Dr Shahid Jamil

  • Home
  • Dr Shahid Jamil

Dr Shahid Jamil Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Dr Shahid Jamil, Magazine, .

میرے گاؤں کی صبح
31/10/2022

میرے گاؤں کی صبح

سرگزشت : آغازِ تعلیم و تربیت               بچپن اور عہدِ پچپن کے خیالات و نظریات متفرق اور اکثر و بیشتر متصادم ہوتے رہتے...
31/10/2022

سرگزشت : آغازِ تعلیم و تربیت

بچپن اور عہدِ پچپن کے خیالات و نظریات متفرق اور اکثر و بیشتر متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ اِس نکتے اور دیگر رموز کے علاوہ والدین کی حکمتِ عملی کا علم و احساس، عمرِ عزیز کے بہت سارے ماہ و سال خرچ کرکے اور زندگی کے نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔ جب پتا چلتا ہے، تب ذہنی کیفیت پُھلجھڑی جلاتے اُس بچے سا ہوتی ہے، جس کی سرخوشی اور دلچسپی دھیرے دھیرے رقصاں نور سے منتقل ہوکر پُھلجھڑی کے جل بجھنے کے خوف پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔
آج میں بھی زندگی کے اُس مقام پر آپہنچا ہوں، جہاں سے نہ عہدِ طفلی میں مراجعت ممکن ہے اور نہ زندگی کو ازسرِ نو جینے کی گنجائش باقی ہے۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں جمود و ٹھہراؤ سایہ فگن، احساسِ تنہائی رفیقۂ حیات، سود و ضیاع بےمعنی اور خونی و جذباتی رشتے بھی ایکسپائر ٹانک سا ناکارہ و مُضرّ لگنے لگتے ہیں۔ اِسی سبب محاذِ جنگ پر تعینات فوجی سا رہ رہ کر میں بھی ناسٹلجیا (Nostalgia) کا شکار ہوتا اور روزِ جزا و سزا سے قبل اپنے نامۂ اعمال کا بار بار جائزہ و محاسبہ کرنے لگتا ہوں۔
ایک دن صبح سویرے عالمِ اضطراب و ملال میں ہمزاد (محمد شاہد جمیل خاں) گمشدہ دوست کی طرح روبرو آ کھڑا ہوا تھا۔ میں ششدر و ساکت اور وہ مسکرائے جا رہا تھا۔ مجھے مبہوت و محو دیکھ کر وہ آگے بڑھا اور سینے سے چمٹ کر پیٹھ سہلاتے ہوئے پوچھا تھا : "بھول گئے؟"
پھر وہ جواب کا انتظار کئے بغیر خود ہی بولا : "میں، تمھارا جگری دوست اور اُردو میڈل اسکول، صاحب گنج کا ہم جماعت۔ ۔۔۔"
موتیابند کے مریض سا آنکھوں پر زور دے کر میں نے اُسے دیکھا۔ اُگتے سورج کی طرح آنکھوں میں دھیرے دھیرے نور بڑھنے لگا تھا۔ دُھند چھٹتے بھک سے اُس کا چہرہ آئینہ ہوگیا تھا۔ فرطِ جذبات سے مغلوب ہوکر میں نے اُس کے پنجے میں پنجہ پھنساکر کہا تھا : "مارننگ واک پر نکلا تھا۔ چلو! آج میں واک نہیں کروں گا۔ گاندھی پارک میں لتوں کی سُرنگ میں اُسی بینچ پر بیٹھ کر باہم دکھ سکھ شئیر کریں گے، جہاں عاشق جوڑے ایک جان ہوکر موج مستی کے ساتھ خوش گپّیاں کرتے ہیں۔"
ہم بینچ پر دو جان، دو جسم ہوکر بیٹھ گئے۔ اپنا دکھ زیادہ اور دوسروں کا سکھ بڑا لگتا ہے۔ اِسی سبب امّی کا درسِ اخلاقِ حسنہ اور آدابِ مہمان نوازی کو فراموش کرکے میں نے شکایتی لہجے میں کہا : "یار! امّی نے بچپن تا ہنوز مجھ پر بڑے بڑے ستم ڈھائے ہیں۔ ابّا بھی اچھے نہیں تھے۔ طیش میں آکر اُنھوں نے مجھے اور چھوٹے بھائی محمد زاہد انور خاں کو لے کر قصاب محلّے کے اُردو میڈل اسکول پہنچ گئے اور داخلہ کروا کے گھر لوٹے تھے۔ بات اتنی سی تھی کہ پڑوس کے ایک عادی شرارتی لڑکے نے راہ چلتے ہوئے دانستہ میرے پیر پر بھی اسٹیم انجن کے ناکارہ لوہے کے بڑے سے رنگ کو چڑھاتے ہوئے بھاگنے لگا تھا، تب میں نے دوڑ کر اُس کے گال پر اپنا غصّہ ثبت اور درد کو منتقل کردیا تھا۔ وہ باآوازِ بلند فُل اسپیڈ میں مروّجہ اور اختراعی گالیاں بکتا ہوا اپنے گھر جانے لگا، تب میں بھی غیر ارادی قتل کے مجرم سا دل میں طرح طرح کے خوف و خدشات لئے گھر لوٹ آیا تھا۔"
یہ سوچ کر کہ کون کون سی بات اور واقعے کو بتانا سنانا ہے، میں جلدی جلدی اوراقِ ماضی کو اُلٹنے پلٹنے لگا تھا۔ میری طویل خاموشی سے اُوب کر اُس نے آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے پوچھا : "کہاں کھو گئے؟ پھر کیا ہوا تھا؟ بتاؤ نا۔ ۔۔۔"
میں خوش ہوکر مسکرایا کہ وہ ہمہ تن گوش ہے۔ اُس کے چہرے پر اُکتاہٹ کے نشان نہیں۔ میرا ہمدم، میرے دل کے بوجھ کو ہلکا کرنا چاہتا ہے۔ اُس میں ایک خوبی اور ہے۔ وہ کئی بار سنی باتوں کو بھی اِس طرح سنتا گویا وہ پہلی بار سن رہا ہو۔ جب کہ بیشتر لوگ سنانے والے کو یہ کہہ کر چُپ اور بددل کر دیتے ہیں کہ " یہ تو کئی بار کا سنا سنایا ہے۔" اُس میں ایک خرابی یہ کہ وہ مصلحت پسند نہیں۔ پیٹھ پیچھے اور روبرو حق بات بولتا ہے۔ اُس کے تجسس کو سیراب کرنے کے لئے میں نے منقطع کلام کا سلسلہ جوڑا :
" یار! میں اپنے اُس فعل پر نادم نہیں کہ میں نے اُس سیڈسٹ لڑکے کی اذیّت دہی کے عملِ مسلسل کے خلاف مدافعتی کارروائی کی تھی۔ میں جانتا تھا کہ اُس کی ماں مشہور ترین حرّافہ اور اُس کا باپ بلرام، ریل انجن کا میکینک اور بیوی سے عاجز و شکست خوردہ ہے۔ اُس کی ماں پانچ سات منٹ میں ہی کمان سے چھوٹے تیر کی طرح آئی اور میرے کوارٹر کے سامنے کھڑی ہوکر سات پشتوں کو مردانہ گالیوں سے نوازنے لگی تھی۔ ابّا گھر پر نہیں تھے۔ امّی سبزی چھیل رہی تھیں۔ گالیاں اور باہر نکلنے کے متواتر چیلنج کو سن کر اُنھوں نے مجھے مشکوک و خشمگی نگاہوں سے دیکھا اور غصّہ ضبط کرنے کے لئے وہ خاموشی سے سبزی کترتی رہیں۔ میں، جھولے میں قید بِلّے کی طرح انجام کا منتظر تھا۔ گالیوں کے اعادے، سُست پڑتی رفتار، کمزوتر ہوتی آواز اور رہ رہ کر اٹھتے کھانسی کے دورے سے مجھے اُس کی تھکن کا احساس ہوچکا تھا۔ مشاہدے کی بنیاد پر میں واقف تھا کہ اب وہ اِس بات کی متمنّی و منتظر ہے کہ کوئی اُس کی منّت و سماجت کرے تاکہ اُس کی گھر واپسی فاتحانہ قرار پائے۔ بالآخر کسی نے یہ کہہ کر اُسے گھر لوٹنے کا حیلہ و جواز دے دیا : بھیّا گھر پر نہیں ہیں۔ جب وہ آجائیں، تب آئیے گا۔"
لوٹتے وقت بھی وہ گالیوں کا اعادہ اور سبق سکھانے کی دھمکی دیتی جارہی تھی۔ اُس کی صدائے اشتعال، بازگشت کی طرح فضا میں تحلیل ہوتی گئی۔ تھوڑی دیر بعد ماحول پُرسکون ہوگیا تھا۔
امّی کی طویل ترین چپّی، کٹھن معمّا حل کرنے جیسا تھا۔ اُن کے خیالات و اطوار اور سوچ و عمل مانندِ قوسِ قزح متفرق و ہم رشتہ ہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ اُٹھیں اور خلافِ توقع خاموشی سے دونوں بھائیوں کو تیار کرنے لگی تھیں۔ تیاری مکمل کرکے وہ ابّا سے بولیں : "آج ہی دونوں کا داخلہ اسکول میں کروائیے۔"
ابّا تھوڑی دیر قبل گھر لوٹے تھے۔ انھیں ہنگامے کی خبر مل چکی تھی۔ اِسی سبب ہم لوگوں پر نگاہِ خشمگیں ڈالتے ہوئے بولے : "چلو!"
یار! اُس دن امّی ابّا نے مل جل کر ہماری آزادی، کھیل کود اور خودمختاری پر پہلی کاری ضرب لگائی تھی۔
ابّا پر نظر پڑتے ہی محلّے کے ماسٹر حفیظ نے لپک کر بڑے تپاک سے سلام و مصافحہ کیا اور ہم لوگوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا : "اچھا کیا بھیّا!" پھر وہ زاہد کو
دکھاتے ہوئے بولے : "شاہد کی پڑھائی اس عمر میں شروع کروانی چاہئے تھی۔ دیر ہوگئی۔"
اُن کا یہ جملہ مجھے بہیلئے کے جملۂ تاسف سا لگا تھا، جس کے ہاتھ لگنے سے قبل چڑیا اڑ گئی ہو۔
وہ ہم لوگوں کو ہیڈ ماسٹر کے چیمبر میں لے گئے۔ سلیم انصاری صاحب ابّا کو سلام کرکے اُنھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ہماری طرف دیکھتے ہوئے بولے :" دونوں ادھر آؤ!"
پھر وہ ماسٹر حفیظ سے بولے :" بڑے بھائی کا ٹیسٹ لیجئے۔ چھوٹے کو کلاس ون میں داخلہ دوں گا۔"
ماسٹر حفیظ کلاس تھری کے کسی لڑکے سے کتابیں مانگ کر لائے اور بولے : " میں جہاں جہاں انگلی رکھوں گا، تم زور زور سے پڑھ کر سناؤ گے۔"
میں پھر پھر پڑھنے لگا، تب وہ بولے : بس کرو!"
پھر وہ طرح طرح کے سوالات کے گولے داغنے لگے اور میں امّی کی پڑھائی اور سکھائی باتوں کے غلیل سے دندنادن سوالوں کے مٹکے پھوڑنے لگا تھا۔"
ہیڈ ماسٹر صاحب درمیان میں ماسٹر حفیظ سے بولے :"بس کیجئے! رجسٹر لائیے اور کلاس ون اور تھری میں داخلہ کی خانہ پوری کیجئے۔"
ماسٹر حفیظ نے ابّا سے پوچھا تھا : دونوں کی عمر بتائیے!"
ابّا تھوڑی دیر تک چپ رہے۔ پھر بولے :" آپ ہی اپنے انداز سے عمر لکھ دیجئے!"
انھوں نے جوڑ گھٹاؤ کے بعد عمر کے کالم کو پُر کیا اور ابّا سے رجسٹر پر دستخط کروائے۔ سرکاری اسکول میں داخلہ فیس نہیں لگتی تھی۔ لہذا ابّا مہم سر کرکے فاتحانہ انداز میں گھر واپسی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ماسٹر حفیظ قربانی کے بکرے کی طرح ہم دونوں بھائیوں کا ہاتھ پکڑ کے پہلے کلاس ون میں گئے اور بھائی کو کلاس ٹیچر کے حوالے کیا۔ پھر وہ مجھے اگلی صف میں بیٹھاکر بولے : "میں ہی تمھارا کلاس ٹیچر ہوں۔ آج پہلا دن ہے۔ تم لوگ آج میرے ساتھ گھر چلو گے۔"
بنچ پر بیٹھتے ہی دل میں یہ خیال کچوکے لگانے لگا تھا کہ پلک جھپکتے ہماری حیثیت جنگل کے شیر سے، سرکس کے شیر میں تبدیل ہوگئی۔
دوسرے دن امّی نے اسکول ٹائم سے ایک گھنٹہ قبل کھلا پلاکر دونوں بھائیوں کو تیار کیا۔ ریلوے کوارٹر سے اسکول ایک کیلو میٹر سے قدرے کم دور تھا۔ ریلوے کا اورہیڈ ایک پل تھا، جسے عبور کرکے اُس سڑک سے اسکول تک جانا تھا، جو قصاب محلّہ کے درمیان سے گزرتی ہے۔ اُسی محلّے میں اسکول کے سامنے ابّا کے ایک دوست طاہر چچا کا گھر تھا اور چند قدم کے فاصلے پر میٹ مارکیٹ۔ میں اکثر ابّا کے ساتھ اُس محلے میں جاتا تھا۔ کبھی کبھار حصّے بینے لے کر تنہا بھی طاہر چچا کے گھر جاتا تھا۔ لہٰذا اسکول کا راستہ میرا دیکھا سمجھا تھا۔ ایک راستہ اور تھا۔ وہ ریلوے کوارٹرس کے درمیان سے یا پھر صاحب گنج ہاٹ ہوتا ہوا ریلوے گمٹی کراس کرکے جانا پڑتا تھا۔ ابّا گمٹی کراس کرتے وقت میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیتے اور ہر بار تاکید کرتے تھے : "اِس راستے سے کبھی مت جانا۔"
اُس دن امّی نے ہلکا پھلکا بستہ دونوں بھائیوں کی پیٹھ پر چپکا دیا۔ پھر چھوٹے بھائی کی دائیں کلائی میری بائیں ہتھیلی پر رکھ کر بولی تھیں : "اسکول پہنچنے اور گھر واپسی تک مضبوطی سے پکڑ کے رکھنا اور ہوشیاری سے فٹ پاتھ پر چلنا۔ تم بڑے ہو۔ لنچ آور چالیس منٹ کا ہوتا ہے۔ تم لوگ گھر آکر کھانا کھاؤ گے۔"
میں بچپن سے ہی سخت جان اور الولعزم اور بھائی نرم دل اور قدرے دبّو اور ڈرپوک بھی تھا۔ گھر سے نکلتے وقت وہ آبدیدہ ہوگیا۔ امّی کی نظر پڑ گئی۔ اُنھوں نے بازو پکڑکے پہلے آنچل سے آنسو خشک کیا اور سینے سے لگاکر بولیں : " یہ رونے کا نہیں، خوش ہونے کا دن ہے۔ تم لوگ علم حاصل کرنے جارہے ہو۔ علم، اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔"
پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئیں : تم بڑے ہو! ساری ضروری باتوں پر تمھیں ہی دھیان دینا ہے۔ ہر غلطی کی سزا تم کو ملے گی۔ دھیان سے سنو! کسی کو فورا" دوست نہیں بنانا۔ دوست بنانے میں جلدی بازی نہیں کرنی! سمجھے!"
میں نے اثبات میں سر ہلایا، تب وہ بولیں : "جب تم لوگوں کو یقین ہوجائے کہ وہ لڑکا کلاس میں پڑھنے لکھنے اور طور طریقے میں تم لوگوں سے اچھا ہے، تب ہی اُس سے دوستی کرنا۔ اسکول کے بدنام شرارتی بچوں سے دوری بنائے رکھنا۔ اگر کوئی لڑکا، کوئی چیز کھانے پینے کی دے، تو اُسے جھٹ سے لے کر مت کھا لینا۔ شکریہ کہہ کر ٹال دینا۔ راستے میں کسی گروپ کے ساتھ ساتھ جانا آنا نہیں۔ اگر کوئی ساتھ چلنے لگے، تب تھوڑی دیر رُک کر اُسے آگے جانے دینا۔ خوب دل لگا کر پڑھنا تاکہ ریزلٹ کے دن ابّا کو شرمندگی نہیں ہو۔ ایک بات چپکے سے بتا دیتی ہوں، تمھارے ابّا نے ماسٹر حفیظ اور طاہر بھائی کو تم لوگوں پر نظر رکھنے کے لئے کہہ دیا ہے۔ اگر انھوں نے شکایت کی، تب تمھاری خیر نہیں۔ میں جی بھر کر تم کو پیٹوں گی کہ تم بڑے ہو۔ اسکول میں داخل ہوتے وقت جتنے بھی ماسٹر صاحب ملیں، اُنھیں خود بھی سلام کروگے اور زاہد سے بھی کرواؤ گے۔ پڑھائی اور ماسٹر سے ڈرنا نہیں ہے بلکہ اپنے طور طریقے اور پڑھائی لکھائی سے اُن کا دل جیت لینا تاکہ جب کبھی تمھارے ابّا اسکول جائیں تو سبھی سے تم لوگوں کی تعریفیں سنیں۔ ہر روز ایسی تیاری کرکے اسکول جانا کہ ماسٹر صاحب کے ہر سوال کا فورا" جواب دے سکو۔ ایک بات اور۔ زاہد کا ہوم ورک تمھیں کرانا ہے۔ اب جاؤ! اسکول وقت پر جانا اور چھٹّی کے وقت سب سے آخر میں کلاس سے نکلنا ہے۔"
امّی کی نصیحتیں اور تنبیہ سن کر مجھے بھگیلو حجام یاد آگئے، جو کان کے گرد اور گردن پر کند استورا چلاتے وقت اکثر کھروچ لگا دیتے تھے۔ جب میں احتجاج کرتا تھا، تب وہ کہتے : " کہاں کٹا ہے؟ نہیں کٹا۔" جب میں رستے خون کو انگلی میں لگاکر دیکھاتا، تب کہتے : "معمولی سا کھروچ لگا ہے۔ پھٹکڑی لگا دیتے ہیں۔" یعنی ایک سزا اور۔ امّی کی سزا بھی بھگیلو حجام جیسی ڈبل ہوتی۔ وہ مارتی اور باآوازِ بلند رونے نہیں دیتیں۔ سِسکی الاؤ تھا، لیکن وہ بھی بےآواز۔ اُنھوں نے دل و دماغ پر طرح طرح کی سزا کا ایسا خوف و دہشت سوار کر رکھا تھا کہ ہر دلکش بات اور پسندیدہ چیز، شجر ممنوعہ سا لگتی۔
گھر سے نکلتے وقت زاہد نے پیچھے مڑ کر اِسی طرح دیکھا تھا جیسے فساد زدہ علاقے سے گھر بار چھوڑتے لوگ اپنے گھر و املاک کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ راستہ چلتے وقت وہ اکثر خاموش رہتا اور بیل گاڑی میں بائیں جتے کمزور بیل سا ایک قدم پیچھے چلتا۔ میری نگاہیں مشاہدے میں مصروف رہتیں۔ سڑک پر کاریں نظر نہیں آتیں۔ رکشا زیادہ اور ٹم ٹم اِکّا دکّا نظر آتا تھا۔ آر ایم ایس آفس کے پاس دمکا جانے والی ایک دو بسیس لگی رہتیں۔ سڑک کنارے چائے، پان، بیری، سگریٹ اور کھینی کی گمٹیاں اور حلوائیوں، کرانہ اور پنچر بنانے کی دکانیں تھیں۔ اسٹیشن روڈ کی پکّی اور صاف ستھری سڑک کے بعد کچھ دور تک تراشیدہ پتھروں کی اینٹ سے بنی سڑک اور قصاب محلّے کی سڑک کچّی تھی۔ نالیاں ہر وقت غلاظت سے پُر۔ غریب گھروں کے بچے اپنے اپنے پشتینی یا پھر کرائیے کے مکان کے دروازے کے پاس نالی پر دونوں پاؤں دو طرف کرکے رفع حاجت کرتے نظر آتے۔ اِس محلّے میں ہڈّی کے حریص کتّوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اکثر نہاری کے کھوکھلے نلّے سے نالی جام ہوتی رہتی تھی۔ اُس وقت زاہد کو راستہ پار کرانا دشوار ہوجاتا تھا، جب کسی نالی یا نالے میں سونامی کی لہریں رواں ہوتیں۔ جوان اور بڑے لوگ گندے پانی میں رکھی اینٹوں پر پاؤں رکھ کر ڈگمگاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔ میں بھی بڑوں کی طرح جا سکتا تھا، لیکن زاہد، خطرہ بھانپ کر ٹھٹھکے گھوڑے کی طرح اڑ جاتا تھا۔ بیشتر گھروں کے دروازے پر نالی کے اوپر چھجّے بنے تھے، لیکن اُن پر بکریاں اور قربانی کے بکرے کھڑکی سے بندھی کٹہل کی ٹہنیوں سے پتّے کھا رہے ہوتے۔ زاہد کو نوکیلی سینگ والے بکرے سے ڈر لگتا تھا۔ میں کھڑا ہوکر پہلے جائزہ لیتا، پھر حکمت لگاکر مخدوش راستے کو پار کراتا۔ کبھی کبھار مجبورا" دھوبیوں کے محلّے سے جانا پڑتا۔ جب کہ یہ راستہ ہمارے لئے ممنوعہ تھا کہ گدھے سڑک پر ہی بندھے ہوتے تھے۔ میں جانتا تھا کہ گدھے اور گھوڑے کا نشانہ اچوک ہوتا ہے۔ وہ صرف مالک کو لات نہیں مارتے۔ شرارتی بچے وقت سے پہلے ہی اسکول پہنچ کر اور چھٹّی کے بعد ادھم مچاتے۔ اسکول کے نزدیک سڑک کنارے قصاب محلّے کی کئی بوڑھی غریب عورتیں ناریلی، گرچٹکا، گلگلا، سوجی کا حلوہ، کچّے ناریل کا کھرچن اور بڑے کا قیمہ بھرا سموسہ، خستہ نمکی، دال موٹھ، مونگ پھلی، امرود، بیر، املی کا کھٹ مٹھّا گولہ اور بھی بہت کچھ بیچتی تھیں۔ اسکولی بچے کلاس شروع ہونے سے قبل، لنچ بریک اور چھٹّی کے بعد خرید خرید کر کھاتے اور ہم اُنھیں کھاتے ہوئے دیکھ بھی نہیں سکتے تھے کہ خفیہ اطلاع کا خوف ہمہ وقت دامن گیر رہتا تھا۔ کوئی ساتھی خلوص و اپنائیت سے دینا بھی چاہتا، تب فورا" معذرت کر لیتے۔ ماسٹر حفیظ اورطاہر چچا نظر نہیں آتے، لیکن مجھے لگتا وہ جن کی طرح ہمیں دیکھ رہے ہوں گے۔
جس طرح گھڑی کی اسپرنگ سبھی چھوٹے بڑے چکّے کو چلتے رہنے پر مجبور کرتی ہے، ٹھیک اُسی طرح امّی کی آنکھیں اور جملے گھریلو نظام کو رواں رکھتے۔ بڑی سی نمائشی دیوار گھڑی کا پنڈولم سُست بھی نہیں پڑتا کہ امّی، ابّا سے چابی بھروا دیتیں۔ وہ سب کام گھڑی دیکھ کر کرتی اور کرواتیں۔ جاگنے، سونے، پڑھنے اور کھلنے کا وقت متعیّن کر رکھا تھا۔ کبھی کبھار جھلّاکر سوچتا ہم بچے نہیں چابی والے گڈّے ہیں۔ اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ رفع حاجت بھی پوچھ کر کرتے تھے۔ جب میں محلّے کے بچوں کو کنکھیوں سے کنچا، گلی ڈنڈا کھیلتے، لٹّو نچاتے اور پتنگ اڑاتے دیکھتا، تب جی چاہتا میں اُن کے قریب جاکر دیکھوں۔ ایک بار امّی کی نظر بچاکر کنچا کھیل رہے بچوں کے نزدیک کھڑا ہوکر میں اُنھیں کھیلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ دو چار منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ زاہد نے دور سے ہی مجھے بلایا۔ میں نے اُس سے منّت کی : " امّی کو مت بتانا، میں کہاں تھا۔"
اُس نے کہا : "مجھے خود حیرت ہو رہی ہے کہ امّی نے مجھے سے کہا، شاہد کھڑا ہوکر کنچا کا کھیل دیکھ رہا ہے۔ اُسے بلاکر لاؤ۔"
میں رنگے ہاتھ پکڑے گئے چور کی طرح امّی کے حضور حاضر ہوا۔ میں سمجھ چکا تھا کہ امّی نے کسی سے مخبری کروائی ہے۔ جھوٹ بولنے کی سزا پہلے ہی بتا دی گئی تھی۔ میں نے تفتیش سے قبل اقبالِ جرم کر لیا تھا۔ ہاتھ کی چھڑی کو اُسی مقام پر کھونس کر امّی نے صرف اتنا کہا : "کوئی بھی برا کام تم کروگے اور محلّے میں رسوائی ہوگی تمھارے ابّا کی۔ پہلی غلطی مان کر آج معاف کر دیتی ہوں۔"
اُس دن یقین ہوگیا تھا کہ امّی نے محلّے میں بھی مخبر تعینات کر رکھا ہے۔ انھوں نے صرف فٹ بال کھیلنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ زاہد بہترین کھلاڑی اور اسکورر تھا۔ میرا شمار اچھے کھلاڑیوں میں کبھی نہیں ہوا۔ جب ٹیم باہر کھیلنے جاتی، تب میرا سلیکشن اِس بنیاد پر ہوتا تھا کہ زاہد نے کہہ رکھا تھا : "امّی بھائی جان کے بغیر مجھے تنہا جانے نہیں دیں گی۔"
زاہد مچھلی کا بھی اچھا شکاری اور ابّا گوشت اور مچھلی خور تھے۔ پڑھنے میں تیز اور اچھا ریزلٹ لانے کے سبب امّی نے زاہد کو گھر سے نزدیک ریلوے تالاب میں بنسی سے مچھلی کے شکار کی اجازت دے رکھی تھی۔ چھٹّی کے دنوں وہ بنسی لے کر نکل جاتا۔ چھوٹے بھائی عابد اور اسلم دوڑ دوڑ کر زندہ مچھلی لاتے اور حوض میں ڈالتے رہتے۔ دوچار مچھلیوں کے بعد امّی زاہد کو گھر لوٹنے کا حکم بھجواتیں۔ دونوں بھائی دوڑ دھوپ بند کردیتے۔ تھوڑی دیر بعد زاہد پانچ سات مچھلیوں کے ساتھ گھر لوٹ آتا۔ ایک دن امّی ناراض ہوکر بولیں : "دو کیلو تیل میں مہینہ لگانا ہے۔ کل سے مچھلی کا شکار بند۔"
ابّا فورا" بولے : "آدھا کیلو تیل میں لا دوں گا۔ شکار کرنے دو۔ سبزی کی جگہ ہم لوگ مچھلی کھاتے ہیں۔"
عابد اور اسلم نے بھی مچھلی مارنا سیکھ لیا تھا۔ امّی سے چپ چاپ بنسی بناکر تینوں بھائی شکار کرنے لگے، تب حوض سو، سوا سو گرام کے ریہو اور قتلہ کے بچوں سے بھرنے لگا۔ مچھلیاں اُچھل اُچھل کر باہر آجائیں، جنھیں سائرہ پھوپھی اُٹھا اٹھا کر حوض میں ڈال کر حوض کے اوپر لکڑی رکھ کر اُس پر ڈگرا رکھ دیتی تھیں۔ ابّا سے بڑی پھوپھی بےحد شفیق تھیں۔ اُن کے سامنے امّی تادیبی کارروائی کو موخّر کر دیتیں۔
زاہد کلاس ون سے ہی سبجیکٹلی اچھے نمبروں سے بلکہ اکثر فرسٹ ڈویژن سے پاس کرتا رہا اور میرے رپورٹ کارڈ میں اکثر کبھی ایک کبھی دو اور کبھی کبھار تین سُرخ نشانات کے ساتھ برے ریمارکس درج ہوتے۔ حساب، انگریزی اور تواریخ مجھے رسوا کرنے پر تلے تھے۔ حساب کے ٹیچر عبدالوہاب سر بڑے ظالم تھے۔ مارتے وقت وہ کپڑا دھوتے دھوبی کی طرح مخصوص آواز نکالتے تھے۔ کبھی کبھار ہیڈ ماسٹر صاحب چیمبر سے باہر نکل کر کہتے : "بس! ہوگیا۔"
سُرخ نشانات اور ریمارکس کے باوجود مجھے ہر کلاس سے پروموشن ملتا گیا۔ ماسٹر حفیظ ابّا سے زاہد کی خوب تعریفیں کرتے اور میری شکایات۔ ایک بار انھوں نے ریزلٹ کے دن زاہد کو کلاس میں بُلاکر حکم دیا : "تم شاہد کا کان پکرو! تاکہ اِسے شرم آئے۔"
میں شرم سے سر جھکائے زاہد کو کنکھیوں سے دیکھنے لگا تھا۔ وہ بھی سر جھکائے کھڑا رہا۔ کلاس کے سبھی بچے اِس تماشا کو دیکھنے کے لئے بےتاب تھے۔ جب زاہد ٹس سے مس نہیں ہوا، تب ماسٹر حفیظ بولے : "جاؤ!"
اُس دن گھر لوٹتے وقت میں نے زاہد کے گلے میں بانہہ ڈال کر گھر سے تھوڑی دور پہلے تک آیا تھا، لیکن گھر میں داخل ہوتے وقت اُس کی کلائی کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔ ۔۔۔
میرا ہمزاد قطع کلام کرتے ہوئے بولا : "میں صبر و تحمّل سے اب تک تمھاری باتیں سنتا رہا۔ اب میں بولوں گا اور تم سنو گے۔"
مجھے واقعی شرمندگی ہوئی کہ میں لگاتار پپیہے کی طرح اپنا دکھ درد بیان کرتا رہا۔ میں نے شرمسار لہجے میں کہا : " بولو! میں بھی خاموشی سے سنوں گا۔"
اُس نے کہا : "میں صرف اتنا کہوں گا کہ تمھاری امّی دنیا کی بہترین ماؤں میں ایک اور تمھارا بھائی زاہد بھی لاکھوں میں ایک ہے۔ تمھارے گھر میں علم کی دولت اللہ کے فضل و کرم سے اور امّی کی حکمتِ عملی اور زاہد کے جنون کے سبب آئی۔ امّی نے تعلیم کے ساتھ بہترین تربیت بھی کی ہے۔ کوئی بچہ نشہ خور، بدچلن اور بے روزگار نہیں۔ آج سب اعلی تعلیم یافتہ اور معزز عہدے پر فائز ہیں۔ پوتے پوتیاں ہی نہیں بلکہ بیٹیوں کی اولاد بھی باپ سے کئی پائدان آگے۔ میں تو آفرین! کہوں گا۔ امّی اور ابّا نے معاشرے کو ایک مثالی کنبہ دیا۔ اللہ امّی کو صحت کے ساتھ سلامت رکھے اور ابّا اور عابد مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اُنھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے آمین! ثم آمین!۔۔۔۔"
(جاری )

ڈاکٹر شاہد جمیل، پٹنہ، انڈیا
31 اکتوبر 2022
Photos : Dr Shahid Jamil Patna

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Shahid Jamil posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share