The World of Science

  • Home
  • The World of Science

The World of Science The World of Science - A Consciousness toward the way of science - An English version of "Science Ki Dunya"

31/03/2024
ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے مقامات سے ملی تختیوں کی لکھائی کو اب مصنوعی ذہانت سے پڑھا جائے گا ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشیمارچ ...
26/03/2024

ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے مقامات سے ملی تختیوں کی لکھائی کو اب مصنوعی ذہانت سے پڑھا جائے گا

ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی
مارچ 25، 2024
وادیِ سندھ کی تہذیب کو میسوپوٹیمیا (جدید عراق کا علاقہ) اور مصر کی قدیم تہذیب کے بعد تیسری قدیم تہذیب تسلیم کیا جاتا ہے جو پانچ ہزار سال پہلے قائم تھی اور موجودہ پاکستان، بھارت اور افغانستان کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی- اسے اس دور کی ترقی یافتہ تہذیب تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق اس تہذیب میں پیمائش کے سٹینڈرڈز متعین تھے، کئی قریبی تہذیبوں سے روابط تھے اور تجارت ہوتی تھی، اور ان کے ہاں لکھنے کا باقاعدہ سسٹم موجود تھا جس میں 500 سے زیادہ علامات استعمال ہوتی تھیں

میسوپوٹیمیا اور مصر کی قدیم تحاریر کو پڑھا جا چکا ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب سے سینکڑوں ایسی تختیاں، مہریں اور دیگر اشیا ملی ہیں جن پر ان کی مقامی زبان کی تحاریر موجود ہیں لیکن ابھی تک ان تحاریر کو پڑھنا ممکن نہیں ہو پایا- اب ماہرین ان تمام تحاریر کو ڈیجیٹائز کر رہے ہیں تاکہ انہیں مصنوعی ذہانت کو فیڈ کیا جا سکے اور پھر ڈیپ لرننگ ٹیکنالوجی سے انہیں ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کی جا سکے-

وادی سندھ میں تحریر کا کیا سسٹم رائج تھا اس کا علم ہمیں نہیں ہے- کیا یہ علامات حروف تہجی یعنی صوتی ہیں یا پھر ہر علامت کا کچھ مطلب ہوتا ہے اور مختلف علامات کو اکٹھا کر کے مفہوم ادا کیا جاتا تھا اس پر ماہرین میں کوئی اتفاق نہیں ہے- ڈیپ لررنگ ٹیکنالوجی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اسے پہلے سے یہ بتایا جائے کہ یہ صوتی علامات ہیں یا ہر علامت کا کوئی مطلب ہے- مصنوعی ذہانت ان تمام تحاریر کے بہت بڑے ڈیٹا سیٹ کا تجزیہ کر کے ان میں ایسے پیٹرنز تلاش کر سکتی ہے جو انسانوں کے لیے تلاش کرنا ممکن نہیں ہیں- یہ ڈیٹا سیٹ ایک ہزار سے زیادہ مہروں یعنی stamps سے اکٹھا کیا گیا ہے

یہ ضروری نہیں ہے کہ مصنوعی ذہانت اس تحاریر کو پڑھنے میں کامیاب ہو جائے گی- لیکن کم از کم مصنوعی ذہانت ایسے پیٹرنز ضرور تلاش کر لے گی جو بار بار استعمال ہو رہے ہیں اور ان پیٹرنز سے ماہرین کو ان علامات کا مطلب سمجھنے میں مدد ملے گی

اوریجنل آرٹیکل کا لنک:

https://phys.org/news/2024-03-machine-digitize-ancient-texts-indus.html

#قدیرقریشی

The civilization of Indus River Valley is considered one of the three earliest civilizations in world history, along with Mesopotamia and Egypt. Bigger geographically than those two as it unfolded starting in 3300 BCE across what is now Pakistan and India, the Indus civilization boasted uniform weig...

گردے کے مریض کے جسم میں سور کا گردہ نصب کرنے کا کامیاب آپریشنترجمہ و تلخیص: قدیر قریشیمارچ 21، 2024انسانی تاریخ میں پہلی...
21/03/2024

گردے کے مریض کے جسم میں سور کا گردہ نصب کرنے کا کامیاب آپریشن

ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی
مارچ 21، 2024

انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مریض کے جسم میں سور کے گردے کی کامیابی سے پیوند کاری کی گئی ہے- اس 62 سالہ مریض کے گردے بالکل ماکارہ ہو چکے تھے- جینیاتی انجینیئرنگ سے سور کے گردے میں ایسی تبدیلیاں کی گئی تھیں کہ انسانی جسم کا مدافعتی نظام اسے ریجیکٹ نہ کر دے- ایسا کرنے کے لیے اس سور کے جینوم میں 69 جگہ ایڈیٹنگ کی گئی- اس طرح گردے سے وہ پروٹینز حذف کر دی گئیں جو انسانی جسم کے لیے غیرمناسب ہیں۔ اس کے علاوہ اس سور کے ڈی این اے میں کئی انسانی جینز داخل کیے گئے تاکہ گردے میں بننے والی پروٹینز انسانی جسم کی ضروریات کے مطابق کام کریں- مزید برآں سور کے ڈی این سے سے ریٹرووائرس کا جینیاتی میٹیریل بھی حذف کر دیا گیا- ہر نوع کے ڈی این اے میں کئی وائرسز کا ناکارہ ڈی این اے موجود ہوتا ہے- سور کے ڈی این اے میں بھی ایسے ناکارہ وائرسز کا ڈی این اے موجود ہے جو سور کے جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا لیکن انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اس لیے ایسے ڈی این اے کو بھی ایڈیٹ کر کے نکال دیا گیا

یہ سرجری مارچ 16، 2024 کو امریکہ کے شہر بوسٹن کے ایک ہسپتال میں کی گئی- ڈاکٹروں کے رپورٹ کے مطابق مریض تیزی سے روبصحت ہو رہا ہے اور امید ہے کہ جلد ہی اسے ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا جائے گا- اس مریض کو کئی دہائیوں سے بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے عارضے لاحق تھے جن کی وجہ سے اس کے گردے ناکاہر ہو چکے تھے- 2018 میں اس مریض کے جسم میں ایک عطیہ شدہ گردہ پیوند کیا گیا تھا لیکن پانچ چھ سالوں میں ہی یہ پیوند شدہ گردہ بھی خراب ہو گیا جس کے بعد اس مریض کو ڈیالیسس پر ڈال دیا گیا- لیکن ذیابیطس کے مریضوں میں بعض اوقات ڈیالیسس کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ڈیالیسس کی نالیوں کے ارد گرد خون کے لوتھڑے یعنی بلڈ کلاٹس بننے لگتے ہیں جو مریض کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں

اگر یہ تجربہ کامیاب رہا اور مریض نارمل زندگی گزارنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہو گا- دنیا بھر میں ناکارہ گردوں والے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ عطیہ شدہ گردوں کی شدید کمی ہے- اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی جان صرف اس لیے چلی جاتی ہے کہ انہیں عطیہ شدہ گردہ میسر نہیں ہوتا- اگر اس نئی ٹیکنالوجی سے مریضوں کے لیے گردوں کی سپلائی کو یقینی بنایا جا سکے تو ہر سال لاکھوں جانیں بچائی جا سکیں گی

#قدیرقریشی

اوریجنل انفارمیشن کا لنک:

Massachusetts General Hospital announced the world’s first successful transplant of a genetically-edited pig (porcine) kidney into a 62-year-old man living with end-stage kidney disease (ESKD).

15/03/2024

Request to restore Science Ki Duniya

سائنس کی دنیا گروپ کی بحالی کے لیے آپ بذریعہ Email فیسبک میں اپیل دائر کرسکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل درخواست کاپی کرکے اس میں اپنا نام لکھیے اور

[email protected]

فیسبک کو ای میل کریں۔
👇

Appeal for the Restoration of "Science Ki Dunya" Facebook Group

Dear Facebook Support Team!

I am writing to you as a deeply concerned member of the "Science Ki Dunya Group" ( سائنس کی دنیا گروپ) Facebook group, which was recently closed due to copyright claims. I am reaching out to express my dismay and to appeal for the restoration of our beloved group.

"Science Ki Dunya Group" was not just a Facebook group for us, it was a vibrant community where individuals from all walks of life came together to celebrate and explore the wonders of science. The group provided a platform for meaningful discussions, sharing of knowledge, and collaboration on various scientific endeavors. It was a source of inspiration, learning, and connection for me and many others.

The closure of "Science Ki Dunya Group" has left a void in our online community and has deprived us of a valuable resource for scientific education and awareness in pakistan. We believe that the decision to close our group was made in error, as our content was always in line with Facebook's Community Standards and Copyright Policies. Our group admins strictly monitor the group and do not approve any posts that are against Facebook policies. Providing an original information link with each post is the core principle of the group.

Our discussions were educational, respectful, and aimed at promoting scientific literacy in Pakistan.

I kindly request to restore our group as soon as possible. Our Group admins Team are willing to cooperate fully, provide any necessary information or evidence, and ensure that our group continues to uphold Facebook's guidelines.

I urge you to understand the importance of "Science Ki Dunya Group" to its members and the broader scientific community in Pakistan. Restoring our group will not only benefit us as individuals but also contribute positively to the promotion of science and education on the Facebook platform.

Thank you for your attention to this matter. I look forward to a positive response and the reinstatement of "Science Ki Dunya Group" on Facebook.

Sincerely,
(Your Name)

Member Of " Science Ki Dunya Group"
Group link: https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya

15/03/2024

اعلان ۔ سائنس کی دُنیا گروپ


فیس بُک کی انتظامیہ نے بظاہر کاپی رائیٹس کی خلاف ورزی پر 'سائنس کی دنیا' گروپ کو بند کردیا ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ سائنس کی دنیا کی ایڈمنز ٹیم کاپی رائیٹس کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ فی الحال ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ فیس بک نے یہ فیصل کس پوسٹ کی وجہ سے کیا، لیکن بہرحال کہیں نہ کہیں انتظامیہ سے پوسٹ اپروو کرنے میں کہیں غلطی ہوگئی۔

سائنس کی دُنیا گروپ کی انتظامیہ مسلسل فیس بُک سے رابطے کی کوشش کررہی ہے۔ ہم نے اس فیصلے کے خلاف فیس بک سے اپیل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس دوران براہِ کرم آپ لوگ بھی اپنے طور پر فیس بُک سے شکایت کرسکتے ہیں

فیس بک پر سائنس کی دنیا کا ایک پیج بھی موجود ہے- فی الحال سائنس کی دنیا گروپ کی تمام سرگرمیاں سائنس کی دنیا پیج پر منتقل کی جا رہی ہیں جس کا لنک نیچے دیا جا رہا ہے- براہِ کرم اپنے تمام احباب سے یہ لنک شیئر کیجیے

https://www.facebook.com/sciencekiduniyaa

Facebook's Most Famous Urdu Natural Science Page

انسان اور دوسرے گریٹ ایپس کی دم کیوں نہیں ہےترجمہ و تلخیص: قدیر قریشیمارچ 05، 2024کم و بیش تمام فقاری جانوروں (یعنی ایسے...
05/03/2024

انسان اور دوسرے گریٹ ایپس کی دم کیوں نہیں ہے

ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی
مارچ 05، 2024

کم و بیش تمام فقاری جانوروں (یعنی ایسے جانور جن میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے) میں دم جسم کا ایک لازمی حصہ ہوتی ہے- جانوروں کے لیے دم ایک کثیر المقاصد ٹول ہے جس سے مختلف جانور مختلف کام لیتے ہیں۔ صرف انسان اور دوسرے گریٹ ایپس (great apes) مثلاً گوریلا، چمپنزی اور بونوبو ایسی انواع ہیں جن کی دم نہیں ہوتی، اگرچہ پرائمیٹس کی اکثر انواع کی دم ہوتی ہے- فاسل ریکارڈ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں اور دوسرے گریٹ ایپس کے مشترکہ اجداد کی دم موجود تھی لیکن اب سے لگ بھگ دو اڑھائی کروڑ سال پہلے ان اجداد کی دم معدوم ہو گئی-

اب سائنس دانوں نے وہ جین دریافت کر لیا ہے جس میں میوٹیشن سے ہمارے اجداد میں دم معدوم ہوئی- سائنسی جریدے 'نیچر' میں شائع ہونے والے ایک حالیہ پیپر میں سائنس دانوں نے ڈی این اے کی وہ سیکوینس دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس میں میوٹیشن کی وجہ سے انسانوں اور دوسرے گریٹ ایپس کے اجداد میں دم معدوم ہوئی- اس پیپر کے مصنف ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس دان ڈاکٹر بو شیا (Bo Xia) اور ان کی ٹیم ہے۔ اس ٹیم کی دریافت سے ہمیں وہ ارتقائی پریشرز سمجھنے میں مدد ملے گی جن کی وجہ سے یہ میوٹیشن ہمارے اجداد میں فائدہ مند ثابت ہوئی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ہمارے اجداد کے دو پاؤں پر چلنے کی قابلیت میں دم کی عدم موجودگی نے انتہائی اہم کردار ادا کیا- اگر ہمارے اجداد کی دم معدوم نہ ہوئی ہوتی تو انسان دو پاؤں پر چلنے پھرنے اور خصوصاً بھاگنے کی قابلیت نہ رکھ پاتے

اس سے پہلے چوہوں پر تجربات سے سائنس دان لگ بھگ سو ایسے جینز دریافت کر چکے تھے جو دم کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں- یہ تمام جینز انسانوں اور دوسرے گریٹ ایپس کے ڈی این اے میں بھی پائے جاتے ہیں- ڈاکٹر شیا کی ٹیم نے اس مفروضے سے اپنی تحقیق کا آغاز کیا کہ گریٹ ایپس کے اجداد میں دم کی عدم موجودگی کی وجہ انہی میں سے کوئی جین ہو گا- چنانچہ اس ٹیم نے گریٹ ایپس اور باقی جانوروں کے ڈی این اے میں ان سو جینز میں نیوکلیوٹائڈز کا تفصیلی موازنہ کیا تو انہیں ایک جین ملا جس کا نام TBXT ہے- یہ جین کچھ مخصوص پروٹینز کی اینکوڈنگ کرتا ہے جو حمل کے دوران جنین کے جسم میں وہ سٹرکچر بناتا ہے جن سے حمل کی اگلی سٹیجز میں دم تشکیل پاتی ہے- گریٹ ایپس میں اس جین میں ایک میوٹیشن موجود ہے جس وجہ سے یہ جین اب فعال نہیں رہا- یہ میوٹیشن تلاش کرنا آسان کام نہیں تھا کیونکہ یہ میوٹیشن ایک یا دو نیوکلیوٹائڈز کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ TBXT جین میں ایک 'جمپنگ جین' شامل ہو چکا ہے جسے AluY کہا جاتا ہے

انسانوں اور جانوروں کے ڈی این اے میں AluY بکثرت پایا جاتا ہے- انسانی ڈی این اے میں AluY کی لاکھوں کاپیاں جگہ جگہ پائی جاتی ہیں- اس جین کو 'جنک ڈی این اے' (junk DNA) سمجھا جاتا ہے۔ عموماً ڈی این اے کا یہ ٹکڑا کسی پروٹین کو اینکوڈ نہیں کرتا اس لیے اسے جین میپنگ کے دوران AluY کی سیکونس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے- عموماً یہ ٹکڑا کسی فعال جین میں پو تو بھی اس جین کی کارکردگی کو متاثر نہیں کرتا یعنی AluY کی شمولیت کے بعد بھی جین کا باقی حصہ پروٹین بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے- لیکن TBXT کے کیس میں یہ ٹکڑا جین میں ایک ایسی جگہ شامل ہوا کہ یہ حصہ اب جین کی ٹرانسکرپشن میں بھی شامل ہو رہا ہے (یعنی خلیوں کا ٹرانسکرپشن میکانزم جو جین کو پڑھ کر اس کی انفارمیشن کو آر این اے مالیکیول میں کاپی کرتا ہے، اس غیر فعال جین کو بھی آر این اے میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے)۔ اس طرح جو آر این اے بنتا ہے وہ دم بنانے کے لیے درکار پروٹین بنانے کے قابل نہیں رہتا۔ گویا اس ٹیم نے غالباً وہ میوٹیشن دریافت کر لی ہے جو ہمارے اور دوسرے گریٹ ایپس کے مشترکہ اجداد میں دم کے معدوم ہونے کا باعث بنی-

اب سوال یہ تھا کہ یہ کیسے ثابت کیا جائے کہ دم کی معدومیت کی وجہ یہی میوٹیشن تھی؟ یہ ثابت کرنے کے لیے اس ٹیم نے چوہوں پر تجربات کیے- کرسپر ٹیکنالوجی کے ذریعے چوہوں کے ایمبریو (جنین) کے ڈی این اے میں TBXT جین میں عین اسی جگہ پر AluY کی سیکوینس شامل کی گئی جہاں پر گریٹ ایپس کے ڈی این اے میں یہ سیکونس شامل ہے- اس کے بعد ان جنین کو مادہ چوہوں میں امپلانٹ کیا گیا اور حمل کے دوران ان ایمبریوز کی دم کی تشکیل کے پراسیس کو سٹڈی کیا گیا- ان ایمبریوز کی دم یا تو بالکل تشکیل نہیں پائی یا پھر بنی لیکن نارمل چوہوں کی دم سے بہت زیادہ چھوٹی رہی- اس کے علاوہ کچھ ایمبریوز میں نہ صرف دم نہیں بنی بلکہ حرام مغز بھی مکمل طور پر نہیں بن پایا اور پیدائش کے بعد ایسے چوہوں کا نچلا دھڑ مفلوج پایا گیا- عین یہی مسئلہ انسانوں اور دوسرے گریٹ ایپس میں بھی پایا جاتا ہے- انسانوں میں لگ بھگ 0.1 فیصد نوزائیدہ بچوں میں حرام مغز نامکمل ہوتا ہے

اس سٹڈی سے سائنس دانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہمارے اور گریٹ ایپس کے مشترکہ اجداد میں اب سے لگ بھگ اڑھائی کروڑ سال پہلے یہ میوٹیشن ہوئی جس سے ان میں سے کچھ اجداد کی دم بہت چھوٹی ہو گئی اور کچھ میں بالکل ہی معدوم ہو گئی- یہ وہ وقت تھا جب افریقہ میں ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے درخت کم ہو رہے تھے اور میدانوں میں اونچی گھاس بہت زیادہ ہو رہی تھی- اس گھاس میں رہنے والی انواع کے لیے دو پاؤں پر چلنا بہت زیادہ فائدہ مند تھا کیونکہ ایسا کرنے سے افراد اپنا سر گھاس سے اوپر رکھ سکتے تھے اور ارد گرد کے خطرات سے جلد باخبر ہو سکتے تھے- یہ ارتقائی پریشر اس قدر زیادہ تھا کہ دم کی عدم موجودگی افراد کی فٹنس میں خاطر خواہ اضافہ کر دیتی تھی- اس وجہ سے ہمارے وہ اجداد زیادہ کامیاب رہے جن کی دم نہیں تھی

افریقہ میں اب تک دریافت ہوئے فاسل ریکارڈ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ آج سے لگ بھگ اڑھائی کروڑ سال پہلے ہمارے اجداد درختوں کے بجائے زیادہ وقت زمین پر گھاس میں گذارتے تھے- دم کے بغیر افراد کے لیے عمودی کھڑے ہونا، دو پاؤں پر چلنا اور گھاس میں رہتے ہوئے خطرات پر نظر رکھنا نسبتاً زیادہ آسان تھا- کئی ملین سال کے پراسیس میں دم کے بغیر اجداد کی نسلیں اس قدر کامیاب رہیں کہ ان کی ذہانت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا- انہی اجداد سے موجودہ گوریلا، چمپنزی، بونوبو ارتقاء پذیر ہوئے اور ان کی ایک برانچ ارتقاء کر کے موجودہ انسانوں کی شکل میں اس دنیا میں موجود ہے

اوریجنل انفارمیشن کا لنک:

A newly discovered genetic mechanism helped eliminate the tails of human ancestors

ناسا نے  حال ہی میں مشتری کے آتش فشاں چاند آئی او  Ioکی  صاف اور کلئیر ترین تصویر جاری کی ہے۔آئی او،Io مشتری کے چار گیلی...
24/02/2024

ناسا نے حال ہی میں مشتری کے آتش فشاں چاند آئی او Ioکی صاف اور کلئیر ترین تصویر جاری کی ہے۔

آئی او،Io مشتری کے چار گیلیلین چاندوں میں سے ایک ہے، جسے ماہر فلکیات گیلیلیو گیلیلی نے 1610 میں دریافت کیا تھا۔ یہ مشتری کا چاند ، اسکےان بڑے چاندوں میں سب سے اندرونی ہے اور مشتری کا چوتھا سب سے بڑا چاند ہے۔ Io نظام شمسی میں سب سے زیادہ آتش فشاں فعال جسم ہے، جس میں 400 سے زیادہ فعال آتش فشاں ہیں۔ اس کی سطح زیادہ تر سلفر اور سلفر ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کا رنگ زرد دکھائی دیتا ہے۔

آئی او کی شدید آتش فشاں سرگرمی دراصل مشتری اور اس کے دوسرے چاندوں، خاص طور پر یوروپا Europaاور گینی میڈ Ganymede، نیز خود مشتری کے ساتھ کشش ثقل کے تعامل کے ذریعہ ٹائیڈل قوتوں کی مدد سے چلتی ہے۔ Ioکی زمینی سطح مسلسل آتش فشاں پھٹنے سے تبدیل ہوتی رہتی ہے، جو اسے نظام شمسی میں سب سے زیادہ متحرک اور ارضیاتی طور پر دلچسپ جسموں میں سے ایک بناتی ہے۔

مشتری کا یہ چاند Io، اپنی شدید آتش فشاں سرگرمی اور انتہائی ایکٹوسطحی حالات کے لیے جانا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی سطح پر مائع پانی کی موجودگی کا امکان نہیں ہے۔ Ioکی سطح بنیادی طور پر سلیکیٹ چٹان اور گندھک کے مرکبات پر مشتمل ہے اور آتش فشاں کی سرگرمیوں کی وجہ سے اس کا درجہ حرارت انتہائی زیادہ حدتک بھی پہنچ سکتا ہے، تقریبا وہ حد جس میں پانی اپنی مائع حالت میں نہیں موجود رہ سکتا، کیونکہ پانی کے مائع حالت میں رہنے کے لیے کسی بھی سطح کا درجہ حرارت 100 ڈگری سیلسئیس سے کم ہونا چاہئے۔

تاہم، کچھ نئی تحقیقات اور مطالعات موجود ہیں جو Ioپر زیر زمین پانی کے ذخائر یا پانی کی برف کے کچھ ٹکڑوں کے امکان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ فرضی آبی ذخائر سطح کے نیچے موجود ہو سکتے ہیں۔ ممکنہ طور پر مائع پانی یا برف کے طور پر، جو مشتری کی بے پناہ کشش ثقل کی کھینچا تانی اور یوروپا اور گنیمیڈ جیسے دوسرے چاندوں کے ساتھ کشش ثقل کے تعامل سے پیدا ہونے والی سمندری قوتوں سے سر گرم ہوتے ہیں۔

اگرچہ Ioکی سطح پر مائع پانی کی موجودگی کے قطعی ثبوت نہیں ملے ہیں، لیکن پھر بھی اس پر جاری تحقیق اور تلاش ، اس چاند کی ساخت اور ممکنہ زیر زمین پانی کے ذخائر کے بارے میں مزید نئی معلومات فراہم کر سکتی ہے۔

تحریر، تحقیق اور اضافہ جات

چاند پر پیشاب اور کائنات کے راز!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسنیقیناً آپ اس پوسٹ کا عنوان دیکھ کر حیران ہو رہے ہونگے کہ یہ کیسا...
24/01/2024

چاند پر پیشاب اور کائنات کے راز!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

یقیناً آپ اس پوسٹ کا عنوان دیکھ کر حیران ہو رہے ہونگے کہ یہ کیسا عجیب عنوان ہے مگر اس عنوان کی سمجھ آپکو پوسٹ پڑھ کر ہی آ سکے گی۔

آج سے 54 سال قبل چاند پر پہلا انسانی مشن اُترا۔ اس مشن میں تین خلا باز تھے۔ دو خلاباز نیل آرمسٹرانگ اور بز ایلڈرن چاند کی سطح پر اُترے جبکہ تیسرا خلاباز مائیکل کولنز چاند کے گرد مدار میں کمانڈ ماڈیول میں رہا۔ جسکا مقصد چاند پر اُترے خلابازوں سے مشن کے دوران رابطے میں رہنا اور مشن کے مکمل ہونے پر انکی چاند گاڑی "لونر ماڈیول" سے جُڑ کر انہیں واپس زمین پر لانا تھا۔ یہ بات کس قدر دلچسپ ہے کہ مائیکل کولنز چاند کے اتنا قریب گئے مگر وہ نہ اس مشن میں چاند پر اُتر سکے اور نہ ہی اگلے کسی اپالو مشن میں چاند تک جا سکے۔
دسمبر 1972 میں ناسا نے چھٹا اور آخری انسانی مشن چاند پر بھیجا۔ اس مشن کا نام اپالو 17 تھا۔ اس میں بھی ہر مشن کی طرح تین خلاباز تھے۔ جن میں دو چاند پر اُترے جبکہ تیسرا خلا از کمانڈ ماڈیول میں چاند کے گرد چکر کاٹتا رہا۔چاند پر اُترنے والے آخری خلاباز یوجین سرنن اور ہیریسن شمِٹ تھے۔
یوں چاند پر کُل ملا۔کر 12 خلاباز اُترے۔
اپالو مشنز کے دوران چاند سے مٹی اور چٹانوں کے کئی ٹکڑے زمین پر لائے گئے اور یہاں سے اب ہم اصل مدعے پر آتے ہیں جو تحریر کا عنوان تھا۔
آپ کبھی پہاڑ پر چڑھے ہیں؟ جس قدر بلندی پر جاتے جائیں آپکو ہلکا سامان بھی بھاری لگنا محسوس ہو جاتا ہے۔ ایسا اس لیے کہ جس قدر کوئی شے زیادہ ماس رکھتی ہے اسے اس قدر اونچائی تک لے جانے میں زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔ ایسے ہی جس قدر کوئی شے بھاری ہو اُسکی رفتار آہستہ کرنے میں یا اسے روکنے میں زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے۔ ایک کمرشل جہاز اگر مکمل فیول سے بھرا ہو تو اسے اُڑنے کے لیے زیادہ توانائی خرچ کرنا پڑے گی کیونکہ فیول سے جہاز کا وزن بڑھتا ہے۔ جیسے جیسے جہاز کا فیول دورانِ پرواز جلتا رہے گا، جہاز کا وزن کم ہوتا رہے گا۔ اب جہاز میں فیول کم ہے اور اسے اُڑنے اور ایک خاص رفتار رکھنے کے لیے بھی کم توانائی درکار ہو گی۔ اسی طرح اگر جہاز میں فیول بھرا ہوا ہے اور اسکا وزن زیادہ ہے تو اسے ایمرجنسی لینڈنگ کرنے میں اور اس قدر اونچائی سے فوراً زمین پر آنے میں مشکلات اور خطرات ہونگے۔ انجن کو رفتار کرنے کے لیے بے حد زور لگانا پڑے گا اور جہاز کے پروں پر بھی شدید دباؤ پڑے گا۔
اس واسطے جب جہاز اُڑتا ہے تو راستے اور فلائٹ کے دورانیے کے مطابق جہاز میں فیول بھرا جاتا یے۔ نہ بے حد کم نہ ضرورت سے زیادہ۔ اور اگر اسے ایمرجنسی لینڈنگ کرنا پڑے تو وزن کم کرنے کے لیے جہاز ہوا میں ہی فیول کی اچھی خاصی مقدار خارج یا ضائع کر دیتا ہے۔
اب آتے ہیں خلائی مشن پر ۔ راکٹ جب اُڑتا ہے تو اسے اونچائی تک جانے کے لیے بھی ایندھن درکار ہوتا یے۔ جس قدر راکٹ کا ماس زیادہ ہو گا اس قدر اسے زیادہ ایندھن درکار ہو گا۔ مگر ایندھن کا بھی تو ماس ہے لہذا جرنا زیادہ ایندھن بھریں گےز راکٹ مزجد بھاری ہو گا اور اسے اڑنے کے لیے مزید ایندھن چاہئے ہو گا۔راکٹ کے اوپری حصے پر پے لوڈ ہوتا ہے جس میں انسان بھی ہو سکتے ہیں اور سائنسی آلات، سپیس کرافٹ ، سیٹلائٹ یا خلائی دوربینیں بھی جنہیں خلا میں پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ جس قدر ہے لوڈ کا ماس کم ہو گا اس قدر چھوٹے راکٹ درکار ہونگے، اس قدر کم ایندھن سے راکٹ خلا میں انہیں لے جا سکے گا۔ ایسے ہی انسانی مشنز میں جب انسانوں کو واپس زمین پر آنا ہو تو کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم ماس انکے سپیس کرافٹ یا جہاز میں موجود ہو کہ جب وہ زمین کی فضا میں داخل ہوں تو ان پر مزاحمت کم سے کم ہو اور انکا سپیس کرافٹ زیادہ وزنی ہونے کے باعث ہوا میں بکھر کر ٹوٹ نہ جائے۔ سو اب آپ یقیناً اس بات کی اہمیت کو سمجھ چکے ہونگے کہ خلائی مشنز میں کم وزن رکھنا کس قدر ضروری اور فائدہ مند ہے۔ اس سے نہ صرف ایندھن کا خرچ بچتا ہے، مشن پر لاگت بھی کم آتی ہے بلکہ اس سے مشن زیادہ محفوظ بھی رہتا ہے۔

اپالو کے چھ مشنز میں ناسا یہ چاہتا تھا کہ خلاباز چاند پر اُتر کر وہاں سے زیادہ سے زیادہ مختلف طرح کے چاند کی چٹانوں کے ٹکڑے اور مٹی لا سکیں۔ چاند پر مختلف طرح کے گڑھے ہیں جو ماضی میں کئی شہابِ ثاقب کے گرنے سے بنے، اسکے علاوہ چاند کی سطح پر مخلتف طرح کی چٹانیں ہیں جو چاند میں ماضی میں لاوا بہنے سے جمیں۔ ان سب سے ہم چاند کے متعلق ، اسکی ساخت کے متعلق، اسکے بننے کے متعلق اور مستقبل میں یہاں انسانی بستیاں آباد کرنے کے متعلق بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ لہذا زیادہ سے زیادہ چٹانوں کے ٹکڑے درکار تھے جو مشن کے وزن میں اضافہ کرتے۔ تاہم دوسری طرف مشن کو بحفاظت زمین پر اُتارنے کے لیے اسکا وزن کم سے کم رکھنا بھی ضروری تھا۔
اس وجہ سے ان مشنز کی منصوبہ بندی کرنے والے سائنسدانوں اور انجینئرز نے یہ فیصلہ کیا کہ خلاباز چاند پر واپس آنے سے پہلے مشن کے دوران اکٹھا ہونے والا تمام انسانی فضلہ اور واپسی کے لیے غیر ضروری اشیاء بڑے بڑے پلاسٹک بیگز میں چاند پر ہی چھوڑ آئیں۔ ان میں سے 96 پلاسٹک بیگز میں انسانی فضلہ جیسے کہ پیشاب اُلٹیاں، تھوک، پسینہ وغیرہ شامل ہیں۔ چونکہ اپالو مشنز آٹھ سے 12 دن پر محیط ہوتے جن میں خلاباز دن تین سے چار دن چاند پر جانے میں لگاتے، پھر ایک سے دو دن چاند پر رہتے اور پھر واپس بھی تین سے چار دن میں آتے، لہذا اس دوران اِنکا انسانی فضلہ کافی حد تک جمع ہو جاتا۔ اب خلائی مشنز میں عوامی ٹوائلٹ تو تھے نہیں جس میں 10 روپے چھوٹے کے اور 20 روپے بڑے کے دیکر جان خلاصی کی جا سکتی۔ لہذا خلاباز خصوصی بیگز میں ہی رفع حاجت کرتے۔ یوں اس وقت چاند پر انسانی فُضلے سے بھرے 96 تھیلے موجود ہیں۔
یہاں یہ بات دلچسہ ہے کہ انسانی فُضلے میں کم سے کم پچاس فیصد وزن، پیٹ اور آنتوں میں 1 ہزار سے زائد قسم کے بیکٹیریا کا ہوتا ہے۔اسکے علاوہ انسان تھوک، پسینے وغیرہ میں بھی کئی ہزار قسم کے بیکٹریا پائے جاتے ہیں۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں نے چاند پر ہزاروں بیکٹریاز بھیجے ہیں یعنی زندگی بھیجی ہے۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس قدر سخت درجہ حرارت اور سورج کی تابکاری میں بغیر آکسیجن کے چاند کی سطح پر بیگز میں پڑے یہ کھربوں بیکٹریاز کیانصف صدی کے گزرنے کے بعد بھی زندہ ہونگے؟ یہ جاننا دلچسپ ہو گا۔

ممکن ہے مستقبل میں جب ہم چاند پر دوبارہ جائیں تو وہاں ان بیگز کو کھول کر انکا تجزیہ کریں اور پائیں کہ زندگی اس قدر مشکل حالات میں بھی پنپپ سکتی یے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ کوشش ہمارے کئی سوالات کے جوابات اور کئی مسائل کے حل دے سکتی ہے۔ کیسے؟

اول تو یوں کہ ہم جان سکیں گے کہ زندگی کن شدید حالات میں بھی باقی رہ سکتی ہے۔ لہذا ہم ممکنا طور پر کائنات میں اسے ان جگہوں پر بھی زندگی ڈھونڈیں گے جہاں ہمارے نزدیک زندگی کا ہونا(اس انکشاف سے پہلے،) بعید از قیاس تھا۔
دوسرا یوں کہ لمبے خلائی سفر پر شدید تابکاری اثرات سے بچاؤ کے لیے ہم ان بیکٹریاز میں ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں کو جان کر، مستقبل میں انسانوں میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں کر کے، محفوظ خلائی سفر ترتیب دے سکیں گے۔

اور تیسرا یوں کہ ہم اس امکان کو مزید بہتر طور پر پرکھ سکیں گے کہ مخلتف سیاروں پر زندگی کے بیچ کیا کسی اور سیارے سے اُڑتے شہابیوں میں موجود بیکٹریاز کی بدولت آئے ؟ کیا زمین پر بھی زندگی کسی اور سیارے سے آئی؟ یا زمین پر ہی وجود میں آئی۔

یہ سب اور بہت کچھ محض چاند پر پڑے انسانی فُضلے کے تجزیے سے۔ ہے ناں دلچسپ کہ کائنات کے راز انسانی پیشاب سے کُھلیں گے :)

(نوٹ: دائمی قبض کے مریض اس پوسٹ سے دور رہیں)

اس کی وجہ یہ ہے کہ بجلی کی راڈ سے پانی گرم کیا جاتا ہے تو پہلے پانی گرم ہوتا ہے پھر پتیلا گرم ہوتا ہے- اگر پتیلے کے گرم ...
12/01/2024

اس کی وجہ یہ ہے کہ بجلی کی راڈ سے پانی گرم کیا جاتا ہے تو پہلے پانی گرم ہوتا ہے پھر پتیلا گرم ہوتا ہے- اگر پتیلے کے گرم ہونے اور پانی کے درجہ حرارت پر آنے سے پہلے بجلی کی راڈ کو آف کر دیا جائے تو پانی کی بہت سی حرارت پتیلے میں منتقل ہو جاتی ہے اس لیے پانی جلد ٹھنڈا ہو جاتا ہے- اس کے برعکس جب آگ پر پانی گرم کیا جائے تو پہلے پتیلا گرم ہوتا ہے پھر پانی گرم ہوتا ہے- اس لیے پتیلے کا درجہ حرارت یا تو پانی سے زیادہ ہو گا یا پانی کے برابر ہو گا لیکن پانی سے کم نہیں ہو گا- اس لیے پتیلے کو ٹھنڈا ہونے میں وقت لگے گا اور پانی زیادہ دیر تک گرم رہے گا

اس 👇کی وجہ یہ ہے کہ بجلی کی راڈ سے پانی گرم کیا جاتا ہے تو پہلے پانی گرم ہوتا ہے پھر پتیلا گرم ہوتا ہے- اگر پتیلے کے گرم ہونے اور پانی کے درجہ حرارت پر آنے سے پہلے بجلی کی راڈ کو آف کر دیا جائے تو پانی کی بہت سی حرارت پتیلے میں منتقل ہو جاتی ہے اس لیے پانی جلد ٹھنڈا ہو جاتا ہے- اس کے برعکس جب آگ پر پانی گرم کیا جائے تو پہلے پتیلا گرم ہوتا ہے پھر پانی گرم ہوتا ہے- اس لیے پتیلے کا درجہ حرارت یا تو پانی سے زیادہ ہو گا یا پانی کے برابر ہو گا لیکن پانی سے کم نہیں ہو گا- اس لیے پتیلے کو ٹھنڈا ہونے میں وقت لگے گا اور پانی زیادہ دیر تک گرم رہے گا

سورج سے قریب مگر سردی!!تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسنزمین کا سورج کے گرد مدار گول نہیں بلکہ بیضوی ہے۔ یعنی سال میں زمین کا سورج...
09/12/2023

سورج سے قریب مگر سردی!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

زمین کا سورج کے گرد مدار گول نہیں بلکہ بیضوی ہے۔ یعنی سال میں زمین کا سورج کے گرد فاصلہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ کبھی کم تو کبھی زیادہ۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زمین جب سورج کے قریب ہوتی ہے تو گرمیاں آتی ہیں۔ مگر یہ بات بالکل غلط ہے۔ 3 جنوری کو زمین سورج کے سب سے قریب ہوتی ہے مگر آپ رضائی میں ٹھنڈ سے دبکے مونگ پھلیاں اور دیگر خشک میوہ جات رگڑ رہے ہوتے ہیں۔ مگر ایسا کیوں؟ کہ جنوری میں زمین سورج کے سب سے قریب ہوتی ہے جسے عرفِ عام میں ایک مشکل سا نام دیا جاتا ہے Perihelion اور آپ رضائی میں سر گھسائے سردی کو کوس رہے ہوتے ہیں جبکہ 4 جولائی کو جب زمین سورج سے باقی سال کی نسبت سب سے دور ہوتی ہے جسے Apehlion کہتے ہیں تو آپ اے سی کے سامنے بیٹھے ٹھنڈا پانی پی رہے ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں؟

پہلی بات یہ جان لیں کہ زمین کے دو کرے ہیں۔ شمالی کرہ اور جنوبی کرہ۔ ان دو کروں کو زمین کے درمیان سے گزرتی ایک فرضی لکیر سے تقسیم کیا جاتا ہے جسے خطِ استوا یا ایکوئیٹر کہتے ہیں۔ مملکتِ خداداد یعنی پاک لوگوں کا ملک پاکستان اتفاق سے زمین کے شمالی کُرے پر واقع ہے۔ جب زمین کے شمالی کُرے پر جون میں سخت گرمیاں پڑ رہی ہوتی ہیں تو زمین کے جنوبی کُرے پر واقع ممالک جیسے کہ آسٹریلیا ، برازیل، چِلی وغیرہ میں سردیاں اور برف باری ہو رہی ہوتی ہے اور جب پاکستان اور شمالی کرے پر موجود دیگر ممالک میں لوگ دسمبر میں سردی سے کانپ رہے ہوتے ہیں تو جنوبی کُرے پر واقع ممالک یعنی آسٹریلیا ، برازیل, جنوبی افریقہ وغیرہ میں لوگ ساحلِ سمندر پر فحاشی اور عریانی کی مثالیں بنے ٹی شرٹ یا چڈیوں میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔ اور بعض تو محض سلیمانی لباس میں۔

گویا زمین پر موسم ہر جگہ، ہر وقت ایک جیسا نہیں ہوتا۔ شمالی کُرے پر گرمیاں ہونگی تو جنوبی کُرے پر سردیاں ۔ البتہ خط ِ استوا پر واقع ممالک میں سارا سال موسم تقریباً ایک سا رہتا ہے جیسے کہ ایکواڈور ، کینیا وغیرہ۔

دراصل زمین پر سردیوں، گرمیوں، بہار، خزاں جیسے موسموں کا تعلق زمین کا سورج سے فاصلے پر منحصر نہیں بلکہ اس بات پر منحصر ہے کہ زمین کے کس حصے پر سورج کی روشنی کتنی زیادہ پڑتی ہے۔ زمین اپنے محور پر 23.5 ڈگری تک جھکی ہوئی ہے۔ جسکی وجہ سے زمین کے شمالی کرے پر جنوری سے مارچ تک جھکاؤ کم ہوتا ہے جسکے باعث ان مہینوں میں یہاں سورج کی روشنی کم مدت تک پڑتی ہے تبھی سردیوں میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں جبکہ اسکے بعد متواتر زمین کا جھکاؤ سورج کی طرف بڑھتا جاتا ہے اور موسم مئی جون تک گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے جبکہ دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوتی جاتی ہیں۔

چونکہ زمین کروی ہے تو اسکا ایک کُرہ جب سورج کی طرف زیادہ جھکا ہوتا ہے تو دوسرا کرہ کم۔ لہذا شمالی اور جنوبی کروں پر موسموں کی ترتیب اُلٹ ہوتی ہے۔ زمین پر درجہ حرارت دراصل زمین کی فضا میں موجود گرین ہاؤس گیسوں کی سورج کی روشنی کو جذب کرنے پر منحصر ہے نہ کہ زمین سے سورج کے فاصلے پر۔ جس قدر زیادہ وقت سورج زمین کے کسی حصے تک روشنی ڈالے گا یعنی جس قدر زیادہ زمین کے کسی حصے کا جھکاؤ سورج کی طرف ہو گا اس قدر زیادہ وقت فضا میں موجود گیسیں سورج کی روشنی کو جذب کریں گی اور زمین کو گرم رکھیں گی۔

پاکستان میں آ جکل سردیاں چل رہی ہیں جبکہ سورج میاں اس وقت زمین کے سب سے قریب ہیں۔ ویسے سردیوں سے یاد آیا فی زمانہ سچے دوست کی نشانی یہ ہے کہ جب آپ سردیوں میں اُسکے گھر جائیں تو وہ آپکی تواضع چلغوزوں سے بھری ٹرے سے کرے۔

28/11/2023

آنکھوں کی حرکتیں

ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی
نومبر 27، 2023

غلط مت سمجھیے- یہاں آنکھوں کی حرکتوں سے وہ حرکتیں مراد نہیں ہیں جو بالی ووڈ یا لالی ووڈ کے ہیرو اور ہیروئین پردے پر کرتے دکھائی دیتے ہیں- آنکھوں کی ایسی گستاخیوں پر شاعر بہت کچھ لکھ چکے ہیں- ہم اس آرٹیکل میں یہ سٹڈی کریں گے کہ جب ہم کسی بھی چیز کو دیکھتے ہیں اور اس دوران آنکھیں حرکت کرتی ہیں تو یہ حرکات کس طرح سے ہوتی ہیں

آنکھوں کی حرکات چار قسم کی ہوتی ہیں

1۔ سیکیڈ یا پھرتیلی حرکات (Saccade movements)
اگر ہم ایک چیز کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہے ہوں اور پھر وہاں سے نظر ہٹا کر کسی اور چیز کی طرف دیکھنے لگیں تو ہماری آنکھیں براہ راست ایک جگہ سے دوسری جگہ بہت تیزی سے جاتی ہیں- دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہماری آنکھیں یہ حرکت کر رہی ہوتی ہیں اس وقت دماغ آنکھ کے سگنل کو عارضی طور پر بلاک کر دیتا ہے یعنی اس دوارن ہم کچھ نہیں دیکھ رہے ہوتے- اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت آنکھ اتنی تیزی سے حرکت کر رہی ہوتی ہے کہ اگر ہم اس دوران شعوری طور پر چیزوں کو دیکھ رہے ہوں تو یہ حرکت اتنی تیزی سے ہو گی کہ ہمیں صرف ایک دھندلا سا خاکہ ہی نظر آ پائے گا- اگر آپ نے ایسی حرکات کا تجربہ کرنا ہو تو اپنے سیل فون کا کیمرہ ویڈیو موڈ پر آن کر کے ریکارڈنگ آن کیجیے اور اس کے بعد فون کی سمت کو تیزی سے بار بار تبدیل کیجیے- اب ریکارڈنگ روک کر ویڈیو پلے کر کے دیکھیے- شاید اس ویڈیو کو دیکھ کر آپ کا سر درد کرنے لگے اور آپ کو چکر آنے لگیں- ہمارا دماغ اس قدر تیزی سے بدلتے منظر کو پراسیس کرنے کا عادی نہیں ہے اس لیے ایسے ویڈیو دیکھ کر ہمیں چکر آنے لگتے ہیں-

جب ہم تیزی سے نظریں ایک جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ لے جاتے ہیں تو اس پراسیس میں دس سے بیس ملی سیکنڈ تک لگ سکتے ہیں۔ اس دوران ہمارا دماغ بصارت کے سگنل کو آف کر دیتا ہے یعنی اس دوارن ہم عملاً نابینا ہوتے ہیں- دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ اس دوران ہمارا دماغ بصری سگنل پراسیس نہیں کر رہا ہوتا، لیکن ہمیں شعوری طور پر اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ہم کچھ دیر کے لیے نابینا ہو گئے ہیں- گویا ہمارا دماغ شعور کو مسلسل بصری سگنل یوں فراہم کرتا رہتا ہے کہ ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ کچھ ملی سیکنڈ کے لیے ہمارا بیرونی دنیا سے بصری رابطہ منقطع ہو چکا ہے

اگر آپ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھیں اور پہلے دائیں آنکھ پر فوکس کریں، پھر بائیں آنکھ پر، اور یوں دائیں اور بائیں آنکھ کے درمیان فوکس تبدیل کرتے رہیں تو بھی آپ آںکھوں کی یہ حرکت نہیں دیکھ پائیں گے۔ آپ کا دماغ ان حرکات کے دوران بصری سگنل بلاک کر رہا ہے۔ اگرچہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کی آنکھیں حرکت کر رہی ہیں کیونکہ آپ خود شعوری طور پر یہ حرکات کر رہے ہیں، لیکن آپ اپنی آنکھوں کو حرکات کرتے نہیں دیکھ سکتے- البتہ ان حرکات کو دیکھنے کا ایک طریقہ ہے- اگر آپ کے پاس سمارٹ فون ہے جس میں سیلفی لینے کے لیے فرنٹ کیمرہ بھی نصب ہے تو اس کیمرے کو آن کیجیے اور اسے اپنے چہرے کے پاس کر کے سکرین پر اپنی داہنی اور بائیں آنکھوں پر فوکس کیجیے- اب آپ اپنی آنکھوں کی حرکات کو دیکھ پائیں گے- وہ اس لیے کہ سمارٹ فون کے کیمرے سے سگنل پہلے ویڈیو پراسیسنگ کے لیے سیل فون کی میموری میں سٹور ہوتا ہے، پھر سافٹ ویئر اسے پراسیس کرتی ہے اور پھر اسے سکرین پر ڈسپلے کرتی ہے- اس سارے پراسیس میں کچھ وقت صرف ہوتا ہے اس لیے آپ کی آنکھوں کی حرکات اور کیمرے پر حرکات دکھانے کے پراسیس میں کچھ delay ہوتی ہے۔ اس لیے جب تک سکرین پر حرکت نظر آتی ہے تب تک ہمارا دماغ بصارت کا سگنل دوبارہ پراسیس کرنا شروع کر چکا ہوتا ہے

ان پھرتیلی حرکات کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ آنکھ کی حرکت شروع ہونے سے پہلے ہی دماغ وہ مقام چن چکا ہوتا ہے جہاں تک آنکھ کو پہنچنا ہے- چنانچہ ایک دفعہ آنکھ کی حرکت شروع ہو جائے تو وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے نہیں روکی جا سکتی خواہ آپ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لیں-


اگر آپ کو سکرین پر ایک نقطہ دکھایا جائے اور آپ سے کہا جائے کہ یہ نقطہ سکرین پر خواہ کہیں بھی ہوِ، آپ کو اس نقطے پر نظر رکھنا ہے۔ اب اگر اس نقطے کی جگہ تبدیل کر دی جائے تو دماغ آنکھوں کو نقطے کی نئی جگہ کی طرف حرکت کرنے کا حکم جاری کرتا ہے- اس حرکت کے دوران اگر نقطے کی پوزیشن دوبارہ تبدیل ہو جائے تو بھی آنکھوں کی حرکت کو نقطے کی نئی پوزیشن کی طرف نہیں موڑا جا سکتا- آنکھ پہلے اس مقام تک پہنچے گی جہاں نقطہ پہلے تھا، اس کے بعد دماغ دوبارہ کیلکولیٹ کرے گا کہ نیا نقطہ کہاں ہے اور اب آنکھ پھرتی سے اس نئے مقام کی طرف حرکت کرے گی- اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر اس نقطے کی پوزیشن ہر سو ملی سیکنڈ کے بعد تبدیل ہو رہی ہو تو ہم کبھی بھی اس نقطے پر فوکس نہیں کر پائیں گے اور اسے صرف اپنے peripheral vision سے ہی دیکھ پائیں گے

2۔ سموتھ یعنی ہموار حرکات (Smooth movements)
اگر کوئی جسم ہمارے سامنے مسلسل حرکت کر رہا ہو تو ہم اسے آنکھوں سے مسلسل ٹریک کر سکتے ہیں، یعنی جیسے جیسے اس جسم کی پوزیشن تبدیل ہو رہی ہو ویسے ویسے ہم اپنی آنکھوں کی پوزیشن بھی تبدیل کر سکتے ہیں تاکہ ہماری توجہ اس چیز پر ہی فوکس رہے- یہ حرکات صرف اسی صورت میں ممکن ہیں جب ہم کسی حرکت کرتی چیز پر فوکس کر رہے ہوں- ہم شعوری طور پر آنکھوں کو مسلسل یعنی smooth صورت میں حرکت نہیں دے سکتے- اگر ہمیں ایک ساکن چیز سے دوسری ساکن چیز پر فوکس کرنے کو کہا جائے تو ہماری آنکھوں کی حرکات ہمیشہ پھرتیلی یعنی saccade ہوں گی- ہم خواہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لیں کہ ہم آنکھوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ smooth حرکت سے لے کر جائیں گے، ہماری آنکھوں کی حرکات saccade ہی ہوں گی- اگر ہم ایک چیز سے دوسری چیز پر آہستہ آہستہ نظر لے کر جائیں تو بھی آنکھ کئی چھوٹی چھوٹی saccade حرکات کی صورت میں ہی ایک مقام سے دوسرے مقام پر جائے گی- آنکھوں کی smooth حرکات صرف اسی صورت میں ممکن ہوتی ہیں اگر ہم کسی حرکت کرتی چیز کو ٹریک کر رہے ہوں

3۔ ویسٹیبیولر حرکات (Vestibular movements)
یہ ہماری آنکھوں کی وہ حرکات ہیں جو ہمارے سر کی پوزیشن میں تبدیلی کو compensate کرنے کے لیے ہوتی ہیں- اگر ہم کسی چیز کو ٹکٹی لگا کر دیکھ رہے ہوں تو اس دوران ہم اپنے سر کو دائیں بائیں، اوپر نیچے اس طرح ہلا سکتے ہیں کہ ہماری نظریں ایک ہی مقام پر ٹکی رہیں- یہ ہماری ویسٹیبولر حرکات کی وجہ سے ہی ممکن ہوتا ہے کہ پیدل چلتے ہوئے ہمارا سر مسلسل اوپر نیچے ہو رہا ہوتا ہے لیکن ہمیں منظر اوپر نیچے ہوتا معلوم نہیں ہوتا بلکہ منظر کم و بیش ایک سا ہی رہتا ہے- اگر آنکھوں میں ویسٹیبولر حرکات کی قابلیت نہ ہوتی تو ہم چلتے پھرتے وقت منظر کی تفاصیل دیکھنے کے قابل نہ ہوتے

پرندے ویسٹیبولر حرکات کے قابل نہیں ہوتے- اگر آپ کسی مرغی کو اٹھا کر اوپر نیچے کریں یا عمودی دائرے میں گھمائیں تو مرغی اپنے سر کو مخالف سمت میں حرکت دیتی ہے تاکہ اس کے بصارت کے فیلڈ میں منظر کانسٹینٹ رہے- اسی طرح آپ مرغی یا کبوتر کو چلتے ہوئے دیکھیں تو آپ نوٹ کریں گے کہ جب یہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو اپنا سر ایک ہی جگہ پر ساکن رکھتے ہیں- جب ان کا جسم آگے بڑھ جاتا ہے تو پھر تیزی سے سر کو حرکت دے کر آگے لے آتے ہیں- سر کی یہ حرکت انتہائی تیزی سے ہوتی ہے کیونکہ سر کی حرکت کے دوران پرندے نابینا ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کا دماغ سر کی حرکت کے دوران بصارت کے سگنل کی پراسیسنگ روک لیتا ہے- اس کی وجہ وہی ہے جو انسانوں میں سیکیڈ حرکات کے دوران بصارت کے سگنل کی پراسیسنگ رک جانے کی ہے، یعنی یہ کہ اس دوران پرندے کو ہر چیز ایک blur کی صورت میں نظر آئے گی اس لیے دماغ اس دوران بصارت کو روک دیتا ہے

4۔ ورجنس حرکات (Vergence)
ورجنس حرکات وہ حرکات ہیں جو آنکھیں نزدیکی یا دور کی چیزوں پر فوکس کرنے کے لیے کرتی ہیں- جب ہم کسی نزدیکی چیز پر فوکس کرتے ہیں تو آنکھوں کی پتلیاں ایک دوسرے کی سمت حرکت کرتی ہیں جبکہ دور کی کسی چیز پر فوکس کرتے وقت دونوں آنکھیں 'سامنے' کی طرف ہوتی ہیں یعنی آںکھوں کی پتلیاں نہ تو دائیں طرف ہوتی ہیں اور نہ بائیں طرف بلکہ درمیان میں ہوتی ہیں- اگر ہم بازو سیدھا کر کے ہاتھ کے انگوٹھے کو دیکھیں اور پھر انگوٹھے پر نظر ٹکائے رکھیں، پھر انگوٹھے کو چہرے کے پاس لاتے جائیں تو ہماری دونوں پتلیاں ناک کی ہڈی کی طرف حرکت کر رہی ہوں گی- یہ حرکات زیادہ تر لاشعوری ہوتی ہیں لیکن ہم انہیں شعوری طور پر بھی ایک دوسرے کے پاس لا سکتے ہیں- بچے اکثر دوسروں کو چڑانے کے لیے دونوں پتلیوں کو ایک دوسرے کے پاس لا کر بھینگے پن کی ایکٹنگ کرتے ہیں

اوریجنل انفارمیشن کا لنک:
https://www.facebook.com/watch/?v=397318265820574

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when The World of Science posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share