Hw_urdu

Hw_urdu Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Hw_urdu, Video Creator, .

https://youtu.be/yU0AQxNrLhw
26/05/2021

https://youtu.be/yU0AQxNrLhw

The Great seljuk in Urdu Episode 1 (part2) Season 1 In Urdu Hindi Dubbed uyanış büyük selçuklu Disclaimer : Copyright Disclaimer Under Se...

The Great seljuk |  uyanış büyük selçuklu dubbed in udru/hindihttps://youtu.be/b7ZVrF1BoO4
25/05/2021

The Great seljuk | uyanış büyük selçuklu dubbed in udru/hindi
https://youtu.be/b7ZVrF1BoO4

The Great seljuk Urdu Episode 1 Season 1 In Urdu Hindi Dubbed uyanış büyük selçukluDisclaimer : Copyright Disclaimer Under Section 107 of...

18/12/2020

Uyanis buyuk selcuklu bolum 12 urdu hindi short story

سلجوقیوں کا عروج قسط 12 کی مختصر کہانی

07/12/2020

Lamba sajda krne ke fayde |
Some benefits of long prostration

 🤣‏ایک  پھٹان نے 5 ہزار کا بیلنس غلطی سے ایک نامعلوم پنجابی کے نمبر پر بھیج دیا ،احساس ہونے پر واپس منگوانے کی ہر کوشش ج...
31/08/2020

🤣

‏ایک پھٹان نے 5 ہزار کا بیلنس غلطی سے ایک نامعلوم پنجابی کے نمبر پر بھیج دیا ،احساس ہونے پر واپس منگوانے کی ہر کوشش جب ناکام ہوگئی تو پھٹان صاحب نے اُسی نمبر پر ایک میسج بھیجا۔
آپ کو تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت پر مبارکباد دی جاتی ھے۔
‏آپ نے 5 ہزار کا بیلنس قبول کرکے اپنی ممبر شپ کی توثیق کر دی ھے اور آپ کیلئے یہ خبر یقینی طور پر خوشی کا باعث ہوگی کہ آپ کا انتخاب تنظیم کے فدائی وِنگ میں ھو گیا ھے۔
آپ کو ٹریننگ کیلئے جلد ہی آپ کے گھر سے اُٹھا لیا جائے گا۔
‏تھوڑی دیر بعد ہی پھٹان کو 10 ہزار کا بیلنس اس میسج کے ساتھ وصول ہوا کہ
بھائی جان، موبائل چارجر میں لگا ہونے کی وجہ سے کال وصول نہیں کر سکا تھا ،
بہرحال 10 ہزار کا بیلنس وصول کریں پلیز مجھے معاف کردیں
میری نہ صرف نظر کمزور ھے بلکہ ایک ٹانگ پولیو کی وجہ سے ناکارہ اور ایک ہاتھ پر فالج بھی ھے۔
🤣😂😅😁

30/08/2020

اللہ کو چیلنج کرنے والے لوگوں کا حشر،،
جن لوگوں نے اللہ کو چیلنج کیا انکا کیا حشر ہوا،
ہمیں ان واقعات کو پڑھ کر اور سنکر نصیحت حاصل کرنی چاہیے، اللہ ہماری حفاظت فرماۓ۔۔۔۔۔
ALLAH KO CHALLENGE KARNE WALE LOGON KA KYA HASHR HUWA......

‏نعمت سے بغاوت کرنا زوال کا آغاز ہے، استغفار کا سفر شروع کرنا عروج کا آغاز ہے، استغفر اللہ سربلندی کا وظیفہ ہے اور الحمد...
28/08/2020

‏نعمت سے بغاوت کرنا زوال کا آغاز ہے، استغفار کا سفر شروع کرنا عروج کا آغاز ہے، استغفر اللہ سربلندی کا وظیفہ ہے اور الحمد اللہ انعام یافتہ بندوں کا ورد،
اللہ کریم ہمیں استغفار کی توفیق عطا کرے اور انعام یافتہ
بندوں میں شامل فرمائے___آمین

کچھ عرصہ پہلے اسرائیل کے کچھ نوجوان اپنے ہاتھوں میں اک تختی لیکر سڑکوں پر دیکھےجس پر لکھا تھا ،(khaibar was your Last ch...
26/08/2020

کچھ عرصہ پہلے اسرائیل کے کچھ نوجوان اپنے ہاتھوں میں اک تختی لیکر سڑکوں پر دیکھے
جس پر لکھا تھا ،(khaibar was your Last chance)
کیا آپ کو اس کا مطلب پتہ ہے ۔۔۔ نہیں نا۔۔۔۔
تو آئیے جانتے ہیں
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور حیات میں یہودیوں سے اک جنگ ہوئی تھی ۔اس جنگ میں حضرت علی کرم اللہ بھی شریک تھے
جس میں حضرت علی رضی اللہ کی ڈھال ٹوٹ گئی تھی اور جزبات میں حضرت علی نے در خیبر ( خیبر کا دروازہ ) اکھاڑ دیا تھا ۔۔۔
آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ اس دروازے کا وزن اتنا تھا کہ جنگ کے بعد 40 لوگ مل کر بھی نہیں ہلا سکے تھے ۔ اس جنگ میں یہودیوں کو بہت بری ہار ملی تھی
یہ جنگ اتنی پرانی ہے کہ 80٪ مسلمانوں کو یاد نہیں کیونکہ مسلمان صرف اک لفظ بن کر رہ گئے ہیں
پر یہودی آج بھی وہ تختی لیکر اپنے دل میں دشمنی نبھا رہےہیں جس پر لکھا ہے
مسلمانوں خیبر کی جیت تمہاری آخری جیت تھی اب تم ہم سے کبھی نہیں جیت سکتے
بس یہی فرق ہے ہم مسلمان اور یہودی اور کافروں کے بیچ کہ وہ آج بھی اپنی ہار کو نہیں بھولے اور ہم ٹک ٹاک پر مجرا کرنے میں مشغول ہیں
اللہ اب ہم سب کو ہدایت دے کہ اپنے اعمال کو صحیح کریں

سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد نبوی کے ساتھ تھا، اور اس مکان کا پرنالہ مسجد کی طرف تھا جب بارش ہوتی تو پرنالہ سے پا...
26/08/2020

سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد نبوی کے ساتھ تھا، اور اس مکان کا پرنالہ مسجد کی طرف تھا جب بارش ہوتی تو پرنالہ سے پانی گرتا جس کے چھینٹے نمازیوں پر پڑتے،
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھے تو پرنالے کو اکھاڑ پھینکا،
سیدنا عباس آئے دیکھا ان کے مکان کا پرنالہ اتار دیا گیا ہے، پوچھا یہ کس نے اتارا،
جواب ملا امیر المومنین نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھے تو اسے اتار دیا،
سیدنا عباس نے قاضی کے سامنے مقدمہ دائر کر دیا،
چیف جسٹس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں،
امیر المومنین ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش ہوئے تو جج صاحب لوگوں کے مقدمات سن رہے ہیں اور سیدنا عمر عدالت کے باہر انتظار کر رہے ہیں، کافی انتظار کے بعد جب سیدنا عمر عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو بات کرنے لگے، مگر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے روک دیا کہ پہلے مدعی کا حق ہے کہ وہ اپنا دعوی پیش کرے، یہ عمر کے دور کا چیف جسٹس ہے،
سیدنا عباس دعوی پیش کرتے ہیں کہ میرے مکان کا پرنالہ شروع سے مسجد نبوی کی طرف تھا، زمانہ نبوی کے بعد سیدنا ابوبکر کے دور میں بھی یہی رہا لیکن عمر نے میرے مکان کا پرنالہ میری عدم موجودگی میں میری اجازت کے بغیر اتار دیا ہے، لہذا مجھے انصاف چاہیے،
چیف جسٹس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ بے فکر رہیں آپ کو انصاف ملے گا،
قاضی نے سیدنا عمر سے پوچھا آپ نے سیدنا عباس کے گھر کا پرنالہ کیوں اتارا،
بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم کٹہرے میں کھڑا ہو کر کہتا ہے، سیدنا عباس کے مکان کا پرنالہ مسجد نبوی کی طرف تھا جب بارش ہوتی ہے پرنالے سے پانی بہتا ہے اور چھینٹے نمازیوں پر پڑتے ہیں جس سے نمازیوں کو پریشانی ہوتی ہے اس لیے میں نے اسے اتار دیا،
آبی بن کعب نے دیکھا کہ سیدنا عباس کچھ کہنا چاہ رہے ہیں، پوچھا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟؟
سیدنا عباس کہتے ہیں یہ جس جگہ میرا مکان ہے یہاں رسول پاک نے اپنی چھڑی سے مجھے نشان لگا کر دیا اور میں نے اسی جگہ مکان بنایا پھر جب پرنالہ نصب کرنے کا وقت آیا تو رسول پاک نے کہا چچا میرے کندھے پر کھڑے ہو کر اس جگہ پرنالہ نصب کر دیں میں نے نبی پاک کے کندھے پر کھڑا ہونے سے انکار کیا مگر بھتیجے کے اصرار پر میں نے ان کے کندھے پر کھڑا ہو کر یہاں پرنالہ نصب کیا یہاں پرنالہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لگوایا تھا،
ابی بن کعب نے پوچھا اس کا کوئی گواہ ہے آپ کے پاس،
سیدنا عباس جلدی سے باہر گئے اور کچھ انصار کو لے کر آئے انہوں نے گواہی دی کہ سیدنا عباس سچ کہہ رہے ہیں،
یہ سنتے ہی سیدنا عمر کے ہوش اڑ گئے اور رونے لگے، آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی، اپنا پیارا نبی یاد آ گیا، اور زمانہ نبوی کا منظر نظروں میں گھوم گیا،
عدالت میں سب کے سامنے یہ بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم سر جھکائے کھڑا ہے، جس کا نام سن کر قیصر و کسری کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا تھا،
سیدنا عباس سے کہا مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ پرنالہ رسول پاک نے خود لگوایا ہے،
آپ چلیے میرے ساتھ جیسے رسول پاکؐ نے یہ پرنالہ لگوایا تھا ویسے ہی آپ لگائیں،
چشم کائنات نے دیکھا!
وقت کا حاکم دونوں ہاتھ مکان کی دیوار سے ٹکا کر کھڑا ہو گیا بالکل اسی طرح جیسے رسول پاکؐ کھڑے ہوئے تھے، سیدنا عباس امیر المومنین کے کندھوں پر کھڑے ہوئے اور دوبارہ اسی جگہ پرنالہ لگا دیا،
وقت کے حاکم کا یہ سلوک دیکھ کر سیدنا عباس نے مکان مسجد نبوی کو وقف کر دیا،

مسند ' الامام أحمد بن حنبل ، 1 / 210، الحديث رقم : 1790

दुनिया वालो!  हज़रत उमर फ़ारुक़ र. का मरतबा तुम क्या जानो, वो जिस रास्ते पर चलते थे, शैतान भी वहाँ से अपना रास्ता बदल ले...
22/08/2020

दुनिया वालो! हज़रत उमर फ़ारुक़ र. का मरतबा तुम क्या जानो, वो जिस रास्ते पर चलते थे, शैतान भी वहाँ से अपना रास्ता बदल लेता था.... ❤❤

हज़रत उमर फ़ारुक़ र. ने दुनिया में ऐसा अ़दल (इंसाफ़) किया, कि अ़दल हमेशा अ़दले फ़ारुक़ी के नाम से जाना जाएगा....
رضی اللہ عنہ ❤❤
اللہ ہمیں حضرت رضی اللہ عنہ کے قدموں میں جگہ عطا فرمائے 🤲🤲🤲

 "میں تم سے شادی کروں گا"صرف یہ کہہ دینا  ''شادی نہیں ہے''،' مجھے اپنی ماں کا نمبر دو میں ان سے بات کروں گا۔   ''یہ شادی...
20/08/2020

"میں تم سے شادی کروں گا"
صرف یہ کہہ دینا ''شادی نہیں ہے''،

' مجھے اپنی ماں کا نمبر دو میں ان سے بات کروں گا۔
''یہ شادی نہیں ہے''،
میں نے آپ کے بارے میں اپنے خاندان میں بات کی ھے۔ ''شادی نہیں ہے''۔
'میں نے آپ کے والدین کو کچھ تحائف بھیجے ھیں۔
''یہ بھی شادی نہیں ہے''.
میری ماں تمہیں پسند کرتی ہے،
''شادی نہیں ہے'''۔
مجھے آپ کے ھاتھ کا کھانا پسند ہے، آپ اچھی بیوی بنیں گی،
''یہ بھی شادی نہیں ہے''۔
میرے والدین اور بہن بھائی آپ کے بارے میں باتیں کرتے نہیں تھکتے،
''یہ بھی شادی نہیں ھے''۔
میں نے آپ سے منگنی کی ہوئی ھے، لہذا آپ کو پریشانی کی کوئی بات نہیں،
''یہ شادی نہیں ہے''.

''جان لیجئے کہ جب تک وہ اپنے کنبے کے ساتھ نہیں آئے گا، شادی کرکے آپ کو خاندانوں کی موجودگی میں منکوحہ بنا کے گھر نہیں لے جائے گا ، تب ہی آپ کو بیوی بننے کا یقین آنا چاھیے۔''

تب تک اپنے دل کو کھلا چھوڑیں، اپنی ہر بات میں عقلمند بنیں اور یاد رکھیں کہ جھوٹے وعدوں اور خوابوں میں مشغول نہ ہوں۔
''لہذا اپنے ذہن میں کسی ایسے فرد کو مت رکھیں جو ابھی تک آپ کے ساتھ شادی شدہ نہیں ہے''۔

کسی کی عارضی ہوس میں بیوقوف نہ بنیں۔

🥀معزز بہن آپ ایک عزت دار آدمی کی بیٹی اور کسی دوسرے عزت دار کی ھونے والی بیوی ہیں۔🥀

"اپنی قدر جانئے۔“⁦❣️⁩

*“طلاق یافتہ لڑکی”*وہ ایک قبر کے کنارے بیٹھا اپنے آپ ھی مُسکرا رھا تھا.مریم کے ساتھ گُزرے حسِین لمحے اُس کے دماغ میں فلم...
19/08/2020

*“طلاق یافتہ لڑکی”*
وہ ایک قبر کے کنارے بیٹھا اپنے آپ ھی مُسکرا رھا تھا.
مریم کے ساتھ گُزرے حسِین لمحے اُس کے دماغ میں فلم کی طرح چل رھے تھے. وہ سارے خواب ایک ایک کر کے جینا چاھتے تھے وہ جن کی حقیقت ھونے کا سلسلہ شروع ھو چُکا تھا.
پامپ پامپ... ... ...
اچانک تیز ھارن کی اس آواز کے ساتھ اُس کی مُسکراھٹ اُداسی میں بدل گئی اور سارے خواب ٹوٹ گئے.
اُس اندھوہناک حادثے نے اُس کی پیاری بیوی مریم کو چھین لیا تھا. اُن کی شادی کو صرف سات ماہ ھوئے تھے اور مریم کی عمر صرف 22 سال تھی. آج مریم کے سوئم کے روز وہ کافی دیر سے اُس کی قبر پے بیٹھا اُس کی یادوں کو دل میں پیوست کر رھا تھا.
تم ابھی صرف 25 سال کے ھو ساری زندگی پڑی ھے تمہارے آگے کب تک مریم کی یاد میں اکیلے رھو گے. اور تمہارے اس اکیلے پن سے مریم خوش ھو گی کیا...؟
میری بات مانو شادی کے لیے ھاں کر دو.
اُس کی ماں اُس کی دوسری شادی کروانا چاھتی تھی. میں ابھی ذھنی طور پر تیار نہیں ھوں. اُس نے کہا, آپ حِرا کی شادی کی فکر کریں اُس کے بعد میں بھی مان جاؤں گا.
حِرا اُس کی چھوٹی بہن کا نام تھا.
بیٹے کی بات سنتے ھی ماں نے حِرا کے رشتے دیکھنے شروع کر دیے جلد ھی ایک بہت اچھے خاندان میں اچھی طرح چھان بین کے بعد شادی کر دی گئی.
اب ماں نے اُس سے دوبارہ شادی کی بات چھڑی, وہ مان تو گیا پر اُس نے ایک شرط رکھ دی کے کسی طلاق یافتہ لڑکی سے شادی کرے گا تاکہ کسی کی بےرنگ زندگی میں رنگ بھر سکے. اور شرط سنتے ھی اُس کی ماں کا رنگ غیر ھو گیا اور غصے سے لال پیلی ھو گئی.
میں کسی آوارہ بدکردار لڑکی کو ہرگز اپنی بہو نہ بناؤں گی.
بھلا شریف لڑکی کو طلاق ھوتی...
طلاق تو تیز طرار اور آوارہ لڑکیوں کو ھوتی ھے. میں ہرگز کسی طلاق یافتہ گھر نہیں لاؤں گی.
اب تو ماں بیٹے میں اسی بات پر اَن بن رھنے لگی.
وہ اپنی ماں کو سمجھاتا کے ھمیشہ برائی لڑکی میں نہیں ھوتی, لڑکے بھی خراب ھو سکتے ھیں.
اسی اَن بن میں 18 مہینے کا کا عرصہ گزر گیا.
ایک دن اُس کی بہن کے ساس سُسر اور اُس کی بہن گھر آئے. حِرا بلکل ٹھیک لگ رھی تھی.
ارے اچھا ھوا آپ لوگ آگئے میں کافی دن سے حِرا سے ملنے کا سوچ رھی تھی لیکن آنا نہیں ھو پایا.
حِرا کی ماں نے کہاں.
اب سب کمرے میں موجود تھے حِرا کے سُسر بولے.....
مجھے سمجھ نہیں آ رھا آپ لوگوں سے کیسے کہوں.....
دیکھیے بہن, حِرا بہت اچھی لڑکی ھے، ھمیں اس سے کوئی شکایت نہیں.
لیکن.....
اب ھمارا بیٹا شاید اس کے قابل نہیں رھا. شادی کے کچھ مہینوں بعد سے میرا بیٹا نا جانے کن لوگوں کے ساتھ بیٹھنے لگا. وہ نشے کا عادی بن چُکا ھے, شراب نوشی بھی کرتا ھے اور پہلے تو صرف لڑائی جھگڑا کرتا تھا اب حِرا پر ھاتھ بھی اُٹھانے لگا ھے. اسی وجہ سے ھم نے اُسے گھر سے نکال دیا ھے. اور بہت سوچ بچار کے بعد ھم نے یہ فیصلہ کیا ھے کہ آپ کی بیٹی کی زندگی خراب نہ کی جائےاسے ھم اپنے بیٹے سے طلاق دلوا دیں گے اور خود اس کی شادی کسی دوسری جگہ کروائیں گے.
ھم اپنے بیٹے کی وجہ سے بہت شرمندہ ھیں. اور حِرا کو اپنی بیٹی کی طرح کسی اور کے ساتھ رخصت کریں گے. اور.... اور.... وہ بولتے گئے اور اُس کی ماں سکتے کی سی حالت میں بیٹھی سنتی رھی اور آنسو بہاتی رھی...
اب اُس کی اپنی بیٹی بھی طلاق یافتہ تھی. اور طلاق یافتہ لڑکیوں کے لیے اُس نے جو الفاظ ادا کیے تھے وہ اُس کے کانوں میں گونج رھے تھے.
اب ماں کو سمجھ آگیا تھا کہ بیٹا ٹھیک کہتا تھا ھر بار لڑکی قصور وار نہیں ھوتی...
چاھے جتنی بھی چھان بین کرلو لڑکیوں کی شادی نصیب سے ھوتی ھے. طلاق یافتہ ھونا کوئی بُرائی نہیں یہ تو قسمت کے کھیل ھیں اکثر بُرے سے بُرے اعمال والی لڑکیوں کے گھر بس جاتے ہیں اور اچھی سے اچھی لڑکیوں کے نہیں بس پاتے. تربیت سے پرکھیں صرف اس وجہ سے کوئی رائے قائم کر لینا کہ طلاق یافتہ ھے بہت زیادتی ھے.
معاشرے کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ھمیں اپنی سوچ کُشادہ رکھنے کی ضرورت ھے.
طلاق یافتہ لڑکیوں کی دوبارہ شادی ھونے سے معاشرہ بے راہ روی سے بچے گا.
ھمیں بحثیت ایک معاشرہ اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ھے.

بچوں کی ایمانی تربیت کے لیے بہترین عمل ۔۔۔ چونکہ آخرت اصل ہے اور دنیا فانی ہے، وہ والدین کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کی...
17/08/2020

بچوں کی ایمانی تربیت کے لیے بہترین عمل ۔۔۔
چونکہ آخرت اصل ہے اور دنیا فانی ہے، وہ والدین کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کیسا بنانا چاہتے ہیں،
ایک دنیا دار شخص ، جسکے لیے آخرت، دین اور مخلوق کوئی معنی نہیں رکھتی،
یا ایک دیندار شخص، جسکے لیے اللہ، اسکا رسول ﷺ❤ ، اسکا دین ، نرم مزاجی اور خدمت خلق ہی سب کچھ ہے ،
یہ والدین پر ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے بچے کو ایسا بنادیں، کہ وہ انکے انتقال کے بعد انکے لئے دعاء مغفرت کرے،
یا پھر ایسا بنادیں، کہ اسے یہ بھی نہ پتہ ہو کہ والدین کے جنازے پر جوتے اتارنے ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔

16/08/2020

رزق
رزق کا لفظ جب بھی سننے یا بولنے میں آتا ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کھانے پینے اور مال د ولت کا نام ہے۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ رزق صرف پیسے یا کھانے پینے کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کوجتنی بھی نعمتوں سے نوازا ہے وہ سب رزق کے زمرے میں آتی ہیں ۔مثال کے طورپرصحت ،ایمان،عزت ،رشتے ـ،علم وہنر،اختیاراور کسی کی نیک تمنائیں و دعائیں ،یہ سب رزق کی اقسام ہیں اوریہ تقریباً تمام انسانوں کو یہ نعمتیں میسر ہیں ۔
ہر انسان پر اللہ کی نعمتوں کا سلسلہ لا محدود ہے کیونکہ وہ رب العٰلمین ہے اور رب وہی ہوتاہے جس کے خزانوں میں نعمتوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ رب العٰلمین کی تعریف ہی یہ ہے کہ جس انسان کو جس طرح کارزق چاہیے وہ اس کو فراہم کرتا ہے ۔ماں کے پیٹ میں بچے کو خون کی صورت میں ہر طرح کی خوراک دیتا ہے اور جب بچہ تیار ہوکر دنیا میں آتا ہے تو اس کے جسمانی تقاضوں کے مطابق رزق دیتا ہے۔جبکہ انسانی سوچ کے مطابق رزق صرف پیسے کانام ہے او ر اسی بنیاد پرلوگوں کے پاس جب کچھ مال و دولت آجاتی ہے تو وہ گھر کے باہر ہٰذا من فضل ربی لکھوالیتے ہیں، حالانکہ اگر غور کیا جائے تو فضل اس انسان پر بھی ہے جس کے پاس اگر چہ مال و دولت نہیں ہے مگر صحت ، تندرستی اورایمان کی صورت میں ایک بیش قیمت دولت موجود ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کواگر گاڑی کا ٹکٹ نہ ملے تو وہ خو د کو بدقسمت سمجھتا ہے لیکن اس گاڑی کاحادثہ ہوجاتا ہے تو وہ جو کچھ دیر پہلے ٹکٹ نہ ملنے پر شکوہ کررہا تھا ، اپنی سلامتی پر شکر ادا کررہا ہوتاہے،یعنی انسان اپنی عقل و علم اور فہم کے مطابق اپنے لیے مکمل درست فیصلہ نہیں کرسکتا۔یہ صرف رب کو پتہ ہے اور وہی اپنے بندوں کے لیے خیر کا فیصلہ کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
’’ممکن ہے تم جس چیز کو ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور جس کو تم پسند کرتے ہو وہ تمہارے لیے بہتر نہ ہو۔‘‘(سورۃ البقرۃـ:216)
صحت
اگر زندگی سے صحت کی نعمت نکال دی جائے،اس کے بعد انسان کھرب پتی بھی ہو تو ا س کی زندگی کیا زندگی ہوگی۔پیسے کی ریل پیل ہو مگر ساتھ میں کینسر بھی ہو،تو ایسے مال ودولت کا کیا فائدہ ؟
عزت
رزق کی جو تفصیل ہم نے ابتداء میں بیان کی یہ سب اقسام مختلف طرح کی چیزوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں ۔اگر انسان کے پاس عزت ہو تو پیسہ ویسے ہی اس کے پاس آجاتاہے۔لیکن یہی عزت اگر اس کی زندگی سے نکال دی جائے تو باوجود اختیار ، عہدہ ، مال ودولت ،دوست احباب اور تعلقات کے سب کچھ ختم ہوجاتاہے۔
اولاد
اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔جو انسان اس نعمت سے محروم ہے وہ اس کو پانے کے لیے ہر قیمت دینے کو تیار ہے۔ جس کے پا س ہے اس کو اس قدر محبوب ہے کہ اگروہ خودشاید مرنے کو تیار ہوجائے مگر اولاد کو مرنے نہیں دیتا۔
رشتے
جو انسان کے خوشی اور غمی میں ساتھ ہوتے ہیں۔اگر انسان پر کوئی مصیبت آجائے اورکندھے پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہ ہو تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس دکھ سے خود مرجائے۔
علم وہنر
ہم میں سے ہر ایک کے پاس کوئی نہ کوئی ہنر موجود ہے۔اس ہنر کو اللہ کتنی ساری چیزوں میں بدل دیتا ہے جس کی بدولت ہمیں رزق ملتا ہے ، جان پہچان ملتی ہے ، نئے مواقع ملتے ہیں،عزت ملتی ہے اور سب سے اہم چیز پیسے ملتے ہیں ،جن سے ضروریات پوری کی جاتی ہیں ۔اگر یہ ایک نعمت اللہ ہم سے واپس لے لے تو سوچ لیں اس کے بعد ہماری زندگی کیسے ہوگی؟
اختیار
ہم اپنی مرضی سے اپنے ہاتھ پاؤں کا استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس اختیار ہے۔جن لوگوں کے ہاتھ پاؤں نہیں ہیں یاموجود تو ہیں مگر مفلوج ہیں توسوچیں کہ وہ کس قدر بے بس اوردوسروں کے محتاج ہیں ۔ اختیار اگر ایک انگلی ہلانے کا بھی ہے تو یہ اللہ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے۔
انرجی
رزق کی ایک اور تعریف بھی ہے جس کو انرجی(توانائی) کہا جاتاہے۔انرجی ہی اصل میں رزق ہے جس کی بدولت انسان ہنر اور صلاحیت حاصل کرتاہے اور اس ہنر سے وہ شہرت ، دولت ،عزت اور لامحدود نعمتیں حاصل کرتاہے۔
اللہ کے نظام میں رزق کو محدود سوچنے والا خسارے میں ہے،کیونکہ رزق محدود ہو ہی نہیں سکتا۔اگرلوگوں کا یہ تاثر ہے کہ آپ ایک شریف النفس انسان ہیں تو یہ آ پ کے لیے بہت بڑا رزق ہے کہ اسی نیک نامی کے بدلے میں آپ معاشرے میں خوش حال زندگی بسرکرتے ہیں ۔انسان جب رزق کو اتنے سارے حوالوں سے سوچتا ہے تو پھرشکر کے احساس سے بھر جاتاہے اور اس کے ساتھ اس کی امید بھی بڑھ جاتی ہے۔انسان کی زندگی کا کچھ بھی سیکھا ہوا ضائع نہیں جاتا۔وہ اپنے مقررہ وقت پر کسی نہ کسی شکل میں منتقل ہوکر اس کو فائدہ ضرور دیتاہے۔محدود سوچ کا مالک انسان ہر چیز کو پیسوں کے ترازو میں تولتا ہے اور کہتا ہے ’’یہ چیز پیسے میں منتقل نہیں ہوئی۔‘‘ حالانکہ ہر چیز پیسے میں منتقل نہیں ہوتی بلکہ وہ عزت ، خوشحالی ، صحت اور اچھے دوستوں کی صورت میں بھی آسکتی ہے۔
آپ کا ہنر رزق میں منتقل ہوتا ہے ، محترم اشفاق احمد اور بانو آپا کی زندگی سے اس کی بہترین مثال ملتی ہے جب ان کوگھر یلو اشیاء کی ضرورت

ہوتی وہ کوئی اچھی تحریر لکھ لیتے ، اس کے بدلے میں پیسے ملتے اور گھرکے لیے فرنیچر اور صوفے بھی آجاتے۔انسان کا ہنر ہی اس کے لیے عزت ، پیسہ اور روٹی کا سبب بنتاہے ۔ انسان کو ہمیشہ اپنے پیشے میں عزت داررہناچاہیے۔آپ جس بھی پیشے سے منسلک ہیں آپ اس میں اس قدر بااعتماد ہوں کہ لوگ آپ کے بارے میں یہ رائے دیں کہ’’ یہ بندہ کسی کا نقصان نہیں کرسکتا، یہ وعدیٰ کرتا ہے تو پورا کرتاہے ۔اس نے اس پیشے میں آکر اس کو مضبوط کیا ہے۔یہ موقع آنے پراپنا نقصان کروالیتا ہے مگر دوسرے کا نہیں ہونے دیتااور یہ ہمیشہ دوسروں کو فائدہ دیتا ہے۔‘‘اس پیشے کے کسی مستردشخص نے بھی اگر آپ کے بارے میں یہ کہہ دیا تو یہ آپ کے سند کے لیے کافی ہے ، کیونکہ بے ضرر سے منفعت بخش تک کے سفر کا نام درویشی ہے۔
جب آپ کے بارے میں یہ رائے بن گئی تو سمجھ لیں کہ آپ کا مسئلہ حل ہوگیا۔ اخلاقیات کی انتہاء بھی یہ ہے کہ انسان عزت دار ہو اور وہ دوسروں کے لیے بہترین چیز کا انتخاب کرے۔ ایک بات یاد رکھیں کہ جس انسان پر زوال آتاہے تو سب سے پہلے اس کی یہ چیزیں ختم ہوجاتی ہیں ۔آپ کبھی زوال پذیر لوگوں، خاندانوں اور کمپنیوں پر تحقیق کریں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کے زوال کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ ان کی اچھائی اور برائی کے درمیان پہچان ختم ہوگئی تھی۔انسان جب ایمان کی دولت سے نوازا جاتاہے تو دراصل یہ وہ ’’تمیزاور پہچان ‘‘ ہوتی ہے جس کی بدولت مومن ایمان و کفر میں فرق کرکے گمراہی سے بچتاہے۔شراب پینے سے اسی لیے منع کیا گیا ہے کہ یہ قوتِ فیصلہ کو ختم کردیتا ہے اورپھر انسان اچھائی اور برائی میں تمیز نہیں کرسکتا ۔
اگر ہم سفید کاغذ پر ایک سیاہ دھبہ لگالیں اور پھر اس کی سو عدد فوٹو کاپیا ں نکلوائیں تودھبے کا نشان آخری کاپی تک لگا رہے گا ۔اسی طرح انسان کوئی بھی فعل کرتاہے تووہ اس کے قوتِ فیصلے کو متاثر کرتا ہے ۔ جس کے بعد وہ درست چیزوں کو منتخب نہیں کرسکتا اور یوں ایک غلط فعل کی نحوست اس کے تمام اعمال پر پڑجاتی ہے۔ اسلام میں گناہ سے اسی لیے منع کیا گیا ہے کہ گناہ کے بعد اس کی نحوست کاجوبوجھ اٹھانا پڑتا ہے وہ اس کو نہ اٹھانا پڑے۔ توبہ کی ترغیب کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کا بوجھ ختم ہو اور وہ کوئی بھی پچھتاوا محسوس نہ کرے ۔ اللہ تعالیٰ تو یہاں تک ارشاد فرماتا ہے کہ اگر سچی توبہ کرلو تو ایسے ہوجاؤ گے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے نکلے ہو ۔
رزق بڑھانے کے کئی سارے نسخے ہیں مگر اہم ترین نسخہ یہ ہے کہ انسان اپنی قابلیت اور ساکھ کو ہمیشہ برقرار رکھے ۔قابلیت کی بات آجائے تو لوگوں کی رائے ہو کہ یہ بندہ اپنی فیلڈ میں سب سے زیادہ قابل یا قابل ترین افراد کی لسٹ میں ہے۔ ساکھ کی بات آئے تو تمام لوگ کہیں کہ ’’کچھ بھی ہوجائے یہ بندہ اپنی ساکھ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔‘‘ہم میں سے بیشتر لوگ اس وجہ سے اپنا رزق محدود کرلیتے ہیں کہ وہ اپنی ساکھ اور عزت خراب کرلیتے ہیں ، ان کا اعتبار ختم ہوتاہے اورجب اعتبار ختم ہوجاتا ہے تو لوگ بھی دور ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔
جب بھی آپ کی زندگی میں عزت ، ہنر ، صحت ، اولاد اور اختیار بڑھے گا تو پھر اس کے پیچھے پیسہ خود بخود آئے گا۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم لوگ براہ راست پیسے کے پیچھے بھاگتے ہیں حالانکہ بھاگنا ان چیزوں کے پیچھے چاہیے تھا جو اصلی رزق ہیں۔پیسہ مکمل رزق نہیں ہے، انسان اگر اس کی پرواہ ختم کرلے تو اس کے بہت سارے مسائل ختم ہوجاتے ہیں ۔پیسے کابالکل نہ ہونا انسان کو فقیربنادیتا ہے اوربہت زیادہ ہونا دل میں مزید ہوس پیدا کردیتا ہے،جس سے انسان اللہ سے غافل ہوجاتاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ زندگی میں پیسہ کتنا ہونا چاہیے ؟ اس کے کئی سارے جوابات ہیں:
(۱) آپ کے پاس زندگی میں پیسہ اتنے مقدار میں ہو کہ مزیدپیسے کی تمنا نہ رہے یعنی جو ہے، جتنا ہے اس پر راضی رہا جائے ۔
(۲) آپ کے پاس اتنی کشادگی ہو کہ دوسرے کو دیتے ہوئے تنگی محسوس نہ ہو۔اگر کسی کو دیتے ہوئے آپ کا دل تنگ ہورہاہو تو سمجھ لینا کہ ابھی بھی پیسے کی ہوس موجود ہے ۔(۳)اتنا مال ہو کہ آپ کے لیے چھوڑ کر جانا آسان ہو۔انسان مررہا ہو اور اس کو یہ سوچ بھی ہلکان کررہا ہو کہ جس دولت کو میں نے ایک ایک پائی جوڑ کر جمع کیا ہے اور ابھی انجوائے بھی نہیں کیا ، اس کو ساتھ لے کرکیسے جاؤں تو یقین جانیں اس کے مرنے کی تکلیف مزید شدت اختیار کرجائے گی۔اگر مرض الموت میں انسان کو ایسے خیالات آئیں توسوچیں کہ یہ دولت کس قدر خطرناک چیز ہے جس نے اس حالت میں بھی انسان کوانتہائی حسرت والے احساسات دیے۔اسی غم وفکر میں کئی سارے کروڑ پتی لوگ کلمہ تک نہ پڑھ سکے۔
اگر کسی کمرے میں بیٹھے ہوئے کئی سارے لوگوں کو اچانک وہاں سے نکلنا پڑے تو ان میں سے وہی آسانی کے ساتھ نکل سکے گا جو بالکل خالی ہاتھ ہو اور جس نے اپنے ساتھ میز ، کرسی اور بیگ لے کرجانا ہو تو اس کے لیے نکلنا مشکل ہوگا۔دنیا کو مومن کے لیے قیدخانہ اسی لیے قرار دیا گیا ہے کہ یہاں سے نکلنا آسان ہو۔انسان کے لیے سب سے بڑ

ا عذاب یہ ہے کہ اس کے دل میں دنیا میں ہمیشہ رہ جانے کی تمنا پیدا ہوجائے۔
آپ کے پاس پندرہ ارب روپے ہے ، پندرہ لاکھ یا پندرہ ہزار ،بس ایک چیز نہیں ہونی چاہیے جس کو لالچ کہاجاتاہے۔کیونکہ لالچ جب بھی آتی ہے تو انسان ظلم کرتا ہے ۔وہ اپنی دولت کو ضرب دینا چاہتا ہے اور ممکن ہے کہ اس اندھے پن میں وہ دوسرے انسان کا گلہ ہی کاٹ دے۔شراب کے نشے میں انسان اپنے بھائی کا گریبان پکڑلیتا ہے مگر لالچ کے نشے میں وہ اس کو قتل بھی کرسکتا ہے۔آپ تاریخ اٹھاکر دیکھیں کتنے بادشاہ اور راجے ایسے گزرے ہیں جنہوں نے لالچ میں آکر اپنے ہی بھائی اور والد کو قتل کرڈالا،لہٰذاانسان کو لالچ سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔
نیک تمنائیں و دعائیں
کسی دوسرے انسان کا آپ کے لیے دعا کرنا،رزق کی اقسام میں بہترین قسم ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو انسان کی تمام مشکل راہیں کھول دیتا ہے ۔دُور کے سفر پر جانے کے لیے کسی سے دعا ضرور لیجیے گا ،کیا پتہ آپ کے سفر کے دشوار گزار اور کٹھن مراحل، کسی کی دعاؤں کے طفیل آسان ہوجائیں اور ۔۔۔آپ خیر و عافیت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔

ان کا نام حبیب بن مالک تھا، اور وہ یمن کے بہت بڑے سردار تھے، ابوجہل نے پیغام بھیجا کہ حبیب محمد (ﷺ) نے فلاں تاریخ کو چان...
16/08/2020

ان کا نام حبیب بن مالک تھا، اور وہ یمن کے بہت بڑے سردار تھے، ابوجہل نے پیغام بھیجا کہ حبیب محمد (ﷺ) نے فلاں تاریخ کو چاند کے دو ٹکڑے کرنے ہیں۔ تم یہاں آ جاؤ، اور چاند کو دیکھنا کہ وہ دو ٹوٹے ہوتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ حبیب بن مالک نے رخت سفر باندھا اور کوہ ابو قیس پر پہنچ گئے، جہاں کفار نے مطالبہ کر دیا تھا کہ آسمانی معجزہ یہاں دکھاؤ یا چاند کو دو ٹکڑے کرو ...

میرے آقا حضرت محمّد مصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لائے، چاند کو دو ٹکڑے کیا، اور واپس تشریف لے گئے۔ خصایص الکبری میں موجود ہے کہ ڈیڑھ گھنٹہ تک چاند دو ٹکڑے رہا ...

حیبیب بن مالک یہ دیکھ کر حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس تشریف لے آئے اور بولے :
"یہ سب ٹھیک ہے لیکن بتائیں میرے دل کو کیا دکھ ہے ...؟"

آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا :
" تیری ایک ہی بیٹی ہے، جس کا نام سطیحہ ہے، وہ اندھی، لولی، لنگڑی، بہری اور گونگی ہے۔ تجھے اسکا دکھ اندر سے کھائے جا رہا ہے۔ جاؤ اللہ تعالی نے اس کو شفاء دے دی ہے ..."

حبیب یہ سنتے ہی دوڑ کر اپنے گھر آئے تو انکی بیٹی سطیحہ نے کلمہ پڑھتے دروازہ کھولا، حبیب نے پوچھا کہ :

" سطیحہ_تجھے_یہ_کلمہ_کس_نے_سکھایا ...؟ "

تو اس نے حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سارا حلیہ بتایا اور بولی :
" اے ابا وہ آئے، مجھے زیارت بخشی اور دعا فرمائی، اور مجھے کلمہ طیبہ بھی پڑھا گئے ... "

حبیب واپس گئے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے، اور نہ صرف مسلمان ہوئے، بلکہ اسلام کی خدمت میں بھی پیش پیش رہے ...

( ،بحوالہ معجزات مصطفےصلو علی الحبیب صلی اللہ تعالی علی محمدﷺ )

حضور اکرمﷺ کا معجزہ اور ابوجہل کی بے بسیاراش کی بستی سے ایک شخص اونٹ لے کرمکہ آیا۔ ابوجہل نے اس سے اونٹ خرید لئے، پھر قی...
11/08/2020

حضور اکرمﷺ کا معجزہ اور ابوجہل کی بے بسی

اراش کی بستی سے ایک شخص اونٹ لے کرمکہ آیا۔ ابوجہل نے اس سے اونٹ خرید لئے، پھر قیمت ادا کرنے سے انکاری ہوگیا۔ اراشی مایوس ہوکر قریش کی مجلس میں آیا اور ان سے مدد مانگی۔ اس نے کہا:” قریش کے لوگو! مَیں ایک اجنبی مسافر ہوں اور ابوالحکم بن ہشام نے میرا حق مار لیا ہے، کون سا شخص مجھے میرا حق دلائے گا“؟ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔
اہل مجلس سبھی منکرین حق تھے۔ انہیں شرارت سوجھی تو انہوں نے اراشی سے کہا: ”کیا تم دیکھ رہے ہو، وہ شخص جو کونے میں بیٹھا ہے، وہی تمہارا حق دلا سکتا ہے“۔ دراصل سردارانِ قریش جانتے تھے کہ ابوجہل حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت عداوت رکھتا ہے۔ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سبکی چاہتے تھے اور مسافر سے مذاق کررہے تھے۔ اراشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا اور جا کر کہا: ”اے اللہ کے بندے!
ابوجہل نے میرا حق مار لیا ہے اور میں اجنبی ہوں۔ ان لوگوں سے میں نے پوچھا کہ کون مجھے میرا حق دلا سکتا ہے تو انہوں نے آپ کی طرف اشارہ کیا۔ پس آپ میرا حق دلادیں، اللہ آپ پر رحم کرے“۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اُسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ چل دئیے۔ قریش کے لوگوں نے دیکھا تو اپنے میں سے ایک شخص سے کہا: ”اے فلاں ان کے پیچھے جا اور دیکھ کر آ کیا تماشا بنتا ہے“؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجنبی کو ساتھ لئے ابوجہل کے دروازے پر پہنچے اور دستک دی۔
اس نے پوچھا: ”کون ہے“؟ فرمایا: ”مَیں محمد ہوں، ذرا باہر نکلو“۔ ابوجہل باہر نکلا تو اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس کے جسم میں روح نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اس شخص کا حق ادا کردو“۔

ابوجہل نے کہا: ”بہت اچھا! میں اس کا حق ابھی ادا کرتا ہوں۔“ گھر کے اندر داخل ہوا، رقم لے کر آیا اور اراشی کے ہاتھ پر رکھ دی۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اراشی سے فرمایا:
”اچھا بھائی خدا حافظ“ اور آپ چل دئیے۔ اراشی قریش کی مجلس کے پاس سے گزرا اور ان سے کہا: ”اللہ تعالیٰ اسے جزائے خیر عطا فرمائے، خدا کی قسم! وہ بڑا عظیم آدمی ہے، اس نے مجھے میرا حق دلا دیا“۔
جس شخص کو قریش کے لوگوں نے تماشا دیکھنے کے لئے بھیجا تھا، اس سے انہوں نے کہا: ”تیرا ستیاناس ہو، تُو نے کیا دیکھا“؟
اس نے کہا: ”میں نے عجیب ترین معاملہ دیکھا۔ خدا کی قسم جونہی محمد نے اس کے دروازے پر دستک دی اور وہ باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ اس کے جسم میں گویا جان ہی نہیں۔ محمد نے اس سے کہا کہ اس شخص کو اس کا حق ادا کردو تو بغیر حیل وحجت کے اس نے اس کا حق ادا کردیا“۔

تھوڑی دیر بعد ابوجہل مجلس میں آ پہنچا تو لوگوں نے اس سے کہا: ”تیری تباہی ہوجائے، تجھے کیا ہوگیا تھا؟ خدا کی قسم تو نے جو حرکت کی اس کی تو ہمیں کبھی توقع ہی نہیں تھی“۔ ان کی باتیں سن کر ابوجہل نے کہا: ”تمہاری بربادی ہو جائے،
خدا کی قسم! جونہی محمد بن عبداللہ نے میرے دروازے پر دستک دی اور مَیں نے اس کی آواز سنی تو میرے اوپر رعب طاری ہوگیا۔پھر مَیں دروازہ کھول کر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے سر کے اوپر فضا میں ایک سانڈ اونٹ معلق ہے۔ اس اونٹ جیسی کوہان، گردن اور دانت ،مَیں نے کبھی کسی اونٹ کے نہیں دیکھے۔ خدا کی قسم مجھے یوں محسوس ہو اکہ اگر مَیں نے انکار کیا تو وہ اونٹ مجھے کھا جائے گا۔“❤️
(البدایة والنھایة، جلد سوم، 45)

03/08/2020

" #خان" لفظ کی حقیقی تاریخ:
خان کا لفظ موجودہ زمانے میں اکثر مشرقی ممالک مثلا افغانستان , پاکستان, وسطی ایشیا, ایران, ہندوستان اور ترکی میں بکثرت استعمال ہوتا ہے. اس لفظ کے بارے میں مختلف علماء اور مورخین نے بہت کچھ لکھا ہے اور اپنی رائے پیش کی ہے جن میں سے چند ایک کا ہم یہاں زکر کیے دیتے ہیں:

نفسینی ڈکشنری کے مولف لکھتے ہیں کہ
" خان ترک زبان کا لفظ ہے ترکستان و تاتارستان کے بادشاہوں کا لقب ہے جس کے معانی امیر, رئیس اور بیگ کے ہیں

نور اللغات میں خان لفظ کی یہ تعریف بیان ہوئی ہے
" یہ لفظ قدیم ایام میں ترکستان کے بادشاہوں کا لقب تھا لیکن موجودہ زمانے میں امراء و رووساء کے مابین مشہور ہے."

امریکی دائرہ المعارف کے مطابق:
" خان ابتدائی ادوار میں ترکستان میں کاروان یا قافلے کے سربراہ کو کہتے تھے. بعدا یہ لفظ مشرقی ایشیائی ممالک کے سربراہان کے لیے مستعمل رہا."

خان صد فیصد ترکوں کا لقب ہے, اگر ہم تاریخ پر غور کریں تو خان کا لفظ اولین دفعہ ترک بن یافث کی پانچھویں پشت پر "باقوی خان" کے نام میں ملتا ہے جس کے بعد ان کی اولادیں اپنے نام کے ساتھ خان لگاتی رہیں مثلا النجہ خان, اوغوز خان, قرا خان وغیرہ. ترکوں کے علاوہ تاریخ میں کسی دوسری قوم کے ساتھ خان لفظ کے استعمال کے شواہد نہیں ملتے. یہ لفظ ترکوں کے ساتھ آسیائے میانہ سے نکل کے مفتوح شدہ علاقوں میں پھیلا.
پانچھویں صدی ہجری میں لکھے گئے کتبوں میں ہمیں قاآن یا خان کے الفاظ ملتے تھے , اسی طرح قاغان فوج میں ایک بلند رتبے کا نام تھا
خان کا لفظ کئی درجات پر مشتمل ہے.
قاآن
خاقان
کاغان
خان خانان
خان
چنگیز خان تاریخ میں پہلا فاتح تھا جس نے اپنے نام کے ساتھ قاآن کا لقب لگایا جو کہ عظیم ترین رتبے کی نشانی ہے. بعد میں آنے والے خوانین نے بھی اپنے ساتھ قاآن اور خاقان برقرار رکھا. تیموری زمانے میں بھی خان لفظ ایک پرافتخار لقب تھا جبکہ ایران کی صفوی سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کے سلاطین بھی اپنے نام کے ساتھ خان لگاتے تھے.
ہندوستان میں بھی خان کا لفظ ظہیر الدین بابر کے ساتھ آیا جس کی قائم کردہ حکومت میں بھی خان کا لفظ عزت کی نشانی تھا اور فوج کے سپہ سالار, وزراء یا شاہی خاندان کے لیے مخصوص تھا.
ہمایوں کے سپہ سالار بیرم خان ترکمن کو خان کا درجہ دیا گیا تھا. وزیر ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمایون کی وفات کے بعد کم سن اکبر کے اطالیق ہونے کے ساتھ ساتھ سلطنت مغلیہ کو بھی استحکام بخشا , انکی خدمات کی بدولت انہیں اکبر اپنا والد مانتا تھا اور پیار سے "خان بابا" کہہ کر مخاطب کرتا تھا . بیرم خان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے "عبدالرحیم خان خاناں" کو وزارت دی گئی اور رتبے سے نوازا گیا.
مگر افسوس کی بات کے کہ خان کا لفظ موجودہ زمانے میں ترک قوم اپنا خاندانی لقب فراموش کر کے غیروں کے القاب استعمال کر رہی ہیں اور ہمارے القاب دوسری اقوام کے ہاں رائج ہوگیا ہے. ہر گلی میں, ہر شہر, ہر صوبے ہر دکان ہر کارڈ پر آپ کو خان لکھا نظر آتا ہے لیکن وہ ترک نہیں ہوتے. پشتون و پٹھان قوم نے تو خصوصا اسے اپنی پہچان کا زریعہ بنا لیا ہے. پشتون تاریخ میں سو ڈیڑھ سو سال پہلے کے افغانی بادشاہوں نے اس کو نام کا حصہ بنایا. اس کے قبل کہیں بھی افغانوں میں خان کا لفظ نہیں ملتا جبکہ ترکوں میں یہ حضرت نوح ع کی ساتویں پشت سے جاری ہے.
ان خانوں کے بارے میں افغانستان کے ترکمن شاعر عبدالمجید توران لکھتے ہیں

"خان لر گدا بولدی, گدا لر خانخانان
کج فلک نینگ کج لیگیندان دیستیندان
ملت فقیر دوشدی ظالم غولیندان
نادان لر خان بولدی , دانا لر زبون"

ترجمہ (جو خان تھے وہ گدا ہو گئے اور گدا بن گئے خان خانان
کچھ اپنی غلطیاں تھیں کچھ قسمت کا کھیل ہے
ملت فقیر ہوگئی ایسے ظالموں کے ہاتھوں
جب سے عقلمند گم ہوگئے اور نادان خان بن گئے)
تحقیق : از قلم رحمت اللہ ترکمن

03/08/2020

❤سلطان احمد سنجر❤
سلطان احمد سنجر سلجوقی ترک سلطنت کا عظمت و شان والا بادشاہ تھا ملک شاہ سلجوقی کا تیسرا بیٹا تھا اس کی حکومت خراسان، غزنہ،خوارزم اور ماوراءالنہر تک پھیلی ہوئی تھی اس کا نام کظبہ مین ایران آرمینیا،آذر بائیجان، موصل، دیار ربیعہ، دیار بکر اور حرمین تک پڑھا جاتا تھا،1092ء میں خراسان پر قابض ہوا اس کے بعد فارس کا بادشاہ بھی تسلیم کیا گیا،سلطان سنجر نے غزنوی خاندان کے بادشاہ بہرام شاہ کو خراج گزار بنا لیا علاؤالدین بادشاہ غور نے بہرام شاہ کو شکست دی اور غزنی لے لیا۔ اور یہی علاؤالدین بھی سلطان سنجر کا مطیع ہوا سلطان سنجر کو عالم اسلام میں بہت بلند مرتبہ حاصل ہوا اسے ’’سلطان اعظم‘‘ کا لقب دیا گیا اس کی شان و شوکت اور عظمت و سطوت ضرب المثل تھی 1157ء میں سلطان سنجر کا انتقال ہوا جس کے ساتھ ہی سلجوقی خاندان کا خاتمہ ہو گیا سلطان سنجر مرو میں مدفون ہے۔
🌷اقبال اور سنجر🌷
علامہ اقبال نے سلطان سنجر کی عظمت و شان کو سراہا ہے۔
شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود!
فقر جنیدؔ و بایزیدؔ تیرا جمال بے نقاب!
جب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں شکوہ سنجر و فقر جنید و بسطامی-

قطب الدین ایبک شکار کھیل رہے تھے، تیر چلایا اور جب شکار کے نزدیک گئے، دیکھا تو ایک نوجوان ان تیر سے گھائل گر پڑا تڑپ رہا...
31/07/2020

قطب الدین ایبک شکار کھیل رہے تھے، تیر چلایا اور جب شکار کے نزدیک گئے، دیکھا تو ایک نوجوان ان تیر سے گھائل گر پڑا تڑپ رہا ہے...کچھ ہی پل میں اس گھائل نوجوان کی موت ہوجاتی ہے پتہ کرنے پر ‏معلوم ہوا کہ وہ پاس کے ہی ایک گاؤں میں رہنے والی بزرگ کا اکلوتا سہارا تھا.
اور جنگل سے لکڑیاں چن کر بیچتا اور جو ملتا اسی سے اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ بھرتا تھا قطب الدین اسکی ماں کے پاس گیا اور بتایا کہ اس کی تیر سے غلطی سے اس کے
‏بیٹے کی موت ہوگئی ماں روتے روتے بے ہوش ہوگئی.
پھر قطب الدین نے خود کو قاضی کے حوالے کیا اور اپنا جرم بتاتے ہوئے اپنے خلاف مقدمہ چلانے کی آزادی دی قاضی نے مقدمہ شروع کیا بوڑھی ماں کو عدالت میں بلایا اور کہا کہ تم جو سزا کہو گی ‏وہی سزا اس مجرم کو دی جائے گی.
بوڑھی عورت نے کہا کہ ایسا بادشاہ پھر کہاں ملے گا جو اپنی ہی سلطنت میں اپنے ہی خلاف مقدمہ چلائےاس غلطی کے لئے جو اس نے جان بوجھ کر نہیں کی.... آج سے قطب الدین ہی میرا بیٹا ہے اور میں اسے معاف کرتی ہوں.
‏قاضی نے قطب الدین کو بری کیا اور کہا اگر تم نے عدالت میں ذرا بھی اپنی بادشاہت دکھائی ہوتی تو میں اس بڑھیا کے حوالے نہ کرکے خود ہی سخت سزا دیتا.
اس پر قطب الدین نے اپنی کمر سے خنجر نکال کر قاضی کو دکھاتے ہوئے کہا اگر تم نے ‏مجھ سے مجرم کی طرح رویہ نہ اپنایا ہوتا تو اور میری بادشاہت کا خیال کیا ہوتا تومیں تمہیں اسی خنجر سے موت کے گھاٹ اتار دیتا یہ ہے اصل حکمرانی بادشاہت و انصاف.اور یہی ہے اسلام کی تعلیمات.

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hw_urdu posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share