Rolls of life

  • Home
  • Rolls of life

Rolls of life Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Rolls of life, Media/News Company, .

13/06/2024

1980 میں، رچرڈ نامی شخص نے اپنا ٹیلی ویژن آن کیا اور دیکھا کہ رومانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کھلاڑی ٹینس ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد 40,000 ڈالر کا چیک وصول کر رہی ہے۔ یہ سارا منظر رچرڈ کو حیران و پریشان کرنے کے لیے کافی تھا کیونکہ یہ رقم اس کی سالانہ تنخواہ سے بھی زیادہ تھی۔

چند ثانیوں میں، اس نے فیصلہ کرلیا کہ اس کی بیٹیاں بھی ٹینس کھیلیں گی۔

ٹیلی ویژن بند کرنے کے بعد، وہ بیٹھ گیا اور 78 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز لکھی جس میں اس کی دو جوان بیٹیوں کے اپنے آبائی شہر کمپٹن، کیلیفورنیا سے فرار ہونے کے منصوبے کا خاکہ پیش کیا گیا تھا، اس کا رہائشی علاقہ بدنام زمانہ سیاہ فام گینگسٹر کے تشدد کے لیے جانا جاتا تھا، اور اس علاقے سے کسی خاندان کا ہجرت کرنا یا فرار ہونا انتہائی دشوار ترین کام تھا۔ اب ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ رچرڈ ٹینس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، اس کے پاس اپنی بیٹیوں کو اس مہنگے کھیل کی ٹریننگ کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں تھے، اور شاید آپ کے لیے یہ ناقابل یقین ہو کہ اس کی بیٹیاں ابھی اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔

اگلے پانچ سالوں میں وہ ٹینس کے متعلق میگزین اور ویڈیو کیسٹ وغیرہ جمع کرتا رہا تھا اسی سے اس نے خود بھی گزارہ لائق ٹینس سیکھ لی تھی. 5 سال کے بعد، اس کے پلان کے مطابق، رچرڈ نے اپنی دو بیٹیوں کے ہاتھ میں ٹینس کا ریکٹ ، وہی رسائل اور وڈیوز اور ان سے جو کچھ سیکھا تھا سب تھما دیا، اب وہ ان کم سن بچیوں کا باپ بھی تھا اور کوچ بھی، اس نے انہیں ٹینس کا کھیل سکھانا شروع کیا۔ کھیل کھیلنے کی بنیادی اشیا کو خریدنے سے قاصر، رچرڈ مقامی کنٹری کلبوں میں جا کر استعمال شدہ ٹینس گیندوں کو ڈبوں سے اکٹھا کر کے انہیں ایک شاپنگ کارٹ میں لادتا، تاکہ اس کی بیٹیاں پبلک ٹینس کورٹس میں ان استعمال شدہ گیندوں کے ساتھ پریکٹس کر سکیں۔
رچرڈ بطورِ باپ بہت زیادہ حفاظت کرنے والا اور جسمانی لحاظ سے مضبوط شخص تھا، ٹینس کی تربیت کے دوران اپنی بیٹیوں کو ہراساں کیے جانے سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے مقامی گینگ کے غنڈوں نے بارہا مارا پیٹا بھی تھا۔ ایک موقع پر جب اس نے بیٹیوں سمیت پریکٹس کورٹ چھوڑنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے اس کی ناک، جبڑے اور انگلیاں توڑ دیں اور اس کے کئی دانت توڑ کر نکال دیئے۔ رچرڈ نے اپنی ڈائری میں لکھا، "آج کے بعد، تاریخ 'دانتوں کے بغیر' شخص کو ہمت کی یادگار کے طور پر یاد رکھے گی۔

چونکہ اس وقت ٹینس بنیادی طور پر سفید فام کھیل تھا، اس لیے لوگ اس وقت اس سیاہ فام خاندان کو سرعام گھورتے اور آوازیں کستے جب رچرڈ اور اس کی بیٹیاں جونیئر ٹورنامنٹس مقابلوں کے لیے مختلف ٹینس کورٹس کا سفر کرتیں۔ ایک بار لڑکیوں نے پوچھا، "ڈیڈی، لوگ ہمیں اس قدر بری طرح سے کیوں گھورتے رہتے ہیں،" تو اس نے جواب دیا، "کیونکہ اس سے قبل وہ اتنے خوبصورت لوگوں کو دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔"

وقت کا پہیہ تیزی سے گھوما اور کیلنڈر کا صفحہ سنہ 2000 کی طرف بڑی تیزی سے پلٹ گیا، جب دراز قد، دبلی پتلی سیاہ فام لڑکی ومبلڈن ٹورنامنٹ فائنل کھیلنے کے سفر پر روانہ ہوئی، اور اپنی آبائی یہودی بستی سے ہزاروں میل دور، رچرڈ نے اپنی بڑی بیٹی کو لندن کی اشرافیہ، مشہور شخصیات اور شاہی خاندان کے سامنے گھاس کے میدانوں میں میں بجلی کی سی سرعت سے کھیلتے دیکھا۔

یہ وہ وقت تھا جب کسی نے بھی ٹینس کے کسی کھلاڑی کو اس قدر طاقتور سرو اور تیز فٹ ورک کے ساتھ نہیں دیکھا تھا، اور نہ ہی انہوں نے کبھی شاٹس کی اتنی اونچی آوازیں سنی تھیں جیسے ہر گیند کو پیٹا جا رہا ہو اور ہر ضرب پر گیند درد سے کراہ رہی ہو۔

جب وہ لڑکی ایسے مرحلے پر پہنچی جہاں ڈر کے آگے جیت تھی تو لڑکی نے اسٹینڈ میں کھڑے اپنے والد کی طرف دیکھا جو اسے فتح حاصل کرنے کے لیے زور زور سے چلا کر حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ رچرڈ ہمیشہ سے اپنی بیٹیوں کو کہتا آرہا تھا کہ ، "ایک دن، ہم ومبلڈن جیتنے والے ہیں، اور یہ جیتنا ہمارے لیے نہیں ہوگا۔ یہ امریکہ کے بے بس اور غریب لوگوں کے لیے ہوگا۔" رچرڈ کا 20 سالہ طویل ترین جدوجہد کا منصوبہ اب تاریخ کے نازک موڑ پر پہنچ چکا تھا۔
جیسے ہی حریف کی گیند نیٹ سے ٹکرائی، کیمروں نے آنسوؤں سے تر چہرے والے رچرڈ کو دیوانہ وار رقص کرتے ہوئے دیکھا جب اس نے اپنی بیٹی وینس ولیمز کو اپنے سات گرینڈ سلام ٹائٹلز میں سے پہلا ٹائٹل جیتتے دیکھا یہ جیت ان تھک قدموں کا کامیابی کے پہلے زینے کا پہلا بوسہ تھا۔ اس کے بعد اگلے کئی برسوں میں، رچرڈ نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی سرینا کو بھی 23 بڑے ٹورنامنٹ جیتتے ہوئے اور ٹینس میں اب تک کی سب سے عظیم ترین کھلاڑی قرار دیتے ہوئے دیکھا۔
ٹینس کورٹ پر اپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود وینس اور سرینا نے کورٹ کے باہر جو کچھ برداشت کیا وہ ان کے سفر کا سب سے متاثر کن حصہ ہے۔ تماشائیوں کی طرف سے، جنہیں ان کی جسمانی ساخت کی وجہ سے "ولیمز برادرز" کا لقب دیا گیا تھا، سے لے کر سرینا کی مخلوط نسل کی بیٹی کو "چاکلیٹی دودھ" کہنے والے میڈیا میں حالیہ تبصروں تک، دونوں بہنوں کی لچکدار اور مہربان شخصیت نے نسل پرستی اور متعصب رویوں کے خلاف کھڑے ہونے میں بھرپور مدد کی تھی، ان کے باپ کا کہنا تھا کہ ٹینس کورٹ کے باہر جو ہتک ہم برداشت کررہے ہیں اس سے بدلہ لینے کا بہترین طریقہ ٹینس کورٹ کے اندر اپنے ریکٹ سے بھرپور جواب دینا ہے، ان دو بہنوں کی اس متاثر کن جدوجہد نے دنیا بھر کے سیاہ فام لوگوں اور کھلاڑیوں کو متاثر کیا..
............
یاد رکھیں ایک تنہا شخص جس کا دنیا میں خدا کے سوا کوئی نہیں ہوتا، وہ شخص جب تن تنہا کسی مقصد کو پانے کے لیے مصمم ارادہ باندھ لے تو اس اکیلے کے ساتھ خدا کی مشیت بھی شامل ہوجاتی ہے، جو ناممکن کو ممکن بناتی ہے، آپ کو بس اپنے مقصد اپنے راستے کا انتخاب کرنا ہے، پھر اپنے عزم کو مضبوط کرنا ہے، اور پھر خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے اسے پانے کی ہر سعی کرنی ہے تو آپ انشاء اللہ ایک دن اس منزل تک پہنچ جائیں گے، اور آپ اس دن جان لیں گے کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے جو بظاہر ہم سے مخفی ہے۔

09/06/2024

کافی دن ہوئے ہیں میانوالی کے ایک بزرگ سید فیروز شاہ صاحب نے خود پر بیتا ایک قصہ سنایا تھا۔ وہ اتنا دلچسپ اور سبق آموز تھا کہ آپ بھی سن لیجیے۔ وہ کہتے ہیں کہ۔۔۔۔۔

65 والی جنگ کے دنوں میں ہمارے والد صاحب بڑے بھائی کے لیے بہت پریشان تھے جو سندھ میں انسپکٹر پولیس تھے۔ والد صاحب نے مجھے زاد راہ دے کر وہاں بھیجا کہ کم از کم بھائی کے بیوی بچوں کو میانوالی لے آو۔ وہ سمجھتے تھے کہ میانوالی جنگی اثرات سے محفوظ رہے گا۔

میں ان دنوں تعلیم سے فارغ التحصیل ہو کر فارغ تھا چنانچہ والد صاحب کے حکم پر روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر بھائی صاحب کو والد صاحب کے حکم سے آگاہ کیا۔ بھائی صاحب کہنے لگے کہ والد صاحب سے کہنا کہ فکر نہ کریں، یہاں کوئی ایسی کیفیت نہیں ہے۔ میں اور میرا خاندان پوری طرح محفوظ ہیں۔ اگر ایسی کوئی صورت حال دکھی تو میں ایسا ہی کروں گا جیسا وہ چاہتے ہیں۔ اور تم اب آ ہی گئے ہو تو دو تین دن رکو اور پھر واپس چلے جانا۔

واپسی پر بھائی صاحب مجھے چھوڑنے سٹیشن آے اور فرسٹ کلاس کا ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھما کر واپس چلے گئے۔ پلیٹ فارم پر پہنچا تو ٹرین وسل دے کر قدم بڑھا چکی تھی۔ بھاگم بھاگ ایک ڈبے کا ڈنڈا پکڑ کر سوار ہوا کہ اگلے سٹیشن پر درست جگہ ڈھونڈھ لوں گا۔ وہ ڈبہ تھرڈ کلاس کا اور کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میرے ہاتھ میں ایک انگریزی رسالہ تھا۔ ایک جگہ ٹک کر اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ ساتھ ایک ریٹائرڈ فوجی، جو ہنگامی بنیادوں پر بلائے گئے تھے ، بیٹھے تھے اور اوپر برتھ پر ایک صاحب لیٹے پان چبا رہے تھے۔

موضوع گفتگو جنگ اور ہندوستان کو چھٹی کا دودھ یاد دلانے کا عزم تھا۔ ہر بندہ بڑھ چڑھ کر جوش و جذبے کا اظہار کر رہا تھا۔ اتنے میں کسی نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ بابو صاحب ! یہ انگریزی اخبار والے کیا کہتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ اس اخبار کی رائے ہے کہ ہندوستان ہم سے دس گنا بڑا ملک ہے۔ ہماری افواج بہت ہے جگری سے لڑ رہی ہیں مگر جنگ نے طول کھینچا تو ہماری فتح کے سامنے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔

اتنا سننا تھا کہ برتھ پر بیٹھے ہوئے صاحب پیرا شوٹر کی طرح چھلانگ لگا کر نیچے اترے اور پان کی پیک میری قمیض پر تھوک کر میرے منہ پر تھپڑ جڑ دیا اور نعرہ مارا "ہندو کی اتنی جرات جو ہمیں سبق سکھا سکے" ۔۔۔ میں اس اچانک حملے سے سنبھل نہیں پایا تھا کہ پاس بیٹھے فوجی بھی مجھ پر پل پڑے۔

سب ہندوستانی جاسوس کے نعرے مار مار کر مجھے مارنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر کسی اللہ کے بندے نے ہنگامی سٹاپ کی زنجیر کھینچ دی۔ گاڑی رکنے پر پولیس ڈبے میں آئی اور مجھے گرفتار کرکے پیچھے کسی جگہ لے گئی۔ وہاں ایک ڈی ایس پی بیٹھا تھا۔ بھلا آدمی تھا۔ اس نے مجھے پانی پلانے کا حکم دیا اور کچھ وقت کے بعد جب میرے حواس بحال ہوئے تو میں نے اپنے خاندان اور بھائی صاحب کے تعارف کے ساتھ سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اس نے مجھے ایک تولیا دیا کہ لو چھوٹے شاہ جی۔۔۔۔ اپنے سر منہ پر لپیٹ لو اچھی طرح۔ جوں ہی گاڑی رکے ، چھلانگ مار کر بھاگ جانا۔ تمہارے پاس چند لمحے ہوں گے ورنہ ہجوم اکٹھا ہو گیا تو ہم سے نہیں سنبھلے گا۔

جب اگلا سٹیشن آیا اور گاڑی آہستہ ہونی شروع ہوئی تو ڈی ایس پی نے مجھے اشارہ کیا۔ میں نے قدم اٹھاتے ہوئے ممنونیت سے اسے دیکھا تو اس نے میری طرف انگلی اٹھا کر ایک بات کہی:

یاد رکھنا ! جو باتیں فرسٹ کلاس والی ہوں، انہیں تھرڈ کلاس میں بیٹھ کر نہیں کرتے۔۔۔!!

عبدالسلام آزاد۔

"پاکستان‎ ‎کے10‎ ‎‏ پراسرار مقامات‎"‎آپ نے دنیا بھر کے پراسرار مقامات کے بارے میں سن رکھا ہوگا لیکن کیا‎ ‎آپ جانتے ہیں ک...
08/06/2024

"پاکستان‎ ‎کے10‎ ‎‏ پراسرار مقامات‎"‎
آپ نے دنیا بھر کے پراسرار مقامات کے بارے میں سن رکھا ہوگا لیکن کیا‎ ‎آپ جانتے ہیں کہ ایسے ہی کچھ مقامات پاکستان میں بھی ہیں جن کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہیں؟‎ ‎کچھ جگہوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں پریاں رہتی ہیں تو کسی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں روحیں راج کرتی ہیں۔
آئیے آج‎ ‎آپ کو ایسے ہی‎ 10 ‎مقامات کے بارے میں بتاتے ہیں۔
01- کوہ چلتن:
کوئٹہ کے قریب واقع اس پہاڑی سلسلے کو ’چیل تن‘‏‎ ‎کہا‎ ‎جاتا ہے یعنی ’چالیس جسم‘۔‎ ‎اس جگہ کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں ان چالیس بچوں کی روحیں بھٹکتی ہیں جن کے والدین نے انہیں وہآں‏ تنہا مرنے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔
02- مکلی کا قبرستان:
صوبہ سندھ کے شہر ٹھٹھہ کے قریب واقع یہ قبرستان اپنے اندر کئی داستانیں چھپائے ہوئے ہے۔‎ ‎یہ دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے جہاں قبریں منزلوں میں بنائی گئی ہیں۔‎ ‎تیرہویں صدی کے اس قبرستان میں ایک لاکھ سے زائد قبریں ہیں اور دفن ہونے والے لوگوں میں علاقے کے سردار،‏‎ ‎نیک لوگ اور حکمران شامل ہیں لیکن اب یہاں کسی کو دفن نہیں کیا جاتا۔
03- شہر‎ ‎روغن:
بلوچستان میں واقع اس شہر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں جن یا‎ ‎بدروحیں موجود ہیں۔‎ ‎کہا‎ ‎جاتا ہے کہ حضرت‎ ‎سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں یہاں ایک بدی الجمال نامی شہزادی رہا کرتی تھی لیکن اس پر جنات کا سایہ تھا۔‎ ‎کئی‎ ‎شہزادوں نے اسے ان جنات سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن تمام ناکام ہوئے اور پھر ایک دن شہزادے سیف‎ ‎الملوک نے اسے ان جنات کے چنگل سے چھڑایا۔‎ ‎لیکن اب مشہور ہے کہ یہ جن اب اس علاقے کی پہاڑیوں،‏‎ ‎غاروں اور‎ ‎ندیوں پر حکومت کرتے ہیں اور یہاں آنے والے لوگوں پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔
04- جھیل سیف الملوک:
کہا جاتا ہے کہ صدیوں قبل ایک ایرانی شہزادہ سیف الملوک اور پریوں کی رانی ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔ لیکن کچھ روحوں کو یہ پیار ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے دونوں کو قتل کر دیا اور تب سے اب تک ہر رات کو پریاں اس جگہ آکر دونوں عاشقوں کو یاد کر کہ روتی ہیں۔
05- موہاتا پیلس:
کراچی میں واقع اس شہر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں برطانوی دور سے مافوق الفطرت اشیاء‎ ‎کا قبضہ ہے۔ یہ پیلس 1927ء‎ ‎میں بنایا گیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہاں بہت عجیب حرکتیں دیکھنے کو ملتی ہیں،‏‎ ‎کبھی پیلس کی روشنیاں خودبخود مدھم اور تیز ہوجاتی ہیں اور کبھی غیر مانوس سی آوازیں آنے لگتی ہیں۔
06- موہنجو‎ ‎دڑو:
دو‎ ‎ہزار سال پرانا‎ ‎یہ شہر اپنے اندر کئی راز سمیٹے ہوئے ہے۔‎ ‎سائنسی تحقیق کے مطابق یہ شہر تھرمل نیوکلئیر‎ ‎دھماکے کی وجہ سے تباہ ہوا‎ ‎اور‎ ‎سائنسدان اس بات پر حیران ہیں کہ دو‎ ‎ہزار سال قبل کس طرح اس علاقے کے لوگوں کو ایٹمی دھماکے کا علم تھا؟ تاہم ابھی تک اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا جا‎ ‎سکا۔
07- کالا‎ ‎باغ:
آپ نے کالا‎ ‎باغ ڈیم کے بارے میں تو بہت کچھ پڑھ رکھا ہوگا لیکن کیا‎ ‎آپ کو معلوم ہے کہ جس جگہ یہ ڈیم بنا تھا وہاں آج بھی پراسرار بڑھیا راتوں کو پھرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔‎ ‎جن لوگوں نے اس بڑھیا کو دیکھا ہے ،‏‎ ‎ان کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹے قد ،‏‎ ‎فربہ جسم ،‏‎ ‎لمبے بالوں والی بڑھیا‎ ‎راتوں کو وہاں چلتی ہوئی دکھآئی دیتی ہے۔
08- کوہ سلیمان:
تخت سلیمانی کی سب سے بلند چوٹی کوہ سلیمان ہے اور پشتو‎ ‎روایات کے مطابق یہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب ہے۔‎ ‎ابن بطوطہ کے مطابق اس چوٹی پر‎ ‎پہنچنے والے پہلے شخص حضرت سلیمان تھے اور یہ بھی روایات میں ملتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی اولاد نے اردگرد کے علاقے میں سکونت اختیار کی۔
09- چوکھنڈی کا قبرستان:
یہ قبرستان کراچی سے ‏‎ ‎29کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ جس میں ماضی کے بادشاہ اور ملکائیں مدفون ہیں۔‎ ‎اس متروکہ قبرستان کے بارے میں مشہور ہے کہ جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے تو یہاں موجود قبریں جلنے لگتی ہیں اور‎ ‎بہت زیادہ گرم ہو‎ ‎جاتی ہیں۔‎ ‎کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ قبروں میں سے چیخ و‎ ‎پکار بھی سنائی دیتی ہے۔
‎.‎
10- پیر چٹال نورانی گندھاوا:
بلوچستان کے علاقے جھل مگسی کے قریب ایک نخلستان آباد ہے اور اس کے پانی میں دو‎ ‎فٹ لمبی مچھلیاں پائی جاتی ہیں‏ اور‎ ‎اگر کوئی انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو یہ اسے‏ کاٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیتی ہیں۔

گوگل اتنا طاقتور ہے کہ وہ دوسرے سرچ سسٹم کو ہم سے "چھپاتا" ہے۔ ہم صرف ان میں سے اکثر کے وجود کو نہیں جانتے۔   دریں اثنا،...
07/06/2024

گوگل اتنا طاقتور ہے کہ وہ دوسرے سرچ سسٹم کو ہم سے "چھپاتا" ہے۔ ہم صرف ان میں سے اکثر کے وجود کو نہیں جانتے۔
دریں اثنا، دنیا میں اب بھی بہترین تلاش کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو کتابوں، سائنس اور دیگر سمارٹ معلومات میں مہارت رکھتے ہیں۔

ان سائٹس کی فہرست دیکھیں جن کے بارے میں آپ نے کبھی نہیں سنا۔۔

www.refseek.com -
تعلیمی وسائل کی تلاش۔ ایک ارب سے زیادہ ذرائع: انسائیکلوپیڈیا، مونوگرافی، رسالے۔

www.worldcat.org
دنیا بھر کی 20 ہزار لائبریریوں کے مواد کی تلاش۔ معلوم کریں کہ آپ کی ضرورت کی قریب ترین نایاب کتاب کہاں ہے۔

https://link.springer.com -
10 ملین سے زیادہ سائنسی دستاویزات تک رسائی: کتابیں، مضامین، تحقیقی پروٹوکول۔

www.bioline.org.br
ترقی پذیر ممالک میں شائع ہونے والے سائنسی بائیو سائنس جرنلز کی ایک لائبریری ہے۔

http://repec.org -
102 ممالک کے رضاکاروں نے معاشیات اور متعلقہ سائنس پر تقریباً 4 ملین اشاعتیں جمع کی ہیں۔

www.science.gov
2200+ سائنسی سائٹس پر ایک امریکی ریاستی سرچ انجن ہے۔ 200 ملین سے زیادہ مضامین کی ترتیب دی گئی ہے۔

www.base-search.net
اکیڈمک اسٹڈیز ٹیکسٹس پر سب سے طاقتور ریسرچز میں سے ایک ہے۔ 100 ملین سے زیادہ سائنسی دستاویزات، ان میں سے 70% مفت ہیں۔

انسان زمینی مخلوق نہیں ہےامریکی ایکولوجسٹ ڈاکٹر ایلس سِلور کی تہلکہ خیز ریسرچ ارتقاء (Evolution) کے نظریات کا جنازہ اٹھ ...
06/06/2024

انسان زمینی مخلوق نہیں ہے

امریکی ایکولوجسٹ ڈاکٹر ایلس سِلور کی تہلکہ خیز ریسرچ ارتقاء (Evolution) کے نظریات کا جنازہ اٹھ گیا:

ارتقائی سائنسدان لا جواب:
انسان زمین کا ایلین ہے۔

ڈاکٹر ایلیس سِلور (Ellis Silver) نے اپنی کتاب (Humans are not from Earth)
میں تہلکہ خیز دعوی کیا ہے کہ انسان اس سیارے زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے پر تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے اس کے اصل سیارے سے اس کے موجودہ رہائشی سیارے زمین پر پھینک دیا گیا۔

ڈاکٹر ایلیس جو کہ ایک سائنسدان محقق مصنف اور امریکہ کا نامور ایکالوجسٹ (Ecologist) ہے اس کی کتاب میں اس کے الفاظ پر غور کیجیے۔
ذہن میں رھے کہ یہ الفاظ ایک سائنسدان کے ہیں جو کسی مذھب پر یقین نہیں رکھتا۔

اس کا کہنا ہے کہ انسان جس ماحول میں پہلی بار تخلیق کیا گیا اور جہاں یہ رھتا رہا ہے وہ سیارہ، وہ جگہ اس قدر آرام دہ پرسکون اور مناسب ماحول والی تھی جسے وی وی آئی پی کہا جا سکتا ہے وہاں پر انسان بہت ہی نرم و نازک ماحول میں رہتا تھا اس کی نازک مزاجی اور آرام پرست طبیعت سے معلوم ھوتا ھے کہ اسے اپنی روٹی روزی کے لیے کچھ بھی تردد نہیں کرنا پڑتا تھا، یہ کوئی بہت ہی لاڈلی مخلوق تھی جسے اتنی لگژری لائف میسر تھی۔
وہ ماحول ایسا تھا جہاں سردی اور گرمی کی بجائے بہار جیسا موسم رھتا تھا اور وہاں پر سورج جیسے خطرناک ستارے کی تیز دھوپ اور الٹراوائلیٹ شعاعیں بالکل نہیں تھیں جو اس کی برداشت سے باھر اور تکلیف دہ ھوتی ہیں۔

تب اس مخلوق انسان سے کوئی غلطی ہوئی۔
اس کو کسی غلطی کی وجہ سے اس آرام دہ اور عیاشی کے ماحول سے نکال کر پھینک دیا گیا تھا ۔جس نے انسان کو اس سیارے سے نکالا لگتا ہے وہ کوئی انتہائی طاقتور ہستی تھی جس کے کنٹرول میں سیاروں ستاروں کا نظام بھی تھا۔
وہ جسے چاہتا، جس سیارے پر چاہتا، سزا یا جزا کے طور پر کسی کو بھجوا سکتا تھا۔ وہ مخلوقات کو پیدا کرنے پر بھی قادر تھا۔

ڈاکٹر سلور کا کہنا ہے کہ ممکن ہے زمین کسی ایسی جگہ کی مانند تھی جسے جیل قرار دیا جاسکتا ھے۔ یہاں پر صرف مجرموں کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا ہو۔ کیونکہ زمین کی شکل، کالا پانی جیل کی طرح ہے۔ خشکی کے ایک ایسے ٹکڑے کی شکل جس کے چاروں طرف سمندر ہی سمندر ھے، وہاں انسان کو بھیج دیا گیا۔

ڈاکٹر سلور ایک سائنٹسٹ ہے جو صرف مشاہدات کے نتائج حاصل کرنے بعد رائے قائم کرتا ہے۔ اس کی کتاب میں سائنسی دلائل کا ایک انبار ہے جن سے انکار ممکن نہیں۔
اس کے دلائل کی بڑی بنیاد جن پوائنٹس پر ھے ان میں سے چند ایک ثابت شدہ یہ ہیں۔

*نمبر 1:
زمین کی کش ثقل اور جہاں سے انسان آیا ہے اس جگہ کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے۔ جس سیارے سے انسان آیا ہے وہاں کی کشش ثقل زمین سے بہت کم تھی، جس کی وجہ سے انسان کے لئے چلنا پھرنا بوجھ اٹھا وغیرہ بہت آسان تھا۔ انسانوں کے اندر کمر درد کی شکایت زیادہ گریوٹی کی وجہ سے ہے۔

*نمبر 2:
انسان میں جتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں وہ باقی کسی ایک بھی مخلوق میں نہیں جو زمین پر بس رہی ہے۔
ڈاکٹر ایلیس لکھتا ہے کہ آپ اس روئے زمین پر ایک بھی ایسا انسان دکھا دیجئیے جسے کوئی ایک بھی بیماری نہ ہو تو میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوسکتا ہوں جبکہ میں آپ کو ہر جانور کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ وقتی اور عارضی بیماریوں کو چھوڑ کر کسی ایک بھی مرض میں ایک بھی جانور گرفتار نہیں ہے۔

*نمبر 3:
ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ کچھ ہی دیر بعد اس کو چکر آنے لگتے ہیں اور سن سٹروک کا شکار ہوسکتا ہے۔
جبکہ جانوروں میں ایسا کوئی ایشو نہیں ھے مہینوں دھوپ میں رھنے کے باوجود جانور نہ تو کسی جلدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح کے مر ض میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا تعلق سورج کی تیز شعاعوں یا دھوپ سے ہو۔

*نمبر 4:
ہر انسان یہی محسوس کرتا ہے اور ہر وقت اسے احساس رہتا ہے کہ اس کا گھر اس سیارے پر نہیں۔
کبھی کبھی اس پر بلاوجہ ایسی اداسی طاری ہوجاتی ہے جیسی کسی پردیس میں رہنے والے پر ہوتی ہے چاہے وہ بیشک اپنے گھر میں اپنے قریبی خونی رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نا بیٹھا ہوں۔

*نمبر 5:
زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کا ٹمپریچر آٹومیٹک طریقے سے ہر سیکنڈ بعد ریگولیٹ ہوتا رہتا ہے یعنی اگر سخت اور تیز دھوپ ھے تو ان کے جسم کا درجہ حرارت خود کار طریقے سے ریگولیٹ ہو جائے گا،
جبکہ اسی وقت اگر بادل آ جاتے ہیں تو ان کے جسم کا ٹمپریچر سائے کے مطابق ہو جائے گا جبکہ انسان کا ایسا کوئی سسٹم نہیں بلکہ انسان بدلتے موسم اور ماحول کے ساتھ بیمار ھونے لگ جائے گا۔ موسمی بخار کا لفظ صرف انسانوں میں ھے۔

*نمبر 6:
انسان اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے۔ اسکا ڈی این اے اور جینز کی تعداد اس سیارہ زمین پہ جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف اور بہت زیادہ ہے۔

*نمبر 7:
زمین کے اصل رہائشی (جانوروں) کو اپنی غذا حاصل کرنا اور اسے کھانا مشکل نہیں، وہ ہر غذا ڈائریکٹ کھاتے ہیں، جبکہ انسان کو اپنی غذا کے چند لقمے حاصل کرنے کے لیے ہزاروں جتن کرنا پڑتے ہیں، پہلے چیزوں کو پکا کر نرم کرنا پڑتا ھے پھر اس کے معدہ اور جسم کے مطابق وہ غذا استعمال کے قابل ھوتی ھے، اس سے بھی ظاہر ھوتا ھے کہ انسان زمین کا رہنے والا نہیں ھے۔
جب یہ اپنے اصل سیارے پر تھا تو وہاں اسے کھانا پکانے کا جھنجٹ نہیں اٹھانا پڑتا تھا بلکہ ہر چیز کو ڈائریکٹ غذا کیلیئے استعمال کرتا تھا۔
مزید یہ اکیلا دو پاؤں پر چلنے والا ھے جو اس کے یہاں پر ایلین ھونے کی نشانی ھے۔

*نمبر 8:
انسان کو زمین پر رہنے کیلیے بہت نرم و گداز بستر کی ضرورت ھوتی ھے جبکہ زمین کے اصل باسیوں یعنی جانوروں کو اس طرح نرم بستر کی ضرورت نہیں ھوتی۔ یہ اس چیز کی علامت ھے کہ انسان کے اصل سیارے پر سونے اور آرام کرنے کی جگہ انتہائی نرم و نازک تھی جو اس کے جسم کی نازکی کے مطابق تھی۔

*نمبر 9:
انسان زمین کے سب باسیوں سے بالکل الگ ھے لہذا یہ یہاں پر کسی بھی جانور (بندر یا چمپینزی وغیرہ) کی ارتقائی شکل نہیں ھے بلکہ اسے کسی اور سیارے سے زمین پر کوئی اور مخلوق لا کر پھینک گئی ھے۔

نمبر 10:
انسان کو جس اصل سیارے پر تخلیق کیا گیا تھا وہاں زمین جیسا گندا ماحول نہیں تھا، اس کی نرم و نازک جلد جو زمین کے سورج کی دھوپ میں جھلس کر سیاہ ہوجاتی ہے اس کے پیدائشی سیارے کے مطابق بالکل مناسب بنائی گئی تھی ۔ یہ اتنا نازک مزاج تھا کہ زمین پر آنے کے بعد بھی اپنی نازک مزاجی کے مطابق ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں رھتا ھے۔ جس طرح اسے اپنے سیارے پر آرام دہ اور پرتعیش بستر پر سونے کی عادت تھی وہ زمین پر آنے کے بعد بھی اسی کے لئے اب بھی کوشش کرتا ھے کہ زیادہ سے زیادہ آرام دہ زندگی گزار سکوں۔
جیسے خوبصورت قیمتی اور مضبوط محلات مکانات اسے وہاں اس کے ماں باپ کو میسر تھے وہ اب بھی انہی جیسے بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ باقی سب جانور اور مخلوقات اس سے بے نیاز ہیں۔

نمبر 11:
یہاں زمین کی مخلوقات عقل سے عاری اور تھرڈ کلاس زندگی کی عادی ہیں جن کو نہ اچھا سوچنے کی توفیق ہے نہ اچھا رہنے کی اور نہ ہی امن سکون سے رھنے کی۔ انسان ان مخلوقات کو دیکھ دیکھ کر خونخوار ہوگیا۔ جبکہ اس کی اصلیت محبت فنون لطیفہ اور امن و سکون کی زندگی تھی۔

ڈاکٹر ایلیس کا کہنا ہے کہ انسان کی عقل و شعور اور ترقی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ایلین کے والدین کو اپنے سیارے سے زمین پر آئے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا، ابھی کچھ ہزار سال ہی گزرے ہیں یہ ابھی اپنی زندگی کو اپنے پرانے سیارے کی طرح لگژری بنانے کے لئے بھرپور کوشش کر رہا ہے، کبھی گاڑیاں ایجاد کرتا ہے، کبھی موبائل فون اگر اسے آئے ہوئے چند لاکھ سال بھی گزرے ہوتے تو یہ جو آج ایجادات نظر آ رہی ہیں یہ ہزاروں سال پہلے وجود میں آ چکی ہوتیں، کیونکہ میں اور تم اتنے گئے گزرے نہیں کہ لاکھوں سال تک جانوروں کی طرح بیچارگی اور ترس کی زندگی گزارتے رہتے۔

ڈاکٹر ایلیس سِلور کی کتاب میں اس حوالے سے بہت کچھ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے دلائل کو ابھی تک کوئی جھوٹا نہیں ثابت کر سکا۔

میں اس کے سائنسی دلائل اور مفروضوں پر غور کر رہا تھا کہ یہ کہانی ایک سائنسدان بیان کر رہا ھے یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی داستان ہے جسے انسانوں کی ہر الہامی کتاب میں بالکل اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔ میں اس پر اس لیے تفصیل نہیں لکھوں گا کیونکہ آپ سبھی اپنے باپ آدم ؑ اور اماں حوا ؑ کے قصے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
سائنس اللہ کی طرف چل پڑی ہے، سائنسدان وہ سب کہنے پر مجبور ھوگئے ہیں، جو انبیاء کرام اپنی نسلوں کو بتاتے رہے تھے۔

ارتقاء کے نظریات کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔
اب انسانوں کی سوچ کی سمت درست ہو رہی ھے۔

یہ سیارہ ہمارا نہیں ہے۔

اللہ پاک نے اپنی عظیم کتاب قران حکیم میں بھی بار بار لاتعداد مرتبہ یہی بتا دیا کہ:
اے انسانوں یہ دنیا کی زندگی تمہاری آزمائش کی جگہ ہے۔ جہاں سے تم کو تمہارے اعمال کے مطابق سزا و جزا ملے گی۔

06/06/2024

بات تو سچ ہے

06/06/2024

مسلم سائنس دانوں کا جو حشرمسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخرسے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے۔ ان میں سے چار سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے۔
‏یعقوب الکندی
فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین ‏عوام قہقہہ لگاتے تھے۔

ابن رشد
یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہورعالم ابن رشد کو بے دین قراردے کراس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اورنمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے ‏آخری دن ذلت اورگمنامی کی حالت میں بسر کیے۔

ابن سینا
جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراہی کا مرتکب اورمرتد قراردیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے اوروہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک مشرق اورمغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی ‏گئی، یعنی القانون فی الطب، حالت روپوشی میں لکھی۔

زکریاالرازی
عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کوجھوٹا، ملحد اورکافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکم سنایا کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔ اس طرح ‏باربارکتابیں سرپہ مارے جانے کی وجہ سے رازی اندھا ہو گیا اوراس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا۔

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ گندگی کے ڈھیر پر بیٹھا یا روڈ کے کنارے سویا ہوا🐕 کتا گاڑی 🏍 کے پیچھے کچھ فاصلے تک بھونکتا اور د...
31/05/2024

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ
گندگی کے ڈھیر پر بیٹھا یا روڈ کے کنارے سویا ہوا🐕
کتا گاڑی 🏍 کے پیچھے کچھ فاصلے تک بھونکتا
اور دوڑتا ہے نہ یہ کتا آپ سے گاڑی چھیننا چاہتا ہے
نہ گاڑی میں بیٹھنا چاہتا ہے
اور نہ ہی اسے گاڑی چلانی آتی ہے
بس خوامخواہ بھونکنا اس کی عادت ہے۔
ایسے ہی زندگی کے سفر میں جب آپ اپنی منزل کی طرف رواں داواں ہوتے ہیں
تو کچھ اسی عادت کے لوگ بنا کسی مقصد کے آپ کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں
اس لئے جب آپ اپنی منزل پر رواں دواں ہوں،
اور لوگ آپ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کریں
تو ان سے الجھنے کے بجائے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہیں!
کامیابیاں آپ کی منتظر ہیں۔ ✅😊

گدھا درخت سے بندھا ہوا تھا شیطان آیا اور اسے کھول دیا گدھا کھیتوں کی طرف بھاگا اور کھڑی فصل کو تباہ کرنے لگا جب کسان کی ...
26/05/2024

گدھا درخت سے بندھا ہوا تھا شیطان آیا اور اسے کھول دیا
گدھا کھیتوں کی طرف بھاگا اور کھڑی فصل کو تباہ کرنے لگا
جب کسان کی بیوی نے یہ دیکھا تو اس نے غصے میں گدھے کو مار ڈالا
گدھے کی لاش دیکھ کر گدھے کا مالک بہت غصے میں آگیا اور کسان کی بیوی کو گولی مار دی
کسان اپنی بیوی کی موت سے اتنا مشتعل ہوا کہ اس نے گدھے کے مالک کو گولی مار دی
جب گدھے کے مالک کی بیوی نے اپنے شوہر کی موت کی خبر سنی تو غصے میں اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ کسان کا گھر جلا دے.
بیٹے شام کو گئے اور ماں کے حکم کو پورا کرتے ہوئے کسان کے گھر کو آگ لگا دی یہ سوچ کر کہ کسان بھی گھر میں جل کر مر جائے گا.
لیکن ایسا نہیں ہوا
کسان واپس آیا اور گدھے کے مالک کے تینوں بیٹوں اور بیوی کو قتل کر دیا اس کے بعد کسان نے توبہ کرلی اور شیطان کو کوسنے لگا
شیطان نے ناراض ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا صرف گدھے کی رسی کھولی تھی لیکن سب نے رد عمل ظاہر کیا ، رد عمل کے جواب میں اور زیادہ اور شدید رد عمل ظاہر کیا اور اپنے اندر کی خباثت کو باہر آنے دیا
لہذا اگلی بار جواب دینے ، رد عمل ظاہر کرنے اور کسی سے بدلہ لینے سے پہلے رک جائیں اور ایک لمحے کے لیے سوچیں
کبھی کبھی شیطان ہمارے درمیان صرف گدھا چھوڑ دیتا ہے اور باقی کام ہم خود کرتے ہیں !!
روزانہ ٹی وی چینلز گدھے چھوڑتے ہیں
کوئی فیس بک پر گدھا چھوڑتا دیتا ہے
یاد رکھیں..
ٹوٹنا آسان ہے ، جڑے رہنا بہت مشکل ہے ...
لڑنا آسان ہے ، درگزر کرنا بہت مشکل ہے

26/05/2024

مشتاق احمد یوسفی

ایک بھائی میڈیکل سٹور گیا. اس کی بیگم گاڑی میں بیٹھی تھی. بندے کا بل بنا 198 روپے. دکاندار نے بھائی سے کہا:
" بھائی... میرے پاس 2 روپے کا سکہ نہیں ہے. آپ کہیں تو ایک گولی پیناڈول کی ڈال دوں؟".

وہ گاڑی میں بیٹھی اپنی بیگم کے پاس گیا اور ماجرا سنایا. وہ بولی پیناڈول کی ضرورت نہیں، اسے کہو پونسٹان فورٹ دے دے.
یہ دیکھ کر دکاندار کو شرارت سوجھی. اس نے کہا:
" بھائی وہ تو 3 روپے کی گولی ہے. آپ ایک روپیہ اور دیں."
بھائی کے پاس ایک روپے کا سکہ نہیں تھا.
وہ واپس اپنی بیگم کے پاس گیا اور دوبارہ روداد سنائی. وہ بولی:
" اچھا تو پھر بروفن لے لو."
بھائی دوبارہ دکاندار کے پاس آیا.
" سوری بھائی وہ بھی 3 روپے کی ہے."
وہ پھر واپس گیا تو بیگم بولی کہ اس سے کہو کہ 1 روپیہ چھوڑ دے.
دکاندار بولا کہ آپ 2 روپے چھوڑ دو.

وہ واپس مڑنے ہی لگا تھا کہ دکاندار کو اس کی حالت پر رحم آ گیا اور اس کی رن مریدی پر داد دیتے ہوئے اسے پونسٹان فورٹ کا پورا ایک پتا دے کر رخصت کردیا.

زندگی سب کی یہی ہوتی ہے تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ-

آٹوڈیسک Autodesk ایک امریکی سافٹ وئیر کمپنی ہے.  اس کے  سو زائد سافٹویئر ہیں. جن میں پرزوں کی ڈیزائنگ،اور ان کی تیاری سے...
23/05/2024

آٹوڈیسک Autodesk ایک امریکی سافٹ وئیر کمپنی ہے. اس کے سو زائد سافٹویئر ہیں. جن میں پرزوں کی ڈیزائنگ،اور ان کی تیاری سے لیکر گاڑیوں کے ڈیزائن بنانے تک، عمارات کی ڈیزائنگ، گھروں کے فرنٹ اور انٹیرئیر ڈیکوریشن ، پلوں اور بڑی عمارات کی ڈیزائنگ سے لیکر فیکٹریوں کی ڈیزائنگ تک اور ویب ڈیزائنگ، ویڈیو ایڈیٹنگ سے لیکر اینیمیشنز بنانے تک کے سافٹویئر شامل ہیں.

آٹو ڈسک کمپنی اپنا کوئی بھی سافٹویئر بیچتی نہیں بلکہ یہ ماہانہ بنیادوں پر یا سال بھر کے لیے کرایہ پر دستیاب ہوتے ہیں. ان سافٹویئر کا اوسطاً کرایہ ایک ہزار ڈالر سے تین ہزار ڈالرز تک سالانہ ہے. دنیا بھر میں اس کے صارف موجود ہیں جو کرایہ پر ان کے سافٹویئر استعمال کرتے ہیں. جس سے اس کمپنی کو اربوں ڈالرز سالانہ کی آمدن ہوتی ہے. سال 2023 کی ان کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق کمپنی نے پچھلے مالی سال میں پانچ ارب دس کروڑ ڈالرز کرایہ حاصل کیا. پانچ ارب دس کروڑ ڈالرز پاکستانی روپوں میں چودہ کھرب سے زائد رقم بنتی ہے..

لیکن اصل بات یہ نہیں جو آپ کو بتانا مقصود ہے.. اصل کہانی آگے ہے جو اس سے زیادہ ہوشربا ہے. اور وہ کہانی یہ ہے کہ اس کمپنی کے بیشتر سافٹویئر دنیا بھر کے طلباء کے لیے بالکل مفت ہیں.. جی جی بالکل مفت. آپ دنیا کے کسی بھی ملک کی کسی بھی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں، اپنا رول نمبر جامعہ کا نام اور اس کی ویبسائٹ کی معلومات مہیا کرکے جو سافٹویئر چاہیں ایک سال کے لیے مفت استعمال کرسکتے ہیں.. صرف یہی نہیں آپ ایک زائد سافٹویئر بھی استعمال کرسکتے ہیں اور ان کو دو کمپیوٹرز پر استعمال کرنے کی سہولت بھی موجود ہے. تاکہ طلباء جامعہ میں اور گھر پر بھی مشق کرسکیں.

مزے کی بات یہ ہے کہ مفت مہیا کیے جانے والے سافٹویئر میں اور کرایہ پر دستیاب سافٹویئر میں رتی برابر فرق بھی نہیں.. اور اس سے مزے کی بات کہ آپ کسی بھی طالب-علم کی معلومات استعمال کرکے یہ سہولت مفت استعمال کرسکتے ہیں. کمپنی صرف یہ چیک کرتی ہے کہ طالب علم کی معلومات درست ہیں جبکہ اس کے پاس یہ چیک کرنے کا طریقہ موجود نہیں کہ طالبعلم کے نام سے ڈاؤنلوڈ کیا جانے والا سافٹویئر کوئی پروفیشنل یا کوئی ادارہ تجارتی مقاصد کے لیے استعمال تو نہیں کررہا .

اب سوچیں کہ وہ کیسے لوگ ہیں جو صرف اپنے ملک ہی نہیں دنیا بھر کے طلباء کو اربوں ڈالرز کے سافٹویئر مفت مہیا کررہے ہیں.. اور ساتھ یہ بھی سوچیں کہ وہ کون لوگ ہیں جو گلی محلے یا اقربا میں کسی بھی طالب علم کا نام استعمال کرکے مفت سافٹویئر استعمال کرنے کی اس سہولت سے واقف ہوتے ہوئے بھی سالانہ پانچ ارب ڈالرز کے سافٹویئر خرید کر استعمال کررہے ہیں.

فطرت نے دنیا پر حکمرانی کا حق جذباتی نعرے لگانے والوں کے لیے مختص نہیں کررکھا اس کے لیے بلند اجتماعی کردار کی کڑی کسوٹی رکھی گئی ہے. کیا ایسے زبردست کردار کے لیے ہم خود کو آمادہ پاتے ہیں

23/05/2024

یوسف کو بادشاہی کا خواب دکھایا ،، باپ کو بھی پتہ چل گیا ، ایک موجودہ نبی ہے تو دوسرا مستقبل کا نبی ہے ! مگر دونوں کو ہوا نہیں لگنے دی کہ یہ کیسے ہو گا !

خواب خوشی کا تھا ،، مگر چَکر غم کا چلا دیا !

یوسف دو کلومیٹر دور کنوئیں میں پڑا ہے ،،خوشبو نہیں آنے دی !

اگر خوشبو آ گئی تو باپ ہے رہ نہیں سکے گا ،، جا کر نکلوا لے گا ! جبکہ بادشاہی کے لئے سفر اسی کنوئیں سے لکھا گیا تھا !

سمجھا دوں گا تو بھی اخلاقی طور پہ بہت برا لگتا ہے
کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو بادشاہ بنانے کے لئے اسے کنوئیں میں ڈال کر درخت کے پیچھے سے جھانک جھانک کے دیکھ رہا ہے کہ قافلے والوں نے اٹھایا ہے یا نہیں ! لہذا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہے !

اگر یوسف کے بھائیوں کو پتہ ہوتا کہ اس کنوئیں میں گرنا بادشاہ بننا ہے اور وہ یوسف کی مخالفت کر کے اصل میں اسے بادشاہ بنانے میں اللہ کی طرف سے استعمال ہو رہے ہیں تو وہ ایک دوسرے کی منتیں کرتے کہ مجھے دھکا دے دو !

یوسف عزیز کے گھر گئے تو نعمتوں بھرے ماحول سے اٹھا کر جیل میں ڈال دیا کہ ، ان مع العسرِ یسراً ،

جیل کے ساتھیوں کی تعبیر بتائی تو بچ جانے والے سے کہا کہ میرے کیس کا ذکر کرنا بادشاہ کے دربار میں ،،مگر مناسب وقت تک یوسف کو جیل میں رکھنے کی اسکیم کے تحت شیطان نے اسے بھلا دیا۔

یوں شیطان بھی اللہ کی اسکیم کو نہ سمجھ سکا اور بطورِ ٹول استعمال ھو گیا ،اگر اس وقت یوسف علیہ السلام کا ذکر ہو جاتا تو یوسف سوالی ہوتے اور رب کو یہ پسند نہیں تھا ،، اس کی اسکیم میں بادشاہ کو سوالی بن کر آنا تھا ، اور پھر بادشاہ کو خواب دکھا کر سوالی بنایا

اور یوسف علیہ السلام کی تعبیر نے ان کی عقل و دانش کا سکہ جما دیا ،، بادشاہ نے بلایا تو فرمایا میں : این آر او " کے تحت باہر نہیں آؤں گا جب تک عورتوں والے کیس میں میری بے گناہی ثابت نہ ہو جائے ،،عورتیں بلوائی گئیں،، سب نے یوسف کی پاکدامنی کی گواہی دی اور مدعیہ عورت نے بھی جھوٹ کا اعتراف کر کے کہہ دیا کہ : انا راودتہ عن نفسہ و انہ لمن الصادقین ،،،

وہی قحط کا خواب جو بادشاہ کو یوسف کے پاس لایا تھا ،، وہی قحط ہانکا کر کے یوسف کے بھائیوں کو بھی ان کے دربار میں لے آیا ، اور دکھا دیا کہ یہ وہ بےبس معصوم بچہ ہے جسے تمہارے حسد نے بادشاہ بنا دیا ،

فرمایا پہلے بھی تم میرا کرتہ لے کر گئے تھے ،جس نے میرے باپ کی بینائی کھا لی کیونکہ وہ اسی کرتے کو سونگھ سونگھ کر گریہ کیا کرتے تھے ،، فرمایا اب یہ کرتہ لے جاؤ ،، یہ وہ کھوئی ھوئی بینائی واپس لے آئے گا !

اب یوسف نہیں یوسف کا کرتا مصر سے چلا ہے تو : کنعان کے صحراء مہک اٹھے ہیں،یعقوب چیخ پڑے ھیں : انی لَاَجِدُ ریح یوسف لو لا ان تفندون۔

تم مجھے سٹھیایا ہوا نہ کہو تو ایک بات کہوں " مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ھے :

سبحان اللہ ،،جب رب نہیں چاہتا تھا تو 2 کلومیٹر دور کے کنوئیں سے خبر نہیں آنے دی ،،جب سوئچ آن کیا ہے تو مصر سے کنعان تک خوشبو سفر کر گئی ہے !

واللہ غالبٓ علی امرہ ولٰکن اکثر الناس لا یعلمون !

اللہ جو چاھتا ہے وہ کر کے ہی رہتا ھے مگر لوگوں کی اکثریت یہ بات نہیں جانتی !

یاد رکھیں آپ کے عزیزوں کی چالیں اور حسد شاید آپ کے بارے میں اللہ کی خیر کی اسکیم کو ہی کامیاب بنانے کی کوئی خدائی چال ہو ،، انہیں کرنے دیں جو وہ کرتے ہیں، اللہ پاک سے خیر مانگیں !

ایک اور بڑی وجہ ہے جو جنگ عظیم ہونے کا سبب بنی وہ تھی  Balkan-Powder Balkan-POWDER کیا ہے؟ یورپ کے جزیرہ نما بلقان سے تع...
21/05/2024

ایک اور بڑی وجہ ہے جو جنگ عظیم ہونے کا سبب بنی وہ تھی Balkan-Powder Balkan-POWDER کیا ہے؟
یورپ کے جزیرہ نما بلقان سے تعلق رکھنے والا جو بحیرہ اسود ، ایجین اور ایڈریاٹک سے گھرا ہوا ہے. یعنی وہ ممالک جو ساحل سمندر کے قریب ہے
ساحل قریب ہونے کی وجہ سے ان ممالک کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ مطلب بندرگاہوں کی وجہ سے تجارت اور منافع دوگناہ ہو جاتی ہے۔ اب جس ملک کو چاہیے وہ آپ کی بندرگاہ کا استعمال کرسکتا ہے محتصر الفاظ میں بہت سارے ممالک اب کی باتیں اور شرائط ماننے اور ہمایت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہے۔ بندرگاہ مطلب طاقت۔ ایک وقت میں یہ سارے Balkan States آسٹریا-ہنگری اور سلطنت عثمانیہ کے کنٹرول میں تھے مگر بعد میں قومی آزادی کے نام پر کچھ ممالک علحیدہ ہو گئے۔ آسٹریا ہنگری اور سلطنت عثمانیہ کی قوت کو کمزور کرنے اور ان ریاستوں پر قبضہ کرنے کے لئے برطانیہ روس اور فرانس نے مل کر ان ممالک میں قومیت کے نام پر خود مختار ہو جانے کی سازشوں کو تقویت اور بعد میں حود ان بندرگاہوں پر قبضہ کر کے اپنی سرمایدریت کی طاقت میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے ان ممالک میں بہت زیادہ جنگ ہوئی اور ہر وقت جنگ کا سماں رہتا تھا۔ ان ساری صورتحال میں ہر ملک ایک دوسرے سے جنگ کرنے کو تیار تھا اور ایک چھوٹی سی وجہ ایک بہت بڑی جنگ کی وجہ بن سکتی تھی اسی وجہ سے ان ممالک کو Balkan پاؤڈر کہا جاتا تھا جیسا بارود سے بھرا ہوا ٹرک کے اس میں کسی بھی وقت ایک چھوٹی سی چنگاری کی وجہ سے پورا ٹرک تبا ہو سکتا ہے اس طرح ان ممالک میں بھی ایک چھوٹی سی وجہ سے ایک بہت بڑی جنگ چھڑ سکتی تھی
انتظار صرف ایک واقعے کا ہونا تھا اور بدقسمتی سے ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔
جنگ عظیم کی اس تحریر کو پڑھتے ہوئے ایک بات اپنی دماغ میں رکھنی چاہیے کہ پہلے سے ہی بہت سارے ممالک میں حفیہ معاہدے ہوئے تھے جن کا سوائے ان ممالک کے جن کے درمیان یہ معاہدے ہوئے اور کیسی کو کچھ پتہ نہیں تھا اسکے علاوں بہت سارے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ سرد جنگ میں مصروف تھے اور صرف ایک بڑی جنگ چھڑنے کی تیاری کر رہے تھے یا جنگ چھڑنے کا صرف ایک بہانہ چاہیے تھا اور اسی دوران ایک اہم اور بڑا واقعہ پیش ایا۔ جن کی وجہ سے سرد اور چھوٹے جنگ جو پہلے سے جاری تھے ایک بہت بڑی جنگ چھڑنے کا سبب یا بہانہ بنی۔ لیکن یہ واقعہ کوئی ایک معمولی واقعہ نہیں تھا اور یہ واقعہ ہے آسٹریا-ہنگری کے شہزادہ Archduke-Franz-Fedinanol اور اس کی بیوی کی قتل۔ شہزادہ اپنی بیوی کے ساتھ SARAJEVO (جو اس وقت آسٹریا-ہنگری کی ایک شہر ہوا کرتا تھا آج کل Bosnia کا دارالحکومت ہے) میں سیر و تفریح کے لیے آیا ہوا تھا اور اسی مقام پر Gavrili Princip اور بلیک ہینڈ کے کچھ ساتھیوں نے مل کر 28 جون 1914 کو اس کا قتل کیا اور یہ قتل اسلیئے بہت حساس تھی کیونکہ پہلے سے ہی آسٹریا-ہنگری میں یہ اعلان ہوچکا تھا کہ یہ شہزادہ اگلا بادشاہ ہوگا یعنی دوسرے الفاظ میں ایک بادشاہ کی قتل۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ Serbia اور آسٹریا ہنگری کے حالات پہلے سے ہی خراب تھے۔ کیونکہ برطانیہ روس اور فرانس پہلے سے ہی اس Serbia پر قبضہ کرنا چاہتے تھے روس Serbia کی بندرگاہوں کو حاصل کرنے کے لیے بہت کوشش کر رہا تھا۔ Serbia جو پہلے سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا جو بعد میں 1878 میں مکمل طور پر آزاد ہوا یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ ان ممالکوں کی یہ آزادی سلطنتِ عثمانیہ سے ظلم کی وجہ سے نہیں بلکہ قومیت کی وجہ سے تھی برطانوی سامراج نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف سلطنتِ عثمانیہ بلکہ مغلیہ سلطنت کو بھی اس طرح کمزور کیا تھا ان میں بنیادی کردار عداروں کا تھا، ساتھ میں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے زوال کا دور تھا ورنہ سامراج جو صدیوں سے اپنے مکاریوں میں لگے ہوئے تھے کامیاب نہیں ہو پا رہے تھے مگر مسلمانوں کے کمزوریوں اور عداروں کا فایدہ اٹھا کر مغلیہ سلطنت پر قبضہ اور حلافت عثمانیہ کو تقسیم کر کے کمزور کر دیا گیا۔
چونکہ Bosnia جو اس وقت آسٹریا-ہنگری کا حصہ تھا میں بھی آزادی کی تحریکیں شروع تھی اور Serbia ان کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہا تھا اور Serbia کے پیچھے روس تھا اور
روس کے پیچھے برطانیہ اور فرانس تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آسٹریا-ہنگری نے نہ صرف Serbia پر الزامات لگائے بلکہ ان کو ہتھیار ڈالنے اور تباہ و برباد کرنے کی دھمکیاں دی۔ اور کہا کہ اگر ہتھیار نہ ڈالیں تو جنگ کے لیے تیار ہو جائے۔
ایک اور وجہ روس سلطنت عثمانیہ کی کمزوریوں کو دیکھ کر black sea کے دو اہم بندرگاہوں straits of Bosphous اور straits of Dardanelles پر قبضہ کرنا چاہتا تھا جو سلطنت عثمانیہ کے قبضہ میں تھے اور یہ بندرگاہیں روس کے لیے سب سے زیادہ اہم تھے اس وقت تک روس میں کمیونسٹ انقلاب نہیں آیا تھا۔
آسٹریا ہنگری کی Serbia کو دھمکیاں کے بعد Serbia نے روس سے مدد مانگی اور روس نے بھرپور مدد کی یقین دہانی کرا دی اور اس طرح اپنے افواج Serbia میں داخل کر دیے۔
روس کو تو اسی دن کی تلاش تھی کہ کیسی طرح Serbia کی سیاست میں مداخلت کرے۔ ایک اور اہم بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ آسٹریا-ہنگری ہی نے Serbia کو آزادی دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جرمنی اور آسٹریا ہنگری دودھ کے دھولیں نہیں تھے وہ بھی اپنے آپ کو طاقتور بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔ مگر ان کا سامراجیت برطانیہ سے کم تھی ان سب ظلم اور شیطانیت کے پیچھے بنیادی طور پر برطانوی سامراج ہی تھی
آسٹریا ہنگری کو روس کی مداحلت کا پتہ چلنے پر جرمنی سے مدد اور معاہدے کی پاسداری کی یاد دہنی کرا دی۔ اس طرح آسٹریا ہنگری اور جرمنی نے Serbia پر حملہ کردیا اور جس کے نتیجے میں روس نے جرمنی پر حملہ کر دیا اور چونکے روس کی پہلے سے ہی برطانیہ اور فرانس کے ساتھ معاہدات تھے تو انہوں نے فرانس کو معاہدے کی پاسداری کا کہا تو فرانس نے بھی جرمنی پر حملہ کر دیا لیکن اس وقت یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے ابھی تک برطانیہ اس جنگ میں نہیں کود پڑی تھی۔
جرمنی نے سب سے پہلے فرانس کو ہرانے کا پلن بنایا اور فرانس پر حملہ کر دیا کیونکے روس کی فوج بہت بڑی تعداد میں تھی۔ فرانس جرمنی کے پڑوس ملک ہونے کی وجہ سے ایک آسان ہدف تھا۔ دوسری جانب روس نے بھی مشرق کی جانب جرمنی پر حملہ کیا تھا۔ جرمنی نے Belgium کے راستے فرانس پر حملہ کر دیا۔ Belgium کی برطانیہ کے ساتھ 1839 میں ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے کے معاہدے ہوئے تھے اور دوسری جانب برطانیہ کا فرانس اور روس کے ساتھ بھی معاہدات تھے جن کی وجہ سے برطانیہ نے جرمنی پر حملہ کر دیا۔ ابتدا میں جرمنی کو روس اور فرانس کے خلاف بڑی کامیابی ملی (جرمنی بذات خود ایک بہت بڑی طاقت تھی)
جرمنی پیرس تک پہنچ چکا تھا لیکن وہاں سے آگے نہ بڑھ سکا کیونکے برطانوی فوج بہت بڑی تعداد میں فرانس کی مدد کے لیے پہنچ گئی برطانیہ کی فوج کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ صرف متحدہ ہندوستانی فوج کی تعداد 13 لاکھ تھی جنہوں نے اس شرط پر جنگ میں حصہ لینے کی حمایت کی تھی کہ ہم سلطنت عثمانیہ کے ساتھ نہیں لڑنگے اور سلطنت عثمانیہ کا حتمہ نہیں ہوگا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہیں کہ اس وقت متحدہ ہندوستان برطانیوں سامراج کے زیر اثر تھا متحدہ ہندوستانیوں کے ساتھ جنگ جیتنے کی صورت میں بہت سارے وعدے کیے گئے تھے مگر برطانیہ نے دھکے و فریب کے سوا کچھ نہیں دیا جنگ عظیم میں متحدہ ہندوستان کی فوج بہادری کے ساتھ لڑی مگر جنگ کے بعد سب وعدے جھوٹے نکلے دوسری جانب مشرق کی بورڈر پر جرمنی نے روس کو بہت بڑا نقصان پہنچایا اور روس کے تقریباً تین لاکھ فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔

اس جنگ عظیم میں متحدہ ہندوستان کہ ساری دولت اور فصلوں کی استعمال کی گئی( فوجیوں تک کھانا پینا ووغیر) یہی وجہ تھی کہ بعد میں متحدہ ہندوستان پر قحط سالی اگی اور لاکھوں لوگ قحط کی وجہ سے موت کا شکار ہوگئے اسکے علاوں ہر اول محاذ پر آپنے قبضہ شدہ کالونیوں کے سپاہیوں حصوص ہندوستانی فوج کا استعمال کیا گیا تاکہ انگریز فوجیوں کو نقصان کم سے کم ہو، مختصراً یہ جنگ زیادہ تر ہندوستان کے وسائل سے لڑی گی برطانوی سامراج نے اپنا فائدہ پورا کرنے کے بعد متحدہ ہندوستان کے ساتھ کیے گئے تمام وعدوں کی خلاف ورزی کی اور متحدہ ہندوستان کو دھوکا دیا
جنگ عظیم کے خرچے پورے کرنے کے لیے متحدہ ہندوستان پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگائے گئے
1942 میں متحدہ ہندوستان کے فیلڈ مارشل سر کلاڈ اچنلنک کمانڈر انچیف نے زور دے کر کہا کہ اگر متحدہ ہندوستان کی فوج نہ ہوتی تو انگریز دونوں جنگوں میں بہت ناکامی کے ساتھ ھار جاتی
خلافت عثمانیہ نے بھی روس پر حملہ کردیا اور اس کی ایک بنیادی وجہ کے روس اور حلافت عثمانیہ صدیوں سے ایک دوسرے کے دشمن تھے اور اس کی وجہ بندرگاہیں تھی۔ روس ان بندرگاہوں پر قبضہ کرنا چاہتا تھا اس کے علاوں روس اور برطانیہ نے حلافت عثمانیہ کے زیر اثر ممالک کی آزادی میں بھرپور مدد فراہم کی دوسری طرف حملے کی وجہ خلافتِ عثمانیہ کی جرمنی اور آسٹریا ہنگری کے ساتھ معاہدات کا ہونا بھی تھا۔
سلطنت عثمانیہ نے Suez canal پر حملہ کیا جو برطانیہ کو ہندوستان کے ساتھ connect کرتی تھی۔ ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ صرف روس نہیں بلکہ اس وقت برطانیہ کے ساتھ بھی جنگ کی حالات میں تھی۔ اس حملے کا مقصد دوسرے الفاظ میں برطانیہ کے شہ رگ پر پاؤں رکھنا۔
اگر Suez canal پر سلطنت عثمانیہ کا قبضہ ہو جاتا تو برطانیہ کی شکست یقینی تھی مگر بدقسمتی سے سلطنت عثمانیہ Suez canal کو پکڑنے میں ناکام ہوئی۔

ابھی بات کرتے ہیں خندقوں کی۔

خندق ایک پانی کی نہر کی طرح گہرا اور لمبا گڑھا ہوتا ہے۔
جن میں سپاہی جنگ لڑتے ہیں اور حود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں
یہی پر کھاتے ہیں پیتے ہیں یعنی سپاہیوں کا پورا دن یہی گزرتا ہے اور یہی سے جنگ کی لڑی جاتی ہے۔
جرمنی کو ابتدا میں فرانس پر برتری رہی مگر برطانیہ کی مدد پہنچانے کے بعد دونوں اپنی اپنی جگہوں پر قائم رہے، فرانس اور جرمنی کے درمیان تین سال تک یہ خندقیں رہی نہ فرانس آگے بڑھ سکا نہ جرمنی
حالات بہت خوفناک تھے صحت کے مسائل بہت بڑھ چکے تھے ، خندق میں گندگی اور ماحول میں بارود کی آمزش کی وجہ سے سپاہیوں کو محتلف بیماریوں کا سامنا تھا اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو علاج کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس طرح بہت سارے فوجی بیماریوں کے شکار تھے۔
آسکے علاؤ بہت زیادہ تعداد میں جانی نقصان ہوتا اگر فوج کا ایک گروہ دوسرے خندق پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا۔ اسی وجہ سے جرمنی اور فرانس تین سال تک اپنی اپنی جگہوں پر قائم رہے۔
سومی کی لڑائی جو 1916 میں لڑی گئی تھی وہ جنگ اتنا خونی اور حوفناک تھا کہ صرف ایک دن میں 80000 فوجی ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر برطانوی اور کینیڈا کے فوجی شامل تھے۔ سومی کی لڑائی میں مجموعی طور پر 3 لاکھ کے قریب فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
اس کو گلوبل وار اسلیئے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ جنگ افریقہ میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے کالونیوں میں بھی لڑی جا رہی تھی۔
ٹوگو ، تنزانیہ ، کیمرون یہ سب جرمنی کی کالونیاں تھیں جن پر فرانس اور برطانیہ نے حملہ کیا تھا۔
جرمنی کی مائکرونیشیا اور چین میں کالونیاں تھی جرمنی کا چین کے کچھ تجارتی مرکز پر قبضہ تھا (میں تحریر میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ یہ مفادات کی جنگے تھی جن کا بنیادی مقصد تجارتی مرکز پر قبضہ کرنے اور دوسرے ممالک کو لوٹنا تھا۔ جس طرح برطانیہ متحدہ ہندوستان کو لوٹنے میں مصروف تھا)
جاپان جنگ میں کیوں شامل ہے؟ کیونکہ جاپان اور برطانیہ کے مابین ایک دوسرے کے دفاع اور مدد کرنے کا ایک معاہدہ ہوا تھا۔ کہ جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کو سپورٹ کرنگے، اور جیت کی صورت میں منافع دونوں کا برابر (ہم عالمی جنگ کے پچھلے تحریر میں پڑھ چکے ہیں کہ یہ اتحادیں اتنی حفیہ تھی کہ ان کے پڑوسی ممالک کو بھی ان کی حبر نہ ہوتی۔ ساری اتحادیں باہمی فائدے کی بنیاد پر ہوتی)
سلطنت عثمانیہ نے روس کی Black sea کی بندرگاہوں پر بمباری کرنا شروع کیا۔ کریمیا Black sea میں ہے اور کریمیا کا ایک شہر سیواستوپول تھا ، یہ روس کا ایک اہم بحری اڈہ تھا ، سیواستوپول میں ایک اور شہر کا نام اوڈیشہ تھا۔ سلطنت عثمانیہ نے ان علاقوں پر حملے شروع کردیئے۔ (ہمیں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ عثمانی سلطنت کے لئے یہ وقت بہت مشکلات کا تھا ایک طرف بیرونی جنگ دوسری جانب اندرونی بغاوتیں۔ )
حجاز مقدس سعودی عرب کا پرانا نام ہے، یہ حلافت عثمانیہ کے لیے بہت اہم تھی اور اسکے راستے آسانی سے برطانیہ کے ساتھ لڑیی لڑی جا سکتی تھی۔ مگر بدقسمتی سے تقسیم کرو اور حکومت کرو اور کمزور کرو کی پالیسی کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑنے لگے یہاں پر ابن سعود نے جنگ کی صورتحال کا فایدہ اٹھا کر برطانیہ کی مدد سے حلافت عثمانیہ کے حلاف جنگ شروع کی
ابنِ سعود نے بہت سارے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا، بعد میں حجاز مقدس کا نام تبدیل کرکے سعودی عرب رکھا گیا)۔

اتحادی افواج کا گیلپولی پر حملہ
ترک شہر کا ایک شہر ہے جسے اتحاد فورس نے ANZAC (آسٹریلیا اور نیوز لینڈ سے آنے والے فوجی) کے نام سے حملہ کیا ، لیکن عثمانی سلطنت نے انھیں اب تک کا سب سے بھرپور جواب دیا۔ نیوز لینڈ اور آسٹریلیا آج بھی وہاں ہلاک ہونے والے سپاہیوں کی یادداشت میں گیلپولی کا دن غم کے ساتھ مناتے ہیں۔

بحری جنگ
جرمنی نے آبدوز بنائے جن کو U Boats کا نام دیا گیا۔ جرمنی نے پہلی بار سب میرین یغنی آبدوز کا استعمال کیا اور آبدوز کو دنیا میں پہلی بار کیسی جنگ میں استعمال کیا گیا۔
یہ آبدوز پہلے دشمنوں کے بحری جہازوں پر حملے کرتے تھے اور بعد میں سویلین یغنی مسافر بردار بحری کشتیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
یہ وہ مسافر جہاز تھا جو امریکہ سے یورپ اور یورپ سے امریکہ آیا جایا کرتے تھے ان میں ایک بہت خاص واقع پیش آیا وہ تھی امریکن مسافر بردار کشتی جس کا نام لوسیانا تھا۔ یہ بحری جہاز یورپ سے امریکہ واپس آرہی تھی کہ جرمن کی یو آبدوز نے اس پر حملہ کر دیا اور بحر اوقیانوس میں 1200 امریکن لقمہ اجل بن گئے لہذا یہ ایک وجہ تھی کہ امریکہ نے 1917 میں پہلی جنگ عظیم میں شمولیت اختیار کی، اس وقت امریکی صدر اول ووڈرو ولسن 1914 میں جنگ کا حصہ نہ بننے پر زور دیا تھا کہ یہ ہمارا جنگ نہیں ہے۔لیکن اس واقعے کی وجہ سے امریکہ اس جنگ میں کود پڑا اور اس طرح برطانیہ کے ساتھ ہاتھ جوڑ دیے۔ اصل میں یہ ایک بہانہ تھا تاکہ اپنے لوگوں کی ہمایت حاصل ہو جائے وہی جس طرح 9/11 کو بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ کر دیا۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Rolls of life posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share