Moments with you

  • Home
  • Moments with you

Moments with you A page created on the based on a conversation between a father and his daughter

23/02/2023

Band Baja di game ny

14/10/2021

Today I make viral dalgona candy
 

27/07/2021

Devil's due full movie explained in Urdu/Hindi must watch it💕

11/07/2021

The husk full movie explained in Urdu hindi

11/07/2021

A man without gravity movie full explained

31/03/2021
28/03/2021

Hi guys sorry for the inconvenience....I was in a great trouble last days...and was not able to write something...but now I am gonna completing my stories soon....stay tuned and updated love you all❤️

16/09/2020

1st episode of my new novel has been posted....2nd episode 700 page likes py upload hogi....

16/09/2020

Episode 1
Novel: kismat
Writer:Shifa e zainab

ملک وجدان کی گاڑی فارم ہاوس میں آ کر رکی تھی۔
جہاں پورے پروٹوکول سے انکا استقبال کیا جارہا تھا
یہ فارم ہاوس ان کے دوست اعجاز ملک کا تھا۔جہاں یہ اکثر ٹھہرنے آتے تھے۔ اپنے شاہانہ انداز سے ملک وجدان اپنی گاڑی سے باہر نکلا۔داخلی دروازے پہ ملک اعجاز اسکے استقبال کے لیے کھڑا تھا۔پورے فارم ہاوس کو مختلف طرز کی روشنیوں سے سجایا گیا تھا۔ فارم ہاوس کے تمام ملازم قطار میں کھڑے ملک وجدان پر پھول نچھاور کر رہے تھے۔
کیسا ہے میرا یار۔۔۔"اپنی بانہیں پھیلائے کھڑے ملک اعجاز نے ملک وجدان کو گلے سے لگا کر خوشدلی سے استقبال کیا۔
ہاہاہا۔۔۔یہ سب کیا ہے۔۔۔اعجاز اتنا استقبال۔۔۔"وہ اپنے آس پاس نظر دوڑاتے ہوئے بولا۔۔
ابھی اندر آو کوئی شدت سے تمہارا انتظار کر رہا ہے"ملک اعجاز آنکھ دباتے ہوئے بولا۔
وہ دونوں ایک قہقہہ لگاتے ہوئے اندر کی جانب چل دیے۔
اس کمرے میں بہت سے موم بتیاں جلائی گئی تھیں۔یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ وہ کمرہ ملک وجدان کے شایان شان تھا۔۔جس میں موجود ایک بڑی سے کھڑی جس کے پار سوئمنگ پول تھا۔ جس پر بہت سے پھول اور دیے بہہ رہے تھے۔ وہیں پول کے کنارے پر ملک وجدان اپنے پاوں لٹکائے اپنے شاہانہ انداز سے براجمان تھا۔وہیں اسکے پاس بیٹھی ایک خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی۔وہ کسی دولہن کی طرح تیار تھی۔ملک وجدان کے چہرے کئ جانب وہ بڑے انہماک سے دیکھ رہی تھی۔
ان دونوں کے درمیان ایک وسکی کی بوتل اور گلاس پڑے تھے۔وسکی سے بھرا ہوا ایک گلاس اٹھا کر پینے لگا۔
آپ بہت انتظار کرواتے ہیں۔۔"وہ لڑکی بوتل اور گلاس اٹھا کر پیچھے پڑے بیڈ ٹیبل پر رکھنے لگی۔
اور ملک وجدان کے بازو سے لپٹ کر اپنا سر اسکے کندھے سے ٹکا دیا۔اور اپنے پاوں پانی میں ڈبو دیے۔
بھاری بھرکم زیور سے آراستہ۔ڈوپٹہ اپنے کاندھے پر ٹکائے سرخ رنگ کی بھاری کام والی فراک ساتھ میں چوڑی پجامہ پہنے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھئ۔چہرے سے وہ کوئی تیس سالہ لڑکی لگتی تھی۔
بہت کام تھے شہر میں اب آگیا ہوں ناں۔۔۔اگلی بار جلد آوں گا۔۔"اسکے چہرے پر آئی لٹ کو کان کے پیچھے ٹکاتے ہوئے وہ بولا۔۔
بھول جاتے ہیں آپ مجھے۔۔۔یاد ہی نہیں رہتی میں آپکو۔۔۔"وہ ناراض ہونے کے انداز سے بولی۔
تم تو دل کی ملکہ ہو میری رومان۔۔"وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
تو اس دل کی ملکہ کو اس کوٹھے کی گندگی سے نکال کر اپنے گھر کی ملکہ کیوں نہیں بنا لیتے۔"وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔
کوٹھے میں رہنے والی کسی کے دل کو تو بسا سکتی ہیں مگر گھر کو نہیں۔۔۔تم نا جانے کس کس کے دل کی ملکہ ہو۔۔۔اس گھر کی رانی وہی ہوگی جس کے دل اور وجود پر میرے علاوہ کسی اور کا لمس چھو کر نا گزرا ہو"
وہ ایک گھونٹ بھر کہ سامنے کی جانب دیکھنے لگا۔
رومان ایک جھٹکے سے اس سے الگ ہوئی۔۔اسکی آنکھوں میں ایک نمی ٹھہر گئی۔
میں آپ سے محبت کرتی ہوں ملک وجدان۔۔۔آپکے علاوہ میرے دل میں کوئی نہیں۔۔۔خدارا ایسا نا کہیں"اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔۔
ہاہاہا۔۔۔۔"وہ ایک قہقہہ لگاتے ہوئے وہاں سے اٹھا۔
کیسی باتیں کرتی ہو رومان۔۔۔کیسی باتیں۔۔۔اس سے پہلے تم ملک اعجاز کے دل میں بستی تھی۔۔ایسی لڑکی جو ہر مرد کے دل میں بسے وہ ملک وجدان کے گھر کیسے بس سکتی ہے۔۔۔" وہ ایک آخری گھونٹ پیتے ہوئے گلاس وہی پھینک کر کمرے کی جانب چل دیا۔۔۔وہ لڑکی وہی بیٹھی اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
◇◇◇◇◇◇
ہاہاہا۔۔۔"وہ سب ایک ساتھ ہنسی تھیں۔یونیورسٹی کے سب سے بڑے گراونڈ میں پڑے بینچ پر وہ تینوں بیٹھی ہوئی تھیں۔سامنے نظر پڑتے ہی کسی وجود کو آتا دیکھ کر صلا کے چہرے پر ایک دل فریب مسکراہٹ پھیلی تھی۔وائٹ کرتا شلوار میں ملبوس وہ اپنی کف کو فولڈ کرتا ہوا انہی کی جانب آ رہا تھا۔ بلیک ویسٹ کوٹ اور بلیک ہی عینک لگائے وہ بہت دلکش نظر آ رہا تھا۔۔ فاونٹین پر بیٹھی ہوئی صبور جو کب سے اسی کے آنے کے انتظار میں تھی۔اپنے ساتھ کھڑی لڑکی کے ہاتھ میں اپنا پرس تھما کر ملک شہریار کی جانب بڑھی۔ صبور
اس یونیورسٹی کی سب سے بولڈ اور فیشن ایبل لڑکی تھی۔ بلیو جینز کے ساتھ وائٹ کاٹن کی شرٹ پہنے ہوئے جو کے سلیو لیس تھے۔ ریڈ بولڈ لپسٹک اور کھلے ہوئے بال وہ یونیورسٹی میں موجود سب سے الگ تھی۔سب اس سے بات کرنا چاہتے اور اس سے دوستی کرنا چاہتے تھے۔ مگر شہریار نہیں اسی وجہ وہ اسکی توجہ کا مر کز تھا۔صلا جیسی عام لڑکی کو صرف مات دینے کی آڑ میں وہ ملک شہریار کے دل میں بسنا چاہتی تھی۔۔جو کہ پہلے سے ہی صلا حیات کا ہو چکا تھا۔۔۔
ہائے۔۔۔شیری۔۔how are you babe " صبور نے آگے بڑھ کے شیری کے گلے میں اپنی بانہیں ڈال دی اور ادا سے بولی۔
پیچھے ہٹو۔۔۔HOW DARE YOU" ایک جھٹکے سے صبور کو خود سے الگ کرتے ہوئے وہ چلایا۔
کتنی بار کہا ہے مجھ سے دور رہا کرو۔۔۔مجھے تمہاری یہ گری ہوئی حرکتیں پسند نہیں۔۔" انگلی کے اشارے سے وہ اسے وارن کرتے بولا۔۔صلا اور اسکی دوست بھی وہی آ گئیں۔۔
اپنی اتنی بے عزتی کو دیکھ کر صبور نے ایک حقارت بھری نظر صلا پر ڈالی اور وہاں سے چلے گئی۔
◇◇◇◇◇◇
گھر میں داخل ہوتے ہی بریانی کی خوشبو اسے محسوس ہوئی۔یہ اس کے لیے عجیب بات تھی۔جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا۔سکول اور کالج سے واپسی پہ آ کر وہ خود ہی کوکنگ کرتی تھی۔۔۔
ارے آگئی صلا تم۔۔۔۔بڑی دیر لگا دی تم نے۔۔۔"صلا ابھی اسی کشمکش میں ہی تھی کہ اندر سے نکلنے والی عورت اس کے پاس آ کر اسکی بلائیں لینے لگی۔
یہ صلا کی ممانی تھی۔ صلا کے بچپن میں ہی اسکے ماں باپ کا انتقال ہو چکا تھا وہ اپنے ماموں ممانی کے ساتھ رہتی تھی۔۔
جی وہ ممانی آج وہ بینک۔۔"وہ اتنا ہی بولی تھی کہ اسے یاد آ گیا آخر اتنی محبت کیوں جتائی جا رہی ہے۔ آج چھ تاریخ تھی۔۔۔اسکے ابو کی پینشن کی وصولی کا دن۔۔۔جو اسکے ہاتھ آنے سے پہلے ہی اس سے وصول کر لی جاتی۔۔بیگ میں سے کچھ رقم نکال کر اس نے شاہدہ کے ہاتھ میں تھما دی۔
اچھا۔۔۔باقی کہاں ہیں۔۔۔"وہ پیسے گنتے ہوئے بولیں۔
بس کے کرایے۔۔۔یونیورسٹی کے خرچ اور نوٹس وغیرہ کے لیے رکھے ہیں اپنے پاس"وہ بغیر کسی تاثر سے بولی۔
اتنے سے گھر لا گزارا نہیں ہوتا۔۔۔اپنے اخراجات کم کرو لڑکی۔۔۔"وہ تیوری چڑھائے بولی۔۔صلا سر جھکائے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
وہ دو سال کی تھی جب اسکے ماں باپ کا انتقال ہوا۔وہ شمع اور حیات کی اکلوتی اولاد تھی۔حیات پیشے کے لحاظ سے ایک سکول ٹیچر تھے۔وہ انکے بھائی نواز کی فیملی ملتان شہر میں آباد تھی۔حیات اور شمع کی ایک حادثے میں موت ہوگئی۔ صلا کے چچا نواز اور چچی سلمہ صلا سے بہت محبت کرتے تھے مگر کچھ وجوہات کی بنا پر وہ اسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے تھے۔اسی وجہ سے انہوں نے صلا کو اسکے ماموں ندیم کے گھر لاہور بھیج دیا۔کچھ عرصے بعد صلا کے ماموں بھی چل بسے اب صلا اپنی ممانی اور انکے معذور بیٹے نعمان اور چھوٹی بیٹی ہانیہ کے ساتھ لاہور میں ہی مقیم ہے۔ نعمان صلا کا ہم عمر ہے۔ اور گھر بیٹھے ہی اپنی تعلیم مکمل کر رہا ہے۔ صلا کے ماموں ندیم اور صلا کی والد کی پینشن سے ہی اس گھر کا گزر بسر چل رہا ہے۔۔صلا لاہور کی ایک مشہور یونیورسٹی میں ایل ایل بی کی تعلیم سکالرشپ پر حاصل کر رہی ہے۔اسکی زندگی کا مقصد سی ایس ایس کر کہ جج بننے کا ہے۔۔۔وہ اپنے ماں باپ کو انصاف دلانا چاہتی ہے جن کے قتل کو حادثہ بنا کر پیش کیا گیا تھا۔
◇◇◇◇◇
ایک بوسیدہ سے کمرے میں وہ دونوں موجود ہیں۔
ایک بیمار عورت بیڈ پر لیٹی ہوئی ہے۔اور ایک بوڑھا شخص چمچ میں دوا ڈالے وہیں اسکے پاس موجود ہے۔
کھا لو دوا دیکھو کتنی کھانسی آ رہی ہے تمہیں۔۔"وہ شخص اد کھانستی ہوئی عورت سے مخاطب ہوا۔۔
نہیں۔۔۔نواز۔۔۔مجھے میرے بچے سے ملوا دو۔۔۔نہیں کھانی یہ دوا۔۔۔"وہ عورت کھانستے ہوئے بمشکل بولی۔
سلمہ۔۔۔ضد نا کرو۔۔۔کیوں ناممکن باتیں کر رہی ہو۔۔۔اب تو ناجانے وہ زندہ بھی ہوگا یا نہیں۔۔۔"وہ اپنے آنسو پونچھتے بولا۔۔
ایسا نا کہو نواز۔۔۔ اپنے بیٹے کی شکل کو دیکھنے کے لیے کئی سالوں سے ترس رہی ہوں میں۔۔۔میری آس کی اس کچی ڈوری کو مت توڑو۔۔"وہ ہاتھ جوڑے رو رہی تھی۔ بے بسی اس خستہ حال گھر سے ٹپک رہی تھی۔وہ دونوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔۔۔
◇◇◇◇◇◇

Sneak pack 1stWriter:Shifa e zainab   تم نے ملک وجدان کے دل سے کھیلا ہے لڑکی۔۔۔تمہیں ایسے کیسے میں یہاں سے جانے دوں۔۔۔"ا...
31/08/2020

Sneak pack 1st
Writer:Shifa e zainab

تم نے ملک وجدان کے دل سے کھیلا ہے لڑکی۔۔۔تمہیں ایسے کیسے میں یہاں سے جانے دوں۔۔۔"اپنی مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے ملک وجدان نہایت کمینگی سے بولا۔
سہمی ہوئی صلا حیات روتے ہوئے اس وقت کو کوس رہی تھی۔۔جب اس نے پہلا میسج ملک وجدان کو کیا تھا۔۔گن پوائنٹ پر ایک گارڈ اسے کسی بھی حرکت کرنےسے رکنے پر مجبور کیا ہوا تھا۔۔وہ کبھی دروازے کی طرف دیکھتی جو اسے فرار کی آخری منزل نظر آ رہا تھا۔تو کبھی گارڈ کو جو اسکے سر پر پستول تانے کھڑا تھا۔۔
ملک وجدان صلا کی ان حرکتوں کو بڑے شوق سے دیکھ رہاتھا۔ٹانگ پر ٹانگ دھرے صلا کے سامنے ایک ٹو سیٹر پر براجمان وہ کسی سلطنت کا سلطان لگ رہا تھا۔اسکی بڑھتی عمر نے ابھی تک اسکی صحت اور وجاہت پر کوئی اثر نہیں ڈالا تھا۔وہ آج بھی تیس پینتیس سال کا کوئی خوبرو نوجوان دکھتا تھا۔
ادھر کیا دیکھ رہی تو۔۔۔بھاگنا چاہتی ہو کیا۔۔۔"سگریٹ کا ایک کش لگاتے ہوئے اسنے دھواں صلا کی جانب چھوڑا۔۔صلا نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔
اس حویلی میں پر دوسرے قدم پر میرے وفادار ملازم کھڑے ہیں۔۔بھاگنے کے بارے میں اگر کوئی خیال آئے تو اسے وہی ختم کر دینا سمجھی"بڑے آرام سے وہ ایش ٹرے میں سگریٹ مسل رہا تھا۔
خادم حسین ۔۔"اس نےاپنے برابر میں کھڑے ملازم کو آواز دی۔
جی ملک صاحب۔۔"وہ فوری بولا۔۔۔
نکاح کا انتظام کرو۔۔"صلا کی جانب ایک مکروہ مسکراہٹ ڈالتے ہوئے وہ کمرے سے نکل گیا۔۔جبکہ صلا کو اپنے ہوش و حواس گم ہوتے محسوس ہوئے۔

18/08/2020

Last episode
Novel:Tum hi ho
Writer:Shifa e zainab

آخری چمچ سوپ کا اسے پلاتے ہوئے عمبر نے محبت بھری نظر حماد پر ڈالی جو پہلے سے ہی اسے دیکھ رہا تھا۔سوپ باول میز پر رکھ کر وہ ٹشو سے حماد کا چہرہ صاف کرنے لگ گئی۔وہ دونوں لان میں بیٹھے تھے۔حماد ابھی بھی وہیل چئیر پر ہی رہتا تھا۔
چلو اب واک کرتے ہیں۔"وہ اٹھنے میں مدد کر رہی تھی۔حماد بمشکل چل پا رہا تھا۔عمبر کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے وہ اپنی مکمل کوشش کر رہا تھا۔اسکے ہر بڑھتے قدم کو دیکھتے لاونج میں بیٹھے تمام افراد جو کھڑکی سے حماد کی ان کوششوں کو دیکھ رہے تھے۔۔انکی انکھیں خوشی سے چمک اٹھی تھی۔۔عمبر اور حماد کی نظر ایک ساتھ ان پر پڑی حماد کا حوصلہ انہیں دیکھ کر مزید بڑھا تھا۔۔
◇◇◇◇◇◇
دیکھیں بہن میں ایک بار پھر اسی مقصد سے یہاں آئی ہوں۔۔۔احمد کی پچھلی تمام غلطیوں کا معاف کر کہ آپ اسے ایک بار پھر سے اپنا لیں۔۔۔اور صبا کو میری بہو بنا دیں۔۔"شمائلہ بیگم نے ملتجی نظروں سے صفیہ کو دیکھا۔۔جو یہ سنتے ہی کسی سوچ میں پڑ گئیں۔۔
یہ تو اچھی بات ہے مگر آپ نے احمد کی مرضی جانی ہے کیا۔"صفیہ بیگم نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔دروازے کے پار کھڑی صبا یہ سب سن رہی تھی۔
جی۔۔اسی کے اسرار پہ تو میں یہاں آئی ہوں۔۔مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ چاہت کے باوجود بھی آپ سے یہ سوال کرتئ۔"شمائلہ بیگم کی بات سنتے کی صبا کے چہرے پر حیرانی کے تاثرات آئے۔
صفیہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے اپنے سامنے بیٹھے حمزہ کو دیکھا جس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔
ٹھیک ہے مگر صبا۔۔۔میں اس سے پوچھ کہ ہی بتاوں گی کچھ۔۔"صفیہ بیگم اب کوئی اور غلطی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔۔
جیسے آپکی مرضی بہن۔۔۔"شمائلہ بیگم پر امید نظروں سے اپنی گود میں پڑی ثانیہ کو دیکھنے لگیں
◇◇◇◇◇◇◇
صبا پرسوچ انداز میں کچن میں کھڑی تھی۔۔چولہے پر پڑی چائے ابل ابل کر باہر آ رہی تھی۔احمد نے اپنا گلا صاف کر کہ صبا کو ہوش کی دنیا میں لانا چاہا۔۔
اوہ۔۔"چائے کی حالت دیکھتے ہی صبا نے فوری چولہا بند کیا۔۔وہ اس بات سے بے خبر تھی کی پیچھے احمد کھڑا ہے۔۔ایک دم سے پیچھے مڑی تو احمد سے ٹکرا گئی۔
افف۔۔آپ؟؟"اپنے ماتھے کو سہلاتے ہوئے اس نے احمد کو اپنے سامنے پایا تو حیرت سے سوال کیا۔
آپ کب آئے یہاں۔۔"احمد تھوڑا پیھچے ہٹا۔
میں تب آیا ہوں جب آپ چھپ کر مام اور صفیہ آنٹی کی بات سن رہی تھیں۔۔"وہ زیر لب مسکرایا۔
میں۔۔میں تو نہیں سن رہی تھی۔"صبا نے نظریں چراتے ہوئے بولا۔۔
اوکے۔۔مان لیا۔۔۔صبا۔۔"وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔مام اسی سلسلے میں آئی ہیں۔۔اگر آپ پچھلی سب باتیں بھلا کر معاف کر کہ مجھے اپنا سکتی ہیں۔۔تو پلیز۔۔۔ہاں بول دیجئے گا۔۔۔مجھے اور سب سے زیادہ ثانیہ کو آپکی بہت ضرورت ہے۔۔۔"نہایت محبت بھرے لہجے میں وہ صبا کی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔۔اور وہاں سے چلے گیا۔۔صبا کافی دیر وہیں دیکھتی رہی جہاں سے وہ گیا تھا۔۔
◇◇◇◇◇◇
صبا اور احمد کا نکاح سادگی میں کیا گیا۔۔سرخ لباس میں صبا بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ثانیہ نے بھی سرخ فراک پہن رکھا تھا۔جو احمد کی گود میں بیٹھی تھی۔وہ احمد کے گلے میں موجود پھولوں کے ہار سے مسلسل چھیڑ چھاڑ کر رہی تھی۔
ثانیہ احمد اور صبا کی ہی اولاد لگتی تھی۔۔اسکی معصومیت بھری سرمئی آنکھیں صبا جیسی تھیں۔۔ہونٹ اور ناک احمد کی طرح تھا۔۔
مام۔۔ما۔۔"اپنی لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے اس نے صبا کو ماما بولا تھا۔۔وہ اسی کی جانب لپک رہی تھی۔۔
سب نے باآواز بلند ماشااللہ کہا۔۔اور سب ہنس رہے تھے۔۔صبا نے اپنے بازو آگے بڑھا کر ثانیہ کو اپنی باہوں میں بھر لیا۔۔اور اپنے گلے لگا لیا۔۔۔
بارات کے واپس جاتے ہی صبا کو اسکے کمرے میں بھیج دیا گیاتھا۔ایمن بھی انکے ساتھ ہی آئی تھی۔شمائلہ بیگم نے ثانیہ کو اپنے ساتھ سلا لیا تھا۔
صبا کے کمرے کو نہایت خوبصورتئ سے سجایا گیا تھا۔وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی کمرے کا مکمل جائزہ لے رہی تھی۔کہیں بھی۔۔۔ثنا اور احمد کئ تصویر نہیں تھی۔۔اور شائد صبا وہی ڈھونڈنے ادھر ادھر نظر دوڑا دہی تھی۔۔
احمد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی صبا کو سلام کیا۔اسکے ہاتھ میں ایک خوبصورت بکے تھا۔۔
یہ آپکے لیے۔۔"بکے اسکے سامنے کرتے ہوئے وہ مسکرا رہا تھا۔۔
تھیکنس۔۔"صبا نے وہ بکے پکڑ کر اہنے پاس رکھ لیا۔
آپ۔۔اچھی لگ رہی ہیں۔۔۔"وہ مختصر بولا۔۔
صبا۔۔۔"وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔
جی۔۔۔"صبا نے جواب دیا۔۔
بہت شکریہ آپکا۔۔۔آپ نے مجھے اپنایا۔۔۔میں آپکا بہت بڑا گنہگار ہوں۔۔۔میں اپنی پوری کوشش کرونگا۔۔۔کہ اب۔۔۔آج سے ابھی سے۔۔۔میری وجہ سے یا اس رشتے کی وجہ سے آپکی آنکھوں میں ایک آنسو تک نا آئے۔۔۔یہ میرا وعدہ ہے۔۔۔"وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے پرجوش انداز میں بولا۔۔
یہ آپکے لیے۔۔۔"اپنی جیب سے ایک باکس نکالتے ہوئے وہ بولا۔۔جس میں ایک خوبصورت ڈائمنڈ کی رنگ چمک رہی تھی۔۔اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اسنے صبا کی جانب دیکھا۔۔صبا نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ دیا۔۔احمد نے رنگ صبا کے خوبصورت ہاتھ میں پہنا دی۔۔
تھینک یو۔۔۔"صبا کی بجائے یہ احمد ہی بولا تھا۔
اچھا آپکو یہ پینٹنگز کیسی لگیں۔۔"دیواروں پہ آویزاں دلفریب پینٹنگز کی طرف اشارہ کرتے بولا۔۔
بہت اچھی ہیں۔۔۔"صبا کو وہ واقعی بہت اچھی لگیں تھی۔
یہ سب میں نے بنائی ہیں۔۔"وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
واقعی۔۔"صبا کو یقین نہیں آیا۔۔
جی۔۔۔"آنکھوں میں چمک لیے احمد نےصبا کی جانب دیکھا۔۔اور صبا کی جانب دیکھنے لگا۔۔صبا نے شرما کر نظریں جھکا لیں۔۔اس کی اس حرکت پہ احمد نے قہقہہ لگایا۔۔صبا نے حیرت سے احمد کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھا۔۔اور وہ بھی مسکرا دی۔۔
◇◇◇◇◇◇◇◇
آج اتنے دنوں بعد ڈرائیو کر رہا ہوں عمبر۔۔۔مجھے لگا تھا۔۔میں کبھی چل ہی نہیں پاونگا۔۔ڈرائیو تو دور کی بات ہے۔۔"حماد اور عمبر لانگ ڈرائیو پہ تھے۔۔حماد ڈرائیو کرتے ہوئے کافی پرجوش لگ رہا تھا۔
دھیان سے چلاو سامنے دیکھو ۔۔۔ایسا نا ہو پھر سے ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عمبر نے معنی خیز لہجے میں بولا۔۔
اب بار میں اکیلا نہیں تمہیں بھی ساتھ لے ڈوبوں گا" وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔۔۔
مجھے شوق نہیں۔۔۔اپنئ ٹانگیں تڑوانے کا۔۔"عمبر نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔
مگر مجھے ہے۔۔۔"یہ کہتے ہی حماد نے گاڑئ کی سپیڈ بڑھا دی۔۔۔
حماد آہستہ چلاو۔۔۔۔حماد کیا مسئلہ ہے۔۔۔"عمبر چلانے لگی اور حماد کے قہقہے بلند ہونے لگے۔۔۔۔
وہ آئسکریم گاڑئ میں بیٹھ کر ہی کھا رہے تھے۔۔حماد نے میوزک آن کیا۔۔۔
تم ہی ہو۔۔۔
تم ہی ہو۔۔
زندگی اب تم ہی ہو۔۔۔
چین بھی میرا درد بھی میری عاشقی اب تم ہی ہو۔
سنو عمبر۔۔۔"حماد نے عمبر کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔
یہاں بس تم رہتی ہو۔۔۔دیکھو۔۔۔اب اس دل کو تمہار عادت پڑ چکی ہے۔۔۔اسے چھوڑ کر کبھی مت جانا۔۔
اسے خالی کبھی مت کرنا۔۔۔ورنہ مر جاونگا میں۔۔۔"حماد کے بولتے ہی عمبر نے اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیا۔۔
ایسا نہیں کہو۔۔۔میں کہیں نہہں جاونگی تمہیں چھوڑ کر۔۔تمہارے پاس ہی رہوں گی ہمیشہ۔۔۔آئی لو یو سو مچ۔۔۔"حماد کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے کھلے لفظوں میں اپنی محبت کا اظہار کیا۔۔۔اور حماد کی کاندھے سے اپنا سر لگا لیا۔۔۔حماد نے ایک گہری سانس لی۔۔۔میوزک تیز کر کے گاڑی چلا دی۔۔۔وہ دونوں محبت کی راہوں میں سفر کرنے لگے۔
◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇
تو یہ تھا میرا پہلا ناول۔۔۔امید ہے آپ سب کو بہت پسند آیا ہوگا۔۔۔اپنی رائے کا اظہار کنجوسوں آج تو کر دو۔۔۔نیکسٹ کی بجائے اپنی رائے کومینٹ کریں۔۔بہت جلد میرا دوسرا ناول شروع ہو ریا ہے۔۔۔جو کی معاشرتی برائیوں پر روشنی ڈالے گا۔۔۔تب تک کے لیے اللہ حافظ دعاوں میں یاد رکھیے گا شکریہ
◇◇◇◇◇◇◇◇

12/08/2020

Episode 30
Novel:Tum hi ho
Writer:Shifa e zainab

تدفین کے بعد آہستہ آہستہ سب مہمان جا رہے تھے۔صفیہ بیگم سکتے کی حالت میں اپنے کمرے میں موجود تھیں۔افسوس کے لیے خواتین آتیں اور اپنے دکھ کا اظہار کر کہ واپس جا رہیں تھی۔صبا کمرے میں پڑی کرسی پہ بیٹھی مسلسل رو رہی تھی۔۔ایمن اسے چپ کروا رہی تھی۔۔۔مگر اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔۔۔شمائلہ بیگم ثنا کی آخری نشانی ایک ننھی سی جان کو گود میں لیے وہیں بیٹھیں تھی۔۔بار بار بچی کو دیکھتیں اور اپنے آنسو صاف کرتیں۔
امی کچھ بولیں۔۔۔ہوش میں آئیں۔۔۔"حمزہ کمرے میں داخل ہوا تو صفیہ بیگم کی حالت کو دیکھتے ہی انہیں مخاطب کرنے لگا۔۔۔جو مسلسل سکتے میں تھیں۔۔۔وہ بار بار ان سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔مگر جواب ندارد۔۔۔
امی بولیں کچھ۔۔۔امی مر گئی اپکی ثناء۔۔۔چھوڑ کر چلے گئی ہمیں۔۔۔امی بولیں کچھ۔۔۔مر گئی آپکی لاڈلی۔۔۔"صبا صفیہ بیگم کو جھنجھوڑتے ہوئے بولی۔۔مگر وہ سپاٹ چہرہ لیے ایک ہی جانب دیکھ رہی تھیں۔۔ہونٹ کپکپائے۔۔۔آنکھوں میں خشکی کی جگہ آنسوؤں نے لے لی۔۔۔
ثناء۔۔۔ثناء۔۔۔ہائے میری ثناء۔۔۔"اپنے پورے زور سے وہ ثنا کو پکارتے ہوئے دھاڑنے کے انداز میں رونے لگیں۔
صبا انکے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔
◇◇◇◇◇◇◇◇
کیا ہے عمبر۔۔۔"وہ چڑ چکا تھا۔۔مگر عمبر بدستور ویٹ ٹشو سے اسکا چہرہ صاف کر رہی تھئ۔۔
بس تھوڑا سا رہ گیا ہے۔۔۔سکون سے نہیں بیٹھ سکتے ہو تم۔۔۔کب سے چلا رہے ہو۔۔۔"عمبر نے چڑتے ہوئے جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف رہی۔۔
ہاہاہا۔۔۔میری جان۔۔"زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے حماد نے اسکے گال پر بوسہ دیا۔۔
یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔"عمبر فوری پیچھے ہٹی اور غصے سے حماد کی طرف دیکھا۔۔۔
یہ بد تمیزی نہیں پیار ہے۔۔۔"عمبر کو بازو سے پکڑ کر اس نے اپنے پاس بیٹھا لیا۔۔
آج اتنے عرصے بعد تم نے اپنے پہلے والے انداز میں مجھ سے بات کی۔۔مجھ پہ چلائی مجھے بہت اچھا لگا۔۔۔"وہ محبت سے پاش نظروں سے عمبر کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔
مطلب تمہیں میں بدتمیز اچھی لگتی ہو۔۔۔"عمبر نے تیوری چڑھائی۔۔۔
مطلب تم مانتی ہو کہ تم بد تمیز ہو۔۔؟؟؟"حماد بھی اسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔۔
حماااد۔۔"عمبر نے ایک گھونسہ اسکے سینے پر مارا۔۔
اففففف۔۔۔مر گیا میں۔"حماد نے ایک بازو اپنے سینے پر رکھ کر ایکٹنگ کی۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔۔"عمبر پریشان ہوئی۔۔
آہاں۔۔۔اتنی فکر۔۔۔"حماد نے ایکٹنگ چھوڑ کر عمبر کو دیکھا۔۔۔
افف۔۔کتنے بدتمیز ہو تم۔۔"عمبر نے ایک تھپڑ اسکے سینے پر مارتے ہوئے۔۔۔اسی کے سینے پر اپنا سر رکھ لیا۔۔۔۔
آئی لو یو۔۔۔"حماد نے اپنا ایک بازو اسکے گرد حائل کر دیا۔۔۔۔عمبر نے محبت سے چور ہوتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔۔۔
آئی لو یو ٹو۔۔۔"بولتے ہی عمبر کو احساس ہوا کہ وہ کیا بول گئی۔۔اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولی۔۔
کیا۔۔۔۔کیا کہا۔۔۔"خوشی سے چہکتے ہوئے حماد نے بلند آواز میں کہا۔۔
عمبر ایک جھٹکے سے اٹھی۔۔۔جیسے ہوش میں آئی ہو۔۔۔۔
کک۔۔کچھ نہیں۔۔۔میں تیار ہو کہ آتی ہوں۔۔۔ہسپتال جانا ہے۔۔۔"وہ تیزی سے بولتے ہوئے واشروم میں گھس گئی۔۔۔اور حماد نے ایک بلند قہقہہ لگایا۔۔۔
◇◇◇◇◇◇◇◇
مسزز حماد آپ باہر ویٹ کریں۔"حماد کی وہیل چئیر کو دھکیلتے ہوئے ڈاکٹر اندر لے جا رہا تھا۔۔۔اور عمبر وہیں باہر پڑی ویٹنگ چئیر پر بیٹھ گئی۔۔۔
آئیں امی۔۔۔"جانی پہچانی آواز سنتے ہی عمبر چونکی۔۔۔اسکی نظر دروازے پر گئی۔۔جہاں حمزہ صفیہ بیگم کو سہارا دیتے ہوئے ہال میں داخل ہو رہا تھا۔عمبر جیسے سانس لینا بھول گئی ہو۔۔۔حمزہ کو اتنے عرصے بعد دیکھ اسکا دل زور سے دھڑکا تھا۔صفیہ بیگم بہت ضعیف لگ رہی تھیں۔۔۔ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کہیں صدیاں گزار آئیں ہوں۔۔۔حمزہ اور صفیہ بیگم کی نظر بھی عمبر پر پڑ چکی تھی۔۔عمبر کو دیکھتے ہی صفیہ بیگم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔۔۔
◇◇◇◇◇◇◇
ارے۔۔۔میری پیاری گڑیا یہاں لیٹو میں دیکھ کر آتی ہوں کون آیا ہے۔"ثنا کی بیٹی کو صبا ہی پال رہی تھی۔ہر دوسرے دن احمد اسے دیکھنے آتا تھا۔۔ایمن نے بھی اپنا آفس دوبارہ جوائن کر لیا تھا۔۔صفیہ بیگم اب ایمن کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرنے لگیں تھیں۔۔وہ اور حمزہ اب یہی شفٹ ہو گئے تھے۔
کون۔۔۔"دروازے پر جاتے ہی اس نے اندر سے جواب دیا۔۔
میں ہوں احمد۔۔"احمد کی آواز سنی تو صبا نے دروازہ کھول دیا۔۔
اسلام علیکم"نہایت مودبانہ لہجے میں اسنے سلام کیا۔۔۔اور صحن میں چارپائی پر پڑی اس ننھی سی جان کے پاس چلا گیا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
واعلیکم سلام۔۔"صبا نے جواب دیا۔۔
وہ امی۔۔۔گھر پر نہیں ہیں۔۔"صبا نے وہیں کھڑے بولا۔
وہ کہاں ہیں۔۔۔"احمد نے سوال کیا۔۔
ڈاکٹر کے پاس ریگولر چیک اپ کے لیے۔۔"صبا بس اتنا ہی بولی۔۔
ثانیہ سے کھیلنے کے بعد مجھے آواز دے دیجیے گا۔۔"صبا بولتے ہی اندر کی جانب جانے لگی۔۔
رکیں۔۔۔"احمد جانتا تھا۔۔وہ اسے معاف نہیں کر پائی۔۔اور وہ معافی مانگنا چاہتا تھا۔۔
صبا۔۔۔مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔پلیز میری بات سنیں گی۔۔"اسکے لہجے میں اداسی تھی۔۔
جی۔۔سنائیں۔۔"صبا نے مڑ کر اسے سپاٹ لہجے میں بولا۔۔
بیٹھ کر بات کریں۔۔"احمد نے صحن پر پڑی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔صبا چپ چاپ وہاں بیٹھ گئی۔
میں نے۔۔۔آپ مجھے معاف کر دیں پلیز۔۔۔"ثانیہ کو بےبی کوٹ میں میں لیٹا کر وہ صبا کے سامنے بیٹھ گیا۔۔اور ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگنے لگا۔۔
یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔۔"صبا اس پر حیران تھی۔۔
آپکا دل دکھا کر مام کا دل دکھا کر ثنا اور میں نے اپنی زندگی شروع کی۔۔۔مگر آپ یقین کریں ایک دن بھی سکون اور چین نہیں ملا۔۔۔ثنا سے آئے دن لڑائی۔۔جھگڑا۔۔۔وہ بہت ان سیکور تھی۔۔۔ہر بات پر مام کو برا بھلا بول دیتی تھی۔۔۔اللہ اسے معاف کرے۔۔۔اور مجھے بھی۔۔۔"اپنی آنکھوں کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے وہ بولا۔۔
اپنی شک کی عادت کی وجہ سے وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔۔۔آپ پلیز مجھے اور اسے معاف کر دیں۔۔"وہ مزید بولا۔۔۔
معاف کر چکی ہوں میں۔۔۔آپ پلیز ہاتھ مت جوڑیں میرے آگے۔۔۔"صبا اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو اندر دھکیلتے ہوئے بولی۔۔۔
ثانیہ بہت اٹیچ ہو گئی ہے آپ سے۔۔"وہ واپس ثانیہ کو کوٹ میں سے نکالتے ہوئے بولا۔۔
ہمم۔۔۔"وہ اتنا ہی بولی۔۔احمد نے مسکراتے ہوئے ایک نظر صبا کی شفاف چہرے پر ڈالی۔۔ثانیہ کے ماتھے کو چومتے ہی وہ خدا حافظ بول کر دروازے کی جانب بڑھا۔۔۔
◇◇◇◇◇◇◇◇
بہت افسوس ہوا ثنا کا سن کر۔۔"عمبر نے افسوس بھرے لہجے میں بولا۔۔اسے واقعی دکھ ہوا تھا۔
معاف کردو بیٹا تم مجھے۔۔۔میں نے بہت برا کیا تمہارے ساتھ۔۔۔ہو سکے تو ہم ماں بیٹی کو معاف کردو۔۔۔تاکہ ثنا کی قبر کا بوجھ بھی ہلکا ہو اور میں بھی سکون سے مر سکوں۔۔"صفیہ بیگم ہاتھ جوڑے معافی مانگ رہی تھیں۔انکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔
آنٹی۔۔۔ایسے نا کریں۔۔۔میں نے معاف کیا آپکو اور ثنا کو بھی۔۔۔"عمبر نے انکے جڑے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے بولا۔۔۔
بہت شکریہ بیٹا۔۔۔"صفیہ بیگم آنسو صاف کرتے بولیں۔۔
بہت شکریہ عمبر۔۔۔"حمزہ نے تشکر بھری نظر عمبر پہ ڈالی۔۔۔عمبر نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔۔
◇◇◇◇◇◇◇◇

10/08/2020

Due to ID issue i was not able to login in my id to do post here...sorry for the late upload😔

10/08/2020

Episode 29
Novel:Tum hi ho
Writer:Shifa e zainab

آہہہ۔۔"کسی کے کہرانے کی آواز سے عمبر کی آنکھ کھلی تھی۔کروٹ بدل کر اس نے دیکھا تو حماد درد اور تکلیف کی وجہ سے کراہ رہا تھا۔۔
کیا ہوا۔۔۔"عمبر نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔۔۔
بہت تکلیف ہو رہی ہے۔۔"درد سے کہراتے ہوئے حماد نے بولا۔۔
کہاں حماد۔۔"عمبر پریشانی سے پوچھ رہی تھی۔
بازو میں اور ٹانگ۔۔۔سر ہر جگہ۔۔۔"حماد لب بھینچتے ہوئے بولا۔۔۔درد کی شدت کی وجہ سے وہ پسینے سے شرابور یو گیا تھا۔۔۔
میں تایا ابو کو بلاتی ہوں۔۔۔"عمبر نے ڈوپٹا اوڑھتے ہوئے بولی۔۔
نہیں۔۔۔انہیں نا بلانا۔۔۔اتنے دن وہ ہسپتال میں میری وجہ سے بے آرام رہے ہیں۔۔۔انہیں آرام کرنے دو"حماد بے بسی سے بولا۔۔
تو اب کیا کرو۔۔۔"عمبرکو کچھ نا سمجھ آئی
وہ نرس مجھے کچھ میڈیسنز دیتی تھی۔۔۔اور انجیکشن۔۔۔"وہ بمشکل بولا۔۔
مجھے بتاو کونسی میڈیسن۔۔میں دیتی ہوں۔۔"عمبر بیڈ سے اتر کر اسکی جانب آ گئی اور سائیڈ ٹیبل پر موجود دوائیوں میں سے حماد کی ہدایت پر نکالنے لگی۔۔کچھ دیر بعد وہ بہتر محسوس کر رہا تھا۔۔۔عمبر تب تک جاگتی رہی جب تلک حماد کی طبعیت سنبھلی نہہں۔۔۔
مجھے نیند نہیں آ رہی۔۔۔کوئی مووی لگا دو۔۔۔مل کر دیکھتے ہیں۔۔۔"بہت وقت بعد حماد کے چہرے پر مسکراہٹ چھائی تھی۔۔۔عمبر نے بھی اسکی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے ہی دیا۔۔۔اب اس سے بھی حماد کی تکلیف برداشت نا ہوتی تھی۔۔
◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇
سر یہ میڈیسن ختم ہو گئی ہے۔۔۔"احمد شیشے کے سامنے کھڑا اپنے بال بنا رہا تھا۔۔جب ثنا کی دیکھ بھال کے لیے تعینات نرس نے اسے ایک پرچی پکڑائی۔
اوکے میں لے آونگا۔۔۔اور کچھ۔۔"احمد نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔
تمہیں کچھ زیادہ ہی ہنسی نہیں آرہی احمد"ثنا جو کب سے احمد کو گھور رہی رہی باآخر بول ہی پڑی۔۔
میرے ہنسنے پر بھی پابندی ہے کیا۔۔"احمد نے شیشے سے ہی اسے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔۔
ہاں۔۔ہے۔۔اور تم۔۔۔میری بات سنو آئیندہ کوئی بھی کام ہو احمد سے تم مجھے کہو گی۔۔۔میں خود اسے بول دیا کرونگی۔۔"ثنا قدرے بد تمیزی سے بولی۔
اوکے میم۔۔"وہ لڑکی کافی شرمندہ لہجے میں بولی اور سرعت سے کمرے سے باہر چلے گئی۔
کیا ہو گیا ہے ثناء۔۔۔وٹس رونگ ود یو۔۔"نرس کے جاتے ہی ا حمد نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔۔
تم اس سے ہنس ہنس کر بات کر کرتے ہو۔۔۔بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں میں۔۔۔تم کیا سمجھتے ہو میں پاگل ہوں۔۔۔"وہ چلائی۔۔۔
ثنا۔۔ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔تمہاری اسی نیچر کی وجہ سے تم اب تک بستر پر ہی ہو۔۔۔"احمد اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔۔
دیکھا۔۔۔کہہ دیا نا جو تمہارے دل میں تھا۔۔۔دے دیا مجھے طعنہ۔۔۔میں میں اب نہیں رہوں گی اس طرح نکالو اس لڑکی کو یہاں سے۔۔۔مجھے کسی کی ضرورت نہہں۔۔۔"ثنا بمشکل بستر سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔
ثنا یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔بی کیئر فل۔۔۔"احمد کی جانب لپکا۔۔۔مگر اس سے پہلے دیر ہو چکی تھی۔۔۔ثنا خود پر قابو نا پاتے ہوئے۔۔۔چکرا کر گر گئی۔۔۔احمد حواس باختہ اسکی جانب بڑھا۔۔۔ہوش وحواس سے عاری ثنا تکلیف سے چلا رہی تھی۔۔۔احمد چلا چلا کر شمائلہ بیگم اور نرس کو آوازیں دے رہا تھا۔۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ دونوں کمرے میں آ موجود تھیں۔۔۔
◇◇◇◇◇◇◇◇
بھائی صاحب آپ نے بتایا کیوں نہیں تھاہمیں۔حماد کا اتنا برا ایکسیڈینٹ ہوا اور ہمیں خبر ہی نہیں۔۔"نعیم اور صالحہ حج سے واپس گھر آ چکے تھے۔۔حماد کو بستر پر پا کر وہ بہت پریشان ہوئے۔۔۔
عمبر صالحہ کی گود میں سر رکھے بیٹھی تھی۔۔اتنے عرصے بعد وہ اپنے ماں باپ سے ملی تھی۔۔
کیا بتاتے تمہیں۔۔۔یہاں ہم پریشان تو تھے ہی۔۔۔تم لوگ بھی پریشان رہتے۔۔ماشااللہ اب تو کافی آرام ہے حماد کو۔۔۔کچھ دنوں میں پٹیاں بھی اتر جائیں گی۔۔۔انشااللہ۔۔"فاطمہ تحمل سے بولیں۔۔۔
ان شاءاللہ۔۔۔"سب ایک ساتھ بولے۔۔۔
اور کیا اپنی ماں سے ہی چپکی رہو گی۔۔۔ادھر آو میرے پاس۔۔۔"نعیم عمبر سے مخاطب ہوئے۔۔
جی ابو۔۔۔"عمبر نعیم کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔۔۔
سب لوگ نعیم اور صالحہ کے بخریت واپسی پر بہت خوش تھے۔۔۔صالحہ فاطمہ سے باتوں میں مصروف ہو گئیں۔۔۔اور نعیم عمبر کے لاڈ اٹھانے لگے۔۔
◇◇◇◇◇◇◇◇◇
کیا ہو گیا تھا آمنہ۔۔۔اتنا ہائی بی پی کیسے۔۔۔"سٹریچر پر ثناء کو لے جاتے ہوئے۔۔ڈاکٹر اسکی دیکھ بھال کے لئے تعینات نرس سے سوال پوچھ رہی تھی۔۔۔احمد اور شمائلہ بھی بھاگتے ہوئے انکے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔۔۔
ڈاکٹر وہ۔۔۔۔"نرس انہیں تفصیل بتاتے بتاتے آئی سی یو میں داخل ہوئی۔۔۔اور دروازہ بند کر لیا گیا۔۔
احمد اور شمائلہ بیگم پریشانی کے عالم میں باہر کھڑے ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔۔۔
◇◇◇◇◇◇◇
امی۔۔ثنا کی طبعیت بہت خراب ہے۔۔۔وہ ہسپتال میں ہے۔۔۔ایمن بھابھی کی کال آئی تھی انہوں نے ہی بتایا۔۔۔"صبا تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی۔۔اور صفیہ بیگم کوثنا کے بارے میں بتانے لگی۔۔
تو اسے کہو اپنے شوہر کے ساتھ جائے اسکا پتا لینے ہمیں کیوں بتا رہی ہے۔۔۔"صفیہ بیگم سپاٹ لہجے میں بولی۔۔۔
امی کیا ہو گیا پے آپکو۔۔۔معاف کیوں نہیں کرتیں آپ ثنا کو۔۔۔بس کر دیں اب۔۔۔"صبا نے روتے ہوئے اپنی ماں سے التجا کی۔۔۔
بھابھی بھائی کئی بار آئے آپ نے انکو گھر سے نکال دیا۔۔۔ثنا موت کے منہ میں ہے۔۔۔آپ پھر بھی نہیں بدلیں۔۔۔"صبا روہانسنی لہجے میں بولی۔۔
تم جاو۔۔اپنے بھائی کے ساتھ۔۔۔دیکھ آو اسے۔۔۔"انکا لہجا ابھی بھی وہی تھا۔۔۔
وہ نہیں ہیں اس شہر میں۔۔۔اسلام اباد گئے ہوئے ہیں۔۔۔امی میں جا رہی ہوں ثنا کو دیکھنے۔۔اور آپ مجھے نہین روکیں گی ۔۔"صبا یہ کہتے ہی کمرے سے باہر نکل پڑی صفیہ بیگم کی آنکھوں میں نمی آئی تھی۔۔۔مگر اپنی انا کی لاج رکھتے ہوئے آنکھوں میں آئی اس نمی کو اپنے اندر دھکیلا۔۔۔
◇◇◇◇◇
وہ سب آپریشن تھیئٹر کے باہر انتظار کر رہے تھی۔۔۔
دروازہ کھلتے ہی ڈاکٹر باہر آئی۔۔۔۔
ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے۔۔۔ہم آپریٹ نہہں کرنا چاہتے تھے۔۔۔مگر نا کرتے تو بچے اور ماں دونوں کی جان کو خطرہ تھا۔۔۔بیٹی پیدا ہوئی ہے۔۔۔اور ایکسس آف بلیڈنگ کی وجہ سے شی از نو مور۔۔۔"ٹوٹے پھوٹے الفاظ بولتے ہوئے۔۔۔ڈاکٹر نے جیسے اسکے سر پر ایک پہاڑ توڑا تھا۔۔۔صبا حواس باختہ ہو کر ویٹنگ چئیر پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔۔۔شمائلہ بیگم اور ایمن رونے لگیں۔۔۔احمد کی حالت صبا سے کم نا تھئ۔۔۔۔۔۔
◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇

02/08/2020

Episode 28
Novel:Tum hi ho
Writer:Shifa e zainab

ہسپتال میں داخل ہوتے ہی وہ تیزی سے کاونٹر کی جانب بڑھے۔۔کچھ پوچھ گچھ کے بعد کاونٹر پر کھڑے لڑکے نے اشارے سے انہیں کہیں جانے کا کہا۔۔وہ تیزی سے اس جانب بڑھے۔۔
آئی سی یو روم کے باہر پڑے بینچ پر بیٹھتے کی وہ اپنی سانسیں بحال کرنے لگے۔۔۔
یا اللہ۔۔۔میرے بچے کو بچا لے۔۔۔"ہاتھ بلند کر کے انہوں نے حماد کے لیے دعا مانگی۔اتنے مضبوط ہونے کے باجود بھی انکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
ڈاکٹر حماد کیسا ہے۔۔۔"آئی سی یو سے باہر نکلتے ہوئے ڈاکٹر کو دیکھ کر وہ فوری انکی جانب لپکے۔۔
آپ کون۔۔"ڈاکٹر نے سوال کیا۔۔
میں۔۔مشتاق احمد حماد کا باپ۔۔۔میرا بیٹا کیسا ہے"انکے چہرے پر پریشانی عیاں تھی۔۔
دیکھیں ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔۔۔سر پر چوٹ بہت گہری ہے۔۔۔کافی خون بہہ چکا ہے۔۔۔ٹانگ پر بھی فریکچر ہے۔۔۔آپریشن ابھی جاری ہے اسکے بعد ہی ہم کچھ کہہ سکتے ہیں۔۔"وہ انتہائی سپاٹ لہجے میں بول رہا تھا۔۔۔مشتاق صاحب کے چہرے کا رنگ جیسے اڑ گیا تھا۔۔۔ڈاکٹر آگے بڑھ گیا اور وہ وہیں۔۔۔پڑے بینچ پر جیسے گرنے کے انداز میں بیٹھ گئے۔۔۔
◇◇◇◇◇◇◇◇◇
صبح ہوتے ہی عمبر اور فاطمہ بھی ہاسپٹل پہنچ چکی تھیں۔۔حماد کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا۔وہ دونوں ویٹنگ چئیرز پر بیٹھی کسی خبر کی منتظر لگ رہی تھیں۔۔۔فاطمہ تسبیح اور دعائیں کرتی جا رہیں تھیں۔۔۔انکی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھی۔۔۔عمبر جیسے سکتے کی حالت میں تھئ۔۔۔
فاطمہ۔۔۔عمبر۔۔۔حماد کو ہوش آ گیا ہے۔۔۔"مشتاق صاحب نے آتے ہی ان دنوں کو خوشخبری سنائی۔۔۔انکی آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے بھر آئیں تھی۔۔۔عمبر آگے بڑھ کر مشتاق صاحب کے گلے لگ کر رونے لگی۔۔۔جبکہ فاطمہ تشکر آمیز نظروں سے اوپر کی خانب دیکھنے لگی۔۔۔جیسے اپنے رب کا شکر ادا کر رہی ہوں۔۔۔
◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇
نگینہ یہ کیا کہہ رہی ہو تم۔۔۔دوسری شادی تین بچے۔۔دماغ تو خراب نہیں تمہارا۔۔۔میری صبا میں آخر کیا کمی ہے۔۔۔"نگینہ بیگم صفیہ بیگم کے کمرے میں براجمان انہیں ایک رشتے کے بارے میں بتا رہی تھیں جو صبا کے لیے تھا۔۔۔
ارے پہلی بیوی مر چکی ہے۔۔اور صبا کی بھی سمجھو دوسری کی شادی ہے۔۔۔دیکھو لڑکیوں کی تو منگنیاں بھی ہو کہ ٹوٹ جائیں نا تو لوگ اسے بھی شادی کی گردانتے ہیں۔۔لڑکی کے کردار پہ باتیں کرتے ہیں۔۔۔اب صبا کی شادی پہ جو ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔۔۔سوچ سمجھ کر پھر جواب دینا مجھے۔۔۔اب یہ بھول جاو کے یہاں کسی کنوارے چھڑے کا رشتہ آئے گا۔۔۔"نہایت سفاکیت سے جواب دیتے ہوئے نگینہ نے چائے کا کپ اٹھایا۔۔
ارے کیوں نہیں آئےگا۔۔۔میری بیٹی لاکھوں میں ایک ہے۔۔۔تم۔۔۔۔تم رکھو یہ چائے یہاں۔۔۔پہلے بھی تم نے ہی رشتہ کروایا یہاں اور وہ لڑکا۔۔۔کیسا نکلا۔۔۔چلی جاو یہاں سے میں کسی اور سے کروا لونگی رشتہ"غصے سے پھنکارتی ہوئی صفیہ نگینہ پر برس پڑیں۔۔
ارے ارے۔۔۔لڑکا کیا۔۔۔تمہاری بیٹی کیا دودھ پیتی بچی تھی جو اسکی باتوں میں آ گئی۔۔۔کیسے منہ پھاڑ کر بول رہی تھی کہ میں اسے پسند کرتی ہوں۔۔اگر لڑکا ایسا تھا تو تمہاری لڑکی نے کیا کیا۔۔۔یہ پڑی تمہاری چائے۔۔۔جا رہی ہو میں۔۔۔اور ایک بات یاد رکھنا۔۔۔یہ تمہاری بیٹی یہاں پڑی بوڑھی ہو جائیگی۔۔۔مگر اچھا رشتہ نہیں آئیگا۔۔۔سمجھئ"نگینہ انکی بات کا پورا جواب دیتے ہوئےبولی۔۔۔چائے کا کپ میز پر پٹخ کر وہ اپنا پرس اٹھا کر جانے کے لیے کھڑی ہو گئی۔۔۔
دفع ہو جاو یہاں سے۔۔۔آئیندہ یہاں کا رخ نا کرنا۔۔"صفیہ بیگم چلائیں
ارے جا رہی ہو میں۔۔۔یہاں آئے میری جوتی۔۔۔اپنی بہو کو تو چار دن یہاں بسا نا سکی تم مجھ جیسی کو یہاں کیسے کرو برداشت۔۔۔"آخری الفاظ بولتے ہوئے وہ دروازے کی طرف بڑھی۔۔۔صبا سکتے کی حالت میں وہاں کھڑی تھی۔۔۔آنکھوں سے متواتر آنسو بہہ رہے تھے۔ اپنی تذلیل اسے ذلت و رسوائی کئ دہانے پر لے آئی تھی۔۔
ہونہہ۔۔"صبا پر حقارت بھری نظر ڈالتے وہ آگے بڑھ گئی۔۔۔صبا بھاگتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھے۔۔۔بیڈ پر اوندھے منہ لیٹے وہ دبی دبی سسکیاں لیتے رونے لگی۔۔۔۔۔
◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇
وہ بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔۔سر پر پٹی بندھی تھی۔۔ٹانگ اور بازو پر بھی بہت سے پٹیاں بندھی تھی۔۔ایک بازو پر معمولی خراشیں تھیں۔۔بیڈ کے پاس اسکی وہیل چئیر پڑی تھی۔۔عمبر اسکی دوایاں سائیڈ ٹیبل پر سیٹ کر رہی تھی۔۔۔
یہ کمبل اوپر دوں تمہارے۔۔۔"فاطمہ اسکے پاس بیٹھی پوچھ رہی تھیں۔۔
نہیں امی۔۔۔ایسے ہی ٹھیک ہے۔۔"اسکی آواز سے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ تکلیف میں ہے۔۔
میرا بچا۔۔۔"فاطمہ نے آگے بڑھ کر اسکا ماتھا چوم لیا۔۔۔
جتنے دن تم ہسپتال میں رہے ہو۔۔۔میرا تو دل ڈوبتا رہا ہے اتنے دن۔۔۔بس تم جلدی سے ٹھیک ہو جاو بیٹا۔۔عمبر اسکا خیال رکھنا۔۔۔اور کسی بھی مدد کی ضرورت ہو تو مجھے آواز دینا۔۔"وہ عمبر کو ہدایت دی رہی تھیں۔۔مگر نظریں حماد پر گڑھی تھیں۔
اوکے تائی امی۔۔"عمبر نے مڑ کر دیکھا اور جواب دیا۔۔
اچھا بیٹا میں چلتی ہوں تم آرام کرو۔۔"اسکئ گال کو سہلاتے ہوئے وہ بولیں اور کمرے سے چلے گئیں۔
عمبر وہیل چیئر کو دھکیلتے ہوئے ایک سائیڈ پر کرنے لگی۔۔۔
کچھ چاہیے آپکو۔۔۔"حماد جو کب سے اسے ہی دیکھ رہا تھا عمبر کی آواز سنتے ہہ چونکا اور نظریں دوسری جانب کر لیں۔۔
نہیں۔۔۔"وہ بس اتنا ہی بولا۔۔۔
تمہیں تو افسوس ہو رہا ہوگا نا۔۔۔"بغیر عمبر کی جانب دیکھے وہ بولا۔۔
کیا مطلب۔۔"عمبر نے سوال کیا۔۔
میں مرا جو نہیں۔۔۔"وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔۔
کیسی باتیں کر رہے ہیں۔۔۔مجھے کیوں افسوس ہوگا"عمبر نے بے یقینی سے جواب دیا۔۔
مجھ سے نفرت جو کرتی ہو۔۔"حماد بولا
حماد کیسی باتیں کر رہے ہو۔۔۔مجھے کیوں ہو گئ تم سے نفرت۔۔۔اب زیادہ بولو مت۔۔۔ہاتھ پکڑاو اپنا۔۔میں تمہیں لیٹنے میں مدد کرتی ہوں۔۔"عمبر نے آگے بڑھ کر اپنا ہاتھ آگے کیا۔۔جسے حماد نے تھام لیا۔۔۔اور وہ آہستہ آہستہ لینٹے کی کوشش کرنے لگا۔۔جس میں عمبر اسکی بھرپور مدد کر رہی تھی۔۔۔۔
◇◇◇◇◇◇◇

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Moments with you posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share