02/03/2024
بات طویل مگر دلائل کے ساتھ Junaid Malik صاحب کر رہے ہیں
“جنرل باجوہ کی طرف سے امریکہ کے طویل دورے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کا پاکستان کو غیر مستحکم یا خطرناک ملک قرار دینا کیا محض اتفاق ہے؟
دنیا کی واحد سوپر پاور اور طاقتور ترین ملک کے صدر کا بیان کوئی غیر رسمی بات یا مزاق نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک طرح کا فیصلہ ہے جس کے زریعے پاکستان کے حوالے سے امرکہ کی پالیسی واضع کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ پچھلی بار جب جنرل باجوہ نے امریکہ کا دورہ کیا تھا تو ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدر تھا اور دورے کے فوری بعد بھارت نے آرٹیکل 370 کا نفاز کر کے کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا تھا۔ جبکہ پاکستان کی طرف سے اس فیصلے کے خلاف ردعمل محض بیان بازی تک محدود رہا۔ یہ واضع ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل باجوہ کو نہ صرف بتا دیا تھا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے بلکہ پاکستان کے سب سے بااختیار اور طاقتور شخص سے جوابی کاروائی نہ کرنے کی یقین دہانی بھی لے لی تھی۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ جنرل باجوہ جو کہ اگلے ماہ ریٹائر ہونے والا ہے اپنی ریٹائرمنٹ سے محض ایک ماہ قبل امریکہ کا دورہ کرتا ہے اور دورے کے فوری بعد امریکی صدر ایک پالیسی بیان جاری کرتے ہویے پاکستان کو دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک قرار دے دیتا ہے۔
کیا پاکستان واقعی ایک خطرناک ملک ہے؟
دنیا کا واحد ملک جہاں فوج پورے نظام پر قابض ہے اور پچھلے چالیس سال سے شدت پسند تنظیموں کی سرپرستی کر رہی ہو اور وہ شدت پسند تنطیمیں پڑوسی ممالک میں کاروائیاں کر رہی ہوں، دنیا کے خطرناک ترین دہشتگرد جس ملک سے برامد ہو رہے ہوں۔ جس ملک کے خلاف منی لانڈرنگ اور دھشتگردوں کی فنڈنگ کے الزام ہوں۔ جہاں فوج اور ایجنسیاں شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے اور ماورائے عدالت قتل کرنے میں ملوث ہوں اور جہاں لاپتہ افراد کے لواحقین انصاف کے لیئے مارے مارے پھر رہے ہوں۔ جس ملک کے جرنیل ایٹمی مواد کی سمگلنگ میں ملوث رہے ہوں اور سیاستدان دنیا کو بار بار ایٹم بم استعمال کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے ہوں، ایسے ملک کو خطرناک نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
نو گیارہ کے بعد جب امریکی فوج افغانستان آئی تو پاکستان میں اقتدار پر قابض جرنیلوں نے امریکہ کو بھرپور تعاون کی یقین دھانی کروائی لیکن اس کے بعد فوجی جرنیل مسلسل بیس سال ڈبل گیم کھیلتے رہے۔ ایک طرف ڈالروں کے حصول کی خاطر امریکہ کو تعاون کی یقین دھانی کرواتے رہے تو دوسری طرف امریکہ سے ملنے والے ڈالر استعمال کر کے امریکہ ہی کے خلاف لڑنے والے عناصر کی مدد کرتے رہے۔ اسی دوران پاکستانی جرنیل کشمیر جہاد کے نام پر بنی شدت پسند تنظیموں کی بھی سرپرستی کرتے رہے۔ اقوام متحدہ ان تنظیموں کو دھشتگرد قرار دے کر ان پر پابندی لگاتی تھی تو یہ تنظیمیں نئے ناموں کے ساتھ دوبارہ فعال ہو جاتیں۔ اہسے ملک کو خطرناک نہیں تو اور کیا کہا جائے؟
شدت پسند تنظیموں کے زریعے لڑی جانے والی پراکسی جنگوں سے تنگ آ کر 2016 میں امریکہ اور عالمی برادری نے اس وقت کی پاکستانی حکومت کو واضع پیغام دے دیا کہ اگر پاکستان نے شدت پسندوں کی پشت پناہی نہ چھوڑی تو عالمی تنہائی کے لیئے تیار ہو جائے۔ لیکن جب اس وقت کے وزیر اعظم نے فوج تک یہ پیغام پہنچایا تو بجائے اپنے معاملات ٹھیک کرنے کے جرنیلوں نے ڈان لیکس والا ڈرامہ شروع کر دیا اور بعد میں اس وزیر اعظم کو فارغ کر دیا۔ اس کے بعد ایک فوج کا نمائندہ اور ریٹائرڈ جرنیل میڈیا چینلوں پر بیٹھ کر شدت پسندوں کو سیاست میں لانے کی بات کرتا ہے جبکہ اس وقت کا وزیر اعظم بن لادن جیسے خطرناک شخص کو شہید قرار دیتا ہے۔ اتفاق سے دنیا بھر کو مطلوب وہ خطرناک شخص پاکستان سے ہی برامد ہوتا ہے اور امریکی فوج کی کاروائی کے نتیجے میں مارا جاتا ہے۔ جس ملک کے جرنیل بائیس سال افغانستان میں موجود امریکی فوج کو لاجسٹک سپورٹ دیتے رہے ہوں لیکن امریکہ کی افغانستان سے واپسی پر اسے امریکہ کی شکست قرار دے کر جشن منائیں۔ اور پھر پاکستان میں دھشتگردی کرنے والے شدت پسندوں کے ساتھ امن معاہدے کر لیں۔ ایسے ملک کو خطرناک نہیں کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
ایٹمی طاقت کے حوالے سے بات کی جائے تو اقتدار پر قابض جرنیل اسی کی دھائی میں ایٹم بم کے ڈیزائن چوری کرنے، سمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے زریعے ایٹم بنانے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس کے بعد یہی جرنیل ایران اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹیکنالوجی بیچتے رہے اور جب یہ راز کھلا تو ڈاکٹر قدیر نامی شخص کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ دنیا کا واحد ملک جو بار بار ایٹم بم استعمال کرنے کی دھمکیاں دے اور جہاں اقتدار پر قابض جرنیل دنیا کو بلیک میل کرتے رہے ہوں کہ اگر ہماری سپورٹ نہ کی تو ہمارے ایٹمی اثاثے شدت پسندوں کے ہاتھ لگ جائیں گے۔ ایسے ملک کو خطرناک نہیں کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
جو بائیڈن کے بیان کے بعد پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے بیان کی مزمت کی جارہی ہے۔ لیکن کوئی بھی اس بیان کے پیچھے موجود محرکات پر غور کرنے اور اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیئے تیار نہیں ہے۔ کوئی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ دنیا کے دو سو ممالک میں سے صرف پاکستان کے ہی بارے میں ہر جگہ اتنی تشویش کیوں پائی جاتی ہے۔ ”