28/12/2020
اسلام و علیکم
| بے شعوری |
حضورِ والا۔۔۔
بے شعوری ایک ایسی جان لیوا چیز ہے کہ۔۔۔
نسلیں اسکی تباہ کاری میں پوسط ہیں۔
مجھے لیکھنے میں مسئلہ نہیں۔۔۔ فائدہ پڑھنے والوں کو ہے۔
سبق حاصل کریں جو ہم محنت کر کے لکھتے ہیں جو حقیقت پے مبنی ہونے والے واقعات ہیں۔
ایسی تحریریں کسی کا مسئلہ سننے کے بعد ہی لکھی جاتی ہیں۔۔۔
یہ جو اکثر سہیلیاں ہوتی ہیں یہ سب جانتی ہیں کہ اُسکی سہیلی کس حال میں ہے۔۔۔ وہ کیا کرتی ہے اُسکا تعلق کس کے ساتھ ہے۔
مجازی عشق و محبت کی ماری وہ لڑکی
آج چیخ چیخ کے ذور سے رو رو کر ڈپریشن کا شکار۔
اُس کے دماغ کی رگیں جیسے ابھی پھٹ جائیں گی سُن ہو گئی۔۔۔
غم کا پردہ پڑ رہا تھا مگر مجال جو وہ لڑکا اُس کی کوئی آواز سنتا۔
کسی اور کے چکر میں پڑھ میں گیا۔
یار۔۔۔ کیا کمال زندگی ہے نا ہم عشق زادوں کی۔
شہزادیاں تباہ و برباد ہو رہی ہیں۔ یہ جو نسل ہے نا کسی کا مائی باپ نہیں ۔۔۔
آپ جانتے ہیں دیہاتوں میں جب عورتیں کپڑے دھو کے کانٹوں پے سوکھنے کیلئے چھوڑتے ہیں اور پھر سوکھ جانے کے بعد اتارتی ہیں اکثر کپڑے کانٹوں کا شکار ہو کے پھٹ جاتی ہیں وہ جو پھٹے کا عمل ہوتا ہے نا وہ اتی تکلیف دہ ہوتی ہے جیسے ہاتھوں پے کیل لگانا۔۔۔
ڈپریشن کا عمل بھی اُسی طرح کا ہے۔ دماغ کے رگوں کو چیر کے انسان کو لاسٹ سٹیج میں پہنچا دیتی ہے۔ تو
کوئی شہزادی، کسی کی لاڈلی ڈپریشن میں ایسے چلی جا رہی ہیں جیسے ہمارے گلے سے پانی گزرتا ہے۔ کسی کی لاڈلی جال میں پھسنی محبت کو نبھا رہی اور کوئی محبت کا شکار ہو کے گھر بیٹھ کے رو رہی۔
کیا زندگی ہے۔۔۔!
گھر والوں کی ذمے داری ہے کہ اپنی اولاد کو حقیقی اور مجازی چیزوں کی تربیت دے۔ اُن کی ہاں میں ہاں ملا کے ان کے شانہ بشانہ اُن کے غم و خوشی میں شریک ہو کے اُن کو احساس دلائیں اپنے قیمتی ہو نے کا۔۔۔
نوٹ:- کیس کو فالو کرتے ہوئے لکھی گئی ہے۔
شکریہ۔۔۔
( ماہرِ نفسیات ایاز مزاری )