Shykh talks

Shykh talks Spreading the message of Quran and Sunnah. History of Islam

21/06/2024
18/06/2024
15/06/2024
08/06/2024

قسط نمبر 21
جیسا کہ پچھلی قسط میں بیان کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دعوت حق کو 5 مراحل میں ادا کیا۔ پہلے 3 سال آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم صرف اپنے قریبی لوگوں کو دین کا پیغام پہنچاتے رہے۔
3 سال بعد آپکو اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوا کہ اب اسلام کا پیغام عوام الناس تک بھی پہنچانا ہے۔ اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ پیغام عام آدمی تک پہنچانا شروع کیا تو کفار مکہ کی جانب سے بھی رکاوٹوں اور تکالیف کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جسکو آج کی قسط میں تحریر کرنے کی کوشش کروں گی۔انشااللہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جب سورتہ الحجر کی آیت نمبر 94 "پس اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے اسے ہانکے پکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پروا نہ کرو " نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اندازہ ہو گیا کہ اب اللہ تعالی مجھے عام لوگوں کو دین پیغام پہنچانے کا کہہ رہے ہیں۔ اور اس کے بعد سورتہ الشعرا کی آیت 214 جو کہ بہت ہی واضع ہے"اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ"۔
اب یہاں یہ بتانا مناسب سمجھ رہی کہ اس سے مراد صرف قریبی رشتہ دار نہ تھے بلکہ مکمل قریش کے لوگ تھے۔ کیونکہ یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ اور "قصئ" کی اولاد میں سے تھے۔
لیکن یہاں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حکمت عملی اختیار کی اور سب سے پہلے بنو ہاشم سے ابتدا کی۔ جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا قبیلہ تھا۔اور اس میں اپکے اپنے خاندان کے سب لوگ شامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ جو کہ اس وقت 10 سال کے تھے سے کہا کہ بکرے کی ران تیار کرواء اور سب لوگوں کو کھانے پے بلاءو۔ اور تقریبا خاندان کے 40 بڑے اکٹھے ہوءے اور گھر میں صرف بکرے کی ایک ران سب لوگوں کے لیے۔ اور اس کھانے میں اللہ تعالی نے اس قدر برکت ڈالی کہ سب لوگوں نے سیر ہو کر کھایا۔جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا معجزا تھا۔ جب لوگ ابھی کھانا کھا رہے تھے۔ ابولہب جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا چچا تھا کو محسوس ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو کام آج تک نجی طور پر کر رہے تھے اب وہ اسکو لوگوں تک پہنچانے کی طرف آرہے ہیں۔ پس وہ کھڑا ہوا اور کہا کہ اسے کوئی کام ہے جس کی وجہ سے اسے واپس جانا ہے۔ اور وہ کھانا ختم ہونے سے پہلے ہی وہاں سے واپس آگیا۔ اس نے یہ حرکت اس لیے کی کیونکہ وہ بنوہاشم کے بزرگوں میں سے تھا۔ اور باقی لوگ بھی اسکی تقلید کرتے اور کچھ لوگوں نے ایسا کیا بھی۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ کو دوبارہ کھانا تیار کرنے کو کہا اور دوبارہ سب کو کھانے پر بلایا۔ لیکن اس بار اس سے پہلے لوگ کھانا ختم کرتے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کھڑے ہوئے اور اللہ تعالی کی تعریف کی اور "خطبہ الحاجہ "بیان کیا جو کہ عرب میں سے پہلے کسی نے نہی سنا تھا اور اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس طرح سے مخاطب کیا "یا بنی عبدالمطلب میں تم لوگوں کے پاس وہ پیغام لے کر آیا ہوں جو میرے سے پہلے عربوں میں کوئی نہی لیکر آیا۔ اور میں تم لوگوں کو برے کاموں سے منع کرنے آیا ہوں۔ اور تم لوگوں کو اس دنیا اور آخرت کی خوشخبری سنانے آیا ہوں۔ یہ پہلی بار تھا کہ اسلام کا پیغام ایک ساتھ اتنےلوگوں نے سنا۔ وہ لوگ جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تبلیغ کا کام لر رہے ہیں لیکن کسی نے خود آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تبلیغ کرتے ہوئے نہی سنا تھا۔ ابو لہب یہ سب سن کر غصہ میں آگیا اور اس نے اپنے لوگوں کو مخاطب کیا کہ یہ کون ہوتا ہے ہمارے باپ دادا کے طریقوں کو غلط کہنے والا۔ ہمارے اپنے طور طریقے ہیں اور ہم ان پر ہی قائم رہیں گے۔ ابو لہب ہی تھا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیغام کو جھٹلایا۔ جبکہ باقی لوگوں نے سنا اور خاموش رہے۔اور ان سب میں حضرت علی رضی اللہ کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ میں اپکو مدد کروں گا میں اپکے ساتھ ہوں۔اور اس طرح خاندان کے سب سے چھوٹے بچے نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور آخری سانسوں تک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا۔
اس واقع کے کچھ دنوں بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ کے باقی لوگوں کو بھی دین کا پیغام پہنچانے کیلیے نکلے۔ اور طریقہ یہ اپنایا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم "صفہ کے پہاڑ" پر چڑھ گئے اور اس زمانے میں جب کسی نے کچھ بتانا ہوتا تھا تو صفہ پہاڑ پر چڑھ کر لوگوں کی توجہ اپنی طرف کراتا تھا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی یہی طریقہ اپنایا اور لوگوں کو پکارنا شروع کیا۔
:’’ وائے اس کی صبح ( کی تباہی ) ( سب ایک دوسرے سے ) پوچھنے لگے : یہ کون پکار رہا ہے ؟ ( کچھ ) لوگوں نے کہا : محمد ﷺ ، چنانچہ سب لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے ۔ آپ نے فرمایا :’’ اے فلاں کی اولاد ! اے فلاں کی اولاد ! اے عبد مناف کی اولاد ! اے عبدالمطلب کی اولاد ! ‘‘ یہ لوگ آپ کے قریب جمع ہو گئے تو آپ نے پوچھا :’’ تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ اس پہاڑ کے دامن سے گھڑ سوار نکلنے والے ہیں تو کیا تم میری تصدیق کرو گے ؟ ‘‘ انہوں نے کہا : ہمیں آپ سے کبھی جھوٹی بات ( سننے ) کا تجربہ نہیں ہوا ۔ آپ نے فرمایا :’’ تو میں تمہیں آنے والے شدید عذاب سے ڈرا رہا ہوں ۔‘‘
اسکے بعد تو ابولہب شدید غصہ میں آگیا اور کہنے لگا، تمہارے لیے تباہی ہو ، کیا تم نے ہمیں اسی بات کے لیے جمع کیا تھا ؟ پھر وہ اٹھ گیا ۔ (صیح مسلم 208، صیح بخاری 4971، 4770)
اس پر یہ سورتہ التبت 111 نازل ہوئی :’’ ابولہب کے دونوں ہاتھ تباہ ہوئے اور وہ خود ہلاک ہوا ۔‘‘
ابو لہب پہلا شخص تھا جس نے لوگوں نے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جھٹلایا اور تعنہ دیا۔ اور یہ سب وہ اپنے غرور اور جھوٹی انا کی تسکین کے لیے کیا۔ تا کہ لوگوں میں اسکی عزت بڑھ جائے کہ وہ اپنے باپ دادا کے دین پر ہے اور کسی بھی صورت اس سے پیچھے نہی ہٹے گا۔
اور ابولہب کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہو گیا۔ کیونکہ جس کی تباہی کا بیان اللہ نے قرآن میں دے دیا وہ بلکل برباد ہو گیا۔
اللہ تعالی ہم سب پہ اپنی رحمت رکھے آمین۔
اسکے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مزید فرمایا اے بنی عبدالمناف، اپنی جانوں کو اللہ سے خرید لو،یعنی نیک کام کر کے انہیں اللہ کے عزاب سے بچا لو، اے بنی عبدالمطلب، اپنی جانوں کو اللہ سے خرید لو، اے زبیر بن عوام کی والدہ (صفیہ)رسول اللہ کی پھوپھی، اے فاطمہ بنت محمد تم دونوں اپنی جانوں کا آگ سے بچا لو۔ میں تمھارے لیے اللہ کی بارگاہ میں کچھ اختیار نہی رکھتا، تم دونوں میرے مال میں سے جتنا چاہے مانگ سکتی ہو (صیح بخاری 3527 سنن ترمزی 3184)۔
اس قدر واضح اور جامعہ خطاب تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی بیٹی سے یہ کہ رہے کہ میں تمھارے معاملے میں بھی کوئی اختیار نہی رکھتا اگر تمھارے پاس اعمال نہ ہوئے۔لیکن میرے مال میں سے جو بھی چاہو لے سکتی ہو۔
اسکے بعد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دین کی دعوت تمام لوگوں کو دینا شروع کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ کے بازار میں جا کر لوگوں کو اسلام کے بارے بتاتے۔ جب حجاج مکہ آتے انھیں اللہ کا پیغام پہنچاتے، اسکے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ کے باہر بیٹھ جاتے اور انتظار کرتے اگر کوئی باہر سے مکہ آتا تو انھیں اسلام کی دعوت دیتے۔
اور اس طرح عوالناس کو دین حق کا پیغام پہنچانا شروع کیا۔ اور اب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لوگوں کی طرف سے مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
اور مکہ کے لوگوں نے مختلف طریقوں سے مخالفت کی۔اور سب سے پہلا کام انھوں نے یہ کیا کہ انھوں نے قبیلہ کے سب سے بڑے سردار کو پکڑا یعنی ابو طالب۔ مکہ میں مختلف قبائل تھے اور ہر قبیلہ کا ایک سردار تھا۔ اور ابو طالب بنو ہاشم کے سردار تھے۔ قریش کے مسائل کو حل کرنے کے لیے انھوں نے ایک مجلس قائم کی ہوئی تھی جسے دارلندوا کہا جاتا تھا۔ جہان ہر قبیلہ کا سردار اپنے قبیلے کو represent کرتا تھا۔ اور عربوں میں یہ کلچر تھا کہ سردار کو کبھی بھی ہٹایا نہی جاتا تھا اور نہ ہی اسکے حکم کو ٹالا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ مر جاتا اور اسکی جگہ اسکا بیٹا لے لیتا۔ اس لیے عبدالمطلب کے مرنے کے بعد ابوطالب کو بنو ہاشم کا سردار چنا گیا۔
اب کفار مکہ نے یہ کیا کہ وہ ابوطالب کے پاس گئے اور کہا کہ اے ابوطاکب تمھارا بھتیجا ہمارے خداءوں کو برا کہتا ہے۔ اور گالیاں دیتا ہے۔ ہمارے باپ دادا کت طریقوں کو غلط کہتا ہے۔ تم اسکو سمجھاءو کہ ایسا نہ کرے۔
ابوطالب نے ساری بات سنی اور انھیں تسلی دے کر بھیج دیا۔ لیکن نہ ہی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حق میں کوئی بات کہئ اور نہ ہی کوئی خلاف بات کہئ۔ اور غیر جانبدار رہے۔
اسکے کچھ ہفتوں بعد جب کفار مکہ نے دیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنا پیغام پہنچانے سے بعض نہی آرہے اور اب اسلام کا پیغام مکہ سے باہر بھی جا رہا ہے۔ اور جو حجاج مکہ آتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم انھیں بھی دعوت حق دے رہے ہیں تو وہ دوبارہ ابو طالب کے پاس گئے۔ اور انھیں ڈرایا دھمکایا۔ کہ تمھارا بھتیجا ہمارے باپ دادا کو گالیاں دینے سے بعض نہی آیا تو بہت برا ہوگا۔
اب کفار مکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جھوٹ باندھ رہے تھے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کبھی نہ ہی نکے بتوں کو برا کہا اور نہ ہی باپ دادوں کو برا کہا۔ کیونکہ اللہ تعالی خود ایمان والوں کو نصیحت کر رہے سورتہ النعام آیت نمبر 108 "اور ﴿اے ایمان لانے والو !﴾ یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں ۔"
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم صرف یہ کہتے تھے کہ یی بیوقوفی ہے کہ کسی ایسی چیز کو پوجنا یا اس سے مدد مانگنا جو کہ نہ خود کو کوئی فائدہ پینچا سکتیں ہیں اور نہ ہی تمھیں۔
بس اس بات کو کفار کو لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم انھیں گالیاں دیتے ہیں۔
حوالہ جات
(Dr. YASIR QADI, Moulana Maudoodi tafseer, Tibyan Ul Quran Tafseer, books of Ahadiths)
a talks

07/06/2024

قسط نمبر 20
(محمد صلی اللہ علیہ وسلہ وسلم کا طریقہ تبلیغ)
#محمد
ابھی تک جتنے لوگوں نے اسلام قبول کیا وہ سب مکہ کے رہہنے والے تھے۔ یہاں پر عمروبن عبسہ سلمہ رضی اللہ کا اسلام لانے کا واقع بیان نہ کرنا نا انصافی ہو گی۔ کیونکہ انکے اسلام لانے کے واقع میں بھی ہمارے لیے حکمت اور رہنمائی ہے۔ میرے اپنے تمام ریڈرز سے گزارش ہے کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی اور صحابہ رضی اللہ کی زندگی کا مطالعہ کریں تو انکی مشکلات کو اپنی زندگی پر رکھ کر ضرور پرکھیں اور مجھے یقین ہیں ایسا ہی کرتے ہوں گے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو کبھی بھی اکیلا نہی چھوڑتا۔ جب تک زندگی ہے۔ مشکلات آتیں رہتیں ہیں اور اللہ تعالی اپنے بندوں پر رحم کر کے انھیں اس سے نکالتا رہتا ہے۔
عمرو بن عبسہ رضی اللہ کہتے ہیں میں جب اپنے جاہلیت کے دور میں تھا تو یہ بات سمجھتا تھا کہ لوگ گمراہ ہیں اور جب وہ بتوں کی عبادت کرتے ہیں تو کسی سچی چیز ( دین ) پر نہیں ، پھر میں نے مکہ کے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ بہت سی باتوں کی خبر دیتا ہے ، میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کے پاس آ گیا ، اس زمانے میں رسول اللہ ﷺ چھپے ہوئے تھے ، آپ کی قوم ( کے لوگ ) آپ کے خلاف دلیر اور جری تھے ۔ میں ایک تدبیر اختیار کر کے مکہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے پوچھا
آپ کیا ہیں ؟
آپ نے فرمایا :’’ میں نبی ہوں ۔‘‘
پھر میں نے پوچھا : نبی کیا ہوتا ہے ؟
آپ نے فرمایا :’’ مجھے اللہ نے بھیجا ہے ۔‘‘
میں نے کہا : آپ کو کیا ( پیغام ) دے کر بھیجا ہے ؟
آپ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نے مجھے صلہ رحمی ، بتوں کو توڑنے ، اللہ تعالیٰ کو ایک قرار دینے ، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے ( کا پیغام ) دے کر بھیجا ہے ۔‘‘
میں نے آپ سے پوچھا : آپ کے ساتھ اس ( دین ) پر اور کون ہے ؟
آپ نے فرمایا : ایک آزاد اور ایک غلام ‘‘ ۔۔۔ ۔ کہا : آپ کے ساتھ اس وقت ایمان لانے والوں میں سے ابوبکر اور بلال رضی اللہ عنہما تھے ۔ میں نے کہا : میں بھی آپ کا متبع ہوں ۔ فرمایا :’’ تم اپنے آج کل کے حالات میں ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ کیا تم میرا اور لوگوں کا حال نہیں دیکھتے ؟ لیکن ( ان حالات میں ) تم اپنے گھر کی طرف لوٹ جاؤ اور جب میرے بارے میں سنو کہ میں غالب آ گیا ہوں تو میرے پاس آ جانا ۔‘‘ کہا : تو میں اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ گیا ۔ اور ( بعد ازاں ) رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لے گئے ۔ میں اپنے گھر ہی میں تھا ، جب آپ مدینہ تشریف لائے ۔ تو میں بھی خبریں لینے اور لوگوں سے آپ کے حالات پوچھنے میں لگ گیا ۔ حتیٰ کہ میرے پاس اہل یثرب ( مدینہ والوں ) میں سے کچھ لوگ آئے تو میں نے پوچھا : یہ شخص جو مدینہ میں آیا ہے اس نے کیا کچھ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : لوگ تیزی سے ان ( کے دین ) کی طرف بڑھ رہے ہیں ، آپ کی قوم نے آپ کو قتل کرنا چاہا تھا لیکن وہ ایسا نہ کر سکے ۔ اس پر میں مدینہ آیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ( صیح مسلم 832)۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہی چاہتے تھے کہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ بھی انھی مشکلات اور اذیتوں کا سامنا کریں جنکا مکہ کے مسلمان کر رہے تھے۔ اس لیے انھیں واپس جانے کا کہا۔ کیونکہ اگر کفار مکہ کو یہ پتہ چل جاتا کہ اب اسلام مکہ سے باہر بھی پھیل رہا تو وہ لازمی طور رکاوٹیں کھڑی کرنےکی کوشش کرتے۔
اور اسکے علاوہ کیونکہ اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم صرف مکہ میں ہی اللہ کا پیغام پہنچا رہے تھے۔باوجود اسکےکے مکہ کے لوگوں کو پتہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسلام کا کام کر رہے ہیں اور لوگوں کو اسکی دعوت دے رہے ہیں لیکن یہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ابھی صرف نجی طور پر کر رہے تھے۔ ابھی تک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عوام الناس کو دین کا پیغام نہی دیا تھا
ابھی تک صرف ان لوگوں تک دین کا پیغام پہنچایا تھا جن پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھروسہ تھا۔
ابھی تک ایسا نہی ہوا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عوام الناس کو جا کر مخاطب کیا ہو کہ اے لوگو! میں اللہ تعالی کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اس لیے ابھی تک لوگوں کی طرف سے آپ کے خلاف کوئی جواز نہی تھا رکاوٹیں کھڑی کرنے کا۔ اور 3 سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کسی بھی حاجی کو دین کی دعوت نہی دی۔ نہ ہی ان لوگوں کو جو مکہ میں تجارت کی غرض سے آتے تھے اور نہ ہی کسے ایسے شخص کو جو مکہ سے باہر سے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دعوت کو مکمل طور پر نجی رکھا تھا۔ اور رشتہ داروں اور دوستوں میں سے بھی انھی لوگوں کو دعوت دی جن پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھروسہ تھا۔ حتی کہ ابولہب جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا چچا تھا اسکو بھی دعوت نہی دی تھی۔ کیونکہ انھیں محسوس ہوتا تھا کہ یہ ان کی دعوت کو قبول نہی کریں گے اس لیے اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے یہ پیغام نہی دیا۔
3 سال تک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دعوت کا کام بلکل نجی کیوں رکھا؟ یہ سوال ہر ایک کے دماغ میں اتا ہے۔ کیونکہ اس وقت تک قریش کی طرف سے کوئی اذیت، کوئی تکلیف کوئی رکاوٹ نہی تھی۔ کیونکہ ابھی تک نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم انکے لیے خطرہ نہی بنے تھے۔ جو انکے کاروبار یا انکی پاور پراثر انداز ہوتے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حکمت یہ تھی کہ ان سالوں میں جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا انھیں آسانی سے اسلام کو سمجھنے کا موقع ملے۔ آپس میں بھائی چارہ قائم ہو۔ اللہ تعالی کی عبادت کر سکیں۔ اس وقت تک 5 نمازیں فرض نہی ہوئی تھی۔ اس لیے مسلمان صرف دو رکعات پڑھتے تھے۔ (صیح بخاری 350) نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نماز اور وضو کو طریقہ حضرت جبرائیل علیہ اسلام نے شروع میں ہی سکھا دیا تھا۔
بیشتر اسکے کہ ہم آگے بڑھیں یہاں میں اس بات کا ذکر کرنا مناسب سمجھتی ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا طریقہ تبلیغ کو بھی جائزہ لے لیا جائے۔ تا کہ بہت سے سوال جو ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے ذہنوں میں آتے ہیں اور خاص طور پر جب کوئی غیر مسلم اس بات پر بحث کرتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا تو ہم اسکو اسکا جوب دے سکیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسلام کی دعوت 5 مرحلوں میں دی۔
پہلا مرحلہ نجی تھا۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سب سے پہلے ان لوگوں کو دین حق کا پیغام پہنچایا جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سب سے قریبی تھے اور جن پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھروسہ تھا۔ اور یہ مرحلہ 3 سال تک رہا۔
دوسرا مرحلہ عوام الناس کو دین کا پیغام پہنچانا تھا۔ جس میں کوئی زور زبردستی نہی تھی۔ صرف پیغام دینا تھا۔ بلکل ایسےہی جیسے ہم میں سے کوئی پوسٹ لگائے تو ریڈرز کی مرضی پڑھے یا نہ پڑھے۔بحرحال اس زمانے میں لوگوں کو مخاطب کر کے دین کا پیغام پہنچایا جاتا تھا۔ حتکہ اگر کفار مکہ مسلمانوں کو قتل بھی کر دیتے تو بھی مسلمانوں کو اللہ تعالی کی طرف سے اجازت نہی تھی کہ وہ ہتھیار اٹھائیں۔ صبر کرنےکا حکم تھا۔ اور یہ دور 10 سال پر مبنی تھا۔
تیسرا مرحلہ حق کا پیغام پہنچا دینا زبان کے ساتھ اور تلوار کے ساتھ۔ اور یہاں تلوار صرف ایک ہی گروہ کے خلاف اٹھانے کا حکم تھا اور وہ مکہ کے لوگ تھے۔جو کہ ہجرت مدینہ کے بعد ہوا اور مسلمان صرف کفار مکہ کے خلاف لڑے۔ یا پھر ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے قریش کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملہ کیا۔
چوتھا مرحلہ دین کا پیغام سب لوگوں کے لیے لیکن ضرورت پڑنےپر تلوار کا استعمال بھی کیا جائے گا۔ کیونکہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قبول کیا۔لیکن پھر کفار نے خود عہد شکنی کی تو مسلمانوں کو کفار کی طرف لشکر کشی کرنی پڑی۔کیونکہ ہجرت سے قبل اگر کفار کسی مسلمان کو قتل کر دیتے تھے تو مسلمانوں کو بدلہ لینے کی اجازت نہی تھی۔ لیکن اب حالات مختلف تھے۔ آگے والی اقساط میں مکمل طور پو بیان کروں گی۔
پانچواں مرحلہ تمام دنیا کے لوگوں کو دین کا پیغام اور ہر اس شخص کے خلاف جنگ کا اعلان تھا جو دعوت حق کی مخالفت کرتا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جب انتقال ہوا۔ تو وہ دعوت کے اسی مرحلہ پر تھے۔ جس کو صحابہ اکرام آگے لے کر چلے۔ جسکی بدولت اسلام پھیلا۔ جو کہ عباسیہ خلافت میں روک دیا گیا۔ اور اسلام کی دعوت کا کام واپس چوتھےمرحلے کے تحت کیا جانے لگا۔
آگے آنے والی اقساط میں انھی مرحلوں کو بیان کرنے کی کوشش کروں گی۔ تا کہ ہمیں اسلام کی خوبصورتی اور حقیقت پسندی کا اچھے سے اندازہ ہو سکے۔
حوالہ جات
(Dr Yasir Qadi, books of Ahadiths)
a talks

06/06/2024

قسط نمبر 19
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھر والوں، ابو بکر کے علاوہ جن لوگوں نے ابوبکر کے ہاتھ اسلام قبول کیا انکے نام سعد بن ابی وقاص، عثمان بن عفان، زبیر بن عوام اور عبدالرحمن بن عوف تھے۔
اب تک جتنے لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا وہ سب قریش کے معزز گھرانوں سے تھے۔ اور قریش میں ان لوگوں کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
انکے بعد اسلام لانے والے عبداللہ بن مسعود تھے۔جن کو اسلام کی دعوت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ابوبکر نے مل کر دی۔
ابن مسعود کا تعلق قریش کے ملازم طبقے سے تھا۔ ابھی تک جتنے لوگ ایمان لائے تھے وہ سب کے سب امراء میں سے تھے۔لیکن ابن مسعود قریش کے سراد عقبہ ابن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔فرماتے ہیں کہ ایک بار میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرا رہا تھا کہ میرے پاس دو لوگ آئے اور پوچھا کیا پینے کے لیے دودھ مل سکتا ہے۔ تو میں نے کہا جی لیکن یہ میری بکریاں نہی ہیں۔ اسکے بعد ان میں سے ایک نے کہا کوئی ایسی بکری جو دودھ نہ دیتی ہو۔ تو میں نے ایک بکری کی طرف اشارہ کر دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسکے تھنوں پر ہاتھ پھیرا تو دودھ اتر آیا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی پیا حضرت ابوبکر کو بھی پلایا اور مجھے بھی۔ اور اسکے بعد بکری کے تھنوں کو کہا واپس سکڑ جا تو وہ پہلی سی حالت میں واپس آ گئے۔ اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ کو اسلام کی دعوت دی جو کی انھوں نے قبول کر لی۔ اس طرح سیدنا ابن مسعود رضی اللہ چھٹے انسان تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھرانے کے علاوہ جنھوں نے اسلام قبول کیا۔
ابن مسعود رضی اللہ کا یہ رتبہ تھا کہ آپ نے قرآن کی 70 سورتیں براہراست نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سن کر یاد کی تھیں۔ (مسند احمد 11833)۔
اب جن لوگوں نے اسلام کو فورا قبول کر لیا۔ ان کو اللہ تعالی نے خاص مقام عطا کیا کیونکہ یہ سب چنے ہوئے لوگ تھے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں
سورتہ البقراہ ایت نمبر 272 "انہیں ہدایت پر لاکھڑا کرنا تیرے ذمّہ نہیں بلکہ ہدایت اللہ تعالٰی دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔
اسکے بعد جس طبقے نے اسلام قبول کیا اس میں زیادی تر لوگ غلام تھے۔اور اس طبقے میں بہت سے لوگ شامل تھے۔ جن میں سے سب سے زیادہ جانے والے حضرت بلال ابن رباح رضی اللہ تھے۔ جنھیں موذن رسول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔خباب ابن ارت رضی اللہ اور حضرت یاسر انکی زوجہ سمیہ اور بیٹا عمار رضی اللہ شامل ہیں۔
حضرت بلال بن رباح رضی اللہ جو کہ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ جو کہ مکہ کے بہت امیر لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ جب اسے پتہ چلا کہ بلال نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ تو اس کے لیے یہ بات بہت شرمندگی کا باعث تھی۔ کہ ایک غلام کی اتنی جرات کے وہ اپنے مالک سے دھوکہ کرے۔ اور محمد صلی اللہ علہہ والہ وسلم کے دین کو اپنائے۔ پہلے تو اس نے آپ رضی اللہ کا کھانا پینا بند کیا۔بچوں کو اپکے پیچھے پتھر دے کے بھگایا گیا۔ جب بھی کوئی فائدا نہی ہوا تو اسے نے آپ کو لوہےکی زرہ پہنا کر تپتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا۔ اور صرف اس بات پر اسرار کرنے لگا کہ صرف ایک بار محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رب کا انکار کر دو۔ لیکن آپ رضی اللہ کے منہ سے صرف احد احد جاری تھا۔(مولانا معدودی تفسر القران)
یہ سب دیکھ کر ابوبکر صدیق رضی اللہ نے آپکو آزاد کرا لیا۔ اور یہ بھی کہا کہ اگر اسکو آزاد کرانے کے لیے مجھے پوری دولت بھی دینی پڑتی تو دیتا۔ (صیح بخاری 3754)
سیرت النبی کو بیان کرتے ہوئے۔ صحابہ کا ذکر کرنا اور انکی مشکلات کو بیان کرنا اس لیے ضروری ہے۔ کہ جو پیغام نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم لے کر آئے اس پیغام کو قبول کرنے کے بعد آزمائش ضروری تھی۔ اور ان آزمائشوں پر کیسے صبر کیا؟ کیسے استقامت دکھائی ؟ یہ سب ہم اصحاب کی زندگیوں سے بھی سیکھتے ہیں۔کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت کا بھی اثر تھا کہ صحابہ اکرام ہر قسم کا ظلم برداشت کر رہے تھے۔
اسکے بعد خباب بن ارت رضی اللہ جنھوں نے اسلام قبول کیا۔ان پر اس قدر ظلم کیے گئے کہ آپ کو آگ شعلوں پر لٹایا گیا یہاں تک کہ آگ جسم کی چربی پگھلنے کی وجہ سے بجھ گئ۔ (مولانا معدودی تفسیر القران)
خباب بن ارت یہ فرماتے ہیں کہ میں مکہ میں لوہار کا کام کرتا تھا۔ عاص بن وائل نے میری کچھ رقم دینی تھی۔ جب میں نے رقم کا تقاضہ کیا تو اس نے کہا میں تب رقم دوں گا اگر تم محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین سے پھر جائو اور انھیں کافر کہو۔ خباب بن ارت فرماتے ہیں کہ میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر تم دوبارہ بھی زندہ ہو جاءو تو بھی میں کبھی یہ نہی کہوں گا۔ اس کے بعد عاص بن وائل کہنے لگا کہ اچھا میں دوبارہ بھی زندہ ہوں گا تب تو میرا مال و دولت و اولاد مجھے پھر مل جائے گا۔ تم ایسا کرنا تب لے لینا میرے سے۔ اور تمسخر اڑانے لگا۔ اس پر اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر یہ آیات نازل فرمائیں
سورتہ المریم ایات 77-80
"کیا تو نے اسے بھی دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور کہا کہ مجھے تو مال و اولاد ضرور ہی دی جائے گی، کیا وہ غیب پر مطلع ہے یا اللہ کا کوئی وعدہ لے چکا ہے؟ ہر گز نہیں،یہ جو بھی کہہ رہا ہے ہم اسے ضرور لکھ لیں گے اور اس کے لیے عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے، یہ جن چیزوں کو کہہ رہا ہے، اسے ہم اس کے بعد لے لیں گے اور یہ تو بالکل اکیلا ہی ہمارے سامنے حاضر ہو گا۔ "
آل یاسر جن میں یاسر ، سمیہ اور انکا بیٹا عمار شامل ہیں۔ یہ لوگ غلام نہی تھے۔ لیکن غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔حضرت سمیہ رضی اللہ اسلام کی پہلی شہید تھیں اور ابو حضیفہ ابن مغیرہ کی آزاد کردہ لونڈی تھیں۔ آل یاسر ان سات لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے سب سے پہلے اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا۔ ان سات لوگوں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم، ابوبکر، یاسر، سمیہ اور عمار، بلال، صہیب ا ور ر مقداد رضی اللہ شامل تھے۔ (سنن ابی ماجہ 150)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے چچا ابوطالب کی حمایت حاصل تھی اس لیے وہ آپکو کچھ نقصان نہی پہنچا سکے۔ ابوبکر رضی اللہ بھی مکہ کی معزز خاندان سے تھے۔ اس لیے اپ بھی قریش کی ازیتوں سے محفوظ رہے۔ لیکن باقی لوگوں کو قریش نے تکالیف پہنچائیں۔
ال یاسر کو دھوپ میں کھڑا کر دیتے۔ اور پانی اور کھانا نہ دیتے۔ اسکے علاوہ ابو جہل جو کہ بنو مخزوم قبیلہ سے تھا۔ اس نے حضرت سمیہ کی شرمگاہ پر برچھا مار کر آپکو شہید کر دیا اس طرح اپ اسلام کی پہلی شہید ہوئی۔ (ابن اسحاق سیرت رسول اللہ )۔ اسکے بعد اپکے شوہر یاسر رضی اللہ کو بھی شہید کر دیا۔ لیکن ابن اسحاق، بخاری، مسلم میں انکی شہادت کا قصہ درج نہی اس لیے بیان نہی کر رہی۔
اسکے بعد عمار بن یاسر رضی اللہ جن کے سامنے ماں باپ کو شہید کیا گیا اور آپ کو اس قدر اذیت دی گئی کہ ان کے منہ سے وہ نکل گیا جو کفار کہلوانہ چاہتے تھے۔ اسکے بعد آپ روتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ مجھے جب تک نہ چھوڑا گیا جبتک میں نے آپکو برا اور انکے معبودوں کو اچھا نہ کہ دیا۔ اسکے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ سے پوچھا کہ دل حالت کیا ہے۔تو کہنے لگے وہ ایمان پر ہے۔ تب اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کیں
سورتہ النحل 106 "جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے"۔
(مولانہ معدودی تفسیر)۔
اسلام میں آزمائش ہے۔ اور جو صبر کر گیا اس نے پا لیا اللہ تعالی کی رضا کو۔
اللہ تعالی ہم سب کو استقامت عطا فرمائے آمین۔
حوالہ جات۔
(Quran, Dr Yasir Qadi, books of ahadiths, Moaulana Maudoodi Tafseer maudoodi)
a talks

05/06/2024

قسط نمبر 18
#محمد
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
سورتہ المدثر کی آیات نازل ہونے کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اللہ تعالی نے پیغام پہنچانے کا کہا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے گھر والوں اور قریبی دوستوں سے شروع کیا۔ جو کہ با حکم اللہ تعالئ تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لاننے والی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زوجہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تھیں۔ اور خدیجہ بنت خویلد ہی پہلی انسان تھیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد جنھوں نے قرآن کو سب سے پہلے سنا۔
اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایمان لانے والے علی ابن ابی طالب رضی اللہ تھے۔ کیونکہ علی رضی اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ ابوطالب کے مالی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے علی رضی اللہ کی پرورش کی زمہ داری لے لی تھی۔ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ نے اس مقصد میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مکمل ساتھ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ نے کبھی بھی بتوں کی پوجا نہی کی اسلام لانے سے قبل بھی۔ جب اسلام قبول کیا تو آپ رضی اللہ کی عمر 10 سال تھی۔ اس طرح کہا جاتا ہے کہ بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ تھے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اسلام لانے والے حضرت زید بن حارث رضی اللہ تھے۔ جو کہ آپکے آزاد کردہ غلام تھے۔ قصہ کچھ یوں ہے۔ کہ حضرت زید بن حارث رضی اللہ کے والد اور چچا آپ کی تلاش میں مکہ پہنچے اور آپ کو خریدنا چاہا تا کہ وہ اپنے بیٹے کو آزاد کروا کر ساتھ لے جا سکیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میں زید کی اجازت کے بغیر ایسا نہی کر سکتا۔ اگر یہ آپ لوگوں کے ساتھ جان چاہے تو مجھے کوئی اعتراض نہی۔ جب زید بن حارث رضی اللہ سے پوچھا گیا تو انھوں نے جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو چھوڑ کر کبھی بھی نہی جاءوں گا۔ باپ اور چچا یہ سن کر حیران ہوئے اور بولے کہ تم آزادی کے بدلے غلامی قبول کرتے ہو۔ تو زید بن حارث رضی اللہ نے کہا جو سکون اور عزت مجھے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ میں ملی ہے مجھے وہ کہیں اور نہی مل سکتی۔ سو میں ہرگز آپ کے ساتھ نہی جاءوں گا۔ اب باپ اور چچا بہت اداس ہوئے۔ ان دونوں کی پریشانی دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت زید کو آزاد کر دیا۔ اور باپ کے دل کو تسلی دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت زید کو اپنا بیٹا بھی بنا لیا۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ میرا وارث ہو گا۔ باپ اور چچا خوش ہو گئے۔ یہ واقع اسلام سے پہلے کا یے اور اس وقت تک لےپالک بچوں کو اپنا وارث بنانا منع نہی ہوا تھا۔ اور حضرت زید بن حارث رضی اللہ وہ واح صحابی ہیں جنکا نام قرآن میں موجود ہے۔
اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیٹیاں تھیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے بچوں اور گھر والوں کے لیے ایک رول ماڈل تھے۔ اس لیے بیٹیوں نے بھی فورا سے اسلام قبول کر لیا اور اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رسالت پر ایمان لے آئیں۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مومنوں میں سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو ان میں سے اچھے اخلاق والا اور اپنے گھر والوں کے ساتھ زیادہ مہربان ہے ۔‘‘(مشکات 3263)۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایمان لانے والے ابوبکر صدیق تھے۔ابو بکرصدیق رضی اللہ علیہ کا حقیقی نام عبداللہ بن ابی قحافہ تھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ تمام انبیاء کے بعد اس زمین پر سب سے بہترین انسان حضرت ابوبکر صدیق ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہےاللہ نے مجھے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا تھا ۔ اور تم لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تم جھوٹ بولتے ہو لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں اور اپنی جان و مال کے ذریعہ انہوں نے میری مدد کی تھی تو کیا تم لوگ میرے دوست کو ستانا چھوڑتے ہو یا نہیں ؟ آپ نے دو دفعہ یہی فرمایا ۔ آپ کے یہ فرمانے کے بعد پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی نے نہیں ستایا ۔(صیح بخاری 3661)۔
اور حضرت ابوبکر صدیق وہ صحابی ہیں جنکا حوالہ اللہ تعالی نے قرآن میں کچھ اس طرح سے دیا ہے۔
"اگر تم ان ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے ( دیس سے ) نکال دیا تھا دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں اس نے کافروں کی بات پست کردی اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے اللہ غالب ہے حکمت والا ہے ۔" سورتہ التوبہ ایت نمبر 40۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ ، حضرت علی رضی اللہ، حضرت زید بن حارث رضی اللہ اور حضرت محمد صلی اللہ کی صاحبزادیاں یہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھر کے افراد اور ابوبکر صدیق نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے براہراست دعوت قبول کی۔
جب ابوبکر نے اسلام قبول کر لیا تو ابوبکر رضی اللہ اپنے قریبی دوستوں کے پاس گئے اور انھیں دعوت حق دی۔
جن کے نام سعد ابی وقاص، عثمان ابن عفان، زبیر ابن عوام اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ۔ یہ وہ چار صحابہ تھے جنھوں نے ابوبکرصدیق کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔
سعدابی وقاص نے جب اسلام قبول کیا تو انکی عمر تقریبا 16 سال تھی۔ وہ ایک باعزت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔
: ان کی والدہ نے قسم کھائی کہ وہ اس وقت تک ان سے بات نہیں کریں گی یہاں تک کہ وہ اپنے دین ( اسلام ) سے کفر کریں اور نہ ہی کچھ کھائیں گی اور نہ پئیں گی ، ان کا خیال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے کہ اپنے والدین کی بات مانو اور میں تمھاری ماں ہوں ، لہذا میں تمھیں اس دین کو چھوڑ دینے کا حکم دیتی ہوں۔وہ تین دن اسی حالت میں رہیں یہاں تک کہ کمزوری سے بے ہوش ہو گئیں تو ان کا ایک بیٹا جو عمارہ کہلاتا تھا ، کھڑا ہوا اور انھیں پانی پلایا ۔ ( ہوش میں آ کر ) انھوں نے سعد رضی اللہ عنہ کو بددعائیں دینی شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ آیت نازل فرمائی
سورتہ القمان آیت نمبر 15 :’’ ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور اگر وہ دونوں یہ کوشش کریں کہ تم میرے ساتھ شریک ٹھہراؤ جس بات کو تم ( درست ہی ) نہیں جانتے تو تم ان کی اطاعت نہ کرو اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو ۔‘‘ (صیح مسلم 1748)۔
سعد بن ابی وقاص وہ واحد صحابی ہیں جن کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میرے ماں باپ تجھ پر قربان۔ جو کہ ایک بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔
جنگ احد کے دن آپ بار بار ان سے کہہ رہے تھے :’’ تیر چلاؤ ، تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں !‘‘ (صیح مسلم 2411)۔
اسکے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ جب شہادت کے قریب تھے تو انھوں نے شورا کی مجلس میں کہا تھا کہ میں صرف ان لوگوں پر بھروسہ کر سکتا ہوں جن پر مجھے یقین ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم انتقال کے وقت راضی تھے۔ اور ان سب میں سے سب سے پہلے آپ نے سعد بن ابی وقاص کا نام لیا۔
اسکے بعد آتے ہیں عثمان بن عفان رضی اللہ۔ جن کو ہم بچپن سے عثمان غنی کے نام سے جانتے ہیں۔ انکے بارے مفصل قسط الگ سے لکھوں گی انشا اللہ۔
اسکے بعد زبیر ابن عوام جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کت پھوپھی زاد بھائی بھی تھے۔جنکی والدہ کا نام صفیہ بنت عبدالمطلب تھا۔جن کے بارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ہر پیغمبر کو حواری "وہ ساتھی جو سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوتے" عطا کیے۔ اور زبیر ابن عوام میرے لیے حواری ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے جنگ خندق کے دن لوگوں کو پکارا : ( کون ہے جو ہمیں دشمنوں کے اندر کی خبر لا دے گا ؟ ) تو زبیر رضی اللہ عنہ آگے آئے ( کہا : میں لاؤں گا ۔ ) پھر آپ نے ان کو ( دوسری بار ) پکارا تو زبیر رضی اللہ عنہ ہی آگے بڑھے ، پھر ان کو ( تیسری بار ) پکارا تو بھی زبیر رضی اللہ عنہ ہی آگے بڑھے ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہر نبی کا حواری ( خاص مددگار ) ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے ۔‘(صیح مسلم 2415)۔
عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ جو کہ مکہ کے ایک بہت ہی امیر آدمی تھے۔ اور اب تک جتنے اصحاب نے اسلام قبول کیا تھا۔ ان میں سے عمر میں بڑے تھے۔ ابو بکر صدیق رضی اللک کے بعد۔ عبدالرحمن بن عوف ایک کاروباری انسان تھے۔ اور اپنے کاروبار کو بہت ہی ایمانداری سے کرتے۔ اور جب مدینہ ہجرت کی تو اپنا سب کچھ مکہ چھوڑ گئے۔ یہ حال تھا کہ بدن پر صرف ایک کپڑا تھا۔ اور انتہائی فقیری کی حالت تھی۔ انصار مدینہ نے اپکو اپنا گھر کاروبار حتہ کہ یہ پشکش تک بھی کی کہ وہ اپنی ایک بیوی کو آپکے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن آپ رضی اللہ نے منع کر دیا اور دعا دی کہ اللہ تعالی آپکو مزید برکت عطا کرے۔ مجھے صرف بازار کا پتہ بتا دیں۔ اسکے بعد اللہ تعالی نے آپکو بہت زیادہ نوازہ۔ اور سب سے امیر صحابہ میں اپکا شمار ہوتا تھا۔
انکے بعد جنھوں نے اسلام قبول کیا انکا نام عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تھا۔
جن کا احوال اگلی قسط میں انشااللہ۔
حوالہ جات
(M***i menk, Dr. Yasir Qadi, books of ahadiths reference numbers already mentioned)
S A Talks

04/06/2024

قسط نمبر 17
#محمد
ہم سب مسلمان جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس وحی لیکر حضرت جبرائیل علیہ اسلام آتے تھے۔ اب وحی کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی کس طرح آتی تھی؟ کیا حضرت جبرائیل علیہ اسلام براہراست نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بات کرتے تھے؟ یا جو بھی اللہ تعالی کا پیغام ہوتا تھا وہ اپکے دل پر اتار دیتے تھے؟
اھادیث کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی 7 طرح سے آئی۔
1۔وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی۔ یعنی نبی کریم صلی اللی علیہ والہ وسلم جو خواب دیکھتے وہ صبح روشن کی طرح سچ ہوتا۔
اب صرف یہی ایک رابطہ امت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس رہ گیا ہے جس میں اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو خواب کے ذریعہ سے کوئی اچھی خبر دیتا ہے۔۔ اور بیشک اللہ کی مرضی سےہے۔ اور اس رابطے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مبشرات کا نام دیا ہے۔ (صیح بخاری 6990 مسند احمد 7813)۔
2۔اسکے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر کبھی وحی اس طرح نازل ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ایک سیٹی کی آواز سنائی دیتی۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ وحی آنےکی یہ کیفیت بہت مشکل ہوتی تھی۔ (اندازہ کریں کہ کوئی اپکے کان کے پاس بہت ہی باریک سٹی بجا رہا ہو تو کانوں کی کیفیت کیسی ہوتی ہے انسان کچھ سمجھنے کے قابل نہی رہتا) اور جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر یہ کیفیت ختم ہوتی تو فرشتہ کے ذریعہ نازل شدہ وحی آپکے دل و دماغ محفوظ ہو جاتی۔حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتیں ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اس طرح وحی نازل ہوتی تو وحی ختم ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشانی پسینہ سے شرابور ہوتی۔(صیح بخاری 2،5)
وحی کا نزول بزات خود ایک بہت ہی مشکل مرحلہ تھا۔اور لوگوں کو تبلیغ کا امر الگ سے ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
3۔ اسکے علاوہ کبھی کبھی جبرائیل علیہ اسلام انسانی شکل میں اتے اور اللہ تعالی کا پیغام آپ تک پہنچاتے۔(صیح بخاری 2): عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اسی دوران ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت زیادہ سفید تھے، اس کے بال بہت زیادہ کالے تھے، وہ مسافر بھی نہیں لگتا تھا اور ہم لوگوں میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا اور اپنے گھٹنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملا کر بیٹھ گیا پھر کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سوال کرنے لگا۔ اس واقع کے 3 دن بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عمر رضی اللہ سے پوچھا تمھیں معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا جو سفید کپڑوں میں ملبوس تھا۔ وہ جبرائیل علیہ اسلام تھے۔ جو کہ دین کی باتیں سکھانے آئے تھے۔ مفہوم (ترمزی 2610)
اور وحی کا یہ طریقہ سب سے آسان تھا۔
4۔ اسکے علاوہ وحی کبھی آپکے دل پر اتاری جاتی۔ اور اس میں جبرائیل علیہ اسلام ذریعہ نہی ہوتے تھے۔ یاد رہے کہ اب انسانوں کو الہام نہی ہو سکتے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر میری امت میں سے کسی کو الہام ہوتا تو عمر رضی اللہ ہوتے۔ (صیح مسلم 2398)
5۔ کبھی حضرت جبرائیل علیہ اسلام ایک صحابی جن کا نام دحیہ بن کلبی تھا کی شکل میں آتے۔ جو کہ مدینہ کے صحابی تھے۔ اور تمام اصحاب میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔ (صیح بخاری 3633)
6 اسکے علاوہ حضرت جبرائیل علیہ اسلام اپنی اصل شکل میں بھی وحی لیکر آئے۔ ایک پہلی بار اور ایک بار جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم معراج پر تشریف لیکر گئے۔ (صیح بخاری 3235)
7۔ سب سے زیادہ خوبصورت وحی کا انداز اللہ تعالی سے براہراست کلام تھا۔ جی اللہ صبحان تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے پاس عرش پر بلا کر خود کلام کیا۔ جہان صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھے اور ہمارا رب العرش العظیم۔ حتکہ جبرائیل علیہ اسلام بھی سدرتہ المنتہی سے آگے نہی جا سکتے۔ اللہ تعالی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے درمیان نور کا حجاب تھا۔ اور اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کلام کیا۔ حضرت موسی علیہ اسلام سے اللہ تعالی نے کوہ طور پر کلام کیا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ رتبہ عنایت کیا کہ اپنے پاس عرش پر بلا کر ہمکلام ہوا۔ صلی اللہ علہہ والہ وسلم (صیح بخاری4855)۔ یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی میں صرف ایک بار ہوا۔
وحی کے بارے اس لیے بتانا مناسب سمجھا کہ ہم ان سختیوں کا اندازہ بھی کر سکیں جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وحی کے نزول کے وقت درپیش ہوتیں تھیں۔
کچھ احادیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔ جس میں سے کچھ میں یہاں بیان کرنا چاہ رہی تا کہ تھوڑا بہت اندازہ کر سکیں اس سختی کا۔
۔ سیدہ اسماء بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عضباء اونٹنی کی لگام تھامے ہوئے تھی کہ آپ پر سورۂ مائدہ نازل ہوئی، اس وحی کے بوجھ سے قریب تھا کہ اونٹنی کا بازو ٹوٹ جاتا۔ (مسند احمد 8576)۔
ایک اونٹ جو منوں وزن اٹھا سکتا ہے اس سے وحی کا بوجھ برداشت نہی ہو رہا اور قریب ہے کہ اس بوجھ سے اسکا بازو ٹوٹ جاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کیا حالت ہوتی ہو گی صرف نزول کے وقت ہمارے لیے اس مشکل کا تصور کرنا بھی ناممکن ہے۔
زید بن ثابت رضی اللہ جو کہ انصاری تھے فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس بیٹھا سورتہ انساء کی کی آیاتيستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله 95 لکھ رہا تھا "جو جہاد کے بارے تھیں اتنے میں عبداللہ بن ام مکتوم ائے جو کہ نابینا تھے کہنے لگے اگر مجھ میں طاقت ہوتی تو میں جہاد میں شرکت کرتا ۔ اتنے میں اللہ تعالی نے اپ پر وحی نازل کی۔اس وقت آپ ﷺ کی ران میری ران پر تھی میں نے آپ پر وحی کی شدت کی وجہ سے آپ ﷺ کی ران کا اتنا بوجھ محسوس کیا کہ مجھے ڈر ہو گیا کہ کہیں میری ران پھٹ نہ جائے ۔ اس کے بعد وہ کیفیت آپ ﷺ سے ختم ہو گئی اور اللہ عزوجل نے فقط غير أولي الضرر‏ نازل فرمائے (صیح بخاری 2832)۔
ایک صحابی کی یہ حالت کہ ان پرصرف نبی کی ٹانگ تھی اور وہ اس بوجھ کو برداشت نہی کر سک رہے تھے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نزول ہو رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہ صرف اخلاقی طور پر ایک رول ماڈل تھے۔ بلکہ جسمانی طور پر بھی انتہائی مضبوط تھے۔ صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔
حوالہ جات
(Dr. Yasir Qadi, books of Ahadiths reference numbers are already mentioned)

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Shykh talks posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Shykh talks:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share