لینز Lens

  • Home
  • لینز Lens

لینز Lens The most trusted digital media outlet in Gilgit-Baltistan
(7)

17/09/2025

گلگت بلتستان میں بڑھتے جرائم: ایک اجتماعی غفلت کی کہانی

گلگت بلتستان، جو کبھی امن، تہذیب، اور باہمی احترام کی علامت تھا، آج نت نئے جرائم اور حادثات کی زد میں ہے۔ سوال یہ ہے: یہ سب کیوں اور کیسے ہو رہا ہے؟

روایات سے انحراف، اقدار سے غفلت
ہمارے خطے میں صدیوں سے ایسے اصول و ضوابط رائج تھے جو نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھتے تھے بلکہ ہر فرد کی تربیت اور کردار سازی میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے۔ مگر آج، وہی اصول فراموش ہو چکے ہیں۔

آبادی میں بے قابو اضافہ اور مہاجرت
دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت، اور دیگر علاقوں سے آنے والے افراد کی غیر منظم آبادکاری نے مقامی سماج کو غیر متوازن کر دیا ہے۔ نوجوان نسل، جو شہروں کی چکاچوند میں اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہے، نہ وہاں ایڈجسٹ ہو پاتی ہے، نہ واپس اپنے اقدار سے جڑ پاتی ہے۔

والدین کی بے خبری، تربیت کا فقدان
جب والدین معاشی دباؤ یا اولاد کی کثرت کے باعث بچوں کی تربیت سے غافل ہو جاتے ہیں، تو یہی بچے چھوٹے جرائم سے ہوتے ہوئے بڑی وارداتوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ والدین کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اولاد کیا کچھ کر چکی ہے۔

اداروں کی غیر موجودگی، تربیت کا بحران
پورے گلگت بلتستان میں کوئی ایسا مؤثر ادارہ موجود نہیں جو نوجوانوں کو ذہنی، اخلاقی، اور سماجی تربیت فراہم کرے۔ نتیجتاً، یہی افراد بعد میں سیاسی، مذہبی یا سماجی تنظیموں میں اثر و رسوخ حاصل کر لیتے ہیں، مگر ان کی بنیاد کمزور ہوتی ہے۔

والدین کی غلط فہمی
جب بچہ بدتمیز یا جھگڑالو ہوتا ہے، تو اکثر والدین اندرونی طور پر خوش ہوتے ہیں کہ “میرا بچہ توانا اور بہادر ہے”۔ یہی خوش فہمی بعد میں معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔

حل کیا ہے؟

• سماجی و مذہبی تنظیموں کو تربیتی مراکز قائم کرنے چاہئیں
• آبادی پر شعوری کنٹرول کی مہم چلائی جائے
• والدین کو تربیت دی جائے کہ وہ بچوں کی اخلاقی نشوونما کو اولین ترجیح دیں
• نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کیا جائے، جیسے ثقافتی، ادبی، اور ماحولیاتی پروگرام

گلگت بلتستان کی خوبصورتی صرف پہاڑوں میں نہیں، بلکہ اس کے لوگوں کے کردار میں ہے۔ آئیے، اس کردار کو سنوارے
تحریر محمد صالح

17/09/2025
17/09/2025

گلگت : گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی کے نام پر بننے والے تینوں دھڑے پھر متحد ہوگئے۔ اب نئی بننے والی متحدہ عوامی ایکشن کمیٹی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ قوم کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ تینوں دھڑوں کو دوبارہ یکجا کرنے میں انجمن تاجران گلگت بلتستان اور پشتتنی باشندگان گلگت کےصدر اور ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر کا اہم رول رہا۔

واضع رہے کہ تینوں دھڑوں کا اتحاد خوش آئند ہے۔ گلگت بلتستان میں کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے لازمی ہے کہ عوام کا اعتماد اس تحریک کو لیڈ کرنے والوں پر ہو۔ اگر لیڈران وقتاً فوقتاً مصلحت کا شکار ہوکر دھڑے بندیاں کرنے لگتے ہیں تو عوام کا اعتماد ان پر نہیں رہتا۔ جس کے بعد عوام تحریک میں شرکت سے گریزاں ہوتے ہیں اور یہ عوام کا حق بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ عوام سمجھتے ہیں کہ ان کو استعمال کرتے ہوئے لیڈران ذاتی مفادات کے حصول میں لگے رہتے ہیں۔ اس لئے عوامی ایکشن کمیٹی کے مرکزی لیڈران کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے اعتماد کو ٹھیس مت پہنچائے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے دھڑوں کے دوبارہ اتحاد سے تحریک کو مزید تقویت ملے گی۔ اس سے عوامی مسائل کے حل میں بھی مدد ملے گی۔ اس لئے آئندہ دھڑا بندیوں سے گریز کیا جائے۔
امتیاز گلگتی

17/09/2025

سب سے پہلی قانون ساز اسمبلی میں استور کے دو حلقے تھے اب بھی دو حلقے ہیں باقی تمام اضلاع کی نشتوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے اسمبلی میں نشتوں کی تعداد بارہ سے بڑھ کر چوبیس ہو چکی ہیں مگر استور کی دو کی دو ہیں
استور کی یوتھ اور عوام کی طرف سے ہمارا مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کی نشستوں میں ضلع استور کی نشست میں اضافہ ہونا چاھئے
ڈاکٹر وزیر اشتیاق علی سیاسی و سماجی رہنما

17/09/2025
16/09/2025

عمرانڈوں کا سیاسی کلچر اور ہماری سماجی تنزلی

پاکستان کی سیاست کبھی دلیل، مکالمے اور شائستگی کی روایت سے جانی جاتی تھی۔ اختلافِ رائے کو برداشت کیا جاتا تھا سیاسی حریف کو دشمن نہیں سمجھا جاتا تھا اور زبان کے وقار کا خیال رکھا جاتا تھا۔ مگر آج منظرنامہ یکسر بدل چکا ہے۔ سیاست کے اس گلزار میں اب ایسے کانٹے اُگ آئے ہیں جنہیں عرفِ عام میں ’’عمرانڈو‘‘ کہا جاتا ہے۔

یہ عمرانڈو دراصل ایک ایسی ذہنیت کے نمائندہ ہیں جنہوں نے سیاست کو سنجیدہ گفت و شنید کے بجائے بدزبانی، الزام تراشی اور شخصیت پرستی کا تماشا بنا دیا ہے۔ ان کے نزدیک سیاست کا مطلب دلیل نہیں بلکہ شور، حقیقت نہیں بلکہ پروپیگنڈا، اور برداشت نہیں بلکہ گالی ہے۔ ان کی سب سے نمایاں خصوصیت اندھی تقلید ہے۔ یہ وہ پیروکار ہیں جو اپنے لیڈر کی ہر لغزش کو کارنامہ اور ہر الزام کو سازش سمجھتے ہیں۔ قانون اور اصول ان کے لیے تب معتبر ہوتے ہیں جب مخالفین پر لاگو ہوں، لیکن جب بات اپنے قائد کی ہو تو سب کچھ ’’سیاسی انتقام‘‘ کے پردے میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا، جو علم و آگہی اور بیداری کا ذریعہ ہونا چاہیے تھا ان عمرانڈوں کے ہاتھوں ذاتی کردار کشی کا اکھاڑا بن چکا ہے۔ مخالف سیاست دانوں پر بازاری زبان خواتین رہنماؤں کے خلاف گھٹیا حملے صحافیوں کو گالیوں اور دھمکیوں کے ذریعے خاموش کرانے کی کوشش یہ سب کچھ اب معمول ہے۔ ان کا ہتھیار دلیل نہیں بلکہ گالی ہے اور ان کا سرمایہ سیاست نہیں بلکہ تعصب ہے۔

سیاست دراصل برداشت اور شائستگی کے ساتھ اختلافِ رائے کا نام ہے۔ مہذب جمہوریتوں میں مخالفین کو عزت دی جاتی ہے اور دلیل سے قائل کیا جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں عمرانڈوں نے اختلاف کو دشمنی اور مکالمے کو جنگ میں بدل دیا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف سیاسی اداروں کو کمزور کر رہا ہے بلکہ معاشرے میں انتشار اور تقسیم کو گہرا کر رہا ہے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیاست دان آتے جاتے رہتے ہیں مگر سیاسی اقدار اور اصول ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اگر یہ اقدار گالی، الزام تراشی اور ذاتیات کی نذر ہو گئیں تو آنے والی نسلیں ایک ایسا سیاسی کلچر ورثے میں پائیں گی جس میں عزت، برداشت اور مکالمے کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔ یہ دراصل جمہوری روح کا قتل ہے جس کا خمیازہ پورے معاشرے کو بھگتنا پڑے گا۔

قوموں کی تعمیر الفاظ کے وقار اور دلیل کے وزن سے ہوتی ہے نہ کہ چیخ و پکار اور بدتہذیبی سے۔اگر یہ روش نہ بدلی گئی تو آنے والے دنوں میں ہماری سیاست محض غلیظ زبان اور ذاتی دشمنیوں کا کھیل بن کر رہ جائے گی جہاں دلیل مر جائے گی اور صرف شور باقی رہ جائے گا۔

تاریخ ہمیشہ یاد رکھتی ہے کہ گالی وقتی ہوتی ہے اور دلیل دائمی اور وقت کے ایوانوں میں صرف وہ آوازیں گونجتی ہیں جو شائستگی اور حقیقت کی بنیاد پر اٹھتی ہیں۔عمرانڈوں نے اگر اپنے رویے پر غور نہ کیا تو یہ شور کا طوفان بالآخر ان ہی کو بہا لے جائے گا۔
تحریر: ایڈووکیٹ تصور حسین

16/09/2025

بے گناہ راجہ کاشان کا المناک قتل

نوجوان راجہ کاشان کے دل دہلا دینے والے قتل نے پورے گلگت بلتستان کو صدمے ، غم اور غصے میں چھوڑ دیا ہے۔ جو کبھی پُر امن گھر تھا اب وہ سوگ کی جگہ میں بدل گیا ہے ، کیونکہ رہائشی اس بے گناہی زندگی کا دعوی کرنے والی بربریت کا احساس دلانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق ، راجہ کاشان، جو اپنی نرم مزاج اور نرم مزاج کے لئے جانا جاتا تھا ، وہ بے وقوفانہ تشدد کا نشانہ بن گیا۔ دوست ، کنبہ اور پڑوسی اسے ایک روشن اور شائستہ نوجوان کے طور پر بیان کرتے ہیں ، ہر ایک کو پسند کرتا ہے جو اسے جانتا تھا۔ اس کی اچانک اور پرتشدد موت نے نہ صرف اس کے اہل خانہ کو ایک پیارے بیٹے سے لوٹ لیا ہے بلکہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔

اس کیس نے حالیہ دنوں میں ایک بار پھر تشدد اور لاقانونیت کے خطرناک عروج پر روشنی ڈالی۔ حفاظت کے لئے بار بار مطالبات کے باوجود ، بہت سے خاندان خوف کے سائے میں رہتے ہیں۔ کاشان کے قتل سے ریاست انصاف ، سلامتی اور احتساب کے بارے میں فوری سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

برادری کے ممبروں نے اس گھناؤنے جرم کے ذمہ داروں کے لئے تیز تفتیش اور سخت سزا کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کی یاد میں چوکسی اور اجتماعات رکھے گئے ہیں ، سوگواروں نے نہ صرف کاشان کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا ، بلکہ ہر معصوم زندگی کے لئے بغیر کسی قسم کے تشدد سے محروم کردیا۔

کاشان کا قتل ذاتی المیہ سے زیادہ ہے۔ یہ زندگی کی نزاکت اور کمزوروں کے لئے مضبوط تحفظ کی فوری ضرورت کی یاد دہانی ہے۔ جب اس کا کنبہ سوگوار ہوتا ہے تو ، بڑے پیمانے پر معاشرے میں ایک پریشان کن سوال باقی رہ جاتا ہے: حقیقی تبدیلی لانے سے پہلے کتنے بے گناہ ضائع ہوجائیں گے؟

وزیر منظورِ عام

16/09/2025

راجا کاشان کیس: گلگت پولیس اور پراسیکیوشن کے نام پیغام !

راجا کاشان کیس میں اگر ملزمان بلکہ مجرمان کا تعلق آپ کے خاندان ، قبیلے ، علاقے ، فرقے سے ہے اور آپ پہ انکا جرم کمزور اور خود ساختہ بھائ چارگی اور اپنائیت کا احساس غالب آرہا ہے ۔۔۔

اگر مجرموں کے خاندان بااثر ہیں اور آپ پہ اس کیس میں کمزور دفعات لگانے اور ملزمان کو بچانے کیلئے پریشر ڈال رہے ہیں ۔

اگر آپ کے اعلیٰ افسر ، دیگر انتظامی اداروں کے کرتا دھرتا آپ کواس ق ت ل کے اصل محرکات چھپانے اور کیس ٹوسٹنگ کرنے کے احکمات دیتے ہیں

اور اگر ۔۔۔۔
خدانخواستہ آپ اس سب عمل کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ مجرموں کیلئے آپکی اپنائیت ، جرم پہ حاوی ہوجاتی ہے ، سیاسی و مذہبی اثر رسوخ ، افسر کا پریشر آپکے شفاف تحقیقات کے زریعے انصاف کی فراہمی کی اصل ڈئوٹی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے ۔۔

تو۔۔۔۔
آج راجا فدا صاحب کے گھر کا چراغ ج ن س ی ا س ت ح ص ا ل ، تشدد ، جبر کا شکار ہوکے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے تو کل ۔۔۔۔ اپکے گھر کی باری بھی آئے گی ۔۔
کیا آپ نہیں چاہینگے کہ آپ کے بچے ہمارے معاشرے کے گندے گھناؤنے کرداروں سے ہر طرح محفوظ رہیں ؟ کیا آپ نہیں چاہے گے کہ آپکا بیٹا فون سننے گھر سے باہر چلا جائے عزت، خیریت اور سلامتی کے ساتھ واپس گھر بھی پہنچ جائے ؟
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچوں کی عزت ، سلامتی قائم محفوظ رہے تو اس کیس کے مجرموں کو بچانے ، انکا اصل گھناؤنا جرم چھپانے ، انکی سزا کم کرکے ضمانتیں یقینی بنانے کی کسی گھناؤنی سازش کا حصہ بننے کا سوچنے سے بھی گریز کریں
ورنہ لردار بدل جائینگے کہانی وہی دہرائ جاتی رہے گی اور معلوم نہیں کتنی جلدی آپ بدلے کردار کے ساتھ اسی کہانی کا حصہ ہونگے ۔۔

تحریر: فہمیدہ برچہ
۔
۔

16/09/2025

گلگت(پ ر)سرپرست اعلیٰ امین آباد یوتھ و نمبر دار اعلیٰ جوٹیال بالا بہرام خان ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ گلگت کے مقامی لوگوں نے چند پیسوں کی خاطر اپنی زمینیں غیرمقامی لوگوں کو اونے پونے داموں میں فروخت کی ہیں جس کی وجہ سے گلگت شہر جرائم کا گڑھ چکا ہے۔غیر مقامی جرائم پیشہ افراد کے گلگت میں آنے کی وجہ سے گلگت کا سکون بھی برباد ہوچکا ہے۔بہرام خان ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ گلگت کے مقامی افراد کو چاہیے کہ وہ ہر محلے میں نوجوانوں اور بزرگوں پر مشتمل محلہ جاتی کمیٹیاں تشکیل دیں اور باہر سے آکر زمین اور مکان خریدنے والے افراد کی تفصیلات جمع کریں تاکہ جرائم پیشہ افراد کو پہچاننے میں آسانی ہو۔۔ان کا مذید کہنا تھا کہ گلگت بلتستان حکومت اور گلگت بلتستان پولیس کو چاہیے کہ وہ گلگت شہر کے داخلی راستوں پر باہر سے آنے والے افراد کی انٹری کا سلسلہ بھی شروع کریں تاکہ جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع آسان ہو۔لمبردار اعلیٰ جوٹیال بالا بہرام خان ایڈوکیٹ کا مذید کہنا تھا کہ گلگت شہر میں موٹرسائیکلوں، گاڑیوں اور دیگر سامان کا چوری ہونا معمول بن چکا ہےلیکن حکومت اور پولیس ستو پی کر سورہی ہے۔اگر حکومت چوروں کو گرفتار نہیں کرسکتی تو پھر مختلف علاقوں کی یوتھ خود چوروں پر نظر رکھے گی اور انہیں سبق سکھائے گی۔۔ان کا مذید کہنا تھا کہ گذشتہ دن غذر سے تعلق رکھنے والے نوجوان راجہ کاشان کو زیادتی کے بعد انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا جو قابل مذمت ہے۔۔امین آباد یوتھ یوتھ مطالبہ کرتی ہے کہ ایسے درندوں کو بیچ چوراہے پر لٹکایا جائے تاکہ آئندہ کسی کو ایسا گھناونا عمل کرنے کی ہمت نہیں ہو۔۔بہرام خان ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ راجہ کاشان قتل کے پیچھے تین افراد کا ہاتھ نہیں بلکہ اسکے پیچھے پورا ایک گینگ شامل ہے۔۔کاشان قتل
پرحکومت تحقیقات کے لئے فوری طور پر اعلیٰ سطحی جے آئی ٹی تشکیل دے اور گلگت شہر میں موجود اس گروہ کو کیفردار تک پہنچائے۔۔آخر میں بہرام خان ایڈوکیٹ نے راجہ کاشان کی غمزدہ فیملی کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے۔۔

16/09/2025

گلگت اور اہلیانِ گلگت کو معاف کریں

تحریر: شفقت انقلابی

راجہ کاشان کے ساتھ پیش آنے والا دلخراش واقعہ دل کو افسردہ کر گیا۔ مجرموں کو سخت سزا دی جائے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات ہوں۔ رب ہر ماں کے جگر گوشے کو درندوں کے شر سے محفوظ رکھے۔

اس کیس کے آڑ میں گلگت شہر اور یہاں کے باسیوں پر کیچڑ اچھالنا سراسر زیادتی ہے۔ گلگت کے لوگ جی بی بھر میں سب سے نایاب اور شفیق ہیں۔ اس شہر نے شندور سے ہینزل، سکوار سے کوہستان، جگلوٹ سے کھرمنگ تک آنے والوں کو تعلیم، کاروبار اور روزگار کے لیے اپنے آغوش میں جگہ دی۔ آج گلگت کی ستر فیصد آبادی دیگر علاقوں سے آ کر آباد ہوئی ہے۔ اکثر وارداتوں میں غیر مقامی افراد ملوث پائے گئے ہیں، کریمنل ریکارڈ اس بات کی گواہی دیتا ہے۔

ہمارا بچپن 1983 سے 1997 تک گلگت میں گزرا۔ لالی محلہ امپھری، مجینی محلہ، نگرل، پونیال روڈ، ریڈنسی ایریا، برمس اور جوٹیال تک کی گلیاں ہماری یادوں میں آج بھی بسی ہیں۔ ہم نے گلگت اور گلگتیوں جیسا پیار کہیں نہیں پایا۔ اُس وقت یہاں اصل گلگت کے باسی اکثریت میں تھے، مگر آج غیر مقامی افراد کاروبار، نوکریوں اور جائیدادوں میں حاوی ہو چکے ہیں۔

اہلیانِ گلگت برسوں سے ہمارا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ اب کم از کم یہ ظلم نہ کریں کہ باہر سے آنے والوں کے جرائم کا داغ بھی انہی پر لگا دیا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ شہید کاشان کے کیس میں دونوں مجرم گلگت کے نہیں ہیں، پھر بغضِ گلگت میں یہاں کے باسیوں کے خلاف زہر کیوں اگلا جا رہا ہے؟

خدا را! گلگت اور اس کے باسیوں پر سوالات بند کریں۔ میرا آبائی تعلق بوبر پونیال سے ہے لیکن گلگت میری تیسری محبت ہے، جس پر ناز تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ دعا ہے رب میرے گلگت کو بیرونی درندوں کی غلاظت سے محفوظ رکھے۔

---

16/09/2025

نقــــــــــــــوش:ضمیر کا خوں
تحریر: عاکف جاوید

گزشتہ روز ہونے والے سفاک،کھٹور دل،ہولناک،اور وحشت آلود واقعے کی خبر سن کر بہت اذیت پہنچی کچھ پل کے لیے اندھیرا چھا گیا،اس واقع اور حادثے کو لے کر گلگت بلتستان کے نامور افکار نے خوب لکھا ،بڑا لکھا اور دلوں کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کی لیکن کہاں ایسے واقعات اور حادثات کے بارے لکھ کر دلوں کو سکون ہوسکتا ہے جب تک ان حرامزادوں کو کھلے عام عبرت کا نشان نہ بنایا جائے تب تک میڈیا میں گردش کرنے والی خوبصورت اور مظلوم و مرحوم نوجوان کی تصویر کئی اور دلوں اور دماغوں کو زخم کردے گی۔اس تکلیف کی شدت کو کم کرنے کے لیے ان تینوں سفاکیوں اور مجرموں کو کھلے عام عبرت ناک سزا دی جائے ۔جوکہ رجم ہے۔
رجم کی تعریف:
ایسی سزا جس میں مجرم کو پتھر مار مار کر ہلاک کیا جائے، انسانی تاریخ کی سب سے سخت اور عبرتناک سزاؤں میں شمار ہوتی ہے، جسے "رجم" کہا جاتا ہے۔ یہ سزا محض جسمانی اذیت نہیں بلکہ ایک اجتماعی نفرت اور قہر کا عملی اظہار ہوتی ہے، جہاں معاشرہ خود انصاف کا پتھر اٹھاتا ہے۔ رجم نہ صرف گناہ کی شدت کا مظہر ہے بلکہ یہ معاشرتی اقدار کی حفاظت کا آخری انتباہ بھی ہے۔ جب جرم اس حد کو چھو لے کہ اس کا ارتکاب فطرت، اخلاق اور دین—تینوں کے خلاف بغاوت بن جائے، تو ایسی سزا ایک درس بن کر باقی معاشرے کو یہ باور کراتی ہے کہ کوئی شخص قانون، اخلاق اور شریعت سے بالاتر نہیں۔ یہ سزا سخت ضرور ہے، مگر بعض جرائم کی سنگینی اس درجہ عبرت کا تقاضا کرتی ہے۔
تینوں ملزموں اور مجرموں نے گلگت بلتستان کی تاریخ میں کیل ٹھونک دیا ہے جس کی وجہ سے تمام عظیم اور ذہین لوگ اذیت کا شکار ہیں۔گلگت بلتستان کی تاریخ میں کبھی ایسی سفاکیت نہیں ملے گی۔لہذا ان مجرموں نے اخلاقی،سماجی اور دینی و مذہبی حدوں کو کراس کیا ہے جوکہ ناقابلِ برداشت ہے
ہم جنس پرستی
فطرتِ انسانی کا جمیل نظام، جسے خالقِ کائنات نے حکمت و عدل کے ترازو میں تول کر مرتب کیا، آج چند حرامی نسلوں اور اذہانِ بیمار کے ہاتھوں بگاڑ کا شکار ہے۔ ہم جنس پرستی، جو فطری توازن کے منافی اور تہذیبی قدروں کے برعکس ہے، ایک ایسا ناسور ہے جو روحانی بگاڑ، اخلاقی انحطاط اور معاشرتی انتشار کو جنم دیتا ہے۔ جب محبت کا مفہوم نفس پرستی کے قالب میں ڈھل جائے تو وہ نور نہیں رہتی، وہ حرص کی سیاہی بن جاتی ہے۔ یہ روش وہی ہے جو تہذیبوں کے زوال کی کہانیوں میں عبرت بن کر محفوظ ہے۔
قاتل اور سفاک
وہ شخص جو انسانی حرمت کو پامال کر کے زندگی کے مقدس چراغ کو بے دردی سے گل کر دیتا ہے، دراصل وحشت کا چلتا پھرتا پیکر ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک جان لیتا ہے بلکہ ایک خاندان کی امید، خواب، سکون اور
مستقبل کو بھی قتل کر دیتا ہے۔ ایسے سفاک عناصر بگڑے ہوئے معاشرے کے چہرے پر تمانچہ ہیں، جو انصاف، امن اور قانون کے دامن کو تار تار کر دیتے ہیں۔ قاتل کی روح میں اگر کبھی روشنی تھی بھی، تو اب وہ ظلمت کی ایسی کھائی میں جا گری ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔
اخلاقی و اجتماعی تناظر
یہ دونوں بیماریاں—ہم جنس پرستی اور قتل—دراصل ایک بڑے اخلاقی زوال کی علامتیں ہیں۔ جب انسان فطرت سے بغاوت کرتا ہے اور نفسانی خواہشات کو راہبر بنا لیتا ہے تو نہ صرف اس کی ذات، بلکہ پوری ملت تباہی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ ہمیں لازم ہے کہ اپنی نسلوں کو قرآنی تعلیمات، سیرتِ مصطفیٰ ﷺ، اور اخلاقی بصیرت سے آراستہ کریں تاکہ معاشرہ پاکیزگی، امن، اور عدل کی بنیاد پر استوار ہو۔ بصورتِ دیگر، یہ اندھیر نگری ہر طرف اپنا سایہ پھیلائے گی، اور ہم پچھتاوے کے سوا کچھ نہ پائیں گے۔
لہذا ہم حکومت گلگت بلتستان اور اس کے اہم اداروں سمیت سول سوسائٹی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان بھیڑیوں کو اذیت ناک سزا دی جائے تاکہ دوبارہ اس طرح کی غلیظ حرکت غلطی سے بھی کوئی نہیں کرے گا۔اس لیے ہم اس مرحوم نوجوان کے اہل وخانہ اور رشتہ داروں کی دکھ و اذیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کڑی سی کڑی سزا کا مطالبہ کرتے ہیں اور نوجوان سوشل میڈیا یوزر سے گزارش ہے کہ ان مجرموں کو رجم کرنے تک ہم چپ نہیں ہونگے۔ان بےغیرتوں کو انجام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کریں گے اور بطور گلگتی ایک قوم اور خاندان ہونے کا ثبوت دیں گے۔سماجی اور اخلاقی قدروں کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس غم زدہ لواحقین اور خاندان کے دکھ و افسوس کے ایام میں کھڑے ہونا ہمارا اخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے۔ہم سب اس اذیت و غم میں اس شہید کے اہل وخانہ کے ساتھ ہیں

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when لینز Lens posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to لینز Lens:

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share