My Identity is Pakistan

  • Home
  • My Identity is Pakistan

My Identity is Pakistan Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from My Identity is Pakistan, Social Media Agency, .

تاریکیوں کے مسافر:اکثر سنا ہوگا وردی والوں،بوٹوں والوں کے بارہ میں۔۔۔۔۔کون ہیں یہ جو رات کی تاریکیوں میں آتے ہیں اپنا کا...
31/01/2022

تاریکیوں کے مسافر:

اکثر سنا ہوگا وردی والوں،بوٹوں والوں کے بارہ میں۔۔۔۔۔
کون ہیں یہ جو رات کی تاریکیوں میں آتے ہیں اپنا کام کرتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں؟
انسان ،یا انسانو جیسے۔۔۔۔ ؟کچھ سوچتے ہونگے نہیں ،نہیں یاااررر یہ ایجنسیوں والے ہوتے ہیں، بہت خطرناک لوگ ہوتے ہیں یہ۔

جب تک ہم کسی چیز کو قریب سے نہیں جانتے ہمیں اندازہ نہیں ہوتا اس کے بارے میں بس سنی سنائی پہ یقین کرکے چلتے ہیں۔اداروں یا ایجنسیوں میں موجود بھیانک ترین خونخوار افراد بھی ہماری طرح کے انسان ،ماوؤں کے بیٹے،بہنوں کے بھائی،بیویوں کے سہاگ،بچوں کے باپ،اور وطن کا اثاثہ ہوتے ہیں۔

جو رات کی تاریکیوں میں آپ کے آرام میں مخل ہوئے بغیر آپ کے چین و سکون کی خاطر شب بیدار رہتے ہیں،جنہیں سردی گرمی بہار اور برف سے کوئی فرق نہیں پڑتا،جن کی زندگی میں ،آنکھوں میں پاکستان کا حسین خواب حوصلہ بڑھاتا کچھ بھی کر گزرنے پہ استقامت دیتا ہے۔اداروں والے بھی بیمار ہوتے ہیں غم اور خوشی محسوس کرتے ہیں مگر پھر بھی سب سے پہلے پاکستان،کا جنون ہر درد،ہرغم ،ہرزخم کا مرہم بن کر دستگیری کرتا ہے۔

دنیا کے ہر شیطان کو جھکا کر،ہر سازش ناکام بنا کر،اپنے ایمان پہ ثابت قدم رہنے والے ،حوصلہ و جراتمند دیوانے کبھی دیکھے ہیں؟؟؟کبھی انکی کانچ جیسی ،شب بیدار،رتجگوں کی عادی آنکھوں میں جھانکا ہے؟؟؟جن کا چلنا اٹھنا بیٹھنا جاگنا بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے۔جن کے لہجوں کی حدت،بوجھل سانسیں،نیم واء آنکھیں،تھکن سے چور جسم بھی آخری دشمن تک پہنچنے کو بےتاب ہوتے ہیں۔
جہاں شب اتری وہیں بسر کی،بستر ہو نہ ہو سائبان ملے نہ ملے،ہوٹل دور ہوں یا وہ آپ شہر سے باہر کوئی پرسان حال ہو نہ ہو،پھر بارشیں برسیں یا گولیاں کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔ان کا کام تو بس آگے بڑھنا ہے۔۔۔ہمیشہ وہ جیت کے لوٹتے ہیں،پر کبھی دشمن جیت جاتا ہے۔
ایسے ہی تاریکیوں کے مسافر جب چلتے ہیں تو فاصلے سمٹتے چلے جاتے ہیں ماں کے آنچل کا سایہ نہ سہی زمین ماں جیسی مہربان اور شفیق قدم چومتی ہے۔شجر حجر سایہ فگن سے لگتے ہیں دریا و سمندر ان کے وجود کی مستی میں جھومتے ہیں لہریں پانیوں کے سینے پہ اٹھکیلیاں کرتی،اتراتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ غزوہ ہند کے فاتحین،یہ اللّہ کے بندے سرشار عشق الٰہی و سرشار عشق مصطفیﷺ ہیں
ایک حدیث پاک میں جہاں غزوہ ہند کی فضیلت کا تذکرہ تھا۔۔۔۔۔جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ۔۔۔۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔۔۔۔!
میری امت کے دولشکروں پر اللّہ نے جہنم کی آگ حرام قرار دی ہے ۔ایک وہ لشکر جوہندوستان پر حملہ کرے گااوردوسرا جوعیسیٰ ابن مریم کا ساتھ دے گا ۔۔۔۔!
پھر فرمایا!میری امت کے کچھ لوگ ہند وستان سے جنگ کریں گے،اللہ تعالیٰ ان کو فتح عطافرمائے گاحتیٰ کہ وہ ہندوستان کے باد شاہوں کو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پائیں گے۔اللّہ ان مجاہدین کی مغفرت فرمائے گا اورجب وہ شام کی طرف پلٹیں گے تو عیسیٰ علیہ السلام کو وہاں موجود پائیں گے

اس حدیث پاک سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہوتاہے کہ غزوہ ہند کے مجاہدین کا فاتح لشکر ہی شام میں حضرت مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی نصرت کے لئے جائے گا کیونکہ اس زمن میں اقوال مہدی علیہ السلام کے حوالے سے بزرگان دین فرماتے ہیں کہ جری سپاہیوں کا ایک لشکر خراسان کے علاقے سے شرکت کرئے گا جن کی تعداد کم وبیش دس ہزار کے لگ بھگ ہوگی ۔یہی وجہ ہے کہ جلیل القدر صحابی حضرت ابو ہریرہ نے اس لشکرمیں شرکت کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے نبی کریم ﷺکے ارشاد کو نقل فرمایا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ضرورتمہارا ایک لشکرہند وستان سے جہاد کرے گا ،اللہ ان مجاہدین کو فتح عطافرمائے گا حتیٰ کہ وہ ان(ہندوستان )کے بادشاہوں کوبیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اوراللہ ان مجاہدین کی مغفرت فرمادے گا۔پھر جب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شام میں پائیں گے۔۔۔۔۔۔!
اس پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتا ہے ۔۔۔۔۔

اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا کردی اور ہم واپس پلٹ آئے تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو ملک شام میں (اس شان سے)آئے گا کہ وہاں عیسیٰ ابن مریم کو پائیگا۔۔۔۔۔!
یارسول اللّٰہ !اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ میں آپ ﷺکا صحابی ہوں۔۔۔۔!
یہ سن کر رسول اللّٰہﷺیہ بات سن کر مسکرا پڑے اور ہنس کر فرمایا۔۔۔! بہت مشکل ،بہت مشکل
چنانچہ ایک اور جگہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ
میرے جگری دوست رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ:
یَکُوْنُ فِیْ ھٰذِہٖ الْاُمَّةِ بَعْث ٌ اِلَی السَّنْدِ وَالْھِنْدِ
اس امت میں سندھ اور ہند کی طرف لشکروں کی راونگی ہوگی ۔اس پر حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اگر مجھے کسی ایسی مہم میں شرکت کا موقع ملا اور میں شہید ہوگیا تو ٹھیک ،اگر واپس لوٹا تو آزاد ابوہریرہ ہوں گا،جسے اللہ تعالیٰ نے جہنم سے آزاد کردیا ہوگا!
اللّہ اکبر!

ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ
’’نبی کریم ﷺنے ہم سے غزوہ ٔ ہند کا و عدہ فرمایا ۔آگے حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جا ن و مال اس میں خرچ کردوں گا ۔اگر قتل ہوگیا تو میں افضل شہدا ء میں شمار ہوں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا۔
تمام تر ،افضل ترین احادیث کی روشنی میں فاتح بدروحنین کے جانشین معرکہ حق و باطل میں اولعزم اور ثابت قدمی کا مظاہرہ دکھاتے یقیننا دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال کر 52 ممالک سے پنجہ آزما ہونگے پھر دنیا دیکھے گی،
#اسلام کی قوت
#پاکستان کی طاقت
#شیروں کی شجاعت
ان شاء اللہ
🇵🇰 ⚔️ ⚔️ 🇵🇰 ⚔️ ⚔️ 🇵🇰

خلافت کی حقیقت اور عصرِ حاضر میں اس کا نظامپارٹ 1 وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ل...
24/01/2022

خلافت کی حقیقت اور عصرِ حاضر میں اس کا نظام
پارٹ 1


وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۵﴾
(النور)
ترجمہ:
’’وعدہ کر لیا ہے اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں اور کیے ہیں انہوں نے نیک کام‘ البتہ پیچھے حاکم کر دے گا ان کو ملک میں جیسا حاکم کیا تھا ان سے اگلوں کو اور جما دے گا ان کے لیے دین اُن کا جو پسند کر دیا ان کے واسطے اور دے گا ان کو ان کے ڈر کے بدلے میں امن۔ میری بندگی کریں گے‘ شریک نہ کریں گے میرا کسی کو۔ اور جو کوئی ناشکری کرے گا اس کے پیچھے‘ سو وہی لوگ ہیں نافرمان۔‘‘

اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کرنے والے مسلمانوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو زمین میں ضرور خلافت عطا فرمائے گا۔ یہاں پر خلافت سے مراد مسلمانوں کی حکومت ہے۔

اس وعدے کے سلسلے میں مزید وضاحت یہ فرما دی کہ یہ خلافت یا حکومت موجودہ اُمت ِمسلمہ (جو اُمت ِمحمدﷺہے) کو اسی طرح عطا کی جائے گی جس طرح اس سے پہلے کی اُمت ِمسلمہ (بنی اسرائیل) کو عطا کی گئی تھی۔
اس آیت میں اشارہ کیا جا رہا ہے کہ ہم نے اس سابقہ امت کو بھی حکومت عطا کی تھی۔

چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔۔۔
یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ
(صٓ: ۲۶)
ترجمہ:
’اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا۔‘‘

گویا تاریخ کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ اے اُمت ِمسلمہ! تم میں سے جو لوگ ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کر دیں گے ہم انہیں لازماً خلافت عطا کریں گے جس طرح تم سے پہلوں کو عطا کی تھی۔
آیۂ مبارکہ کامطالعہ کرتے ہوئے یہ بات نوٹ کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے جو وعدہ فرمایا ہے اس کے لیے عربی زبان میں تاکید کا جو سب سے زیادہ مؤثر اور بلیغ اسلوب ممکن تھا اس کو تین بار استعمال کیا ہے۔
(1) لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ
"انہیں ضرور بالضرور خلافت عطا کرے گا۔‘‘
(2) وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ
’’اور ان کے دین کو لازماً تمکن عطا کرے گا۔‘‘
(3) وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ
’’ان کی خوف کی حالت کو جو اس وقت ان پر طاری ہے‘ لازماً امن میں بدل دے گا۔‘‘

دیکھئے یہ ایک ہی مضمون کی تکرار ہے‘ لیکن قرآن حکیم کی تکرار کی بھی ایک عجیب شان ہوتی ہے۔
جیسے کسی نے کہا ہے۔۔۔
اِک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں۔

قرآن حکیم میں ایک ہی مضمون کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جاتا ہے‘ مگر اس تکرار سے کلام کی تأثیر اور دلکشی میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
پھر یہ جو فرمایا کہ۔۔۔
’’اور ان کے اس دین کو تمکن عطا کرے گا جو اس نے ان کےلیے پسند کیا ہے‘‘
تو یہ وہی بات ہے جو سورۃ المائدہ میں آئی ہے۔۔۔
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ
(المائدۃ : ۳)
ترجمہ:
’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کی تکمیل کر دی‘ تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو (تا قیامِ قیامت) دین کی حیثیت سے پسند کیا۔‘‘

اور ظاہر ہے کہ جس دین کو اللہ نے پسند فرمایا وہ مغلوب نہیں رہے گا بلکہ اس کو غلبہ اور تمکن حاصل ہوگا۔ یہ گویا وعدۂ استخلاف کی دوسری بار تاکید ہے۔
یہی بات تیسری بار اس طرح بیان فرمائی۔۔۔
وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ
ترجمہ:
’’ان کی خوف کی حالت کو (جو اس وقت ان پر طاری ہے) لازماً امن میں بدل دے گا۔‘‘

سورۃ النور کی یہ آیات سن ۵ھ کے اواخر یا سن ۶ھ کے اوائل میں نازل ہوئی تھیں‘ اور جیسا کہ معلوم ہے سن ۵ھ ہی میں غزوۂ احزاب پیش آیا تھا‘ جب عرب کی مجموعی قوت نے تقریباً ایک ماہ اور کئی دن تک مدینہ کا شدید محاصرہ کر لیا تھا۔ ۱۲ ہزار کا لشکر مدینہ کی چھوٹی سی بستی پر حملہ آور ہوا تھا۔ مدینہ کے اردگرد یہود الگ سازشوں میں مصروف تھے۔ مسلمانوں پر شدید آزمائش کی گھڑی تھی۔

خود قرآن حکیم نے صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔۔۔
وَ زُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالًا شَدِیۡدًا ﴿۱۱﴾
(الاحزاب)
ترجمہ:
’’اہل ایمان شدید طور پر ہلا مارے گئے۔‘‘

اس سنگین صورتحال کا نتیجہ یہ نکلاکہ منافقین کا نفاق ان کی زبانوں پر آ گیا‘ گویا ان کا خبث ِباطن ظاہرہو گیا۔ اس وقت یوں لگتا تھا جیسے لق و دق صحرا میں ایک دیا روشن ہے جسے بجھانے کے لیے ہر طرف سے آندھیاں چل رہی ہیں۔ خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ ابھی ہوازن کا بڑا قبیلہ حملہ آور ہو جائے گا۔ نجد کے قبائل یورش کر دیں گے۔ کہیں خیبر کے یہودی ہی نہ ٹوٹ پڑیں یا پھر جنوب کی طرف سے قرشی نہ چڑھ دوڑیں۔یہ تھے وہ حالات جن میں یہ بشارت دی گئی کہ ان کی اس خوف کی کیفیت کو ہم امن سے بدل دیں گے۔

آیۂ مبارکہ کا یہ حصہ بہت ہی اہم ہے کہ
یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ
ترجمہ:
’’(جب میں ان کو غلبہ عطا کر دوں گا تب) وہ میری بندگی کریں گے‘ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے‘‘۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی مسلمان اگرچہ خوف کی حالت ہی میں تھے ‘لیکن بندگی تو اللہ ہی کی کرتے تھے‘ پھر اب غلبہ ٔدین اور خوف کے خاتمے کے ساتھ بندگی کو کیوں معلق کیا گیا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ توحید اُس وقت تک ناقص ہے جب تک اللہ کا دین غالب نہ ہو جائے۔
قرآن حکیم نے اسی بات کو اس طرح بیان کیا ہے۔۔۔
وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ
(الانفال : ۳۹)
ترجمہ:
’’دین کل کا کل اللہ کے لیے ہو جائے‘‘۔

غیر اللہ کی حاکمیت کی کاملاً نفی ہو جائے‘ اس لیے کہ غیر اللہ کی حاکمیت کا تصور ہی سب سے بڑا شرک ہے۔
چنانچہ سورۃ المائدہ میں آیا ہے۔۔۔
وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۴۴﴾ ۔۔۔۔الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۴۵﴾۔۔۔۔ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۴۷﴾ (المائدۃ)
یہی وجہ ہے کہ جب تک نظام خلافت قائم نہ ہو تب تک افراد تو موحد ہو سکتے ہیں‘ لیکن نظام بہرحال کافرانہ و مشرکانہ ہی رہتا ہے۔ چنانچہ دراصل توحید کی تکمیل ہی اُس وقت ہو گی جب یہ تین وعدے پور ے ہو جائیں گے۔
تحریر



Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when My Identity is Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share