالی معاونت کی۔ نجمہ بلوچ بچوں کو مفت کتابیں بھی دیتی تھی۔ اس اسکول میں ایک سو سے زائد بچے اور بچیاں زیر تعلیم تھیں۔

نجمہ کی شہادت نے زیر تعلیم بچوں کو سوگوار کردیا ہے۔ کیونکہ نجمہ ان کی زندگی سنوارنے کی ایک امید تھی۔ بچوں کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ ان کی استانی نے اپنی عزت بچانے کے لئے موت کا راستہ چنا۔ سرکاری بندوق تھامنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں نے انہیں زندہ رہنے نہیں دیا۔

نجمہ بلوچ کے علاقے میں ڈیتھ اسکواڈ کے لوگ کافی مضبوط اور منظم ہیں، انہیں سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ وہ علاقے کے لوگوں کے مال مویشی تک اٹھالیتے ہیں۔ غریب لوگ شکایت کریں تو کس سے کریں؟ ان کی سننے والے کوئی نہیں ہے۔ پورا علاقہ ڈیتھ اسکواڈ کے رحم و کرم پر چلتا ہے۔ ان کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی پَر نہیں مارسکتا ہے۔

نجمہ بلوچ کو ہراساں کرنے اوربلیک میلنگ سے اس حد تک ذہنی دباؤ کا شکار بنایا گیا کہ وہ خودکشی کرنے پرمجبور ہوگئی۔ نجمہ نے خود کشی کی تو پورے آواران میں اس کی موت کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ تاہم ان کی موت کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھی کیونکہ پورے ضلع میں ڈیتھ اسکواڈ کا راج قائم ہے۔ نجمہ کی موت کی آواز ضلع کیچ میں تربت سول سوسائٹی کے کنوینئر گلزار دوست نے اٹھائی۔ کسی زمانے میں ضلع کیچ میں بھی ڈیتھ اسکواڈ کا راج تھا۔ ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار گھروں میں گھس کر وارداتیں کرتے تھے اور مزاحمت پر گولیاں چلاتے تھے۔ پورا کیچ ڈر اور خوف کے مارے خاموش رہتا تھا۔ ایسا ہی ایک مشہور واقعہ کیچ کے علاقے ڈنک میں پیش آیا۔ جہاں ملک ناز نامی عورت نے ڈکیتی کے خلاف مزاحمت کی۔ جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔ بجائے اس کے کہ ضلع کیچ میں اسکے خلاف آواز بلند ہوتی، گوادر شہر سے آواز اٹھی اور پھر پورے بلوچستان میں پھیل گئی۔

ضلع آواران وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کا آبائی علاقہ اور حلقہ انتخاب بھی ہے۔ جہاں سے وہ صرف ساڑھے چارسو ووٹ لیکر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔ اور پھر فوجی کیمپ کی سرکار بھی انہیں کبھی اسپیکر بلوچستان اسمبلی تو کبھی وزیراعلیٰ بلوچستان مقرر کرتی رہتی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو ایک کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کام سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ بےچارے بائیس سالہ استانی کی موت پر کیا ایکشن لیں گے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کو وزیراعلیٰ کی کرسی کیسے ملی ہے۔ اسی وجہ سے میرے لئے نجمہ بلوچ کی موت پر ان کی خاموشی حیران کن بات نہیں ہے۔

تاہم مجھے نجمہ بلوچ کی موت پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کی خاموشی پر حیرانگی ہے۔ وہ اس وقت حکومت کا حصہ اور وزارتوں سے استفادہ بھی حاصل کررہے ہیں۔ وہ بلوچستان کے سب سے بڑے بھاشن دینے والے سیاستدان ہیں۔ جو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر صرف چٹ پٹی تقریریں کرتےہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جذباتی تقریروں عوام کا دل جیتنے کا آسان طریقہ ہے۔

بلوچستان کے موجودہ گورنر ولی کاکڑ کا تعلق اختر مینگل کی پارٹی سے ہے۔ گورنر بننے سے قبل وہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے مرکزی نائب صدر تھے۔ اختر مینگل کے کہنے پر ہی ولی کاکڑ کو گورنر مقرر کیا گیا۔

جب وہ اپوزیشن میں ہوتے تھے تو اس وقت میرے مینگل صاحب سے اچھے رواسم تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں ان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تو میں واحد صحافی تھا جو وہاں ان کے پاس پہنچا ہوا تھا۔ جب آصف علی زرداری نے حکومت سنبھالی تو اختر مینگل کی رہائی سے قبل انہیں لیاقت نیشنل اسپتال میں منتقل کردیا گیا تھا۔ جہاں اختر مینگل نے مجھ سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ عزیز سنگھور! کیا پیپلز پارٹی کی حکومت واقعی مجھے چھوڑ دے گی؟۔ جس پر میں نے کہا تھا کہ میرے ذرائع کے مطابق آپ کی چند گھنٹے بعد رہائی ہوجائےگی۔ اور انکی رہائی ہو بھی ہوگئی۔

کہا جاتا ہے کہ جیل میں سیاستدان سیاست سیکھ جاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اختر مینگل نے جیل میں رہ کر حکومت میں رہنے کی سیاست اچھی طرح سیکھ لی۔ جب عمران خان کی حکومت تھی تو وہ اقتدار میں تھے۔ اب جب شہباز شریف کی حکومت آئی تو وہ ان کی حکومت کا بھی حصہ ہیں اور بلوچستان میں اپنا گورنر بھی مقرر کروادیا ہے۔ لیکن اختر مینگل، عبدالقدوس بزنجو اور ان کا سرکاری اور فوجی کیمپ نجمہ بلوچ کے خون سے نہیں بچ سکیں گے۔ ایک نہ ایک دن انہیں اس خون کا حساب دینا پڑے گا۔ سب یاد رکھا جائے گا۔

سرمچارظہیر بلوچافسانہ رنگراشد پہاڑوں میں ہی پلا بڑھا۔ بلند و بالا پہاڑ ہی اس کا مکسن تھے۔ پہاڑ ہی اس کا مورچہ اور اسکی ز...
13/06/2023

سرمچار
ظہیر بلوچ

افسانہ رنگ

راشد پہاڑوں میں ہی پلا بڑھا۔ بلند و بالا پہاڑ ہی اس کا مکسن تھے۔ پہاڑ ہی اس کا مورچہ اور اسکی زندگی تھے , ان پہاڑوں کے نیلےچشمے،چرند پرند ،جانور ،درخت، باغات اور چرواہے اسکی آواز پہنچاتے تھے اور ان جانداروں کی خوشبو راشد کی سانسوں میں رچی بسی تھے۔

ایک وقت تھا کہ وہ پہاڑوں میں بسنے والے انسانوں اور ان پہاڑوں سے دور آبادی سے مکمل واقف تھا ، جس پہاڑی علاقے میں راشد رہتا تھا وہ چٹیل پہاڑوں،خوبصورت میدانوں پر مشتمل تھا۔

ایک دن اسی پہاڑی علاقوں میں گھومتے ہوئے اسکی نظر کچھ مشتبہ افراد پر پڑی جو حلیے، شکل و صور اور عمل سے چور معلوم ہوتے تھے جو بندوق ، بموں اور جنگی ساز و سامان سے لیس تھے اور ان کے کپڑے اور جوتے پھٹے ہوئے تھے ،جگہ جگہ پیوند کے نشان تھے۔راشد نے ایسے لوگ پہلے کبھی اس علاقے میں نہیں دیکھے تھے کیونکہ وہ ایک چرواہا کا بیٹا تھا اور ابا کی طبعیت خراب ہونے کی وجہ سے آج پہلی بار اپنے ریوڑ کے ساتھ آیا تھا جب راشد کی نظر ان لوگوں پر پڑی تو اسکے چہرے پر خوف اور جستجو کے تاثرات نظر آنے لگے ڈر اس بات کا اگر وہ واقعی چور ہے تو لازم اسکی بکریوں کو چھین لیں گے اور اگر چور نہیں تو کیوں نہ ان سے مل کر پوچھوں کہ تم لوگ کون ہو اور یہاں کیا کررہے ہو؟

راشد ان لوگوں کے عمل کو دیکھ کر بہت پریشان ہوا کہ میں ایک نہتا بچہ اور سامنے چار پانچ بندوق بردار لوگ مجھے دیکھ کر چھپ کیوں رہے ہیں؟ لیکن جب ان بندوق بردار لوگوں نے دیکھا کہ راشد انہیں دیکھ چکا ہے تو انہوں نے راشد کو اپنے پاس بلایا۔ سلام دعا کی , حال احوال پوچھا لیکن راشد کسی سوچ میں گم ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا کہ شکل و صورت سے چور معلوم ہونے والے ان لوگوں کے خیالات ،انسان دوستی اور کردار بلند معلوم ہوتا ہے۔وہ اس سوچ میں پڑگیا کہ چور اور ڈاکو خطرناک لوگ ہوتے ہیں وہ لوگوں کے املاک کو چوری کرتے ہیں اور انسانوں کو مار دیتے ہیں لیکن یہ چور ان چوروں سے مختلف کیوں ہیں۔

ان پانچ لوگوں میں سے ایک لڑکے کو راشد جانتا تھا اور ایسے معلوم ہوتا تھا کہ یہی لڑکا جس کا نام مراد تھا یہی ان کا سربراہ ہے اس نے راشد سے کہا کہ تم نے ہمیں دیکھ تو لیا ہے لیکن یہ بات کسی سے مت کہنا اور آئندہ کوشش کرنا کہ اپنی بھیڑ اور بکریوں کو پہاڑوں میں لانے کے بجائے آبادی کے نزدیک ہی لے جانا اور ان پہاڑوں میں مت آنا , ان لوگوں نے راشد کو کھانے کی چیزیں بھی فراہم کی اور وہاں سے چلے گئے , جب وہ لوگ چلے گئے تو راشد سستانے کے لئے کسی سایہ دار درخت کے نیچے لیٹ گیا اور سوچ میں غرق ہوگیا کہ کیا واقعی یہ چور تھے؟اگر چور تھے تو ان کے سینوں میں انسانیت کے لئے درد کیوں موجود ہے؟ انہوں نے میری بھیڑ بکریاں لے جانے کے بجائے مجھے کیوں کھانے کا سامان فراہم کیا؟۔

انہوں نے مجھ سے چوروں جیسا رویہ اپنانے کے بجائے ایک سوچ سے بھرپور انسان کی طرح کیوں سمجھایا؟راشد ایک ان پڑھ تھا ضرور لیکن اسکے والدین نے اسے بتایا تھا یا معاشرے کے لوگوں سے اس نے سنا تھا کہ چور کسی کے نہیں ہوتے بلکہ وہ صرف مارنا اور لوٹنا جانتے ہیں لیکن یہ کیسے چور ہیں جو سمجھاتے ہیں اور ضرورت مند کو ضرورت کی چیزیں فراہم کرتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔اسی تجسس اور خیالات میں وہ بکریوں کو گھر لایا اور اس واقعہ کے متعلق کسی کو کچھ نہیں بتایا بس اپنے ابا کو کہا کہ کل پھر وہ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ جائے گا۔ رات کو سونے کے وقت وہ انہی سوچوں میں پڑگیا اور پکا ارادہ کیا کہ وہ ان چوروں کے گروہوں کو جوائن کریں گا اور اپنی باقی ماندہ زندگی ان چوروں کے ساتھ ہی گزار لیں گا۔

صبح ہوئی وہ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ اپنے متعلقہ جگہ پہنچا , بکریاں گھاس چرنے میں مگن ہوئے لیکن اسکی نظریں شاید کسی کا منتظر تھی وہ بکریوں کو چھوڑ کر پہاڑوں کے چوٹیوں اور نہروں میں گھومنے اور ان لوگوں کو دیکھنے لگا پورا دن گزر گیا لیکن اسے کچھ نہیں ملا وہ مایوس ہو کر بکریوں کو لیکر گھر آیا اور صبح ایک بار پھر ابا کے ساتھ بکریوں کو لیکر پہاڑوں میں آیا اور پھر اپنے سفر پر نکل گیا لیکن اسے کچھ نہیں ملا۔

پورا ہفتہ ایسے ہی گزر گیا ، راشد صبح جاتا ,شام کو گھر لوٹتا لیکن جس مقصد کے لئے جاتا وہ نامکمل ہی رہتا ، رات کو اس نے ارادہ کیا کہ کل وہ ایک بار ضرور ابا کے ساتھ جائے گا اور پورے پہاڑوں کو دیکھ لے گا اور جو بھی ہوں ان لوگوں کو ضرور ڈھونڈ لیں گا ، صبح ہوئی وہ ابا کے ساتھ اپنے سفر پر نکلا ، مئی کے گرم دن۔ پہاڑی علاقہ اور سورج کی تپش کسی مضبوط سے مضبوط انسان کو بھی توڑ دیتا ہے لیکن یہ اٹھارہ سالہ نوجوان سورج اور گرمی کو مات دیتے ہوئے بڑی مشکل سے ان لوگوں کے روبرو ہوگیا۔

جیسے ہی ملاقات ہوئی مراد نے اسے غصے سے کہا کہ ہم نے تمہیں کہا تھا کہ یہاں نظر مت آنا پھر بھی تم یہاں کیوں آئے ہو شاید تم ہماری بات کو سمجھے نہیں؟ اب تم سزا کے لئے تیار ہوجاو کیونکہ تم نے ہماری بات نہیں مانی تو راشد نے ڈرتے ہوئے بڑی مشکل سے ان لوگوں کو اس ملاقات کے بعد کی داستان , اپنی پریشانی کے متعلق بتایا اور ڈرتے ڈرتے سوال پوچھا کہ تم لوگ چور ہو اور کیا چوری کرتے ہو؟ اگر تم چورہو تو تمہارا اخلاق اور کردار اتنا بلند کیوں ہے؟

مراد اس کے سوالوں کو سن کر ہنس دیا اور کہا کہ تم کیوں یہ پوچھ رہے ہو ؟تم جائو ،تم ابھی بچے ہو تمہیں کچھ سمجھ نہیں آئے گا لیکن راشد ڈٹا رہا کہ وہ ان کے جواب دیں کیونکہ میں بھی ایک بلند کردار اور بلند عمل کا مالک بننا چاہتا ہو اگر آپ نے مجھے اپنے گروہوں کو جوائن کرنے کا موقعہ دیا تو میں پوری ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دوں گا بس مجھے سوالوں کے جواب دو تو مراد نے کہا ٹھیک ہے میں تمہارے سوالوں کے جواب تمہیں دو گا ۔

مراد نے اس سے کہا کہ ہم چور نہیں ہے بلکہ ایک چالاک اور انسانیت سے عاری دشمن سے ایسی جنگ لڑرہے ہیں جو لوگوں کو ناحق قتل کرتے ہیں ۔ہماری تاریخ اور ثقافت کو مسخ کرکے ہم پر اپنی تاریخ اور ثقافت مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ معصوم اور بے گناہ انسانوں کے گھر میں گھس کر انہیں مارتے ہیں اور ان کے بچوں کو لاپتہ کرتے ہیں ان کے املاک کو چوری کرتے ہیں۔ ہم بس ان رہزنوں ،قاتلوں اور ان کے بے ضمیر ساتھیوں سے جنگ کررہے ہیں جنہوں نے ہماری زمین،ہماری تاریخ ،ہماری ثقافت کو چوری کیا اور ہماری مائوں اور بہنوں کو مار پیٹ کر ہمارے بھائیوں کو لاپتہ کرکے زندانوں میں شہید کردیا۔

مراد نے جیسے ہی لب بند کئے تو جھٹ سے راشد نے پوچھا پھر تم لوگ مجھے دیکھ کر کیوں چھپ گئے؟ تو مراد نے کہا کہ ان رہزنوں اور قاتلوں نے ہماری زمین پر کچھ ایسے بے ضمیر لوگوں کو کرائے پر رکھا ہوا ہے جو ہماری راستوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان رہزنوں کی وفاداری کا بھرم رکھ کر اپنے ہی بھائیوں پر جیٹ طیاروں، ہیلی کاپٹروں اور ڈرون سے حملہ کرواتے ہیں اور رہزنوں کی وفاداری کرتے ہیں اس لئے ہم چھپ جاتے ہیں کہ وہ ہمیں نہ دیکھیں تو راشد نے کہا کہ مجھے بھی اپنے تنظیم میں شامل کردوں میں بھی اس زمین کا باسی ہو اور ان بے ضمیروں سے مختلف ہو لیکن مراد نہیں مانا ۔

راشد نے بہت منت سماجت کی کہ وہ ایسا بے ضمیر نہیں بلکہ وہ زمین کا فرزند ہے اور ان پہاڑوں کے چھپے چھپے سے واقف ہے۔ بہت منت سماجت کے بعد مراد راضی ہوا اور اسے کچھ علاقائی ذمہ داریاں دی جنہیں راشد نے بخوبی پورا کیا۔ایک دن قاتلوں اور رہزنوں کے گروہ نے راشد کے گھر چھاپہ مارا مار پیٹ کی اور راشد کے متعلق پوچھا لیکن خوش قسمتی سے راشد گھر پر نہیں تھا اور وہ راشد کے چاچا کو اٹھا کر لے گئے ,دوسرے دن وہ رہزن پھر آئے لیکن راشد انہیں نہیں ملا تو انہوں نے تیسرے دن راشد کے چاچا کو قتل کرکے لاش پہاڑوں میں پھینک دی جسکی لاش پہاڑوں میں راشد کے ابا اور چھوٹے بھائی کو ملی ۔

راشد اب فیصلہ کرچکا تھا کہ وہ قاتلوں اور رہزنوں کا مقابلہ ان پہاڑوں کو مورچہ بنا کر لڑیگا اس لئے وہ پہاڑوں میں مراد اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل گیا اور ان رہزنوں کے ٹھکانوں پر بم کی طرح برس پڑا، اب راشد اور اسکے خاندان کے گھروں پر روز چھاپے پڑتے ,روز مار پیٹ ہوتی لیکن راشد کبھی واپس نہیں پلٹا بلکہ یہ جنگ راشد کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی جہاں واپسی صرف کفن میں ہوتی ہے۔

چھ سال بیت گئے ,راشد کبھی واپس گھر نہیں گیا بس پہاڑوں میں دوستوں کے ساتھ ان رہزنوں کو للکارتا رہا۔ ایک دن حملے میں مراد اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوگیا اور اس تنظیم نے راشد کو اپنا نیا ذمہ دار چن لیا اب اسکی ذمہ داریاں بڑھ چکی تھی اور اس ذمہ داریوں نے اسے ایک مضبوط , کمٹمڈ اور مخلص انسان بنادیا تھا۔

ایک دن وہ تنظیم کے کام کے لئے علاقے کی طرف نکلا،تین دن کے سفر کے بعد اس نے اپنے چھوٹے بھائی اور ابا کو بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ دیکھا لیکن حالات اور تنظیم کے اصول و ضوابط کو مد نظر رکھ کر اس نے خود کو چھپا لیا اور ایک بار وہ سوچ میں گم ،آنکھوں میں آنسو لئے خود سے کہتا رہا کہ یہ کیسی زندگی ہے کہ اپنے ہی زمین پر اپنے ابا اور بھائی کے سامنے بھی چھپنا پڑتا ہے لیکن اس خیال نے اسکے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیلائی کہ آج وہ بھی ایک بلند کردار اور با عمل انسان بن چکا ہے جس کی زندگی کا مقصد ان رہزنوں اور قاتلوں سے اپنی زمین , اپنی تاریخ اور اپنی ثقافت چھین کر اپنے عوام کو تحفہ دینا ہے جس میں وہ ایک دن ضرور کامیاب ہوگا۔

02/02/2023

Operation Ganjal
2 February
💙❤💚

پاکستان اور بلوچستان کا قابض اور مقبوضہ کا رشتہ اس تصویر میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ بلوچستان یونیورسٹی کی تصویر ہے جو کوئی ت...
01/12/2022

پاکستان اور بلوچستان کا قابض اور مقبوضہ کا رشتہ اس تصویر میں بھی نظر آتا ہے۔
یہ بلوچستان یونیورسٹی کی تصویر ہے جو کوئی تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ چھاؤنی ہے۔ جب بلوچ طلباء یہ سوچتے ہیں کہ شاید ان کا مستقبل پنجاب یا کسی اور یونیورسٹی میں بہتر ہو گا تو ان کی یونیورسٹی میں نسلی پروفائلنگ کی جاتی ہے اور لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔ ریاست اپنی طاقت سے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ پرامن لوگوں کو پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا جائے اور ان کے لیے کوئی محفوظ جگہ اور بہتر مستقبل کی کوئی امید نہ چھوڑی جائے۔ طاقت کے بل پر خوف کو بہت عرصہ قائم نہیں رکھا جاسکتا۔

قوم کے شہیدوں کو سرخ سلام جنہوں نے اپنے قوم اور سرزمین کی آزادی کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نزرانہ دے کر ہمیں زندہ رکھا۔ا...
13/11/2022

قوم کے شہیدوں کو سرخ سلام جنہوں نے اپنے قوم اور سرزمین کی آزادی کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نزرانہ دے کر ہمیں زندہ رکھا۔اور ہر قسم کی اذیت اور مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہارے
لڑ کرشہید ہوئے،لیکن اپنے دشمن کے سامنے کبھی نہیں جھکے۔ آج ہم ان کی شان میں سر جھکاتے ہیں، کیونکہ انہوں نے کبھی بھی اپنے ملک اور آزادی کو شرمندہ ہونے نہیں دیا۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ان کا مقصد جو بلوچستان کی آزادی تھا ، اُس مشن کو اپنی جہد سے منزل تک پہنچائیں ۔ ہم اپنے شہداء کے خون کا بدلہ بلوچستان کی آزادی حاصل کرکے لیں گے۔آئیے آج ہم عہد کرتے ہیں کہ اپنے شہیدوں کے نقشِ قدم چل کر اُن کے قربنیوں کو رائیگاں جانے نہیں دیں گے۔

طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے عکس پر نہ اِتراؤ، آئینہ ہمارا ہےآپ کی غلامی کا، بوجھ ہم نہ ڈھوئیں گےآبرو سے مرنے کا، ...
13/11/2022

طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے
عکس پر نہ اِتراؤ، آئینہ ہمارا ہے

آپ کی غلامی کا، بوجھ ہم نہ ڈھوئیں گے
آبرو سے مرنے کا، فیصلہ ہمارا ہے

عمر بھر تو کوئی بھی، جنگ لڑ نہیں سکتا
تم بھی ٹوٹ جاؤ گے، تجربہ ہمارا ہے

اپنی رہنمائی پر، اب غرور مت کرنا
آپ سے بہت آگے، نقشِ پا ہمارا ہے

غیرتِ جہاد اپنی، زخم کھا کے جاگے گی
پہلا وار تم کر لو، دوسرا ہمارا ہے

قربان گودی نما پن کہ
13/11/2022

قربان گودی نما پن کہ

04/11/2022

‏بولان میں آپریشن کے دوران میرے رشتہ دار خواتین اور بچوں کو فورسز نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا میں اپیل کرتی ہوں کہ خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے۔


04/11/2022
معاشرے کی بے حسی اور مردہ ضمیری کی یہ حالت ہے کہ 500 انسانوں کی لاشیں بھی براۓ نام اور بدنام قومی میڈیا پہ جگہ بنانے میں...
16/10/2022

معاشرے کی بے حسی اور مردہ ضمیری کی یہ حالت ہے کہ 500 انسانوں کی لاشیں بھی براۓ نام اور بدنام قومی میڈیا پہ جگہ بنانے میں ناکام رہیں__َ__ اس ملک میں سب سے زیادہ بلوچ مسنگ ہیں جبکہ پنجاب میں مسنگ لفظ سے ہی اکثر لوگ ناواقف ہوں گے___ شبہ نہیں بلکہ کامل یقین ہے کہ یہ لاشیں بدنصیب اور دو نمبر شہری سمجھے جانے والے بلوچوں کی ہیں لہذا حکمران وقت اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے گزارش ہے کہ اس کیس کی صاف شفاف تحقیقات کروانے میں کردار ادا کریں اور لاشوں کی DNA کراٸی جاٸیں تاکہ زندہ نہ سہی مردہ لاشوں کی صورت میں ورثاء اپنے پیاروں سے ملیں اور ہمیشہ کے لیے انتظار کی تکلیف سے نجات پاٸیں ____

14/10/2022

زاھدان

ھون ھاری شیپ گران اِنت، کربلا اِنت زاھدان اِنت
ھر بلوچ تیر ءِ نشان اِنت، کربلا اِنت زاھدان اِنت

پہ اے پاتْراپاں نہ ھلّ ایت جُنز راجی آجوئی ءِ
کاروان راہ ءَ روان اِنت، کربلا اِنت زاھدان اِنت

جھل ءَ پُر ھونیں زمین انت گوں وتی زوراکیاں گوں،
بُرز ءَ نیلّیں آزمان اِنت، کربلا اِنت زاھدان اِنت

چو یزیدؔ ءَ مان آتکگ دشمن ءِ زوراکیں لشکر،
چو ھُسینؔ ءَ ھر جوان اِنت، کربلا اِنت زاھدان اِنت

اے کلم کہ لنککاں گوں کسّھاں درشان ایت کازیؔ،
المّ ءَ تئی دست مان اِنت، کربلا اِنت زاھدان اِنت

مبارک کازیؔ

یہ پھتر اگر لگ گیا تو موت اگر بچ گیا تو صرف دو وقت کی روٹی چاغی کی غریب ڈراہیور اپنی جان پہ کھیل کے دو وقت کی روٹی حاصل ...
03/07/2022

یہ پھتر اگر لگ گیا تو موت اگر بچ گیا تو صرف دو وقت کی روٹی
چاغی کی غریب ڈراہیور اپنی جان پہ کھیل کے دو وقت کی روٹی حاصل کررھے ھیں انکو موت سے اسلیے ڈر نہیں لگتا کہ انکو پتہ ھے کہ اگر گھر میں رہینگے تو بچوں سمیت بھوک سے مر جاہینگے
چاغی کی لیڈر شپ کی خاموشی سوالیہ نشان ھے پورا ڈسٹرک اسی افغان بارڈر سے اپنی دو وقت کی روٹی کمارہی ھے اور ایک درجن سے زاہد ھمارے لیڈرز کے منہ پہ تھالہ لگا ھوا ھے کوہی بات کرنے کو تیار نہیں
پرامن چاغی کو بدامنی کی طرف دھکیلنے کی کوشش ھورہی ھے غریب کے منہ سے نوالہ چھین رھے ھیں ایسے مشکل حالات میں ھمار ے لیڈر بلکل خاموش ھیں اور یہ خاموشی کہی سوالوں کو جنم دیتی ھے.

جان جاننت جامگ دورا کوشتیگذشتہ دنوں FC کی جانب سے چاغی کے ایک بے گناہ ڈرائیور کی شہادت پر نوکنڈی کے نوجوانوں نے ایک احتج...
11/06/2022

جان جاننت جامگ دورا کوشتی
گذشتہ دنوں FC کی جانب سے چاغی کے ایک بے گناہ ڈرائیور کی شہادت پر نوکنڈی کے نوجوانوں نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا ۔جسکے جواب میں FC نے بے گناہ نوجوانوں پر ڈاہریکٹ فاہر کی ۔نوکنڈی کے کئی بے گناہ نوجوان گولیوں کا نشانہ بنے.ایک بار پھر نوکنڈی کے نوجوانوں نے ان زخمیوں کے جواب میں نیشنل آہی وے روڈ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کی مظاہرین سے مقامی سرکردہ افراد نے گفت و شنید کی کوشش کی مگر مظاہرین اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوہے علاقے کے معززین کو برا بھلا کہتے رہے سخی امان اللہ نوتیزہی صاحب اور حاجی عرض محمد بڑیچ صاحب کی گاڈی پر پتھراو کیا گیا جس سے گاڈی کے شیشے ٹوٹ گئے مظاہرین نے ایک غیر مقامی شخص کی ضمانت پر اپنا احتجاج ختم کیا جس میں ضمانت دی گئی تھی کہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جاہینگے پنچ ریگ کا رستہ انہیں فراہم کیا جاہے گا اور ان زخمیوں کو سی ایم ایچ ہسپتال میں بہترین علاج کی سہولیات فراہم کی جاہے گی ۔۔وہ دن اور آج کا دن کاروبار کے لیے چاغی کے نوجوانوں پر تمام رستے بند کیے گیے اور زخمی نوجوان بے یار و مددگار ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں کوہی پرسان حال نہیں ۔وہ غیر مقامی شخص جو ضامن بنا آج دوربین میں بھی نظر نہیں آتا ۔اس موقع پر بلوچی مثال ہے کہ جان جاننت جامگ دورا کوشتی ۔اگر آج کوہی مقامی شخص ضامن ہوتا تو انکے بارے میں کچھ کہتا مگر نادانی ہمارے نوجوانوں کی تھی کہ اپنوں کو چھوڑ کر غیروں پر اعتبار کر بھیٹے ۔۔بلوچستان بھر کے درد مند افراد سے اس طالب علم صابر بلوچ ولد درمحمد کی علاج معالجے کے لیے آواز بلند کرنے کی التجا ہے.
Copied

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when توار ءِ بلوچستان posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share