05/07/2023
شہزادہ داؤد، ٹائیٹن آب دوز اور سورة نور آیت40
اوشین گیٹ 2021سے ارب پتیوں کو سمندر کی تہہ میں 3300 میٹر نیچے ٹائی ٹینک کے ملبے کی سیر کرا رہی ہے۔ ٹائی ٹینک کا ملبہ 1985 میں دریافت ہوا اور اوشین گیٹ نے 2021 سے دنیا بھر کے امراء کو اس کی سیر کرانی شروع کر دیی۔
شہزادہ داؤد اور سلیمان داؤد 18 جون کو ٹائیٹن میں سوار ہوئے اور آب دوز پانی میں اتر گئی۔ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد آب دوز کا کنٹرول روم سے رابطہ ٹوٹ گیا، آج تک کی تحقیقات کے مطابق آب دوز پونے دو گھنٹے بعد Bathypelagic Zone میں دھماکے سے پھٹ گئ اور یہ زون 3 ہزار میٹر کی گہرائی میں ہے۔
آب دوز کی دم اور لینڈنگ فریم ٹائی ٹینک کے ملبے سے 1600 فٹ کے فاصلے سے ملا تاہم لاشیں غائب تھیں اور یہ لاشیں سرے دست کسی ٹیکنالوجی کی مدد سے دریافت نہیں ہو سکتیں، کیوں نہیں ہو سکتیں؟
چناں چہ پوری دنیا کے میڈیا نے یہ خبر اٹھا لی، دنیا جہاں کے بحری ماہرین بھی سامنے آئے اور دنیا کو پہلی مرتبہ پتا چلا سمندر میں تہہ در تہہ بحریں waves ہوتی ہیں۔ ایک بحر کے بعد دوسری بحر اور دوسری کے بعد تیسری بحر آتی ہے اور یہ بحریں سمندر میں سناٹا اور اندھیرا کرتی چلی جاتی ہیں، سمندر میں دو گھنٹے گہرائی میں سفر کے بعد پانی میں اندھیرے کے ایسے گہرے بادل چھا جاتے ہیں۔
جنھیں لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، کیوں؟ کیوں کہ یہ اندھیرا دنیا کے کسی بھی مقام پر انسان کے تجربے میں نہیں آتا، بحری ماہرین اس اندھیرے کو پچ ڈارک نیس (Pitch Darkness) کہتے ہیں، یہ اندھیرا اتنا گہرا ہوتا ہے کہ انسان دوسرے ہاتھ کو ٹٹول نہیں سکتا،
ہمیں یہ جاننے کے لیے سورۃ نور کی آیت چالیس پڑھنا پڑے گی، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں میڈنائٹ زون اور پچ ڈارکنس کے بارے میں بتایا ہے۔
اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌؕ-ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍؕ-اِذَاۤ اَخْرَ جَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَاؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ (سورة نور 40)
"یا جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا ہو، موجوں کے اوپر موجیں اٹھ رہی ہوں، اوپرسے گہرے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہوں، اوپر تلے بہت سے اندھیرے ہوں اور اگر کوئی اپنا ہاتھ نکالے تو وہ اس کو بھی نہ دیکھ پائے”
the darkness in a deep sea, covered by waves upon waves, topped by dark clouds. darkness upon darkness! if one stretches out their hand، they can hardly see it.
آپ یہ آیت دوبارہ پڑھیں اور اس کے بعد ٹائیٹن آب دوز کے سانحے پر ماہرین کی رائے بھی دوبارہ سنیں اور پھر اپنے آپ سے سوال کریں، آج سے چودہ سو سال پہلے جب انسان سمندر میں تین میٹر سے زیادہ گہرائی میں نہیں گیا تھا۔ اس وقت قرآن مجید میں کس نے ڈکلیئر کیا سمندر میں موجوں کے اوپر موجیں ہوتی ہیں اور یہ گہرے بادلوں کی طرح ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہیں اور یہ ایک ایسا اندھیرا تخلیق کر دیتی ہیں جس میں ایک ہاتھ دوسرے کو شناخت نہیں کر سکتا، یہ حقیقت 14 سو سال پہلے کس طرح معلوم ہوگئی؟ دنیا 1985 میں ٹائی ٹینک کا ملبہ تلاش کر پائی جب کہ اللہ تعالیٰ نے 628ئ (چھ ہجری) میں بتا دیا ہم سمندر میں موج کے اوپر موج چلاتے ہیں، یہ موجیں گہرے بادل جیسی ہوتی ہیں اور یہ ایک ایسی پچ ڈارک نیس تخلیق کرتی ہیں جس میں بینائی جواب دے جاتی ہے اور ٹائیٹن اس پچ ڈارک نیس میں گم ہوئی یا تباہ ہوگئی۔
کیا یہ محض اتفاق تھا؟ میں نے اس آیت کا بار بار مطالعہ کیا اور میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اس نے مجھے اپنے اس دین میں پیدا کیا جس نے دنیا کو 1400 سال پہلے پچ ڈارک نیس، موج کے اوپر موج اور پھر اندھیرے کے بادلوں کے بارے میں اطلاع دے دی تھی اور ساتھ یہ بھی فرما دیا تھا، اللہ جس کو روشنی نہ دے اسے کبھی روشنی نصیب نہیں ہوتی اور مجھے ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوا اللہ تعالیٰ نے شاید دنیا کو اپنی آیات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ٹائی ٹینک اور ٹائیٹن کو ڈبویا تاکہ لوگوں تک اس کا پیغام پہنچ سکے۔
شاید اللہ تعالیٰ اس سانحے کے ذریعے عالم اسلام کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہو تم لوگ بلاوجہ احساس کمتری کا شکار ہو اور اس احساس کمتری میں ان لوگوں کی طرف دیکھ رہے ہو جنھیں اللہ نے ایمان کی روشنی سے محروم رکھا ہوا ہے، تم ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو اور صرف اورصرف اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاؤ، تمہارے حالات صرف وہی بدلے گا۔