Academic work with Shumaila Khan

  • Home
  • Academic work with Shumaila Khan

Academic work with Shumaila Khan When you feel like crying facing loads of paperwork and an idea suddenly comes in your mind then you

02/04/2024
Colours of the colour is only the White colour.
26/03/2024

Colours of the colour is only the White colour.

26/03/2024

فیصل آباد والے واقعہ پر بہت سے لوگوں کی اظہار افسوس کی پوسٹس دیکھی ہیں...احتیاطی تدابیر بھی لوگوں نے بیان کی ہیں....لیکن کچھ باتیں ہیں جن پر ایز آ ڈاکٹر میں اپنی راۓ دینا چاہوں گی....
جب میں نے اس حادثے کی ویڈیو دیکھی جس میں ایک جوان گلے پر پتنگ کی ڈور پھرنے سے جان بحق ہوا تو اس میں جو بات واضح نظر آئ وہ لوگوں کی مس مینیجمنٹ تھی....شاید لوگ معاملہ کی نزاکت کو سمجھ نہ پاۓ یا پھر انھیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی کہ ایسے کیسز کو کیسے ہینڈل کیا جاۓ....آئیے اس بارے میں کچھ ایسی معلومات شیئر کریں جس سے ایسے کسی بھی حادثے کے نتیجے میں کم از کم جان بچانے کی کوشش ضرور کی جا سکے....
شہہ رگ جسم کی سب سے بڑی اور دل سے براہ راست خون لانے والی نالی ہے....جیسے ہی یہ شہہ رگ کٹتی ہے دماغ اس ایمرجنسی کو محسوس کر کے جسم کے تمام کاموں اور تمام اعضاء کے سبھی فنکشنز کو بند کر کے صرف جان بچانے پر فوکس کرتا ہے اور فوری طور پر جسم کا بلڈ پریشر ڈاؤن کر دیتا ہے تا کہ خون زیادہ تیزی سے باہر نہ آے....
انسانی جسم میں قریبا چار ساڑھے چار لیٹر خون ہوتا ہے جس میں سے اگر آدھا لیٹر خون جسم سے باہر آ جاۓ تو انسان پر غشی طاری ہو جاتی ہے....دماغ تک خون کا رابطہ دو منٹ کے دوران منقطع ہو جاتا ہے.....
ایسی صورت میں جب آپ کے سامنے کسی کی شہہ رگ حادثاتی طور پر کٹ جاۓ آپ کو سب سے پہلے زخم پر سختی سے کوئی کپڑا لپیٹتے ہوے اسے قریبی ہسپتال پہنچانے اور فوری طور پر اسک کے لئے خون کا بندوبست یقینی بنانے کی ضرورت ہے....بوقت ضرورت اگر فوری طور پر متعلقہ گروپ کا خون نہیں مل پاتا تو پلاذمہ لگا کر بھی خون کا والیوم پورا کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹرز کو مریض کی جان بچانے کے لئے کچھ وقت مل جاتا ہے.....اس کے بعد فوری طور پر آپریشن کر کے زخم بند کرنا ہوتا ہے....
یاد رہے کہ شہہ رگ کٹ جانے کی صورت میں سروائیول کا چانس پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا لیکن آپ نے اس نے اس بات کو یقینی بنانا ھے کہ وہ پانچ فیصد چانس آپ اویل ضرور کریں اور جان بچانے کی کوشش ضرور کریں....
Uroosa Parveen کی وال سے

کچھ احتیاطی تدابیر اور بھی ہیں جن کا استعمال کر کے بڑے حادثے سے بچا جا سکتا ہے ۔ یہ وائر اس طرح بائیک پر لگا کر بھی اپنی جان کا تحفظ کر سکتے ہیں 👇



25/03/2024

copied
‏مسلم سائنس دانوں کا جو حشر مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے اگرچہ علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان میں سے چھ سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے🤐

یعقوب الکندی
فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین عوام قہقہہ لگاتے تھے۔🤐

ابن رشد
یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہورعالم ابن رشد کو بے دین قراردے کراس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اورنمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے آخری دن ذلت اور گمنامی کی حالت میں بسر کیے۔🤐

ابن سینا
جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراہی کا مرتکب اورمرتد قراردیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے اوروہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک مشرق اورمغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی، یعنی القانون فی الطب، حالت روپوشی میں لکھی۔🤐

ذکریا الرازی
عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کوجھوٹا، ملحد اورکافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکم سنایا کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔ اس طرح باربارکتابیں سرپہ مارے جانے کی وجہ سے رازی اندھا ہو گیا اوراس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا۔🤐

جابر ابن حیان
جسے مغربی دنیا انہیں جدید کیمیاء کا فادر کہتے ہیں جس نے کیماء ، طب ، فلسفہ اور فلکیات پر کام کیا۔ جس کی کتاب الکینیاء اور کتاب السابعین صرف مظرب کی لائبریریوں میں ملتی ہے ۔ جابر بن حیان کا سے انتقامی سلوک : حکومت وقت کو جابر کی بڑھتی ہوئی شہرت کھٹکنے لگی۔ جابر کا خراسان میں رہنا مشکل ہو گیا۔ اس کی والدہ کو کوڑے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ جابر اپنی کتابوں اور لیبارٹری کا مختصر سامان سمیٹ کر عراق کے شہر بصرہ چلا گیا۔ بصرہ کے لوگ جابر کے علم کے گرویدہ ہو گئے۔ جابر جیسی کیمیا گری اور علمی گفتگو انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیں سنی تھی۔ 🤐

جابر نے انہیں زمین سے آسمان اور زمین سے اس کی تہوں تک کا سفر کروا دیا۔ حاکم بصرہ کو بھی اس کی شہرت برداشت نہ ہوئی ۔ حاکم کے درباری جابر کی بڑھتی ہوئی علمی شہرت اور مسلکی اختلاف کو حکومت کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ ایک دن جابر کو الزامات کی زد میں لا کر قاضی بصرہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ قاضی نے حاکم کی ایما پر جابر کو سزائے موت سنا دی۔ اور یوں جس جابر بن حیان کو آج مغرب بابائے کیمیا ”Father of Chemistry“ کہتی ہے، اس کی کیمیا گری، علم اور سائنسی ایجادات کو اس کے اپنے ہم مذہبوں نے جادوگری، کذب اور کفر قرار دے دیا

24/03/2024

دھاتی ڈور تھی۔ گردن کاٹ گئی۔ ایک لمحے کیلئے کھڑا ہوا جاننے کی کوشش کی کہ آخر ہوا کیا ہے موٹر سائیکل سڑک پر تھاسفید کپڑے سرخ ہو رہے تھےخوبرو خون میں نہا چکا تھا۔ شریانیں کسی بڑے بور والے پائیپ کی مانند سینکٹروں ملی لیٹر خون منٹوں میں جسم سے باہر نکال رہی تھیں ۔ ایک گاڑی قریب سے گزری ۔ شاید کسی نے رکنے کا کہا کون رُکتا ہے؟
خون بہنا تھا، سو بہہ گیا۔ جانے والا چلا گیا۔ سفید چادر سے چہرہ ڈھانپا ۔ وہ چادر بھی رنگین ہو گئی۔ رنگ تو زندگی ہوا کرتے ہیں۔ رنگ موت بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔

آسان کام ہے؟؟؟
اولاد کو جنم دینے سے لے کر جوان ہوتے دیکھنا۔ اُمیدیں باندھنا ۔ ان کی آواز سن کر جی اُٹھنا ۔ اور پھر ایک دن ان کا جنازہ بوڑھے کندھوں پر رکھ کر دُور چھوڑ آنا ۔ یہ دکھ گھن کی مانند اندر سے خالی کرتا ہے۔ دن تو کٹ ہی جاتا ہے۔ رات ہوتی ہے اور اولاد کا خالی بستر نظر آتا ہے تو سسکیوں سے روتے ہیں ماپے۔۔۔
لیکن خیر، جاؤ بسنت مناؤ ۔ کون سا تمہارا کچھ لگتا تھا؟ تم نے تو نہیں مرنا ۔ تمہارے پاس تو کار ہے۔ اس میں دھاتی ڈور داخل نہیں ہوتی
جو یہ آلۂ قتل تُم بنا رہے ہو بناتے رہو۔ پیٹ بھرنے کیلئے کر رہے ہو نا؟ اس کی آگ پھر بھی نہیں بجھنی اور جنہیں یہ سب روکنا تھا، اوہو۔۔۔۔ کیسے حساب دو گے یار؟؟؟
کوئی گٹر میں گر کر مر گیا۔
کوئی ڈور پھرنے سے قتل ہوا۔
کسی کو ڈاکو اڑا گئے۔
کسی کو گندا پانی مار گیا۔
یہ سب Human Errors کی وجہ سے ہوا جو بالکل درست کی جا سکتی تھیں ۔ لیکن آج 75 سال بعد بھی اخبار کی وہی سرخیاں ہیں
نوٹس لے لیا۔ تھانیدار معطل کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ آپریشن شروع۔ ہیلی کاپٹر سے نگرانی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
انا لللہ وانا الیہ راجعون

24/03/2024

Is there nobody to be appreciated or awarded in the field of education, science,or religion in our country for his/her contribution except singers, actors & actresses.

08/02/2024

منقول
وطنیت
وطن اس دور کا سب سے بڑا بت (خدا) ہے۔ علامہ اقبال وطن کو اس دور کا سب سے بڑا بت اقرار دیتے ہیں۔ وطن پرستی کو چھوڑنے کا پیغام دیتے ہیں اور ایک امت واحدہ کا درس دیتے ہیں۔
یہ دور ایسا ہے کہ اس میں جام کچھ اور ہے اور شراب کچھ اور ہے یعنی یہ دور پچھلے دور سے بالکل مختلف ہے اس دور میں مورتیوں والے بت نہیں ہیں بلکہ اس دور میں وطن بت ہیں اور مسلمانوں نے بھی کعبہ کو چھوڑ کر دوسرا حرم بنا لیا ہے۔ تہذیب نے بھی اپنے نئے نئے عاشق تلاش کر لیے ہیں ان سب نئے نئے خداؤں میں سب سے بڑا خدا وطن ہے جو وطن کا لباس ہے وہ اصل میں اسلام کے اوپر کفن ہے یعنی اسلام کو ختم کرتا ہے۔نئی تہذیب سے وطنیت کا تصور عبادت ہے اور یہ تصور ایسا ہے جو آنحضرت (صل) کے دین اور ان کی تعلیمات کی نفی کرتا ہے۔لیکن اے دین محمدی کے پیروکار! توحید ایسی قوت ہے جس نے تجھے ہر مرحلے پر تقویت پہنچائی ہے ۔ تیرا وطن کوئی مخصوص خطہ ارض نہیں بلکہ عملی سطح پر اسلام ہی تیرا وطن ہے ۔ نا ہی تیری نسبت کسی اور شخصیت سے ہے ۔بلکہ تو تو حضرت محمد مصطفی (صل) کا پیرو کار ہے چنانچہ تجھ پر لازم ہے کہ چودہ سو سال کی قدیم شان و شوکت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطنیت کے تصور کو تباہ کر دے ۔

■ بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہےپہنچائی ہے ۔

■ نظارہِ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے

■ بُتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی

18/01/2024

خاموشی گفتگو ہے بےزبانی ہے زباں میری

18/01/2024

شمائلہ اعظم خان

*"خموشی گفتگو ہے بےزبانی ہے زباں میری"*

جناب صدر اور معزز و محترم منصفین
السلام علیکم !

زبان کا اورقوت گویائ انسان کے لیےایسی عظیم نعمتیں ہیں کہ ہم جتنا شکر ادا کریں کم ہے لیکن ہر نعمت کے ساتھ شکر احتساب اور ذمہ داری یوں جڑی ہے جیسے جسم کے ساتھ روح جس طرح روح کے بغیر جسم ایک آلا ئش بن کر رہ جاتا جاتاہے اسی طرح ذمہ داری اور دنش مندی کے بغیر انسان کی قوت گویائ بھی اسی قابل ہوی ہے کہ اسے دفن کر دیا جاۓ۔
خاموشی ہمیشہ مجبوری کا نتیجہ نہیں ہوتی جناب والا! یہ ایک حکمت عملی اور فیصلے کانام ہے جس میں انسان اپنا وقت توانائ اور جذبات وہیں استعمال کرتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔

*اب مجھے بولنا نہیں پڑتا*
*اب میں ہر شخص کی پکار میں ہوں*
صدر عالی وقار! ایسی خاموشی چیخ چیخ کر دنیا کو پیغام دیتی ہے جسے نہ تو رد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی نظر انداز کیا جا سکتا ہے
جب داستان دردناک ہو اور سننے والے اس کی تاب نہ لا سکتے ہوں تو خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری کو ہی اپنا شیوہ بنا لینا بہتر ہے۔

جناب صدر!
خاموشی خود بھی ایک منفرد زبان ہے جس میں گہرا پیغام چھپا ہوتا ہے، بے وقوف کا پردہ ہو، ناراض کا غصہ، عقل مند کی دانائی یا پھر دکھی انسان کا غم مگرجناب صدر! یہی خموشی کی گفتگو زباں بن کر ضمیر کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔
*بے زباں نہ سمجھ میری خاموشی کو*
*شور کرتا نہیں __ کبھی گہرا پانی*
کیونکہ جناب صدر !حقیقی اور سچی ذہانت خاموشی کے میدان میں ہی نظر آتی ہے
جیسے ایک پھول کھلنے تک ہمیں کوئ شور سنائ نہیں دیتا مگر جب یہی پھول کھلتے ہیں تو ان کی مہک ہر طرف پھیل جاتی ہے نہ یہ مہک نظر آتی ہے نہ شور کرتی ہے بس سونگھنےپرمحسوس ہوتی ہے اور یہی خاموشی ذہنی آسودگی کی ضامن ہے۔اسی خاموشی میں زندگی کے انمول خزانے مل جاتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچتے پہنچتے انسان قدرت کے سربستہ رازوں کا پردہ چاک کر دیتا ہے۔جناب صدر! یہی صورت سمندر کی ہے ندی نالے اور دریا کے پانی میں کتنا شور ہے جبکہ سمندر خاموش اور گہرا ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
*میں نے سمندر سے سیکھا ہے جینے کا سلیقہ*
*چپ چاپ سے بہنا اور اپنی موج میں رہنا*
انسان کو حقیقت کی منزل تک پہنچنے کے لیے آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے

*کئ جوابوں سے اچھی ہے خامشی میری*
*نہ جانے کتنے سوالوں کی آبرو رکھے*
جی جناب صدر ایک طرف آپ کے میرے ہم سب کے ہماے پیارے وطن پاکستان کے ہیرو پاکستان کے اصل چہرے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے عبد القدیر خان محسن پاکستان عبدالستار ایدھی کی جدو جہد کو دیکھیں مدرٹریسا کودیکھیں نیلسن مینڈیلا جذام کے مریضوں کی ماں ڈاکٹر رتھ فاؤ کے کارناموں پر نظر ڈالیں ان سب شخصیات نے خاموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری کی تفسیر بن کر لوگوں کی خدمت کی۔ ان سب کے کام ان کے الفاظ سے کہیں زیادہ مضبوط اور بلند تر تھا آج یہ سب اس دنیا میں تو نہیں مگر ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کے نام لیتے ہوۓ ہمارے سر عقیدت سے جھک جاتے ہیں اور دل محبت سے بھر جاتے ہیں
جناب صدر یہ ہے خاموشی کی طاقت ۔
جناب صدر! تاریخ یاد رکھے گی کہ مجبور اورلاچار لوگوں کی خاموشی بھی دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں گونجتی رہی رہی ہے ۔
*ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں*
*کوئ خاموش ہو گیا گیاہے کہیں*
ترکی کے ساحل پر پڑی تین سال کے معصوم بچے ایلان کی بےبس لاش نے دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں جو بھونچال برپا کیا اس اس سے ہر شخص واقف ہے اس نے لوگوں میں ایک عجب قسم کا خوف اور بے چینی پیدا کردی اور یورپ میں بڑھ رہے پناہ گزیں بحران کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کروا دی کہ کس طرح دنیا میں روزانہ ہزاروں معصوم بچے انتشار, بد امنی, دہشت گردی ,جنگوں جبری بے دخلیوں اور نیو ورلڈ آڈر کا شکار ہو جاتے ہیں جناب جناب والا فن لینڈجیسے ملک نےاپنے سو سالہ یوم آزادی پر اسی بچے کی تصویر والا یادگاری سکہ جاری کیا تھا جناب صدر! یہ ہے خاموشی خاموشی کی طاقت کہ ہزار تحریکیں چلا کر بھی شاید شامی لوگوں کے مسائل دنیا کی توجہ حاصل نہ کر پاتے جواس ایک معصوم بچے کی خاموشی نے کر دکھایا

جناب صدر! کیا آپ کو لگ ہےکہ دنیا دنیامظلوم فلسطینیوں کی حالت سے ناواقف ہے جب اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف تو اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں ۔

جناب صدر جب دنیا آپ کے جائز حقوق اور آزادی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے اور دشمن آپ کی آزادی کو سلب کر لے تو خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری مجھے کشمیریوں کی صورت نظر آتی ہےکشمیر کے حریت پسند عوام گزشتہ 70 برسوں سے اپنی آزادی کی جنگ بھارتی افواج سے لڑتے چلے آرہے ہیں۔ اس جنگ آزادی کی تحریک اور تاریخ پرنگاہ ڈالیں بھارتی افواج مظلوم کشمیریوں پر ظلم و بربریت کی تلوار چلائے ہوئے ہے ہلاکو خان اور چنگیز خان کی تمام تر درندگی اور بربریت وحشت بھی اس کے سامنے شرمندہ ہے۔اگرچہ دنیا خاموش تماشائ بن گئ ہے اور ان کی تحریک آزادی کی قیادت کو نظر بند کیا جا چکا ہے مگر کشمیری کسی بھی قیمت پر اپنا حق خود ارادیت انڈیا کو دینے پر تیار نہیں اور یہ کہتے ہوۓ نظر آتے ہیں
جناب صدر! ہماری کامیابیوں کا ڈنکا ہو ہمارے مسائل کا بیان ہویا ہمارا احتجاج خاموشی کی طاقت جس موثر طریقے سے اپنا آپ منواتی منواتی ہے وہ ان تقاریر دھمکیوں اور گالم گالم گلوچ سے کہیں بہتر ہے جو برسوں سے ہمارے مسائل میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں
*مری خاموشیوں پر دنیا مجھ کو طعن دیتی ہے*
*یہ کیا جانے چپ رہ کر بھی کی جاتی ہیں تقریریں*

Thanks to Aqeel Bhai for motivating & showing me the direction of writing.I know thank you is not enough actually I must...
07/01/2024

Thanks to Aqeel Bhai for motivating & showing me the direction of writing.I know thank you is not enough actually I must not thank you.It was your responsibility as a bro.Stay Blessed!

07/01/2024

*فلسطین اور امت مسلمہ*
*تمام عالم اسلام کو جو تڑپاۓ*
*میں ساز دل میں وہ نغمہ تلاش کرتا ہوں*
*تمام عالم اسلام جس میں شامل ہو*
*میں ایسی جنگ کا نقشہ تلاش کرتا ہوں*
*کہاں ہے مفتئ دین متین و شرع مبین*
*جہاد شوق کا فتوی تلاش کرتا ہوں*

*جناب صدر اور معزز سامعین*
*السلام علیکم*
ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں رہنے والے ہم کہ جنھیں کسی بھی ملکی صورتحال کو جاننے کے لیے زیادہ تردد کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔کیا ہم نہیں جانتے کہ فلسطینیوں پر کیا ظلم ڈھاۓ جا رہے ہیں اور امت مسلمہ کا کیا کردار ہونا چاہۓ ؟کیا ہم نہیں جانتے کہ مسجد اقصی ہمارے لیے کیا ہے؟

*امت مسلمہ کی ارض مقدسہ_ مسجد اقصی*
*اسلام کی عظمت رفتہ _ مسجد اقصی*
*عمر کی شمشیر ہے اورایوبی کی تکبیر*
*اسلام کی جاگیر ہے _مسجداقصی*

فلسطین کا نام لیتے ہی نہ صرف ہمارے دل اور سر خود بخود عقیدت و احترام سےکیوں جھک جاتے ہیں ؟
اس لیے جناب صدرکہ یہ صرف زمین ہی نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کے لیے ارضِ مطہر ہے۔ یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ ہے ۔یہ انبیا ءؑاور رسل کا وطن ہے ۔ ہمارا پہلا قبلہ جس سے ہمارے دل کا ہی نہیں بلکہ روح کا رشتہ ہے
مگر افسوس صد افسوس ! ہم جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے لیے کچھ نہیں کر رہےآج غزہ کے مٹھی بھر لوگوں نے پوری دنیا کی طاقتوں کو توڑ دیا ہے اہل غزہ یہودی طاقتوں کے سامنے ڈٹ کر ایسےکھڑے ہیں کہ

*‏ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ،*
*جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے..*

مگر افسوس صد افسوس
جناب صدر!
اہل فلسطین تو اپنا فرض نبھا رہے ہیں مگر ہم کیا کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا سے ایک
*بچی کا پیغام امت مسلمہ کے نام*
"مسلمانوں کو ہمارے جنازے اٹھانے کی ضرورت نہیں اگر جنازہ پڑھنا ہے تو امت مسلمہ کا پڑھیں ہم تو شہید ہیں ہم تو زندہ ہیں جنازہ تو ان کا پڑھیۓ جو مر چکے ہیں۔"
اسی سوشل میڈیا پر جس پر ہم ہر وقت آن لائن رہتے ہیں
ایک بوڑھا شخص اپنی اولاد کو سفید کپڑوں میں لپٹا دیکھ کر کہتا ہے
"کہ تم بتانا، تم نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بتانا، تم بتانا کہ ان کی امت نے ہماری مدد نہیں کی، تم سب بتانا کہ تم نے ان کے دین کیلئے اپنی جان دے دی، تم ان سے کہنا کہ تمہارے دادا آپ سے بہت محبت کرتے ہیں اور تم شکایت کرنا، تم شکایت کرنا کہ لوگوں نے، ہمارے بھائیوں نے ہماری کوئی مدد نہیں کی"
فلسطینی بچوں کے جذبوں کے سامنے تو ہم شرمندہ ہیں
بے ہوش ہونے والی دوا نہ ہونے کی وجہ سے زخمی ہونے والے بچے قرآن کی تلاوت کرتےہوۓ امت مسلمہ کو غیرت دلانے کی کوشش کرتے ہیں وہ تو مسجد اقصی _ ارض مقدسہ کے لیے جان دینے کو تیار ہیں کیونکہ یہ مسجد اقصی کا تحفظ نہیں ہے یہ حریمین کے تحفظ کی لڑائ ہے۔

*وہ سنگِ گراں جو حائل ہیں رستے سے ہٹا کر دم لیں گے*
*ہم راہِ وفا کے رَہرو ہیں منزل ہی پہ جا کر دم لیں گے*
فلسطین کا تو بچہ بچہ اپنا حق ادا کر رہا ہے مگر کیا سوشل میڈیا پر لکھ دینے سے ہی ہمارا کچھ ہوجاتا ہے جناب صدر ہماری امداد نہیں چاہئے انھیں ہم صرف لکھ کر اپنی زمہ داری سے بری ذمہ نہیں ہوسکتے، ہمیں جواب دینا ہوگا اگر ہم کلمہ گو ہیں، ہم اللّٰہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو توہمیں جواب دینا ہوگا، ضرور دینا ہوگا
*جناب صدر!*

*وَ قاتِلُوا فی سَبیلِ اللّهِ الَّذینَ یُقاتِلُونَکُمْ وَ لا تَعْتَدُوا إِنَّ اللّهَ لا یُحِبُّ الْمُعْتَدینَ*
اور راہ خدا میں تم ان لوگوں سے قتال کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو کیونکہ خدا تجاوز کر نے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔

فلسطینوں نے نہ غلامی کو قبول کیا اور نہ ہی ہجرت کی انھوں نے مزاحمت کا رستہ اختیارکیا جبکہ امت مسلمہ مذمت پر مذمت مذمت پر مذمت کررہی ہے۔ اسرائیل نے فلسطین پر سفاکیت اور ظلم و بربریت کا بازار گرم کررکھا ہے۔ اسرائیل سنگین جنگی جرائم، بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگیین خلاف ورزی کرتا جا رہا ہے اور اس وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیل ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے۔ معصوم فلسطینیوں پر ہزاروں ٹن بارود برسانے کے باوجود ان کے پائیہ استقلال میں ذرا برابر بھی لغزش نہیں آئ

*زمانہ اب بھی نہیں جس کےسوز سے فارغ*
*میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے*
*تری دَوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں*
*فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یَہود میں ہے*
*سُنا ہے مَیں نے، غلامی سے اُمتوّں کی نجات*
*خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے!*

اصولی طور پر مسلمان برادری کو کھل کر فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اورفلسطینیوں کی کھل کر مدد کرنی چاہیے۔ کم و بیش ستاون مسلمان ممالک اور ان میں ڈیڑھ ارب مسلمان اور یہ مسلمان ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ مگر المیہ تو دیکھیۓ جناب صدر کہ یہ ممالک مل کر بھی فلسطین کا مسئلہ حل کرنے سے قاصر ہیں مگر جزاک اللہ! اہل فلسطین جزاک اللہ ! تم نے ہمیں سمجھایا کہ جدید ٹیکنالوجی اور ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود غیرت ایمانی اور اللہ پر یقین رکھتے ہوۓ جنگیں لڑی جاتی ہیں۔

*یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ*
اے ایمان والو اگر تم دینِ خدا کی مدد کرو گے اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا
تم نے ہمیں سکھایا کہ جب کوئ رب کے دین کے دین کی نصرت کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو رب ان کی کیسے نصرت فرماتے ہیں اور کیسےان کے قدموں کو جما دیتے ہیں۔
اہل غزہ کو ہماری تقریروں اور ہماری ہمدردیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ارے انھوں نے تو ہمیں احد کا توکل حدیبیہ کی حکمت بدر کی شجاعت اور حنین کی استقامت سکھادی ۔

*بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق*
*عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی*

جناب صدر!فلسطینیوں نے ہمیں سکھایا کہ جب عشق الہی غالب ہو توعاشق عقل اور دماغ کچھ سوچے سمجھے بغیر عشق خداوندی کی پکار پر آگ میں بےخطر کود پڑتے ہیں۔
انھوں نے ہمیں سکھا دیا کہ اگر امت مسلمہ فضاۓ بدرکا منظر پیدا کرے تو اللہ آسمان سے نصرت کے فیصلے فرماتا ہے۔

*فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو*
*اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی*

اہل غزہ یہ عزم لے کے چلے ہیں
*مسجد اقصی پر فدا عمر رواں کرتے چلو*
*یہ حیاتِ چند روزہ جاوداں کرتے چلو*
*اپنی تیغِ صف شکن باطل پہ لہراتے ہوئے*
*داستان ابنِ قاسم پھر بیاں کرتے چلو*
*جذبۂ شوقِ شہادت ہے متاعِ زندگی*
*اس کا چرچا کارواں در کارواں کرتے چلو*
*خالد و ضرار کی دینی حمیت کی قسم*
*بتکدوں سے پھر بتوں کو بے نشاں کرتے چلو*
شمائلہ اعظم خان

07/01/2024

*امت مسلمہ کی ارض مقدسہ_ مسجد اقصی*
*اسلام کی عظمت رفتہ _ مسجد اقصی*
*عمر کی شمشیر ہے اورایوبی کی تکبیر*
*اسلام کی جاگیر ہے _مسجداقصی*

ارضِ مطہر‘‘ 'سرزمین محشر' نہایت مبارک نہایت محترم آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ ، سرزمین انبیا ءؑاور رسل, سرزمین معراج کی ابتدا اور انتہا ، یہ آسمان کا دروازہ , خیر وبرکت کا نشان ہے
بیت المقدس کی زمین وہ سرزمین ہے جوہزاروں انبیاء کا مسکن رہی ہےاور سینکڑوں انبیاء کرام کے بچپن کا گہوارہ ہے اور یہیں اللہ تعالیٰ نے بہت سارے انبیاء کو تاج ِ نبوت سے سرفراز فرمایا، یہاں پر انبیاء کے ہاتھوں ہزاروں معجزات رونما ہوئے ہمارا پہلا قبلہ مسجد اقصی ہے۔
*اے امت محمدیہ ہمارا اس ورثے سے*
*لااللہ کا لازوال رشتہ ہے*

اسی سر زمین پر فلسطینی مسلمان گزشتہ سات دہائیوں سے اسرائیل کے ناجائز قبضے کو بھگت رہے ہیں۔ اس وقت نہتے فلسطینیوں پر بمباری جاری ہے۔ معصوم اور بے گناہ فلسطینیوں کی جانیں جا رہی ہیں۔ اسرائیل گزشتہ سات دہائیوں سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے۔ فلسطین محض یہ چاہتا کہ اسرائیل کے زیر قبضہ اپنے علاقے آزاد کروائے۔ اسرائیل نے 1967 میں ان فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر کے یہودی بستیاں بسا لی تھیں۔زیادہ تر مسلمان ممالک ان بستیوں کو غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ جبکہ اسرائیل اس زمین کے ساتھ اپنے تاریخی روابط اور مقدس کتابوں کا حوالہ دیتا ہے۔ فلسطینی عوام چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بنایا جائے۔ جبکہ اسرائیل یروشلم کو اپنا ناقابل تقسیم حصہ قرار دیتا ہے۔اسرائیل نہتے فلسطینیوں کے خلاف چھوٹی بڑی کارروائیوں میں مصروف رہتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 56 لاکھ فلسطینی پناہ گزین شام، لبنان، اردن، اسرائیل کے مقبوضہ علاقے اور غزہ میں رہتے ہیں۔ یہ مسلمان نہایت مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ فلسطینی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔لیکن فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کسی کو بھی دکھائی نہیں دیتے۔ ۔ امریکہ سمیت انسانی حقوق کے سب مغربی ٹھیکے دار برسوں سے اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں۔ یہ سب اسرائیل کے ناجائز قبضے کے حامی ہے۔ امریکہ نے تو 2018 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کر دیا تھا۔
اسرائیل ان پر ڈھٹائی سے بمباری کرتا ہے۔ ان کی خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کو روکتا ہے۔ ان کی ناکہ بندی ہوتی ہے۔ لیکن دنیا محض تماشا دیکھتی ہے۔اب بھی دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس جنگ کی شدت اور سنگینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تک سینکڑوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی بمباری میں معصوم بچوں اور خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسرائیل ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے۔ یہ معصوم فلسطینیوں پر ہزاروں ٹن بارود برسا رہا ہے۔ فلسطین کی وزارت خارجہ کے مطابق اسرائیل ممنوعہ فاسفورس بم کا استعمال بھی کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کے لئے بجلی، پانی، ایندھن بند کر دیا گیا ہے۔ خوراک کی قلت ہے۔ دونوں اطراف میں ہزاروں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ لیکن اسرائیل کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے
*ایسی بےپرواہی کہ سب ہیں تماشائ*
*عالم اسلام پر چھایا ہے سکتہ_مسجد اقصی*
اصولی طور پر مسلمان برادری کو کھل کر فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اس کی امداد کو آنا چاہیے۔ لیکن بیشتر مسلمان ممالک دونوں اطراف کو صبر اور تحمل کا مشورہ دے رہے ہیں۔ جنگ بندی کی کی کچھ نہ کچھ کوششیں ہو رہی ہیں۔ دنیا میں کم و بیش ستاون مسلمان ممالک ہیں۔ ان میں ڈیڑھ ارب مسلمان بستے ہیں۔ بیشتر مسلمان ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ لیکن المیہ دیکھیے کہ یہ ممالک مل کر بھی فلسطین کا مسئلہ حل کرنے سے قاصر ہیں۔
مسلم امہ میں اتحاد نہیں ہے۔ بہت سے مسلمان ممالک باہمی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ یا پھر غربت، بیروزگاری، وغیرہ کا شکار ہیں۔ مسلمان ممالک کا اتحاد او۔ آئی۔ سی بھی عضو معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ اگرچہ یہ اقوام متحدہ کے بعد سب سے زیادہ رکن ممالک کی حامل تنظیم ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں جان نہیں ہے۔
*امت مسلمہ تو جمود کا شکار ہے*
*نااہل حکمرانوں کے چنگل میں گرفتار ہے*
مسئلہ فلسطین پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔کسی ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے ملک پر قبضہ کرے۔اسرائیل کو فلسطین پر ناجائز قبضہ ختم کرنا ہو گامسم ممالک کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ختم کرناہو گا۔اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہو گا۔خوراک .ادویات اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے مسلم امہ کو اپنا کردار ہر صورت ادا کرنا ہو گا۔
فلسطینوں نے نہ غلامی کو قبول کیا اور نہ ہی ہجرت کی انھوں نے مزاحمت کا رستہ اختیارکیا اور مسلم امہ مذمت پر مذمت مذمت پر مذمت کرتی رہ گئ۔ *مٹھی بھر مجاہدوں نےدشمن کو ہے للکارا*
*مزاحمت ہی ہے تیری آزادی کا راستہ_ مسجد اقصی*
اسرائیل نے فلسطین میں سفاکیت اور ظلم و بربریت کا بازار گرم کررکھا ہے۔ اسرائیل سنگین جنگی جرائم، بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوا ہے اسرائیلی جارحیت اور وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں ہزاروں معصوم فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں جن میں 4 ہزار سے زائد بچے شامل ہیں غزہ میں پانی، بجلی، ادویات، ایندھن اور خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے انسانی بحران جنم لے رہا ہے اور سرزمین فلسطین کی پکار ہے
*ظالم نے کیا اس بار دل پر وار ہے*
*کہاں ہے امت مسلمہ ارض مقدس کی پکار ہے*
*خدا کے لیے اٹھ کر آگے تو بڑھو*
*حق کی پکار پر تم لبیک تو کہو*
شمائلہ اعظم خان

19/11/2023

Honourable Principal,Dear teachers and my dear fellows,
Assalam-o-Alaikum.
I want to start with my speech with the saying of the Holy Prophet Hazrat Muhammad ( S.W.W)
*'Allah is kind and he loves kindness in all matters.* '
I am here to present a speech on ' *The Power of Kindness:How Acts of Kindness can make a difference.'*
My dear fellows,
“Kar bhala to ho bha|a”.
The saying means that when you do good for somebody, something good will happen to you too. Doing good for somebody without expectation of any favor in return is Kindness. Kindness is a humanitarian act that gives us a feeling of happiness and satisfaction. My dear,our small behaviours have the power to produce big positive results.
*Be mindful*
*Be grateful*
*Be positive*
*Be true*
*and my dear fellows Be kind.*
Kindness can spread just like a virus–fast and to a great extent. We only need to realize its healing power and use it for own benefit, both on an individual and a collective level.

With our actions we are shaping our world, and hence the kind of life we are living. Different actions bring different results: an act of anger will bring hatred and violence, an act of kindness will bring love and compassion.
I believe that everyone feels that, when we are kind, no matter how small our acts of kindness are, we experience kindness coming back to us from the whole existence.
I would like to end my speech with this quote
*Be the reason of someone smiles.*
*Be the reason someone feels,loved and believes in goodness in people.*
Shumaila Azam Khan

19/11/2023

*ذرا زرخیز ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی*
جناب صدر ! معزز سامعین آج مجھے جس موضوع پراظہار خیال کا موقع ملا ہے وہ علامہ اقبال کے شعر کا ایک مصرعہ ہے
*ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی*

علامہ اقبال نہ یہ شعر بہت پہلے اس قو م کے حالات و جذبات کو دیکھتے ہوئے شاید اسی لئے کہا تھا کہ اس قوم میں جذبات و احساسات اور شجاعت کی کمی نہیں ہے.بس اس قوم کو بیدار کرنے اور اپنے منصب کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کیونکہ قدرت نے انسان کو اسرار خطرات کا امین بنایا ہے اور اسے یہ ہنر بخشا ہے کہ وہ ناممکنات کو ممکنات میں بدل سکے۔
انسان چاہے تو انے کردار افکاراور افعال سے تاریخ رقم کر سکا ہے۔جب تک انسان حوصلہ من رہے تو وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح ہےجس کو باد مخالف راستے سے نہیں ہٹا سکتی پر اس کو اونچا اڑا سکتی ہے
*تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب*
*یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا *اڑانے کے لیے*

جناب صدر! اقبال کے اس شعر

*ذرا زرخیز ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی*
میں نمی ہے تو وہ جوش اور ولولہ ہے مٹی ہے تو ہے میرا وطن ہے میری زمین میرا گھر ہے اور زرخیزی ہےتو وہ ہماری کامیابیاں ہیں ہماری کامرانیاں ہیں جناب صدر ہم تو
اقبال کے شاہیں ہیں ہم آسمان کےوسعتوں کو چھونے والے چمکتے دمکتے ستارے ہم وہ کہ ہر خطرے کا سامنہ ڈٹ کر کریں۔ میری مٹی کی تو زرخیزی ایسی ہے کہ اسے سینچنے کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ کیونکہ جناب صدر. یہ مٹی بہت زرخیز ہے اور یہ مٹی زرخیز کیسے نہ ہو جناب صدراس مٹی میں لہو ہے میرے شہیدوں کا۔اس مٹی میں میرے شہیوں کے لہو کی خوشبو ہے۔یہ مٹی میری ان ماؤں بہنوں کی عظمت کے گیت گاتی ہے جنھوں نے ہمارے رہنماؤں کا بھرپور ساتھ دیا۔جناب صدر!
*یہ تو وقت وقت ہے آج تیرا تو کل میرا ہے*
مگر ہومیں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے کی بجاۓ ڈٹ کر حالات کا مقالہ کرنا کرناہو گا۔۔اور اس کام کو انجام دینے کے لئے ابابیل کی فوج تو نہیں آئیگی اور نہ ہی اللہ تعالیٰ اس کا م کے لئے الگ قوم پیدا کریگا بلکہ اس کام کو خود ہمیں ہی کرنا ہے اور یہ کام ممکن ہے ناممکن نہیں ہے

*سبق پھر پڑھ صداقت کا، شجاعت کا، امانت کا*
*لیا جائیگا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا*
آج اگر امت مسلمہ کو زوال ہونے سے بچانا ہے تو اسکے لئے دو ہی راستے ہیں وہ یہ کہ ایک ہماری نسلوں کو تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔
*خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے**
*خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے*

مسلمانوں کواپنا میڈیا ہاﺅز قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔میڈیا کے تعلق سے اعداد و شمارات تلاش کئے جاتے ہیں تو ایک بھی الیکٹرانک میڈیامسلمانوں کے ماتحت نہیں ہے ۔ آخر کب تک ہم حکمت کا لفظ استعمال کرتے ہوئے وقت کی ضرورت سے اجتناب کرینگے ؟۔ مسلمانوں کے پاس میڈیا نہیں ہے اگر مسلمانوں کے پاس مضبوط میڈیا ہوتاتو یقینا مسلمان اس قدر بے بس نہ ہوتے ۔
*ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے*
*نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر*
ہم کنویں کے مینڈک بننے کی بجاۓ ہیں اپنی سوچ کادائرہ وسیع کرنا ہو گا اور ایک ایسا میڈیا ہاﺅزبنانا ہو گا جو اسلام اور مسلمانوں کا ہتھیار ہو کیونکہ آج بھی امت نرم مٹی کی طرح ہے
اس کے جوانوں میں رومی اور غزالی کے جزبات مچل رہے ہیں آج بھی اس مٹی میں وہی تاثیر ہے اسی لیے تو یہ خوشبو کبھی سبز علی اورردار ملی خان کی صورت کبھی مقبول بٹ کی صورت تو کبھی برہان وانی کی صورت روپ بدل بل کر پھیلتی ہے اور پھیلتی رہے گی
*اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر*
*خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی**
شمائلہ اعظم خان

19/11/2023

*ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہم دوش*

*آزادکی رگ سخت ہے مانند رگ سنگ*
*محکوم کی رگ نرم ہےمانند رگ تاک*
*محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نو مید*
*آزاد کا دل زندہ و پرسوزو طرب ناک*
*آزاد کی دولت دل روشن نفس گرم*
*محکوم کا سرمایہ فقط دیدہ نمناک*
*محکوم ہے بیگانئہ اخلاص و مروت*
*ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک*
*ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہم دوش( 2 مرتبہ )*
*وہ بندہ افلاک ہے یہ خواجہ افلاک*
جناب صدر اور معزز سامعین!
اقبال کے یہ اشعار ہمارے لیے نہ صرف سبق آموز ہیں بلکہ حوصلہ انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں خود شناسی اور خود آگاہی کی راہ بھی دکھاتے ہیں۔
جناب صدر!محکوم کسی صورت بھی آزاد کا ہم سر نہیں ہو سکتاکیونکہ محکوم کائنات کا غلام ہوتا ہے اور آزاد کائنات پرحکمران ہوتا ہے
آزادی انسان کا بنیادی اور پیدائشی حق ہے، جو اسے خالق کے علاوہ اپنی جیسی مخلوقات کی ناروا اطاعت سے باز رکھتا ہے اور بہ طور انسان اسے جس شرف و تکریم کی نعمت سے نوازا گیا ہے ،اس کے اظہار پر ابھارتا ہے۔ آزاد انسان کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ آزاد ہے،آزادی کا احساس اس کی ہرادا چھلکتا ہے، اس کے عمل و حرکت میں اس کے آثار پائے جاتے ہیں،اس کی سوچ کے زاویوں ،اس کے طرزِ عمل و گفتار ،اس کے فکری و عملی نتائج،اس کے اطوار و کردار اور اس کی زندگی کی تمام تر تگ و دو میں یہ آزادی سانس لیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کوئی طوق و سلاسل کی جکڑبندیوں میں بھی آزاد رہتا ہے جبکہ کوئی تعیشات اور آسائشوں کی سیج پر بھی نادم و شرمندہ رہتا ہے کیونکہ اس کا ذہن،اس کا ضمیر اور اس کی روح کسی کے زیرِ دام ہے۔
*مرد بے حوصلہ کرتا ہے زمانے کا گلہ*
*بندہ حر کے لیے نشتر تقدیر ہے نوش*
ایک حریت پسند کی زندگی میں اگر مشکلات کی زنجیریں دست بستہ و پابند کرنا چاہیں تو لمحاتی پس و پیش کے بعد اس کے ذہن میں ایک خیال کوندے کی طرح لپکتا ہے اور اسے غیر معمولی توانائی سے سرشار کردیتا ہے،یہ خیال جناب صدر یہ خیال یہ احساس آزادہونے کا ہے،جو اسے اپنی خودی کا عرفان عطا کرتا ہے اور تمام مشکلات سے مقابلے کی جرأت و قوت عطا کرتا ہے.
اقبال نے جن حالات میں آنکھ کھولی ان میں مسلمان غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے اس صاحب بصیرت شاعر نے پھر آزادی کی جدو جہد کا درس دیا۔اقبال کی شاعری اور افکار آج کے کشمیر کے لیے بھی تازہ محسوس ہوتے ہیں۔اور کیوں نہ ہوں علامہ کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی تو کشمیر سے ہے۔
*ممکن نہی محکوم ہو آزاد کا ہمدوش*
جناب صدر! مجھے تو یہ مصرعہ اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی نمائندگی کرتا ہوا دکھائ دیتا ہے دراصل آزادی اور احساسِ آزادی کا تعلق انسان کی اپنی شناخت سے ہے۔ اور یہی وہ احساس ہے جس نے ہم سب کشمیریوں کوآج بھی یکجا کر کے رکھا ہوا ہے.بھارت نے 8لاکھ افواج کی طاقت استعمال کر کے دیکھ لیا ہے کہ کشمیری عوام بھارت کی غلامی کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں اور کشمیری دنیا کے کسی خطے میبھی ہوں سب آزادی کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور اتنی قربانیاں دینے کے باوجود اس تحریک کے جوش و خروش میں کمی نہیں آئ ہے۔ آزادیء وطن کے لیئے ہم نے لاکھوں جانیں مال و اسباب قُربان کیا ہے۔ اس حق کے حصول سے ہمیں دُنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہماری یہ قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی اور ہمیں جلد آزادی کی نعمت ملے گی۔

*مرد مومن ہے جہاں میں رب واحد کا غلام*
*بندہ حر کے لیے نشتر تقدیر ہے نوش*
آزاد شخص دنیا میں اپنے اوصاف و خصائل سے پہچانا جاتا ہے اورغلام دین و دانش کو سستا بیچ دیتا ہے یعنی جسم کو زندہ رکھنے کے لیے روح کا سودا کر لیتا ہے۔زبان پر خدا کا نام اور قبلہ و کعبہ حکمرن کی طاقت اور جناب صدر یہ بت صرف اس وقت تک خدا ہے جب تک اس کے سجدے میں پڑا رہے ۔ سجدے سے اٹھنے کے بعد یہ بت ٹوٹ جاتا ہے جبکہ جناب صدر!
بندۂ آزاد کا وجود تو خود ایک زندہ کرامت ہوتاہے

*آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور*
*محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خرافات*
*محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا*
*ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات!*

حکیم الامت کی تعلیمات اس بات کا درس دیتی ہیں کہ مرد مسلمان غلامی کی زندگی بسر نہیں کر سکتا-اس کیلئے محکومی مقام موت ہوتا ہے-اس لیے علامہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر اس جہاں میں رہنا ہے تو آزاد مردوں کی طرح رہنا سیکھنا ہو گا مگرآج امتِ مسلمہ جس زبوں حالی کا سامنا کر رہی ہے اور غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے- 57 مسلم ممالک جناب صدر 57 مسلم ممالک مل کر بھی فلسطین کے حق میں آواز نہیں اٹھا سکتے اور فلسطین تن تنہا مسجد اقصی کو بچانے کے لیے ایمان کی طاقت سے لڑ رہا ہے۔
*نہ تخت و تاج میں، نہ لشکر و سپاہ میں ہے*
*جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ* *میں ہے*
جناب صدر جب کوئی قوم کسی دوسری قوم کو اپنا فکری، نظریاتی یا نفسیاتی غلام بنانے کی منصوبہ بندی کرتی ہے تو سب سے پہلے اس کے حلقۂ دانش کو اپنی گرفت میں لیتی ہے اور جب وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ جاتے ہیں تو پھر ان کے قول و فعل، کردار، سوچ، نظریے اور قلم سے وہی برآمد ہوتا ہے جس کا انہیں ہدف دیا جاتا ہے ان کی تعلیم اور فکر کا مقصود فقط یہی ہوتا ہےکہ ہماری سوچ ہمارا کردارہمارا قلم ان کا طرز ِفکر اپنا لے تاکہ ہماریخداداد صلاحیتوں کو دبایا جا سکے اور ہمارے ساتھ بھی یہی تو ہوا ہے

*ہر ایک ہے گو شرحِ معانی میں یگانہ!*
*’’بہتر ہے کہ شیروں کو سکھادیں رمِ آھُو*
*باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ!‘‘*
*کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضا مند*
*تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ!*
مگر جناب صدر! لامکاں کا شہباز کسی دوسرے انسان کا دست نگر نہیں ہوتا آئیں ہم سب مل کر ثابت کریں کہ ہم آزاد ہیں ہماری سوچ آزاد ہیں ہم کسی کے غلام نہیں مسلمان اگر مومن بن جاۓ تو پھر اسے اس کا کامل یقین اس کی منزل سے کبھی بھی نہیں بھٹکا سکتا۔

*ہو بندۂ آزاد اگر صاحبِ الہام*
*ہے اس کی نگہ فکر و عمل کے لئے مہمیزً!*
*اس کے نَفَسِ گرم کی تاثیر ہے ایسی*
*ہو جاتی ہے خاکِ چمنستاں شرر آمیز!*
*اس مردِ خود آگاہ و خدامست کی صحبت*
*دیتی ہے گداؤں کو شکوہ ِ جم و پرویز!*
*محکوم کے الہام سے اللہ بچائے*
*غارت گِر اقوام ہے وہ صورتِ چنگیز*
شمائلہ اعظم خان

۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Academic work with Shumaila Khan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Academic work with Shumaila Khan:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share