Gumnam Heroes

  • Home
  • Gumnam Heroes

Gumnam Heroes Gumnam Heroes

04/07/2022

کل شادی تھی آج اپنی آخری منزل کی طرف چل دیئے
اللہ پاک سید سدھیر حسین شاہ کو جنت و الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثمہ آمین 🤲🥲 اور تمام گھر والوں کو ج صبرِوجمیل عطا فرمائے آمین 😭

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے      اللہ تعالی سجاد نبی کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کی اس قربانی کو اپنی...
22/04/2022

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

اللہ تعالی سجاد نبی کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے
اور ان کی اس قربانی کو اپنی جناب میں قبول و منظور فرمائے آمین

09/03/2022
26/12/2021

ایرانی فوج اور پاکستانی فوج آمنے سامنے

زندگی کے ہر موڑ پر جہاں امتحان ہوتے ہیں وہیں "اللہ" کی مدد بھی موجود ہوتی ہے✨"مشکلیں" حل ہوجایا کرتی ہیں "راستے" بھی نکل...
23/12/2021

زندگی کے ہر موڑ پر جہاں امتحان ہوتے ہیں وہیں "اللہ" کی مدد بھی موجود ہوتی ہے✨
"مشکلیں" حل ہوجایا کرتی ہیں
"راستے" بھی نکل آتے ہیں💫
بس انسان کا"یقین" پختہ ہونا چاہیئے۔۔۔!!💯

‏بھارت میں 40 سال تک قید رہنے والے سپاہی مقبول حسین رہا ہوئے تو سیدھے اپنی یونٹ میں پہنچے۔ تشدد کے باعث بولنے کی صلاحیت ...
30/08/2020

‏بھارت میں 40 سال تک قید رہنے والے سپاہی مقبول حسین رہا ہوئے تو سیدھے اپنی یونٹ میں پہنچے۔ تشدد کے باعث بولنے کی صلاحیت کھو چکے تھے۔ یونٹ کمانڈر کو لکھ کر کہا کہ سپاہی مقبول حسین ڈیوٹی پر حاضر ہے۔ اللہ درجات بلند فرمائے۔ آمین


انا للہ و انا الیہ راجعون،

#سپاہی مقبول حسین ، #ایک ہیرو ،
پاکستان کے سچے ہیرو

17ستمبر 2005 ء کو واہگہ بارڈر کے راستے بھارتی حکام نے قیدیوں کا ایک گروپ پاکستانی حکام کے حوالے کیا-اس گروپ میں مختلف نوعیت کے قیدی تھے-ان کے ہاتھوں میں گٹھڑیوں کی شکل میں کچھ سامان تھا جو شاید ان کے کپڑے وغیرہ تھے-لیکن اس گروپ میں ساٹھ پینسٹھ سالہ ایک ایسا پاکستانی بھی شامل تھا-جس کے ہاتھوں میں کوئی گٹھڑی نہ تھی-
جسم پر ہڈیوں اور ان ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی اس کی کھال کے علاوہ گوشت کا کوئی نام نہیں تھا-اور جسم اس طرح مڑا ہوا تھا جیسے پتنگ کی اوپر والی کان مڑی ہوتی ہے-خودرو جھاڑیوں کی طرح سرکے بے ترتیب بال جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ طویل عرصے تک ان بالوں نے تیل یا کنگھی کی شکل تک نہیں دیکھی ہو گی-اور دکھ کی بات کہ پاکستان داخل ہونے والے اس قیدی کی زبان بھی کٹی ہوئی تھی لیکن ان سارے مصائب کے باوجود اس قیدی میں ایک چیز بڑی مختلف تھی اور وہ تھیں اس کی آنکھیں جن میں ایک عجیب سی چمک تھی-پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی کارروائی کے بعد ان سارے قیدیوں کو فارغ کردیا گیا-سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے-لیکن یہ بوڑھا قیدی اپنے گھر جانے کی بجائے ایک عجیب منزل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا-کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے وہ ٹوٹے ہوئے الفاظ لکھ لکھ کر اپنی منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئی اسے ایک غریب سائل سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا رہا-اور یوں 2005 ء میں یہ بوڑھا شخص پاکستان آرمی کی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے ایک عجیب دعوی- کردیا-اس دعوے کے پیش نظر اس شخص کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش کردیا-کمانڈر کے سامنے پیش ہوتے ہی نہ جانے اس بوڑھے ناتواں شخص میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا اور ایک کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں لکھا
”سپاہی مقبول حسین نمبر 335139 ڈیوٹی پر آگیا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے“کمانڈر کو کٹی ہوئی زبان کے اس لاغر ، ناتواں اور بدحواس شخص کے اس دعوے نے چکرا کے رکھ دیا-کمانڈر کبھی اس تحریر کو دیکھتا اور کبھی اس بوڑھے شخص کو جس نے ابھی کچھ دیر پہلے ایک نوجوان فوجی کی طرح بھرپور سلیوٹ کیا تھا-کمانڈر کے حکم پر قیدی کے لکھے ہوئے نام اور نمبر کی مدد سے جب فوجی ریکارڈ کی پرانی فائلوں کی گرد جھاڑی گئی اور اس شخص کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے لایا گیا تو ایک دل ہلا دینے والی داستان سامنے آئی -اور یہ داستان جاننے کے بعد اب پھولوں، فیتوں اور سٹارز والے اس لاغر شخص کو سلیوٹ مار رہے تھے-اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھا-65 ء کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن کے علاقے میں اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہا تھا کہ دشمن سے جھڑپ ہو گئی-سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے اپنے افسران کے لئے پیغام رسانی کے فرائض کے ساتھ ہاتھ میں اٹھائی گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا مقابلے میں زخمی ہو گیا-سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے تو سپاہی مقبول حسین نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ بجائے میں زخمی حالت میں آپ کا بوجھ بنوں، میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کیلئے محفوظ راستہ مہیا کرتا ہوں-ساتھیوں کا اصرار دیکھ کر مقبول حسین نے ایک چال چلی اور خود کو چھوٹی کھائی میں گرا کر اپنے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل کرلیا- دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے تو اس نے ایک مرتبہ پھر دشمن کے فوجیوں کو آڑے ہاتھوں لیا- اسی دوران دشمن کے ایک گولے نے سپاہی مقبول حسین کو شدید زخمی کردیا- وہ بے ہوش ہو کر گرپڑا اور دشمن نے اسے گرفتار کرلیا- جنگ کے بادل چھٹے تو دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا تو بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکرنہ کیا-اس لئے ہماری فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصورکرلیا-بہادر شہیدوں کی بنائی گئی ایک یادگار پر اس کا نام بھی کندہ کردیا گیا-ادھربھارتی فوج خوبصورت اور کڑیل جسم کے مالک سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کیلئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگی-اسے 4X4فٹ کے ایک پنجرا نما کوٹھڑی میں قید کردیا گیا- جہاں وہ نہ بیٹھ سکتا تھا نہ لیٹ سکتا تھا-دشمن انسان سوز مظالم کے باوجود اس سے کچھ اگلوانہ سکا تھا-سپاہی مقبول حسین کی بہادری اور ثابت قدمی نے بھارتی فوجی افسران کو پاگل کردیا-جب انہوں نے دیکھا کہ مقبول حسین کوئی راز نہیں بتاتا تو وہ اپنی تسکین کیلئے مقبول حسین کو تشدد کا نشانہ بنا کر کہتے ”کہو پاکستان مردہ باد“ اور سپاہی مقبول حسین اپنی ساری توانائی اکٹھی کرکے نعرہ مارتا پاکستان زندہ باد، جو بھارتی فوجیوں کو جھلا کے رکھ دیتا-وہ چلانے لگتے اور سپاہی مقبول کو پاگل پاگل کہنا شروع کردیتے اور کہتے کہ یہ پاکستانی فوجی پاگل اپنی جان کا دشمن ہے اورسپاہی مقبول حسین کہتا ہاں میں پاگل ہوں---ہاں میں پاگل ہوں---

- اپنے ملک کے ایک ایک ایک ذرّے کے لئے---ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کیلئے--- ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کی عزت و وقار کے لئے--- سپاہی مقبول حسین کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کی طرح لگتے- آخر انہوں نے اس زبان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا انہوں نے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی اور اسے پھر 4x4 کی اندھیری کوٹھڑی میں ڈال کر مقفل کردیا-سپاہی مقبول حسین نے 1965ء سے لیکر 2005ء تک اپنی زندگی کے بہترین چالیس سال اس کوٹھڑی میں گزار دیئے اب وہ کٹی زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم پر لباس کے نام پر پہنے چیتھڑوں کی مدد سے 4x4 فٹ کوٹھڑی کی دیوار کے ایک حصے کو صاف کرتا اور ا پنے جسم سے رستے ہوئے خون کی مدد سے وہاں پاکستان زندہ باد لکھ دیتا-یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے بہترین دن اپنے وطن کی محبت کے پاگل پن میں گزارتا رہا- آئیں ہم مل کر آج ایسے سارے پاگلوں کو سلیوٹ کرتے ہیں

یہ ہیں پاکستان کے سچے ہیرو یہ ہیں پاکستان کا اصل چہرہ .....یہ ہے پاکستان ....

جانو اور روپ پیچان لو اپنے اصل محسن ...

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ❤️
20/08/2020

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ❤️

تمام اہل وطن کو جشن ازادی مبارک⁦🇵🇰⁩⁦🇵🇰⁩⁦🇵🇰⁩⁦🇵🇰⁩⁦🇵🇰⁩
14/08/2020

تمام اہل وطن کو جشن ازادی مبارک
⁦🇵🇰⁩⁦🇵🇰⁩⁦🇵🇰⁩⁦🇵🇰⁩⁦🇵🇰⁩

ہم آئی ایس آئی  ایجنٹ,مخبر,جاسوس ہیں وطن کی محبت اور عشق میں ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ہمارے اور بھی کئی روپ ہیں جو بت...
24/06/2020

ہم آئی ایس آئی ایجنٹ,مخبر,جاسوس
ہیں وطن کی محبت اور عشق میں ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ہمارے اور بھی کئی روپ ہیں جو بتانا ضروری نہیں سمجھتا
بس جو مخلص محب وطن ہے وہ ہم کو جان سے بھی پیارا ہے ضرورت پڑنے پر ہم کسی سپاہی کی صورت میں اپنی افواج کے ساتھ میدان جنگ میں کھڑے نظر آئینگے انشاءاللہ ہم ہر وقت بلواسطہ یا بلاواسطہ اپنے دشمن کے ارادوں سے با خبر رہتے ہیں ہم لوگ چاہ کر بھی آپ کو نہیں سمجھا سکتے کہ ہم کون ہیں کیا ہیں کیوں ہیں بس جو محب وطن ہیں ہم ان کی آنکھیں ہیں انکے کانوں کی سماعت ہیں انکی زبانوں کی آواز ہیں انکے دل کی دھڑکن ہیں ہمیں سمجھنا ہوتو وطن کی عظمت کو سمجھو ہم خودبخود سمجھ آجائینگے 🇵🇰

29/12/2019

اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے
بچی کا شہداء پاکستان کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین، تمام شرکاء کو آبدیدہ کردیا۔
پاکستان زندہ باد
شہداء افواج پاکستان پائندہ باد

18/12/2019

20 نومبر 1979 کو حرم پاک کی حفاظت کے لیے جانے والے پاک آرمی کےایس ایس کمانڈوز کے دستے کی قیادت کس نے کی جانیے اس ویڈیو میں ہمارے پیج کو لائیک اور اس ویڈیو کو شئیر کرنا نہ بھولیے گا

پاکستان کی شان ISI💚😢میری پہچان میری جان ISI❤😢👇👇👇
02/12/2019

پاکستان کی شان ISI💚😢
میری پہچان میری جان ISI❤😢👇👇👇

خان پور سے تعلق رکھنے والے برگیڈئیر راجہ رضوان کو پاکستان اور پاک فوج سے غداری کرنے کا جرم ثابت ہونے پر آج  پھانسی دے دی...
25/11/2019

خان پور سے تعلق رکھنے والے برگیڈئیر راجہ رضوان کو پاکستان اور پاک فوج سے غداری کرنے کا جرم ثابت ہونے پر آج پھانسی دے دی گئی

04/11/2019

ان مجاھدوں کی وجہ سےگرم بستروں میں بیٹھ کر پاکستان آرمی کیلئے بکواس کرنے والے اس پوسٹ سے دور رہیں اور محبت کرنے والے شئیر کریں..
پاک آرمی زندہ باد 💪🇵🇰💪🇵🇰💪🇵🇰💪...love you pak Armey

انڈیا کے نقلی فلمی ہیروز کو تو لاکھوں لایک ملتے ہیں آج دیکھتے ہیں پاکستان کے اصلی ہیروز کو کتنے لایکس اور شئیر ملتے ہیں
25/10/2019

انڈیا کے نقلی فلمی ہیروز کو تو لاکھوں لایک ملتے ہیں آج دیکھتے ہیں پاکستان کے اصلی ہیروز کو کتنے لایکس اور شئیر ملتے ہیں

20/10/2019

بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پر سفید جھنڈا دیکھا کر اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھاتے ہوئے۔ کب سمجھیں گے یہ لوگ کے باپ باپ ہوتا ہے۔لائک اینڈ شیئر وڈیو

15/10/2019

پاک آرمی زندہ باد ہمارے گمنام ہیروز کا ایسا کارنامہ ویڈیو دیکھیں اور زیادہ سے زیادہ شئیر کریں

14/10/2019

انڈین لڑکی کی باتیں سنیں کھلے عام سچائی بول رہی ہے آگے بھی شیئر کریں

اللہ اکبر
14/10/2019

اللہ اکبر

وہ سمجھتےکہ میں کوئی بڑی عیش و عشرت اور رنگینیوں بھری زندگی میں بڑی موج میں ہوں، وہ سمجھتے ہیں کہ میں کالےسُوٹ اور واسکٹ...
18/09/2019

وہ سمجھتےکہ میں کوئی بڑی عیش و عشرت اور رنگینیوں بھری زندگی میں بڑی موج میں ہوں، وہ سمجھتے ہیں کہ میں کالےسُوٹ اور واسکٹ کے نیچے پسٹل لگائے، آنکھوں پہ کالا چشمہ ٹکائے، ہاتھ میں بریف کیس لیے، بڑی شان سے ایک لمبی سیاہ گاڑی سے اُتر کر اپنا کام کرکے اُسی شان و شوکت پھر ٹھہرے ایک پرائیویٹ جیٹ یا ہیلی کاپٹر میں اڑ کر منزل کی طرف چلا جاتا ہوں اور رات کو میرے چاروں طرف ایک رنگینی اور دلکشی کا سماں رہتا ہے ۔ نوٹوں کی ریل پیل رہتی ہے، جس کو چاہا دُنیا سے بھیج دیا۔مشن مکمل ہونے پر مجھے حکومتیں ایوارڈ اور اعزازو اکرام سے نوازتی ہیں اور پھر میں اپنے بیوی بچوں کو لیکر ایک خوبصورت جزیرے پر عالیشان بنگلے میں آرام سےزندگی کے آخری ایام گزارتا ہوں۔

اوپر لکھی گئی سطریں وہ ہیں جو میرے بارے میں دُنیا خیال کرتی ہے آج میں آپکو بتاتا ہوں کہ میری زندگی کی اصل کہانی ہے کیا؟ کیامیرے بارے جو کہا جاتا ہے، موویز بنائی جاتی ہیں کیا میری زندگی ایسی ہے تو بالکل بھی نہیں جو کچھ میں سہتا ہوں اسے نہ بیان کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کبھی فلمایا جاسکتاہے۔

کیونکہ میں ایک دُکاندار ہوں جو اپنے گھر کے ساتھ ایک دُکان کھولے دن بھر اُسی دکان میں گزار دیتا ہوں لوگ مجھے محض ایک دُکاندار جانتے ہیں اور دن بھر بچوں اور بڑوں کا شور میری سماعتوں سے ٹکراتا رہتا ہے ،میری نظریں آنے جانے والے گاہکوں اور گلی میں گزرتےراہگیروں کے تعاقب میں دن بھر مصروف رہتی ہیں۔ میری سماعتیں ہر آنے جانے والی کی باتوں سے باخبر انکی باتوں کو سُننے اور سمجھنے میں مصروف رہتی ہیں، گاہکوں کی نگاہیں پڑھ کر اپنے مطلب کی بات نکالنا میرا ہنر ہے۔میراذہن آنے جانے والوں میں نہایت مستعدی سے کام کرتے ہوئے ہر حرکت کو نوٹ کرکے محفوظ کررہا ہوتا ہے اور لوگ محض مجھے ایک دکاندار سمجھ کر گزر جاتے ہیں اور کام ختم ہونے پر میں اپنا بوریا بستریا گول کرکے خاموشی سے چلا جاتا ہوں۔

میں ایک اُستاد ہوں ، ایک لیکچرر یا ایک پروفیسر، کسی سکول کالج،یونیورسٹی میں پڑھاتا اُستاد ۔میرے شاگرد، میرے دوست، میرےکولیگز اور میرے اہل و عیال محض مجھے ایک اُستاد کے طور پرجانتے ہیں مگر میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ نظر رکھتا ہوں اپنے شاگردوں، اپنے کولیگز اور تعلیمی اداروں میں آنے والے اُستادوں اور طالبعلموں پر جن میں کئی لوگ ایسےہوتے ہیں جو میرے ملک کے تعلیمی اداروں کو دہشتگردی کااڈا، نفرت کا بازار، منشیات کا اڈہ بنانے کے درپے ہوتے ہیں، کئی ان اداروں میں آتے ہیں ملک دشمن ایجنٹوں کے رُوپ میں ، کوئی میرے بچوں کے ذہنوں میں ملک کے خلاف نفرتوں کا بیج بونے مگر میں موجود رہتا ہوں۔میں نظر رکھتا ہو ،میں سرگوشیاں سُنتا ہوں، میں تاک میں رہتا ہوں اور پھر ایک دن میں اپنے دشمنوں سمیت نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہوں۔

میں ایک سُوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ہوں مجھ سے ساری دُنیا بےخبر مگر میں ساری دُنیا سے باخبر، دن بھر اپنے موبائل اپنے کمپیوٹراپنے لیپ ٹاپ پرنظریں جمائے دُشمن کے ہرپروپگنڈہ کامؤثر جواب دے رہا ہوتا ہوں۔اپنے لوگوں کے ذہنوں تک پہنچتی دشمن کی چال اور دشمن کے نفسیاتی واروں کو خود پر رُوک کر میں اپنے لوگوں کو دشمنوں کی چالوں اور جھوٹوں سے باخبر رکھتا ہوں مگر کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی کہ میں کون ہوں میں کیا ہوں۔

میں ایک ہیکر ہوں جو دن بھر دشمن کے سائبرحملوں کا مقابلہ کرکے ملک کے معاشی اور دفاعی نظام کو محفوظ بنانے کی تگ ودُو میں لگارہتا ہوں اور اپنے دفاع کے ساتھ ساتھ دشمن کو بھی سائبر محاذ پہ ایسی کاری ضرب لگاتا ہوں کہ دشمن چیخ اُٹھتا ہے۔ ہاں وہی ہوں میں جس نے براہموس میزائلوں کا ڈیٹا چُرایا تھا، ہاں وہی ہوں میں جس نے انڈین آرمی کے نیٹ ورک میں گُھس کر انڈین آرمی کو سکتے میں ڈال دیا تھا، ہاں وہی ہوں میں جو افغانستان میں بیٹھے امریکی ونیٹو افسران کے محفوظ ترین نیٹورک میں گُھس کرقیمتی معلومات لے آیا، ہاں میں وہی ہوں جس نے 2010، 11 میں بھارت کو سائبرحملوں کے حوالے سے معاہدہ کرنے پر مجبور کردیا تھا۔

میں ایک فقیر ہوں، گلی کُوچوں میں ہاتھ پھیلائے بھیک مانگتا فقیر، میں ڈانٹا جاتاہوں، میں کُوسا جاتا ہوں، میں بھکاری بھکاری کی صداؤں سے واقف ہوں، میں لوگوں کی تضحیک بھری نگاہوں سے بھی واقف ہوں۔ میں کوڑے کچرے پہ گندگی کے ڈھیر پہ گلی پڑا سڑی خوراک کھاتے بھی ملتا ہوں۔ میں گندے بدبودار ،پھٹے پُرانے لباس میں بھی ملتا ہوں، میں جون،جولائی اور اگست کی تپتی گرمی اور دھوپ میں دربدرپھرتا ہوں.

میں ٹھٹھرتی یخ اور اندھیری راتوں میں تمھارے گلی کوچوں میں پھرتا ہوں-میں اوزار اٹھائے تمھاری گلی کا کُوڑا کرکٹ اکھٹا کرتے یا تمھاری گلیوں میں تمھارا فضلہ اٹھاتے ملتا ہوں۔ میں کسی کھاتے پیتے گھر کا چشم وچراغ ہوں مگر میں کوڑے کچرے، بدبودار گندگی کےڈھیرپے لیٹے پایا جاتا ہوں، دن بھر ایک ایک رُوپے کی صدالگاتے ، بھیک میں ملی رُوٹی بھی کھالیتا ہوں، میں تمھاری مسجدوں کے دروازوں پہ تمھارے آگے ہاتھ پھیلائے بھی ملتا ہوں۔

میں چھابڑی والا، میں ملنگ، میں خاکروب میں چوکیدار میں ہر رُوپ میں تمھارے اردگرد موجود ہوں ،میں اپنی ہستی مستی مٹا کر بدتر سے بدترین روپ میں تمھاری حفاظت کرتا ہوں اُس رُوپ میں کہ جسے تم چھونا اور پاس بٹھانا تو درکنا دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے۔مگرمیں موجود ہوتا ہوں تمھارے اردگرد کہ کوئی دشمن تمھیں نقصان نہ پہنچا سکے، کوئی دشمن تمھیں گوشت کے لتھڑوں میں بدل کے نہ چلاجائے۔

میں تمھاری مسجد کا امام ہوں۔ پاک صاف لباس میں ملبوس، چہرے پہ خوبصورت گھنی داڑھی اور کاندھے پہ چارد سجائے ذکرُاللہ میں مشغول رہتا ہوں میں سب سےگھل مل کررہتا ہوں، میں مسجد میں آنے جانے والے ہر ایک کو خوش اخلاقی سے ملتا ہوں میں ان میں پہچان کرتا ہوں دُوستوں اور دشمنوں کی۔میں خبر رکھتا ہوں مسجد میں کون آیا کون گیا گلی مُحلے میں کون آیا اور کون گیا، کس گھر میں کون رہتا ہے، کیا کرتا ہے اپنا ہے ملک کا دشمن ہے میں سب کی خبررکھتا ہوں میں وُہ دین بتاتا ہوں جو محبت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے میں تلاش کرتا ہوں منافرت اور فرقہ پھیلانے اور عناصر کو۔ پھر ایک دن میں چلا جاتا ہوں تمھارے گلی محلوں اور چوراہوں کو ان عناصر سے محفوظ کرکے جو خون کی ہولی کھیلنے آئے تھے۔

تمھیں خبر ہی نہیں مگر میں موجود ہوں سرحد پار دشمن کے کونے کونے میں کسی مندر کی ٹوٹی پھوٹی سیڑھیوں پہ، بھگوان بھگوان کرتے دشمنی کی ایٹمی وفوجی تنصیبات کے سامنے بھیک مانگتے، دشمن کے فوجی قافلے کے راستے میں کچرے کے ڈھیر پر، ہاں میں موجود ہوں دشمن کی ایٹمی لیبارٹریز میں ، دشمن کی چھاؤنیوں میں، دشمن کے ایوانوں میں، بالی وڈ سے کھیل کے میدانوں میں، سینما سے گرجاخانوں میں، ہاں میں جانتا ہوں میرا دشمن کیا چال چلتا ہے، میں جانتا ہوں وہ میرے ملک پہ کس سمت سے کس وقت کس طرح حملہ کرےگا۔ ہاں ہاں میں وہی ہوں جس نے انڈیا کے ہوائی اڈوں کواستعمال کر کے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا تھا، ہاں میں وہی ہوں جس نے انڈیا اور امریکہ کی کشمیر کو خودمختار ریاست کا درجہ دیکر پاکستان سے جُدا کرنے کا منصوبہ ناکام بنایا تھا۔

میں وہی ہوں جس کے خوف سے رات کو دُشمن سُو نہیں پاتا۔میں وہی ہوں جُو دشمن میں سپاہی سے لیکر جنرل کے عہدے تک موجود ہوں، میں وہی ہوں جو دشمن ایجنسی راء میں موجود ہوں، میں وہی ہوں جس نے افغانستان میں راء کو پنپنے نہ دیا، میں وہی جس نے تمھیں بلوچستان میں شکست دی اور دشمن کے منصوبے الحمدللہ اسکے منہ پہ دے مارے ، میں وہی ہوں جس نے قبائلی علاقوں میں دشمنوں کے منصوبے ناکام بنادیئے۔میں وہی ہوں کہ جو آج تک تمھارے قابو میں نہ آسکا۔

آؤ تمھیں یہ بھی بتلاؤں میں نے رُوس کو ٹکڑےٹکڑے کردیا جب رُوس افغانستان سے گزرکر میرے وطن پاکستان کی پاک سرزمین پہ آنا چاہتا تھا تو میں اسے اپنی سرزمین پہ ایک قدم تک نہیں رکھنے دیا اور میں نے اُسی سپرپاور کو ایک شکست خوردہ ریاست میں بدل کر پارہ پارہ کردیا، میں نے رُوس سے چیچن مسلمانوں کو بچایا ، میں بُوسنیا میں لڑا، میں نے رُوسی کی سب سے طاقتور ایجنسی "کےبی جی" کا وجود مٹا کے رکھ دیااور ایک رُوس سے کئی مسلمان ریاستوں کو آزاد کردیا۔

میں وہی تو ہوں کہ جب امریکہ نے میرے وطن ِ عزیز کو پتھر وں کے دُور میں دھکیلنے کی بات کی تو میں نے مسکرا کر امریکہ کا ساتھ دینے کے لیے لبیک کہہ دیا ۔خبرتھی میں نے کیا کرنا ہےمگر امریکہ اپنے ناز میں میری خداداد صلاحیتوں کو فراموش کرچکا تھا مگر اسے خوف تھا میرا اس لیے اس نے وقت کے جنرل سے کہا مجھے آئی ایس آئی نہیں چاہیے تو میرے جنرل نے نئی پیکنگ میں پُرانا مال ڈال کردے دیا اور آج وُہی امریکہ جو میرے وطن کو پتھروں میں دھکیلنے کے خواب دیکھ رہا تھا آج افغانستان کے تپتے صحراؤں اور پتھریلے پہاڑوں سے سر ٹکرا ٹکراکررورہا ہے۔آج وہی امریکی جو میری صلاحیتوں سے واقف نہیں تھے آج چیخ چیخ کرمیرا نام لیکرلیکر اللہ کے فضل سے ٹکریں ماررہے ہیں۔

میں نے پاکستان کو دُنیاکا بہترین اور محفوظ ترین ایٹمی نظام دیا، میں نے پاکستان کو اسلامی دُنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنایا، میں نے پاکستان کو بہترین میزائیل پروگرام دیا، میں پاکستان کو دُنیا کی سب سے طاقتور ایجنسیز اور فوجی طاقتوں سے اللہ کی مدد سے محفوظ رکھا۔ میں نے پاکستان کو دُشمن کی پراکسیز سے بچایا ، میں پاکستان میں چھپے اندیکھے ، انجانے اور اپنوں کے بھیس میں چھپے دشمنوں کو جادبوچا، میں نے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بیک وقت راء، موساد، سی آئی اے، بلیک واٹر، این ایس اے، این ڈی ایس اور ایسی سینکڑوں ایجنسیز جو اس پاک وطن کو خاک میں ملانے کا ناپاک ارادہ رکھتی تھیں انہیں دُھول چٹوادی، میں نے آج تک دشمنوں کو پاکستان کے ایٹمی نظام کی ہوا تک نہیں لگنے دی، میں نے اسرائیل امریکہ انڈیا کے پاکستان پر حملے کے منصوبے ناکام بنائے، میں نے افغانستان میں گھس کے پاک وطن کے غداروں اور دہشتگردوں کو نیست وبابود کردیا۔

ہاں میں اس بات کا بھی اقرارکرتا ہوں کہ میں اس وطن کی سیاست میں بھی موجود رہا مگر خدارا کسی اقتدار کی خاطر نہیں کسی لالچ کی خاطر نہیں مگر مجھےمعلوم تھا کہ تمھارے چُنے ہوئے تمھارے ووٹ سے آئے ہوئے اقتدار کے پُجاری تمھارے دشمنوں کے ہاتھوں بک چکے تھے، تمھاری نظریات تمھارا نام تک مٹادینے کے درپے تھے، تمھیں خبر نہیں تھی مگرمیں واقف تھا انکی چالوں سے۔ہاں میں موجودتھا سیاست میں راء موساد سی ائی اے اور این ڈی ایس کی سرگوشیاں سننے کے لیے، میں موجود تھا وطن کے خلاف ہوتی ہر سازش کو ناکام بنانے کے لیے، ہاں میں سیاست میں موجود تھا کہ دشمن سے مال و متاع لیے غدار اس ملک کی اس ملک میں بسنے والوں کی سلامتی کا سُودا نہ کرلیں۔مجھے دشمن کے داؤپیچوں کا جواب دینے کے لیے سیاست میں آنا پڑامگر مجھے کبھی اقتدار کا لالچ نہیں رہا۔جن لوگوں کی محبت میں مجھے تم گالیاں دیتے ہو وہ تمھارے ووٹوں سے آئے تھے انہیں تم لائے تھے مگر انہوں نے تمھاری نظروں میں دھول جھونک تمھارے ہی بچوں تمھاری ہی نسلوں کے خون کا سُودا دشمن سے جاکیا۔انہوں نے مال و متاع کے بدلے دشمنوں کو تمھاری سرزمین تمھیں مارنے کو فراہم کی اور اپنے بچے ملک سے باہر بٹھادیے جبکہ خود وہ سینکڑوں گاڑیوں کے قافلے کے ہمراہ حفاظت میں جاتے ۔تم مجھے گالی دیتے ہو لیکن میں تمھاری ہی حفاظت میں بدنام ہوتا رہا۔

میں تمھیں بتلاتا جاؤں ناں تو یہ داستان کبھی ختم نہ ہویہ 7 دہائیوں کی داستان ہے یہ درداور کرب سے بھری داستان ہے۔آؤ میں تمھیں اس سب کی قیمت بھی بتلادوں ، کبھی یوں بھی ہوتا کہ دشمن مجھے گرفتار کر لیتا ہےاور تم جانتےہومیرا دشمن بدترین اور شدت پسند ذہنیت کا ہے پھر کبھی سُوچاکہ وہ میرے ساتھ کیا کرتا ہوگا، ہاں وہ مجھے اذیت دیتا ہے ایسی اذیت کے موت بھی خوف سے میرا ساتھ چُھوڑجاتی ہے، مجھے ماراجاتا ہے مجھے گھسیٹا جاتاہے،مجھےبھوکاپیاسا بدبودار کال کوٹھری میں پھینک دیاجاتاہے، رُوز اذیت دینے کا ایک نیا طریقہ آزمایا جاتا ہے۔میرے بدن سے خون رستا رہتا ہے میرے کھلے زخم جلتے رہے ہیں۔میرے ناخن کھینچ لیے جاتے ہیں، میرے ہاتھ پاؤں کی انگلیاں کاٹ دی جاتی ہیں، میرا جسم چیردیا جاتاہے، مجھ پر کتے بھی چُھوڑجاتے ہیں، میرے زخموں پر نمک بھی چھڑکاجاتا ہے، میرے بدن کی ہڈیاں تک تُوڑی جاتی ہیں مگر میں اس درد میں ایک کرب میں کبھی اپنے وطن سے غداری نہیں کرتا، میں کبھی اپنے آپکو ظاہر نہیں کرتا میں کبھی اپنے وطن کے خلاف دشمن کا بازو نہیں بنتا۔ پھر ایک دن یوں بھی ہوتا ہے میری زبان کھینچ لی جاتی ہے ، میری آنکھیں نُوچ لی جاتی ہیں۔

میری دُنیا خاموش اور تاریک کردی جاتی ہے مگر میں ٹس سے مس نہیں ہوتا اور ایک دن موت مجھ سے وفا کرکےمجھے اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔لیکن لیکن ابھی یہ کرب ختم نہیں ہوتاجس پاک دھرتی کی خاطر میں جان سے جاتا ہوں مجھ بدقسمت کو تو آخری وقت میں بھی اُس پاک وطن کی دُوگززمین تک نصیب نہیں ہوتی۔

یہی نہیں میری ماں جس نے مجھے جنا جس کی آنکھوں کا میں تارا تھا، وہ باپ کے جس نے مجھے کاندھے پہ کھلایا جس کا میں سہارا تھا، وہ بہن کے جس نے میرے لاڈ اٹھائے جس کا میں محافظ تھا، وہ بھائی کے جس کا میں غرور تھا، وہ سہاگن کے جس نے میری خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ دیا تھا، وہ میرے بچے جنہیں اب کبھی باپ کا سایہ نصیب نہیں ہوگا یہ سب لوگ میرے انجام سے کبھی واقف نہیں ہوپاتے، انہیں کبھی خبر تک نہیں ہوپاتی کہ میں دشمن کی مٹی میں بنا کفن بنا غسل اور بناجنازے کے دفن ہوگیا۔ مجھے اپنوں کا کاندھا تک نصیب نہ ہوا۔ میرے گھروالے ساری زندگی اب اپنی نگاہیں دورازہ پہ جمائے گزاردیں گے، دروازے کی ہر دستک پہ میرے اپنے چونک سے جاتے ہیں مگر میرا تو وجود ہی نہیں تو میں کہاں سے لوٹ کے آؤں گا۔

مگر مجھے اس بات کا کوئی غم نہیں مجھے اس بات کا کوئی دکھ نہیں ،مجھے خوشی ہے کہ میں رہوں یا نہ رہوں مگر میرا وطن سلامت رہے، میری ماں کی گود اُجڑی لیکن میرے وطن کی لاکھوں ماؤں کی گود اب محفوظ رہے گی، میرے باپ کا سہارا تو چھن گیا لیکن اب میرا دشمن میرے وطن کے کسی بات سے اُسکا سہارا نہیں چھین پائے گا، میری سہاگن کا سہارا اُجڑا تو کیا ہو میرے ملک کی لاکھوں سہاگنوں کا سہاگ تو بچے گا، میرے بچے توباپ کی شفقت سے محروم ہوگئے لیکن میرے وطن کے لاکھوں بچے باپ کی شفقت سے محروم ہونے سے بچ جائیں گے۔

جانتے ہو میں کون ہوں؟

جی ہاں میں پاکستان کے دفاع کی آخری لکیر ہوں میں آئی ایس آئی ہوں.

اے وطن کے باسیو تم پوچھتے ہو کہاں ہے ISI

آؤ تمھیں آج میں یہ بتلاؤں کہ کہاں ہیں ہم

ہم موجود ہیں وطن کے کھیت کھلیانوں میں

ہم موجود ہیں وطن کے ٹوٹے مکانوں میں

ہم موجود ہیں وطن کے شہروں اور ویرانوں میں

ہم موجود ہیں وطن کے گلی کوچوں اور راہزاروں میں

ہم موجود ہیں بازاروں میں کارخانوں میں

بچوں کی خاطر کہیں سکولوں میں کالجوں میں

دیتےاسلام وجہاد کا درس مسجدوں اور مدرسوں میں

ہم موجود ہیں فقیروں میں، بازار کے ریڑھی بانوں میں

کہیں بن کے ساقی موجود ہیں میخانوں میں

کہیں مسجد،مندر،اور گرجا کے دربانوں میں

کہیں موجود ہیں بن کے پجاری بت خانوں میں

کہیں بن کے پادری موجود ہیں گرجا گاہوں میں

کہیں بن کے گورکن تمھارے شہرکے قبرستانوں میں، کہیں موجود ہندوستان کے شمشانوں میں

ہم موجود ہیں مسجدِ اقصٰی کی آذانوں میں

ہم موجود ہیں خانہِ خدا کے سائبانوں میں

ہم موجود ہیں روضئہِ رسول کے پروانوں میں

کہیں بوسنیا کے ویرانوں،کہیں چیچنیا کی چٹانوں میں

ہم نے تڑپا چھوڑا دشمنوں کوافغانستان کے پہاڑوں میں

ہم موجود ہیں کشمیر جنتِ نظیر کے سبزازاروں میں

ہم موجود ہیں جہادی میدانوں میں،جنگی ترانوں میں

ہم لڑے ہیں کفر سے عرب کے تپتے ریگستانوں میں

ہم لڑے ہیں کفر سے یورپ کے نخلستانوں میں

اے وطن کے باسیو ہم نے موڑے ہیں رُخ دریاؤں کے

ہم نے توڑے ہیں طلسم جھوٹے آقاؤں کے

ہم نے مروڑے ہیں ہاتھ دُنیاوی خداؤں کے

ہم دھاڑے ہیں کفر کے ایوانوں میں

ہم چنگھاڑے ہیں وقت کے شیطانوں پہ

ہم موجود ہیں ہندوستان کے چپے چپے کونے کونے میں

ہم موجود ہیں واشنگٹن اور اسرائیل کے ایوانوں میں

پر اب جو دینا گالی ہم کو تو ذرا یہ دھیان میں رکھنا

مائیں ہم بھی رکھتے ہیں بہنیں ہماری بھی ہیں موجود

منتظر ہے والد اور بچے ہمارے بھی ہماری دید کی خاطر

مگر کیا ہم نے سب یہ قرباں تمھاری عید کی خاطر

وہ ہمسفر میرا بہت گم سم سا رہتا ہے

خاموشی سے میرے لوٹ آنے کے وہ دن گنتا ہے

میری ماں کی نگاہیں بس دروازے کو تکتی ہیں

ہاتھوں میں لگائے مہندی، ڈولی میں بیٹھی بہنا بھائی کو ترستی ہے

تمھاری عید کی خاطر، تمھاری سعید کی خاطر

بیٹے کئی ماؤں کے ہیں قید دشمن کے قیدخانوں میں

زبانیں کھینچی جاتی ہیں، بدن کا گوشت نوچا جاتا ہے خوں و درد کا اک دریا یوں ہی تا ابد بہتا ہے

پر اس وطن کی خاطر ہم بخدا یہ بھی سہتے ہیں.

دشمن کے عقوبت خانوں میں بس یاد ماضی کےسہارے

اپنے گھربھر سے ملتا ہوں،تم کیا جانو درد یہ سارے

ہاں کبھی میں مل بھی جاتا ہوں، میں لوٹ آتا ہوں

کسی انجانی قبر کی صورت،کسی بھولی ہوئی خبر کی صورت

ماں میری نگاہیں راہ پہ تانے دنیا سے لوٹ جاتی ہے

بچے میرے شب کو بابا بابا کہہ کے رو کے سو جاتے ہیں

ہم سفر میرا منتظررہتے وہ ایک امید بھی چھوڑ دیتا ہے

بوڑھا باپ میرا پھر بیٹے کو سینے سےلگانے کا ارماں

اپنے سنگ لیے اس جہانِ فانی کو چھوڑ جاتا ہے.

کہ اب دینے دے پہلے ہم کو اب کوئی بھی گالی

تم اتنا یاد کرلینا

تم اتنا یاد کرلینا

تحریر و نظم: انوکھاسپاہی

وطن کے تمام گمنام سپاہیوں کو سلام

پاکستان زندہ باد

15/09/2019

پاک آرمی زندہ باد دنیا میں نمبر ون پاکستان آرمی

10/09/2019

اس ویڈیو کو دیکھ کر اپکے انکھوں سے انسو خود بخود نکل اینگے۔۔۔۔

05/09/2019

ستائیس فروری یاد ہے ناں۔۔۔۔ تاریخ کا ایسا دن جب پاک فوج نے دشمن کے سینے پر وہ وار کیا جو مدتوں یاد رکھا جائے گا، پاک فوج کے شاہینوں نے ایک نہیں دو بھارتی طیارے مار گرائے،، پاکستانی سرپرائز پر دشمن شاید یہ دن کبھی بھول نہ پائے گا،،، خصوصی ورچوئل رپورٹ دیکھئیے

31/08/2019

پوری دنیاں کو انڈین آرمی کا چہرہ دکھائیں شیئر کرتے جائیں
انڈین آرمی کیسے کشمریوں کے گھروں کا تقدس پامال کر رہی ہے

31/08/2019

مقابلے کی ضد کیوں کرتے ہو میرے دشمن
ہم نے پہلے بھی کئی بار دشمنوں کے بھرم توڑے ہیں✌️😍

31/08/2019

ایس ایس جی کمانڈو 🇵🇰نائب صوبیدار احمد خان شہید کی نماز جنازہ کے مناظر 😢
اللہ تعالیٰ شہید کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین.

29/08/2019

پاک سر زمین کے ناقابل تسخیر دفاع کی جانب ایک اور بڑا سنگ میل عبور
290 کلومیٹر تک مارکرنے والے بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پاکستان مخالف ویب سیریز بنانے والے بھارتی مسلمان اداکار شاہ رخ خان کو آڑے ہاتھ...
24/08/2019

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پاکستان مخالف ویب سیریز بنانے والے بھارتی مسلمان اداکار شاہ رخ خان کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔بالی ووڈ اداکار شاہ رخ خان نے نیٹ فلکس کیلئے بارڈ آف بلڈ نامی ایک سیریز پروڈیوس کی ہے جس میں بلوچستان میں انڈین خفیہ ایجنسی ’را‘ کے آپریشن کو دکھایا گیا ہے

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Gumnam Heroes posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share