24/05/2019
یہ تین تصاویر دراصل تین کہانیاں ہیں .
پہلی تصویر فرشتہ بیٹی کی ہے . کسی ظالم نے اسے اغواء کیا . ہوس پوری کی پھر قتل کیا اور پھینک دیا . اسکے گھر والے پولیس رپورٹ درج کروانے کیلئے بھی در در دھکے کھاتے رہے .
دوسری تصویر ہری پور کے عبداللہ کی ہے . جس کے بارے میں دوستوں نے کہا کہ موٹر سائیکل سے گر کر اسکی موت واقع ہوگئی پر جب گھر والوں نے موبائل وغیرہ جانچا تو واٹس ایپ پر اسکے دوست اسے ہم جنس پرستی کیلئے مجبور کرتے اور بات نہ ماننے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے پائے گئے اور گھر والوں کو یقین ہے کہ انکے بچے کو قتل کیا گیا ہے .
تیسری تصویر ملکوال چک سیداں میں موجود جعلی پیر عزیز شاہ کی گھریلو ملازمہ اور اسکے والد کی ہے . ڈریئے مت یہ کوئی جن چڑیل یا خلائی مخلوق نہیں بلکہ اک انسانی عورت ہی ہے جسے پہلے زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور پھر جی بھر جانے کے بعد تیزاب سے نہلا دیا گیا .
ان تین کہانیوں میں کچھ باتیں مشترکہ ہیں
1) اک واقعہ وفاق کا دوسرا خیبر پختون خواہ اور تیسرا پنجاب کا ہے پر تینوں واقعات میں مظلوم کے گھر والے پولیس کے رویہ اور عدم تعاون پہ سراپا احتجاج ہیں
2) تینوں واقعات جنسی درندگی پہ مشتمل
3) تینوں واقعات میں درندگی کا نشانہ کم عمر بچے بنے
4) تینوں واقعات میں سے دو میں ظالم وہ تھا جن پہ والدین کو بھروسہ ہوگا یعنی اک طرف جگری دوست اور تیسرے میں "جعلی پیر صاحب" . جبکہ فرشتہ کے بہیمانہ قتل میں بھی ایسی ہی اطلاعات مل رہی ہیں کہ قاتل کوئی قریبی ہے .
کل ہی انسانی جان کی قدر کے متعلق تحریر لکھی تھی اور کل رات کو ہی مختلف دوستوں نے یہ تصاویر انباکس کیں کہ ان پہ لکھا جائے پر سوال تو یہ کہ کیا لکھا جائے ؟
زینب کے واقعے پر پوری قوم نے لکھا بولا چیخا نتیجہ کیا نکلا ؟ وہاں بھی ظالم قریبی تھا پولیس تعاون سے انکاری تھی اور مظللوم معصوم کم عمر تھی .
کیا کوئی اک ترتیب بھی بدلی ؟ ظالم اور مظلوم تو ازل سے ابد تک رہیں گے پر بیچ میں جو قانون نامی شے ہے اسے کون سی موت آن پڑی ہے ؟ ظالم و مظلوم کے درمیان توازن تو عدل کیا کرتا ہے اور عدل قانون مہیا کرتا ہے پر قانون ہے کہاں ؟
یہ قانون ہمیشہ مظلوم کے جنازے کے بجائے ظالم کے ڈیرے پہ پہرا دئے کیوں نظر آتا ہے ؟
نظام بدلے حکمران بدلے طرز حکمرانی بدلی پر اب تک قانون کے رکھوالے کیوں نہ بدل سکے ؟؟
ہم انصاف چاہتے ہیں پر انصاف دے گا کون ؟
ہماری بچوں بچیوں کی لاشیں پڑی رہیں گی . سیاسی گدھ اس پہ سیاست چمکا کر ووٹ چمکانے کیلئے آتے رہیں گے . پر انصاف کون دے گا ؟ ایسا کب ہوگا کہ جب ہم اپنی بچیوں کےلاشے سڑک پہ رکھے بنا انصاف مل جائے ؟ ایسا وقت کب آئے گا کہ ساری دنیا کے سامنے روئے اورتماشہ کئے بنا ارباب اختیار ہمیں گلے لگائیں ؟
سوال بہت ہیں اور جواب ..... جواب اک بھی نہیں . ان معصوموں کے بوڑھے والدین اسلام آباد , ہری پور اور ملکوال کی سڑکوں پہ بیٹھے رو رہے ہیں اور ہم اپنی تحریروں میں رو رہے ہیں جبکہ قانون ..... قانون مطمئن ہے کہ مظلوم محض رو رہا ہے اور جب تک صرف رو سکتا ہے تب تک ظالم محفوظ ہے اور "امن و امان " کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے !!