Valueversity

Valueversity We must recognise that we all have common universal values of love, truth and justice and this recog

The Vibrancy of Karachi and BougainvilleaShariq AliValueversityPerhaps you all have shared in this experience. When we u...
20/12/2024

The Vibrancy of Karachi and Bougainvillea

Shariq Ali
Valueversity

Perhaps you all have shared in this experience. When we used to ride bicycles through the streets of Karachi in our youth or play cricket with our friends in the evenings, the bougainvillea bushes with their vibrant flowers would color the entire environment. The enchanting hues of bougainvillea—pink, purple, red, and white—were very common around us. Despite the harsh conditions, these colorful leaves, often mistaken for flowers, evoked a sense of beauty and resilience. Bougainvillea thrives in Karachi's hot climate and blooms cheerfully with minimal care throughout the year. Despite the city's droughts, its strength reflects and symbolizes the endurance of the residents. This vibrancy reminds us that beauty can flourish even in adverse conditions. Perhaps this beauty and charm have been part of your experience as well.

کراچی اور بوگن ویلیا کی رنگینیشارق علیویلیوورسٹیشاید اپ سب دوست بھی اس تجربے میں شریک رہے ہوں۔ جب ہم لڑکپن میں کراچی کی ...
20/12/2024

کراچی اور بوگن ویلیا کی رنگینی

شارق علی
ویلیوورسٹی

شاید اپ سب دوست بھی اس تجربے میں شریک رہے ہوں۔ جب ہم لڑکپن میں کراچی کی گلیوں میں سائیکلیں چلاتے تھے یا شام کو اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے تھے تو مختلف رنگوں کے پھولوں والی بوگن ویلیا جھاڑیوں کا ساتھ سارے ماحول کو رنگین بنائے رکھتا تھا۔ بوگن ویلیا کے دلکش رنگ—گلابی، جامنی، سرخ اور سفید—ہمارے ارد گرد بہت عام تھے۔ حالات کی سختیوں کے باوجود، یہ رنگین پتے، جنہیں اکثر پھول سمجھا جاتا ہے، خوبصورتی اور حوصلے کا احساس دلاتے تھے۔ بوگن ویلیا کراچی کے گرم موسم میں خوب پھلتا پھولتا ہے اور سال بھر بہت کم دیکھ بھال کے ساتھ بھی کھلتا اور مسکراتا رہتا ہے۔ شہر کی خشک سالی کے باوجود اس کی مضبوطی وہاں بسنے والوں کی سخت جانی کی عکاسی اور ترجمانی کرتی ہے۔ یہ رنگینی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ نامساعد حالات میں بھی خوبصورتی کی طاقت پنپ سکتی ہے۔ ممکن ہے یہ حسن و خوبصورتی آپ کا بھی تجربہ رہا ہو۔

What is the significance of the mysterious far side of the Moon?The study of the minerals and materials present here can...
19/12/2024

What is the significance of the mysterious far side of the Moon?

The study of the minerals and materials present here can provide us with new information about the formation of the Earth and the Moon. Valuable minerals like Helium-3 are found here, which could potentially solve future energy problems. Other valuable minerals are also present, which can prove to be extremely useful and cost-effective for electronic devices such as mobile phones and computers. This part of the Moon is very important for space research because there is no radio interference here, allowing space research instruments to work more effectively. Superpowers are making significant efforts to reach this location and build their own space stations because it offers opportunities to discover more secrets of space and establish potential future human base camps. Research conducted at these base camps could revolutionize space science.

چاند کے پراسرار دوسرے رخ کی اہمیت کیا ہے؟یہاں موجود معدنیات اور مواد کے مطالعے سے ہمیں زمین اور چاند کی تشکیل کے بارے می...
19/12/2024

چاند کے پراسرار دوسرے رخ کی اہمیت کیا ہے؟

یہاں موجود معدنیات اور مواد کے مطالعے سے ہمیں زمین اور چاند کی تشکیل کے بارے میں نئی معلومات مل سکتی ہیں۔ یہاں ہیلیم- 3 جیسی قیمتی معدنیات موجود ہیں جو ممکنہ طور پر مستقبل کی توانائی کے مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ دیگر قیمتی معدنیات بھی موجود ہیں جو الیکٹرانک الات مثلا موبائل فونز اور کمپیوٹرز کے لیے بے حد کارامد اور سستی ثابت ہو سکتی ہیں۔ چاند کا یہ حصہ خلائی تحقیق میں بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں کوئی ریڈیائی مداخلت موجود نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے خلائی تحقیق کے آلات زیادہ مؤثر طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔ سپر پاورز اس مقام پر پہنچنے اور اپنے اپنے خلائی اسٹیشن تعمیر کرنے کی بھرپور کوشش اس لیے کر رہی ہیں کیوں کہ یہاں خلا کے مزید رازوں کو جاننے اور ممکنہ مستقبل کے انسانی بیس کیمپ بنانے کے مواقع موجود ہیں۔ ان بیس کیمپوں میں کی جانے والی تحقیقات خلائی سائنس میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔

Eternity and the ArtistShariq AliValueversityEvery artist harbors a deep desire to transcend their mortal existence and ...
18/12/2024

Eternity and the Artist

Shariq Ali
Valueversity

Every artist harbors a deep desire to transcend their mortal existence and create something that stands the test of time, free from the shackles of temporal limitations. Whether sculpting a statue, painting a masterpiece, writing poetry, or expressing ideas through prose, the artist is driven by the yearning to leave a testament of their existence. They aspire for their art to serve as a memorial of their finite life and contribute enduringly to the betterment of humanity.

An artist is acutely aware of their mortality. They understand that time marches forward unrelentingly and that one day, they will no longer be part of this world. Yet, they also recognize that their art can become a symbol of their permanence. This understanding compels them to imbue their creative process with a timeless essence so that their work continues to represent their existence long after they are gone.

The artist’s creative endeavor is not merely an act of personal commemoration but also a profound social responsibility. They strive for their art to make the world a better place, to enlighten humanity, and to impart wisdom to future generations. In this way, their art becomes a lasting presence—alive even after their physical departure.

This pursuit of eternity is, in a sense, an answer to the primal fear of mortality. The artist seeks to place the bouquet of their creative work at the threshold of time as they bid farewell to the world, ensuring that while their existence may not be eternal, its impact is enduring. The fragrance of their art lingers in the winds of time, and their creative process becomes a guiding light for generations to come.

In today’s age, video and other digital mediums have provided artists with unprecedented opportunities to preserve their work. Through these digital creations, artists can not only keep their work alive but also disseminate it to the farthest corners of the world. This allows their art to transcend the constraints of time and space, adorning the mantle of eternity.

ہمیشگی اور فنکارشارق علیویلیوورسٹیہر فنکار کے دل میں یہ خواہش ہمیشہ سے بسی ہوتی ہے کہ وہ اپنے فانی وجود سے آگے بڑھ کر کچ...
18/12/2024

ہمیشگی اور فنکار

شارق علی
ویلیوورسٹی

ہر فنکار کے دل میں یہ خواہش ہمیشہ سے بسی ہوتی ہے کہ وہ اپنے فانی وجود سے آگے بڑھ کر کچھ ایسا تخلیق کرے جو وقت کی قید سے آزاد ہو کر ہمیشہ قائم رہے۔ جب ہم کوئی مجسمہ تراشتے ہیں، تصویر بناتے ہیں، شاعری کرتے ہیں، یا نثر میں خیالات کا اظہار کرتے ہیں، تو ہمارے دل میں یہ آرزو ضرور موجود ہوتی ہے کہ ہمارے جانے کے بعد بھی ہمارے وجود کی شہادت باقی رہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا فن ہمارے فانی وجود کی یادگار بنے اور انسانیت کی فلاح میں ہمارا حصہ تسلسل کے ساتھ باقی رہے۔

فنکار کو اپنے فنا ہونے کا شدید احساس ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وقت کا پہیہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور ایک دن وہ اس دنیا میں نہیں ہوگا، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کا فن اُس کی ہمیشگی کی علامت بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تخلیقی عمل میں اپنی روح کا ایک لافانی حصہ ڈالنے کی کوشش ضرور کرتا ہے تاکہ اس کا کام اُس کے جانے کے بعد بھی اُس کے وجود کی نمائندگی کرے۔

فنکار کی یہ تخلیقی کوشش صرف ذاتی یادگار نہیں ہوتی، بلکہ ایک سماجی ذمہ داری بھی ہوتی ہے، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کے فن کے ذریعے دنیا بہتر ہو، انسانیت کو علم اور روشنی ملے، اور آنے والی نسلیں اُس کے کام سے سیکھ سکیں۔ اس طرح اُس کا فن تادیر قائم وجود بن جاتا ہے، جو جسمانی وجود کے ختم ہونے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔

فنکار کی یہ جستجو ایک طرح سے اُس ازلی خوف کا بھی جواب ہے جو فنا سے جڑا ہوا ہے۔ وہ دہلیزِ وقت پر اپنے فن کا گلدستہ رکھ کر اس دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہے، تاکہ اُس کا وجود دائمی نہ سہی، لیکن دیر رس طور پر قائم رہے۔ اُس کے فن کی خوشبو وقت کی ہوا میں تادیر پھیلی رہے اور اُس کا تخلیقی عمل آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنے۔

آج کل ویڈیو اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع نے فنکار کے لیے اپنے کام کو محفوظ رکھنے کے بے پناہ مواقع فراہم کر دیے ہیں۔ ان ویڈیوز اور ڈیجیٹل تحریروں کے ذریعے، فنکار اپنی تخلیقات کو نہ صرف زندہ رکھ سکتا ہے بلکہ اسے دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکتا ہے، تاکہ اُس کا فن زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو کر ہمیشگی کا لباس پہن سکے

What Do We Mean by the Far Side of the Moon?The term "far side of the moon" refers to the part of the moon that we can n...
17/12/2024

What Do We Mean by the Far Side of the Moon?

The term "far side of the moon" refers to the part of the moon that we can never see from Earth. This is the side of the moon that is always hidden from the eyes of those living on Earth. This phenomenon occurs because the moon rotates on its axis at the same rate that it orbits around the Earth, a cycle that takes approximately 27.3 days to complete. Due to this synchronous rotation, we always see the same side of the moon, known as the near side.

The far side remained a deep mystery to humans until 1959 when a Soviet spacecraft sent back the first images of it. Now we know that, unlike the near side which has large dark patches called "maria," the far side is characterized by a higher number of craters and very few maria. This difference is due to the far side's thicker crust, which better resists the flow of lava that formed the maria on the near side.

چاند کے دوسرے رخ یا فار سائیڈ اف دی مون سے ہماری کیا مراد ہے؟اس سے مراد ہے چاند کا وہ حصہ جو ہم زمین سے کبھی بھی نہیں دی...
17/12/2024

چاند کے دوسرے رخ یا فار سائیڈ اف دی مون سے ہماری کیا مراد ہے؟

اس سے مراد ہے چاند کا وہ حصہ جو ہم زمین سے کبھی بھی نہیں دیکھ سکتے‌۔ یعنی زمین پر بسنے والے انسانوں کی انکھوں سے اوجھل چاند کا دوسرا رخ۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ چاند اسی رفتار سے اپنے مدار پر گھومتا ہے جس رفتار سے وہ زمین کے گرد چکر لگا رہا ہوتا ہے۔ ایک چکر مکمل ہونے میں تقریباً 27.3 دن لگتے ہیں۔ ایک رفتار سے گھومنے کی وجہ سے ہم ہمیشہ چاند کا وہی حصہ دیکھ پاتے ہیں جسے قریب کا رخ کہا جاتا ہے۔ دور کا رخ ہم انسانوں کے لیے ہمیشہ اوجھل اور ایک گہرا راز رہا جب تک کہ 1959 میں ایک سوویت خلائی جہاز نے زمین پر دوسرے رخ کی تصویریں ہمیں بھیجیں۔ اب ہم جانتے ہیں کہ قریب کے رخ کے برعکس، جس پر بڑے بڑے سیاہ دھبے موجود ہیں جنہیں "ماریہ" کہا جاتا ہے، دور کے رخ پر بہت سے گڑھے زیادہ موجود ہیں اور ماریہ بہت کم۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ دوسرے رخ کی سطح زیادہ موٹی ہے، جو لاوا کے بہاؤ کو زیادہ بہتر انداز میں روکتی ہے جس نے قریب کہ رخ کی جانب ماریہ تشکیل دیے ہیں۔

The Mysterious Side of the Moon and the Global Space RaceBy Shariq AliValueversityIntroductionWelcome to Valueversity. O...
15/12/2024

The Mysterious Side of the Moon and the Global Space Race

By Shariq Ali

Valueversity

Introduction

Welcome to Valueversity. Over the past few years, we have witnessed increasing interest from scientists in the far side of the Moon. In recent years, superpowers have suddenly developed a deep interest in this subject. Many space missions have been initiated in this pursuit, such as China's Chang'e mission and the United States' Artemis mission. Although China is currently leading this race, the United States, Russia, and the European Space Agency are also making continuous progress in this competition. The question arises, why is this happening? What treasures are buried on the far side of the Moon? Many questions come to mind regarding the growing interest of scientists and the importance of such space missions. Let's try to understand this topic and the current scenario through these questions.

چاند کا پر اسرار رخ اور عالمی خلای دوڑشارق علیویلیوورسٹیابتداویلیوورسٹی میں آپ سب کو خوش آمدید ۔ پچھلے چند برسوں میں ہم ...
15/12/2024

چاند کا پر اسرار رخ اور عالمی خلای دوڑ

شارق علی
ویلیوورسٹی

ابتدا

ویلیوورسٹی میں آپ سب کو خوش آمدید ۔ پچھلے چند برسوں میں ہم نے چاند کے
دوسرے رخ یعنی

Far Side of the Moon

کے بارے میں سائنسدانوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے مظاہرے دیکھے ہیں۔ حالیہ برسوں میں سپر پاورز نے اچانک سے اس موضوع میں گہری دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔ اس سلسلے کی پیشرفت میں بہت سے خلائی مشن کا اغاز کیا گیا ہے مثلا چین کا چینگ ای مشن اور امریکہ کا آرٹیمس مشن۔ اگرچہ اس دوڑ میں چین اس وقت سب سے آگے ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ، روس اور یورپین اسپیس ایجنسی بھی اس مقابلہ میں مسلسل پیشرفت کر رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ چاند کے دوسرے رخ پر ایسے کون سے خزانے دفن ہیں؟ سائنس دانوں کی اس بڑھتی ہوئی دلچسپی اور ایسے خلائی مشنوں کی اہمیت کے حوالے سے کئی سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔ ائیے ان سوالات کی مدد سے اس موضوع اور موجودہ منظر نامے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

دیوجانس کی باتیں ، دادا جی اور میں ، انشے سیریل ، تیرہواں انشا ، شارق علی ، ویلیوورسٹیWisdom of Diogenes: Dada ji aur ma...
14/12/2024

دیوجانس کی باتیں ، دادا جی اور میں ، انشے سیریل ، تیرہواں انشا ، شارق علی ، ویلیوورسٹی

Wisdom of Diogenes: Dada ji aur main || Episode 13 || Shariq Ali || An Inshay Serial by Valueversity

ایک بھرپور زندگی گزارنے کے لیے کم چیزوں کے مالک بنو،" یہ الفاظ سینوپ کے دیو جانس کلبی کے ہیں۔ یہ کہانی ان کی سکندرِ اعظم سے ملاقات کے بارے میں ہے۔

In order to live a rich life possess less said the Diogenes of Sinope. This is the story of his encounter with Alexander the Great

The Philosophy of Time Travel: Grandfather ParadoxShariq AliValuiversityThe ability to travel backward or forward in tim...
13/12/2024

The Philosophy of Time Travel: Grandfather Paradox

Shariq Ali
Valuiversity

The ability to travel backward or forward in time is a fascinating idea that has always intrigued people. This notion allows us to peek into the past and future, but it also raises some significant questions. One famous philosophical issue among these is the "Grandfather Paradox."

Imagine that you become capable of traveling back in time and meet your grandfather before he had any children. If you somehow prevent him from having children, it would mean that your parents would never be born, and consequently, you would never be born either. But here lies the question: if you were never born, how could you travel back in time to alter your grandfather's life?

This paradox highlights the complexities and difficulties of changing history. It compels us to ponder whether time travel is truly possible or if it is merely an interesting concept that we can only contemplate but not execute. Additionally, it forces us to question the principles of causality, i.e., how one event influences another.

The philosophy of time travel and issues like the "Grandfather Paradox" help us understand the relationship between time and history. These are not just scientific and philosophical debates but also provide deep insights into human life.

وقت میں سفر پذیری کا فلسفہ: دادا کا تضادشارق علیویلیوورسٹیوقت میں پیچھے یا اگے کی سمت سفر کرنے کے قابل ہونا ایک دلچسپ خی...
13/12/2024

وقت میں سفر پذیری کا فلسفہ: دادا کا تضاد

شارق علی
ویلیوورسٹی

وقت میں پیچھے یا اگے کی سمت سفر کرنے کے قابل ہونا ایک دلچسپ خیال ہے جو ہمیشہ سے لوگوں کو متجسس کرتا آیا ہے۔ یہ خیال ہمیں ماضی اور مستقبل میں جھانکنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ بڑے سوالات بھی اُٹھتے ہیں۔ ان میں سے ایک مشہور فلسفیانہ مسئلہ "دادا کا تضاد" ہے۔

تصور کریں کہ آپ ماضی میں سفر کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور اپنے دادا سے اس وقت ملتے ہیں جب ان کی ابھی اولاد نہیں ہوئی ہوتی۔ اگر آپ کسی طرح انہیں بچوں کے پیدا ہونے سے روک دیتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ کے والدین کبھی پیدا نہیں ہوں گے، اور نتیجتاً آپ بھی کبھی پیدا نہیں ہوں گے۔ لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر آپ پیدا نہیں ہوئے، تو آپ ماضی میں جا کر اپنے دادا کی زندگی کو کیسے تبدیل کر سکتے ہیں؟

یہ تضاد تاریخ کو تبدیل کرنے کی مشکلات اور پیچیدگیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آیا وقت میں سفر کرنا واقعی ممکن ہے یا یہ صرف ایک دلچسپ تصور ہے کہ جس پر ہم صرف غور کر سکتے ہیں عمل نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ ہمیں causality یعنی اسباب و علل کے اصولوں پر بھی سوال اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ یعنی ایک واقعہ کس طرح دوسرے واقعے پر اثر انداز ہوتا ہے۔

وقت میں سفر کے فلسفہ اور "دادا کے تضاد" جیسے مسائل ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ وقت اور تاریخ کے درمیان کس طرح کا تعلق موجود ہے۔ یہ صرف سائنسی اور فلسفیانہ مباحث نہیں بلکہ انسانی زندگی کے بارے میں بھی گہری بصیرت فراہم کرتے ہیں۔

ALAS FLASH FICTIONThe Literary Meeting 2030 is about to begin. We are all seated in our places. My name is Takasu, and I...
12/12/2024

ALAS FLASH FICTION

The Literary Meeting 2030 is about to begin. We are all seated in our places. My name is Takasu, and I reside in the Metropolis Dome with my colleagues Tim, Yuri, and Liz. It is here that this literary gathering is taking place. Our dome is a symbol of hope and the possibility of new human settlements in space. This is the first human colony in space, established through a joint effort between NASA and the International Space Agency, with a staggering investment of 60 billion dollars.

It took us seven months to get here. There is no technology available for returning to Earth. Whether it’s life or death, Mars is now our permanent home. After passing through strict selection processes and undergoing rigorous training at the Johnson Space Center for several years, we have been able to successfully manage everyday life and scientific activities in the harsh conditions of Mars. We and Earth are connected through the internet.

We engage in eight hours of serious scientific activity every day, and in our free time, we seek mental relief through social websites. Facebook and Google keep us connected with Earthly realities and our families. You might be surprised to know that we are now more aware of and connected to Earth’s issues than we were while living there. The truth is, our minds are constantly drenched in the downpour of Earth’s conditions.

In today’s literary meeting, I will be presenting a paper titled: “The Beautiful World’s Ugly Political and Geographical Divisions: The Cause of the Violation of Human Values.” Tim will speak on: “Poverty, Intellectual Deprivation, and the Blind Prioritization of Vast Resources.” Liz, who is also a poet, will recite two poems today. The first is titled: “The Lament of the Helpless Mother and Child, Echoing to the Heavens,” and the second: “The Scene of Human Dreams Dying Among the Galaxies.” Yuri’s concluding paper is titled: “A Welfare Goal of 60 Billion Dollars in Today’s Moment: Earth or the Sky?”

The central theme of today’s literary meeting is: Alas!

Shariq Ali Valueversity

The Science of Dreams: Unlocking the MysteryShariq AliValueversityDreams have fascinated humans for centuries. But why d...
12/12/2024

The Science of Dreams: Unlocking the Mystery

Shariq Ali
Valueversity

Dreams have fascinated humans for centuries. But why do we dream? Scientifically, dreams are a product of our brain's activity during sleep, especially in the REM (Rapid Eye Movement) phase. During this phase, our brain processes emotions, memories, and experiences, often blending them into vivid and sometimes strange narratives.

Dreams are believed to play a crucial role in our creativity. Many artists and writers, like the famous novelist Mary Shelley, have had breakthroughs inspired by their dreams. Shelley dreamed of a scientist who created life, which inspired her to write the novel "Frankenstein

Moreover, dreams contribute to our well-being. They help us process emotions and stress, providing a mental "rehearsal" for challenging situations. For example, dreaming about solving a complex problem might help you feel more prepared when tackling it in real life.

In essence, dreams are not just random images but a vital part of our mental and emotional health, enhancing our creativity and helping us cope with daily life.

خوابوں کے اسرار کی کنجیشارق علیویلیوورسٹیخواب صدیوں سے انسانوں کو حیران کرتے رہے ہیں۔ یہ سوال کہ ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں...
12/12/2024

خوابوں کے اسرار کی کنجی

شارق علی
ویلیوورسٹی

خواب صدیوں سے انسانوں کو حیران کرتے رہے ہیں۔ یہ سوال کہ ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں؟ سائنسی طور پر خواب ہمارے دماغ کی نیند کے دوران، خاص طور پر REM (ریپڈ آئی موومنٹ) مرحلے میں سرگرمی کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس مرحلے کے دوران، ہمارا دماغ جذبات، یادیں، اور تجربات کو پروسیس کرتا ہے، جو اکثر انہیں زندہ تصویروں، آوازوں اور کبھی کبھار عجیب و غریب کہانیوں سے ملا دیتا ہے۔

یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ خواب ہماری تخلیقی صلاحیتوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بہت سے فنکار اور مصنف، جیسے مشہور ناول نگار میری شیلی، نے اپنے خوابوں سے متاثر ہو کر اہم تخلیقی کام کیے ہیں۔ شیلی نے ایک ایسے سائنسدان کا خواب دیکھا جو زندگی تخلیق کرتا ہے۔ اس خواب نے انہیں ناول "فرینکنسٹائن" لکھنے کی تحریک دی۔

مزید برآں، خواب ہماری زہنی فلاح و بہبود میں بھی معاون ہوتے ہیں۔ یہ ہمیں جذبات اور تناؤ کو پروسیس کرنے میں مدد دیتے ہیں، اور چیلنجنگ صورتحال کے لیے ذہنی "مشق" فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک پیچیدہ مسئلہ حل کرنے کا خواب دیکھنے سے آپ خود کو حقیقت میں اس سے نمٹنے کے لیے زیادہ تیار محسوس کر سکتے ہیں۔

کاشانشافکری محفل 2030 کا آغاز ہونے ہی والا ہے۔ ہم اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ میرا نام تا کا سو ہے اور میں اپنے سا...
11/12/2024

کاش

انشا

فکری محفل 2030 کا آغاز ہونے ہی والا ہے۔ ہم اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ میرا نام تا کا سو ہے اور میں اپنے ساتھیوں، ٹم، یوری اور لز کے ساتھ میٹروپولس ڈوم میں مقیم ہوں۔ یہیں اس فکری محفل کا انعقاد ہو رہا ہے۔ ہمارا ڈوم خلا میں نئی انسانی بستیوں کے امکان اور امید کی ایک علامت ہے۔ یہ انسانی تاریخ کی پہلی خلائی بستی ہے جو ناسا اور انٹرنیشنل سپیس ایجنسی کے اشتراک سے، 60 بلین ڈالر کی خطیر رقم سے قائم ہوئی ہے۔

یہاں پہنچنے میں ہمیں سات مہینے لگے۔ زمین پر واپسی کے لیے کوئی ٹیکنالوجی دستیاب نہیں ہے۔ زندگی یا موت، اب مریخ ہمارا مستقل مسکن بن چکا ہے۔ سخت انتخابی مراحل اور جانسن اسپیس سنٹر میں کئی سالوں کی بھرپور ٹریننگ کے بعد، ہم یہاں مریخ کے ناموافق حالات میں بھی روزمرہ کی زندگی اور سائنسی مصروفیات کامیابی سے سر انجام دے رہے ہیں۔ ہم اور زمین انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

ہم روزانہ آٹھ گھنٹے کی سنجیدہ سائنسی مصروفیت میں مصروف رہتے ہیں اور فرصت ملتے ہی سماجی ویب سائٹس سے ذہنی تفریح کرتے ہیں۔ فیس بک اور گوگل ہمیں زمینی حقائق اور اپنے خاندانوں سے رابطے میں رکھتے ہیں۔ شاید آپ کو حیرت ہو کہ ہم زمینی اور انسانی مسائل سے اب جتنا واقف اور متعلق ہیں، زمین پر رہتے ہوئے بھی نہیں تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ذہن ہر وقت زمینی کیفیتوں کی بارش میں شرابور رہتے ہیں۔

آج کی فکری محفل میں، میں جو مقالہ پڑھوں گا، اس کا عنوان ہے: "خوبصورت دنیا کی بدصورت سیاسی اور جغرافیائی تقسیم: انسانی قدروں کی پامالی کا سبب"۔
ٹم جس موضوع پر بات کرے گا وہ ہے: "افلاس، علمی محرومی اور کثیر وسائل کی نابینا ترجیحات"۔
لز، جو ایک شاعرہ بھی ہے، آج دو نظمیں سنائے گی۔ پہلی کا عنوان ہے: "زچہ اور بچہ کی بیچارگی کا نوحہ آسمانوں تک" اور دوسری: "کہکشاؤں سے انسانی خواب کے مرنے کا منظر"۔
یوری کے اختتامی مقالے کا عنوان ہے: "لمحۂ آج میں 60 بلین ڈالر کا فلاحی ہدف: زمین یا آسمان؟"۔

آج کی فکری محفل کا بنیادی خیال ہے: کاش۔

شارق علی
وہلیوورسٹی

Mars Mission Training Programمریخ خلائی مشن کا تربیتی پروگرامa
07/12/2024

Mars Mission Training Program

مریخ خلائی مشن کا تربیتی پروگرامa

Mars Mission Training Programمریخ خلائی مشن کا تربیتی پروگرامShariq AliValueversityI’m Phil, a 32-year-old astronaut in training for the first manned Mars mi...

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Valueversity posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Valueversity:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share