National Herald Tribune

  • Home
  • National Herald Tribune

National Herald Tribune News Media,daily news, Chief Editor: Ghulam Akbar

23/02/2022
15/02/2022

آج کی بات۔۔۔ غلام اکبر 16-02-2022

عمران خان ،میں،سول ملٹری پارٹنر شپ اور انقلاب
06-09-2014
شاید یہ 2011 کے ماہِ اپریل کی بات ہے۔ہم ایک جلسے میں شرکت کے لئے ایبٹ آباد جا رہے تھے ۔گاڑی میری تھی جسے بُلٹ پروف کرایا گیاتھا۔تحریک انصاف کے ایک بہت ہی پرانے کارکن اور لیڈر عامر کیانی ڈرائیو کر رہے تھے۔فرنٹ سیٹ پر چیئرمین عمران خان بیٹھے ہوئے تھے۔۔پیچھے میں تھا ،تحریک انصاف کے سیکرٹری فنانس اظہر طارق اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل سیف اللہ نیازی تھے۔
ملک کی سیاسی صورتحال پر گفتگو شروع ہوئی اور بات ان عالمی تحریکوں تک جا پہنچی جن کی کوکھ سے انقلابات نے جنم لیا۔
مجھے اعتراف ہے کہ دورِ حاضر کی جن شخصیات کا میری سوچ پر گہرا اثر ہے ان میں علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم ؒ کے ساتھ ساتھ جرمنی کے ہٹلر اور روس کے لینن شامل ہیں۔
میں نے ہٹلر کی کتاب Mein Kampf (میری جدوجہد) زمانہءطالب علمی میں پڑھی تھی۔لینن اور ہٹلر دورِ حاضر کے دو عظیم انقلابات کے معمار تھے۔آپ اُن کے نظریات سے اختلاف بھی کر سکتے ہیںاور نفرت بھی ،مگر انہوں نے اپنے اپنے مقاصد کے ساتھ سچی وابستگی کی بدولت اپنا نام تاریخ میں لکھوا لیا۔کوئی اس حقیقت سے انکار تو نہیں کر سکتاکہ لینن کمیونزم پر سچے دل کے ساتھ ایمان رکھتا تھا اور ہٹلر جرمن نیشنلزم کو مذہب کا درجہ دیتا تھا ؟ بہر حال یہ حوالے میں نے اپنی سوچ کے ”انتہا پسندانہ “ رحجانات کی وضاحت کرنے کے لئے دئے ہیں۔
جس گفتگو کا ذکر میں کر رہاہوں اس کے دوران چیئرمین عمران خان نے کہا ۔” ہمیں فوج کو سیاست سے دور رکھنا ہو گا۔“
” آپ جس نقطہ ءنظر سے کہہ رہے ہیں وہ درست ہے مگر فوج کسی بھی معاشرے یا ملک کی ایک حقیقی منظم قوت ہوتی ہے۔ حصولِ اقتدار کی سیاست سے ہٹ کر فوج اگر انقلاب یا تبدیلی کی آواز بن جائے تو دہائیوں کا سفر برسوں میں طے ہو سکتا ہے۔“ میں نے جواب دیا۔
”میں پھر کہوں گا کہ فوج کو سیاست سے دور رکھنا چاہئے۔ جمہوریت میں فوج کا کوئی کردار نہیں۔ مغرب نے اگر ترقی کی ہے تو اسی وجہ سے کی ہے کہ وہاں خالص جمہوریت ہے ۔“ خان صاحب بولے۔
” میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا۔“ میں نے جواب دیا۔©” مغرب نے ترقی اُس لوٹ مار کی وجہ سے کی ہے جو انہوں نے نو آبادیاتی نظام کے ذریعے دنیا بھر میں کی۔جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے، مغرب کی جمہوریت سرمایہ داری اور سرمایہ کاری کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ مغرب تو اُس جمہوریت کو افورڈ کر سکتا ہے، ہم جیسے غریب ملک ایسی جمہوریت میں ہمیشہ طبقہ ءامرا کے غلام رہیں گے۔“
” تو آپ کے خیال میں فوج کے بغیر تبدیلی نہیں آ سکتی ۔؟“ خان صاحب نے کہا۔
” میں نے نہیں کہا ۔میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں طاقت سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے انقلابیوں کے ہاتھوں میں نہیں۔ طاقت کا اگر کوئی دوسرا سرچشمہ موجود ہے تو وہ فوج ہے۔فوج سرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے جنم نہیں لیتی۔ نچلے یا متوسط طبقے سے اٹھتی ہے۔اس کی وفاداریاں عام آدمی کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اگر کوئی تحریک ” سول ملٹری پارٹنر شپ“ قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دی جا سکتی ہے۔ مت بھولیں کہ ہمارے قائد ِ اول (ﷺ) ایک سٹیٹسمین اور ایک سپہ سالار تھے۔“
گفتگو کا وہ سلسلہ وہیں ٹوٹ گیا
میں نہیں جانتا کہ وہ گفتگو مجھے آج کیوں یاد آئی ہے۔۔۔

15/02/2022

Echoes from the Past
By: Ghulam Akbar ---16-02-2022

Let this NO & this YES live forever

In one of his speeches after carving out a homeland for the Muslims of the sub-continent, Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah had said.
"I cannot think of a Pakistan without Justice. I cannot imagine a Pakistan without greatness."
That Pakistan of the Quaid's vision has eluded us all for nearly six decades. This day --- the 20th of July 2007 --- the Pakistan of the dreams of its founder has finally been born. This is just ONE decision. May be it turns out to be a solitary ray of hope. But it is also a defining moment. It has a symbolic value that is unlikely not to carry its epoch-making potential and impact through the years and decades that lie ahead. Symbols are never lost to history. Chief Justice's NO will live forever. So will live the YES of the Full Court that sat in judgment to decide whether this nation deserved to live under the Umbrella of Justice.
YES has been the epoch-making verdict of the honourable judges of this court.
May God always give us courage to say NO when NO is the right answer. And YES when YES means Honour, Truth, Dignity, Justice & Freedom.

14/02/2022

Echoes from the Past
By: Ghulam Akbar ---15-02-2022

I wish our rulers read This…………………..

My regrets for my inability to write regularly these days may please be accepted. I am undergoing treatment of eyes because of which my “activities” have been restricted. Insha Allah I’ll be soon back on these pages with renewed vigour and resolve. Today however I want to reproduce here a saying of the Holy Prophet (PBUH) that I had read a long time back. It is about GOVERNANCE.
“Those whom Allah is kind to choose as rulers, so that they carry out their responsibilities to the public with honesty and dedication are sure to earn His Pleasure if they succeed in proving themselves equal to the task and worthy of Allah’s Trust. But those who forget Allah’s Commandments, and indulge in nepotism, cronyism and corruption, in preference to respect for merit and justice, will invite nothing but the fires of hell”.
I wish, those incharge of Pakistan’s destiny today read this with due attention. If they do so it will be a great homage to the Man who was born this month, and whom God had chosen to become His last and greatest Messenger.

11/02/2022

آج کی بات۔۔۔ غلام اکبر 12-02-2022

اب ” فتح مکہ “ کے علاوہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں
26-8-2014

پارلیمنٹ میں جلوہ افروز تمام تر سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادتیں جمہوریت کی سربلندی اور آئین کی بالادستی کی بات کررہی ہیں۔ ان سب کا عزمِ صمیم یہ ہے کہ جمہوریت کو کبھی ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ محمود خان اچکزئی بھی عشقِ جمہوریت میں گرفتار ہیں اور کیوں نہ ہوں ؟ ” جمہوریت “ کی ہی برکات نے اُن کے بھائی کو بلوچستان کا گورنر بنایا ہے اور ان کے چند دیگر اقارب کو منعفت بخش عہدوں پر بٹھایا ہے۔ جماعتِ اسلامی والے بھی عشقِ جمہوریت میں گرفتار ہیں۔ اس کا سبب شاید یہ ہو کہ انہیں شاید یہ ڈر ہو کہ آئندہ وہ کبھی کسی اسمبلی میں نہیں پہنچ سکیں گے ¾ اس لئے جو کچھ انہوں نے حاصل کررکھا ہے اُسی کو طول دیں۔ یا پھر سبب یہ ہو کہ انہیں آئی جے آئی کا زمانہ یاد آرہا ہو جب وہ میاں نوازشریف کے اتحادی تھے۔ پی پی پی والوں کا عشقِ جمہوریت میں گرفتار ہونا سمجھ میں آتا ہے۔انہیں معلوم ہے کہ انہیں کرپشن اور لوٹ مار کے اِن گنت الزامات کا جواب ابھی قوم کو دینا ہے ¾ نوازشریف کی ” جمہوریت “ ہی انہیں مکافاتِ عمل سے بچا سکتی ہے۔ اے این پی اور مولانا فضل الرحمان کا عشقِ جمہوریت بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے۔ جہاں تک مولانا کا تعلق ہے وہ ہر حکمران کے پہلو میں جگہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر انہیں ضرورت پڑی تو عمران خان صاحب کے آگے بھی گھٹنے ٹیک دیں گے۔
لیکن کیا پاکستان میاں نوازشریف کی جمہوریت کا متحمل ہوسکتا ہے ۔؟ جمہوریت کے ذریعے تو ہٹلر بھی برسراقتدار آیا تھا۔اگر کوئی فسطائی قیادت جمہوریت کے ذریعے برسراقتدار آجائے تو کیا اس سے نجات پانے کے لئے جنگ عظیم لڑنا لازمی ہے ؟ اور اب تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ موجودہ حکومت ایک شرمناک انتخابی ڈاکہ زنی اور فراڈ کے نتیجے میں برسراقتدار آئی ہے۔ اب بات جمہوریت کی بقاءسے بہت آگے پڑھ چکی ہے اب قوم تاریخ کے کٹہرے میں کھڑی ہے ¾ اور اس سے پوچھا جارہا ہے کہ کیا تم حلال وحرام کے درمیان جو فرق ہے اس کو مٹا ڈالنے کے کلچر کو اپنی تقدیر بنالوگی ؟
میں نہیں سمجھتا کہ لوٹ کھسوٹ اور حرص و ہوس پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے علمبرداروں کی متحدہ قوت کو اکیلے عمران خان شکست دے سکتے ہیں۔ اب اُن تمام اداروں کو میدان جنگ میں کودنا پڑے گا جن کی جڑیں عوام میں ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ روایتی ” جمہوریت “ تباہی کی طرف گامزن ہمارے معاشرے کو نیست ونابود ہونے سے بچا سکتی ہے۔
اب ” فتح مکہ “ کے علاوہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں۔

11/02/2022

Echoes from the Past
By: Ghulam Akbar ---12-02-2022

The Real Target Of
The Fury Of The Wronged Ones
For want of attention, concern and care, a policeman died in Islamabad, infuriating his colleagues in the Punjab Police, and urging them to come out on the roads in defiant, enraged and hate-charged protest.
Protest against whom?
The Federal Police?
On the face of it, one can say YES. Those who were targeted by the rage of the protesters certainly belonged to the Federal Police. And the apparent reason behind the clash of the policemen belonging to Punjab with those belonging to Islamabad was the inhuman apathy and the callous insensitivity (shown towards the deceased policeman) on the part of those who were supposed to carry on their shoulders, the responsibility of looking after the welfare and the well-being of their counterparts in the Punjab Police. But behind this apparent reason happens to be 'smouldering' a cauldron of hatred in the minds of those who have reasons to consider themselves as the wronged ones, against those who are seen as running a system that has its roots and origins in obscene injustice and morbid cruelty.
The pictures that I have seen of the protesting policemen, and of those coming under the barrage of the hate-packed blows of the enraged protesters, haven't failed to tell me that even beneath the police uniform can be found that "mass of humanity" which has been on the receiving end for long, and been exposed to unbearable suffering.
The event hadn't any precedence of its type, and is nothing if not an ominous indicator of the magnitude of catastrophic situations that lack of faith in a system's capacity for justice, and in the credibility of those in command of the society's destiny, can cause.
Let the highest in the land try to realize that all that fury of the protesters was aimed not at their helpless counterparts, but at the highest among the highest.

10/02/2022

Echoes from the Past
By: Ghulam Akbar ---11-02-2022

We all need to pray for
Divine Intervention
to break the shackles
One learns from every journey. And more often than not one learns not to unlearn what had been learnt in the past.
My recent journey to Nepal in the company of my colleagues in the CPNE delegation, was my first to this country of Himalayan range, of the Mount Everest, of the battle-hardened Gorkhas, of the religious and cultural harmony, of a history of political turmoil, of frequently kindled and regularly extinguished candles of hope, of an armed struggle by Maoists to fulfill their proletarian dreams, of a traditionalist military that has for long felt honour-bound to protect a 250 year old dynastic monarchy, and of course of a recently born resolve, on the part of practically all the populist schools of thought, to rebuild a new Nepal on the debris of the old.
About this journey, I'll be writing later. And about Nepal, its people, its strategic importance and future prospects, I am going to deliberate in my future columns. For today's echoes of the heart, I want to draw from the observations the Nepalese Prime Minister Mr Girija Prashad Koerala made during the meeting of our delegation with him on the culminating day of our visit. When Mujibur Rehman Shami, a member of our delegation asked about the future of monarchy in Nepal, the aging and the ailing Prime Minister replied in a determined tone of voice: "Whether or not monarchy stays, my task is to ensure that Nepal will never again be derailed from its democratic path, and power will forever be passed into the hands of the people and their Parliament. Monarchy can be accommodated in the new order purely as a symbol of statehood, and not as a component of governing engine. But for monarchy to be given a chance to survive, the King and his notorious son will have to abdicate, and create room for the child-grandson of the late King (Birendra) to ascend to the throne.
At this point I addressed the Prime Minister: "Do you think, your excellency, the elections you are going to hold in November this year are going to produce results conducive to the formation of a stable government? It is a known fact that the excuse that the non-democratic and non-representative forces use for stepping in, is the absence of stability in the governing system and setup”.
The Prime Minister observed in his reply: "I am sure, democracy and the representative character of the parliament to be elected will bring real stability, and not any illusion of it that accompanies non-democratic intervention. All the forces of thought will be represented effectively in the elected parliament, and the government conceived by it."
When our meeting with the Prime Minister was over, I couldn't help remembering what the Maoist Information Minister of the interim coalition government had said a day earlier.
"We have politicized our active struggle in the hope that by participating constructively in the process of developing the foundations of the Nepal of the future--the people's Nepal---we will succeed in frustrating the evil designs of the forces of the status quo. Instead of carrying out an armed struggle for ushering in a revolutionary change, we are now working for a gradual transformation from the vices of the past to the envisioned society of social justice. We know if we fail to rally around the democratic dream, the army will not hesitate to intervene on behalf of the King whose reign has failed but not fallen."
Dear readers, you may be thinking about the lessons I've learnt as a member of the CPNE delegation that went to Nepal on the invitation of the body of the Nepalese periodicals. The single lesson with which I want to conclude my column for today is: "The countries which remain in the viselike grip of the vice-regal traditions left behind by the British Raj, need a prayer for Divine intervention to break the shackles."

09/02/2022

آج کی بات۔۔۔ غلام اکبر 10-02-2022

یہ وقت اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگنے کا ہے
20-8-2014

میں یہ کالم عموماً دوپہر کے قریب قریب لکھ لیا کرتاہوں تاکہ اسے جلدازجلد آن لائن اور ویب پر پوسٹ کیا جاسکے۔ اخبارات میں اس کی اشاعت اگلے روز ہوا کرتی ہے۔
موجودہ حکومت کے خلاف پی ٹی آئی اور پے اے ٹی کی احتجاجی تحریک کا ایک لحاظ سے آج فیصلہ کن د ن ہے۔ عمران خان خود پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاﺅس کی طرف پرُامن احتجاجی مارچ لیڈ کریں گے یہ مارچ چھ بجے شام کے بعد ہوگا۔ اس سے پہلے شام کے پانچ بجے ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوگا۔ تفصیلات آپ جانتے ہی ہیں۔ اِن دونوں اقدامات کے کیا نتائج برآمد ہوں گے اس کے متعلق میں اس کالم میں کوئی پیشگوئی نہیں کرسکتا۔ آج میں صرف ان بیانات کو زیر تحریر لانا چاہتا ہوں جو پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف اور وفاقی وزیراطلاعات پر ویز رشید نے دیئے ہیں۔
وزیراعلیٰ صاحب نے عمران خان کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ” خان تم تنہا ہوگئے ہو۔ تمام سیاستدان ہمارے ساتھ ہیں۔ ہم تمہیں تمہاری تنہائی سے نکال سکتے ہیں۔ “
میں نہیں جانتا کہ شہبازشریف صاحب عمران خان کو کتنا جانتاہوں مگر مجھے عمران خان کو قریب سے دیکھنے اور سمجھے کاموقع ملا ہے۔ وہ کوئی بھی فیصلہ اپنے اندر جھانکے بغیر نہیں کرتے۔ اپنے اندر سے وہ رہنمائی اس بے پایاں عقیدت سے حاصل کرتےہیں جو انہیں رحمت الا لعالمین اور ہادی ءاعظم حضرت محمد ﷺ سے ہے۔ آپ کے بعد وہ رہنمائی حضرت عمر فاروق ؓ سے حاصل کرتے ہیں۔ آپ نے یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ وہ حالیہ مارچ میں مدد کے لئے صرف اللہ کو پکار رہے ہیں۔ اور ان کا پسندیدہ نغمہ بھی ” اللہ ہو “ ہے۔
جن لوگوں نے تاریخ پڑھی ہے انہیں اچھی طرح علم ہوگا کہ سردارانِ مکہ نے آنحضرت کو بھی یہی ” تنہا ہو جانے “ کا طعنہ دیا تھا۔ ساتھ ہی آپ کی تنہائی دور کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔ آپ نے جو جواب دیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
ہم سب آپ کے پیروکار ہے۔ میری دعا ہے کہ عمران خان کو اللہ تعالیٰ ثابت قدم رکھے۔ میری دعا یہ بھی ہے کہ میاں برادران کو بھی اللہ تعالیٰ اسی طرح ہدایت کے راستے پر ڈالے جس طرح حضرت ابو سفیان ؓ کو ڈالا تھا۔
جہاں تک وفاقی وزیر اطلاعات کا تعلق ہے انہوں نے کہا ہے کہ عمران خان نے خود کو دلدل میں پھنسا لیا ہے ۔ آدمی کی اس سے بڑی بدقسمتی کو ئی نہیںہوتی کہ اسے اپنی طرف بڑھتے ہوئے طوفان پر یہ گمان ہو کہ اس کی لپیٹ میں کوئی اور آئے گا۔
خدائے بزرگ و برتر پاکستان پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔ اور اس کے مقدر میں لکھے گئے اندھیرے دور کرے!

09/02/2022

Echoes from the Past
By: Ghulam Akbar ---10-02-2022

The Tide Has To Rise Again

It was being taken for granted in the early nineties of the last century that totalitarianism and authoritarianism had been thrown out of the window of the world politics for good and ever. The leading totalitarian-cum-authoritarian power of the world---the Soviet Union had finally collapsed. The Central Asian states had won freedom. The Berlin Wall having fallen, had heralded the liberation of many an East European state, and unfolded a process of democratization all over the world that seemed unstoppable. The Philippines and Pakistan too had finally been able to break free of the autocratic yoke. Even China had briefly attempted to reach out for the sweet-smelling fruit of freedoms.
The decade was well on its way to winning the distinction of being dubbed by historians as the decade of democracy. The most memorable moment of this decade came when in 1999 Nigerians did something remarkable. After 16 years of military rule and four decades of political and economic failure, Nigeria, Africa's most populous country, held a free election.
But for the military takeover in Pakistan,---yet again---the century would have ended with a happy note as far as democracy is concerned. The percentage of democracies in the world had doubled in the last two decades of the century. Many of the remaining autocracies, seemed to be living on borrowed time.
Things since then have started changing. From Pakistan's shift back to 'autocracy' in October 1999, to the fall of democracies in Thailand, Russia and Bangladesh, there is a rising trend towards negation of people power
Where lies the fault?
Are non-Western nations really unworthy of the freedoms that come with democracy?
Or those civilians also who run 'democracies' in the countries with long traditions of autocratic rule, get so infatuated with 'the benefits and joys' of unchecked authority that they start fiddling with the spirit of democratic rule in a manner that eventually proves suicidal?
Or some of the Generals happen to have an inherent fascination with the idea of enjoying monopoly on the right to rule?
Whatever the case be, Pakistan finds itself once again in a position where the master of its destiny wants to die not only as her President, but also in the uniform of an Army Chief.
The latest of President General Pervez Musharraf's statements says he has every intention of getting re-elected in the Uniform. Meaning thereby that he is ill-prepared to relinquish his "right" to define democracy the way he wants to, and the way that suits him.
This leaves the people of Pakistan with only two options.
(i) To resign to the Will of the Fuhrer.
(ii) To prove to history that people are infinitely more powerful than an individual. As far as the military is concerned, it was, is and will always remain the people's military. Our military has never fired at its own brothers and sisters.

08/02/2022

آج کی بات۔۔۔ غلام اکبر 09-02-2022

ہمیں اب اک نئی موج میں ڈھلنا ہے
16-8-2014

جہاں ہم آج کھڑے ہیں وہ ہماری تاریخ کا ایک دوراہا ہے سہ را ہا ہے یا چوراہا ہے اس کا فیصلہ اگلے چند روز میں ہوجائے گا۔
اس مقام سے ایک راستہ واپس اُس نظام کی طرف بھی جاتا ہے جس سے جان چھڑانے کے لئے لوگ گھروں سے باہر نکلے ہیں اور سیاست پارلیمنٹ سے نکل کر گلیوں میں آگئی ہے۔ اگر یہ ساری سعی لاحاصل رہی اور ہمیں واپس اقربا نواز سرمایہ دارانہ شہنشاہت کے شکنجے میں جانا پڑا تو میں یہ سمجھوں گا کہ خدا نے اس قوم کے گناہ معاف نہ کرنے کا فیصلہ کررکھا ہے۔ لیکن رحمت الالعالمین کے خدا سے یہ امید رکھنے میں حق بجانب ہوں کہ اِس مرتبہ وہ اپنی بے پایاں برکات اور عنایات کے دروازے اس قوم پر ضرور کھولے گا۔
دوسرا راستہ وہ ہے جس کی نشاندہی عمران خان نے کی ہے۔ ایک مخصوص اور محدود مدت کے لئے ایک ایسی غیر سیاسی حکومت قائم کی جائے جو سیاسی انتخابی اور انتظامی اصلاحات کے ایجنڈے پر شب و روز کام کرکے انتخابات کے جمہوری عمل کے ذریعے ایک ایسی حکومت کے معرض وجود میں لانے کا راستہ ہموار کرے جو کسی جھوٹ کسی دھوکے اور کسی سازش کی پیداوار نہ ہو۔
تیسرا راستہ یہ ہے کہ ایک بار پھر کوئی ایسی طاقت اقتدار سنبھال لے جس کے پاس غیر جانبدارانہ اور ” اندھا “ احتساب کرنے کا مکمل اختیار ہو۔ ا س طاقت کی ” مدت اقتدار “ محدود اور طے شدہ ہو اور یہ وہ راستہ اختیار نہ کرے جو ہمارے سابق فوجی حکمرانوں نے اختیار کیا ۔ فوج کا کام بہرحال حکومت کرنا نہیں ¾ ملک و قوم کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے۔آخری الذکر دونوں آپشنز میں فوج کو بہرحال اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ یہ کردار کتنا آئینی اور کتنا غیر آئینی ہوگا۔ ہمارے دین نے اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ اگر معاملہ زندگی بچانے کا ہو تو حرام چیز بھی حلال بن جاتی ہے۔ عرفِ عام میں اس بات کو ”نظریہ ءضرورت“ کہا جاتا ہے۔ یہ آئین جس کی عملداری کو ہم اس قدر مقدس اور لازمی سمجھتے ہیں یہ آئین بھی تو نظریہ ءضرورت کی پیداوار تھا۔ جناب بھٹو کو کس نے یہ اختیار دیا تھا کہ وہ 20دسمبر 1971ءکو اقتدار سنبھال لیں اور ملک کو اس راستے پر ڈالیں جس راستے پر انہوں نے ڈالا ۔؟ نظریہ ءضرورت نے۔۔۔
بھٹو کا آئین آئینِ خداوندی سے بالاتر نہیں۔ آج ہمیں رہنمائی کتاب الٰہی سے حاصل کرنی چاہئے اس کتاب سے نہیں جس میں ترمیم کے لئے ” سردارانِ مکہ “کا مل بیٹھ کر ایک سمجھوتہ کرلینا کافی ہے۔
میرے یہ نظریات میرے ذاتی ہیں۔
مجھے یہاں احمد ندیم قاسمی کا یہ قطعہ بڑی شدت سے یاد آرہا ہے۔
” جب چٹانوں سے لپٹتاہے سمندر کا شباب دور تک اک موج کے رونے کی صدا آتی ہے دراصل یہی ٹوٹی ہوئی بکھری موج اک نئی موج میںڈھلنے کو پلٹ جاتی ہے۔
ہمیں اب اک نئی موج میں ڈھلنا ہے !

08/02/2022

Echoes from the Past
By: Ghulam Akbar ---09-02-2022

Echoes of the Heart

My knowledge of economics, as well as of the of the intricacies and delicacies of the world of figures in which budgets are made (or authored?), is so feeble and so shallow that it can easily be dismissed as non-existent. But there happens to exist some truths that do not require any indepth knowledge of the subject of economics and the frequently used terminology that is an integral part of it (Like GDP, deficit, surplus, inflation and recession etc).
These truths have not failed to carve their way into my consciousness despite my mind's inbuilt barricades against the puzzles and riddles that the economic terms and figures are frequently accompanied with. One of such truths relates to affluence we see in some homes and staggering deprivation that characterizes the vast habitats where over 140 million of our ill-fated have-nots are trying to learn the art of surviving in the absence of pollution-free environment, of safe drinking water, of bare minimum nutrients and healthcare, and of real and tangible hope of a better tomorrow. Will the figure-work accompanying the most recent of the well-trumpeted people's budgets, narrow down the gap between the homes that have porches which are jam-packed and huts that never fail to give the impression of being "well-looked-after breeding places of destitution, disease and death"?
Another such truth is the mounting gap between our 'Export Income' and our 'Import Bill'. The gap (known as trade deficit) is increasing so alarmingly that it may not be long before our 'Chief Executives' are required to find convincing explanations of 'the doubling of our foreign debt' (when the present government took over, the debt was known to be around $32 billion, and after vehemently carried out propaganda of 'liberation form the yoke of despotic lenders, the debt burden has gone up to $38 billion!).
Had the trade deficit been due to the import of 'the components of productivity, there would have been no cause for alarm. But we have been importing with zealous generosity the tools of high living and improved quality of life' (for those who have money to buy even 'tomorrow'). In this context I've an eye-opening observation to make. We seem to be overjoyed at having reserves in excess of $13 billion. Algeria, not known for its development, and population far far less than ours, has $90 billion in reserves.
There has been a great deal of talk about the affluence we are experiencing.(in our stock exchange, our drawing rooms, our porches).But this is strictly the 'elite affluence'. Affluence of the lucky and the chosen few. This is not mass affluence. For me, the measure of real affluence would be the ability of the low-income groups to send their kids to as good schools as those where the kids of the 'stinking rich' learn how to behave like their parents.
The budget in the context of which I an penning down these 'layman' observations may very well be the very best that can be authored by those (and for those) who have to console the rest by assuring: "IT WILL HAVE A TRICKLE-DOWN EFFECT'. But for me it is yet another determined effort to consolidate the power of the status quo and its beneficiaries.

07/02/2022

آج کی بات۔۔۔ غلام اکبر 08-02-2022
آج یہ زنجیریں توڑ دے
14-8-2014
اے خدائے رحمت الالعالمین آج ہماری دعائیں سن۔ آج اس دیس کا مقدر تبدیل کردے جو ہم نے تیرے دین کے نام پر تیری حاکمیت قائم کرنے کے لئے حاصل کیا تھا۔
ہم شرمسار ہیں کہ ہم 67برس بعد بھی تیری حاکمیت قائم کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ ہم نے تیرے نام کے ساتھ تیرے دین کے ساتھ ` تیرے رسول کے ساتھ اور خود اپنے ایمان کے ساتھ بدعہدی کی ہے۔مگر ہمیں ہمارے گناہوں کی سزا ایسے حاکموں کی صورت میں مل چکی ہے جن کا حرصِ زر اور ہوسِ اقتدار کے علاوہ اور کوئی قبلہ نہیں۔
اب ہمیں آزادی عطا فرما۔
اس ایک سجدے کی عظمت کی خاطر جو آدمی کو ہزاروں سجدوں سے آزاد کرا دیتاہے۔ ہمیں اُن زنجیروں سے رہائی عطا فرما جو تیری ربوبیت کے خلاف بغاوت کرنے والوں نے ہمیں پہنا رکھی ہیں۔
یہ زنجیریں آج توڑ دے۔
آج ہم فضاﺅں میں صرف تیری عظمت کی صدا گونجتی سننا چاہتے ہیں۔
وہ ایک صدا ۔۔۔ جسے دنیا کے ایک کونے سے لے کر دنیا کے دوسرے کونے تک بلند کرنے کے لئے ہمارے رہبراعظم نے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی تھی۔
پاکستان کو آج کے دور کا مدینہ بنا دے۔۔۔

07/02/2022

Echoes from the Past
By: Ghulam Akbar ---08-02-2022

THE ARMY BE SPARED
I view with great concern the growing trend among the intellectuals and the representatives of the Civil society, to condemn en bloc the whole institution of the Military for its frequent transgression into, and domination of the nation's political life.
Quite often, while condemning the frequent incursions of the military into the world of governance, some nasty adjectives are used for the Army which are not only in bad taste but in complete negation of the dictates of patriotism. Army in my view is an institution which has a symbolic significance that is as sacred as the country's flag. This institution is not structured in a way a society (or an association) is structured. The decisions are not taken in a meeting in which a proposition is put forth, discussed and voted for or against. The COAS doesn't rise and address any gathering of soldiers to say: "Soldiers the situation at the borders is normal and satisfactory, but a lot is wrong and in bad shape in the capital. Do we or don't we move in, to correct the situation and put the right things in the right places?"
That kind of a mandate is not sought from the long line of cadres in the army. It is always one 'head' in which the flame of 'desire' is kindled. It is always one person's mind that is seized by the dragon of ambition, and that makes a sudden decision to weigh and grab the opportunity that has arisen. It is always this chosen "General of destiny" who weaves a plan, involves his close aides and strikes. The army's role is simply to obey the orders flowing from the High Command.
Soldiers are never trained and taught to ask WHY. Their job is to say YES to all orders.
General Ayub Khan was not the whole army. Nor was General Yahya Khan. Nor General Zia ul Haque. And nor finally General Pervez Musharraf.
Certainly the Army is under his command. But HE is not the ARMY. The army is not ruling the country. Just HIM. General Pervez Musharraf. So let he alone be made to accept the responsibility of his deeds. And the Army be spared.

04/02/2022

Echoes from the Past
By: Ghulam Akbar ---05-02-2022

Democracy & Muslim Renaissance
The issue of succession and transfer of power has always plagued the history of Muslims. Prior to the advent of Democratic era in the West, the above-mentioned issue had global connotations.
The West's transit-journey from Monarchial Authoritarianism and Dynastic Successorship to Modern Republicanism and Democratic Change was quite rapid after the French Revolution and the Founding of the United States of America.
But as the Islamic World was largely colonialized by the imperial powers of Europe, no political system was required either to take birth or to get evolved. Infact 'resistance' against 'occupation' was the name of the game. This resistance frequently acquired militant dimensions. Resultantly 'the siege psychology' created by colonial occupations, and 'active resistance' to win freedom, combined to form a state of mind in the Muslim world in which 'militancy' became an unavoidable tool, and 'armed power' a necessary institution.
This state of mind continues to govern the lives of most Muslim nations in the world.
On the one hand there is armed struggle against imperialistic forces and their indigenous allies. And on the other hand there are direct or indirect military regimes.
Malaysia is the only genuine democracy that has emerged promisingly. Indonesia may well follow suit, if the ghost of murderous Suharto era is not allowed to pay back a visit.
Turkey seems to have stabilized its democratic credentials, but the West-backed military that has for decades thrived on the Kemalist concept of secular totalitarianism continues to threaten democratic continuity in the only Muslim country that has never known foreign occupation.
Secular totalitarianism and monarchial domination are the systems that suit America in the pursuit of her imperial designs. Precisely the reason Washington backs Hosni Mubark's authoritarian rule in Egypt at the expense of democratic principles. Also the reason Americans have always kept their eyes closed to the presence of all-powerful authoritarian governments in the countries which are willing to go along with Washington's agenda.
The 'democratic fever' that gripped Washington's foreign policy experts in recent years has subsided considerably since the rise of Hamas through democratic process.
If democracy is not guided controlled and 'caged' from the top, Turkey, Egypt and Pakistan, three most powerful Islamic nations, are sure to produce their own versions of Hamas. Turkey's ruling party AKP is known for its Islamic credentials, (not welcome in the pro-west ranks of secularism). Egypt's Akhwans have survived the tyrannies of many a regime in the past and are now well equipped to steal any fairly conducted electoral show.
In Pakistan, the MMA is not seen as a modern political force by the educated Islamists of the middle-class. But in the ranks of all popular parties there are forces which have Islamist longings, and would jump onto to any credible Crescent-oriented bandwagon, if formed. Who knows what may happen tomorrow?

03/02/2022

Echoes from the Past
By: Ghulam Akbar ---04-02-2022

The Achievement That Will Ensure
Pervez Musharraf A Place of
Honour in History
I want fiercely to share the President's fierce belief in the goodness of his intentions. It will be unfair on my part or on the part of any neutral 'appraiser' not to recognize his enormous contribution to the good of Pakistan on many fronts and in many areas during the turbulent years that followed the nine-eleven explosion. Variations in policy-appropriation and viewpoints cannot be discounted, but not a great deal different could have been done to secure Pakistan's safety in the wake of a power-drunk imperialist's calculated display of massive insanity. But times are changing.
And changing rapidly. The President despite all the goodness of his intentions cannot afford to remain 'frozen' in his past achievements. He has to open his vision to new realities. Of course democracy isn't a new reality. It has existed in one or the other form in our life times. But now it is breathing on the President's neck. An old saying says that cloths are there before weather changes. Weather is changing. And clothes are already there. Democracy is so very very keen to embrace Pakistan again. Or perhaps Pakistan is in a wild mood to draw democracy once again into its embrace.
Let this embrace, for a change, be genuine this time. And the man who can do this singular favour to Pakistan and her people is none other than General Pervez Musharraf.
He can spare the nation a lot of pain and a lot of shame by acting in accordance with his national conscience, and in defiance of his self-interest. There is certainly glory in going down into history as the man who gave to the people of Pakistan their first free and fair elections. To this date this singular distinction is enjoyed by General Yahya Khan, but he chose not to doctor, tailor, regulate or rig the 1970 elections because of his belief that 'the spoils' of war would be shared by the combatants in such a way that none would have 'a say of threatening proportions'. Had General Yahya Khan known that Sheikh Mujeeb would have a clean sweep in the East and Bhutto a landslide in the West, he would have created an appropriate machinery to produce 'doctored results'. As of course has been the case in all the elections subsequently held.
Will General Pervez Musharraf allow the people of Pakistan to have their say really registered, honestly counted, and unhesitatingly announced by an Election Commission that will not be a mock-court of hand-picked judges?

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when National Herald Tribune posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share