Voice of Jalala Taxila

  • Home
  • Voice of Jalala Taxila

Voice of Jalala Taxila news and updates of Jalala Taxila

04/03/2023

دنیا کی بہترین گندم جس جگہ پیدا ہوتی ہے اس جگہ پر فیصل ہلز بنایا جا رہا ہے ، اور اس کے ساتھ والی زمینوں پر بھی دھڑا دھڑ سوسائٹیاں بننا شروع ہو چکی ہیں ، سرکاری زمینوں پر قبضے کے بعد غریب عوام سے بھی زمین چھین لی گئی ہے ۔پوری دنیا میں کاشت کاری والی جگہ پر سوسائیٹیاں بنانا منع ہے ۔ پاکستان تیزی سے زرعی زمینوں سے ہاتھ دھو رہا ہے جبکہ دنیا میں سعودیہ اور متحدہ عرب امارات جیسے ملکوں میں فصلیں کاشت ہونا شروع ہو چکی ہیں.

26/09/2022

جلالہ عثمان بن عفان کالونی اور عمر فاروق کالونی میں ڈینگی مچھروں نے عوام کا جینا محال کردیا علاقے میں ڈینگی مچھروں نے عوام کو کاٹنا شروع کردیا ہے علاقے میں ڈینگی ٹیسٹ پازیٹوں انا شروع ھوگئے ہے محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ باخبر ھونے کے باجودخاموشی اختیار کرنامعنی خیز ہیں حکومت کی طرف سے علاقے میں نہ کوئی مچھرمارنے والی سپرے کیا گیا اور نہ کوئی مچھر مارنے والی دھواں جس کی وجہ سے علاقے میں ڈینگی وائرس پھلینے کا خدشہ پیدا ھوگیا ہے۔اسکی بری وجہ فیصل ہلز والوں کے کھودے ہوئے گھڑے ہیں ۔جہاں پانی کھڑا ہے ۔

30/08/2022

‏ہم سب ڈوبے ہوئے ہیں
کچھ سیلاب میں،
کچھ اپنی انا میں،
کچھ عیش و عشرت میں،
کچھ تکبر میں،
کچھ اپنی ذات میں
اور کچھ بے حسی میں

17/07/2022

کسی بھی نجی سیکیورٹی ادارے کو اسلام آباد کیپیٹل پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسی وردی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خاں نے اس کے خلاف کارروائی کرنے کے احکامات جاری کردئیے۔کسی نجی ادارے کو گاڑیوں پر پولیس لائٹ یا رنگ، مونوگرام اور کسی مماثلت کی اجازت نہیں ہوگی۔کسی نجی محافظ کو ایسا حلیہ اختیار کرنے پر جس سے شہریوں میں پولیس ملازم ہونے کا تاثر جائے یا گمان ہو اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف دفعہ170/171 تعزیرات پاکستان کے تحت کارروائی ہوگی۔
(پولیس ذرائع)

12/07/2022

فیصل ہلز سی بلاک کا بارشی پانی جلالہ عثمان بن عفان کالونی کی طرف موڑ دیا گیا جس سے پوری کالونی تالاب نظر آ رہی ہے اور غریب لوگوں کے کچے مکانات کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں ۔ ان لوگوں نے آپنے مکانات اور زمین
فیصل ہلز کو بیچنے سے انکار کردیا تھا ۔
اس ظلم جبر کی انتہاوڈیوز میں دیکھیں ۔

11/07/2022

جلالہ دیہات والے کیچن کا ایندھن پورا کرنے کے لیے لکڑی یا سیلنڈر پر 5000 روپے ہر ماہ خرج کرتے لیکن شہر والے گھر گھر گیس کے مزے 500 روپے میں کرتے ہیں یہ ناانصافی ہے۔بلکہ ظلم ہے

19/06/2022

اگر سولر پینل اسی طرح تیزی سے لگتے رہے، جو مجبوراً ادارے اور لوگ لگائیں گے، سولر پینلز پر ٹیکس ختم کر دیا ہے... جس سے سولر پینلز لگانے کی مزید حوصلہ افزائی ہو گی. یہ سلسلہ جتنا بڑھے گا پاکستانی معیشت پر بجلی کے پیداواری پاور پلانٹس کا خرچہ کیپسٹی چارجز کے نام سے مزید بڑھتا جائے گا. اب یہ سرکلر ڈیبٹ 2000 ارب روپے کے قریب پہنچنے والا ہے. اس بحران سے بچنے کا آسان حل ہے یہ ہمارے سارے پاوور پلانٹس بجلی پیدا کریں اور کارخانے اور گھر اسے استعمال کریں، تاکہ بند پاور پلانٹس کو بغیر بجلی بنائے پیسے ادا نہ کرنا پڑیں... ورنہ ہم لوڈ شیڈنگ بھی برداشت کریں گے اور سرکلر ڈیبٹ بھی بڑھتا جائے گا اور صارف کو بجلی بجلی بھی مہنگی ملے گی اور سرکار کو سبسڈی بھی جاری رکھنا پڑے گی .... اس سب میں سب سے بڑی رکاوٹ ٹرانسمیشن کیپسٹی ہے... پاوور پلانٹ تو کئی سو لگا دیے لیکن ان. پلانٹس کی بجلی صارفین تک پہنچانے کا انتظام نہیں کیا.... جس کے نتیجے میں بند پلانٹس کو پیسے دینے پڑ رہے ہیں اور صارفین کو بجلی بھی نہیں پہنچ پا رہی.... یہ کارنامہ بھی 2013 سے 2018 کے درمیان ن لیگ نے کیا تھا... سارے معاہدات 2018 سے پہلے کے ہیں. اس وقت سرکلر ڈیبٹ 400 ارب کے قریب تھا جیسے جیسے پاور پلانٹس لگتے گئے بغیر بجلی پیدا کیے ان کا سرکلر ڈیبٹ بڑھتا گیا....*(اس سب تفصیل کے علاوہ ایک تماشہ اور بھی ہے کہ اگر کوئی بندہ نیا میٹر لگوانے واپڈا کے دفتر چلا جائے تو محکمہ اسے کتنا ذلیل کرتا ہے آپ سوچ بھی نہیں سکتے... جبکہ پاک وطن کو بے تحاشہ صارفین چاہیں.... جبکہ محکمہ چاہتا ہے صارفین نئے کنکشن کا سوچے بھی نہیں... ذلالت کے علاوہ ترلے اور لوڈ کے ساتھ لاکھوں میں فکس رشوت علیحدہ...)*

13/05/2022

توجہ طلب۔۔۔۔۔
انگریز یہاں تجارت کی غرض سے آئے تھے پھر کیسے یہاں کے حکمران بنے
سو سال سے زیادہ عرصہ یہاں کے لوگوں کو یرغمال بنائے رکھا۔

جس کا اثر آج تک باقی ہے
ذہنی غلامی
انکا طریقہ واردات یہ تھا کہ انھوں نے اپنے لیے سکیورٹی گارڈز رکھنے شروع کیے یہاں کے غریب لوگوں کو ملازمت ملنے لگی کمانڈ انکی تھی ۔پھر کچھ وڈیروں اور غداروں کو ساتھ ملا لیا۔اپنی فوج تیار کر لی اور قصہ مختصر پورے برصغیر پر قبضہ کرلیا

ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج ہاؤسنگ سوسائٹیوں والے بھی سکیورٹی گارڈز کے نام پر اپنی فوج تیار کر رہے ہیں ۔خصوصا فیصل ہلز تو سٹیٹ ود ان سٹیٹ بن رہی ہے ۔
اگر انکو ابھی لگام نہ ڈالی گئی تو ان سے آزادی حاصل کرنے کے لیے بہت خون خرابا ہو گا
ان کے قبضہ مافیا کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو دیکھ کر لگتا ہے یہ جلنے کے قریب ہے یہاں کے عوام اپنی زمینیں چھڑانے کے لیے بیدار ہو چکے ہیں۔
موجودہ حکومت اپنے وزیروں مشیروں اور سرکاری اداروں کے اہلکاروں کو اس قبضہ مافیا کی سرپرستی سے باز رکھے
ورنہ انکا انجام بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔وہی ہوگا

13/05/2022

رفعت میں مقاصد کو ہمدوشِ ثریّا کر
خودداریِ ساحل دے، آزادیِ دریا دے

فرہنگ:
(۱) رفعت: بلندی
(۲) مقاصد، مقصد کی جمع، اغراض
(۳) ہمدوشِ ثریا: ثریا جتنا اونچا، بہت بلند
(۴) خودداریِ ساحل: ساحل جیسی خودداری
(۵) آزادیِ دریا: دریا جیسی آزادی

تشریح:
(اے ﷲ) ان (مسلمانوں) کے مقاصد اتنے عظیم و بلند فرما دے جو ثریا کی سی بلندی کے ہم پلہ ہوں۔ ان میں ساحل کی سی خودداری اور دریا کی سی آزادی کا جذبہ پیدا فرما دے۔ دریا/سمندر جب چاہتا ہے اپنے ساحل/کنارے کو پانی کی لہروں سے کاٹ دیتا ہے لیکن ساحل خودداری کے باعث دریا سے رحم کی التجا نہیں کرتا۔ سمندر/دریا کی آزادی یہ ہے کہ وہ، جدھر کو اس کا جی چاہے، بے روک ٹوک بہنے لگتا ہے۔ گویا مسلمان دوسری قوموں اور باطل قوموں کا دست نگر ہونے کی بجاۓ اپنے جہد و عمل سے اپنے عظیم مقاصد حاصل کرے۔

حوالہ:
کلام: علامہ محمد اقبالؒ
کتاب: بانگِ درا (حصہ سوم)
نظم: دعا
شعر نمبر ۷

13/05/2022

مشتری ہوشیار باش۔

جلالہ کے ساتھ ملحقہ فیصل ہلز کے بلاک سی
میں سیوریج لائن بچھانے کے دوران بیسیوں پائپ ثوڑ کر ان سے سریا نکالا گیا اور کباڑ میں بیچا گیا ۔
اس چور بازاری میں ان کے اپنے کارندے ملوث ہیں جن کے نام ہمیں معلوم ہیں۔
دودھ کا رکھوالا بلا
انکی ویڈیوز ہمارے پاس موجود ہیں جو وقت آنے پر اپلوڈ کی جائیں گی
جلالہ ٹیکسلا میں کی جانے والی سرگرمیوں سے باخبر رہیں اور شیئر کر کے دوسروں کو بھی باخبر رکھیں
جاگتے رہیں دوسروں کو بھی جگاتے رہیں
یہ نہ ہو کہ پانی سر سے گزر جائے
اللہ پاک آپکا حامی و ناصر ہو

13/05/2022

جعلی پولیس اہلکار
جلالہ میں جعلی پولیس اہلکار عوام الناس کو لوٹ رہےہیں
جو اصل میں فیصل ہلز کے ملازم اور گارڈز وغیرہ ہیں جنہوں نے پنجاب پولیس کی یونیفارم پہن رکھی ہے ۔اور گاڑی بھی پنجاب پولیس کی طرح کی ہے ۔
ہم آئی جی پنجاب سے اپیل کرتے ہیں کہ فیصل ہلز کے غنڈوں کو پنجاب پولیس کی یونیفارم پہننے سے روکا جائے تا کہ سادہ لوگوں کو یہ لوٹ نہ سکیں ۔بصورت دیگر عوام خود انکی وردیاں اتاریں گے کیونکہ عوام کا جینا انھوں نے حرام کیا ہوا ہے ۔جعلی وردی پہن کر لوگوں کو یرغمال بنا رکھا ہے اور انکی زمینوں پر قبضہ جما رہے ہیں۔

جعلی پولیس مردہ باد

12/05/2022

اپنی جان ومال
عزت و آبرو
مال و اولاد
گھر بار
ملک وقوم
اسلام و امت مسلمہ
کی حفاظت کرنا جہاد یے
انکی حفاظت میں جان دینے والا شہید ہے
و ما علینا الاالبلاغ

https://youtu.be/8agxf1VXi9Aقبضہ مافیا فیصل ہلز والے چودھری عبد المجید اینڈ کمپنی نوٹ فرمالیں کہ اگر آپ جلالہ کے لوگوں ک...
11/05/2022

https://youtu.be/8agxf1VXi9A

قبضہ مافیا فیصل ہلز والے چودھری عبد المجید اینڈ کمپنی
نوٹ فرمالیں کہ اگر آپ جلالہ کے لوگوں کو تنگ کریں گے اور انکی زمین زبردستی خریدنے یا قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ کا بھی یہی حال ہوگا ان شاءاللہ

Bahria Town Karachi aag Ki lapet meinMushtaq Ansari Bahria Town Mai Hangama Arai # Town Karachi Mai Halat Kharab # Pe Roade Block # ...

11/05/2022

اسلام آباد کے ایوانوں اور مُقتدر اشرافیہ کو خبر ہو کہ...
جلالہ جل رہا ھے، یہاں کی غریب عوام دادرسی کو ترس رہی ھے، لوگ ،انکے مویشی اور پالتو جانور گرمی سے مررہے ہیں.واپڈا یہاں کے غریب عوام سے لاکھوں روپے لے کر بھی بجلی نہیں دے رہا۔پانی کی کمی ہے لوگ بلک رہے ہیں۔دوسری طرف فیصل ہلز کے غنڈے نہ پانی کے لیے بور کرنے دے رہے ہیں نہ کوئی کام۔
چند پلاٹس پر انھوں نے قبضہ کرلیا ہے اور باقی لوگوں کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں
ایک گلی کے علاؤہ تمام گلیاں اور روڈ بھی بند کر دیا گیا ہے
لوگوں کو یرغمال بنا رکھا ہے
ہر کھر کے ساتھ گڑھے کھود رہے ہیں جہاں مچھر پروان چڑھ رہا ہے۔اور عجیب صورت حال بنی ہوئی ہے۔لوگ پریشان ہیں کہ یہ پاکستان ہے یا افغانستان؟؟!
افغانستان میں بھی اب اتنے برے حالات نہیں جتنے یہاں قبضہ گروپ نے بنا دیے ہیں
قبضہ مافیا جلالہ کے اندر مداخلت فوری بند کرے ورنہ
تنگ آمد بجنگ آمد۔۔۔۔
بجلی اور گیس یہاں لگنے دیں۔
انھیں اپنی چار دیواری لگانے دیں ۔مکانات بنانے دیں۔گھروں کی مرمت کرنے دیں۔ان لوگوں کی اپنی زمین ہے ۔یہ اپنی زمین پر جو مرضی بنائیں ۔تم کون ہوتےہو روکنے والے۔یہ غنڈہ گردی برداشت نہیں کی جاسکتی

لوگوں کی زندگی اجیرن نہ بنائیں۔اور ان سے جینے کا حق نہ چھینیں
یہ نہ ہو کہ اپ سے بھی پھر جینے کا حق چھن جائے۔

میڈیا کو اطلاع ہو کہ اگر اُسے عامر لیاقت اور دانیہ کے تنازع سے فُرصت مل گئی ہو تو خُدارا ایک نظر اِدھر بھی.
اس سے پہلے کہ کوئی بڑا انسانی المیہ جنم لے خُدارا اس مسئلے کی سنگینی کو محسوس کیجیے اور جلالہ کے لوگوں کو ہنگامی بُنیادوں پر بجلی فراہم کیجیے، مویشیوں اور پالتو جانوروں کو فی الفور ریسکیو کیجیے.اور فیصل ہلز کے غنڈوں سے نجات دلائیں

انسانی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں، اب مزید ایک لمحے کی غفلت بھی کسی بڑے سانحے کا موجب بن سکتی ھے.
یہ انسانی زندگیوں کا معاملہ ھے.
پوسٹ کو شئیر کرکے اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں.

آج ایک”چیخ“ جلالہ کے مجبور لوگوں کے لیے بھی!!

09/05/2022

واپڈا والوں کی قبضہ مافیا کے ساتھ ملی بھگت اور رشوت وکرپشن کی انتہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موضع جلالہ ٹیکسلا میں بجلی کا میٹر لگانے کا ریٹ ایک لاکھ روپیہ ہے
پچھلے پانچ سالوں میں ایک سو سے زائد میٹر نصب کئے گئے
اور ایس ڈی او واپڈا نے اپنے چپڑاسی تازہ خان کے ذریعے ایک لاکھ روپے فی میٹر وصول کئے
تازہ خان کہتا ہے کہ 25000روپے ایس ڈی او صاب کو ایڈوانس دینے ہوتے ہیں باقی سارے سٹاف کو بانٹنے ہوتے ہیں تازہ خان کو صرف ایک ہزار فی میٹر بچتا ہے
ہر میٹر کے کھاتے میں انھوں نے 2کھمبے ڈالے ہوئے ہیں مگر لگائے نہیں لوگوں کے میٹر بانس لگا کر 300سے 400 گز لمبی سروس کی تاریں لٹکا رکھی ہیں
جو آئے روز گر جاتی ہیں اور کسی بڑے حادثے کا باعث بن سکتی ہیں
یہاں کے لوگوں نے وفاقی محتسب کے پاس اپنی شکایات بھی درج کرائی
عزت مآب وفاقی محتسب صاحب نے جلالہ کے لوگوں کے حق میں فیصلہ کیا ایس ڈی او واپڈا نے اپنی غلطی تسلیم کر تے ہوئے اس فیصلے پر سائن بھی کیے اور ایک ماہ کے اندر کھمبے لگانے کا وعدہ کیا مگر آج پانچ ماہ گزر جانے کے باوجود اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا گیا
قبضہ مافیا والوں سے رشوت لے کر کھمبوں کے معاملے کو التوا میں ڈال رکھا ہے کہ لوگ تنگ ہو کر اپنے مکان بیچ دیں گے
اور حکومتی اداروں کے اندر سے کچھ لوگ اس قبضہ مافیا کی سرپرستی کر رہے ہیں
ابھی ایک بھائی نے ایک لاکھ روپے ادا کیے تو اسے دو کھمبے دے دیے گئے ایک ماہ ہونے کو ہے کھمبوں پر تاریں نہیں ڈالی گئی
جب کہ اس بھائی کا ریکارڈ میں میٹر انسٹال ہوچکا ہے۔۔۔۔
اس قدر اندھیر نگری۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی پوچھنے والا نہیں یہاں۔۔۔۔ کیا یہ جلالہ انڈیا کا حصہ ہے؟؟!
یہاں ٹیکسلا میں کوئی اے سی یا ڈی سی صاحب بھی نہیں؟؟؟!
کیا جلالہ ٹیکسلا پاکستان کا حصہ نہیں؟؟؟
کہاں مر گئی انتظامیہ؟؟؟
کہاں گئے ہمارے ایم پی اے ؟؟؟
کہاں ہیں ایم این اے؟؟؟
کہاں گئی حکومت؟؟؟
پورے پاکستان میں سب سے زیادہ پسماندہ علاقہ جلالہ ٹیکسلا ہے
خدا کے لیے عوام کا خون مت نچوڑو
اور اتنا دیوار کے ساتھ مت لگاؤ
کہ پھر بپھرے عوام کی بغاوت برداشت نہ کر سکو
جلالہ کے غریب عوام چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے کرپٹ مافیا اور قبضہ مافیا کو کیفر کردار تک پہنچائیں

رشوت خور واپڈا والے مردہ باد
قبضہ مافیا فیصل ہلز والے مردہ باد

Rawalpindi. Its prosperity in ancient times resulted from its position at the junction of three great trade routes: one ...
09/05/2022

Rawalpindi. Its prosperity in ancient times resulted from its position at the junction of three great trade routes: one from eastern India, described by the Greek writer Megasthenes as the “Royal Highway”; the second from western Asia; and the third from Kashmir and Central Asia. When these routes ceased to be important, the city sank into insignificance and was finally destroyed by the Huns in the 5th century CE. Taxila was designated a UNESCO World Heritage site in 1980

09/05/2022

History
Taxila is known from references in Indian and Greco-Roman literary sources and from the accounts of two Chinese Buddhist pilgrims, Faxian and Xuanzang. Literally meaning “City of Cut Stone” or “Rock of Taksha,” Takshashila (rendered by Greek writers as Taxila) was founded, according to the Indian epic Ramayana, by Bharata, younger brother of Rama, an incarnation of the Hindu god Vishnu. The city was named for Bharata’s son Taksha, its first ruler. The great Indian epic Mahabharata was, according to tradition, first recited at Taxila at the great snake sacrifice of King Janamejaya, one of the heroes of the story. Buddhist literature, especially the Jatakas, mentions it as the capital of the kingdom of Gandhara and as a great centre of learning. Gandhara is also mentioned as a satrapy, or province, in the inscriptions of the Achaemenian (Persian) king Darius I in the 5th century BCE. Taxila, as the capital of Gandhara, was evidently under Achaemenian rule for more than a century. When Alexander the Great invaded India in 326 BCE, Ambhi (Omphis), the ruler of Taxila, surrendered the city and placed his resources at Alexander’s disposal. Greek historians accompanying the Macedonian conqueror described Taxila as “wealthy, prosperous, and well governed.”

Within a decade after Alexander’s death, Taxila was absorbed into the Mauryan empire founded by Chandragupta, under whom it became a provincial capital. However, this was only an interlude in the history of Taxila’s subjection to conquerors from the west. After three generations of Mauryan rule, the city was annexed by the Indo-Greek kingdom of Bactria. It remained under the Indo-Greeks until the early 1st century BCE. They were followed by the Shakas, or Scythians, from Central Asia, and by the Parthians, whose rule lasted until the latter half of the 1st century CE.

According to early Christian legend, Taxila was visited by the apostle Thomas during the Parthian period. Another distinguished visitor was the neo-Pythagorean sage Apollonius of Tyana (1st century CE), whose biographer Philostratus described Taxila as a fortified city that was laid out on a symmetrical plan and compared it in size to Nineveh (ancient city of the Assyrian empire).

Taxila was taken from the Parthians by the Kushans under Kujula Kadphises. The great Kushan ruler Kanishka founded Sirsukh, the third city on the site. (The second, Sirkap, dates from the Indo-Greek period.) In the 4th century CE the Sāsānian king Shāpūr II (309–379) seems to have conquered Taxila, as evidenced by the numerous Sāsānian copper coins found there. There is little information about the Sāsānian occupation, but, when Faxian visited the city at about the beginning of the 5th century CE, he found it a flourishing centre of Buddhist sanctuaries and monasteries. Shortly thereafter it was sacked by the Huns; Taxila never recovered from this calamity. Xuanzang, visiting the site in the 7th century CE, found the city ruined and desolate, and subsequent records do not mention it. Excavations begun by Sir Alexander Cunningham, the father of Indian archaeology, in 1863–64 and 1872–73 identified the local site known as Saraikhala with ancient Taxila. This work was continued by Sir John Hubert Marshall, who over a 20-year period completely exposed the ancient site and its monuments.

Archaeology

The structural remains at Taxila include the Bhir mound area, the palace area at Sirkap, the Jandial and Pippala temples, the Giri fortress, the Mohra Moradu and Jaulian monasteries, and the Dharmarajika, Bhallar, and Kunala stupas (burial mounds). Different types of masonry used in the monuments indicate their period of origin. The earliest remains are those of the Bhir mound. The palace area, modeled on the same lines as its Assyrian counterpart, Nineveh, has several entrances and outer fortifications. It reveals traces of successive settlements, with the oldest parts of the buildings consisting of rubble masonry. A spacious Buddhist temple, several small shrines, and blocks of dwelling houses were uncovered . The shrine of the double-headed eagle is interesting for its pilasters of the Corinthian order on the front and for niches in the interspaces. Other antiquities of the palace area include terra-cottas and potteries; small bronze, copper, and iron objects; and beads, gems, and coins of Indo-Greek, Parthian, and early Kushan rulers.

Small stupa in the Mohra Moradu monastery, Taxila, Pakistan.
Small stupa in the Mohra Moradu monastery, Taxila, Pakistan.
Holle Bildarchiv, Baden-Baden
The Dharmarajika stupa, popularly known as Chir Tope, is a circular structure with a raised terrace around its base. A circle of small chapels surround the great stupa. Three distinctive types of masonry in the buildings around the main stupa suggest the contributions of different periods to the building activity. A silver scroll inscription in Kharoshti and a small gold casket containing some bone relics of the Buddha were found in one of the chapels. The inscription refers to the enshrinement of the relics, by a Bactrian named Ursaka from the town of Noacha in the year 136 BCE, for the bestowal of health on “the great King, Supreme King of Kings, the Son of Heaven, the Kushana” (probably Vima Kadphises, son of the Kushan conqueror Kujala). That site also contained several statues of the Buddha and bodhisattvas.

The Jandial temple, set up on an artificial mound, closely resembles the Classical temples of Greece. Its Ionic columns and pilasters are composed of massive blocks of sandstone. Built in the Scythio-Parthian period, it is probably the temple described by Philostratus in his Life of Apollonius of Tyana. Though the Jandial temple is not Buddhist, the Jaulian remains are. These include a monastery and two stupa courts.

Taxila, besides being a provincial seat, was also a centre of learning. It was not a university town with lecture halls and residential quarters, however, such as have been found at Nalanda in the Indian state of Bihar. At Taxila the preceptor housed his own pupils, who paid for their board and lodging in cash or in the form of service to the teacher and his family. The Buddhist monasteries also catered to the needs of the students and monks.

Baij Nath Puri
The Editors of Encyclopaedia Britannica
Home
Geography & Travel
States & Other Subdivisions
Punjab
province, Pakistan
By The Editors of Encyclopaedia Britannica • Edit History
Punjab, province of eastern Pakistan. It is bordered by the Indian state of Jammu and Kashmir to the northeast, the Indian states of Punjab and Rajasthan to the east, Sindh province to the south, Balochistān and Khyber Pakhtunkhwa provinces to the west, and Islamabad federal capital area and Azad Kashmir to the north. The provincial capital, Lahore, is located in the east-central region, near the border with India. The name Punjab means “five waters,” or “five rivers,” and signifies the land drained by the Jhelum, Chenab, Ravi, Beas, and Sutlej rivers, which are tributaries of the Indus River. Punjab is Pakistan’s second largest province, after Balochistān, and the most densely populated. Area 79,284 square miles (205,345 square km). Pop. (2011 est.) 91,379,615.

Urban civilization existed in the Indus River valley from about 2500 to 1500 BCE, when, it is believed, A***n incursions brought it to an end. The area entered recorded history with the annexation of Punjab and Sindh to the Persian empire by Darius I (c. 518 BCE). The founder of the Maurya dynasty, Chandragupta, incorporated the region into his Indian empire about 322 BCE. The first Muslims to pe*****te northern India were the Arabs, who in 712 CE conquered the lower Punjab. The rest of the Punjab was conquered (1007–27) by Maḥmūd of Ghazna. The area subsequently came under various other Muslim rulers until the victorious entry of the Mughals in 1526. Under the Mughals the province enjoyed peace and prosperity for more than 200 years. Their power declined after 1738, however, and in 1747 Lahore fell under weak Afghan rule marked by lawlessness and disorder. The religious sect called the Sikhs rose to power in the latter part of the 18th century. The Punjab came under British occupation in 1849, after the British victory over the Sikhs in the battles of Chilianwala and Gujrat. When the Indian subcontinent received its independence in 1947, Punjab was split between Pakistan and India, with the larger western portion becoming part of Pakistan. The present provincial boundaries were established in 1970.

Rice terraces in Vietnam. (food; farm; farming; agriculture; rice terrace; crop; grain; paddy; paddies;garden)
BRITANNICA QUIZ
Know Your Asian Geography Quiz
Where is the Mayon Volcano? What port’s name means “fragrant harbour”? Explore the geography of Asia with this quiz.
Punjab’s area mostly consists of an alluvial plain formed by the southward-flowing Indus River and its four major tributaries in Pakistan, the Jhelum, Chenab, Ravi, and Sutlej rivers. The general slope of the land is from northeast to southwest, but it rises in the areas between rivers. The alluvial plain has a diversity of landforms: its active floodplains are flooded every rainy season and contain changing river channels, while meander floodplains lying adjacent to the active floodplain are marked by relict and abandoned channels. In the northern parts of the province are the Murree and Rawalpindi and the Pabbi hills, part of the Sub-Himalayas, and in the far north is the Potwar Plateau. Although the region is a traditional floodplain, the extraordinary flooding of the Indus River in the summer of 2010 was especially disastrous in Punjab, where millions of people were affected (by some estimates, one-half of all Pakistanis affected were in Punjab). The government’s failure to alert the public of the impending disaster elicited much criticism; some felt that officials, having had previous experience handling flooding there, should have been able to provide Punjabis with more forewarning.

Punjab lies on the margin of the monsoon climate. The temperature is generally hot, with marked variations between summer and winter. In the plain the mean June temperature reaches the mid-90s F (mid-30s C), while the mean January temperature is in the mid-50s F (low 10s C). The average annual precipitation is low, except in the sub-Himalayan and northern areas, and decreases markedly from north to south or southwest, from 23 inches (580 mm) at Lahore in east-central Punjab to just 7 inches (180 mm) at Multān in the southwest.

Punjab is the most populous province of Pakistan, containing more than half the country’s total population as well as several of its major cities: Lahore, Faisalabad, Rawalpindi, Multān, and Gujranwala. There is considerable rural-to-urban migration in the province, especially to the larger cities. In religion, the province is almost entirely Muslim, with a small Christian minority. Punjabi is the mother tongue of the great majority of the population. The main written language is Urdu, followed by English. The major ethnic groups are the Jat, Rajput, Arain, Gujar, and Awan. The caste system is gradually becoming blurred as a result of increasing social mobility, intercaste marriages, and changing public opinion.

Agriculture is the chief source of income and employment in Punjab. Much of the province once consisted of desert wastes that were unfavourable for settlement, but its character changed after an extensive network of irrigation canals was built in the early 20th century using the waters of the Indus tributaries. The area of settlement, which had formerly been limited to the north and northeast, was enlarged to include the whole province, and now about three-quarters of the province’s cultivable land is irrigated. Wheat and cotton are the principal crops. Other crops grown include rice, sugarcane, millet, corn (maize), oilseeds, pulses, fruits, and vegetables. Livestock and poultry are raised in large numbers.

Punjab is one of the more industrialized provinces in Pakistan; its manufacturing industries produce textiles, machinery, electrical appliances, surgical instruments, metals, bicycles and rickshaws, floor coverings, and processed foods. Pakistan’s main north-south road and railway connect Lahore with Islamabad, the capital of Pakistan, to the north and with the ocean port of Karachi to the south. Punjab is connected by road or railway to India, China, and Afghanistan, and its major cities are linked by road. Lahore’s airport provides domestic service. The University of the Punjab and the University of Engineering and Technology are located in Lahore, as are other colleges, museums, libraries, and cultural centres.

09/05/2022

Jalala Taxila
Great Civilization of Pakistan

09/05/2022

قبضہ مافیا کی سر گرمیاں

ڈھوک سیدو،بن بھولا یاجلالہ میں اگر کوئی شخص اپنے گھر کی مرمت بھی کرے یا چار دیواری لگائے تو فیصل ہلز کے غنڈے آجاتے ہیں اور دھمکیاں لگاتے ہیں اور کام بند کرنے کا کہتے ہیں ۔
ابھی جلالہ میں ایک بھائی اپنے گھر کی چار دیواری بنا رہا تھا تو اسے دو غنڈوں نے ا کر دھمکیاں دیں
اور پولیس لانے کے لیے گئے ہیں کہ سارا علاقہ ہم نے خریدنا ہے لہٰذا یہاں کام بند کرو یہاں سٹے ہے

یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ زمین ہماری اپنی ہے تو یہ کس قانون کے تحت ہمیں اپنی زمین پر کام کرنے سے روک سکتے ہیں ۔
ہم کسی صورت انکو اپنی زمین فروخت نہیں کریں گے ۔لیکن یہ گلیاں اور راستے بند کر کے لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی زمین اور گھر سستے داموں ان کے ہاتھ فروخت کریں
جلالہ ٹیکسلا کے عوام حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ ان ظالموں سے نجات دلائی جائے
اور جن زمینوں پر یہ قبضہ مافیا ناجائز قبضہ جما چکے ہیں وہ مالکان کو وآپس دلائی جائیں
اور پولیس کے اعلیٰ حکام سے بھی درخواست ہے کے اپنے کارندوں کو بھتہ خوری سے باز رکھیں
فیصل ہلز والے ماہانہ بھتہ دیتے ہیں جسکی وجہ سے وہ ان قبضہ مافیا کے ساتھ ا جاتے ہیں۔اس بات کا اعتراف ابھی قبضہ مافیا کے ایک غنڈے نے سب لوگوں کے سامنے کیا ہے
یہاں جواندھیر نگری بنی ہوئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی اپنے گھر کی مرمت بھی کرنا چاہیے تو مرمت پر آنے والے خرچ کے برابر رشوت کی مد میں پولیس والے اور فیصل ہلز کے غنڈے لے جاتے ہیں۔
اللہ پاک ان غنڈوں اور انکی سرپرستی کرنے والوں کا خاتمہ کرے اور انہیں دردناک عذاب سے دو چار کرے

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Voice of Jalala Taxila posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share