Urdu Font Stories

  • Home
  • Urdu Font Stories

Urdu Font Stories اردو فونٹ کی تمام کہانیاں اس پیج پر اپلوڈکی جائیں گی ،

Today's best photo ❤❤❤❤❤❤Follow me ❤❤❤❤❤❤❤❤
10/06/2023

Today's best photo ❤❤❤❤❤❤
Follow me
❤❤❤❤❤❤❤❤







Today,s best photo❤💞💞💞💞💞💞💞💞💚💚💚💚💚💚💞💞💞💞💞💞💞 #𝐓𝗼𝐝𝐚𝐲𝐢𝗺𝐩𝗼𝐫𝐭𝐚𝐧𝐭𝐩𝗼𝐬𝐭
10/06/2023

Today,s best photo❤
💞💞💞💞💞💞💞💞
💚💚💚💚💚💚💞💞💞💞💞💞💞
#𝐓𝗼𝐝𝐚𝐲𝐢𝗺𝐩𝗼𝐫𝐭𝐚𝐧𝐭𝐩𝗼𝐬𝐭




04/05/2023

خواہشات کی چاہ میں ہم جان کی بازی ہارے
یار ارحم پلیز مجھے ان بلاک کرو۔۔۔یار مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو میں ہاتھ جوڑ کے تم سے معافی مانگتی ہوں۔۔۔پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ یار۔۔۔یار تیرے پاس بہت لوگ ہیں۔۔۔۔پر میرے پاس صرف تو ہے واپس آجا یار۔۔۔الف نے ارحم کو بیس میسج کردئیے۔۔بیس میسج کے بعد رسپانس آیا تو محض اتنا۔۔۔ مجھے بار بار میسج کر کے پریشان نہیں کرو۔۔تمہیں ایک بات سمجھ کیوں نہیں آتی الف۔
۔مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔
یار تو ایسا تو نہیں تھا۔۔۔تجھے کیا ہوگیا ہے الف ایک چھوٹے بچے کی مانند رونے لگی۔۔الف کو یاد آرہا تھا۔۔۔کیسے وہ اس کی خاطر پوری دنیا سے لڑ لیتی تھی۔ارحم الف کے لئے سب کچھ تھا۔۔۔۔خدا کی طرف سے دیا ہوا سب سے قیمتی تحفہ سمجھتی تھی۔۔۔۔الف اور ارحم کی دوستی کے چرچے ہر طرف تھے۔

۔۔مگر ناجانے کس کی بری نظر کھاگئی۔

۔سب ختم ہوگیا۔۔۔الف کے پاس واٹس ایپ پے ماہی کا میسج آیا۔الف ارحم کہ رہا ہے پلیز خدا کا واسطہ ہے میرا خیال رکھنا بند کردو۔۔ ماہی کے اس میسج سے الف کو بہت اذیت ہوئی۔۔۔الف کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔ماہی ارحم کو کہنا۔۔الف کہ رہی تھی میں مرگئی ہوں تمہارے لئے۔۔۔الف نے اپنے آنسو بے دردی سے صاف کئے۔۔۔۔۔
ارحم تم تو کہتے تھے۔۔الف تم میرے ہنسنے کی وجہ ہو۔
۔تم مجھے چھوڑ کے کبھی مت جانا۔۔ آج تمہیں کیا ہوگیا ہے تم کیوں چلے گئے مجھے چھوڑ کے۔۔۔تمہیں مجھے چھوڑتے وقت مجھ پہ ترس نہیں آیا۔۔میں نے ہاتھ جوڑے تمہارے آگے۔۔۔مگر تم چلے گئے۔۔میں نے تم سے کہا تھا۔۔جب کبھی مجھ سے بیزار ہوجانا۔۔صرف ایک دفعہ کہہ دینا الف میری زندگی سے چلی جا میں چلی جاتی ہمیشہ کے لئے۔۔لیکن تو نے مجھے بلاک کردیا۔۔۔
کیا میں نے تمہیں اتنا تنگ کرلیا تھا کہ بلاک کرنے کی نوبت آگئی۔۔۔الف روتے روتے سو گئی۔۔۔
وقت گزرتا رہا۔۔۔الف خود کو اذیت دیتی رہی۔۔۔جب جب اس کو لگا اس نے اپنے جان سے پیارے دوست کو اذیت دی ہے تب تب وہ غلط میڈیسن کا استعمال کرتی۔۔وقت گزرتا رہا الف بیمار ہوتی گئی۔۔۔الف شدید بیمار ہوگئی۔۔۔ڈاکٹرز سے معلوم ہوا اس نے غلط میڈیسن کا استعمال کیا ہے۔
۔ڈاکٹر کے مطابق الف کچھ دن اور وہ دوائی کھاتی تو اس کی جان بھی جا سکتی تھی۔۔۔۔الف چاہتی تھی مرنے سے پہلے ایک دفعہ اس کی ارحم سے بات ہوجائے۔۔۔لیکن کبھی وہ سوچتی چلو اچھا ہے ارحم کو اس کے بغیر رہنے کی عادت ہوگئی۔۔اب وہ مرے گی تو ارحم کو تکلیف نہیں ہوگی۔۔۔۔
ایک مہینے کے بعد ارحم۔ کا میسج آیا۔۔۔۔الف یار آئی مس یو۔۔۔الف نے ارحم کا میسج پڑھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
۔۔
ارحم اپنی زندگی کا بیکار سہ قصہ سمجھ کے بھول جاؤ مجھے۔۔۔۔۔
نہیں بھول سکتا تجھے میں۔۔
تو پھر مجھے چھوڑ کے کیوں گئے تھے تم۔۔۔تمہیں پتہ ہے تمہارے بغیر میں نہیں رہ سکتی تبھی چھوڑ گئے تھے نہ مجھے۔۔۔۔۔
اچھا اب آگیا ہوں نہ میں اب نہیں چھوڑ کے جاؤں گا۔۔۔۔
تمہیں پتہ ہے تمہارے بغیر میں ویسے ہی اکیلے ہوگئی تھی جیسے بچپن سے آج تک ہوں۔
۔۔۔
ہممم۔۔۔۔۔جانتا ہوں تبھی تو آیا ہوں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الف خاموش ہوگئی۔۔۔۔کیوں کے وہ جانتی تھی۔۔۔اس کے زیادہ بولنے کی وجہ سے ہی ارحم اس کو چھوڑ کے گیا تھا۔۔۔۔الف اپنے دل کی ہر بات بغیر کچھ سوچے سمجھے کہ دیتی تھی۔۔۔۔اس لئے وہ خاموش ہوگئی۔۔۔۔الف ایک بار ارحم کو کھو چکی تھی۔۔۔۔وہ نہیں چاہتی تھی اپنی بے وقوفیوں کی وجہ سے اس کا یار پھر سے اس سے دور چلا جائے۔
۔۔۔الف نے خود سے میسج کرنا چھوڑ دیا تھا۔لیکن اس کو ارحم کے میسج کا انتظار رہتا تھا۔۔۔جب ارحم فری ہوتا تو میسج کردیتا تھا۔۔۔۔الف صرف اس میسج کا جواب دیتی۔۔۔۔وہ بات کرنا۔ چاہتی تھی۔۔۔ہنسی مذاق کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔مگر نا جانے کیوں چھین جانے کا خوف ہوتا تھا۔۔۔الف کو لگتا تھا وہ مذاق کرے گی زیادہ باتیں کرے گی تو ارحم پھر سے اس سے دور چلا جائے گا۔۔۔
اگلی قسط اپکی ڈیمانڈ پر اپلوڈ کردونگی

04/05/2023

کہانی زیرک زن

بڑے تاجروں اور ٹرانسپورٹروں نے ٹیکس میں اضافے کے خلاف پہیہ جام ہڑتال کر رکھی تھی۔ جب ضرار نے سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر دیکھی تو اپنی کار لے کر ” میاں جی“ کے ڈیرے کی طرف نکل پڑا۔ وہ ڈیرے کے صحن میں داخل ہوا ہمیشہ کی طرح ملنگ اُسے برگد کے پیڑ کے نیچے بیٹھا ہوا نظر نہیں آیا، اُس نے ارد گرد دیکھا۔ لنگر خانے کی باہر سے کنڈی لگی ہوئی تھی۔
خادموں کے دونوں حجروں کے دروازے بھی بند تھے۔ ملنگ کبوتروں والے کھڈے کے پاس آلتی پالتی مار کر دانہ چنتے ہوئے کبوتروں کی موبائل کے ساتھ ویڈیو بنا رہا تھا۔
ضرار کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آ ٹپکی۔ ضرار نے اپنے سامنے میاں جی کے حجرے کی طرف دیکھا جس کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ حجرے کی طرف چل دیا۔
داخل ہوتے ہی با آوازِ بلند سلام کیا۔

میاں جی اور ایک بھاری بھرکم شخص نے سلام کا جواب دیا۔ اُس شخص کے ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون خاموش رہی۔
میاں جی نے ضرار کو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
”میاں جی ! ہم اپنی مرضی سے دے رہے ہیں۔“ سونے میں لدی پھدی خاتون نے خاکی لفافے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، جو اُس کے شوہر نے میاں جی کی طرف کر رکھا تھا۔ میاں جی نے شوہر کی طرف دیکھا پھر لفافہ پکڑ کر اپنے درمیان پڑی ہوئی دراز والی چھوٹی سی میز پر رکھتے ہوئے بڑی شائستگی سے سمجھانے لگے :
”ہماری مرضی …؟ بی بی ! ہماری مرضی بھی تو اُس کی طاقت کی محتاج ہے۔

”ہم سمجھے نہیں ! “ شوہر نے خاتون کو ایک نظر دیکھنے کے بعد میاں جی سے کہا۔ میاں جی اپنی نشست سے اُٹھتے ہوئے بولے :
”ظہر کا وقت ہو گیا ہے۔“ میاں جی کے اُٹھتے ہی وہ تینوں بھی کھڑے ہو گئے۔
”بہشت میں رہنے والے “ تم بیٹھو میں نماز پڑھ کر آتا ہوں“
میاں جی نے ضرار کو حجرے میں رُکنے کی اجازت دے دی۔
یہ بات اُن دونوں کے لیے جانے کا اشارہ تھی۔
میاں جی اپنے ڈیرے کے پاس والی مسجد میں تشریف لے گئے۔ اُن کے جانے کے بعد شوہر نے خاکی لفافے کی طرف دیکھا۔ جو اُس کے نزدیک بہت خاص، جبکہ میاں جی کے نزدیک بہت سارے تصویر والے اعلیٰ کاغذ ایک عام سے خاکی لفافے کا لباس اُوڑھے ہوئے تھے۔
”اس لفافے میں پورے دو لاکھ ہیں۔ میاں جی کے آنے تک ان پیسوں کا خیال رکھنا۔“ شوہر نے ضرار سے کہا۔
”مجھے کینسر ہو گیا تھا … میاں جی کے دموں سے آرام ملا ہے مجھے ! یہ پیسے میرے کہنے پر ہی چٹھہ صاحب نے میاں جی کو دیے ہیں۔
“ خاتون نے کندھے اُچکاتے ہوئے ضرار کی طرف دیکھ کر شوخی ماری۔ ضرار نے اُن کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ دونوں وہاں سے چلے گئے۔
جب وہ دونوں ڈیرے سے باہر نکلے تو اُن کی سیاہ Honda Cityکے ساتھ سرخ Audi کھڑی تھی۔
”کپڑوں سے تو اتنا امیر نہیں لگا۔“ خاتون نے اپنے شوہر کی طرف دیکھ کر رائے دی۔
”کسی بڑے بزنس مین کا ڈرائیور ہو گا۔“ شوہر نے اپنی کار کا دروازہ کھولتے ہوئے حتمی انداز میں بتایا۔
اگلی قسط پوسٹ کروں یا نہیں کمنٹ میں بتا دیں

04/05/2023

کہانی من کے محلے
”محبت بے درد سا درد ہے۔“ ناول خاتون نے اپنے ہینڈ بیگ سے نکالا ہی تھا۔ اُس خاتون کے ساتھ بیٹھے ہوئے لڑکے کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آٹپکی۔ اُس نے خاتون کی طرف دیکھا جو حجاب میں تھی، ہاتھوں پر اس نے باریک کپڑے کے کالے دستانے چڑھا رکھے تھے۔ چہرے پر نقاب تھا صرف اُس کی سیاہ گہری آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔
خاتون کی نظریں ناول کے پَنّوں پر لفظوں کا تعاقب کر رہی تھیں۔
وہ لڑکا اُٹھا اور واش روم کی طرف چل دیا۔
وہ پچیس سال کا پرکشش لڑکا تھا۔ جس کی رنگت گوری اور قد کاٹھ متوسط تھا۔ روشن پیشانی کے اوپر ہلکا سا محراب تھا جو اکثر لمبے سیاہ بالوں کے نیچے چھپا رہتا تھا۔ کالی سیاہ آنکھوں میں اکثر و بیشتر لالی رہتی۔اُس لڑکے نے واش روم کی طرف جاتے ہوئے بزنس کلاس کے دوسرے مسافروں پر واجبی سی نگاہ ڈالی جن میں سے کافی سارے لنچ کرنے کے بعد نیند کی آ غوش میں تھے ۔

اِس جہاز نے لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ سے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے لیے اُڑان بھری تھی۔
وہ لڑکا واپس آکر اپنی سیٹ پر بیٹھنے لگا تو بیٹھنے سے پہلے اُس نے پھر سے ناول پڑھتی ہوئی خاتون کو بغور دیکھا اُس خاتون کی عمر پینتیس کے آس پاس تھی۔ وہ اپنی دُھن میں مگن ناول پڑھ رہی تھی۔ وہ نوجوان سونا چاہتا تھا پر اُسے ناول پڑھتی ہوئی خاتون کی لائٹ سے اُلجھن ہو رہی تھی۔
پائلٹ نے مسافروں کے آرام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے روٹین میں جلنے والی کافی ساری لائٹس آف کر دی تھیں۔
خاتون نے ناول کے اگلے صفحے کو بڑے سلیقے سے پلٹا لڑکے کی نظر اُس کے ہاتھوں پر تھی جس کا اندازہ خاتون کو ہو چکا تھا۔ لڑکے کی بے چینی بھی اُس نے بھانپ لی تھی۔
”بھائی! آپ کو میری وجہ سے کوئی پریشانی ہے“خاتون نے نفیس آواز کے ساتھ پوچھا تھا۔
خاتون کا لب و لہجہ اور طرزِ تکلم نہایت عمدہ تھا۔
”تھوڑی سی روشنی میں بھی میری نیند اُڑ جاتی ہے“ لڑکے نے سنجیدگی سے اپنی پریشانی بیان کر دی۔ خاتون کے رخسار پر میٹھی مسکراہٹ نمودار ہوئی اُس نے بائیں ہاتھ میں ناول سنبھالا اور دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے لائٹ کا بٹن آف کر دیا۔
”میرے خیال میں تو نیند کا تعلق دل کے سکون سے ہے، دل مطمئن ہو تو کہیں بھی نیند آ جاتی ہے۔
“خاتون نے لائٹ آف کرنے کے بعد نوجوان کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی رائے دی تھی۔
”کسی کے مزاج کا تعلق سکون یا بے سکونی سے نہیں ہوتا۔ میں بڑا مطمئن اور پر سکون ہوں۔“ نوجوان نے بھی خاتون کی طرف بغور دیکھ کر جواب دیا۔خاتون کے ہونٹوں پر نوجوان کی بات سن کر پھر سے ہلکا سا تبسم آیا تھا۔
”بھائی! میں نے آپ کی بات نہیں کی تھی خیر آپ آرام کرو“ خاتون نے سیٹ کی پُشت کے ساتھ ٹیک لگائی اور کھلی آنکھوں سے اوپر دیکھنے لگی۔
ناول اُس نے اپنی گود میں رکھ لیا تھا۔اِس سے پہلے پچھلے چھ گھنٹوں کی مسافت کے دوران اُن دونوں نے تعارفی مسکراہٹ کے ساتھ صرف ”ہائے ہیلو، سلام دعا، تھینکس اور شکریہ ہی ایک دوسرے سے کہا تھا۔
خاتون کی گود میں پڑے ہوئے ناول نے ایک دفعہ پھر سے نوجوان کی توجہ حاصل کر لی تھی۔
”آپ بھی اِس طرح کے ناولز پڑھتی ہیں … ؟“ نوجوان نے سونے کی بجائے سوال پوچھ لیا۔
خاتون اُس کی آواز پر چونکی اور اُس کی طرف دیکھ کر پوچھا :
”کس طرح کے مطلب…؟میں سمجھی نہیں…؟“ اب کی بار خاتون کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔
”ڈائجسٹوں میں قسط وار چھپنے والے ناولز جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا صرف اور صرف وقت کا ضیاع…“ نوجوان نے دو ٹوک خود ہی تبصرہ کر دیا۔
”آپ نہیں پڑھتے ایسے بے مقصد ناولز…؟“خاتون نے سوالیہ نظروں سے پوچھا ہی تھا، نوجوان نے ہلکا سا قہقہہ لگا دیا، وہ اور زور سے ہنستا اگر اُسے دوسرے مسافروں کی نیند کا خیال نہ ہوتا۔
ایک بات تھی وہ دونوں دھیمے سروں میں اپنی بات کر رہے تھے۔
”میں نے تو باذلہ کو بھی سختی سے منع کر دیا ہے خبر دار جو ایسے ناولز پڑھے!“
”باذلہ آپ کی شریک حیات ہے…؟“ خاتون نے ہولے سے پوچھا۔
”میں نے ابھی شادی نہیں کی…“ نوجوان نے خشک لہجے میں جواب دیا۔
”بہن ہے…“ خاتون نے اندازہ لگایا۔ نوجوان نے نفی میں گردن ہلائی اور کہنے لگا:
”بہن تو نہیں ہے۔
ہاں بہن جیسی ضرور ہے“ خاتون نے سُنا تو ہلکا سا مسکرائی پھر سے ٹیک لگائی اور اوپر دیکھنے لگی۔ لڑکے نے حجاب کے باوجود اُس کی دبی دبی مسکراہٹ دیکھ لی تھی۔
”آپ میری بات پر مسکرائی کیوں…؟“ نوجوان نے کچھ خفگی سے پوچھا۔
”گہری نظر ہے آپ کی … پردے کے پیچھے والی مسکراہٹ بھی دیکھ لیتے ہیں۔“
”یہ میرے سوال کا جواب تونہیں ہے !“ لڑکے کے روکھے لہجے پر خاتون نے اُسے دیکھا، پھر سنجیدگی سے کہنے لگی :
”دیکھو بھائی! رشتے جیسا جیسی کی بیساکھیوں کے سہارے نہیں چل سکتے۔
بہن صرف اور صرف بہن ہوتی ہے۔ بہن جیسی نہیں ہوتی۔ ہم اکثر کہتے ہیں یہ میری بہن جیسی ہے۔ وہ خاتون میری ماں جیسی ہے۔ آپ میرے باپ جیسے ہو۔ تم میرے بیٹے جیسے ہو۔ کبھی کوئی مرد یہ نہیں کہتا۔ میں اُس خاتون کو اپنی بیوی جیسا ہی سمجھتا ہوں۔آپ نے کبھی بھی کسی خاتون کے منہ سے یہ نہیں سُنا ہو گا۔ میں اُس مرد کو اپنے شوہر جیسا ہی سمجھتی ہوں۔اب آپ نے طے کرنا ہے باذلہ آپ کی بہن ہے یا نہیں ہے۔
جیسی کو بیچ میں سے نکال دو…“
”ویسے تو میں جلدی ہار نہیں مانتا بہت ضدی ہوں پر آپ کی بات دل کو لگی۔ میں اقرار کرتا ہوں باذلہ میری بہن ہے“ دونوں کے ہونٹوں نے مسکراہٹ کا مزہ لوٹا ۔ وہ لڑکا اِس ساری گفتگو کے دوران پہلی بار مسکرایا تھا۔
”آپ تو فوراً رشتہ بنا لیتی ہیں…آپ کب سے مجھے بھائی کہہ رہی ہیں“
”بھائی! مجھے کہاں آتے ہیں… رشتے بنانا…“ خاتون نے اپنی گود پرپڑے ہوئے ناول پر ایسے ہاتھ پھیرا جیسے وہ کوئی مقدس چیز ہو اُس کی نظر میں۔
اِس کے بعد خاتون نے اپنے پہلو میں پڑے ہوئے ہینڈ بیگ میں وہ ناول رکھ دیا۔ لڑکے نے اِس سارے عمل کو بڑے غور سے دیکھا تو دل کی بات زبان پر لے آیا :
”لگتا ہے آپ کو اِس ناول سے خاص لگاؤ ہے“
”ہوں…“خاتون نے بغیر تامل کے کہا۔
”کوئی خاص وجہ …“
”یہ میری ہی کہانی ہے“ خاتون نے نظریں جھکائے ہی کہہ دیا۔
”باذلہ کی بھی اِس ناول کو پڑھنے کے بعد آپ جیسی ہی رائے تھی ۔
کہنے لگی بھائی یہ ناول پڑھ کر مجھے ایسا لگا جیسے یہ میری ہی کہانی ہو۔ نمل حیدر اُس کی پسندیدہ رائٹر ہے۔ باذلہ کے پاس اِس رائٹر کے سارے ناول موجود ہیں۔“ لڑکا بڑے ذوق و شوق سے باذلہ کی باتیں خاتون کو سُنا رہا تھا۔ حالانکہ وہ چرب زبان بالکل بھی نہیں تھا۔
”نمل حیدر آپ کی بہن باذلہ کی تو پسندیدہ رائٹر ہے اور آپ کی …؟“خاتون نے اشتیاق سے پوچھا۔

”بزنس مین ہوں۔ شعروشاعری اور ادب سے بالکل لگاؤ نہیں ہے…کتابیں پڑھتا ضرور ہوں مگر یہ فضول قسم کی نہیں۔“
”اُردو ادب اور شعر و شاعری کو آپ فضول سمجھتے ہیں“
”یس…ہمارا سارا ادب صرف دو لفظوں کے گرد گھومتا ہے۔ محبت اور عشق“ جہاں تک شاعری کی بات ہے وہ ہجر اور درد کے سہارے چل رہی ہے…دوسرے رائٹرز کی ابھی بات نہیں کرتے آپ نمل حیدر کو ہی لے لیں سارے کے سارے ناول محبت پر ہی لکھ ڈالے…“
خاتون غور سے لڑکے کی باتیں سُن رہی تھی۔

”آپ نمل حیدر کے خلاف ہیں یا محبت کے…؟“ خاتون نے شائستگی سے پوچھا۔
”دونوں کے…محبت ایک ایسا لفظ ہے جس کا سہارا لے کر دنیا میں سب سے زیادہ دھوکا دیا جاتا ہے۔“ لڑکے نے تلخی سے جواب دیا۔ خاتون اُس کے جذباتی پن سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔
”محبت کی مخالفت تو سمجھ آگئی۔ آپ کے بقول محبت دھوکے کا سبب بنتی ہے۔ نمل حیدر کے کیوں خلاف ہو…؟“خاتون نے بڑے مزے سے پوچھا۔

”وہ خیالی کردار تخلیق کرکے محبت کی وکالت کرتی رہتی ہے“ لڑکے نے کسی ضدی بچے کی طرح جواب دیا۔
”نمل حیدر نے صرف وہ کردار تخلیق کیے ہیں جو ہمارے اِرد گرد معاشرے میں موجود ہیں۔ وہ کرداروں کو سوچتی نہیں ہے بلکہ دیکھتی ہے ، جو اُسے دکھائی دیتا ہے وہ ویسے ہی لکھ دیتی ہے۔“ خاتون نے یقینِ کامل سے کہا۔
”آپ تو ایسے بات کر رہی ہیں جیسے آپ نمل حیدر کو جانتی ہیں…”محبت بے درد سا درد ہے۔
“ وہی ناول ہے نا جس میں لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی خاطر جان دے دیتے ہیں۔“
”جی ہاں…!“
”ایمپوسیبل…اُردو میں کیا کہتے ہیں…ہاں یاد آیا عقلِ سلیم اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں…یہ بات میری سمجھ سے تو باہر ہے“ لڑکا جذباتی انداز میں بولا۔
”جو سمجھ میں آجائے وہ بات کہلاتی ہے۔ جو نہ آئے اُسے محبت کہتے ہیں“خاتون نے کسی دانشور کی طرح جواب دیا۔
وہ کچھ توقف کے بعد دوبارہ گویا ہوئی:
”ماں کی ممتا کو آپ کیسے سمجھ سکتے ہیں…؟“ اُس نے عجیب نظروں سے خاتون کی طرف دیکھا اورکچھ دیر دیکھتا رہا پھر ایئر ہوسٹس کو بلانے کے لیے بیل بجائی ایئر ہوسٹس آئی لڑکے نے اُس سے پانی منگوایا۔ وہ پانی لائی لڑکے نے ایک ہی سانس میں سارا پانی ختم کیا تھا۔
”آپ نے جواب نہیں دیا…“خاتون نے سوالیہ نظروں سے لڑکے کی طرف دیکھا۔
وہ گردن جھکائے ہوئے تھا اور اُس کی نظریں مڑگشت کر رہی تھیں۔
”ماں کی ممتا کو چھوڑیں…آپ یہ بتائیں نمل حیدر کو کیسے جانتی ہیں…؟“ لڑکے نے شعوری طور پر بات گول کر دی تھی۔ خاتون نے جانچتی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا اور کچھ سوچ میں پڑ گئی چند لمحوں کے بعد کہنے گی:
”میرا ماننا ہے کہ رائٹر کی تحریریں اُس کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ میں نمل حیدر کو اُس کی تحریروں کے توسط سے جانتی ہوں۔

”معاف کیجئے گا…آپ کی نمل حیدر خود بھی ایک کریکٹر ہی ہیں“لڑکے نے پھر سے اپنی رائے دے دی۔
”وہ کیسے…؟“ خاتون نے عجلت میں پوچھا۔
”دیکھیں نا… سوشل میڈیا کے دور میں اتنی بیک ورڈہے… ٹی وی پر نہیں آتی کوئی تصویر نہیں ہے اُس کی… باذلہ بیچاری گوگل پر سرچ کرتی رہتی ہے۔“
”وہ اُس کی نجی زندگی ہے جیسے چاہے گزارے“
خاتون نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
وہ طنز سے مسکرا دیا۔
”محبت پر لکھنے والی محبت کو نہیں سمجھتی اُسے چاہیے لوگوں سے ملے۔ لوگ اُسے ٹی وی پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُس کی باتیں سننا چاہتے ہیں۔ اُس کے ساتھ تصویریں بنوانا چاہتے ہیں۔ لوگ محبت کرتے ہیں اُس سے۔“
”محبت میں دیکھنے کی شرط نہیں ہوتی … وہ اپنے چاہنے والوں سے جو کہنا چاہتی ہے، اپنے ناولوں میں لکھ دیتی ہے۔ یہ محبت کی ایک الگ اور مختلف صورت ہے۔

”محبت… محبت… مجھے نفرت ہے محبت سے…“ لڑکا دانت پیستے ہوئے بولا۔ اُس نے اپنے دل کا غبار نکال لیا تھا۔ خاتون نے شگفتگی سے اُس کے شانے پر اپنا ہاتھ رکھا اور شائستگی سے کہنے لگی:
”دیکھو بھائی! محبت سے اتنی نفرت مت کرو…اگر یہ ظالم ہوگئی تو…؟“
”تو…؟“
”تو یہ کہ …جو اِس کے جتنا خلاف ہوتا ہے یہ اُس سے اُتنے ہی طواف کرواتی ہے اپنے حضور…“
خاتون نے نصیحت کی طرز پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔
لڑکے نے اُس کی بات سُن کر اپنی آنکھیں موند لیں۔ کچھ پل دونوں اطراف خاموشی رہی۔
”ہم بغیر تعارف کے گھنٹہ بھر سے باتیں کیے جا رہے ہیں…میں مزمل بیگ … ایکسپوٹر ہوں…لیدر گڈز اور ٹریک سوٹ…کی فرانس جرمنی اور یوکے ایکسپورٹ کرتا ہوں…لاہور میں دو فیکٹریاں ہیں…“
”میں نمل حیدر ! رائٹر ہوں … کئی ناول لکھ چُکی ہوں ” نمل نے مزمل کے انداز میں ہی خود کا تعارف کروایا۔
مزمل بیگ حیرت میں مبتلا تھا۔ وہ گھنٹہ بھر سے جس خاتون کی مخالفت کر رہا تھا وہ اُس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔
”میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ دراصل میرا مطلب وہ…“ مزمل بیگ نے رُک رُک کر کہا۔
”دیکھو بھائی! آپ کی کوئی بات مجھے بُری نہیں لگی۔اب میری سنو!! آپ نے کہا تھا :
”کسی کے مزاج کا تعلق سکون یا بے سکونی سے نہیں ہوتا میں بڑا مطمئن اور پرسکون ہوں اگر طبیعت میں محبت ہو تو، سکون چہرے سے ہی نظر آجاتا ہے، اُسے بتانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔
آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ نمل حیدر کریکٹر ہے۔ میرا ماننا ہے ہر رائٹر پہلے خود ایک کریکٹر ہوتا ہے تبھی تو وہ معاشرے میں بکھرے کرداروں کو جلدی پہچان لیتا ہے کیونکہ وہ اُس کے قبیلے ہی سے ہوتے ہیں۔ میں نے آپ کو بھی پہچان لیا ہے۔ آپ بھی کریکٹر ہیں۔ آپ کی کہانی یقینا بہت الگ اور مختلف ہوگی۔ پر ابھی ادھوری ہے۔ آپ محبت اور نفرت کی وادیوں کے درمیان خود کو کھوج رہے ہیں۔
جب آپ محبت کی منزل پا لوگے تو مجھے فون کرنا تب میں آپ پر بھی ناول لکھوں گی۔
میرے ناول ”محبت بے درد سا درد ہے۔“ کے کرداروں پر بھی آپ کو اعتراض تھا۔ آپ کے خیال میں وہ کردار خیالی ہیں، حقیقت میں ایسا تھوڑی ہوتا ہے۔ رفعت اور رمیض کو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر لکھا تھا۔صرف اُن کے نام تبدیل کیے تھے باقی سب کچھ حقیقت ہی تھا“ نمل حیدر نے بڑے سلیقے سے بات کی تھی۔
مزمل بیگ نے اُس کی بات کو پوری توجہ دی۔
نمل حیدر نے اپنے ہینڈ بیگ سے اپنا لیڈیز وائلٹ نکالا اُس میں سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر مزمل بیگ کو تھما دیا جو اُس نے چپ چاپ ہی تھام لیا۔ نمل حیدر سلیقے سے پھر بول پڑی :
”میں آپ کو ڈائجسٹوں میں چھپنے والے درجنوں ناولز کے نام بتا سکتی ہوں جن کو پڑھ کر ہزاروں افراد کی زندگیوں میں تبدیلی آئی ہے۔
جس تحریر کو پڑھ کر بھٹکے ہوئے رستے پر آجائیں اُسے وقت کا ضیاع کہنا نا انصافی ہی ہوگی۔
آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ نمل حیدر محبت کی وکالت کرتی رہتی ہے۔ مزمل بھائی!! میں کون ہوتی ہوں محبت کی وکالت کرنے والی۔ محبت تو خود ہی وکیل ہے اور جس کی وکیل خود محبت ہو، وہ خود ی میں خود کفیل ہو جاتا ہے۔“
نمل حیدر نے فصاحت سے ساری بات کی تھی۔ اُس وقت مزمل کے رُخِ روشن پر کئی ساری اُلجھنوں کا بسیرا تھا۔
وہ ذہنی طور پر اُس وقت محبت اور نفرت کی درمیانی خلیج پر کھڑا تھا۔نمل حیدر نے اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھے تو مسکرائی اور میٹھی آواز میں کہنے لگی:
”مزمل بھائی!آخری بات ماں کا ذکر ہوتے ہی آپ کے چہرے کے خدوخال تبدیل ہوگئے تھے۔ ایسا کیوں…تھا؟ میں یہ تو نہیں پوچھوں گی آپ کا نجی معاملہ ہے۔چند دن پہلے ایک نئے رائٹر کا ناول پڑھنے کا موقع ملا اُس نے ایک لائن بڑی اچھی لکھی تھی”ماں جیسی بھی ہو جنت میں موسیٰ کا پڑوسی بنا دیتی ہے“حسین اتفاق ہے آپ کا نام ”م“ سے شروع ہوتا ہے۔
ماں اور محبت بھی م سے ہی ہیں۔ مجھ سے ایک دفعہ ایک فین نے email کے ذریعے پوچھا، نمل آپی محبت کا مطلب تو بتائیں … ؟
میں چند دن سوچتی رہی پھر مجھے جواب مل گیا۔
محبت کا مطلب ہے ماں اور ماں کا مطلب ہے محبت
”ان شاء اللہ تھوڑی دیر میں ہم لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اُترنے والے ہیں۔ حفاظتی بیلٹ باندھ لیجئے اور کرسی کی پشت سیدھی کر لیں…“
ایئر ہوسٹس نے نمل حیدر کی حکمت سے بھری باتوں کا سلسلہ توڑا تھا۔
جہاز کی لینڈنگ کے بعد مزمل نے نمل حیدر کا ہینڈ کیری کیبن سے نکال کر اُس کے حوالے کیا تھا نمل حیدر نے مشکور نگاہوں سے اُسے دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگی :
”مزمل بھائی! کوئی بات ناگوار گزری ہو تو معذرت خواہ ہوں۔“
کیا اگلی قسط پوسٹ کروں یا نہیں ؟ کمنٹ میں بتائیں

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Font Stories posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share