Hunzla khan

Hunzla khan Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Hunzla khan, News & Media Website, .

02/03/2024

بات طویل مگر دلائل کے ساتھ Junaid Malik صاحب کر رہے ہیں

“جنرل باجوہ کی طرف سے امریکہ کے طویل دورے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کا پاکستان کو غیر مستحکم یا خطرناک ملک قرار دینا کیا محض اتفاق ہے؟

دنیا کی واحد سوپر پاور اور طاقتور ترین ملک کے صدر کا بیان کوئی غیر رسمی بات یا مزاق نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک طرح کا فیصلہ ہے جس کے زریعے پاکستان کے حوالے سے امرکہ کی پالیسی واضع کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ پچھلی بار جب جنرل باجوہ نے امریکہ کا دورہ کیا تھا تو ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدر تھا اور دورے کے فوری بعد بھارت نے آرٹیکل 370 کا نفاز کر کے کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا تھا۔ جبکہ پاکستان کی طرف سے اس فیصلے کے خلاف ردعمل محض بیان بازی تک محدود رہا۔ یہ واضع ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل باجوہ کو نہ صرف بتا دیا تھا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے بلکہ پاکستان کے سب سے بااختیار اور طاقتور شخص سے جوابی کاروائی نہ کرنے کی یقین دہانی بھی لے لی تھی۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ جنرل باجوہ جو کہ اگلے ماہ ریٹائر ہونے والا ہے اپنی ریٹائرمنٹ سے محض ایک ماہ قبل امریکہ کا دورہ کرتا ہے اور دورے کے فوری بعد امریکی صدر ایک پالیسی بیان جاری کرتے ہویے پاکستان کو دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک قرار دے دیتا ہے۔

کیا پاکستان واقعی ایک خطرناک ملک ہے؟

دنیا کا واحد ملک جہاں فوج پورے نظام پر قابض ہے اور پچھلے چالیس سال سے شدت پسند تنظیموں کی سرپرستی کر رہی ہو اور وہ شدت پسند تنطیمیں پڑوسی ممالک میں کاروائیاں کر رہی ہوں، دنیا کے خطرناک ترین دہشتگرد جس ملک سے برامد ہو رہے ہوں۔ جس ملک کے خلاف منی لانڈرنگ اور دھشتگردوں کی فنڈنگ کے الزام ہوں۔ جہاں فوج اور ایجنسیاں شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے اور ماورائے عدالت قتل کرنے میں ملوث ہوں اور جہاں لاپتہ افراد کے لواحقین انصاف کے لیئے مارے مارے پھر رہے ہوں۔ جس ملک کے جرنیل ایٹمی مواد کی سمگلنگ میں ملوث رہے ہوں اور سیاستدان دنیا کو بار بار ایٹم بم استعمال کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے ہوں، ایسے ملک کو خطرناک نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
نو گیارہ کے بعد جب امریکی فوج افغانستان آئی تو پاکستان میں اقتدار پر قابض جرنیلوں نے امریکہ کو بھرپور تعاون کی یقین دھانی کروائی لیکن اس کے بعد فوجی جرنیل مسلسل بیس سال ڈبل گیم کھیلتے رہے۔ ایک طرف ڈالروں کے حصول کی خاطر امریکہ کو تعاون کی یقین دھانی کرواتے رہے تو دوسری طرف امریکہ سے ملنے والے ڈالر استعمال کر کے امریکہ ہی کے خلاف لڑنے والے عناصر کی مدد کرتے رہے۔ اسی دوران پاکستانی جرنیل کشمیر جہاد کے نام پر بنی شدت پسند تنظیموں کی بھی سرپرستی کرتے رہے۔ اقوام متحدہ ان تنظیموں کو دھشتگرد قرار دے کر ان پر پابندی لگاتی تھی تو یہ تنظیمیں نئے ناموں کے ساتھ دوبارہ فعال ہو جاتیں۔ اہسے ملک کو خطرناک نہیں تو اور کیا کہا جائے؟

شدت پسند تنظیموں کے زریعے لڑی جانے والی پراکسی جنگوں سے تنگ آ کر 2016 میں امریکہ اور عالمی برادری نے اس وقت کی پاکستانی حکومت کو واضع پیغام دے دیا کہ اگر پاکستان نے شدت پسندوں کی پشت پناہی نہ چھوڑی تو عالمی تنہائی کے لیئے تیار ہو جائے۔ لیکن جب اس وقت کے وزیر اعظم نے فوج تک یہ پیغام پہنچایا تو بجائے اپنے معاملات ٹھیک کرنے کے جرنیلوں نے ڈان لیکس والا ڈرامہ شروع کر دیا اور بعد میں اس وزیر اعظم کو فارغ کر دیا۔ اس کے بعد ایک فوج کا نمائندہ اور ریٹائرڈ جرنیل میڈیا چینلوں پر بیٹھ کر شدت پسندوں کو سیاست میں لانے کی بات کرتا ہے جبکہ اس وقت کا وزیر اعظم بن لادن جیسے خطرناک شخص کو شہید قرار دیتا ہے۔ اتفاق سے دنیا بھر کو مطلوب وہ خطرناک شخص پاکستان سے ہی برامد ہوتا ہے اور امریکی فوج کی کاروائی کے نتیجے میں مارا جاتا ہے۔ جس ملک کے جرنیل بائیس سال افغانستان میں موجود امریکی فوج کو لاجسٹک سپورٹ دیتے رہے ہوں لیکن امریکہ کی افغانستان سے واپسی پر اسے امریکہ کی شکست قرار دے کر جشن منائیں۔ اور پھر پاکستان میں دھشتگردی کرنے والے شدت پسندوں کے ساتھ امن معاہدے کر لیں۔ ایسے ملک کو خطرناک نہیں کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
ایٹمی طاقت کے حوالے سے بات کی جائے تو اقتدار پر قابض جرنیل اسی کی دھائی میں ایٹم بم کے ڈیزائن چوری کرنے، سمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے زریعے ایٹم بنانے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس کے بعد یہی جرنیل ایران اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹیکنالوجی بیچتے رہے اور جب یہ راز کھلا تو ڈاکٹر قدیر نامی شخص کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ دنیا کا واحد ملک جو بار بار ایٹم بم استعمال کرنے کی دھمکیاں دے اور جہاں اقتدار پر قابض جرنیل دنیا کو بلیک میل کرتے رہے ہوں کہ اگر ہماری سپورٹ نہ کی تو ہمارے ایٹمی اثاثے شدت پسندوں کے ہاتھ لگ جائیں گے۔ ایسے ملک کو خطرناک نہیں کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
جو بائیڈن کے بیان کے بعد پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے بیان کی مزمت کی جارہی ہے۔ لیکن کوئی بھی اس بیان کے پیچھے موجود محرکات پر غور کرنے اور اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیئے تیار نہیں ہے۔ کوئی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ دنیا کے دو سو ممالک میں سے صرف پاکستان کے ہی بارے میں ہر جگہ اتنی تشویش کیوں پائی جاتی ہے۔ ”

02/03/2024

یار اب تو ڈیپریشن ہونے لگ گیا ہے سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کی منافقت دیکھ دیکھ کر۔

یعنی 70 کی دھائی سے لے کر 2021 تک پاکستانی جرنیل اور ایجنسیاں افغانستان میں پراکسی جنگ کرتی رہی ہیں۔ کبھی امریکہ سے ملنے والے ڈالروں کے لیئے تو کبھی جرنیلوں کے تزویراتی گہرائی والے خواب کی خاطر اس ملک کا بیڑا غرق کر دیا۔ ان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل برباد کر دیا لیکن افغان شہری اگر گلہ کرے تو نمک حرام؟

کوئی مجھے سمجھاو یار کہ یہ افغانی نمک حرام کیسے ہیں؟

جا کر انٹرنیٹ پر سرچ کرو تاکہ تمہیں پتا چلے کہ جنرل ضیاء کے دور میں ڈالروں کی لالچ میں لاکھوں افغان مہاجرین کو پاکستان لایا گیا اور ایک ایک بندے کے عیوض امریکہ اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے ڈالر لے کر کھائے گئے۔ مہاجرین کے نام پر ڈالر کھانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ لیکن نمک حرام افغانی ہیں؟

درحقیقت افغانی نمک حرام نہیں ہیں بلکہ ان کو نمک حرام کہنے والے منافق ہیں جو سچ سننے اور جاننے سے گھبراتے ہیں۔

زرا جا کر انٹرنیٹ پر یہ بھی سرچ کرو کہ 15 ستمبر کو یورپین پارلیمنٹ نے پاکستان کے خلاف کیا قرارداد پاس کی ہے اور کس وجہ سے پابندیاں لگانے کی سفارش کی ہے۔

اپنے ملک میں شدت پسند سڑکوں پر آتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہو۔ لیکن پڑوسی ملک میں تیس سال شدت پسندوں کی سپورٹ کرتے ہوئے زرا بھی پریشانی یا ندامت محسوس نہیں ہوئی؟

نوٹ: اپنے لوگوں کی منافقت اور ڈھٹائی دیکھ کر میں اس وقت شدید غصے میں ہوں لہذا برائے مہربانی کوئی میرے منہ نہ لگے۔ ورنہ ایسی گالیاں سنے گا جو ساری زندگی نہیں سنی ہونگی۔

01/03/2024

آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرض کی رقم، اور مہنگائی یا ٹیکسوں کے زریعے عوام سے لیا جانے والا پیسہ آخر کہاں خرچ ہوتا ہے؟

ملک بھر کے سرکاری اہلکاروں کی تنخواہیں اور پنشن، بیوروکریٹس کی تنخواہیں اور مراعات، قومی و صوبائی اسمبلی ممبران اور سینٹ ممبران کی تنخواہیں اور مراعات، وزیروں مشیروں کی اضافی مراعات، ججوں کی تنخواہیں اور مراعات، بلدیاتی نمائندوں اور ضلعی انتظامیہ کی تنخواہیں، قانون نافز کرنے والے اداروں کے اسلحے، گاڑیوں اور تربیت کا خرچا، بلدیاتی تعمیر اور مینٹننس، سڑکوں، شاہراہوں کی تعمیر اور مینٹننس، بجلی گیس پانی کی تنصیبات کی تعمیر اور مینٹننس، سرکاری ہسپتالوں، اسکولوں کا خرچہ، سرکاری عمارات کی تعمیر اور مینٹننس کا خرچہ، غیر ملکی سفارتخانوں کا خرچہ، وزراء کے سرکاری دوروں کا خرچہ، عوام کو دی جانے والی سبسڈیاں، غیر ملکی وفود کی میزبانی کا خرچہ وغیرہ۔ وزراء، مشیروں، ججوں، بیوروکریٹوں کو ملنے والی مراعات بیش قیمت گاڑیوں، مفت پیٹرول، مفت بجلی، گیس، ذاتی ملازمین، ریلوے اور ہوائی سفر کے لیئے مفت ٹکٹوں پر مشتمل ہیں۔ ہزاروں افراد کو ملنے والی کروڑوں روپوں کی مراعات کا حجم آپ خود طے کر لیجیئے۔ یہ تمام خرچے بجٹ کے کس کھاتے میں دکھائے جاتے ہیں یہ جاننا بہت ضروری ہے۔

فوج کے تحت چلنے والے کینٹونمنٹ کے علاقے، سنکڑوں ہسپتال، سینکڑوں تعلیمی ادارے، سینکڑوں میس، کلبز وغیرہ کا خرچہ، فوجی اہلکاروں کی تنخواہیں اور پنشن، فوجی افسران کی تنخواہیں اور مراعات، فوج کی تربیت پر ہونے والا خرچہ، اسلحہ، فولہ بارود، ٹینکوں، طیاروں، ہیلی کاپٹروں بحری جہازوں اور دیگر سازو سامان کی خریداری اور مینٹیننس کا خرچہ، فوج کی اضافی خدمات کا خرچہ، متعدد انٹیلیجنس ایجنسیوں کا بجٹ، ایٹمی تنصیبات اور میزائل پروگراموں کا بجٹ، فوجی افسران کو دیئے جانے والے پلاٹ اور زمینیں، فوج کے تحت چلنے والے سینکڑوں کاروباری اداروں کا خرچہ۔ دفاعی بجٹ کے بعد سپلیمنٹری بجٹ کے تحت وصول کی جانے والی رقوم۔ یہ تمام خرچے کسی بھی سولین آڈٹ سے مبرا ہیں لہذا یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ ان خرچوں میں سے کونسے دفاعی بجٹ میں دکھائے جاتے ہیں اور کونسے سولین بجٹ میں۔ یا کونسے خرچے سرے سے دکھائے ہی نہیں جاتے۔

ان تمام خرچوں میں سے کونسے ضرورت کے زمرے میں آتے ہیں اور کونسے عیاشی کے یا کونسے خرچے ختم ہونے چاہیئے ہیں اور کونسے نہیں یہ فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق رواں سال ٹیکسوں، ڈیوٹیوں اور دیگر زرائع سے وصول ہونے والی رقم کا ہدف سات اعشاریہ پانچ کھرب تھا لیکن تاحال صرف تین اعشاریہ چار کھرب کی وصولی ہوئی ہے۔ دوسری طرف حکومتی خرچوں کا حجم ساڑھے نو کھرب روپے تھا اور اب تک ہونے والے خرچے ہدف سے تجاوز کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ رونیو کے غلط اہداف دینے پر آئی ایم ایف نے حکومتی ٹیم کی سرزنش بھی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ جو اضافی تین سے چار کھرب روپے کا خرچہ ہے یہ اندرونی و بیرونی قرض لے کر پورا کیا جائے گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ملک پر چڑھے مجموعی قرضے کا حجم 270 ارب ڈالر ہو چکا ہے جس میں 130 ارب ڈالر بیرونی قرضہ ہے۔ ڈالر کے نئے ریٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ رقم 63 کھرب بنتی ہے جبکہ حکومت کی کریڈٹ ریٹنگ خراب ہونے کے باعث مزید قرضے ملنے بہت مشکل ہو چکے ہیں۔

نوٹ: میرے ذہن میں جو خرچے آ رہے تھے میں نے لکھ دیئے ہیں۔ اگر آپکے ذہن میں مزید کچھ ہو تو اضافہ کر دیجیئے۔

01/03/2024

کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ دل کی بات زبان پر لاوں مگر پھر یہ سوچ کر چپ ہوجاتا تھا کہ بلاوجہ خطرہ مول لے کر بے حس لوگوں کو جھنجوڑنا بے فائدہ ہی ہوگا۔ لیکن موجودہ حالات میں جب عوام کی سانسیں تنگ کردی گئی ہیں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ مسائل کی اصل جڑ کے بارے میں کچھ لکھوں۔ درحقیقت حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عوام کو اپنی بربادی کے ذمہ داروں سے جواب طلب کرنا پڑے گا ورنہ لوگ بھوک اور بیماری کے ہاتھوں سسک سسک کر مر جائیں گے اور کوئی افسوس کرنے والا نہ ہو گا۔

ملک خطرے میں، اندرونی اور بیرونی دشمن، اندرونی و بیرونی سازش، ریاست کا دفاع، نظریاتی سرحدوں کا دفاع، وسیع تر قومی مفاد، دفاعی اداروں کا مورال، ملک دشمن عناصر، ففتھ جنریشن وار، سیکیورٹی سٹیٹ، دھشتگردی کے خلاف جنگ، کشمیر کی آزادی یہ وہ بیانیئے ہیں ہے جو نسل در نسل چلتے آ رہے ہیں اور ان کی بنیاد پر چوکیدار بتریج ریاست کا مالک بن بیٹھا ہے جبکہ اصل مالکان یعنی عوام تحفظ، سکون، بنیادی صہولتوں اور عزت نفس سے محروم ایک غیر ضروری وجود بن کر رہ گئے ہیں۔ بھوک سے بلکتے، بے روزگار، تعلیم سے محروم، علاج کو ترستے، پولیس، رینجرز ایف سی وغیرہ سے تھپڑ، لاٹھیاں کھاتے، چوکوں پر ہاتھ اٹھائے تلاشیاں دیتے عوام۔ کہنے کو تو اس ریاست کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن اس میں جمہور کی کوئی اوقات نہیں جبکہ اسلام کے نام پر شدت پسندی اور فرقہ واریت کی اجارہ داری ہے۔ گزشتہ ستر سالوں میں فوج بتدریج ریاست کے سیاسی نظام اور تمام وسائل پر قابض ہو چکی ہے جبکہ مولوی اس فوج کے اثاثے بن چکے ہیں جنہیں عوام اور سیاستدانوں کو خوفزدہ کرنے اور حدود میں رکھنے کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے۔

فوج میں کمیشن لینے والا ہر افسر سیاست سے دور رہنے کا حلف اٹھاتا ہے لیکن عملی طور پر یہی حلف یافتہ افسران چار بار برایراست اقتدار پر قابض ہوئے اور رفتہ رفتہ پورے سیاسی نظام کو اپنے تابع کر لیا۔ اس پر ستم یہ کہ ایک منظم قسم کی پراپگینڈہ مہم کے زریعے تقدص کی چادر اوڑھتے ہوئے براہراست نام لیئے جانے پر بھی غیر اعلانیہ پابندی عائد کردی جس کے باعث فوج کی بجائے لوگ اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرنے لگے۔ نہ صرف یہ بلکہ فوج اپنے آپ کو وزارت دفاع کے ماتحت ایک محکمے کی بجائے حساس ادارہ قرار دینا شروع کر دیا جس پر تنقید کرنا جرم سمجھا جاتا تھا۔ اگر کسی شہری سے یہ جرم ہوا جائے تو وہ غائب یا قتل کر دیا جاتا تھا اور اس کے لیئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ غرض یہ کہ چار مارشل لاوں اور سیاسی نظام پر کنٹرول کے زریعے فوج نے ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کرلی۔ تقدص کی آڑھ لیتے ہوئے دفاعی بجٹ کو عوامی احتساب سے محفوظ کیا گیا اور معیشت کے متوازی ایک نئی معیشت قائم کی گئی۔ دفاع کے نام پر زرعی زمینوں پر قبضے کیئے گئے اور فوج کے زیر تسلط کینٹونمنٹ کے علاقوں کے علاوہ مزید شہری زمینں الاٹ کروا کر ان پر ہاوسنگ سوسائیٹیاں تعمیر کی گئیں۔ دولت بنانے کی لالچ میں ریئل سٹیٹ مافیاز قائم کی گئیں۔ عوام کو کاروباری سرمایہ کاری کی بجائے ریئل سٹیٹ میں سرمایہ کاری کی طرف مائل کیا گیا تاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے پلاٹ کروڑوں کے بکیں جبکہ خود ریٹائرڈ فوجیوں کی فلاح و بہبود کے بہانے فلاحی اداروں کی آڑھ میں بڑے بڑے کاروباری ادارے بنا لیئے جن کو چلانے کے لیئے حکومت سے سبسڈیاں اور ٹیکسوں میں چھوٹ طلب کی گئی۔ اس کے بعد ملک کی معیشت کمزور ہوتی چلی گئی جبکہ فوجی معیشت پھلتی پھولتی چلی گئی۔ عوام کی اکثریت دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے چکر میں لگ گئی جبکہ فوجی افسران ارب پتی بنتے چلے گئے۔

کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ احتساب سے بچنے کے لیئے پورے سیاسی نظام پر تسلط قائم کر لیا گیا۔ اپنی مرضی کے افراد کو سیاست میں اوپر لایا گیا ہر محکمے، ہر ادارے میں ریٹائرڈ فوجیوں کو گھسا کر ان پر اجارہ داری قائم کی گئی۔ پولیس اور دیگر عوامی محکموں میں ترقی اور ریفارمز کو زبردستی روکا تاکہ شہری امن و امان کے شعبے میں اور قدرتی آفات کے نتیجے میں فوج کے محتاج رہیں۔ انٹیلیجنس ایجنسیوں کے زریعے مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے اعلی عدلیہ کو قابو کیا گیا تاکہ باغی سیاستدانوں کے خلاف من پسند فیصلے لیئے جا سکیں۔ دوسری طرف دفاع کی آڑھ میں خارجہ پالیسی پر تسلط قائم کیا گیا۔ پڑوسی ممالک سے تعلقات اور تجارت کو جرنیلی مفادات کے تحت لایا گیا اور عالمی طاقتوں کے ساتھ فوجی مفادات کے تحت تعلقات قائم کیئے گئے۔ ان مفادات کی خاطر مزہبی شدت پسندی کو فروغ دیا گیا اور شدت پسندوں کی پرورش کی گئی۔ کشمیر اور افغانستان کے حوالے سے پراکسی جنگیں لڑیں جن میں نوجوان شہریوں کو ورغلا کر بطور ایندھن استعمال کیا گیا۔ شدت پسند تنظیموں کے قیام اور ان کی پرورش کے لیئے منی لانڈرنگ کی گئی۔ مغربی سرحدی علاقوں میں حالات خراب کر کے وہاں مسلسل ڈیرہ ڈال لیا۔ بلوچستان اور فاٹا کے حالات خراب کرنے کے پیچھے واحد مقصد مغربی سرحد سے ہونے والی سمگلنگ پر اجارہ داری قائم کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں کے مسائل کو سیاسی طریقوں سے کرنے کی بجائے فوجی حل پر زور دیا جاتا رہا اور کبھی امن و امان قائم نہ ہونے دیا گیا۔ اسی فوج نے ایٹمی ہتھیاروں کے زریعے دنیا کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور نیئوکلیر مواد کی فروخت میں بھی ملوث رہی ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر عالمی تنظیموں نے پاکستان پر سفارتی و معاشی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔

پھر ایک وقت آیا اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر یہ فوج اس حد تک چلی گئی کہ ملک کا پورا سیاسی و سماجی نظام الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ مختلف زعائع سے پراپگینڈے کے زریعے عوام کو یہ باور کروا کر کہ تمام سیاستدان چور، ڈاکو اور دشمنوں کے ایجنٹ ہیں بدکردار، بد قماش اور نااہل قسم کے افراد پر مشتمل ایک پارٹی بنا کر اسے اقتدار پر مسلط کر دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ عوام کے ایک بڑے حصے کو یہ یقین دلا دیا گیا کہ یہی نئے لوگ نجات دھندہ ہیں۔ کٹھپتلیوں کو مسند اقتدار پر بٹھا کر چار سال کے دوران ہولناک قسم کی لوٹ مار کی گئی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیئے کہ پچھلے ستر سالوں کے دوران معیشت پر چڑھنے والے قرضوں کو چار سال میں دوگنا کر دیا گیا جبکہ تعمیری یا ترقیاتی کام صفر ہو گئے۔ کٹھپتلیوں ست چور چور کا شور مچوا کر خود بڑی بڑی چوریاں کیں۔ لوٹ مار میں ایک دوسرے سے مقابلہ شروع ہو گیا کہ کون زیادہ مال بناتا ہے۔ لیکن پھر جب لوٹ مار کے نتائج سامنے آئے تو پتا چلا کہ یہ تو پوری بساط ہی لپٹنے لگی ہے۔ معیشت دیوالیہ ہو گئی تو تنخواہوں اور مراعات کے لالے پڑ گئے۔ اوپر سے عوام نے براہراست الزام لگانا شروع کر دیئے۔ ایسے میں فوج نے نیا پینترا بدلہ اور اپنے آپ کو نیوٹرل قرار دے کر عوام کی گالیاں کھانے کے لیئے نئی کٹھپتلیوں کو سامنے لے آئی۔ ظاہر ہے فوج کی نرسریوں میں تیار کی گئی کھیپوں میں ایسے سیاستدانوں کی کمی نہیں جو اقتدار کی لالچ میں گالیاں کھانے کو تیار ہو جائیں۔ اس نئی حکومت نے آتے ہی معیشت کو بہتر کرنے کے جھوٹے دعوے کیئے اور عوام کے گلے پر چھری پھیرنی شروع کر دی۔ معیشت تباہ ہے۔ پیداوار گھٹ چکی ہے، کاروبار بند ہو چکے ہیں، عوام بیروزگار ہو رہی ہے، درامداد بڑھ رہی ہیں اور برامداد کم ہوتی جا رہی ہیں، حکومتی آمدن سکڑ رہی ہے اور قرضے بڑھ رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف معیشت کی بربادی کے اصل ذمہ دار بدستور عیاشی کر رہے ہیں اور وہ عوامل جن کے باعث معیشت برباد ہوئی بدستور موجود ہیں۔

اگر حالات کچھ عرصے مزید ایسے ہی رہے تو شاید عوام کی اکثریت دو وقت کی روٹی کو بھی ترسے گی لہذا بہتر یہی ہو گا کہ عوام اب اپنا قبلہ درست کر لیں۔ سب سے پہلے فوج پر جھوٹا فخر کرنا چھوڑ دیں کیونکہ آپ کی بربادی کی اصل ذمہ دار یہ فوج ہی ہے اور اس فوج نے آج تک کوئی قابل قدر معرکہ انجام نہیں دیا ہے سوائے اپنے عوام کے خلاف جنگ کرنے کے۔ تقدص کی جعلی پٹی آنکھوں سے ہٹائیے اور یہ بات ذہن نشین کر لیجیئے کہ موجودہ حالات میں یا تو عوام زندہ رہ سکتے ہیں یا فوج اور اس کے سائے میں کام کرنے والے ججوں، سیاستدانوں اور افسر شاہی کی عیاشی قائم رہ سکتی ہے۔ اگر خود زندہ رہنا ہے اور اپنے بچوں کو بھی زندہ رکھنا ہے تو اپنا حق مارنے والوں کے خلاف آواز بلند کرنی ہو گی۔ فوج سے ماضی میں کی گئی سیاسی مداخلت اور سیاسی انجنیئرنگ کاحساب طلب کرنا ہو گا۔ عاصم باجوہ، کیانی، افضل اور ان جیسے دیگر کرپٹ ارب پتی جرنیلوں سے ان کی دولت حساب مانگنا ہو گا۔ پاپا جونز، اور کرونا فنڈ کا حساب مانگنا ہو گا۔ پینڈورا لیک، سوئس لیک میں نام آنے والے جرنیلوں سے حساب طلب کرنا ہو گا۔ فوجیوں اور ان کے خاندانوں کا سماجی بائیکاٹ کرنا ہو گا۔ انہیں ان کی حرکتوں پر شرمندہ کرنا اور احساس دلانا ہو گا کہ تحفظ کے نام پر یہ عوام کا حق مارتے آئے ہیں۔

01/03/2024

پاکستانی اس تصویر کو بغور دیکھیں اور جلنے بھننے کی بجائے ٹھندے دل سےسوچیں:

جس شخص کو آپ ظالم اور برا کہتے ہیں ساری دنیا اس کی عزت کرتی ہے۔ خاصکر عرب ممالک میں نریندر مودی کو بڑی محبت اور احترام دیا جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ کیا ساری دنیا پاگل ہے اور اکیلے آپ ہی ہوشمند ہیں؟

جی ہاں یہ وہی عرب امارات ہے جہاں جب آپ کے وزراء اعظم جاتے ہیں تو کوئی وزیر یا وزارت خارجی کا عام سا نمائندہ آ کر استقبال ہرتا ہے جبکہ بھارتی وزیر اعظم کا استقبال کرنے شاہ خود پہنچ گیا۔ استقبال کس قدر پرتپاک تھا اس کا اندازہ گلے ملنے کے دوران گرم جوشی سے لگایا جا سکتا ہے۔

نریندر مودی کے دور میں بھارت نے عالمی منڈی میں اپنی جگہ بنائی اور دیکھتے ہی دیکھتے صرف گلوبل ویلیو چین کا حصہ ہی نہیں بنا بلکہ دنیا پر چھا گیا۔ آج ساری دنیا میں بھارتی سرمایہ دار سرمایہ کاری کر رہے ہیں جبکہ عالمی سرمایہ دار بھارت میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یورپ، امریکہ، افریقہ، وسطی ایشیا سے لے کر عرب ممالک تک سب بھارت سے دیرینا سفارتی و تجارتی تعلقات رکھتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کو دنیا میں شدت پسندوں کی سرپرستی کرنے والی ایک غریب بھک منگی ریاست کر طور پر جانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نمائندے جہاں بھی جاتے ہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ تباہ شدہ معیشت کا حامل ملک جو بھیک اور قرضوں سے چل رہا ہو اور خام مال کے علاوہ عالمی منڈی میں بیچنے کے لیئے اس کی اپنی کوئی مصنوعات نہ ہوں۔ جس کے حکمران جب غیر ملکی دورے کرتے ہوں تو بھیک مانگنے یا قرضے مانگنے کے لیئے۔ ان حکمرانوں کو کون عزت دے گا؟

کیا آپ کا دل نہیں کرتا کہ دنیا میں ہماری بھی کوئی مقام کوئی عزت ہو؟
کیا آپ کی خواہش نہیں کہ ہمارا ملک گلوبل ویلیو چین کا حصہ ہو۔ ہم دنیا سے تجارت کریں، اور اپنی صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے دنیا کو فائدہ پہنچائیں؟
کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہمارے عوامی نمائندے جب غیر ملکی دورے کریں تو بھیک مانگنے کے لیئے نہیں بلکہ کچھ دینے اور بدلے میں کچھ لینے جائیں؟
کیا آپ کو اچھا نہیں لگے گا جب ہمارے وزراء اعظموں کا بھی ایسے ہی پرتپاک استقبال ہو؟

یاد رہے کہ پاکستان کی اس بربادی کے ذمہ دار صرف اور صرف جرنیل اور ان کے ماتحت فوج کا محکمہ ہے جس نے وسائل پر قبضے کی خاطر ملک کا حال اور مستقبل دونوں تباہ کر دیئے ہیں۔ فوج کے جرائم میں سیاسی انجنیئرنگ، شدت پسندوں اور دھشتگردوں کہ ہمایت اور فندنگ، ایٹمی مواد کی خفیہ فروخت، عدالیہ، انتظامیہ اور پارلیمنٹ پر دباو، پالیسی سازی میں دخل اندازی، حکومتوں کو گرانا، معاشی معاملات میں مداخلت، قومی معیشت کے اندر اپنی معیشت قائم کرنا، ہر کاروبار میں ہاتھ ڈالنا اور اثر رسوخ استعمال کر کے مسابقت کی فضاء کو ختم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ ابھی کل ہی ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے برملا اعتراف کیا ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت ہی نہیں خرتی بلکہ اپنی مرضی کی حکومتیں بناتی ہے۔

فوج کو سیاست اور پالیسی سازی سے دور کر کے ان کو بیرکوں میں واپس بھیجنا وقت کی اہم ضرورت۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مزید ذلت اور تباہی ہمارا مقدر ہو گی۔

29/02/2024

عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق پاکستانی عادی بھکاری بن چکے ہیں۔ بار بار قرضے مانگتے ہیں۔ ایک حکومت وعدے کر کے قرضے لیتی ہے اور کچھ دن بعد اسے چلتا کر کے نئی حکومت آ جاتی ہے جو تمام وعدوں سے مکر جاتی ہے۔ پھر تھوڑے عدصے بعد نئی حکومت نئے وعدے کر کے قرضے لیتی ہے اور اسے بھی گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ ایک حکومت آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے تو دوسری حکومت چین سے قرضے لے لیتی ہے۔ پھر نئی حکومت آتی ہے اور کشکول ہاتھ میں لے واپس آئی ایم ایف کے پاس پہنچ جاتی ہے۔

ورلڈ بینک اور ایشین ڈولپمنٹ بینک سے ترقیاتی منصوبوں کے لیئے قرضے لے کر کھا گئے۔ آئی ایم ایف سے مالیاتی قرضے لے کر کھا گئے۔ چینی بینکوں سے قرضے لے کر کھا گئے۔ اور اب کنگال ہو کر ہر کسی کی منتیں کر رہے ہیں۔ عالمی اداروں نے پاکستان کی معاشی زبوں حالی کی وجہ نظام پر فوج کے کنٹرول اور جارحانہ خارجی عزائم کے باعث وسائل کے ضیاع کو قرار دیا ہے۔ چینی قرضوں کی واپسی کے باعث زر مبادلہ کے ذخائر میں غیر معمولی کمی کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف نے نہ صرف 2019 کے پروگرام کی آخری قسط روک لی ہے بلکہ ساتھ ہی پاکستانی معیشت کو غیر مستحکم یعنی unsustainable قرار دے دیا ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے قرضہ روکے جانے کے بعد دوست ممالک نے بھی ہر طرح کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اس بار آئی ایم ایف بضد ہے کہ معاشی استحکام کے حوالے سے مناسب انتظامات کیئے جائیں۔ ظاہر ہے معاشی استحکام کے لیئے سیاسی استحکام لازمی ہے اور سیاسی استحکام اسی صورت میں ممکن ہے جب نظام پر فوج کی اجارہ داری ختم ہو۔ فوج کی اجارہ داری ختم ہو گی تو ہی ریاستی وسائل، قرضوں، امداد کی رقم کا استعمال عوام پر ہو گا اور معاشی ترقی ممکن ہو پائے گی۔ آس حوالے سے آئی ایم ایف نے دفاعی بجٹ میں کمی کے علاوہ فوج اور اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات پر کٹ لگانے کی شرط عائد کی جسے فوج کے تابع سولین حکومت نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور بدلے میں ایسی تجاویز پیش کیں جن سے عوام پر باقابل برداشت بوجھ پڑ رہا تھا۔ آئی ایم ایف نے یہ تجاویز نامنظور کر دیں اور معاملہ لٹک گیا۔

آئی ایم ایف کی شرائط منظور نہ کرنے کے باعث پروگرام تعطل کا شکار ہوا تو حکومت نے عوام کو دکھانے کے لیئے نیا ڈرامہ شروع کر دیا کہ آئی ایم ایف ایٹمی اور میزائل پروگرام بند کروا رہا ہے۔ دوسری طرف چین کی منت کر کے قرض واپسی کی مد میں چین کو دی جانے والی رقم دوبارہ واپس لے لی اور ساتھ ہی کچھ قرضہ ری شیڈول بھی بھی کروا لیا ہے۔ اب عوام کو بتایا جائے گا کہ ہم غیرت مند قوم ہیں اور ہم نے آئی ایم ایف کی غلامی سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن در پردہ آئی ایم ایف کی منتیں بھی جاری رکھی جائیں گی کہ شاید کام بن جائے۔ عوام کو یہ نہیں بتائیں گے کہ آئی ایم ایف فوجی بجٹ، فوجی مراعات اور اشرافیہ کی مراعات میں کمی چاہتا ہے۔ عوام کو یہ بھی نہیں بتایا جائے گا کہ موجودہ حکومت بھی گزشتہ حکومت کی طرح فوج کی مدد سے اقتدار میں آئی ہے اور فیصلہ سازی بدستور فوج کے ہاتھ میں ہے۔ عوام کو یہ بھی نہیں بتایا جائے گا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کی بجائے چین سے قرضے لینے کے نقصانات کیا ہونگے۔ عوام کو یہ بھی نہیں بتایا جائے گا کہ تھوڑے عرصے بعد جب دوبارہ چینی قرضے واپس کرنے کا ٹائم آئے گا تو کیا ہو گا۔

29/02/2024

سیاسی ڈرامے کی آڑھ میں جو اہم خبر سب سے چھپا لی گئی ہے وہ ہے کابل میں ٹی ٹی پی سے پاکستانی فوج کے مزاکرات۔ ان مزاکرات میں پاکستانی فوج نے یہ شرط قبول کر لی ہے کہ مالاکنڈ سمیت جہاں جہاں بھی ٹی ٹی پی کا آثر رسوخ ہے وہاں آئین پاکستان لاگو نہیں ہو گا بلکہ سٹوڈنٹس کا اپنا قانون ہو گا۔ یاد رہے کہ 2015 میں فوج نے ضرب عصب نامی آپریشن کیا تھا اور عوام کو اربوں روپوں کا چونا لگانے کے بعد اعلان کیا تھا کہ ہم نے دھشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ یہ وہی دھشتگرد ہیں جن کے آگے اب ہتھیار ڈالے جا رہے ہیں اور عملی طور پر انہیں ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ یعنی سوات اور وزیرستان وغیرہ کے علاقوں میں 2009 سے پہلے جو صورتحال تھی وہ واپس آ جائے گی۔

اس ملک کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو خارجہ اور داخلی پالیسی ہمیشہ سے فوج کے قبضے میں رہی ہے۔ فوج کے کارپوریٹ مفادات کو برقرار رکھنے کی خاطر ستر سال سے بیرونی دنیا کو مسلسل یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس تاثر کو بنیاد بنا کر مسلسل امریکہ سے اسلحہ اور امداد بٹوری گئی۔ 2001 کے بعد سے اس تاثر میں یہ بیانیہ بھی شامل کر دیا گیا پاکستان اندرونی طور پر دھشتگردی کا شکار ہے۔ پھر اس دھشتگردی کے خطرے کی بنیاد پر کئی سال امریکہ سے ڈالر بٹورے گئے۔ لیکن اس سب کا ایک شدید منفی پہلو تھا جو کہ عوام کو بھگتنا پڑا۔ یعنی اندرونی اور بیرونی خطرات کے ہوتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ لوگ باہر سے آ کر پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے، اور کاروبار یا سیاحت کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی معیشت ہمیشہ پسماندہ رہی اور قرضے بڑھتے چلے گئے۔

امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کے بعد چونکہ جرنیلوں کو ڈالر ملنے بند ہو چکے ہیں لہذا ٹی ٹی پی کے خطرے کو دوبارہ ایک ہوا بنا کر پیش کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اپنی عیاشیوں کے چکر میں جرنیل ایک بار پھر بے گناہ عوام کو ٹی ٹی پی کے ہاتھوں یرغمال بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس خطرے کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جائے گا اور ضرب عصب کی طرز کے جعلی آپریشنوں کے نام پر عوام کو ایک بار پھر نچوڑا جائے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام غفلت کی نیند سے جاگے اور فوج کے مقدص گائے والے پراپگینڈے سے نجات حاصل کر کے جرنیلوں کے احتساب کا مطالبہ کرے۔ سوئس لیکس میں سامنے آنے والے جنرل اختر عبدالرحمن کے تین ارب ڈالر، پینڈورا لیکس میں سامنے آنے والی جرنیلوں کی کمپنیاں اور کاروبار، عاصم باجوے کے پاپا جونز وغیرہ کا حساب مانگا جائے اور ستر سال ملک کو بیرونی سرمایہ کاری سے محروم رکھنے والوں کا احتساب کیا جائے۔
Junaid Malik

29/02/2024

گزشتہ کئی دنوں سے ن لیگ والے شور مچاتے رہے تھے کہ ہمیں مشکل فیصلے کرنے ہیں۔ کل جا کر پتا چلا کہ یہ مشکل فیصلہ آئی ایم ایف کے کہنے پر پیٹرول کی قیمتیں بڑھانا تھا۔ ارے بھائی اگر یہ مشکل فیصلہ تھا تو ایسے مشکل فیصلے تو نیازی مسلسل لیتا رہا ہے اور ہر تھوڑے دنوں کے بعد پیٹرول کی قیمتیں بڑھاتا اور عوام پر مہنگائی کے بم گراتا رہا ہے۔

اس حوالے سے میں شہباز شریف اور مفتاح اسماعیل سے چند سوال کرنا چاہتا ہوں۔

کیا آئی ایم ایف کی سفارشات میں یہ شق شامل نہیں کہ دفاعی بجٹ اور فوجی اشرافیہ کی مراعات کم کی جائیں؟ کیا آئی ایم ایف نے یہ نہیں کہا کہ غیر ضروری حکومتی خرچے کم کیئے جائیں؟
کیا آئی ایم ایف نے یہ شرط نہیں پیش کی کہ سرکاری افسران اور ججوں کو دی جانے والی غیر معمولی مراعات ختم کی جائیں؟
کیا آئی ایم ایف نے اس بات پر اعتراض نہیں کیا کہ ایک مقروض ملک میں فوجی اور سرکاری افسران کو کروڑوں روپوں کی بڑی بڑی گاڑیاں اور ان کے لیئے مفت پیٹرول کئوں دیا جاتا ہے؟

جہاں تک میری معلومات ہیں آئی ایم ایف نے مزاکرات کے ہر دور میں درج بالا خرچوں کو کم کرنے پر زور دیا ہے لیکن کوئی بھی حکومت اس معاملے کو چھیڑنے پر تیار نہیں۔ الٹا ہیٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھا برھا کر عوام کو مزید مارا جا رہا ہے۔

سب سے اہم بات یہ کی ن لیگ والے اسرار کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نیازی نے کیا تھا اور اس میں ہمارا قصور نہیں۔

کیا معاہدے کی شرائط پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی تھی؟
کیا ماضی میں متعدد بار ایسی نظر ثانی نہیں ہوئی؟
نیازی کی طرف سے کی گئیں انتخابی اصلاحات اور نیب قوانین پر نظر ثانی ہو سکتی ہے تو آئی ایم ایف کے معاہدے پر کیوں نہیں؟
پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے کی بجائے غیر ضروری دفاعی اخراجات، سول و فوجی افسران اور ججوں کی پرتعیش مراعات اور پارلیمنٹ کے ارکان کے شاہی اخراجات اور پروٹوکول ختم کر دیئے جاتے تو کیا حرج تھا؟

29/02/2024

پچھترویں یوم آزادی کا جشن منانے والوں، موٹر سائکلوں کے سائلنسر نکال کر دوڑانے، رنگ برنگے باجوں سے پاں پاں کرنے اور چودہ اگست کے حوالے سے آئی ایس پی آر کے بنائے گئے نئے گانوں کی دھن پر ناچنے والوں سے گزارش ہے کہ خدارا ایک لمحے کے لیئے رکیں اور اپنی حالت پر غور کریں۔ جس ملک یا جس قوم کی آزادی کا آپ جشن منا رہے ہیں آج اس کی حالت کیا ہے؟

گزشتہ ستر سال سے وردی پوش اور ریٹائرڈ جرنیل آپکی سیاسی، انتظامی، خارجی اور معاشی پالیسی پر قابض ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ٹریننگ جنگ لڑنے کی ہے لہذا یہ ہر معاملے کو جنگی زاویئے سے دیکھتے ہیں۔ انہیں سفارتکاری، معیشت یا انتظامی امور کا نہ کل تجربہ تھا اور نہ آج ہے۔ سیاسی و انتظامی معاملات پر قابض ہو کر، پڑوسی ممالک سے دشمنیاں پیدا کر کے آپکو مسلسل جنگ کے خوف میں مبتلاء رکھ کر، ملک کے جغرافیائی محل وقوع کی بنیاد پر عالمی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کر کے اور ان کی جنگوں کا حصہ بن کر، ملک کو تجارت کی بجائے امداد اور قرضوں کے جال میں پھنسا کر، تژویراتی گہرائی کے نام پر شدت پسند گروہوں کو پال کر، ملک میں فرقہ واریت اور شدت پسندی کو فروغ دے کر، آپکو دھشتگردی کے خوف میں مبتلاء کر کے، ملک کی زمینوں پر قابض ہو کر، عالیشان ہاوسنگ سوسائٹیاں بنا کر، ملکی وسائل کے زریعے اپنی کاروباری ایمپائر کھڑی کر کے پچھلے ستر سال سے یہ فوجی جرنیل اپنے اور اپنے اپنی نسلوں کے مستقبل سنوارتے جبکہ آپکا اور آپکے بچوں کا مستقبل بگاڑتے آ رہے ہیں۔ کیا آپکو یہ سب نظر نہیں آتا؟

آج آپکی حالت یہ ہے کہ آپ عالمی برادری کی نظر میں اپنی وقعت اور اہمیت کھو کر مکمل سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر تباہ حال ہو چکے ہیں جبکہ دنیا کو آپ کے معاملات سے اب کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عالمی فورمز میں آپکی شرکت صفر ہو چکی ہے۔ نہ کوئی آپکو بلاتا ہے نہ آپکے یہاں آتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے آپکی معیشت کو ڈوبتی ہوئی معیشت قرار دے رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ اور دھشتگردوں کی فنڈنگ کے الزام میں آپ پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ مسلسل تنازعات اور دراندازی کے باعث بھارت اور افغانستان آپکے دشمن بن چکے ہیں۔ ایران سے تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔ دوغلی پالیسیوں کے باعث امریکی آپ سے ناراض ہو کر لاتعلق ہو چکے ہیں۔ سی پیک کے معاہدے پر چین کے ساتھ دھوکہ کرنے پر چین آپ کی مزید ہمایت یا مدد کرنے سے انکاری ہو چکا ہے۔ مسلسل مالی مدد کرنے والا سعودی عرب بھی آپ سے نالاں ہے اور آپکی مزید امداد کرنے میں حیل و حجت سے کام لے رہا ہے۔

معیشت کی بات کی جائے تو پچھلے ساٹھ سالوں میں آپ پیداوار، کاروبار، تعمیر و ترقی اور ایکسپورٹ کے حوالے سے جمود کا شکار ہیں۔ تعلیم پر آپ نے کبھی سرمایہ کاری نہیں کی۔ نوجوان نسل کو تعلیم اور ہنر سے محروم رکھا۔ انفرا سٹرکچر اور انرجی کے شعبوں میں آپکی ترقی نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر آج دنیا کو دینے کے لیئے آپکے پاس کچھ نہیں لہذا آپ گلوبل ویلیو چین کا حصہ نہیں ہیں۔ آپکے ملک میں صرف امپورٹ، کھانے پینے اور ریئل سٹیٹ کے شعبے کام کر رپے ہیں جن کا عالمی تجارت سے کوئی سروکار نہیں۔ آپکا تجارتی خسارہ، بجٹ خسارہ اور روپے کی قدر میں گراوٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ انرجی سیکٹر میں آپ صفر ہیں۔ پیٹرول ڈیزل امپورٹ کرتے ہیں۔ بجلی کی کمی کا شکار ہیں۔ آپکے اندرونی و بیرونی قرضے قومی پیداوار کے برابر پہنچ چکے ہیں اور ان کی قسطیں دینے کے لیئے آپ مزید قرضے لینے پر مجبور ہیں۔ یہ ایسے عوامل ہیں جن سے نمٹنے کے لیئے آپ کے پاس نہ کوئی منصوبہ بندی ہے نہ کوئی حل۔

سماجی و سیاسی طور پر آپ تباہ حال ہو چکے ہیں۔ جدید یونیورسٹیوں کی بجائے آپ نے تیس چالیس سال جہادی مدرسوں کے قیام پر زور دیئے رکھا۔ سائنسدانوں اور انجنیئروں کی بجائے دینی عالم پیدا کرتے رہے۔ حب الوطنی اور مزہب کے نام پر آزادی اظہار رائے اور صحتمندانہ بحث مباحثوں پر پابندیاں عائد کرتے رہے۔ فوجی جرنیل تعلیمی اداروں پر ریاستی اثر رسوخ قائم کر کے نوجوان نسل کے ذہنوں کو آلودہ کرتے رہے۔ انہیں ففتھ جنریشن وار کا سبق پڑھاتے رہے۔ عوام کو سیاسی شعور دینے کی بجائے سیاستدانوں کو چور اور جمہوریت کو ایک برا نظام بنا کر پیش کرتے رہے۔ سیاسی انجنیئرنگ کے زریعے کٹھپتلیوں کو اقتدار میں لاتے اور نکالتے رہے۔ سیاسی ارتقاء سے ہمیشہ دور رہے۔ اپنے ہم وطنوں میں غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹتے رہے۔ نوجون نسل کو ہنر سکھانے کی بجائے انہیں مولوی کے پیچھے لگائے رکھا۔ فرقہ واریت کو فروغ دیا۔ جہاد کے نام پر اپنے ملک کے نوجوانوں کو پڑوسی ممالک بھیجتے رہے اور مرواتے رہے۔ دھشتگردوں کی پرورش اور درپردہ حمایت کرتے رہے۔ اپنے ہی شہریوں کے خلاف جنگ کرتے رہے۔ شہریوں کو ماورائے عدالت گرفتار اور قتل کرتے رہے یا جبری طور پر لاپتہ کرتے رہے۔ نفرتوں کو ہوا دیتے رہے۔

آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ آپ دنیا میں تنہا ہو چکے ہیں، سیاسی معاشی اور سماجی طور پر تباہ حال ہو چکے ہیں۔ لہذا ایسے میں یہ غیر حقیقی آزادی کا جشن منانے کی بجائے بہتر ہو گا کہ بطور شہری آپ حقیقی آزادی کی جستجو کا آغاز کیجیئے اور اپنے حقوق کی خاطر آواز اٹھائیے۔ یاد رہے کہ بحیثیت عوام آپ رہاست کے مالک ہیں اور ریاست کا فرض آپکو صحت، تعلیم، ترقی، روزگار، تحفظ، صحتمند معاشرہ اور آزادانہ ماحول فراہم کرنا ہے۔ آپکے وسائل پر چند جرنیلوں، بیوروکریٹوں، ججوں اور اسمبلی ممبران کی عیاشی کا سامان پیدا کرنا نہیں۔ اسی طرح فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ پارلیمنٹ کی دیواریں پھلانگنا، اقتدار پر قبضہ کرنا، سیاسی انجنیئرنگ کرنا، خارجی، داخلی پالیسیاں بنانا، ججوں سے فیصلے کروانا، ہاوسنگ سوسائیٹیاں بنانا یا کاروباری ایمپائر کھڑی کرنا نہیں۔ یہ بات آپ جتنی جلدی سمجھ جائیں آپ کے لیئے اتنا ہی بہتر ہے۔

29/02/2024

بینالاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق سوئس لیکس میں سامنے آنے والے چند بڑے ناموں میں پاکستانیوں کے نام بھی شامل ہیں۔ گزشتہ کئی دھائیوں سے یہ پراپگینڈہ کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستانیوں کے سو ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں اور اس حوالے سے سارا ملبہ سیاستدانوں پر ڈالا جاتا رہا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں کی دو بڑی لیکس یعنی پینڈورا لیکس اور اب سوئس لیکس میں انکشاف ہوا کہ ملک سے باہر موجود زیادہ تر اکاونٹس سیاستدانوں کے نہیں بلکہ ان کے ہیں جنہیں مقدص گائے سمجھا جاتا ہے۔

پینڈورا لیکس میں سامنے آنے والے ناموں پر اس ملک میں اچانک خاموشی چھا گئی تھی اور واضع ثبوتوں کے باوجود کسی بھی طرف سے ان مقدص گائیوں کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ لیکن آج سوئس لیکس نے ایک بار پھر ملک کی فضاء میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ زرائع کے مطابق تاحال سوئس لیکس میں دو پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں۔ پہلا نام کہوٹہ لیباریٹری کی تعمیر اور ایٹمی پروگرام سے منسلک جنرل زاہد علی اکبر کا ہے جبکہ دوسرا نام افغان جہاد کے بانی جنرل اختر عبدالرحمن کا ہے۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اٹھارہ ہزار مزید اکاونٹس کی جانچ پڑتال کے نتیجے میں مزید کئی مقدص گائیں بدنام ہو جائیں گی۔

ان حالات میں اچانک الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں ایک میں صدارتی آرڈیننس کے زریعے ترمیم کر کے نیا قانون پاس کر دیا گیا ہے جس کے مطابق فوج، عدلیہ اور دیگر اداروں پر تنقید کو قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ سوئس لیکس میں سامنے آنے والے جرنیلوں کے ناموں کا ذکر کرنے یا تحقیقات کا مطالبہ کرنے کو فوج پر تنقید قرار دے کر اسے ایک جرم بنادیا جائے۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hunzla khan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share