Qalam Qafla

Qalam Qafla قلم قافلہ میں محبت قلم سے
چلو آؤ اردو کی زلفیں سنواریں

نیشنل ہائی وے پولیس کے اہلکار اپنے بچوں کو حرام کھلا رہے ہیں۔   نیشنل ہائی وے پولیس کا باوا آدم ہی نرا لہ ہے ، فروٹ فروش...
04/09/2023

نیشنل ہائی وے پولیس کے اہلکار اپنے بچوں کو حرام کھلا رہے ہیں۔

نیشنل ہائی وے پولیس کا باوا آدم ہی نرا لہ ہے ، فروٹ فروش اگر 150 روپے کلو آم دے تو اس کے وارے نیارے ، اگر انکار کر دے تو اس کی ریڑھی ٹریفک میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے لیکن قصور نیشنل ہائی وے پولیس کا نہیں جب حکمران ہی چور اور ڈکیت ہوں ، تو ان باوردی راہزنوں اور بھتہ خوروں کو ، کون پوچھے گا
نیشنل ہائی وے پولیس کی یہ واردات میرے گھر کے سامنے ہوئی ۔ نیشنل ہائی وے پولیس کی دو گاڑیوں میں ہائی وے پولیس کے اہلکار فروٹ فروش سے کچھ تقاضہ کر رہے تھے فروٹ فروش کے ہاتھ میں ریٹ لسٹ تھی میں کچھ فاصلے پر تماشہ دیکھتا رہا ، ان کے جانے کے بعد میں نے فروٹ فروش سے پوچھا تو کہنے لگا ، آم 150 روپے کلو مانگ رہے تھے جو کہ میری خرید ہی نہیں۔ میں نے انکار کیا تو جاتے ہوئے کہنے لگے تمہاری ٹیلہ ٹریفک میں رکاوٹ ہے ہٹاﺅ یہاں سے ،
کھاریاں میں شہر کی گنجان آباد ی سے باہر جی ٹی روڈ کے اطراف میں لوڈر رکشوں میں فروٹ سبزی کے سٹال لگائے محنت کش روزی کما تے ہیں ، لیکن نیشنل ہائی وے پولیس کا باوردی بھتہ مافیا انہیں پریشان کئے ہوئے ہے ، جبکہ شہر بھر میں جی ٹی روڈ کے اطراف میں فروٹ سبزی فر وشوں کے سٹال لگے ہیں جو ٹریفک میں رکاوٹ کا سبب ہیں ، لیکن ان سے نیشنل ہائی وے کے ” بس بے “ کے ٹھیکیدار ب بھتہ لیتے ہیں ۔ اس لئے وہ ٹریفک میں رکاوٹ کا سبب نہیں ،
کھاریاں شہر میں ، جی ٹی روڈ کے اطراف میں ، رکشوں اور خوانچہ فروشوں کی بھر مار کی وجہ سے شہریوں کا پیدل گذرنا تک محال ہے ، گرلز کالج کے سامنے ٹریفک جام رہتی ہے لیکن اندھر نگری چوپھٹ راج میں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ، نیشنل ہائی وے پولیس کے اہلکار ، شہر سے باہر جہاں چاہیں ٹرکوں اور موٹر سائیکل سواروں کے چالان کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں ، جابر حکمران کے ستائے ہوئے مجبور محنت کش پاکستانیوں کے جیب پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے نیشنل ہائی وے پولیس کے اہلکارجانے کیوں نہیں سوچتے کہ وہ اپنے بچوں کو حرام کھلا رہے ہیں۔

--

03/09/2023
Video link
13/09/2022

Video link

بزم گل ،، قلم قافلہ پاکستان

https://youtu.be/luRMcAi7PTYغزل محفل قلم    ،،،،،   قافلہ پاکستان
26/11/2021

https://youtu.be/luRMcAi7PTY
غزل محفل قلم ،،،،، قافلہ پاکستان

کلام شاعر بزبان شاعر ''''''''' نظم ''' میرے تخیل کا ہر منظر دنیا کے باغات

https://youtu.be/i5pVs3XOB-o
19/11/2021

https://youtu.be/i5pVs3XOB-o

نعت انتخاب ،،،گل زار مصطفیٰ،،، کلام ،،آصف زیدی کراچی،، اخلاق عاطف سرگودھا ،، انا دھلوی،،دھلی بھارت

https://youtu.be/4MOMon7s2PY
18/11/2021

https://youtu.be/4MOMon7s2PY

غزل انتخاب،،، سوچ رت 2016 تین شعرا ء کا منتخب کلام ، پیش خدمت ہے

21/10/2021

غزل انتخاب، 2021

20 ،اکتوبرتک وصول درج ذیل 276 شعراءوشاعرات کا کلام وصول ہوا ہے ۔اگر آپ نے کلام پوسٹ کیا ہے اور فہر ست میں آپ کا نام نہیں یا آپ کا نام غلط لکھا ہے تو تک رابطہ کریں، 31 ، اکتوبر کو انتخاب پریس میں طباعت کے لئے بھیج دیا جائے گا ۔ ان شاءاللہ
گل بخشالوی ،
ناظمِ اعلیٰ قلم قافلہ پاکستان
+92 302 5892786
''''''''''''''''
آفتاب مضطر ۔ آفتاب خان ۔ آغا ابنِ مظہر ۔ آصف خان صادر ۔آئرین فرحت ۔ آفتاب عالم، آصف ثاقب ۔ آزاد ضمیر انصاری
آزاد مانجھا گڑھی ۔ احسن نذیر اکمل ۔ ا حمد وصال ۔ انجم عثمان۔ اوصاف شیخ ۔ امتیاز انجم۔ انجم جاوید ۔ ایوب عادل ۔ اقبال بالم ۔ ابنِ عظیم فا طمی ۔ افضل ہزاروی ۔ پروفیسراختر چیمہ ۔ اکرام الحق ۔ اعجاز عزائی ۔ ڈاکٹراسحاق ورد گ ۔ اسد رضا سحر۔ افتخار شاہد ابو سعد ۔ افتخار احمد خٹک ۔ اعظم سہیل ہارون۔ ایم شیراز انجم ۔ ڈاکٹرافروز عالم ۔ ادیبہ بابر علی ۔ ایم اے گلشن ۔ امتیاز ایوب ۔ ایس ایم تقی ۔اعجاز قریشی ۔ احسان گھمن ۔ انعام الحق صابری۔ اشفاق انجم ۔ اشفاق شاہین ۔ امین عاصم ۔ سیداقبال شارب ۔ اکرام اللہ اکرام ۔ اسد اصغر سچیاری ۔ ارشد شاہین ۔ اے آر ساغر ۔ اشفاق چترانوی ۔ ارشد محمود ارشد۔ اعجاز روشن ۔ اشعر علی ۔ احسان سید۔ ۔ابراہیم شوبی ۔ ۔ ابنِ صفدر ۔ سید انیس جعفری ۔ احمد علی برقی اعظمی۔ایم اظہر فیروزی ۔ ایم رفیق مغل۔ ڈا کٹر امجد علی بابر ۔ احمد حنیف جامی ۔ افروز رضوی ۔ اسد اللہ امواوی ۔ بی اے ندیم ۔ ۔ باصر نسیم ۔ بلند اقبال ۔ بلال اسعد۔ باسط ادیب ۔
پرویز مظفر ۔ تاثیر جعفری ۔ توقیر سید ۔ تنویر پھول ۔ تاجور سلطانہ ۔ تنویر دانش ۔ ثمینہ گل ۔ ثنا اللہ عافی ۔ثمر بکراسوی ۔ جنید آذر ۔ جابر نظامی ۔ جاوید صادق ۔ جاوید شاہد ۔ جمیل قمر ۔ جمشید اقبالحنیف شارب ۔ پروفیسرحماد خان ۔ حسیب جمال ۔ حماد زیف ۔ حسن سلطان ۔ حمید اللہ خان ۔ حسنین عاقب ۔ خورشید ازہر ۔ خادم حسین خاکسار ۔ خبیب احمد کنجاہی ۔ خادم گیلانی ۔خالق آرزو ۔ خرم شاہ ۔ دل شاد احمد ۔ دائم ساگر ۔ ذوق کشمیری ۔ ذکی طارق بارہ بنکوی ۔ ذیشان علی عکس ۔ راحت سرحدی ۔ رضوان حیدر رضوان۔ رفیق لود ھی ۔ رضوانہ رضی ۔ رئیس حیدر انصر ۔ راشد منصور ۔ ۔ راشد منصور ۔ ریاض ساغر ۔ روبن سن روبی ۔ راز محمد ۔ رخسانہ تنویر رضی ۔ روبینہ ممتاز روبی ۔ رشید آفرین ۔زیب النسا زیبی۔ زین العابدین۔ زاہد انجم ۔ زاہد حسین زیدی۔ زرقا نسیم غالب ۔ سلیم ےاور ۔ سیدہ کوثر ۔ سبین یونس ۔ سید محمد طاہر ۔ سید انصر ۔ سلیم فوز ۔ سائرہ سائرہ ۔ ساحل قادری ۔ سرفراز بزمی ۔ سلیم جاوید ۔ سیف الرحمان صاعد ۔ سلطان سکون ۔ سعدیہ ہما ایڈووکیٹ ۔ سالک اعظم ۔ سیدہ سعدیہ فتح ۔
شفیق مراد ۔ ڈاکٹرشاکر کنڈان ۔ شہناز شازی ۔ شیرین گل رانا ۔ شاہ نواز سواتی ۔ شاداب کوچالی ۔ شفیق رائے پوری ۔ شہزاد نیئر ۔ شہزاد بزمی ۔ شاہد شوق ۔ شاہ روم خان ولی، ۔ شاز کھرل ۔ شوکت محمود شوکت ۔ شبیر نازش ۔ شہیر رضوی ۔ شبانہ زیدی شبین ۔ شاد بلرام پوری ۔ شبانہ عشرت
ڈاکٹر صوفیہ سطو ت۔ صدیق صا ئب ۔ صاحب جمالی ۔ صائم سنی ۔ صبا عالم شاہ ۔ صائب خان ۔ ضیاءشہزاد،۔ ضیاءشاہد ۔ طاہرہ رباب ۔ طارق اسد ۔ سید طاہر شہرازی۔ طارق تاسی ۔ طاہرہ اکرام رما ۔ عطا اللہ صادق ۔عطا ر راٹھور عطا ۔ عمران یاد گیری ۔ عظیم انصاری ۔ عاصم بخاری ۔ عاصم عاصی۔ عابد علی جنون۔ عابد علی خا کسار ۔ عبدالعزیز عزیز ۔ عزیز عادل ۔ عاطف جاوید عاطف ۔ ڈاکٹرعزیز فیصل ۔ عبداللہ باصر ۔ عامر شریف ´۔ عصیم صلیبی ۔ عتیق الرحمان صفی ۔ ۔ عظیم الحسن عزمی ۔ عنبر شمیم ۔ عروج زیب ۔ڈاکٹر عمر قیازقائل ۔ ڈاکٹرعبدالباسط راٹھور ۔ ملک عتیق الرحمان ۔ عمران تنہا ۔ عمر علی عمر ۔
عابد علی سہو ۔ عین عمر ۔ عدیل شیرازی ۔ علی شیدا ۔ عبد الرحمان انیس ۔ عارف پرویز نقیب ۔ عابد نواب سہارن پوری ۔ غلام فرید راجہ
فریدہ انجم ۔ فرزانہ فرحت ۔ فیضان فیضی ۔ فرزانہ سید جبار ۔ فخر یا سین ۔ فر ہاد احمد فگار ۔ فیصل مضطر۔ ۔ فدا حسین ۔ فریدہ خانم ۔ فیروز ناطق خسرو ۔
ڈاکٹر فرحت عباس ۔ فیاض ڈومکی ۔ قمر صدیقی نیروی۔ قمر رضا شہزاد ۔ قمر عباس قمر ۔ قیصر فاروقی ۔ کاروان خورشید ۔ کامران مغل ۔ کلیم ضیاء۔ کاظم شیرازی ۔ گوہر رحمان مردانوی ۔ گل بخشالوی
مظفر احمد مظفر ۔ ماجد جہانگیر ۔ محمد علی ایاز ۔ مقدس طاہرہ ۔ ۔ مراد ساحل ۔ ممتاز منور ۔ محبوب کاشمیری ۔ محمد اعجازالتاثیر ۔ مقبول ا حمد مقبول ۔ محمد علی سوز ۔ ڈاکٹر منور کنڈے۔ محمد انیس انصاری ۔ محمد عثمان منور ۔ محمد ارباب بزمی ۔ محمد اکبر خان ۔ محمد عمر ۔ محمد تقی راجپوت ۔ ماہی مغل ۔ مشیر احمد مشیر۔ منظور احمد بزمی ۔ منزہ سحر ۔ مجاہد لالٹین ۔ م سرور پنڈولوی ۔ معظمہ نقوی ۔ محبوب جھنگوی۔ ماہناز بنجمن ۔ مشتاق دربھنگوی
مراد ساحل ۔ مدثر حبیب جامی ۔ مشتاق قادری ۔ ڈاکٹر منور ہاشمی۔ ماہ نو ماہم ۔ محمد زین العابدین ساحر ۔ مزمل صفی ۔ محمد زبہر ساہی ۔ محمد صاحب خان ۔ مہدی بخاری ۔ منصور فائز ۔
نزہت جہاں ناز ۔ نعیم اختر اعوان ۔ نعیم رسول شاکر۔ ندیم اسلم ۔ نذر فاطمی ۔ نفیسہ حیا ۔ نورالدین ثانی ۔ نذیر اظہر کٹیہاری ، ناز ہاشمی ۔ نادرہ ناز ۔ ندا عارفی ۔ ناصر داوود ملک۔ نسیم شاہانہ سیمیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر نجم الہد یٰ ۔ نواز شاہی ۔ وکٹوریہ پیٹرک امرت، وقار جونپوری ۔ وفا چوہدری
یاسین کنہبر ۔ یاسمین سلطانہ ، ۔ یاسمین حزیں ۔ ڈاکٹریو نس فہیم ۔ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ، ۔ ہاشم بلال ہاشم

قیامِ امریکہ کے دوران ِِِ،،،،،  اپنے شہر کھاریاں سے  جذبات کی عکاسی میں امریکہ صرف قرضہ اتارنے گیا تھا۔ ورنہ میں اپنی زن...
09/11/2020

قیامِ امریکہ کے دوران ِِِ،،،،، اپنے شہر کھاریاں سے جذبات کی عکاسی میں امریکہ صرف قرضہ اتارنے گیا تھا۔ ورنہ میں اپنی زندگی میں کھاریاں کیسے چھوڑ سکتا ہوں کھاریاں کے محبوب شہریوں نے تو مجھے میری پہچان دی ہے میں اآج کھاریاں میں ربِ کریم کی عطا سے زندگی کی ہر مسرت جی رہا ہوں

08/11/2020

·
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو مارو گے۔۔نصیر کوی
ڈاکٹر غافرشہزاد
اردو ادب کی تاریخ میں کچھ شعرا ایسے بھی ہیں جو ایک شعر سے پہچانے جاتے ہیں۔ کچھ شعرا کا خیال ہے کہ دیوان کے دیوان بھر دئیے مگر ایک شعر نہ نصیب ہوا۔ اور اللہ کے حضور دعاگو رہتے ہیں کہ ایک شعر نصیب ہو جائے۔نصیر کوی کا شمار بھی ایسے ہی شعرا میں ہوتا ہے۔ 1990ء میں جب بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کر دی گئی تو وہ لوگ جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی سحر انگیز شخصیت سے اپنے خواب وابستہ کر لیے تھے،ایک بار پھر ٹوٹے۔ اور ان ہی دنوں میں نصیر کوی پر ایسی کیفیت طاری ہو ئی کہ اس نے اپنی یہ نظم تخلیق کی، ”ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو مارو گے“۔ نظم کا یہ مصرع کچھ ایسا پر تاثیر تھا کہ خوشبو کی طرح پھیل کر زبان زد ِعام ہو گیا۔ ہر شخص کو یوں لگا جیسے یہ اس کے دل کی آواز ہے۔یہ نظم جہلم سے تعلق رکھنے والے شاعر نصیر کوی کی پہچان بن گئی اور وہ بھی اس طرح کہ شاعر کا اپنا تعارف بہت پیچھے رہ گیا اور اس کی نظم اس سے بہت آگے چلی گئی۔جیسے خالد شریف کا شعر، ”اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا“ یا پھر شعیب بن عزیز کا یہ شعر، ”اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں“۔
”تاریخ جہلم“کے مصنف انجم سلطان شہباز نے لکھا ہے کہ”نصیر کوی 9اکتوبر 1947ء کو جہلم میں پیدا ہوئے“۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول جہلم سے حاصل کی مگر گھریلو حالات ایسے نہ تھے کہ مزید تعلیم جاری رکھ سکتے، لہٰذا مزدوری کا آغاز ہوا۔ گھر کا چولہا جلانے کے لیے اپنا خون جلانا نصیر کوی کے مقدر میں آغاز میں ہی لکھا جا چکا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ایوب خان کے دور میں تربیلا ڈیم بن رہا تھا، وہاں مختلف نوعیت کے کاموں کی مزدوریاں مل رہی تھیں۔ محسن شیخ اور اس کے بعد نصیر کوی، دونوں ہی شاعر تھے، مزدوری کے لیے تربیلا پہنچے۔محسن شیخ اکاؤنٹس کے شعبے سے وابستہ تھا مگر نصیر کوی کے پاس ایسا کوئی ہنر نہ تھا۔ اس نے لکڑی کا کام سیکھ رکھا تھا، تربیلا میں وہ لکڑی کے کام کی مزدوری ہی کرتا تھا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ چار سال کے لیے سعودی عرب چلا گیا۔ واپس آیا تو ان دنوں شہزاد قمر بحرین سے جہلم لوٹ کر آیا ہوا تھا۔ دونوں دوستوں کے پاس جو جمع پونجی تھی، انہوں نے مل کر گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کے اڈا پر ”ساندل بار“ کے نام سے ایک سنیک بار کھول لیا۔”ساندل بار“ کی تزئین و آرائش میں نصیر کوی اور شہزاد قمر نے اپنے ذوق جمالیات کی ساری صلاحیتوں کو استعمال کیا۔یہ ایک خوبصورت اسنیک بار تھا، جس کا نام معروف آرٹسٹ اسلم کمال نے اپنے مخصوص انداز تحریر میں ڈیزائن کیا تھا اور جو اسنیک بار کی پیشانی پر آویزاں تھا۔ مگر اتفاق ایسا کہ اس ساندل بار کے باقاعدہ افتتاح سے پہلے ہی شہزاد قمر نے اس کاروبار سے علیحدگی اختیار کر لی اور دینہ میں فیشن پوائنٹ کے نام سے ٹیلرنگ کی دکان کھول لی۔ اب ساندل بار کو چلانا نصیر کوی کے ذمہ تھا اور وہ کئی سال تک اسے چلاتا رہا۔ ہمدانی ٹی سٹال کے علاوہ جہلم میں یہ دوسرا ٹھکانہ تھا جہاں شاعر ادیب شام کو مل بیٹھتے تھے۔ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان سفر کرنے والے شعرا اور ادبا بھی دوران سفر یہاں ٹھہرتے، اور ان کی کسی نہ کسی سے ملاقات ہو جاتی۔جہلم شہر کی بسوں کا اڈا لاہور موڑ منتقل ہو جانے کے بعد یہ کاروبار ڈھیلا پڑ گیا اور نصیر کوی کو سگریٹ پان کا کھوکھا بنانا پڑا۔ اس کے ساتھ وہ لکڑی کے فرنیچر کا کام بھی کرتا رہا۔البلا ل ہوٹل کالاموڑ کے کھل جانے کے بعد دوستوں نے نصیر کوی کو یہاں ایک کھوکھا بنا دیا جو اس کے مرنے کے بعد آج بھی اس کے خاندان کے افراد کے لیے واحد ذریعہ معاش ہے۔ ایسے نامساعد حالات میں تخلیقی عمل جاری رکھنا بذات خود ایک چیلنج تھا۔ نصیر کوی پہلے اردو میں ہی شاعری کرتا تھا مگر آخری برسوں میں ایک تو وہ سیاسی جلسوں میں عملی شرکت کرنے لگا تھا اور دوسرا اس نے پنجابی شاعری میں زیادہ سہولت محسوس کی اور اس جانب متوجہ ہوا۔ اس کی شاعری جہلم کے سیاسی جلسوں کا ایک لازمی جزو بن گئی۔ یہی وہ اثرات تھے جنہوں نے نصیر کوی کا شعری مزاج ایک نئے قالب میں ڈھالا۔ ان برسوں میں ایک جانب جوگی جہلمی کی پنجابی شاعری اور دوسری جانب تنویر سپرا کی مزاحمتی شاعری کا طوطی بولتا تھا، ان دونوں کے خمیر سے نصیر کوی کی شاعری کا ایک الگ رنگ تشکیل پایا۔اس کا کلام ان برسوں میں پنجابی ادبی رسائل”ماں بولی، رویل، پنجابی ادب، پنچم،ماہنامہ پوٹھوہار رنگ، ماہنامہ روہتاس رنگ“ میں مسلسل شایع ہوتا رہا اور پنجاب میں اس کی ایک پنجابی شاعر کے طور پر الگ پہچان بنی اور مقبولیت ہوئی۔ اس کے انتقال سے چند دن پیشتر اس کا پہلا اور آخری شعری مجموعہ ”ساڈے ہتھ اگنی دا تا“سانجھ پبلیکیشنز کے تعاون سے نصیر کوی کے دیرینہ دوست جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد انوارالحق ملک نے شایع کروایا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب نصیر کوی کو کینسر کی تشخیص ہو چکی تھی اور وہ موت و حیات کی کشمکش میں تھا۔ اسے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ اس کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں مگر وہ ایک حوصلے کے ساتھ یہ آخری ایام گزارتا رہا، دوست ملنے جاتے تو ان سے باتیں کرتا، اس کے لہجے سے کبھی کبھی شکستگی جھلکتی مگر پھر وہ اپنا حوصلہ قائم کر لیتا۔ اسے موت سے کوئی خوف نہیں تھا مگر ساری زندگی صحت مندی کے ساتھ گزارنے والا نصیر کوی کینسر جیسے موذی مرض کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر پا رہا تھا۔ مگر اس کے سب دوستوں کو علم تھا کہ حقیقت تو یہی تھی۔
البلا ل ہوٹل کالا موڑ میں پان بیڑی کا کھوکھا کھولنے کے بعد میری اس سے ملاقاتیں اس لیے بھی ہونے لگی تھیں کہ میرا گاؤں اس کے سامنے تھا اور لاہور سے آتے اور واپس جاتے میری اس سے ملاقات ہو جاتی۔وہاں اقبال کوثر صاحب بھی آ جاتے، اور یہ محفل خوب جمتی۔ امداد ہمدانی کے ٹی سٹال، اور ساندل بار کے بعد نصیر کوی کا یہ کھوکھا ادیبوں شاعروں کے لیے ایک مشترکہ ملاقات کا مرکز بھی بنا رہا۔ شہزاد قمر بھی دینہ سے جہلم آتے جاتے یہاں رک جاتا، کبھی کبھار دینہ سے صرف نصیر کوی کو ملنے چلا آتا۔ کیسے کیسے موضوعات پر ان دنوں مباحث ہوتے۔ نصیر کوی کو شاعری سے زیادہ سماجی فلسفوں، تاریخ و تہذیب اور محنت کش تحریکوں سے دلچسپی رہی ہے۔ اس کی شاعری کا خمیر بھی ان ہی فلسفوں اور مباحث سے اٹھا تھا جس نے اس کا جہلم کے شعری ماحول میں منفرد رنگ بنایا۔
نصیر کوی کی شاعری آغاز میں ایک واجبی سے جدید غزل کا لہجہ لیے ہوئے تھی۔ اس کی اولین ترجیحات میں حصول معاش کی جدوجہد تھی۔ وہ اپنی چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کے واحد کفیل کے طور پر اپنے کاندھوں پر بوجھ محسوس کرتا تھا۔ اس کی خواہش رہی کہ اس کی زندگی میں اس کا بیٹا برسر روزگار ہو جائے۔ بچوں کو تعلیم اس نے استطاعت سے بڑھ کر دلائی مگر وقت کی ڈور مختصر ہو گئی تھی اور اس کا آخری سرا اس کی توقع سے پہلے ہی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ گھر سے البلال ہوٹل کے ساتھ پان بیڑی کے کھوکھے تک، وہاں سے محمد انوارلحق ملک کے دفتر تک اس کی زندگی کا سارا سفر ایک سائیکل کے سہارے گزرا۔دوست اس سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ دوستوں سے بھی جہاں تک ہوتا اس کی معاونت کرتے رہے کہ وہ مستقل طور پر کوئی ذریعہ معاش کا بندوبست کر سکے۔
عرفان جاوید نے اپنی کتاب ”دروازے“ میں ”ٹلا جوگیاں کا مصلّی“ کے نام سے نصیر کوی کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے جو روزنامہ جنگ میں شایع ہوا تھا۔ نصیر کوی کو اس بات کا یقین تھا کہ ”یہ بازی جان کی بازی ہے، یہ بازی تم ہی ہارو گے“ اور وہ بار بار اس بات پر اصرار کرتا رہا، اپنے محنت کشوں کو حوصلہ دیتا رہا مگر خود 24 نومبر2011ء کو کینسر جیسے موذی مرض کے ہاتھوں اپنی جان کی بازی ہار گیا۔اس کے دوستوں نے بہت کوششیں کیں، اس کے علاج میں ہر طرح کی معاونت کی، لاہور میں شوکت خانم ہسپتال تک بھی لے آئے مگرکینسر اپنے جڑیں اس کے وجود میں پھیلا چکا تھا۔
نصیر کوی نے ایک سوال کے جواب میں عرفان جاوید کو کہا تھا ”میری مٹی، جہلم کی زمین، ہمیشہ سے جنگجوؤں کو جنم دیتی رہی ہے، راجہ پورس سے لے کر آج تک ہم لوگوں نے ایک ہاتھ میں بیلچہ اور دوسرے ہاتھ میں تلوار اٹھا رکھی ہے۔ بے شک ہم عسکری لوگ ہیں لیکن مت بھولیے، ہم کن پھٹے جوگی بھی ہیں“۔نصیر کوی کی شاعری کے موضوعات اور مزاج کا تعین کرتے ہوئے ایک جانب اگر محنت اور مشقت سے زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا حوصلہ ملتا ہے، حملہ آوروں سے مقابلے کے لیے توانائی ملتی ہے تو دوسری جانب”کن پھٹے جوگی“کے دل میں موجود محبت اور لگن کی شدت اور کمٹمنٹ دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ اس کا احساس بہت زیریں سطح پر موجود ہے اور نمایاں آواز معیشت اور استحصال کے حوالے سے ہی نصیر کوی کی شاعری کا احاطہ کرتی ہے مگر پھر بھی اس کے ہاں ایک غنائیت ہے جس کی وجہ سے اس کی شاعری پڑھنے اور سننے والوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کا وجود”کھنگر اینٹ“ جیسا پوٹھوہار کے سورج تلے جل کے سخت ہو چکا ہے اور اس کو اپنے دراوڑ اور مصلی ہونے پر فخر ہے۔اس نے احساس کی سطح پر ٹلّہ جوگیاں کی قدیم تہذیب و ثقافت کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے مگر اس کے متوازی اس کے ہاں جدید معاشرت کے مسائل اور معاشرتی پیچیدگیاں اور استحصال کے بے شمار صورتیں کہ جن کے تلے آج کا انسان کچلا جا چکا ہے، اس کا تخلیقی انداز سے تذکرہ موجود ہے۔
نصیر کوی کا سن پیدائش 1947ء ہے۔ اس لحاظ سے وہ اور پاکستان ساتھ ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ دونوں کی زندگیوں کے سفر میں بے پناہ مماثلت ہے۔ دونوں کو زندگی میں بہت سے مسائل درپیش رہے ہیں جن کا دونوں نے نہایت جواں مردی سے مقابلہ کیا ہے۔مگر نصیر کوی اپنی جان کی بازی 24 نومبر2011ء کو 64 برس کی عمر میں ہار گیا۔اس کی نظم ”ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو مارو گے“ اپنے اندر استعاراتی سطح پر ایک بڑی معنویت رکھتی ہے، یہاں بھٹو سے مراد صرف ذوالفقار علی بھٹو نہیں ہے بل کہ ہر وہ شخص جو پاکستان میں مثبت تبدیلی لانا چاہتا ہے، یہ نظم اس کی جدوجہد اور درپیش مسائل کی ایک علامت بن چکی ہے۔

10/09/2020

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Qalam Qafla posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share