Urdu noval writter

  • Home
  • Urdu noval writter

Urdu noval writter Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Urdu noval writter, Digital creator, .

سنائپر قسط نمبر 24ریاض عاقب کوہلراس کی بات سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اردو زبان زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت جانتی ہے ۔میں نے ک...
23/02/2023

سنائپر قسط نمبر 24
ریاض عاقب کوہلر
اس کی بات سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اردو زبان زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت جانتی ہے ۔
میں نے کڑے تیوروں سے اسے گھورا۔لیکن اس نے نظریں چرانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ بہت ہی نڈر ،بے باک اور بے پرواہانہ انداز کی مالک تھی وہ ۔اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر بالکل بھی یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ سترہ اٹھارہ سال کی دوشیزہ ہے ۔اس کے برعکس وہ پر اعتماداور حوصلہ مند مرد لگتی ۔یقینا کم عمری ہی میں اس نے حالات سے مقابلہ کرنا سیکھ لیا تھا ۔
میں اس کی بات کا جواب دیے بغیر چل پڑا۔
”ایک مشورہ تھا سردار بھائی !“غار سے نکلتے ہوئے وہ سردار کو مخاطب ہوئی ۔اس کی آواز بہہر حال اتنی اونچی ضرور تھی کہ میرے کانوں تک پہنچ گئی ۔
سردار نے کہا ۔”بولو۔“
”یہاں سے رغزئی کا فاصلہ قریباََ بیس ،بائیس کلومیٹر ہو گا ۔اور تمام رستا پہاڑی ہے ۔شاید شام کی آزان ہمیں رستے ہی میں ہو جائے ۔اس کے برعکس انگور اڈے کا فاصلہ پانچ چھے کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہوگا اور وہاں سے رغزئی کے لیے ویگن وغیرہ بھی مل جائے گی ۔“
اس کا مشورہ رد کرنے کے قابل نہیں تھا ۔یوں بھی وہاں سے رغزئی جانے کا ارادہ میں نے اس لیے کیا تھا کہ میری نظر میں انگور اڈے کے مقابل رغزئی نزدیک تھا ۔
”انگور اڈہ پانچ چھے کلومیٹر کے فاصلے پر کیسے ہو سکتا ہے ،جبکہ آتے وقت ہمیں تیرہ چودہ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑا تھا ۔ “پلوشہ کے بجائے میں سردار کو مخاطب ہوا۔ پلوشہ سے بات کرتے ہوئے مجھے جھجک محسوس ہو رہی تھی ۔
وہ جواب دینے کے بجائے پلوشہ کی جانب دیکھنے لگا ۔
”تم لوگ خڑ کلے والی سڑک پر چل کر آئے ہو گے ۔وہ گاڑی کا رستا ہے ،ورنہ پیدل جانے کے لیے پانچ چھے کلو میٹر سے زیادہ فاصلہ نہیں ہوگا ۔“
”کس طرف جانا ہوگا ؟“اس مرتبہ بھی میں سردارہی کو مخاطب ہوا تھا ۔
وہ سردار کے پوچھنے کا انتظار کیے بغیر گھوڑے کی زین نما ایک پہاڑی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔”ہمیں اس پہاڑی کے دائیں کنارے کی سیدھ لینا ہوگی ۔“
میں کوئی تبصرہ کیے بغیر مطلوبہ جانب مڑ گیا ۔وہاں تک ہمیں پون گھنٹا لگ گیا تھا ۔
پہاڑی کے قریب پہنچتے ہی اس نے کہا ۔”پہاڑی کی دائیں ڈھلان پر ہو کر آگے بڑھتے جائے ،پہاڑی کے اوپر چڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔“
وہ ڈھلان عبور کر کے ہم ایک نالے میں اتر گئے ۔بیس پچیس منٹ اس نالے میں چلنے کے بعد وہ نالہ انگریزی کے حرف ”وائی“ کی طرح دو شاخوں میں بٹ گیا تھا ۔
”بائیں جانب ۔“نالے کے سنگم پر مجھے رکتے دیکھ کر اس نے با آواز بلند پکارا۔اس وقت سردار میرے ساتھ چل رہا تھا ۔وہ ہم سے چند قدم پیچھے چلتے ہوئے شاید کچھ گنگنا بھی رہی تھی ۔
ہم جونھی بائیں جانب مڑے اس نے دوبارہ آواز دی ۔”سردار بھائی !“سردار کے ساتھ بے اختیار میں بھی مڑ کر اس کی جانب دیکھنے لگا ۔
اس نے شہادت کی انگلی اٹھاتے ہوئے کہا ۔”مجھے دو تین منٹ لگیں گے ۔“یہ کہتے ہوئے وہ ایک پتھر کی چٹان کے پیچھے غائب ہو گئی ۔
ہم چند قدم آگے چل کر دو صاف پتھروں پر بیٹھ گئے ۔
”راجے !....ایک بات کہوں ۔“سردار نے موضوعِ گفتگو تبدیل کیا ۔اس سے پہلے ہم ڈٰ بلاک جا کر وہاں سے بیرٹ ایم 107کو لانے کی بات کر رہے تھے ۔ہمیں امید تھی کہ میجر اورنگ زیب نے اب تک اس کا ایمونیشن منگوا لیا ہو گا ۔
میں نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔”میرے نہ کہنے سے تم نے کون سا باز آ جانا ہے ۔“
”مجھے لگتا ہے پلوشہ تمھاری ذات میں خاصی دلچسپی لے رہی ہے ۔“
”خان صاحب !....پہلی بات، یہ تمھارا ذہنی خلجان ہے ۔اور دوسرا اس کے بعد میں تمھارے منہ سے اس موضوع پر کوئی گفتگو نہ سنوں ۔“
”اس میں مرچیں چبانے کی کیاضرورت ہے میں نے یہ تو نہیں کہا کہ اسے اپنا لو ۔“سردار کو میری بات خاصی محسوس ہوئی تھی ۔
”عورت ذات میرے لیے کتنی قابلِ نفرت ہے اس کا اندازہ تمھیں اب تک نہیں ہوا ۔“
”اچھا ٹھیک ہے یار چھوڑو اس موضوع کو ،یوں بھی تم میں پہلے والے ہنس مکھ ،اخلاقی اور ٹھنڈے مزاج والے ذیشان کی کوئی بات ہی باقی نہیں رہی ۔“
”میں جا رہا ہوں ،اپنی باجی صاحب کو ساتھ لیتے آنا ۔“اخلاق سے عاری لہجے میں کہتے ہوئے میں آگے بڑھ گیا ۔
اس کے بعد انگور اڈے تک میرے قریب نہیں آیا تھا ۔وہ اور پلوشہ بیس چپیس قدم کا فاصؒہ رکھ کر میرے پیچھے پیچھے چلتے رہے ۔وہ نالہ بتدریج گہرائی میں اترتا چلا گیا ۔نالے کے اختتام پر پہاڑی ختم ہو رہی تھی ۔اورکلومیٹر بھر کے فاصلے پر انگور اڈے کی آبادی نظرآرہی تھی ۔بلاشبہ پلوشہ ہمیں نہایت مختصر رستے سے وہاں تک لے آئی تھی ۔گھڑی پر نگاہ دوڑائی تو دس بجتے دکھائی دیے ۔
آبادی شروع ہوتے ہی وہ دوونوں تیز قدموں سے چلتے ہوئے میرے قریب آ گئے ۔مسلسل چلنے کی وجہ سے پلوشہ کی چال میں بھی لنگڑاہٹ کم ہو گئی تھی ۔
”کمانڈر نصراللہ خان خوجل خیل کی بیٹھک میں جائیں گے ؟“سردار نے میرے قریب آتے ہی پوچھا ۔
”جی ہاں ،اور محترمہ کو اب خدا حافظ کہہ دو ۔“
”اگر میں سفارش کروں کہ صبح تک یہ ہمارے ساتھ ہی رہے گی ۔“
”کوئی ضرورت نہیں ۔“میں بپھر گیا تھا ۔
سردار نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ۔”یار !....میرا اتنا حق نہیں بنتا کہ کہ منہ بولی بہن کو ایک دو راتیں اپنے ساتھ رکھ لوں ۔“
مجھے احساس ہوا کہ پلوشہ کے بارے میں نے کچھ زیادہ ہی سخت رویہ رکھ لیا تھاکہ اس کی دشمنی میں سردار کی دوستی کو بھی پس ڈال رہا تھا ۔
”ٹھیک ہے ،اگر تم مصر ہو تو صبح آخری حد ہے اس کے بعد اگر تم نے اصرار کیا تو میں خود چلا جاﺅں گا ۔“
”میں جانتا ہوں ۔“وہ ممنونیت بھرے لہجے میں بولا ۔
وہ ہماری گفتگو سے انجان بنی دائیں بائیں کا جائزہ لے رہی تھی ۔ کمانڈر نصراللہ خان خوجل خیل کی بیٹھک کی طرف جاتے ہوئے اس نے سردار سے چادر لے کر مفلر کی طرح اپنے چہرے کے گرد لپیٹ لی تھی ۔مجھے لگا وہ کسی سے اپنی شکل چھپانا چاہ رہی ہے ۔اس کا انداز مجھے کافی مشکوک لگا تھا لیکن میں نے کچھ کہنے سے گریز کیا تھا ۔بیٹھک کو تالا لگا تھا جس ایک چابی ہمارے پاس بھی تھی ۔تالا کھول کر ہم اندر داخل ہوئے ۔دروازہ کنڈی کرتے ہی اس نے چہرے کے گرد لپیٹی چادر کھول لی ۔
”سردار نے کہا ۔”میرا خیال ہے کمانڈر نصراللہ کو تکلیف دینے کے بجائے بازار سے کھانا منگوا لیتے ہیں ۔
”نہیں ۔“میں نے نفی میں سر ہلایا۔”اگر اسے معلوم ہو گیا تو بہت برا منائے گا ۔“
”تو ....؟“اس نے سوالیہ انداز میں کہا ۔
تو یہ کہ اسے بلالیتے ہیں ۔“یہ کہہ کر میں نے بیٹھک سے باہر نکل کر اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا ۔دروازہ کھولنے والا وہ خود تھا ۔پرتپاک معانقے کے بعد اس نے میری خیر خیریت پوچھی ۔
”الحمداللہ محترم !....ہم دونوں بالکل ٹھیک ہیں ۔“
”میرا خیال ہے کھانا لے آﺅں ۔“
”جی ہاں ،اگر تیار ہے تو ....“
”بالکل تیار ہے ۔“اس نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا ۔
”اچھا ہمارے ساتھ ایک مہمان بھی موجود ہے ۔“
”خوش آمدید ،میری خوش قسمتی ۔“اس نے خوشی کا اظہار کیا ۔
بیٹھک میں آ کر میں نے سردار کو کمانڈرنصراللہ خان کی آمد کا بتایا ۔پلوشہ نے ایک مرتبہ پھر چہرے کے گرد چادر لپیٹ لی ۔میری طرح سردار کو بھی اس کا یہ فعل عجیب لگا تھا ۔وہ پوچھے بنا نہیں رہ پایا تھا۔
”چہرہ چھپانے کی کیا ضرورت آن پڑی ؟“
وہ اطمینان بھرے انداز میں بولی۔”کیونکہ کمانڈر نصراللہ خان میرا استاد ہے ۔اور میں نہیں چاہتی کہ وہ مجھے پہچان لے ۔“
”استاد ....“سردار کے لہجے میں حیرانی تھی ۔
”لمبی کہانی ہے ۔“پلوشہ نے جواب دینے سے گریز کیا تھا ۔
اسی وقت کمانڈر کھانے کے برتن لیے نمودار ہوا ۔پلوشہ نظر جھکا کر نیچے دیکھنے لگی ۔
سردار سے ہاتھ ملا کر کمانڈر نصراللہ نے اس کی جانب بھی ہاتھ بڑھا دیا تھا ۔اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے بھی پلوشہ نے اپنی نظریں جھکائے رکھی تھیں ۔لیکن کمانڈر نصراللہ نے اس بات پر دھیان دیے بغیر کہنے لگا۔
”آپ لوگ کھانا کھائیں ،میں قہوہ لے کرآتا ہوں ۔“
میں نے کہا ۔”آپ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوں نا ۔“
”نہیں ،میں کھا چکا ہوں ۔دن کا کھانا میں دس بجے تک کھالیتا ہوں ۔“کہہ کر وہ باہر نکل گیا ۔
پلوشہ کے جبڑوں میں ابھی تک درد ہو رہا تھا ۔وہ بہ مشکل آدھی روٹی چبا کر پیچھے ہو گئی ۔سردار کو بھی معلوم تھا کہ اس نے کھانے سے کیوں ہاتھ کھینچے ہیں ،خواہ مخواہ کی بد مزگی سے بچنے کے لیے اس نے پلوشہ سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی ۔
ہمارے کھانا کھانے تک کمانڈر نصراللہ قہوہ لے آیا تھا ۔ہمارے لیے پیالیوں میں قہوہ انڈیل کر اس نے برتن سمیٹے اور دوبارہ باہر نکل گیا ۔اس کے واپس آنے تک ہم قہوے کی پیالیاں خالی کر چکے تھے ۔
اس نے پوچھا ۔”کچھ اور چاہیے ہو ؟“اس کے انداز سے جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پلوشہ کو پہچان گیا ہے اسی لیے وہ اس کی جانب دیکھنے سے گریز کر رہا تھا ۔اب یہ بات مجھے واضح نہیں تھی کہ آیا وہ پلوشہ کو بہ طور ِ پلوخان پہچانتا ہے یا وہ اس کی پلوشہ والی اصلیت سے واقف ہے ۔اگر وہ موّ خر الذکر اصلیت سے واقف ہوتا تو کبھی بھی اس سے ہاتھ نہ ملاتا ۔
”نہیں کچھ چاہیے تو نہیں ،البتہ یہ اپنے ساتھ لیتے جائیں ۔“میں نے اپنے اور سردار کے تھیلوں سے کلاشن کوفیں نکال کر اس کی جانب بڑھا دیں ۔
وہ مستفسر ہوا ۔”ان کا کیا کرنا ہے ؟“
”یہ مالِ غنیمت ہے ۔ہم نے قبیل خان کے آدمیوں سے چھینا ہے ۔مزید کمانڈر عبدالحق سے پوچھ لینا ۔“
”سمجھ گیا ۔“تینوں ہتھیاراور قہوے کے برتن اٹھا کر وہ بیٹھک سے نکل گیا ۔
”مجھے تو سخت نیند آ رہی ہے ۔“چارپائی پر لمبا ہوتے ہوئے میں نے سردار کو کہا ۔”اگر تم نے بھی لیٹنا ہے تو دروازہ اندر سے کنڈی کر دینا ۔“
سردار نے کہا ۔”نہیں ہم ذرا بازار تک جا رہے ہیں ۔“
”ٹھیک ہے ۔“کہہ کر میں نے آنکھیں بند کر لیں ۔چند لمحوں میں میں گہری نیند سو گیا تھا ۔
میری آنکھیں دروازہ کھلنے کی وجہ سے ہوئی تھی ۔اس سے پہلے کہ میں اٹھ کر آنے والے کا جائزہ لیتا میرے کانوں میں سردار کی آواز پڑی ،وہ پلوشہ کو کوئی بات کہہ رہا تھا ۔اٹھنے کا ارادہ ترک کر کے میں نے پھر سے آنکھیں بند کر لیں ۔
”آپ کا دوست تو ابھی تک نہیں جاگا ۔“چارپائی کی چرچراہٹ کے ساتھ پلوشہ کی آواز ابھری ۔
”ساری رات جاگتا رہا ہے پانچ ،چھے گھنٹے تو سوئے گا نا۔“
”ساری رات کیوں جاگتا رہا ہے ؟“پلوشہ کی آواز میں حیرانی تھی ۔
”معلوم نہیں ۔“سردار نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا ۔
”اچھا بھائی !....میری درخواست پر غور کیا کہ نہیں ؟“
”دیکھو پلوشے !....میں اپنی مجبوری تمھیں بتا چکا ہوں ،اگر یہ ممکن ہوتا تو مجھے بھلا کیا مسئلہ تھا۔“
”اس میں ناممکن کی کیا بات ہے ،اگر آپ کہیں تو میں آپ کے دوست سے بات کر لیتی ہوں، بلکہ میں قبیل خان کی موت کے بعد اسے قتل کرنے کا ارادہ بھی ملتوی کرنے کر دوں گی ۔“
سردار نے اسے جھڑکا ۔”تمھاری انھی باتوں سے وہ چڑتا ہے ۔“
”بھائی.... یقین کرو میری وجہ سے آپ لوگوں کو سہولت ہی ملے گی ۔میں اس علاقے سے اچھی طرح واقف ہوں ،آپ کی بہت اچھی رہنمائی کروں گی ۔“
”اچھا تم نے یہ نہیںبتایاکہ کمانڈر نصراللہ تمھارا استاد کیسے ہو گیا ؟“سردار نے اس کے اصرار سے تنگ آ کر موضوع تبدیل کرنے کی کوشش کی ۔
”بھائی کہا تو تھا کہ لمبی کہانی ہے ۔“پلوشہ نے اس موضوع سے پہلو تہی کرنا چاہی ۔
”تو مختصر کر کے سنا دو ۔“سردار مصر ہوا ۔
”ابو جان ،قیل خان کا لشکری تھا ۔اس وقت قبیل خان اسلحے اور منشیات کی سمگلنگ کرتا تھا ۔ ایک دن اس خبیث کی نظر میری بڑی بہن پر پڑی ۔وہ اس وقت سترہ سال کی تھی اور خود سے چار سال چھوٹے بھائی کے ساتھ بکریاں چرا رہی تھی ۔اس پر نظر پر پڑتے ہی قبیل خان نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ میری بہن کو پکڑ کر گاڑی میں ڈال لیں ۔دو آدمیوں نے میری معصوم باجی کو پکڑ کر زبردستی گاڑٰ میں گھسیڑ دیا ۔بھائی اس وقت تھوڑی دور کھڑا تھا ۔باجی کو بچانے کے لیے وہ دیوانہ وار بھاگا ۔اس کے قریب پہنچنے تک گاڑی آگے بڑھ گئی تھی ۔اس نے چلتی گاڑی پر چڑھنے کی کوشش کی مگر ایک ظالم نے اسے لات مار کر نیچے گرا دیا ۔ہماری بدقسمتی کہ نیچے گرتے ہوئے بھائی کا سر ایک پتھر سے ٹکرایا اور وہ بے ہوش کر گر پڑا ۔اسے س سے پہلے ایک موٹر سوار نے دیکھا جو ہمارے گاﺅں سے گزر کر انگور اڈے کی طرف جا رہا تھا ۔بھائی کا لہولہان جسم دیکھتے ہی وہ لوگوں کو اطلاع دینے کے لیے واپس پلٹا مگر جب تک لوگ اس کے پاس پہنچتے وہ باقی نہیں رہا تھا ۔ابو جان اس وقت پنجاب گئے ہوئے تھے ۔گھر میں ،میں اور امی جان اکیلی تھیں ۔لوگ جب بھائی کی لاش اٹھا کر لائے تو گھر پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی ۔بھائی کے موت کے ساتھ ہمیں باجی کے غائب ہونے کی فکر کھائے جا رہی تھی ۔اور یہ فکر ابو جان کی واپسی سے پہلے ایک اور قیامت کی صورت میں ظاہر ہوئی ۔بھائی کے موت کے چوتھے دن ہمیں باجی کی لاش بھی مل گئی ،اس طرح کہ مرنے سے پہلے وہ کئی افراد کی درندگی کا شکار ہو ئی تھی ۔ابو جان واپس آئے تو کئی دن تک تو اس صدمے سے باہر نہ آسکے ۔اس کے بعد انھوں نے قاتل کی تلاش کی کوششیں شروع کردی ۔قبیل خان کے محافظوں میں ابو جان کا ایک دوست شامل تھا ۔اس نے ابوجان کو اصل واقعے کی اطلاع دے دی ۔یوں بھی ابوجان کو پہلے پہلے سے قبیل خان پر شک تھا کیونکہ اس کی درندگی کا شکار ہونے والی باجی پہلی لڑکی نہیں تھی ۔اس سے پہلے بھی کئی لڑکیاں اس کی ہوس کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں ۔جوان بیٹے کی موت اور معصوم بیٹی کے ساتھ ہونے والے درندگی بھرے سلوک نے ابو جان کو کچھ سوچنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ وہ کلاشن کوف اٹھا کر قبیل خان کے خلاف چڑھ دوڑے۔مگر وہ خبیث تیار تھا ۔اس کے محافظوں نے ابوجان کو اس تک پہنچنے کے لیے زندہ نہ چھوڑا ۔اور یوں ہمارا بھرا پرا گھر ایک ظالم کی ہوس کا شکار ہو گیا ۔ میں اس وقت نو سال کی تھی ۔مجھ سے دو چھوٹے بھائی پیدا ہونے کے ساتھ ہی فوت ہو گئے تھے ۔گویا ابو جان کی واحد وارث میں تھی ۔جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت بھی امی جان امید سے تھیں ۔ہم علام خیل چھوڑ کر اپنے رشتے کے ماموں کے پاس چلے گئے ۔ان کا تعلق تحریک طالبان سے تھا ۔تحریک طالبان سے میری مراد مجاہدین طالبان سے ہے ،اس وقت تک نقلی اور دہشت گرد طالبان ابھی تک پیدا نہیں ہوئے تھے ۔ماموں جان جو امی جان کے چچا زاد بھائی تھے لیکن انھوں نے ہمارا بہت زیادہ خیال رکھا ۔امی جان نے ماموں جان سے درخواست کی کہ مجھے اس قابل بنا دیں تاکہ میں اپنے باپ ،بھائی اور باجی کے قتل کا بدلہ لے سکوں ۔امی جان کی واحد امید میں ہی تھی ۔گو چند ماہ بعد اللہ پاک نے مجھے ایک اور بھائی کے تحفے سے بھی نوازا تھا ،مگر وہ ابھی تک آٹھ سال کا بچہ ہے ۔ماموں جان نے صاف انکار کر دیا کہ مجاہدین کے کیمپ میں کسی لڑکی کو تربیت نہیں دی جاتی ۔تب امی جان نے التجا کی کہ وہ مجھے لڑکے کے روپ میں ساتھ لے جائیں ۔۔ہمارے ساتھ ہونے والا ظلم ایسا نہیں تھا کہ ماموں جان امی جان کی التجا ٹال سکتے ۔وہ مجھے لڑکا بنا کر ساتھ لے گئے ۔ابو جان ،باجی اور بھائی کی موت نے مجھے بھی سراپا انتقام بنا دیا تھا ۔میں لڑکا بن کر تربیت حاصل کرتی رہی ۔وہاں ہمیں دینوی اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ لڑنے بھڑنے کی تربیت بھی دی گئی ۔کمانڈر نصراللہ صاحب بھی میرے اساتذہ میں سے ہیں ۔آپ نے ہمیں مختلف قسم کے ہتھیاروں کی تربیت دیتے تھے ۔پچھلے دو،تین سال سے میرے اندر بتدریج ایسی جسمانی تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے لگیں کہ میرا مردوں کے درمیان رہنا مشکل ہو گیا تھا ۔اپنے جسمانی خطوط چھپانے کے لیے مجھے کھلے لباس کا سہارا لینا پڑتا تھا ۔ہاتھا پائی کی تربیت سے بھی میں احتراز برتنے لگی تھی ۔اور اب تین ماہ ہو گئے ہیں کہ میں نے مجاہدین کا کیمپ چھوڑ کر گھر آ گئی ہوں ۔وہ خبیث اب پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہو گیا ہے ،جبکہ میں اس کے خلا ف اکیلی ہوں ۔لڑکے کے روپ میں ،میں نے اس کے دوتین قریبی محافظوں سے دوستی گانٹھ لی ہے ۔انھی کی وساطت سے مجھے اس خبیث کے بارے تھوڑی بہت معلومات مل جاتی ہیں ۔مجاہدین کے پاس سے آنے کے بعد سے میں مسلسل کسی موقع کی تلاش میں ہوں ۔اور یہی وجہ ہے ایک مضبوط سہارا سمجھتے ہوئے میں آپ سے درخواست کر رہی ہوں کہ مجھے اپنے ساتھ رہنے دو ۔ کم از کم قبیل خان کی دشمنی کی مضبوط وجہ ہمارے درمیان مشترک ہے ۔“مکمل تفصیل بتاتے ہوئے آخر میں وہ اپنی پرانی درکواست دہرانا نہیں بھولی تھی ۔
سردار نے معنی خیز لہجے میں پوچھا ۔”ہماری قبیل خان سے دشمنی کی وجہ معلوم ہے ؟“
”نہیں ۔“اس نے نفی میں کہا ۔”یوں بھی میں وجوہات کی تلاش میں وقت برباد نہیں کرتی ۔“
سردار نے انکشاف کرتے ہوئے کہا ۔”ہمارا تعلق پاک آرمی سے ہے اور قبیل خان ایک دہشت گرد ہے ۔اس کے تعلقات ملک دشمن عناصر سے بھی ہیں ۔ہماری اور اس کی دشمنی کی واحد وجہ یہی ہے ۔“
”کیا ....؟“اس کے لہجے میں حد درجہ کی حیرانی بھری تھی ۔”کہیں آپ دونوں وہی تو نہیں ہو جنھوں نے پچھلے دنوں قبیل خان کے دو درجن سے بھی زیادہ آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اس کے ساتھ اس کے سب سے اہم کمانڈر روشن خان کو بھی لنگڑا کر دیا ۔“
”تمھیں یہ سب کیسے معلوم ؟“
”بتایا تو ہے اس کے چند قریبی آدمیوں سے بھی تھوڑی بہت دوستی گانٹھ رکھی ہے ۔گو وہ بھی میری شکل و صورت کی وجہ سے نرم رویہ رکھتے ہیں ،لیکن پھر بھی میں ان سے کچھ نہ کچھ اگلوا لیتی ہوں اور جہاں تک قبیل خان کی حالیہ ہزیمت کا تعلق ہے تو اس سے تو عام لوگ بھی واقف ہیں ۔خاص کر ایس ایس نے جو روشن خان کو زندگی کی بھیک دی تھی اس کا تو بہت چرچا ہوا ہے ۔یقینا ایس ایس آپ ہی ہوں گے؟“اس نے آخری فقرہ اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا ۔
”نہیں ۔میرا دوست ایس ایس ہے ۔“ایسا کہتے ہوئے سردار کے لہجے میں شامل فخر کا مادہ اس کے مخلص ہونے کی نشان دہی کر رہا تھا ،کہ اسے اپنے دوست پر فخر تھا ۔
”آپ اب بھی اپنے فیصلے پر قائم ہیں ۔“وہ دوبارہ اسی موضوع پر لوٹ آئی تھی ۔
”پلوشے !....میں نے تمھیں بہن کہا ہے ،مجھ سے جتنا ہو سکا میں نے کر دیا ہے ۔یقین مانو اس سے زیادہ میرے بس میں نہیں ہے ۔میں ذیشان کو خفا نہیں کر سکتا ۔یوں بھی اگر وہ اس بارے کسی سینئر کو مطلع کر دے تو میری نوکری تو جائے گی ہی ساتھ میں حوالات کی بھی ہوا کھانا پڑے گی ۔
”پتا نہیں تمھارے دوست کو مجھ سے کیا چڑ ہے ،عجیب احمق انسان ہے مجھے بے گناہ پیٹا بھی ہے اور اب موڈ بھی وہی بنا رہا ہے ۔“
”اس موضوع کو رہنے دو ۔“سردار کو یقینا اس کا انداز پسند نہیں آیا تھا ۔
”بھائی !....خفا نہ ہوں تو ایک بات پوچھوں ؟“
سردار نے بغیر تردد کے کہا ۔”پوچھو ۔“
اس نے معصومیت بھرے لہجے میں پوچھا ۔”کیا ساری لڑکیاں ماہین کی طرح ہوتی ہیں ؟“
”کک....کیا ....تم ماہین کو کیسے جانتی ہو ؟“سردار ہکلا گیا تھا ۔خود میں بھی حیرانی میں ڈوب گیا تھا ۔
”کل آپ دونوں مجھے سویا ہوا سمجھ کر جو باتیں کر رہے تھے میں نے ساری سن لی تھیں ۔آئندہ اردو میں بات کرتے وقت یہ یاد رکھنا کہ میں اردو زبان مکمل طور پر جانتی ہوں ۔“
”اچھا اب اس متعلق زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکالنا ،تم نے صبح چلے جانا ہے اور میں نے ذٰشان کے ساتھ اکٹھا رہنا ہے ،میں نہیں چاہتا میرا دوست کسی غلط فہمی کا شکار ہو جائے ۔“
”صبح نہیں بھائی !....میں ابھی رخصت ہو رہی ہوں ،میں نے سوچا تھا کہ شاید ہم مل کر قبیل خان کو فنا کر دیں گے لیکن آپ لوگوں کو میرا ساتھ ہی قبول نہیں تو زبردستی تو میں نہیں کر سکتی ۔“اس کے لہجے میں مایوسی کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔
سردار نے کہا ۔”بہن اگر بات صرف میری ہوتی تو میں تمھیں دوسری بار کہنے کا موقع نہ دیتا ۔“
”ٹھیک ہے بھائی !....اپنا خیال رکھنا ۔“
”سردار کو کہہ کر وہ مجھے مخاطب ہوئی ۔”راجا ذیشان حیدر صاحب !....خوش ہو جاﺅ میں جا رہی ہوں ۔“مگر میں اس سوتا بنا رہا ۔
سردار نے کہا ۔”پلوشے !....اسے جگانے کی ضرورت نہیں ۔“
وہ مصر ہوئی ۔”نہیں بھائی !....میں دیکھنا چاہتی ہوں آخر اسے میرے جانے کی کتنی خوشی ہوتی ہے ۔“یہ کہتے ہوئے اس نے میرے پاﺅں کو پکڑ کر ہلایا۔مجبوراََ مجھے اٹھنے کی اداکاری کرنا پڑی ۔ چہرے پرسے چادر اٹھاتے ہوئے اس کی جانب دیکھا ۔وہ کلاشن کوف کندھے سے لٹکائے کھڑی تھی ۔ اس کے بدن پر نیا لباس نظر آرہا تھا ۔غالباََوہ کپڑے اسے سردار نے خرید کر دیے تھے ۔
”محترم خوش ہو جائیں ،میں وعدے کے مطابق جا رہی ہوں ۔سردار بھائی نے مجھے نئے کپڑے بھی دلا دیے ہیں اور ڈاکٹر سے دوائی بھی لے دی ہے ۔“
میں جمائی لیتا ہوا بولا۔”میری خوشی دگنی ہو جاتی اگر سردار مجھے جگا کر یہ خوش خبری سناتا کہ آپ تشریف لے جا چکی ہیں ۔“
”مجھے روکو گے نہیں ۔“اس نے میری آنکھو ں میں جھانکتے ہوئے شرارتی لہجے میں کہا ۔لیکن یہ شرارت اس کے لہجے تک محدود تھی ،اس کی آنکھوں کی گہرائی میں کوئی اور جذبہ پوشیدہ تھا جس کی توجیہ سے میں قاصر تھا ۔شاید یہ التجا تھی ،امید تھی ،بھروسا تھا یا کوئی شدت بھری خواہش تھی ۔
”کیا ،میرے روکنے سے رک جاﺅں گی ؟“
”کہہ کر دیکھ لو ۔“اس مرتبہ میں نے اس کی آنکھوں میں چھپی التجا نما حکم صاف پڑھ لیا تھا ۔
میں نے کہا ۔”ٹھیک ہے نہ جاﺅ ۔“
اس کے چہرے پر مسرت بھرے آثار نمودار ہوئے ۔”لیکن یہ نہ سمجھنا کہ اس طرح میں تمھیں قتل کرنے کا ارادہ ترک کر دوں گی ۔“کلاشن کوف کندھے سے اتار کر وہ چارپائی پر بیٹھ گئی ۔
سردار نے خفگی بھرے لہجے میں کہا ۔”میرے کہنے پر تو ایک رات کے لیے راضی نہیںہو رہے تھے اور پلوشہ کے کہنے پر مستقل ساتھ رکھ لیا ۔“
میں نے احسان جھاڑتے ہوئے فوراِِ کہا ۔”ہاں ،کیونکہ تم یہی چاہتے تھے اور میں تمھیں خفا نہیں کر سکتا تھا۔“
سردار نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔”بڑی جلدی خیال آگیا میری خفگی کا ۔“اور میں نے اسے جواب دیے بغیر دوبارہ اپنے اوپر چادر لے لی ۔
پلوشہ ،سردار کو اپنی جانب متوجہ کر کے دوبارہ چہکنے لگی ۔سردار بھی میرے فیصلے سے خوش ہو گیا تھا ۔یقینا وہ اس مظلوم لڑکی مدد کرنا چاہ رہا تھا ۔اچانک میرے کانوں میں زور دار دھماکے کی آواز آئی ،میں بے اختیار اٹھ بیٹھا تھا ۔
سردار نے فوراََ کہا ۔”لیں جی قبیل خان کی بربادی کا آغاز ہو گیا ہے ۔“
”ویسے کافی زور دار دھماکا تھا کہ آواز یہاں تک پہنچ گئی ۔“
سردار نے کہا ۔”بارود ہی اتنا زیادہ تھا دھماکا تو ہونا تھا ۔“
”مجھے تو بہت سکون محسوس ہو رہا ہے ۔“پلوشہ نے خوشی کا اظہار کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔
انھیں باتیں کرتا چھوڑ کر میں ایک بار پھر لیٹ گیا ۔اور ان کی باتیں سنتے سنتے ہی مجھے نیند آ گئی تھی ۔
شام کی آذان ہو رہی تھی جب سردار نے مجھے جگایا ۔”راجے !....اٹھ جاﺅ یا ر ،شام کی آذان ہو رہی ہے ۔“اور میں انگڑائی لیتے ہوئے اٹھ بیٹھا ۔
رات کا کھانا ہم نے لالٹین کی روشنی میں کھایا اور خوشبو دار قہوہ پی کر دوبارہ لیٹ گئے ۔سردار اور پلوشہ تو چند منٹ گپ شپ کر کے سو گئے تھے لیکن مجھے رات گئے تک نیند نہ آ سکی ۔میں موجودہ حالات پر غور کرتا رہا ۔پلوشہ زور زبردستی سے ہمارے ساتھ شامل ہو گئی تھی ۔اس کی دکھ بھری کہانی سن کر مجھے مجبوراََ اسے ساتھ رہنے کی اجازت دینا پڑ گئی تھی ۔یوں بھی وہ اسی علاقے کی تھی اور مجھے امید تھی کہ اس کا ساتھ ہمارے لیے فائدہ مند ہی ہونا تھا ۔یونھی پلوشہ کے بارے سوچتے سوچتے میں نیند کی وادیوں میں کھو گیا ۔
صبح ناشتے کے بعد ہم ڈی بلاک جانے کے لیے تیار تھے ۔ناشتے کے برتن سمیٹتے ہوئے کمانڈر نصراللہ نے کہا ۔
”پلو خان !....کوشش کرنا کہ ان لوگوں کا ساتھ نہ چھوڑنا ۔“
”جج....جی ....استاد جی ۔“پلوشہ نے گھبرا کر کہا ۔اس کا چہرے کے گرد چادر لپیٹنا کام نہیں آ سکا تھا ۔کمانڈر نصراللہ نے اسے آسانی سے پہچان لیا تھا ۔
”بیٹے !....میں تم سے مجاہدین کا ساتھ چھوڑنے کی وجہ تو نہیں پوچھنا چاہتا لیکن اتنا یاد رکھنا ذاتی لڑائی سے زیادہ اللہ پاک کے رستے میں لڑنے کی اہمیت ہو تی ہے ۔“
”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں استاد جی !....“اس مرتبہ بھی اس نے اثبات میں سر ہلادیا تھا ۔ لیکن بعض اوقات انسان کسی کے ظلم و زیادتی کا ایسا ڈسا ہوا ہوتا ہے کہ وہ انتقام کے علاوہ کسی کام کے قابل نہیں رہتا ۔“
”اللہ پاک تمھارے لیے آسانیاں پیدا کرے ۔“پلوشہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ باہر نکل گیا ۔اس کے ساتھ بات کرتے وقت پلوشہ کا لہجہ کافی بھاری اور مردانہ سا محسوس ہوا تھا ۔یقینا وہ اپنی آواز کو بھاری بنا کر بات کر رہی تھی ۔نو دس سال کی عمر سے وہ لڑکا بن کر رہتی آرہی تھی اتنی مشق تو اس کی ہو گئی تھی کہ کوئی اسے آواز سے نہیں پہچان سکتا تھا ۔البتہ اس کے نین نقش کسی کے دل میں بھی شک کا بیج بو سکتے تھے ۔
سردار نے کمانڈر نصراللہ کے بیٹھک سے نکلتے ہی کہا ۔”تمھارا چہرہ چھپانا تو کسی کام نہیں آ سکا۔“
”بھائی !....میں اپنی سی کوشش تو کی تھی لیکن استاد آخر استاد ہی ہوتا ہے ۔اور میرا خیال ہے انھوں نے مجھے کل ہی پہچان لیا تھا ۔“
”کیا انھیں یہ معلوم نہیں کہ تم لڑکی ہو ۔“
”نہیں ۔“پلوشہ نے نفی میں سر ہلایا۔
سردار مجھے مخاطب ہو کر بولا ۔”پلوشہ بہن نے مجاہدین کے ساتھ لڑکا بن کر تربیت حاصل کی ہے اورکمانڈر نصراللہ اس کا استاد ہے ۔“
میں نے خشک لہجے میں کہا ۔”مجھے اس عورت کے بارے جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔“
وہ کہاں خاموش رہنے والی تھی ۔فوراََ بول اٹھی ۔”میں عورت نہیں لڑکی ہوں ۔بلکہ تم جیسوں کے لیے تو لڑکا ہوں ۔“
میں نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔”ہاں لڑکیاں تمھاری طرح بد شکل ہوتی بھی نہیں ہیں ۔“
”اچھا ....پرسوں غارمیں تو تم کچھ اور فرما رہے تھے کہ میرے چہرے پر تمھیں اپنی تینوں پسندیدہ ترین خواتین کی جھلک نظر آرہی تھی بلکہ ان سے بھی زیادہ خوب صورت لگ رہی تھی ۔“بغیر لگی لپٹی رکھے وہ اس دن کی بات اگلتے ہوئے سردار کی طرف مڑی ۔”بھائی !....اس نے کچھ ایسا ہی کہا تھا نا ؟“
سردار قہقہہ لگا کر ہنسا ۔”ہاں کچھ ایسا ہی تھا ۔“
”چلو ۔“کھسیاتے ہوئے میں نے اپنا سفری تھیلا کندھوں سے لٹکایااور باہر کی جانب قدم بڑھا دیے ۔ اس بے باک اور چالاک لڑکی کی باتوں کا جواب دینا مشکل ہو جاتا تھا ۔لحاظ رکھنا تو اسے آتا ہی نہیں تھا ۔
”ویسے سچ سچ بتاﺅ راجا صاحب !....اس وقت جھوٹ بول رہے تھے یا ابھی ؟“میرے پیچھے قدم بڑھاتے ہوئے اس نے شوخی بھرے لہجے میں پوچھا ۔
مگر میں اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے چلتا رہا ۔
سردار نے موضوع تبدیل کرتے ہوئے پوچھا ۔”ویسے یہاں سے علام خیل کے لیے گاڑی تو مل جاتی ہو گی ؟“یقینا وہ نہیں چاہتا تھا کہ میں پلوشہ کی باتوں پر غصہ کھا کر کوئی الٹا سیدھا بول دوں یا اسے ساتھ رکھنے کے فیصلے میں ترمیم کر دوں ۔
”جی بھائی !....نہ صرف علام خیل کے لیے بلکہ وانہ ،ڈابر میانی ،دیر زوال،سرے خاورے،درے نشتر،واخدالائی،رغزی،شالوم وغیرہ کے لیے آسانی سے گاڑی مل جاتی ہے ۔“
انگور اڈے سے ویگن میں بیٹھ کر ہم علام خیل روانہ ہوئے ۔میرا ارادہ تھا کہ اسے کھڑکی والی طرف بٹھا کر اس کے ساتھ سردار کو بیٹھنے کا کہوں گا مگر میرے کہنے کے باوجود اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔” پہلے تم بیٹھو ۔“
اور میرے کھڑکی کے پاس بیٹھتے ہی وہ سردار سے پہلے اندر گھس کر میرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی ۔ میرے ذہن میں سردار کی کہی ہوئی بات تازہ ہوئی کہ۔”مجھے لگتا ہے پلوشہ تمھاری ذات میں خاصی دلچسپی لے رہی ہے ۔“اور میں نے یہ سن کر اسے جھڑک دیا تھا ۔لیکن اب اس کا میرے ساتھ بیٹھنے میں دلچسپی لینے نے مجھے سردار کی کہی ہوئی بات پر سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔گاڑی چلنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے ساتھ بالکل چپکی جا رہی تھی ۔لیکن میں نے اس بارے منہ کھولنے کے بجائے باہر کے نظارے دیکھنے لگا ۔اس علاقے کو زیادہ سے زیادہ پہچانا ضروری تھا ۔
علام خیل پہنچنے سے کلومیٹر ،ڈیڑھ کلو میٹر پہلے وہ سردار کو دبے لہجے میں مخاطب ہوئی ۔”یہ وہ جگہ ہے بھائی ! ....جہاں وہ واقع پیش آیا تھا ۔“
”ہونہہ!....“کر کے سردار نے مزید تبصرہ کرنے سے گریز کیا تھا ۔
علام خیل میں اتر تے ہی میں نے سردار کو کہا ۔”ویسے بہتر تو یہی ہو گا کہ یہ یہیں رک کر ہماری واپسی کا انتظار کرئے ۔“
”بالکل بھی نہیں ۔“سردار کے کچھ کہنے سے پہلے اس نے کہا ۔”مجھے تم پر ذرا بھر بھی اعتماد نہیں ہے ۔اپنی کہی ہوئی بات سے پھرنے کے لیے تم ذرا بھی دیر نہیں لگاتے ۔کیا پتا واپس آتے ہوئے تم مجھ سے چھپ کر نکل جاﺅ ۔“
میں نے بگڑتے ہوئے کہا ۔”میرا خیال ہے ہم نے تمھیں ساتھ رکھنے کا نہ تو معاوضا لیا ہے اور نہ وعدہ کیا ہے پھر اس طرح دھونس جمانے کا مطلب؟“
وہ ترکی بہ ترکی بولی ۔”تو یہ معاضا کم ہے کہ ایک خوب صورت لڑکی تم جیسے سڑیل کے ساتھ رہ رہی ہے ۔“
”پلوشے !“سردار نے اسے کڑے تیوروں سے گھورا ،مگر اس نے بے پرواہی سے کندھے اچکا دیے۔
”تمھیں مظلوم سمجھنا ہی میری غلطی تھی ۔“کہہ کر میں نے مطلوبہ سمت قدم بڑھا دیے ۔
”چلو اپنی کوئی غلطی تو تم نے تسلیم کر لی ہے ۔“کہتے ہوئے اس نے میرے پیچھے قدم بڑھا دیے ۔
ڈی بلاک سے وہاں آتے ہوئے ہمیں کوئی دشواری پیش نہیں آئی تھی کیونکہ ہم مسلسل نشیب میں چلتے آئے تھے ۔اب وہاں تک جاتے ہوئے بلندی کا سفر طے کرنا تھاجو بلا شبہ مشکل تھا ۔پلوشہ مقامی تھی اور پہاڑی علاقے میں چلنے پھرنے کا اس کا تجربہ ہم سے کہیں زیادہ تھا ۔اس کے اٹھتے قدم دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ چڑھائی پر چڑھ رہی ہے ۔وہ ہم سے چند قدم آگے تھی اور ہمارے لیے اسے کئی بار اپنے قدموں کی رفتار کم کرنا پڑی ۔سردار کا سفری تھیلا اس نے زبردستی اس سے لے کر اپنے کندھوں میں ڈال لیا تھا ۔ڈی بلاک کے نیچے سے گزرنے والے نالے میں پہنچ کر ہم نے ہاتھ لہرا کر ڈیوٹی پر موجود سنتری کو اپنی جانب متوجہ کیا اور پھر آخری چڑھائی چڑھنے لگے ۔درمیان تک تو پلوشہ ہم سے آگے آگے رہی لیکن اس کے بعد جان بوجھ کر ہمارے عقب میں چلنے لگی ۔سنتری کے پوسٹ سے تھوڑا دور ہی ہمیں روک دیا تھا ۔تھوڑی دیر بعد ہم شناخت کا مرحلہ طے کرکے پوسٹ کمانڈر کے بینکر میں بیٹھے تھے ۔اب تک وہی پچھلا پوسٹ کمانڈر ہی وہاں موجود تھا اس لیے ہم تعارف وغیرہ کی زحمت سے بچ گئے تھے ۔رسمی گفتگو کے بعد وہ مطلب کی بات پر آ گیا ۔
”آپ کی رائفل کا ایمونیشن پہنچ گیا ہے اور اورنگ زیب صاحب نے کہا ہے کہ آپ جیسے ہی یہاں پہنچتے ہیں ذیشان کو کہنا مجھ سے بات کر لے ۔“
میں مستفسر ہوا ۔”فون پر ؟“
پوسٹ کمانڈر نے کہا ۔”جی ہاں ،آئی کام کی رینج سے تو وہ باہر ہیں ۔“
میرے ”بات کراﺅ ۔“کہنے پر اس نے فون کا رسیور اٹھایا اور اور صفر ڈائل کر کے کہنے لگا ۔ ”میجر اورنگ زیب کو لائن پر لے آﺅ۔انھیں کہو ذیشان نے بات کرنا ہے ۔“یہ کہہ کر اس نے رسیور رکھ دیا۔ چندلمحوں بعد ہی فون کی گھنٹی بجنے لگی ۔اس نے رسیور اٹھا کر کان سے لگایا اور پھر رسیور میری جانب بڑھا دیا ۔
میں نے رسیور لیتے ہی کہا ۔”اسلام علیکم سر !....ذیشان بات کر رہا ہوں ۔“
”وعلیکم اسلام !....کیسے ہو جوان !“اورنگ زیب صاحب کی آواز میں مجھے پریشانی کی جھلک نظر آئی تھی ۔
”ٹھیک ہو ں سر !“میں نے ہشاش بشاش لہجے میں جواب دیا ۔
”اور سردار ۔“
”وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے ۔“
”تم لوگوں نے الفا ٹو سے رابطہ کیوںنہیں کیا تھا ۔“
’ضرورت ہی پیش نہیں آئی ،بلکہ صاف کہوں تو ہمیں خیال ہی نہیں آیا تھا ۔“
”دیکھو ذیشان !....اگر میں نے تمھیں رابطہ نمبر دیا تھا تو اس کا کوئی مقصد بھی تھا ۔تمھیں روزانہ کم از کم ایک بار تو اسے اپنی خیریت سے آگاہ کرنا چاہیے تھا ۔“
اورنگ زیب صاحب کے لہجے میں شامل پریشانی سے میرا دل ہولنے لگا تھا ۔میں نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا ۔”سر !....میں معذرت خواہ ہوں آئندہ خیال رکھیں گے ۔“
”سردار کی بیوی وضع حمل میں جانبر نہیں رہ سکی ۔آج اسے گزرے ہوئے تیسرا دن ہے ۔البتہ نومولود ٹھیک ٹھاک ہے ۔“
”کک....کیا ....ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟“میری آواز لڑکھڑانے لگی تھی ۔
”مجھے پرسوں ہی تمھارے کمانڈنگ آفیسر نے فون پر یہ افسوس ناک خبر سنائی اور میں نے اسی وقت الفا ٹو کو یہ پیغام دے دیا کہ تمھیں واپسی کا حکم سنا دے ۔بہ ہر حال جو ہو نا ہو اسے کسی صورت روکا نہیں جا سکتا ۔تم بس یہ خیال رکھنا کہ اسے گھر جانے سے پہلے یہ بات پتا نہیں چلنا چاہیے اور اسے وانہ تک بھی چھوڑ آﺅ۔“
”ٹھیک ہے سر !“اس کے علاوہ میرے پاس کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں ۔
”ذیشان !....مجھے افسوس ہے ،لیکن ایک دن سب کو جانا ہے ۔“
”جی سر !....“
”اگر تم بھی چھٹی جانا چاہو تو ....“
”فی الحال تو نہیں جانا سر !“میں نے قطع کلامی کرتے ہوئے انکار کر دیا ۔
”ٹھیک ہے مزید باتوں کا وقت نہیں ،میں اس وقت وانہ میں ہوں باقی باتیں اکٹھے بیٹھ کر کریں گے فی امان اللہ ۔“
میں نے رسیور رکھ کر ایک گہرا سانس لیا اور پھر ہونٹوں پر زبردستی مسکراہٹ بکھیرتا ہوا بولا ۔ ”خان صاحب !....مبارک ہو بیٹا ہوا ہے ۔“
”کیا ....سچ ....“وہ خوشی سے اچھل پڑا تھا ۔
”ہاں یار !....اوردوسری خوش خبری یہ ہے کہ تمھاری چھٹی بھی ہو گئی ہے ۔“
”شکریہ یار !....“اس نے مسرت بھرے انداز میں کہا ۔”لیکن تم فون پر تو یوں بات کر رہے تھے جیسے کوئی افسوس ناک واقعہ ہو گیا ہو ۔“
”اس سے بڑی افسوس ناک بات کیا ہو گی کہ ایک اور پٹھان دنیا میں آگیا ہے ۔“میں نے مزاحیہ انداز اپنا نے کی کوشش کی ،مگر میرے دل کی جو حالت تھی اس کے بارے صرف میرا ربّ ہی جانتا تھا ۔وہ عورت جسے میں نے آج تک دیکھانہیں تھا لیکن اسے اپنی بہن کی طرح سمجھتا تھا ۔یقینا اس کی قسمت میں اپنے محبوب شوہر کی بے وفائی دیکھنا نہیں لکھا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ لی زونا کی آمد سے پہلے ہی اپنے شوہر سے دور چلی گئی تھی ۔
سردار نے بے صبری سے کہا ۔”میرا خیال ہے ہمیں ابھی نکلنا چاہیے ۔“
”یہاں سے شکئی تک کافی دیر لگ جائے گی ۔“میں نے خیال ظاہر کیا ۔
”شکئی کیوں ؟“پلوشہ نے فوراََ پوچھا۔
میں نے تلخ لہجے میں جوا ب دیا ۔”تو یہ وانہ ہیلی کاپٹر میں اڑ کر جائے گا کیا ۔“
وہ محسوس کیے بغیر بولی ۔”معلوم ہے کتنی چڑھائیاں طے کر کے وہاں تک جانا پڑے گا ۔اس طرف سے جاتے ہوئے دو دن رستے میں لگ جائیں گے ۔“
”تو پھر کیا کریں ؟“سردار نے پریشانی ظاہر کی ۔
”اگر کوشش کریں تو ہم آج ہی انگور اڈے پہنچ کر وانہ کی گاڑی پکڑ سکتے ہیں ۔“
اس کا مشورہ نہایت ہی مناسب تھا ۔”چلو نکلیں ۔“میں نے اثبات میں سرہلا کر اس کی تائید کی۔
بیرٹ ایم 107میں نے وہیں چھوڑ دی تھی ۔میرا ارادہ اسے واپسی پر وہاں سے لینے کا تھا ۔ پوسٹ کمانڈر سے اجازت لے کر ہم وہاں سے نکل آئے ۔پلوشہ ہمارے آگے آگے تھی ۔وہاں سے علام خیل تک مسلسل اترائی تھی اس لیے ہماری رفتا ر کافی تیز رہی ۔سردار بہت خوش تھا ۔
”یار راجے !....بس لی زونا کا باب بند ہی کرتا ہوں ،وہ مجھے بہت پیاری ہے لیکن اب تو چنارے نے مجھے ایک بیٹے کا تحفہ دے دیا ہے ایسے موقع پر میں دوسری شادی کی بات کرتا اچھا تو نہیں لگوں گا نا ۔مجھے معلوم ہے چنارے بہت خوش ہو گی اور بہت بے صبری سے میرا انتظار کر رہی ہو ۔“
میں نے رندھی ہوئی آواز میں مشورہ دیا ۔”ضروری تو نہیں کہ تم جاتے ہی شادی کی بات چھیڑ دو ۔اگر اس چھٹی پر نہیں تو اگلی چھٹی پر کوئی اچھا سا موقع دیکھ کر بات کر لینا۔“
”نہیں یار !....چنارے مجھے بہت زیادہ پیار کرتی ہے اورلی زونا بھی ۔مجھے لگتا ہے کہ میں ان دونوں کے درمیان پھنس کر رہ جاﺅں گا ۔لی زونا کے آنے سے چنارے ضرور واویلا کرئے گی ۔ ممکن ہے شادی کے بعد لی زونا کو بھی چنارے کی ذات کھٹکنے لگے وہ تو یوں بھی ایک علاحدہ معاشرے کی عادی ہے ۔اوریہ نہ ہو دونوں کو پانے کے لالچ میں دونوں کے پیار سے محروم ہو جاﺅں ۔“
”اللہ پاک بہت زیادہ حکمت والا ہے دوست!....وہ جو کرتا ہے انسان کی بہتری کے لیے کرتا ہے کافی دفعہ ایسے حادثے انسان کی زندگی میں آ جاتے ہیں جنھیں برداشت کرنے کی ہمت انسان اپنے اندر مفقود پاتا ہے ،بس میری یہ بات یاد رکھنا کہ صبر اور حوصلے کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا ۔“
”یعنی تم بھی میرے ساتھ متفق ہو کہ مجھے لی زونا کا خیال دل سے نکال دینا چاہیے ؟“اس نے میری گول مول گفتگو سے یہی اندازہ لگایا تھا ۔
”اس بارے بعد میں بات کریں گے فی الحال تھوڑا تیز چلنے کی کوشش کرو تمھاری باجی صاحبہ تو بے عزت کرنے کے چکر میں پڑ ی ہے ۔یوں جا رہی ہے جیسے میرا تھن میں حصہ لے رہی ہو ۔“مجھے اس موضوع سے وحشت ہو رہی تھی ۔میں نہیں چاہتا تھا کہ بار بار چنارے بہن کا ذکر آئے ۔ایک بار تو جی میں آیا کہ سردار کو حقیقت بتا دوں مگر پھر اورنگ زیب صاحب کی نصیحت یاد آ گئی ۔اس نے سختی سے منع کیا تھا کہ سردار کو اس کی بیوی کی وفات کے بارے نہ بتایا جائے ۔یوں بھی آرمی میں حتی الوسع یہی کوشش کی جاتی ہے کہ کسی کے بھی قریبی رشتا دار کی ناگہانی موت کی اطلاع متاثرہ شخص کونہیں دی جاتی کہ کہیں وہ سفر کے قابل ہی نہ رہے ۔ گھر جا کر بھی وہ صدمہ اتنا ہی گہرا ہوتا ہے لیکن وہاں دوسرے رشتا دار اسے سنبھالنے کے لیے موجود ہوتے ہیں ۔
سردار نے تحسین آمیز لہجے میں کہا ۔”ماننا پڑے گا کہ پلوشہ بہن کا سٹمنا ہم سے زیادہ ہے ۔“
جواباََ میں خاموش رہا ۔پانچ گھنٹے کا رستا ہم نے دو گھنٹے میں طے کر لیا تھا ۔علام خیل میں پہنچ کر ہم سڑک پر کسی گاڑی کا انتظار کرنے لگے ۔دس پندرہ منٹ کے انتظار کے بعد بھی کوئی گاڑی نہ ملی ۔پلوشہ ہمیں انتظار کرنے کا کہہ کر گاﺅں کے اندر گھس گئی ۔تھوڑی دیر بعد ہی وہ ایک ہنڈا 125لیے نمودار ہوئی ۔ اسے موٹر سائیکل چلاتے دیکھ کر مجھے کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی تھی ۔
میرے قریب موٹر سائیکل روکتے ہوئے اس نے کہا ۔”موٹر سائیکل کون چلائے گا؟“
میں نے کہا ۔”میرا خیال ہے یہ ذمہ داری مجھے سنبھالنا پڑے گی ۔“
”میں تم سے اچھی موٹر سائیکل چلا سکتا ہوں ۔“سردار نے مجھ سے پہلے پلوشہ کے ہاتھ سے ہینڈل تھام لیا ۔
میں نے اپنا تھیلا موٹر سائیکل کے کیرئر پر رکھ کر اس کے پیچھے بیٹھ گیا ۔میرے عقب میں وہی مصیبت بیٹھ گئی جس سے میں مسلسل جان چھڑانے کی کوشش میں مصروف تھا ۔مجھے یہ بھی علم تھا کہ سردار اسی لیے موٹر سائیکل چلانے کی ذمہ داری سنبھالی تھی تاکہ پلوشہ کو میرے ساتھ بیٹھنا پڑے۔
پلوشہ کے بیٹھتے ہی میں نے سردار کو چلنے کو کہا اور اس نے سرہلاتے ہوئے موٹرسائیکل آگے بڑھا دی ۔
تھوڑا آگے جاتے ہی اس نے پلوشہ سے پوچھا ۔”یہ موٹر سائیکل کہاں سے اٹھا لائی ہو ؟“
”اپنے استادکمانڈر عبدالحق سے مانگا ہے ۔“وہ پہلے بھی مجھ سے چپک کر بیٹھی تھی سردار کو جواب دینے کے لیے مزید آگے جھکی ۔
”کمانڈر نصراللہ سے منہ چھپا رہی تھیں اور عبدالحق کے پاس خود بھاگ کر پہنچ گئی ہو ۔“
”مجبوری تھی اس لیے جانا پڑا۔باقی چھپ ندامت کی وجہ سے رہی تھی ڈرنے کی وجہ سے نہیں۔مجاہدین زبردستی تھوڑی کرتے ہیں کسی کے ساتھ ۔“
”کیا بات کرنے کے لیے آگے ہونا ضروری ہے ۔“میں نے اسے جھڑکا ۔
”ٹھیک ہے اگر تمھیں تکلیف ہو رہی ہے تو پیچھے بیٹھ جاﺅ ،میں نے تو اپنے بھائی سے بات کرنا ہے اور جب تک آگے کی طرف ہو کر بات نہ کروں اسے سنائی نہیں دے گا۔“
اس کی بات پر میں خون کے گھونٹ بھرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکا تھا ۔اور میرے چڑنے کی وجہ سے تھوڑا اور آگے کو کھسک آئی تھی ۔اس کے ساتھ متھا مارنا دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف تھا ۔مجبوراََ میں خاموش ہو گیا ۔
انگور اڈے تک آتے ہمیں ڈیڑھ گھنٹا لگا تھا ۔سورج غروب ہونے کو تھا۔
انگور اڈے کی آبادی شروع ہوتے ہی اس نے سردار کو کہا ۔”موٹر سائیکل ،کمانڈر نصراللہ کے گھر کھڑی کرنا پڑے گی سیدھا وہیں چلو ۔“
میں نے کہا ۔”ہمیں اڈے میں اتار کر تم لے جانا ۔“
وہ جواباََ بولی ۔”جب پوچھا نہ جائے تو مشورہ نہیں دینا چاہیے ۔“
”یہ مشورہ نہیں ہے ۔“میں نے حتمی لہجے میں کہا ۔”ہم تمھیں اپنے ساتھ وانہ تو نہیں لے جا سکتے ۔“
”تمھارے ساتھ کون احمق جا رہا ہے۔“
سردار نے موٹر سائیکل کا رخ کمانڈر نصراللہ کے گھر کی طرف موڑ دیا تھا ۔
”یار !....اڈے کی طرف چلو ۔“مین چیخا مگر سردار سنی ان سنی کرتا ہوا کمانڈر نصراللہ کے گھر کی جانب بڑھتا رہا ۔
کمانڈر نصراللہ کا گھر قریب ہی تھا ۔وہ ہمیں گھر کے باہر ہی مل گیا،وہ شام کی نماز کے لیے مسجد کی طرف جا رہا تھا ۔
سردار نے اس کے قریب موٹر سائیکل روک کر ۔”اسلام علیکم !“کہا ۔
”وعلیکم اسلام ۔“کہہ کر اس نے فرداََ فرداََ ہم تینوں سے ہاتھ ملایا ۔
پلوشہ نے کہا ۔”استاد جی یہ موٹر سائیکل کمانڈر عبدالحق سے مانگ کر لائی ہے ،اگر آپ ان تک پہنچا دیں تو مہربانی ہو گی ۔“
”ٹھیک ہے بیٹا !....“اس نے خوش دلی سے کہتے ہوئے موٹر سائیکل تھام لی ۔”آپ لوگ کھانا تو شام کی نماز پڑھ کر ہی کھاﺅ گے نا ؟“
”نہیں ،ہم وانہ جا رہے ہیں ۔“پلوشہ نے ہم سے پہلے جواب دیا ۔اور وہ سر ہلاتا ہوا موٹر سائیکل کو ہینڈل سے پکڑ کر گھر کی جانب بڑھ گیا ۔سوائے پستولوں اور ایک عدد آئی کام کے ہم نے اپناباقی سامان اور ہتھیار اس کے حوالے کر دیے تھے ۔
ویگن اڈے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے میں فیصلہ کن لہجے میں کہا ۔”سردار تمھارے جانے کے بعد میں اسے ایک سیکنڈ بھی اپنے قریب نہیںپھٹکنے دوں گا ۔“
سردار کے کچھ کہنے سے پہلے وہ ترکی بہ ترکی بولی ۔”میرا دماغ خراب ہے کہ تم جیسے بے اعتبارشخص کے ساتھ اکیلی رہوں ۔“
”احسان ہو گا تمھارا ۔“تلخی سے کہتے ہوئے میں قدموں کی رفتار تیز کرتے ہوئے ان دونوں سے آگے نکل گیا ۔ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں ویگن اڈے میں داخل ہوتے ہی ایک تیار ویگن مل گئی ۔ سواریاں نماز کی ادائی کے بعد اندر بیٹھ رہی تھیں ۔عقبی نشست خالی پڑی تھی ۔کنڈیکٹر نے ہمیں دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا تھا ۔ہمارے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے ویگن آگے بڑھا دی ۔کوشش کے باوجود ہم ڈیرہ اسماعیل خان جانے والی گاڑی نہیں پکڑ سکے تھے مجبوراََ ہمیں ہوٹل میں رات گزارنا پڑی ۔
”تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ چھٹی کتنی ہوئی ہے ۔“بستر پر لیٹتے ہی سردار نے پوچھا ۔
میںنے فوراََ کہا ۔”مہینا ۔“
”گویا ایک ماہ میں سلطان خان کے ساتھ رہ سکتا ہوں ۔“
میں نے سوالیہ لہجے میں کہا ۔”سلطان ....؟“
”ہاں سلطان خان ولد سردار خان اور معلوم ہے میں نے اور چنارے نے پہلے سے یہ طے کیا تھا کہ بیٹا ہوا تو چنارے نام رکھے گی اور بیٹی ہوئی تو میں ۔اور اس نیک بخت نے بیٹے کے لیے سلطان نام چن رکھا ہے ۔“
”ہونہہ!“میں نے دکھ کی لہر کوسینے میں دباتے ہوئے دھیرے گہرا سانس لیا ۔
”قسم سے میرا دل چاہتا ہے اڑ کر گھر پہنچ جاﺅں ۔“
”بھائی یہ آپ کا پہلا بیٹا ہے نا ؟“پلوشہ نے زبان کھولی ۔
”ہاں پلوشے !....یہ تمھارا پہلا بھتیجا ہے ۔“
”میری باجی کو میری طرف سے بہت بہت مبارک باد کہنا ۔“
”ضرور ۔“سردار نے اثبات میں سر ہلایا۔
”قبیل خان کوہلاک کرنے کے بعد میں ان شاءاللہ سلطان سے ملنے آﺅں گی ۔“یہ کہتے ہوئے وہ ایک لمحے کے لیے رکی اور پھر شرارتی لہجے میں بولی ۔”نہیں بلکہ قبیل خان کی ہلاکت کے بعد میں نے ایک اور قتل بھی کرنا ہے اس کے بعد آﺅں گی ۔
سردار نے زوردارقہقہہ لگایا ،لیکن میں دکھ کی وجہ سے کوئی جواب نہیں دے سکا تھا ۔
”ویسے یار!.... مجھے پشیمانی ہورہی کہ میں نے چنارے کو موبائل فون کیوں نہیں لے کر دیا ۔ اگر اس کے پاس موبائل فون ہوتا تو ابھی پی سی او سے گھر بات کر کے کم از کم اس کی آواز ہی سن لیتا ۔“
”اچھا میرا اے ٹی ایم اپنے پاس رکھ لو ،شادی تمھیں رقم کی ضرورت پڑے ۔“میں نے اپنا اے ٹی ایم اس کی طرف بڑھایا۔
اس نے انکار کرتے ہوئے کہا۔”نہیں اب اس کی ضرورت نہیں پڑے گی ،بتایاتو ہے کہ لی زونا کا باب بند ۔“
”پانچ ہزار ڈالر تمھیں دینے کا وعدہ کیا تھا ،چاہے وہ لی زونا کے حصول کے لیے استعمال کرو چاہے ....کسی اور مقصد کے لیے ۔“میری آواز بھرا گئی تھی ۔
”نہیں راجے !....اتنی زیادہ رقم ........“
”مجھ سے غلطی ہو گئی تھی یار !....یہ رقم مجھے بہت پہلے تمھارے حوالے کر دینا چاہیے تھی ،تم بھی امریکا میں میرے ساتھ تھے ۔پچاس ہزار میں سے پانچ ہزار تو تمھارا حق بنتا ہے ۔“
”وہ تمھارا انعام تھا ۔“سردار نے نفی میں سر ہلایا۔
”تم نے لینے ہیں کہ مجھ سے بے عزت ہونا ہے ۔“میں نے سخت لہجے میں کہا اور اس نے خاموشی سے اے ٹی ایم کارڈ میرے ہاتھ سے لے لیا ۔اے ٹی ایم کا پاس ورڈ بتا کر میں نے سونے کے لیے آنکھیں بند کر لیں ۔
صبح سویرے اٹھ کر ہم بغیر ناشتا کیے ہوٹل سے نکل آئے ۔ویگن اڈے پہنچ کر بھی ناشتے کا موقع نہ مل سکا کہ ویگن جانے کے لیے تیار تھی ۔سردار نے اپنا پستول میرے حوالے کرتے ہوئے مجھ سے معانقہ کیا اور کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ۔”میری چھوٹی سی بہن کا خیال رکھنا ۔“
میں اسے جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔مجھ سے علاحدہ ہوتے ہوئے اس نے پلوشہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور ویگن میں بیٹھ گیا ۔
ویگن چلنے تک ہم وہیں کھڑے رہے ۔ویگن کے اڈے سے نکلتے ہی وہ مجھے مخاطب ہوئی ۔ ”اب مجھے اصل بات بتاﺅ ۔“
”میں سمجھا نہیں ۔“میں نے حیرانی سے اسے گھورا ۔
”سردار بھائی کے گھر میں کیا مسئلہ ہے ؟“
”تمھیں کیسے معلوم کہ اس کے گھر میں کوئی مسئلہ ہے ۔“میری حیرانی برقرار تھی ۔
”اس سوال کو رہنے دو جو پوچھا ہے وہ بتاﺅ ۔“
”اپنا لہجہ درست کرو اور چلتی پھرتی نظر آﺅ۔“سختی سے کہتے ہوئے میں اسی ہوٹل کی طرف بڑھ گیا جہاں رات گزاری تھی ۔
ویگن اڈے سے باہر نکلتے ہوئے میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔وہ مجھ سے دو تین قدم پیچھے اطمینان سے چلی آ رہی تھی ۔
”تمھاری سمجھ میں میری بات نہیں آئی ۔“میں اسے جھڑکنے کے انداز میں بولا۔
وہ شوخی سے ہنسی ۔”کیوں بلاوجہ توانائی ضائع کر رہے ہو ۔“
میں اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے اسے گھورنے لگا ۔اس نے نظریں چرانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اپنی موٹی موٹی سیاہ آنکھیں میری آنکھوں میں ڈالے وہ بھی للکارنے کے انداز میں مجھے گھورتی رہی۔
”اگر میں یونھی تمھارے پیچھے پیچھے چلتی رہی تو تم میرا کیا بگاڑ لو گے ۔“مجھے خاموش ک

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu noval writter posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share