Jo log namaz nahi par ti Woh kon kon se banane karte hain
06/10/2022
Allah ♥️ Mohamed saw
06/10/2022
کن فیا کن
06/10/2022
Love Mohamed saw
16/09/2022
Iam Muslim ❤️🕋👈
12/09/2022
وَ مِنَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰۤی اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَہُمۡ فَنَسُوۡا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوۡا بِہٖ ۪ فَاَغۡرَیۡنَا بَیۡنَہُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ سَوۡفَ یُنَبِّئُہُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ ﴿۱۴﴾اورجو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں ہم نے ان سے بھی عہد و پیمان لیا ، انہوں نے بھی اس کا بڑا حصہ فراموش کر دیا جو انہیں نصیحت کی گئی تھی ، تو ہم نے بھی ان کے آپس میں بغض و عداوت ڈال دی جو تاقیامت رہے گی اور جو کچھ یہ کرتے تھے عنقریب اللہ تعالٰی انہیں سب بتا دے گا ،
09/09/2022
Jumma Mubarak for all Muslim
08/09/2022
عبداللہ بن وہب نے کہا : مجھے ابوشریح نے حدیث بیان کی کہ انہیں ابواسود نے عروہ بن زبیر سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا : بھانجے ! مجھے خبر ملی ہے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ہمارے ہاں ( مدینہ ) سے گزر کر حج پر جانے والے ہیں ۔ تم ان سے ملو اور ان سے سوال کرو ۔ انہوں نے نبی ﷺ سے بڑا علم حاصل کر کے محفوظ کر رکھا ہے ۔ ( عروہ نے ) کہا : میں ان سے ملا اور بہت سی چیزوں کے بارے میں ، جو وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے تھے ، ان سے پوچھا ۔
عروہ نے کہا : انہوں نے جو کچھ بیان کیا اس میں یہ بھی تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے یک لخت چھین نہیں لے گا بلکہ وہ علماء کو اٹھا لے گا اور ان کے ساتھ علم کو بھی اٹھا لے گا ۔ اور لوگوں میں جاہل سربراہوں کو باقی چھوڑ دے گا جو علم کے بغیر لوگوں کو فتوے دیں گے ، اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور ( لوگوں کو بھی ) گمراہ کریں گے ۔‘‘
عروہ نے کہا : جب میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے اسے ایک بہت بڑی بات سمجھا اور اس کو غیر معروف ( ناقابل قبول ) قرار دیا ۔ اور فرمایا : کیا انہوں نے تمہیں بتایا تھا کہ انہوں نے ( خود ) رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا ، آپ نے یہ بات کہی تھی ؟
عروہ نے کہا : یہاں تک کہ جب اگلا سال ہوا تو انہوں ( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ) نے ان سے کہا : ( عبداللہ ) بن عمرو رضی اللہ عنہما آ گئے ہیں ، ان سے ملو ، ان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرو ، یہاں تک کہ ان سے اسی حدیث کے بارے میں پوچھو جو انہوں نے علم کے حوالے سے تمہیں بیان کی تھی ۔ ( عروہ نے ) کہا : میں ان سے ملا اور ان سے سوال کیا تو انہوں نے وہ حدیث میرے سامنے ( بالکل ) اسی طرح بیان کر دی جس طرح پہلی بار بیان کی تھی ۔
عروہ نے کہا : جب میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتائی تو انہوں نے فرمایا : میں سمجھتی ہوں کہ انہوں نے سچ کہا ، میں دیکھ رہی ہوں کہ انہوں نے اس میں نہ کوئی چیز بڑھائی ہے نہ کم کی ہے ۔
08/09/2022
شریک بن ابی نمر نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جمعہ کے روز ایک آدمی اس دروازے سے مسجد میں داخل ہوا جو دارالقضاء کی طرف تھا اور رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ، اس نے کھڑے کھڑے رسول اللہ ﷺ کی طرف رخ کیا ، پھر کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے منقطع ہو چکے ، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمیں بارش عطا کرے ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دیے ، پھر کہا :’’ اے اللہ ! ہمیں بارش عنایت فرما ، اے اللہ ! ہمیں بارش عنایت فرما ، اے اللہ ! ہمیں بارش سے نواز دے ۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم آسمان میں نہ کوئی گھٹا دیکھ رہے تھے اور نہ بادل کا کوئی ٹکڑا ۔ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر تھا نہ محلہ ۔ پھر اس کے پیچھے سے ڈھال جیسی چھوٹی سی بدلی اٹھی ، جب وہ آسمان کے وسط میں پہنچی تو پھیل گئی ، پھر وہ برسی ، اللہ کی قسم ! ہم نے ہفتہ بھر سورج نہ دیکھا ۔ پھر اگلے جمعہ اسی دروازے سے ایک آدمی داخل ہوا ، رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ، اس نے کھڑے کھڑے آپ کی طرف رخ کر کے کہا : اے اللہ کے رسول ! ( بارش کی کثرت سے ) مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے بند ہو گئے ، اس لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم سے بارش روک لے ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھا دیے ، پھر فرمایا :’’ اے اللہ ! ہمارے اردگرد ( بارش برسا ) ہم پر نہیں ، اے اللہ ! پہاڑیوں پر ، ٹیلوں پر ، وادیوں کے اندر ( ندیوں میں ) اور درخت اگنے کے مقامات پر ( برسا ۔ ) ‘‘ کہا :’’ ( فوراً ) بادل چھٹ گئے اور ہم ( مسجد سے ) نکلے تو دھوپ میں چل رہے تھے ۔
شریک نے کہا : میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا وہ پہلے والا آدمی تھا ؟ انھوں نے جواب دیا : میں نہیں جانتا ۔
08/09/2022
ہاشم بن قاسم ابونضر نے کہا : ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت کے حوالے سے یہ حدیث سنائی ، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ سے ( غیر ضروری طور پر ) کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے سے روک دیا گیا تو ہمیں بہت اچھا لگتا تھا کہ کوئی سمجھ دار بادیہ نشیں آپ کی خدمت میں حاضر ہو اور آپ سے سوال کرے اور ہم ( بھی جواب ) سنیں ، چنانچہ ایک بدوی آیا اور کہنے لگا ، اے محمد ( ﷺ ) ! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا تھا ، اس نے ہم سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ نے فرمایا :’’ اس نے سچ کہا ۔‘‘ اس نے پوچھا : آسمان کس نے بنایا ہے ؟ آپ نے جواب دیا :’’ اللہ نے ۔‘‘ اس نے کہا : زمین کس نے بنائی ؟ آپ نے فرمایا :’’ اللہ نے ۔‘‘ اس نے سوال کیا : یہ پہاڑ کس نے گاڑے ہیں اور ان میں جو کچھ رکھا ہے کس نے رکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نے ۔‘‘ بدوی نے کہا : اس ذات کی قسم ہے جس نے آسمان بنایا ، زمین بنائی اور یہ پہاڑ نصب کیے ! کیا اللہ ہی نے آپ کو ( رسول بنا کر ) بھیجا ہے ؟ آپ نے جواب دیا :’’ ہاں ! ‘‘ اس نے کہا : آپ کے قاصد نے بتایا ہے کہ ہمارے دن اور رات میں ہمارے ذمے پانچ نمازیں ہیں ۔ آپ نے فرمایا :’’ اس نے درست کہا ۔‘‘ اس نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے ! کیا اللہ ہی نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا :’’ ہاں ! ‘‘ اس نے کہا : آپ کے ایلچی کا خیال ہے کہ ہمارے ذمے ہمارے مالوں کی زکاۃ ہے ۔ آپ نے فرمایا :’’ اس نے سچ کہا ۔‘‘ بدوی نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنایا ! کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا :’’ ہاں ! ‘‘ اعرابی نے کہا : آپ کے ایلچی کا خیال ہے کہ ہمارے سال میں ہمارے ذمے ماہ رمضان کے روزے ہیں ۔ آپ نے فرمایا :’’ اس نے صحیح کہا ۔‘‘ اس نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے ! کیا اللہ ہی نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :’’ ہاں ! ‘‘ وہ کہنے لگا : آپ کے بھیجے ہوئے ( قاصد ) کا خیال ہے کہ ہم پر بیت اللہ کا حج فرض ہے ، اس شخص پر جو اس کے راستے ( کو طے کرنے ) کی استطاعت رکھتا ہو ۔ آپ نے فرمایا ، ’’ اس نے سچ کہا ۔‘‘ ( حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : ) پھر وہ واپس چل پڑا اور ( چلتے چلتے ) کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! میں ان پر کوئی اضافہ کروں گا نہ ان میں کوئی کمی کروں گا ۔ اس پر نبی اکرم
08/09/2022
اسماعیل بن ابراہیم ( ابن علیہ ) نے ابوحیان سے ، انہوں نے ابوزرعہ بن عمرو بن جریر سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں کے سامنے ( تشریف فرما ) تھے ، ایک آدمی آپ ﷺ کے پاس آیا اور پوچھا : اے اللہ کے رسول ! ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :’’ تم اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتاب ، ( قیامت کے روز ) اس سے ملاقات ( اس کے سامنے حاضری ) اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور آخری ( بار زندہ ہو کر ) اٹھنے پر ( بھی ) ایمان لے آؤ ۔‘‘ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ ، لکھی ( فرض کی ) گئی نماز کی پابندی کرو ، فرض کی گئی زکاۃ ادا کرو ۔ اور رمضان کے روزے رکھو ۔‘‘ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! احسان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے ۔‘‘ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! قیامت کب ( قائم ) ہو گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس سے سوال کیا گیا ہے ، وہ اس کے بارے میں پوچھنے والے سے زیادہ آگاہ نہیں ۔ لیکن میں تمہیں قیامت کی نشانیاں بتائے دیتا ہوں : جب لونڈی اپنا مالک جنے گی تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے ، اور جب ننگے بدن اور ننگے پاؤں والے لوگوں کے سردار بن جائیں گے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے ، اور جب بھیڑ بکریاں چرانے والے ، اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے تو یہ اس کی علامات میں سے ہے ۔ ( قیامت کے وقت کا علم ) ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے ‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی :’’ بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ، وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ارحام ( ماؤں کے پیٹوں ) میں کیا ہے ، کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا ، نہ کسی متنفس کو یہ معلوم ہے کہ وہ زمین کے کس حصے میں فوت ہو گا ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ علم والا خبردار ہے ۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ) کہا : پھر وہ آدمی واپس چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس آدمی کو میرے پاس واپس لاؤ ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے واپس لانے کے لیے بھاگ دوڑ کرنے لگے تو انہیں کچھ نظر نہ آیا ، رسول اللہ نے فرمایا :’’ یہ جبریل علیہ السلام تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے ۔‘‘
08/09/2022
کہمس نے ابن بریدہ سے ، انہوں نے یحیی بن یعمر سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں تقدیر ( سے انکار ) کی بات کی ، معبد جہنی تھا میں ( یحیی ) اور حمید بن عبدالرحمن حمیری حج یا عمرے کے ارادے سے نکلے ، ہم نے ( آپس میں ) کہا : کاش ! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کے ساتھ ہماری ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے تقدیر کے بارے میں ان ( آج کل کے ) لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کے متعلق دریافت کر لیں ۔ توفیق الہٰی سے ہمیں حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے ۔ میں اور میرے ساتھی نے ان کو درمیان میں لے لیا ، ایک ان کی دائیں طرف تھا اور دوسرا ان کی بائیں طرف ۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرا ساتھی گفتگو ( کا معاملہ ) میرے ہی سپرد کرے گا ، چنانچہ میں نے عرض کی : اے ابوعبدالرحمن ! ( یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے ) واقعہ یہ ہے کہ ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے ہیں جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں ( اور ان کے حالات بیان کیے ) ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیر کچھ نہیں ، ( ہر ) کام نئے سرے سے ہو رہا ہے ( پہلے اس بارے میں نہ کچھ طے ہے ، نہ اللہ کو اس کا علم ہے ۔ ) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : جب تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں ۔ اس ( ذات ) کی قسم جس ( کے نام ) کے ساتھ عبداللہ بن عمر حلف اٹھاتا ہے ! اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے خرچ ( بھی ) کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس کو قبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے ، پھر کہا : مجھے میرے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بتایا : ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا ۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے ۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتیٰ کہ وہ آ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے ، اور اپنے ہاتھ آپ ﷺ کی رانوں پر رکھ دیے ، اور کہا : اے محمد ( ﷺ ) ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں ، نماز کا اہتمام کرو ، زکاۃ ادا کرو ، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک راستہ ( طے کرنے ) کی استطاعت ہو تو اس کا حج کرو ۔‘‘ اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا ۔ ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ) کہا : ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ سے پوچھتا ہے اور ( خود ہی ) آپ کی تصدیق کرتا ہے ۔ اس نے کہا : مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا :’’ یہ کہ تم اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور آخری دن ( یوم قیامت ) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ ۔‘‘ اس نے کہا : آپ نے درست فرمایا ۔ ( پھر ) اس نے کہا : مجھے احسان کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔‘‘ اس نے کہا : تو مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا :’’ جس سے اس ( قیامت ) کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے ، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔‘‘ اس نے کہا : تو مجھے اس کی علامات بتا دیجیے ۔ آپ نے فرمایا :’’ ( علامات یہ ہیں کہ ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے اور یہ کہ تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، محتاج ، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : پھر وہ سائل چلا گیا ، میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا ، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے کہا :’’ اے عمر ! تمہیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا ؟ ‘‘ میں نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ جبریل علیہ السلام تھے ، تمہارے پاس آئے تھے ، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے ۔‘‘
08/09/2022
Aye khuda jaoon kahan ❤️
08/09/2022
Tere dar tere darbari se milti shifa 🤲🕋♥️👈
07/09/2022
وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۲۴﴾جب ابراہیم ( علیہ السلام ) کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا عرض کرنے لگے میری اولاد کو فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں ۔
06/09/2022
میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! میں کس کے ساتھ نیک سلوک اور صلہ رحمی کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اپنی ماں کے ساتھ“، میں نے عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: ”اپنی ماں کے ساتھ“، میں نے عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: ”اپنی ماں کے ساتھ“، میں نے عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: ”پھر اپنے باپ کے ساتھ، پھر رشتہ داروں کے ساتھ پھر سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار پھر اس کے بعد کا، درجہ بدرجہ“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، شعبہ نے بہز بن حکیم کے بارے میں کلام کیا ہے، محدثین کے نزدیک وہ ثقہ ہیں، ان سے معمر، ثوری، حماد بن سلمہ اور کئی ائمہ حدیث نے روایت کی ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، عائشہ اور ابو الدرداء رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
06/09/2022
عثمان رضی الله عنہ نے ابن عمر رضی الله عنہما سے کہا: جاؤ ( قاضی بن کر ) لوگوں کے درمیان فیصلے کرو، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ مجھے معاف رکھیں گے، عثمان رضی الله عنہ نے کہا: ”تم اسے کیوں برا سمجھتے ہو، تمہارے باپ تو فیصلے کیا کرتے تھے؟“ اس پر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جو قاضی ہوا اور اس نے عدل انصاف کے ساتھ فیصلے کئے تو لائق ہے کہ وہ اس سے برابر سرابر چھوٹ جائے“ ( یعنی نہ ثواب کا مستحق ہو نہ عقاب کا ) ، اس کے بعد میں ( بھلائی کی ) کیا امید رکھوں، حدیث میں ایک قصہ بھی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث غریب ہے، میرے نزدیک اس کی سند متصل نہیں ہے۔ اور عبدالملک جس سے معتمر نے اسے روایت کیا ہے عبدالملک بن ابی جمیلہ ہیں، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
Be the first to know and let us send you an email when zohalprinces4 # posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.