Urdu

Urdu urdu k kalam aur behtreen tehreeron k liye

28/09/2022

"کچھ رشتے انمول ہوتے ہیں"

ہم سب میں ایک خرابی ہے کہ ہم اپنی ناکامی کا ذمہ دار اپنے والدین کو ٹھہرا دیتے ہیں، اُس وقت ہم یہ نہیں سوچتے کہ والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ جو کامیابی وہ حاصل نہیں کر سکے وہ اُن کی اولاد کو ملے اور اس خواہش کی تکمیل کیلیے وہ مقدور بھر کوشش بھی کرتے ہیں۔

لیکن اولاد اپنی ناکامی کا ذمہ دار اپنے والدین کو ٹھہرا کر انہیں ذہنی اذیت میں مُبتلا کر دیتے ہیں اور والدین اسی احساسِ جُرم کو لیکر دُنیا سے چلے جاتے ہیں۔

"اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، والدین کی زندگی میں ہی پورے دن میں کُچھ لمحات اُن کے لیے بھی وقف کریں"

آزادی کا دن مبارک ہو 🌷🌷اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے وطن کی حفاظت فرمائے، اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے اسے محفوظ رکھے اور ہمیں...
14/08/2022

آزادی کا دن مبارک ہو 🌷🌷
اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے وطن کی حفاظت فرمائے، اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے اسے محفوظ رکھے اور ہمیں اِس عظیم نعمت کی حقیقی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

03/05/2022

تمام اہل اسلام کو عید الفطر مبارک ہو.....❤️

Happy Eid-ul-Fitr to all Muslims

19/12/2021
 #چائے  #محبت
04/12/2021

#چائے
#محبت


08/09/2021

أنت #طفلی إلی أن یأتی #طفلنا

16/08/2021


نَصْرٌ مِّن اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ

01/07/2021

#علم
اپنے #رب کو پہچاننے کا نام ہے،
باقی سب تو رزق کمانے کے فن ہیں

11/06/2021

🗡 مجاھد کا گھوڑا 🐎ایک دوست پوچھ رہے تھے:اسلامی ممالک کے پاس اتنے ٹینک ، توپیں ، میزائل ، بارود اور جہاز ہیں ؛ پھر بھی می...
04/06/2021

🗡 مجاھد کا گھوڑا 🐎

ایک دوست پوچھ رہے تھے:
اسلامی ممالک کے پاس اتنے ٹینک ، توپیں ، میزائل ، بارود اور جہاز ہیں ؛ پھر بھی میدان جہاد کی طرف رُخ کیوں نہیں کرتے ؟؟

میں نے انھیں کہا ، غالباً حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
سلطان رکن الدین بیبرس کے زمانے میں کسی مجاہد کے پاس ایک گھوڑا تھا ، جو میدان جنگ میں خوب بھاگ دوڑ کرتا ۔
ایک دفعہ لڑائی کے دوران وہ سُست پڑ گیا تو مجاہد نے اسے آگےبڑھنے کے لیے مارا ،
لیکن وہ آگے نہ بڑھا ، پیچھے ہی پیچھے ہٹتا گیا ۔
مجاہد کو اس کی حرکت پر بہت غصہ آیا اور حیرانگی بھی ہوئی ۔
وہ رات کو سویا تو اس نے خواب میں اپنے گھوڑے کو دیکھا اور اُسے میدان جہاد میں سستی کرنے پر ملامت کرنے لگا ۔
اِس پر گھوڑے نے کہا:
” میں دشمن پر کیسے چڑھائی کرتا ، جب کہ تم نے میرے لیےکھوٹے پیسے سے چارہ خریدا تھا ! “

مجاہد صبح اٹھ کر چارہ بیچنے والے کے پاس گیا ، تو چارہ فروش نے اسے دیکھتے ہی کہا:

کل تم مجھے کھوٹا درہم دے گئے تھے!!

اب آپ خود ہی غور کرلیں کہ:
جس گھوڑے کو ایک بار کھوٹے پیسے کا چارہ کھلایا جائے جب وہ بھی میدانِ جہاد میں آگے نہیں بڑھتا تو وہ ٹینک ، گاڑیاں ، اور جہاز کیسے آگے بڑھیں گے جن کی پرورش میں سود کا پیسہ بھی شامل ہے!

اِنھیں ” جہاد فی سبیل اللہ “ کی طرف لے جانا ہے تو اِن کی پرورش پاکیزہ مال سے کرنی ہوگی ، نیز انھیں میدان جہاد میں لے جانے والے فوجیوں کی غذا بھی سود وغیرہ سے پاک کرنی ہوگی ۔

یہ عِلم ، یہ حِکمت ، یہ تَدَبُّر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لَہو ، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات

ظاہِر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جُوَا ہے
سُود ایک کا ، لاکھوں کے لیے مرگِ مَفاجات

وہ قوم کہ فیضانِ سَماوِی سے ہو محروم
حَد اُس کے کمالات کی ہے بَرق و بخارات

پوچھتے کیا ہو جو حال شبِ تنہائی تھا  رُخصتِ صبر تھی  یا  ترکِ شکیبائی تھانام       : محمد شبلی تخلص  : شبلی ولادت  : 03/...
03/06/2021

پوچھتے کیا ہو جو حال شبِ تنہائی تھا
رُخصتِ صبر تھی یا ترکِ شکیبائی تھا

نام : محمد شبلی
تخلص : شبلی

ولادت : 03/ جون 1857ء آعظم گڑھ ہندوستان
وفات : 18/ نومبر 1914ء

آج یعنی 03/ جون 1857ء کو اردو تنقید کے بانیوں میں نمایاں، عظیم مورخ، عالم دین، سیاسی مفکر اور فارسی شاعر، اپنی تنقیدی کتاب’ شعرُ العجم‘ کے لئے مشہور” علّامہ شبلیؔ نعمانیؒ صاحب “ کا 164واں یومِ ولادت ہیے
محمّد شبلی نام تھا شبلیؔ تخلص کرتے تھے موضوع بنڈول ضلع اعظم گڑھ میں 3؍جون 1857ء کو پیدا ہوئے بڑے بڑے فاضل استادوں سے تعلیم پائی کئی سال تک علی گڑھ کالج میں پروفیسر رہے ۔ممالک اسلامیہ کی سیاحت کی اور اپنا سفرنامہ قلمبند کیا انگریزی گورنمنٹ سے شمس العلما کا خطاب پایا۔ ندوۃ العلما کو قائم کیا ندوۃ المصنفین“* انہی کی یادگار میں قائم کیا گیا ہے جس نے اسلامی تاریخ اور ثقافت کے متعلق نہایت اہم اور نہایت قابل قدر کتابیں شائع کی ہیں ، شعرالعجم پانچ جلدوں میں فارسی شاعروں کی مبسوط تاریخ ہے الماموں، سیرۃ النعمان ،سوانح مولانا روم ،الغزالی ان کی مشہور کتابیں ہیں اسلامی تمدن و تہذیب کے متعلق جس قدر بلند پایہ مضامین انہوں نے لکھے وہ رہتی دنیا تک مولانا کے نام کو زندہ رکھیں گے نظم شبلی ان کی نظموں کا مختصر سا مجموعہ ہے ، سب سے آخری تصنیف سیرۃ النبیﷺ ہے جو ان کا شاہکار سمجھی جاتی ہے، آپکا 18؍نومبر 1914ء کو انتقال ہوا
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
💖 عظیم مورخ علّامہ شبلیؔ نعمانیؒ کے 164 ویں یوم ولادت پر انکا منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت پیش ہے 💖

تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں
واعظِ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں

پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال
ورنہ حاسد تری خاطر سے میں یہ بھی کر لوں

اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش
میں ذرا عمرِ گذشتہ کی تلافی کر لوں

کچھ تو ہو چارۂ غم بات تو یک سُو ہو جائے
تم خفا ہو تو اجل ہی کو میں راضی کر لوں

اور پھر کس کو پسند آئے گا ویرانۂ دل
غم سے مانا بھی کہ اس گھر کو میں خالی کر لوں

جورِ گردوں سے جو مرنے کی بھی فرصت مل جائے
امتحانِ دمِ جاں پرورِ عیسیٰ کر لوں

دل ہی ملتا نہیں سفلوں سے وگرنہ شبلیؔ
خوب گذرے فلکِ دوں سے جو یاری کر لوں۔۔۔!!

❤ ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ ❤
پوچھتے کیا ہو جو حال شبِ تنہائی تھا
رُخصتِ صبر تھی یا ترکِ شکیبائی تھا

شب فرقت میں دل غمزدہ بھی پاس نہ تھا
وہ بھی کیا رات تھی کیا عالم تنہائی تھا

میں تھا یا دیدۂ خوننابہ فشانی شبِ ہجر
ان کو واں مشغلۂ انجمن آرائی تھا

پارہ ہائے دلِ خونیں کی طلب تھی پیہم
شب جو آنکھوں میں مری ذوقِ خود آرائی تھا

رحم تو ایک طرف پایہ شناسی دیکھو
قیس کو کہتے ہیں مجنون تھا صحرائی تھا

آنکھیں قاتل سہی پر زندہ جو کرنا ہوتا
لب پہ اے جان تو اعجازِ مسیحائی تھا

خون رو رو دیے بس دو ہی قدم میں چھالے
یاں وہی حوصلۂ بادیہ پیمائی تھا

دشمنِ جاں تھے ادھر ہجر میں درد و غم و رنج
اور ادھر ایک اکیلا ترا شیدائی تھا

انگلیاں اٹھتی تھیں مژگاں کی اسی رُخِ پیہم
جس طرف بزم میں وہ کافر ترسائی تھا

کون اس راہ سے گزرا ہے کہ ہر نقشِ قدم
چشمِ عاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا

خوب وقت آئے نکیرین جزا دے گا خدا
لحد تیرہ میں بھی کیا عالمِ تنہائی تھا

ہم نے بھی حضرت شبلیؔ کی زیارت کی تھی
یوں تو ظاہر میں مقدس تھا پہ شیدائی تھا
༺━━━━━━━━━━━━━━━༻
یار کو رغبتِ اغیار نہ ہونے پائے
گُلِ تر کو ہوسِ خار نہ ہونے پائے

اس میں در پردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ
شکوۂ چرخ بھی زنہار نہ ہونے پائے

فتنۂ حشر جو آنا تو دبے پاؤں ذرا
بخت خفتہ مرا بیدار نہ ہونے پائے

ہائے دل کھول کے کچھ کہہ نہ سکے سوز دروں
آبلے ہم سخن خار نہ ہونے پائے

باغ کی سیر کو جاتے تو ہو پر یاد رہے
سبزہ بیگانہ ہے دو چار نہ ہونے پائے

جمع کر لیجئے غمزوں کو مگر خوبئ بزم
بس وہیں تک ہے کہ بازار نہ ہونے پائے

آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں لیکن شبلیؔ
حالِ دل دیکھیے اظہار نہ ہونے پائے

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
💖 محترم علّامہ شبلیؔ نعمانیؒ صاحب 💖

براعظم ایشیاء کا مقبول پھل فالسہ اپنے ذائقے اور فرحت بخش اثرات کے باعث بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا سائنسی نام Grewia Asi...
03/06/2021

براعظم ایشیاء کا مقبول پھل فالسہ اپنے ذائقے اور فرحت بخش اثرات کے باعث بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا سائنسی نام Grewia Asiatica- ہے۔ جبکہ اس کا تعلق Tiliaceae- خاندان سے ہے۔ یہ پیاس کی شدت میں کمی اور خون و دل کے امراض کو ختم کرنے کی تاثیر رکھتا ہے۔ فالسے کا درخت 4 سے 8 میٹر تک اونچائی والا ایک چھوٹا درخت ہوتا ہے۔ اس کے پتے دیکھنے میں دل کی شکل کے ہوتے ہیں جن کی لمبائی 20 سینٹی میٹر اور چوڑائی 16.25 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ ان پر موسم بہار میں چھوٹے چھوٹے پیلے رنگ کے پھول نکلتے ہیں جن کی پتیوں کی لمبائی 2 ملی میٹر ہوتی ہے۔ پھل گول ہوتا ہے جس میں 5 ملی میٹر چوڑا بیج پایا جاتا ہے۔ فالسے کا پھل بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ اس میں 81 فیصد پانی کے علاوہ پروٹین ، چکنائی ، ریشے اور نشاستہ پایا جاتا ہے- فالسہ ایک ایسا پھل ہے جس میں لذت کے علاوہ بیشمار طبی اور غذائی فوائد بھی پائے جاتے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں فالسہ بہت بڑی قدرتی نعمت ہے۔


تحقیق کے مطابق فالسے اور اس کا شربت جگر کے امراض میں فائدہ مند ہے اور خاص طور پر یرقان کے مریضوں کے لیے یہ نہایت مفید ہے، جب کہ تندرست افراد کے لیے بھی روزانہ فالسے کا ایک گلاس ٹھنڈا شربت انھیں یرقان سے محفوظ رکھتا ہے۔ فالسے کا شربت صبح شام پینے سے نہ صر ف بلڈ پریشر کم ہوتا ہے بلکہ سر درد میں بھی فائدہ مند ہے۔ شدید گرمی اور لو میں فالسے کا ایک گلاس شربت پی کر سن اسٹروک سے بھی محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

‏ملالہ کا کہنا ہے کہ نکاح کی کیا ضرورت ہے۔ نکاح نامہ سائن کرنے کی کیوں تکلیف کرتے ہو۔ پارٹنر بن کے بھی تو رہا جا سکتا ہے...
03/06/2021

‏ملالہ کا کہنا ہے کہ نکاح کی کیا ضرورت ہے۔ نکاح نامہ سائن کرنے کی کیوں تکلیف کرتے ہو۔ پارٹنر بن کے بھی تو رہا جا سکتا ہے۔

پروڈکٹ تیار ہوگئی ہے۔ لانچ کرنے کی تیاری ہو رہی ہے, اور جو لبرلز کہ رہے تھے اس نے پاکستان کا نام روشن کیا ہے اب آپ سب لبرلز سے گزارش ہے اگر شادیاں کی ہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے آپ سمجھدار ہیں۔۔

24/05/2021

کرونا کا تیسرا سیزن ختم ہونے کے قریب ہے، چوتھا سیزن بکرا عید سے پہلے رلیز کیا جائے گا جو محرم آنے سے پہلے ختم ہو جائے گا تا کہ ماتمی جلوسوں کو بھی وقت ملے، پھر 2 ماہ انتظار کرنا پڑے گا پانچواں سیزن ربیع اول میں شروع ہو گا جو 12 ربیع اول کو اپنے جوبن پر ہو گا ۔۔۔امید ہے اس کے بھی ارطغرل کی طرح پانچ سیزن ہونگے لیکن خطرہ ہے اس کا بھی کوئی بیٹا نا آ جائے عثمان کی طرح 😂😂😜😜🤪

*"پکوڑوں کی فضیلت"*پکوڑوں کی فضیلت کے بارے میں عرض ہے کہ یہ پکوڑے افطاری کا دوسرا اہم رکن ہے۔ پکوڑے اکیلے فرض نہیں ہوئے ...
01/05/2021

*"پکوڑوں کی فضیلت"*

پکوڑوں کی فضیلت کے بارے میں عرض ہے کہ یہ پکوڑے افطاری کا دوسرا اہم رکن ہے۔
پکوڑے اکیلے فرض نہیں ہوئے تھے اسکے ساتھ سموسے اور کچوڑیاں بھی برابر مانی جاتی ہیں- اگر کسی مجبوری کے تحت پکوڑے نہ مل سکیں تو آپ سموسے اور کچوڑی سے کمی پوری کر سکتے ہیں اور لذت افطاری میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔

یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ گھر کے بنے ہوئے پکوڑے افضل ہیں اور ثواب بھی زیادہ ہے۔

رمضان کے روزے تمام مسلمانوں پر فرض ہوئے ہیں لیکن پکوڑے برصغیر خصوصاً پاکستانی اور ہندوستانی لوگوں کے حصے میں آئے ہیں۔

ضرورت ایجاد کی ماں ہے مگر پکوڑوں کا شجرہ نسب تا حال معلوم نہیں ہوسکا مگر انکو بنانے کے کام میں زیادہ تر ماؤں کو ہی دیکھا گیا ہے۔

پکوڑے مختلف شکلوں کے بنائے جاتے ہیں سب سے مشہور شکل کوئی شکل نہیں ہےگول چکور لمبے نیز ہر قسم کے پکوڑے یکساں مقبول و مشہور ہیں
پکوڑوں کو مختلف چٹنیوں کے ساتھ کھانا ثابت ہے لیکن عصر جدید میں کیچپ وغیرہ کا استعمال بھی سامنے آیا ہے۔

اب تک پکوڑوں کی سب سے زیادہ قسمیں شیف ذاکر اور زبیدہ آپا نے ایجاد کی ہیں

۔ ابھی تک پکوڑوں کو کسی بھی محاورے کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا مگر بعض افراد کی ناک کو پکوڑے سے تشبیح دی جاتی ہے جو کہ اسلامی اور اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔

یہاں یہ بھی مفروضہ غلط ہے کہ سکندراعظم یہاں پکوڑے کھانے آیا تھا۔ اس بارے میں ابھی تک کوئی سند موجود نہیں ہے۔
#جلالیات

 #بوجھ کندھوں سے کم کرو صاحب #دن منانے سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔   #مزدور
01/05/2021

#بوجھ کندھوں سے کم کرو صاحب
#دن منانے سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔

#مزدور



06/04/2021

پردہ کسی بھی چیز میں رکاوٹ نہیں ❤️
پردہ تو آپ کوآزاد کرتا ہے دنیا کی بری نظروں اور حوس سے 🌸
کتنا خوبصورت احساس ہے نا. وہ ساتوں آسمان کے اوپر جو رب ہے. وہ اپنی بندی کو دیکھ کر مسکراتا ہوگا. 😍
کہ کیسے اس کی بندی اس رب کی مسکراہٹ, اس کی رضا اور اس کی محبت کی خاطر اس کی ایک آیت کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے🤎
وہ رب فرشتوں سے اپنی بندی کا ذکر کرتا ہوگا.. فرشتے بھی اس رب کی بندی کو دیکھ کر مسکراتے ہونگیں اور اس کے حق میں دعائیں کرتے ہونگیں💕
کیونکہ اسکی بندی دنیا کے حقیر سے رنگوں کو چھوڑ کر, اس رب کے ہمیشہ رہنے والے رنگ کو تھامے خود کو خوش نصیب محسوس کرتی ہے🤍🖤
بھلہ اس رب کے رنگ سے خوبصورت رنگ کس کا ہوسکتا ہے؟💛
*🕋آؤ سب اللّٰه کی طرف🕋*

02/04/2021

*مدارس و مراکز پاکستان کا فخر ہیں* 🔥🔥
پاکستانی حکمرانوں کے صاحب زادے امریکہ اور لندن کی یونیورسٹیوں میں تعلیم پاتے ہیں۔ کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں کا معیار تعلیم بہت کمزور ہے۔۔لیکن دوسری طرف دیکھا جائے کہ صدر مملکت افریقہ گینی بیساو کا بیٹا دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کہیں اور نہیں بلکہ پاکستان کا رخ کرتا ہے۔۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اس ملک میں دینی مدارس کو ناقص اور نامکمل تصور کیا جاتا ہے۔
‏جنہیں تم جہالت کی یونیورسٹیاں باور کرانا چاہتے ہو۔۔۔۔ دنیا ان کی علمیت اور خلوص کی گواہی دیتی ہے۔ 🌹
فاعتبرو یااولی الابصار
یہ اگر پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں پڑھا ھوتا تو دجالی میڈیا اور لبرل طبقہ نے آسمان سر پے اٹھایا ھوتا یہ مدرسہ کا طالبعلم ھے اسلیے کوئی خبر نہیں۔ 🥀

24/03/2021

#ہاتھ پکڑنے اور #تھامنے میں بہت فرق ہوتا ہےـ
پکڑنے والے کی پکڑ چاہے کتنی ہی #مضبوط ہو،
#وقتی ہوتی ہے، جبکہ تھامنے والے ہاتھ #تاحیات ہوتے ہیں۔

23/03/2021

*23 مارچ ایک تاریخ ساز دن*

🌹 *یومِ پاکستان* 🌹

پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے۔ اس دن۔ یعنی 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی۔ قرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا گانہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ وہ مطالبہ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اس دن "23 مارچ" پورے پاکستان میں عام چھٹی ہوتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں تیئیس مارچ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس دن برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ( مسلم لیگ) نے قائد اعظم محمد علی کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنے ستائیسویں سالانہ اجلاس (منعقدہ لاہور) میں ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا تاکہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہوسکے ۔

اس تاریخی اجتماع کا آغاز 22 مارچ 1940کو ہوا تھا اور قائداعظم محمد علی جناح نے اس دن اپنی اڑھائی گھنٹے کی تقریر میں فرمایاکہ مسلمان کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں، ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں اورسماجی عادات سے تعلق رکھتے ہیں، جو آپس میں شادی کر سکتے ہیں، نہ اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں۔
اس میں واضح کیا گیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں، جو اب ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں، ان کا مذہب، عقیدہ اور رسم و رواج الگ ہیں اوروہ ایک الگ وطن چاہتے ہیں
قرارداد پاکستان ہی دراصل وہ مطالبہ ہے، جو اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا اور 23 مارچ کا یہ دن ہر سال اہل پاکستان کو اُسی جذبے کی یاد دلاتا ہے، جو قیام پاکستان کا باعث بنا تھا۔ 23 مارچ 1940 پاکستان اور برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سنہری دن ہے

23 مارچ کا دن صرف تقاریر اور تقاریب مقرر کرنے کا دن۔ نہیں بلکہ عملی طور پر وطن عزیز کی مضبوطی اور استحکام کے لیئے کام کرنے کا تجدید عہد کرنے کا دن ہے

جس میں ہمیں بہت سی اصلاحات کرنی ہیں سب سے پہلے اسلام کا دفاع اور ریاست کے مفادات ہیں جن کا دفاع کرنا بہت ضروری ہے افواج پاکستان کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنانا ہے ہمیں لبرل خارجی اور جمہوریوں نے کبھی ایک نہیں ہونے دیا ہم تقسیم ہوتے گۓ اور خارجی جمہوریہ لبرل اتحاد ہمیں تباہی کی طرف لے گیا

جسطرح ہمارے دشمن ہمیں تباہ کرنے کے لیے ذاتی اختلافات چھوڑ کر متحد ہو چکے ہیں ہمیں بھی متحد ہو کر دشمن کو حیران کرنا ہو گا
ہائبرڈ وار صرف افواج کے خلاف پراپوگنڈے کا نام نہیں بلکے ہماری اسلامی اقدار روایت نظریات سب کو اپنی لپیٹ میں لینے کا نام ہے

اور آج آپ دیکھ لیں ہمارے نیوز چینل ہمارے تعلیمی ادارے سب جگہ فحاشی کو پروموٹ کیا جا رہا ہے ہماری آنے والی نسلوں کے ذہنوں کو مفلوج کیا جا رہا ہے فیملی سسٹم اور شرم کی چادر کو آزادی کا دشمن دکھایا جا رہا ہے

یورپ آج اس فیملی سسٹم کی تباہی پر ماتم منا رہا ہے کسی بھی طرح وہ فیملی سسٹم بحال کرنا چاھتے ہیں مگر نہیں کر سکتے اور لنڈے کے لبرل چلے ہیں ہمارا فیملی سسٹم توڑنے آزادی کے نام پر ہمیں ننگا کرنا چاھتے ہیں مگر ابھی سمبھل جانے کا وقت ہے دفاع کریں اپنی روایات اور اسلامی اقدار کا اپنے فیملی سسٹم کو مضبوط کریں اسے توٹنے نا دیں اور اپنی افواج کا ساتھ دیں یہی فوج ہے جو کفار کے راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
*خدا کرے میری ارض پاک پر اترے*
*وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو*

*یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں*
*یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو*

*یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے*
*اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو*

*گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں*
*کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو*

*خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن*
*اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو*

*ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال*
*کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو*

*خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے*
*حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو*

ایک امریکی فوٹوگرافر  Suren Manvelyan نے یہ مختلف  جانوروں کی آنکھوں کی کیمرے کی مدد سے کافی نزدیک سے تصاویر کھینچی ہیں۔...
10/03/2021

ایک امریکی فوٹوگرافر Suren Manvelyan نے یہ مختلف جانوروں کی آنکھوں کی کیمرے کی مدد سے کافی نزدیک سے تصاویر کھینچی ہیں۔ ان تصاویر میں آپ مختلف جانوروں کی آنکھوں کے خوبصورت شوخ رنگ دیکھ سکتے ہیں جو نارملی ہم لوگ ننگی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے۔

یہ خوبصورتی ھے "مائیکرو فوٹوگرافی" کی جس کی مدد سے ہم جانوروں کی آنکھوں کے اندرونی پیٹرن،مختلف رنگ یہاں تک کے ان کے اندر خون کی نالیوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں جن کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے یہ کوئی ایلن مخلوق کی آنکھیں ہیں۔ ان خوبصورت تصاویر کے رنگ اس قدر خوشنما ہیں کے آپ لوگ ان کے پوسٹر بھی بنا سکتے ہیں آپنے گھر میں لگانے کی غرض سے۔..
Sajid Ali

 #چائے
10/03/2021

#چائے

 #اردو  #پاکستان
10/03/2021

#اردو
#پاکستان

"خوچہ!! تم ناکامی سے مت ڈرو!!" "بابو جی! چلاؤ گولی..." بڑی اور گھنی مونچھوں والے دراز قد پٹھان نے مجھ سے کہا "نہیں...مجھ...
07/03/2021

"خوچہ!! تم ناکامی سے مت ڈرو!!"

"بابو جی! چلاؤ گولی..." بڑی اور گھنی مونچھوں والے دراز قد پٹھان نے مجھ سے کہا
"نہیں...مجھے ڈر لگتا ہے.." میں سہمے ہوئےلہجے میں بولا

"ارے بابا! کچھ نہیں ہوتا.. چلاؤ گولی، ہمت کرو ہمت...." اس نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا
"نا خان صاحب... میں ڈر رہا ہوں. میرے ہاتھ اور ٹانگوں میں کپکپاہٹ جاری ہے. میری پیشانی پر پسینے دیکھ رہے ہو. ماتھے سے پسینہ ٹپ ٹپ برس رہا ہے..."

"بچے!! کچھ نہیں ہوتا. تم خوامخواہ ڈر رہا ہے. یہ پسینہ تو گرمی کی وجہ سے نکل رہا ہے. بندوق تمہارے ہاتھ میں ہے. نشانہ لگاؤ اور بس ٹریگر کو دبا دو..."
"یہ بہت مشکل ہے. مجھ سے نہیں ہو گا. مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے بندوق کی نالی کا رُخ میری طرف ہی پِھر جائے گا. گولی میرے اندر جا لگے گی. مجھے یہی ڈر کھائے جا رہا ہے.." میں اس سے بات کرتے ہوئے خوف کے سمندر میں غوطہ زن تھا.

" بچے!! تم دشمن سے کیسے لڑے گا. ہمارا تو بچہ بچہ بندوق سے کھیلتا ہوا جوان ہوتا ہے. اور ایک تم ہے پندرہ منٹ سے بندوق تھامے کھڑا ہے اور گولی نہیں چلا رہا. بندوق کے گھوڑے کو دباؤ اور پھر دیکھو..."
" نہیں خان صاحب.. نہیں... مجھ سے یہ نہیں ہو سکے گا."

"پھر تم اِدھر ہماری طرف آیا کیوں؟" اس نے سوال کیا.
" جب میں تمہاری طرف آیا تھا، تب میں پُر عزم تھا. میں پُرجوش تھا. میں دَلیر تھا. بندوق ہاتھ میں تھامتے ہی مجھے خوف نے گھیر لیا... اس کے لیے معافی چاہتا ہوں."

" ارے نہیں بچے.. معافی کس بات کی. بس ایک لمحے کے لیے اپنے اندر وہی دلیری، جوش عزم بیدار کرو. جو کچھ دیر پہلے تمہارے اندر پیدا ہوا تھا. اسے سونے مت دو. بس جلدی سے نشانہ باندھو اور گولی چلاؤ. یاد رکھو!! ہم نہیں ہارتے بلکہ ہمارا ارداہ ہارتا ہے. ہمارے اندر کا خوف ہمیں ہراتا ہے. ناکامی کا خوف ہمیں شکست دیتا ہے."

خان صاحب کے جملے نے میرے اندر طاقت بھر دی. میں نے ایکھ آنکھ بند کی اور بندوق کو کندھے پر رکھا اور اگلے ہی لمحے میں ٹریگر دبا دیا. نشانہ صحیح لگا. میں نے قطار میں بندھے سارے غباروں پر نشانہ لگایا. بورڈ پر لگے سارے غبارے ٹھاہ ٹھاہ کرتے پھٹ چکے تھے. میں نے خان بابا کا شکریہ ادا کیا. جس نے میرے اندر چھپے ناکامی کے خوف کو شکست دینے میں مدد کی تھی. میں خان صاحب کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا.
خواجہ مظہر صدیقی

07/03/2021

قانون کی مضبوط دیوار معاشرہ سے ظالم کے خوف کو ختم کر دیتی ہے۔

اپ پورا منہ شیشے کے سامنے کھول کر دیکھے تو حلق نظر آتا ہے. انگریزی میں اسکو uvula کہتے ہے. گوشت کے اس عجیب لٹکتے لوہتھڑے...
03/03/2021

اپ پورا منہ شیشے کے سامنے کھول کر دیکھے تو حلق نظر آتا ہے. انگریزی میں اسکو uvula کہتے ہے. گوشت کے اس عجیب لٹکتے لوہتھڑے کو سمجنے میں سائنس نے بہت عرصہ لیا.اسکا کام یہ ہے جب ہم کھانا کھاتے ہے تو نگلتے وقت یہ اوپر اٹھ کر سانس کی نالی nasal cavity کو بند کر دیتا ہے.خوراک کے جانے کے بعد یہ کھل جاتا ہے.اگر اس خوراک کا کوئی بڑا ذرہ اس نالی میں چلا جائے تو سانس بند ہو جائے گی.پھر بھی کبھی کچھ ذرات چلے جائے تو پیھپڑے ہوا کا تیز پریشر بنا کر باہر نکال دیتے ہے.جسے ہم چھینک کہتے ہے. اور اسی نظام اور امکانی خطرے سے بچاؤ پر ہم الحمدللہ کہتے ہے یعنی ہر قسم کی تعریف الله کے لیے ہے.........

دنیا کا سب سے بڑا قبرستاندنیا کا سب سے بڑا قبرستان عراق کے شہر نجف میں واقع ہے جسے وادی السلام کہا جاتا ہے اسے valley of...
24/02/2021

دنیا کا سب سے بڑا قبرستان

دنیا کا سب سے بڑا قبرستان عراق کے شہر نجف میں واقع ہے جسے وادی السلام کہا جاتا ہے اسے valley of peace کے طور پر بھی جانا جاتا ہے. نجف شہر کا شمار عراق کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے اور اسے ایک مقدس شہر کا درجہ بھی حاصل ہے۔
یہ قبرستان گذشتہ چودہ سو سال سے استعمال میں ہے بلکہ اس سے بھی قدیم دور میں اس کی روایات ملتی ہیں . دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ کی لسٹ میں بھی شمار کنندہ ہے۔
وادی السلام قبرستان کا رقبہ 1485.5 ایکڑ چھے کلو میٹر سے زیادہ ہے اور یہاں کم و بیش پانچ ملین سے بھی زیادہ قبریں ہیں۔قبروں کی یہ تعداد سکاٹ لینڈ ، مانچسٹر ، برمنگھم کی پوری آبادی کے برابر ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں یہاں لوگ ہر سال آتے ہیں۔ اس قبرستان میں زیادہ تر شیعہ مسلمز اور سٹیٹ وارز میں شہید ہونے والوں کی قبریں ہیں۔ قبرستان میں روزانہ 150 سے 200 مردے دفناۓ جاتے ہیں۔
وادی السلام میں مردے دفنانے کے لیے زمین دوز تہہ خانے ہیں ان تہہ خانوں میں زمین دوز بلاکس میں کم و بیش پچاس پچاس مردے دفنانے کی گنجائش ہوتی ہے۔
وادی السلام قبرستان میں مشہور بادشاہ ، شہزادے اور سلاطین دفن ہیں اس کے علاوہ حضرت ہود علیہ السلام ، حضرت صالح علیہ السلام کی قبور اور حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا روضہ مبارک بھی یہیں ہے۔
یہاں قبور اور مقبروں کی تعمیر میں پلاسٹرز اور اینٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے. قبرستان میں زیر زمین تہہ خانے بلاکس بھول بھلیوں کی صورت بنے ہوۓ ہیں جنگ کے دوران ان زیر زمین راستوں میں مقامی ملیشیاؤں نے اپنے اڈے بنا رکھے تھے اور گوریلا وار کے ذریعے امریکن فوجوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ باغی گروپس بھی زیر زمین راستے اپنی کاروائیوں کے لیے استعمال کرتے تھے عراقی آرمی نے قبرستان میں کئی جگہ زیر زمین راستوں تہہ خانوں کو بلڈوز کیا ہے۔
2003 میں قبرستان کو مزید پھیلایا گیا اسکی حدود میں اب تک 3 square miles کا اضافہ کیا جا چکا ہے۔
وادی السلام قبرستان سے متعلق کئ عقائد بھی جڑے ہوۓ ہیں اور شیعہ مسلمز یہاں دفن ہونے کو سعادت سمجھتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ ان کے نذدیک مقدس ترین زمین ہے۔

میکسیکو ایک پراسرار جگہ ہے ، یہاں کئی ایسے راز ہیں جو ابھی تک دنیا پر کھل رہے ہیں۔ یہ تیسری سے دسویں صدی عیسوی میں جنوبی...
22/02/2021

میکسیکو ایک پراسرار جگہ ہے ، یہاں کئی ایسے راز ہیں جو ابھی تک دنیا پر کھل رہے ہیں۔ یہ تیسری سے دسویں صدی عیسوی میں جنوبی میکسکو، گوئٹے مالا، ایل سلوا ڈور سے لے کر بے لائیز اور مغربی ہونڈراس تک کم و بیش 1000کلو میٹر وسیع و عریض خطے پر ایک عظیم و الشان تہذیب نے جنم لیاتھا۔ہم اسی تہذیب کو قدیم مایا تہذیب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
یہاں ایسے جوہر قابل پیدا ہوئے کہ چشم فلک نے ایسے نابعئہ روزگار دوبارہ نہ دیکھے ہوں گے۔علم ہندسہ ،فلکیات اور تعمیرات پر انہیں ناقابل یقین دسترس حاصل تھی۔انہوں نے اسی دور میں "0”(صفر) کا استعمال سیکھ لیا تھا۔انہوں نے انوکھے اہرام بنائے اور ان سے کلینڈر کا کام لیا۔ (365سیڑھیوں کا اہرام آج تک موجود ہے)حقیقت یہ ہے کہ ان کے بنائے گئے کلینڈر ہمارے آج کے کلینڈرز سے زیادہ درست ہیں ۔ ان کا حساب اتنا درست ہے کہ فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ سورج کب نصف النہار پر ہوگا، سال کے کن حصوں میں دن رات برابر ہوں گے، ہمارے نظام شمسی میں دیگر سیارگان کے گزرنے کے راستے اور اوقات کیا ہوں گے۔زہرہ اور مریخ کے مدار کون کون سے ہیں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
انہوں نے ہزاروں برس قبل اور بعد کے حسابات کر رکھے تھے۔ ان حسابات کی بنیاد پر وہ مختلف پیشن گوئیاں کیا کرتے تھے، سورج اور چاند گرہنوں کے جو اوقات مایا کلینڈر میں درج ہیں سیکڑوں برس کا تجربہ انہیں درست ثابت کرتا آرہا ہے۔ انہوں نے جنرل کویٹز کے حملے کی خبر کئی سو برس قبل دےدی تھی۔
کلینڈر کہا جاتا ہے۔Long Countمایا کے کاہنوں نے کوئی کلینڈربنائے تھے ان کے تیسرے کلینڈر کو
،3114قبل مسیح کو شروع ہوا تھا،Long Countا س میں دنوں کا حساب مسلسل ہے، یہ 5000برس بعد شروع ہوتا ہے ،
مایا ہے کے بارے میں ایک تحقیقی آرٹیکل ملاحظہ فرمائیے

مایا تہذیب کیوں تباہ ہوئی؟

پراسرارعہد کے بارے میں نئی تحقیق، نئے انکشافات
جنوبی میکسیکو اور وسطی امریکا کے گھنے جنگلات میں ہمیں مایا تہذیب کا سراغ ملتا ہے۔ وسطی میکسیکو کے حکم رانوں نے یہاں بہت کروفر سے حکومت کی مگر ہر سلطنت ایک عروج پر پہنچ کر زوال پذیر ہوجاتی ہے۔

3000 سال قبل مایا تہذیب کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ یہ سیکڑوں برس تک زندہ رہی۔ اس تہذیب کے فرزندوں نے یہاں کے خطرناک حالات اور موسم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور زراعت، تعمیرات اور آب پاشی کو فروغ دیا۔ سخت محنت کے بعد ایک ایسی تہذیب کا جنم ہوا جو آس پاس کی تہذیبوں سے ہزار درجے بہتر تھی اور وہ مایا تہذیب تھی۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ وہ فنون لطیفہ کے دل دادہ تھے، سفر کا تصور بھی انھوں نے ہی پیش کیا۔ زیرنظر تحقیقی مضمون ایرک وینس نے نیشنل جیوگرافک کے لیے تحریر کیا، جس کا ترجمہ قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

ہولمل شہر کو مایا تہذیب کا اہم حصہ تصور کیا جاتا ہے، مگر اس قدیم شہر کے بارے میں ابھی تک بہت زیادہ معلومات حاصل نہیں کی جاسکی ہیں۔ ایک عام مبصر کی نظر میں یہ میکسیکو کی سرحد پر گوئٹے مالا کے جنگلات کے درمیان کھڑا ایک پہاڑی سلسلہ ہے۔ پیٹس بیسن کا یہ جنگل لوگوں کی توقع سے کہیں گھنا اور گرم مگر خشک ہے، جہاں اکثر سناٹے میں صرف بندروں کا شوروغل سنائی دیتا ہے۔

لیکن اس کا جب قریب سے مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ پہاڑیاں بڑے بڑے دائروں کی صورت میں ایستادہ ہیں۔ ان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مسافر دوران سفر رات کے اندھیرے میں آگ کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھے ہوں اور قریب جاکر معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہاڑیاں شہروں کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں اور بعض کے اندر تو سرنگیں بھی موجود ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ پہاڑیاں نہیں بل کہ اہرام ہیں۔ وہ قدیم اہرام جو ہزاروں سال قبل مایا تہذیب کی تباہی کے بعد زوال پذیر و زمین بوس ہونے کے لیے باقی رہ گئے تھے۔

250 سے 900 عیسوی کے درمیان یہاں عالی شان مایا تہذیب سے جڑی فروغ پذیر آبادی تھی۔ وسطی امریکا اور شمالی میکسیکو میں آج نظر آنے والی ثقافت اسی دور میں پنپی اس کے علاوہ وہ سیاسی انقلابات کا بھی دور تھا، جس میں دو متحارب ریاستیں بالادستی کی خواہش میں ایک دوسرے سے الجھی رہیں پھر ایک ریاست نے مایا تہذیب کی تاریخ میں ایک مفصل زمانہ گزارا۔ اور یہ وقت تھا جب ’’کینؤل‘‘ خاندان کے ’’سانپ بادشاہ‘‘ نے حکم رانی کی، کچھ عرصہ قبل کوئی بھی اس بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ اب ماہرین آثار قدیمہ ہولمل اور دیگر شہروں سے ملنے والے شواہد اور باقیات کی مدد سے سانپ بادشاہت کی کہانی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سن 2000 سے پہلے ہولمل ماہرین کی توجہ کا مرکز کبھی بھی نہیں رہا، کیوں کہ کبھی بھی اتنا مشہور نہیں رہا جتنا اس کا نزدیکی شہر ’’ٹسکال‘‘ تھا۔ پھر ایک اٹلی نژاد گوئٹے مالن فرانسکو ’’ایسٹراڈا‘‘ یہاں آیا۔ اس کے آنے کا مقصد کسی ماورا چیز کی تلاش نہیں تھی بل کہ وہ مایا تہذیب کی جڑوں کی تلاش میں یہاں آیا۔ سب سے پہلی چیز جو اس کو ملی وہ ہولمل کے مرکزی اہرام کے پاس ایک عمارت تھی، جہاں اس مقدس دیوار کے باقیات موجود تھے جس کی زیارت کے لیے دور دراز جگہوں سے زائرین یہاں آتے تھے۔

زیادہ عجیب بات تو یہ ہے کہ اس دیوار کو ان لوگوں نے خود ہی مسمار کیا گویا وہ خود اپنی تاریخ چھپانا چاہتے ہوں۔ ایسٹراڈا اپنی کھوج میں سرنگوں سے گزر کر اہرام تک پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ قدیم زمانے کے وسطی امریکن باشندے اپنے اہرام مختلف مراحل میں تیار کرتے تھے اس میں ایک سب سے اونچائی پر ہوتا تھا۔ اور ان تک پہنچنے کے لیے سرنگیں بنائی جاتی تھیں۔

سن 2003 میں ایسٹراڈا نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایسے ہی ایک بڑے اہرام پر تحقیقی کام کیا، یہاں تک پہنچنے کے لیے پہلے سیڑھیوں کو تلاش کیا گیا داخلی راستے میں اوپر کی جانب ایک قدیم مزار ملا جس میں 26 فٹ لمبی حنوط شدہ لاش موجود تھی ایک نازک اور نادر عمل کے ذریعے لاشوں کو ایک خاص پلاسٹر میں محفوظ کیا گیا تھا۔ یہاں ایک بھاری کپڑے میں تین نفوس کو ایک ساتھ دکھایا گیا تھا جس میں ایک ہولمل کا بادشاہ تھا جو ایک بدصورت دیو کے منہ سے نکل رہا تھا اور اس نے دو بڑے پر دار سانپ لپیٹے ہوئے تھے۔

یہ بلاشبہہ یہاں کا ایک موثر شاہکار تھا، جو ایسٹراڈا کو دیکھنے کو ملا۔ پھر ایسٹراڈا کو اس کے نچلے حصے میں پتھروں کی ایک قطار نظر آئی اس نے جھک کر دیکھا تو وہاں اس وقت کے کچھ تراشے بھی موجود تھے۔ یہاں انھیں ایک چونکا دینے والی چیز نظر آئی اور وہ تھا ایک مسکراتا ہوا سانپ۔ اس سانپ کا نام ان تراشوں میں ’’کانوال‘‘ درج تھا۔ ایسٹراڈا کہتے ہیں کہ اب ہم مایا تاریخ کے ایک بہت دل چسپ حصے میں پہنچ چکے تھے۔

یہاں سے اس سانپ (کانوال) کی دریافت ہوئی اور ’’ٹسکال‘‘ میں بادشاہت کے حصول کے لیے ان کی طرف سے ہونے والی کوششوں کا سراغ ملا۔ مایا قوم کا ’’ٹسکال‘‘ کے میدانی علاقوں میں صدیوں تک غلبہ رہا۔ 750 عیسوی میں یہ وسیع و عریض شہر ساٹھ ہزار کی آبادی کا حامل تھا اور اس کی دل کش عمارتیں یہاں آنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتی تھیں۔ اپنی کھوج میں ماہرین کو یہاں سے سیکڑوں پتھروں سے بنی ہوئی قبریں بھی ملیں، جن کے کتبوں پر موجود تصاویر اور عبارتوں سے تحقیق دانوں نے ’’ٹسکال‘‘ کی تاریخ کو ازسر نو تعمیر کیا۔ 1960 میں ماہرین کو اس قدیم شہر کے اطراف بکھری باقیات سے مزید تراشے ملے۔ ان میں موجود تمام علامتیں اس مسکراتے ہوئے سانپ کے بادشاہ ہونے کا واضح اشارہ کر رہی تھیں۔ 1973 میں ایک اور ماہر آثارقدیمہ ’’جوائس مارکس‘‘ کو کچھ اور تراشے بھی ملے، جن میں اس شہر کی حکم رانی کی علامات اور خطابات درج تھے۔

وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ ان تراشوں کا تعلق بھی ’’ٹسکال‘‘ شہر ہی سے تھا۔ اس سے انھوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا ٹسکال شہر کچھ دوسرے نامعلوم حملہ آوروں کا بھی نشانہ بنا ہے؟ اور اگر ایسا تھا تو انھوں نے یہ طاقت کس طرح حاصل کی اور آیا اس بات سے ماہرین واقف بھی ہیں یا نہیں؟ پیٹن کے جنگلات گرم اور خشک ہیں جب کہ برسات میں یہاں راستے ہی مسدود ہوجاتے ہیں زہریلے پودوں اور کیڑوں کی یہاں بھرمار ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ جنگلات منشیات کے اسمگلروں کی گزر گاہ ہیں۔

مارکس نے مہینوں کی کھوج کے بعد ان جنگلات کو تلاش کیا۔ یہاں سے گزر کر انھوں نے کھنڈرات کا دورہ کیا۔ وہاں موجود تراشوں کی تصاویر جمع کیں۔ وہ اپنی تحقیق کے دوران جس جگہ بھی گئیں انھیں ’’مسکراتے ہوئے سانپ‘‘ کی نشانیاں ملتی گئیں خاص طور پر ’’کلا کمل‘‘ میں (جو اب میکسیکو کا جنوب سرحدی علاقہ ہے)۔ جب وہ کلاکمل پہنچیں تو حیران رہ گئیں کہ دو صدی قبل کے اہرام فضا سے ہی صاف دکھائی دے رہے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل علاقہ تھا۔ یہاں ان سانپوں کے متعلق ان کو صرف دو تراشے ملے۔ سانپوں کے اس اسرار کے بارے میں برٹش محقق ’’سائمن مارٹن نے‘‘ حوصلہ افزا کام کیا۔ اس نے کلاکمل اور دوسرے چھوٹے شہروں سے وہ تمام تراشے جمع کیے جو سانپوں کے متعلق تھے۔

ان تراشوں اور تصاویر کے ذریعے اس نے مایا تہذیب میں سانپوں اور ان کی سلطنت کے حصول کے لیے کی جانے والی سیاسی سازشوں اور جنگوں کا سراغ لگایا۔ مارٹن اور دوسرے محقق ’’نکول گریب‘‘ نے اس حوالے سے ایک کتاب شایع کی، جس کا نام “Chronical of the Maya King and Queen” ہے۔ اس میں انھوں نے مایا قوم اور ان کی سلطنت کی مکمل تاریخ بیان کی ہے اور اس تہذیب میں سانپوں کی حکومت کی صدی کو ایک رنگارنگ دور سے تعبیر کیا ہے بقول مصنفین سانپوں کی سلطنت ایک Black Hole کی مانند تھی، جس نے اطراف کے تمام شہروں کو اپنی طرف کھینچ لیا اور ایک نئی سلطنت تخلیق ہوئی۔ اس کے لیے ماہرین کا اغلب گمان یہ ہے کہ یہی مایا سلطنت تھی۔

بہرحال ان سانپ حکم رانوں سے متعلق اب بھی بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ مثلاً وہ کیسے رہتے تھے؟ ان کا طرز حکومت کیسا تھا؟ وہ جنگیں کس طرح لڑتے تھے اور سب سے اہم سوال تو یہ کہ کیا ان کا حقیقت سے کوئی تعلق تھا؟ پانچویں صدی کے اختتام پر ’’ٹسکال‘‘ شہر خطے کی سب سے طاقت ور ریاست تصور کی جاتی تھی۔ ماہرین کے نزدیک مغرب کی طرف 650 میل اونچے پہاڑوں کے شہر ’’ٹوتھیکان‘‘ کی مدد سے انھوں نے یہ عظیم الشان اور طاقت ور ریاست بنائی۔ ٹوتھیکان کو اب میکسیکو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عرصۂ دراز تک یہ دو شہر ہی مایا تہذیب کا مرکز مانے جاتے تھے۔ مصوری، تعمیرات، شعرو شاعری، ہتھیارسازی اور شہر کے نقشے، سب اسی دور میں ترتیب دیے گئے مگر چھٹی صدی میں ٹوتھیکان نے ٹسکال سے علیحدگی اختیار کرلی۔

سانپوں کی سلطنت کے بارے میں کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کے بانی کہاں سے آئے تھے۔ 635 عیسوی سے قبل ان کی حکم رانی کا کہیں نشان نہیں ملتا۔ کچھ ماہرین اسے 100 سال قبل کا سنہری دور قرار دیتے ہیں، مگر یہ صرف اندازے ہیں۔ اس کے بارے میں پہلا واضح تراشہ جنوبی کلاکمل سے 80 میل کی دوری پر شمالی میکسیکو کے شہر ’’ڈربنچ‘‘ سے ملا، جس نے بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھایا۔ چھٹی صدی میں سانپوں کی سلطنت سے قبل ٹسکال ہی سپرپاور تھا، مگر سانپ بادشاہ نے قبضہ کرکے اپنی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس حوالے سے دو بڑے بادشاہوں کا نام تاریخ میں ملتا ہے۔

۔جن میں ایک ’’پتھریلے ہاتھوں والا چیتا‘‘ تھا جس نے مایا کے میدانی علاقوں میں کئی دہائیوں تک حکومت کی، پھر ٹسکال نے شمالی ایشیا میں موجود اتحادیوں سے سانپوں کے خلاف گٹھ جوڑ کیا۔ دوسری طرف سانپ حکم راں بھی مقابلے کے لیے تیار ہوگئے اور جب سانپ بادشاہ ٹسکال پر حملے کے لیے روانہ ہونے کو تھے اس وقت ’’سانپوں کے دیوتا‘‘ کی وفات ہوگئی اور اس کی جگہ اس کا بیٹا جس کا نام ’’آسمانی گواہ‘‘ تھا، موسم بہار میں بادشاہ بنادیا گیا۔ یہ کم عمر بادشاہ متاثر کن شخصیت کا حامل تھا۔

محققین نے اس کی باقیات کا مطالعہ کیا تو پتا چلا کہ وہ بہت مضبوط قدکاٹھ کا مالک تھا اور کسی جنگ میں اس کی کھوپڑی تباہ ہوگئی تھی۔ ملنے والے تراشوں سے پتا چلتا ہے کہ ’’آسمانی گواہ‘‘ نے ٹسکال کی حکومت 29 اپریل 596 کو ختم کردی تھی۔ انھوں نے بادشاہوں کو برطرف کردیا اور پتھروں کے بنے بلیڈوں سے ان کی زندگی کو بھی قربان کردیا۔ اب محققین کا اندازہ ہے کہ ہولملز نے اس دیوار کو خود ہی تباہ کیا ہوگا جس کا سراغ 1400 سال بعد ایسٹراڈا نے لگایا ہے اور انھوں نے ایسا سانپوں کے بادشاہ سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے کیا ہوگا۔ اس طرح اس خطے میں سانپ بادشاہت کا آغاز ہوتا ہے۔

میکسیکو سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے مطابق بادشاہ ’’آسمانی گواہ‘‘ اس فتح کے صرف دس سال بعد ہی مر گیا اور اس وقت وہ اپنی عمر کے تیسویں سال میں تھا۔ سن 2004 میں ’’اینرک اور سانڈرا‘‘ نے ایسے مقبرے کا سراغ لگایا، جہاں ہڈی سے بنی ہوئی سوئیاں بھی موجود تھیں ان کے اندازے کے مطابق ان سوئیوں سے حسب روایت بادشاہ ’’آسمانی گواہ‘‘ کو خون دیا جاتا ہوگا۔ ٹسکال شہر میں کل آٹھ سانپ حکم راں گزرے ہیں، جن میں سے ان دو بادشاہوں کی باقیات ماہرین کو ملی ہیں۔ سانپ حکم رانوں نے اگلے مرحلے میں مغرب کی جانب ایک پرتعیش شہر ’’پلانک‘‘ پر اپنا تسلط قائم کیا۔ ٹسکال اور کلاکمل کے برعکس پلانک ایک نفیس اور خوب صورت شہر تھا۔ اس کے دل کش اہرام اور مینار میکسیکو کے خوب صورت پہاڑوں کے دامن میں تھے۔

یہاں بے شمار ندیوں اور آبشاروں کے باعث پانی کی بہتات تھی، حتیٰ کہ بیت الخلاؤں میں بھی پانی کی رسائی کا انتظام کیا جاتا تھا۔ دس ہزار نفوس پر مشتمل یہ شہر زیادہ بڑا نہ تھا۔ مگر یہاں کی تہذیب اور مغرب کی طرف کھلنے والے تجارتی راستوں نے حملہ آوروں کو یہاں کا رخ کرنے پر اکسایا۔ لہٰذا سانپوں نے بھی اپنے نئے بادشاہ ’’طومار ناگن‘‘ کے ساتھ وہاں کا رخ کیا اور اپنے بڑوں کی طرح اتحادیوں کے ساتھ مل کر پلانک شہر پر حملہ کیا پلانک کی ملکہ نے اپنے شہر کو بچانے کی بھرپور کوشش کی، بالآخر 21 اپریل 599 کو سانپ حکم راں کے سامنے ہتھیار ڈال ڈیے۔ اپنی وسیع خواہشوں کی تکمیل کے لیے جھگڑوں اور حملوں کے اس تسلسل نے سانپوں کے دور حکم رانی کو مایا تہذیب میں ایک خاص مقام دیا۔ میکسیکو یونیورسٹی کے ایک محقق کے مطابق پلانک شہر پر ان کا حملہ بھی وسیع و عریض حکومتی منصوبہ بندی کا ایک حصہ تھا۔ ان حملوں کے پیچھے مادی چیزوں کے حصول کی غرض سے زیادہ وسیع حکمرانی کے خوب صورت تخیل کی تکمیل تھی۔

آسمانی گواہ اور طومار ناگن کے بعد سانپوں کی سلطنت میں جس بادشاہ کا ظہور ہوا وہ ’’یکتوم دوم‘‘ تھا۔ یہ ایک قابل بادشاہ ثابت ہوا، اس نے اپنے پچاس سالہ طویل دور حکومت میں مایا کے میدانی علاقوں میں مضبوط سیاسی نظام ترتیب دیا۔ پھر کمال ہوشیاری سے کبھی رشوت کا سہارا لے کر تو کبھی ڈرا دھمکا کر ’’سائرس‘‘ اور ’’آگسٹس‘‘ کی ریاستوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کردیا۔ اس کا مقصد غالباً سیاسی قیادت کا حصول تھا۔

ماہرین آثار قدیمہ نے ان مقامات کو اس وقت دوبارہ دریافت کرنے کی کوشش کی جب 1970 کے آغاز میں خوب صورت اور شان دار پتھروں کے بلیک مارکیٹ میں فروخت ہونے کا انکشاف ہوا، ان پتھروں پر پیچیدہ زبان درج تھی اور لٹیرے یہ پتھر کہیں سے چرا کر لا رہے تھے تاکہ انھیں بیرون ملک اسمگل کیا جاسکے۔ اکثر پتھروں پر ’’مسکراتے ہوئے سانپ‘‘ کے وہی نشان اور تراشے کندہ تھے۔ تحقیق دانوں کو اس جگہ کا علم نہ تھا جہاں سے یہ پتھر لائے جا رہے تھے چناں چہ انھوں نے اس جگہ کو ’’Q‘‘ کا نام دے دیا۔

اپریل 2005 میں ماہرین کی ایک ٹیم نقشوں کے ساتھ پیٹن کے جنگلات کی طرف روانہ ہوئی۔ انھوں نے لٹیروں کے استعمال میں آنے والی کھائی سے ہی اپنا راستہ بنایا اور اس کے ذریعے اہرام میں داخل ہوگئے۔ ’’کوانٹو‘‘ کہتے ہیں کہ ’’میں ان پتھروں کو دیکھ کر مارے حیرت کے پیچھے کی طرف کود پڑا۔ کیا ہم واقعی اس چیز تک پہنچ چکے تھے جس کی تلاش میں آئے تھے یہ سب کسی اسکرپٹ کا حصہ لگ رہا تھا۔ مٹی اور پودوں کے درمیان سنگ تراشی کا ایسا خوب صورت نظارہ میں نے آج سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ ہم نے اسے فوراً یہاں سے لے جانے کی تیاری کرلی اور یقین کرلیا کہ یہی ہماری مطلوبہ جگہ یعنی ’’سائٹ Q‘‘ ہے۔‘‘

مایا سلطنت میں اس جگہ کا نام ’’سیکانیکاٹ‘‘ تھا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ کو سانپوں کے دور حکم رانی میں کوئی خاص مقام حاصل تھا۔ یہاں کی ایک سانپ شہزادی تعلیم کے حصول کے لیے کلاکمل گئی اور تین سانپ شہزادیاں یہاں بیاہی گئیں۔ دوسرے علاقوں کے برعکس البتہ یہاں زیادہ جنگوں کے آثار نہیں ملے۔ ’’دھوپ کا کتا‘‘ ، ’’سفید کیڑا‘‘ اور ’’سرخ ترکی‘‘ کے نام سے یہاں بادشاہ گزرے ہیں آس پاس لگے ہوئے پینلز سے معلوم ہوتا ہے کہ الکوحل یہ لوگ مشروب کے طور پر استعمال کرتے تھے اور آلات موسیقی کے طور پر بانسری کا استعمال کیا جاتا تھا۔ کوانٹو کو اس تحقیق میں یہ بھی پتا چلا کہ بادشاہ ’’یکتوم دوم‘‘ نے دارالحکومت کلاکمل منتقل ہونے سے قبل اس جگہ کا دورہ کیا تھا یہاں سے ملنے والی تصاویر میں بادشاہ یکتوم کو مطمئن انداز میں تخت پر بیٹھے دیکھا جاسکتا ہے۔

’’سیکانائٹ‘‘ ہی واحد جگہ نہیں تھی جہاں سانپ غالب تھے بل کہ پوری مایا سلطنت میں جگہ جگہ بادشاہ ’’یکتوم‘‘ کا نام نظر آتا ہے۔ اس کی بیٹی جس کا نام ’’پانی کا پھول‘‘ تھا کی شادی ’’شہزادے واکا‘‘ سے ہوئی جو بعد میں ایک طاقت ور جنگ جو ملکہ بنی اس نے شمال اور جنوب کے علاقوں میں نئے بادشاہ مقرر کیے اور ٹسکال کی نئی سلطنت پر بھی حملہ کردیا وہاں کے بادشاہ نے ملکہ کی وفاداری اختیار کرلی۔ اس نے سلطنت کے جنوب میں اتحادیوں سے تجارتی رابطے رکھنے کی غرض سے نئے راستے قائم کیے۔

دوران تحقیق ماہرین نے یہ عجیب و غریب بات بھی دریافت کی کہ سانپ بادشاہ کے اتحادی بادشاہ اپنی الگ سے نہ کوئی شناخت رکھتے تھے، نہ علامت اور نہ بادشاہوں والے القاب استعمال کیا کرتے تھے۔ خود کو بادشاہوں کی طرح شاندار زینت سے بھی نہ کرتے تھے۔ دریں اثنا کلاکمل کا سانپ بادشاہ اپنے لیے ’’ککومئے‘‘ کا خطاب استعمال کرتا تھا جس کے معانی تھے ’’بادشاہوں کا بادشاہ۔‘‘ سانپ حکم راں ہر وقت اپنی توجہ پرانے دشمن ٹسکال پر مرکوز رکھتے تھے جس نے کئی مرتبہ انتقام لینے کی کوشش بھی کی۔

سن 651 میں بادشاہ یکتوم اور اس کے کٹھ پتلی اتحادیوں نے ٹسکال پر حملہ کردیا۔ تقریباً دو صدی بعد ٹسکال دوبارہ ابھر کر سامنے آئے سانپ حکم راں نے ایک بار پھر اس کو شکست دی اور ان کے بادشاہ کو بھی قتل کردیا۔ ماہرین کے لیے سوال یہ اٹھتا ہے کہ ٹسکال مقتدر سانپ بادشاہوں کو دوبارہ للکارنے کے قابل کیسے بنے۔ شاید مایا سلطنت کو اتحادی بناتے وقت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت تھی اور اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سانپ بادشاہ فتح کے بعد شکست خوردہ بادشاہ کو زندہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔

اس کے لیے ہارے ہوئے بادشاہ کے اتحادی بھی بادشاہ کے لیے رحم کی درخواست کرتے تھے، کیوں کہ ان کے ذہن میں یہ بات ہوتی تھی کہ اگر بادشاہ کو مار دیا گیا تو اگلی باری ان کی ہے اور تیسری وجہ اس کی یہ ہے کہ مایا سلطنت کے بادشاہوں کی فوج زیادہ بڑی نہیں ہوتی تھی۔ وجہ بہرحال جو بھی تھی یہ حقیقت ہے کہ ’’یکتوم دوم‘‘ نے سیاسی کھیل کو بہت مہارت اور ہوشیاری سے کھیلا۔ اس نے جنگ جیتنے کے بعد ٹسکال کو اپنے اتحادی ’’آسمانی ہتھوڑا‘‘ کے حوالے کرنے کے بجائے ٹسکال کے بادشاہ کے ساتھ سربراہی اجلاس منعقد کیا اور اس میں اپنے بیٹے ’’آگ کا پنجا‘‘ کو جانشین کے طور پر متعارف کروایا۔ یکتوم دوم کی وفات 86 سال کی عمر میں ہوئی۔ ’’کلاکمل‘‘ کے عوام اس حوالے سے زیادہ خوش قسمت ثابت نہ ہوئے کہ نئے بادشاہ کا تعلق ایسی نسل سے تھا جو لاڈ پیار میں پروان چڑھی، نرم خوراک کی عادی اور موٹاپے کا شکار تھی، نیا بادشاہ اپنے باپ کی طرح ریاست چلانے کی خواہش تو رکھتا تھا مگر اس کی بادشاہت مختصر وقت میں بھی ناکام ہوگئی۔ اس نے پے درپے کئی جنگوں میں شکست کھائی۔

695 میں ٹسکال پھر ابھر کر سامنے آئے جس سے مقابلے کے لیے سانپ حکم رانوں کی طرف سے پھر فوج بھیجی گئی۔ اس کے بعد کیا ہوا اس بارے میں تاریخ یقینی طور پر کچھ نہیں بتاتی کچھ ماہرین کے نزدیک بادشاہ ’’آسمانی ہتھوڑا‘‘ اپنے اتحادیوں سے بدظن ہوچکا تھا، بعض کے نزدیک بادشاہ ’’آگ کا پنجا‘‘ ریڑھ کی ہڈی کی شدید تکلیف میں مبتلا ہوکر اپنے بیڑوں کی حوصلہ افزائی نہ کرسکا، وجہ کچھ بھی ہو مگر ایک بات حقیقت ہے کہ ستارے ان کے لیے اب روشن نہیں رہے تھے۔ سانپ سلطنت نے یہاں سے اپنا رخ بدل کر ’’چترا‘‘ کی طرف کرلیا، یہاں ان کی حکومت بنی مگر بادشاہ ’’آگ کا پنجا‘‘ وفات پاگیا اور اپنے ساتھ سانپ سلطنت کی وسیع حکم رانی کا خوب صورت خواب بھی لے گیا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس کے بعد سانپ کبھی طاقت میں نظر نہیں آئے، مگر ان کے چھوڑے ہوئے اثرات نظر آتے رہے۔ 711 عیسوی میں سانپ سلطنت کے سب سے بڑے اتحادی ’’نارنجو‘‘ نے دعویٰ کیا کہ وہ اب تک سانپ بادشاہ کا ہی وفادار ہے یوں ’’سیکنائیٹ‘‘ میں ایک نیا شہزادہ ابھرا لیکن اب سانپ اپنے کاٹنے کی صلاحیت کھوچکے تھے کلاکمل کے پڑوسی شہر اب علی الاعلان ’’چمکادڑ بادشاہت‘‘ کا جشن منا رہے تھے جس سے صاف ظاہر تھا کہ انھوں نے سانپ بادشاہت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔

اگلی صدی میں ٹسکال نے اپنا زیادہ تر وقت سانپ سلطنت کی اتحادی ریاستوں کو سزا دینے میں صرف کیا جیسے ہولمل، نارنجو، کاراکولی اور واکا۔ اب سیکنائیٹ کے لوگوں نے خود کو نفرت اور جنگ سے الگ کرکے محبت کی علامت سے منسوب کیا اور ٹسکال کے شہزادے کو اپنے ہاں نہ صرف مدعو کیا بل کہ 791 میں اپنے ایک نواب گھرانے میں اس کی شادی بھی کروادی۔ اس سب کے باوجود ٹسکال سانپ سلطنت جیسا عروج اور طاقت حاصل نہ کرسکے اور 800 کے درمیانی عرصے میں مایا تہذیب زمین بوس ہوگئی۔ ہوسکتا ہے اس تباہی کی وجہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ، نقص امن اور طویل عرصے تک جاری رہنے والا قحط ہو، جس سے یہ عظیم الشان سلطنت افراتفری کا شکار ہوئی اور بالآخر نام و نشان تک کھو بیٹھی۔

سوال تو یہ ہے کہ اگر سانپ سلطنت ہوتی تو کیا یہ تہذیب بربادی سے بچ جاتی؟ اگر ’’آگ کا پنجا‘‘ بادشاہ 895 میں ٹسکال حکومت کو شکست نہ دیتا تو کیا ہوتا؟ اس بارے میں ماہرآثار قدیمہ ’’ڈیوڈ فرائیڈ‘‘ کہتے ہیں کہ ’’میرا خیال ہے اس صورت میں تباہی سے بچا جاسکتا تھا‘‘ ایک اور محقق کے نزدیک ’’ایک ہی سلطنت کا طویل عرصے تک غالب اور قابض رہنا اس تباہی کی ایک بڑی وجہ بنا جس کے باعث انتشار، افراتفری، جنگوں اور قحط کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘

ہوسکتا ہے آئندہ چند سالوں میں ہمیں اپنے تمام سوالوں کا جواب مل جائے۔ آج سے 40 سال قبل جس سلطنت کو خیالی، تصوراتی اور افواہ سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ تحقیق نے آج اسے سب سے بڑی اور طاقت ور مایا سلطنت کا نام دیا۔ رفتہ رفتہ جاری رہنے والی تحقیق سے ماہرین اس عالی شان ماضی کی درست تصویر ہمارے سامنے لانے کے قابل ہوسکیں گے۔ سانپ سلطنت کے بارے میں ماہرین کے درمیان اب بھی متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ ’’رومن کیریسو‘‘ کہتے ہیں کہ ان کو اپنے عروج سے کبھی زوال ہوا ہی نہیں۔ بہرحال ماہرین آثار قدیمہ سچ کی تلاش میں ہیں۔ 1966 میں رومن کیریسو نے کلاکمل کی کھدائی میں حصہ لیا تھا اور 300 قبل مسیح کے اہرام دریافت کیے تھے۔ انھوں نے جب اہرام کے اوپری جانب سے پتھر بنائے تو وہاں ایک جسم کی باقیات موجود تھیں وہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے ڈھکن اٹھایا تو نیچے بہت ساری ہڈیاں ہم دیکھ سکتے تھے۔

اس کے علاوہ وہاں بہت ساری مٹی بھی تھی، جو اسی وقت کی معلوم ہوتی تھی۔ اس مقبرے کی کھدائی میں نو ماہ کا عرصہ لگا، اندر جاکر معلوم ہوا کہ یہ ایک عظیم بادشاہ کا مقبرہ ہے، اس بادشاہ کی لاش ایک ملائم شال میں لپٹی ہوئی تھی، جس پر بڑے بڑے موتی جَڑے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ایک عورت اور بچے کے جسم کے باقیات بھی وہاں پائے گئے۔

بادشاہ کی لاش مٹی اور دھول سے اٹی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا پھر انھوں نے ایک برش کی مدد سے انتہائی احتیاط کے ساتھ کھوپڑی کی صفائی شروع کی۔ تحقیق کے مطابق یہ آدمی وزن میں بھاری تھا مقبرہ بہت خوب صورتی سے آراستہ تھا وہاں بادشاہ کے قریب ہی چینی مٹی سے بنی ہوئی پلیٹ تھی، جس پر اسی مسکراتے ہوئے سانپ کا سر بنا تھا اور نیچے لکھا تھا “Claw of fire’s plate” یعنی یہ پلیٹ ’’بادشاہ آگ کا پنجا‘‘ کی ہے۔ کھوپڑی کی صفائی کے بعد جو پہلی چیز ماہرین کو نظر آئی وہ ایک آنکھ تھی، جو ماضی سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی
تحریر
فرحین ستار شیخ
بحوالہ
روزنامہ ایکسپریس

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share