Aoun Muhammad Khanعون محمد خان

  • Home
  • Aoun Muhammad Khanعون محمد خان

Aoun Muhammad Khanعون محمد خان Aoun Muhammad Khan

26/12/2023
With my Baba Jan, at my 5th Birthday
25/10/2023

With my Baba Jan, at my 5th Birthday

20/07/2023
Visited with my sweet parents
05/05/2023

Visited with my sweet parents

02/05/2023

Creativity






Beautiful evening.
10/04/2023

Beautiful evening.










Beautiful evening
10/04/2023

Beautiful evening






Beautiful 😍 day
08/04/2023

Beautiful 😍 day

02/04/2023

An other beautiful day with my Sweet Baba Jan.
02/04/2023

An other beautiful day with my Sweet Baba Jan.

Last day, enjoying beautiful weather with my Baba Jan. Some unique clicks of enchanting beauty of Nature.If you like the...
31/03/2023

Last day, enjoying beautiful weather with my Baba Jan.
Some unique clicks of enchanting beauty of Nature.
If you like them, please share with others. Regards

06/03/2023

"اعتبار"

اعتبار آج اپنے خون کے رشتوں پر اعتبار کر کے خون کے آنسو رو رہا تھا۔یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا تھا۔ اس کے پیچھے ایک پوری داستان تھی۔

اعتبار کے والد صاحب نے اپنی بیماری کی شدت زیادہ ہونے پر ایک دن اپنے دونوں بیٹوں، بیٹی اور داماد کو بلایا۔ انہیں کافی دیر پاس بٹھا کر ضروری امور بتائے اور سمجھائے۔ آنہیں اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں آپس میں اتحاد و اتفاق سے اور شیر و شکر ہوکر رہنے کی سخت تاکید کی۔ بیٹوں کو خاص طور پر اپنی بہن اور بہنوئی کا خیال رکھنے کی نصیحت کی۔ دکھی دل سے کہا کہ میرے بعد کبھی بھی بہن کو کوئی تکلیف نہ پہنچنے دینا، نہیں تو میں آپ سے بروز حشر راضی نہیں ہوں گا۔ اعتبار سے مخاطب ہوکر کہا کہ اپنی ماں کی روح کے سکون کے لیے اپنے بڑے بھائی اور چھوٹی بہن سے کبھی بے وفائی نہ کرنا۔ جب تک ایک ساتھ رہ سکیں، رہنا ہے۔ ضرورت کے وقت تم اپنا گھر الگ لے لینا،بڑے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوئے، نثار تمہاری مدد کرے گا۔

چند دن بعد اعتبار کے والد داعی اجل کو لبیک کہتے سفر آخرت پر چل دیئے۔ یہ صدمہ سب کے لیے نہایت تکلیف دہ تھا لیکن سب کو قدرت کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر کے صبر کرنا پڑا۔ اس سانحہ کے بعد مرحوم کی وصیت و نصیحت کے مطابق سب پیار و محبت سے رہنے لگے۔ سب ہی ایک دوسرے کا از حد خیال رکھتے۔ اعتبار دوسروں کے ساتھ حسن سلوک میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتا۔ یوں، ان کا گھرانہ سارے اہل محلہ کی نظر میں مثالی بن گیا۔ ہر کوئی ان کے ایثار اور خلوص و محبت کے گن گاتا۔

اعتبار، زندگی کے ہر معاملہ میں اپنے بھائی، بہن اور بہنوئی پر اندھا دھند اعتبار کرتا، ان سے مشورہ کر کے کسی بھی قسم کا فیصلہ کرتا اور اس کے مطابق کوئی قدم اٹھاتا۔ سب اس کے اس رویہ سے بہت خوش دکھائی دیتے اس کو خوب سراہتے۔ اس کا بہنوئی اس پر جان نچھاور کرتا۔زندگی کا سلسلہ بحسن و خوبی چل رہا تھا۔ سب اپنی اپنی زندگیوں میں بہت خوش تھے۔

چند سال بعد بھائیوں کے دو خاندانوں کے لیے گھر چھوٹا پڑ گیا تو ایک نئے گھر کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ ایک دن بڑے بھائی نے اعتبار کو چھٹی والے دن ایک مشورہ کے لیے وقت نکالنے کا کہا اور ساتھ ہی بہن اور بہنوئی کو بھی کال کر دی کہ بروز اتوار ہمارے ہاں چکر لگائیں۔ اعتبار کو تجسس ہوا مگر کچھ پوچھنا مناسب نہ جان کر خاموشی سے ہاں کر دی۔

چھٹی والے دن سب ڈرائنگ روم میں ایک ساتھ بیٹھ کر چائے پینے اور گفت و شنید میں مصروف تھے جب بڑے بھائی نے اعتبار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ گھر اب ہمارے دو خاندانوں کے لیے چھوٹا پڑ گیا ہے لہذا بہتر ہے کہ ایک اور گھر لے لیا جائے یا خود بنا لیا جائے۔ ان کے بہنوئی نے جواب دیا کہ بہتر ہے خود بنا لیں، تعمیر شدہ گھر نجانے کس طرح کا ہو، بندہ کسی پر اعتماد بھی تو نہیں کر سکتا کہ آج کل بد دیانتی عام ہے۔ اعتبار بولا کہ بھائی جب تک کام چلتا ہے، چلاتے ہیں۔ ایک ساتھ رہنے میں سب کو سہولت رہے گی۔ ویسے بھی ابھی میرے ایسے حالات نہیں کہ الگ گھر لے سکوں، جگہ لے کر بنانا بھی فی الحال میرے بس کی بات نہیں۔ یہ سن کر اس کا بہنوئی اور بڑا بھائی بیک زبان بولے، اس کی فکر تم کیوں کرتے ہو، ہمارا مشترکہ ایک پلاٹ ہے، تم اس پر اپنا گھر تعمیر کر لو، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ وہ بولا، مجھے یہ مناسب نہیں لگتا کہ ادائیگی کیے بنا آپ کے پلاٹ پر گھر بنا لوں۔ وہ اپنی بات منوانے پر بضد رہے۔ بالآخر اس بات پر اسے راضی کر لیا کہ وہ ان کے پلاٹ پر گھر کی تعمیر شروع کرے اور جب ممکن ہو انہیں ادائیگی کر دے۔ چونکہ اسے ملازمت کے لئے روزانہ کافی دور سفر کر کے جانا ہوتا تھا اور وہ صبح سویرے گھر سے نکلا شام کو دیر سے واپس آتا، اس لیے نثار نے گھر کی تعمیر کی نگرانی اپنے زمہ لے لی۔

اعتبار نے رات کو اپنی بیوی سے سارا معاملہ بیان کیا۔ اس کی بیوی کے چہرے کے تاثرات سے وہ سمجھ گیا کہ اسے یہ بات پسند نہیں آئی۔ اس نے اس ناگواری کی وجہ پوچھی تو اس کی بیوی نے ان کی شادی کے وقت نثار کی مخالفت کا ذکر کر کے کچھ غلط ہو جانے کے خدشہ کا اظہار کیا۔ اس پر اس نے بیوی کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ بھائی جان کی خالو سے وقتی رنجش تھی جس کی وجہ سے انہوں نے ہماری شادی کی مخالفت کی۔ اس کی بیوی نے زور دے کر اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ جو بھی ہو بہتر یہی ہے کہ پلاٹ اپنے نام کرا کے اس پر گھر کی تعمیر شروع کرائی جائے، کسی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب بدل جائے۔ اعتبار نے اسے اس کا وہم کہہ کر رد کر دیا۔ اس کی یہی سوچ تھی کہ بھائی اور بہنوئی اس پر جان چھڑکتے ہیں، بہن بھی اس سے بہت پیار کرتی ہے، یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کے ساتھ اس کے اتنے قریبی رشتے کسی بھی قسم کے دھوکہ یا بددیانتی کے مرتکب ہوں۔ اس پر اس کی بیوی یہ کہہ کر چپ ہو گئی کہ میں آپ سے متفق نہیں ہوں لیکن آپ کو روکتی بھی نہیں، خود دیکھ لیں یہ نہ ہو کہ کل جب پچھتائیں تو سب زندگی کی جمع پونجی ہاتھ سے نکل چکی ہو۔

کچھ دن بعد گھر کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا۔ نثار کام کی نگرانی کرتا، کبھی کبھار ان کا بہنوئی بھی آجاتا۔ اعتبار چھٹی والے دن کچھ وقت کے لیے کام دیکھنے چلا جاتا اور جہاں مناسب لگتا، مشورہ دے دیتا۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں بھی کام ٹھیک طریقے سے جاری تھا۔ وہ ساتھ ساتھ ساری ادائیگیاں کسی نہ کسی طرح کرتا رہا۔ گھر جب تکمیل کے آخری مراحل میں تھا تو جمع شدہ رقم ختم ہونے پر اس نے ضرورت کے مطابق پیشگی تنخواہیں لے لیں۔ اس طرح لگ بھگ سال میں خوبصورت گھر تیار ہوگیا۔

گھر تیار ہوتے ہی اعتبار کا خاندان اس میں جا بسا۔ بچے اپنے نئے گھر میں سب سے زیادہ خوش تھے۔ اعتبار نے سکھ کی سانس لی کہ ملازمت ختم ہونے سے پیشتر گھر مکمل ہوگیا ہے، قرضہ کی رقم تنخواہوں میں سے مکمل ادا کر کے بعد میں یکمشت ملنے والی رقم سے پلاٹ کی قیمت ادا کر دے گا۔

نئے گھر میں رہتے ہوئے ایک ماہ ہوا تھا کہ ایک دن جب وہ ملازمت سے شام کو گھر واپس آیا تو اس کی بیوی نے اسے بتایا کہ دن کے وقت نثار بھائی کسی بندے کو گھر دکھانے لائے تھے، مجھے الگ کمرہ میں بٹھا کر اس بندے کو کافی وقت گھر چیک کراتے ریے۔ اعتبار نے کہا کوئی دوست ہوگا، ممکن ہے اس نے اسی ڈیزائن کا گھر بنوانا ہو تو اسے دکھانے لائے ہوں گے۔ بہرحال میں بھائی سے پوچھ لوں گا۔

اعتبار مصروفیت کی وجہ سے بھائی کے گھر نہیں جا سکا، فون پر کچھ پوچھنا یہ سوچ کر ضروری نہ سمجھا کہ بھائی برا نہ مان جائے کہ دوست کو گھر دکھانے پر اتنی پوچھ گچھ کیوں کر رہا ہے۔

اس بات کو ایک ہفتہ ہی گزرا ہوگا کہ ایک دن ان کے گیٹ کی گھنٹی بجی۔ اتفاق سے اس دن اعتبار خود گھر پر ہی تھا۔ اس نے گیٹ کھولا اور آنے والے سے سلام و دعا کر کے آنے کی وجہ دریافت کی۔ وہ آدمی بولا کہ ہم نے نثار صاحب سے یہ گھر خرید لیا ہے۔ آپ دو چار دن میں گھر خالی کر دیں تاکہ ہم اپنا سامان یہاں منتقل کر سکیں۔ یہ سن کر اعتبار کو پائوں تلے سے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔ اس نے خود کو کسی طرح سنبھالا دیا اور بولا، محترم آپ ہوش میں تو ہیں، یہ میرا گھر ہے، میں نے اپنی جمع پونجی لگا کر تعمیر کرایا ہے۔ آدمی نے کہا، جی میں مکمل ہوش و حواس میں ہوں اور میرے پاس اس گھر کے مکمل کاغذات ہیں، کل وہ بھی لے کر دوبارہ حاضر ہوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے مصافحہ کیا اور چلتا بنا۔

اعتبار نے وہیں کھڑے کھڑے نثار کو کال کی اور ساری بات بتائی۔ نثار نے کہا گھر چکر لگائو، میں بتاتا ہوں کہ ماجرا کیا ہے۔ اعتبار وقت ضائع کیے بغیر اسی وقت بائک پر بیٹھا اور نثار کے گھر چلا گیا۔ وہاں پہنچا تو بھائی نے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور چائے لینے چلا گیا۔ چائے لے کر آیا تو ان کا بہنوئی بھی پہنچ گیا۔ اعتبار نے چائے پینے کی بجائے حقیقت جاننے کے لیے نثار سے پوچھا کہ کیا یہی آدمی ان کے ساتھ گھر دیکھنے بھی آیا تھا۔ نثار بولا، ہاں اسے گھر ضرورت تھا تو میں نے گھر دیکھنے کا کہا۔ مجھے اور راشد کو فوری پیسے چاہیئے تھے، گھر کی مناسب قیمت ملنے پر ہم نے بیچ دینے کا فیصلہ کیا۔ تم ہماری مجبوری کو سمجھو اور گھر خالی کر دو۔ کروئے کا گھر ملنے تک کی مہلت ہم لے دیتے ہیں، بہتر ہے تم اگلا مہینہ شروع ہونے تک گھر لے لو۔ اعتبار پر یک دم آسمان گر پڑا۔ اس نے نہایت دکھ بھرے لہجہ میں کہا، آپ میری اجازت کے بغیر گھر کیسے بیچ سکتے ہیں، اس پر میں نے زندگی بھر کی کمائی لگا دی ہے۔ نثار اور راشد نے اس کی کوئی بات سننے سے انکار کر دیا اور اسے گھر خالی کرنے کا کہہ کر کسی کام سے جانے کا بہانہ کر کے گھر سے چلے گئے۔

اعتبار اپنے گھر واپس آگیا۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کی بیوی سمجھ گئی کہ کوئی بہت بڑا مسئلہ آن پڑا ہے۔ اس کے استفسار پر اعتبار نے سب کچھ اسے بتا دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ بیوی، جو پہلے دن سے اس اندیشہ میں مبتلا تھی، اپنے خاوند کی حالت دیکھ کر ڈر گئی۔ اس کے لیے پانی لے کر آئی، اسے پانی پلایا اور تسلیاں دینے لگ گئی۔ اسے خود کو سنبھالنے کی منت کرنے لگی کہ آپ ہیں تو پھر کچھ کر لیں گے۔ کرائے کے گھر میں رہ لیں گے۔ اپنے گھر کی چھت نہ سہی، آپ ہمارے سر پر رہیں، ہم زندگی کے سارے عزاب سہہ لیں گے۔
اعتبار نے بیوی کی طرف دیکھا، اس کا بجھا ہوا چہرہ دیکھ کر خودکو سنبھالا اور گلاس اپنے ہاتھ میں لے کر اسے پانی پلانے لگا۔

واجد حیدری
#واجدحیدری

"خواب"صابر میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا جب ان کے والد جگر کے کینسر کی وجہ سے اللّٰہ کو پیارے ہوگئے۔ مرحوم یوں تو ایک فیکٹری میں ا...
05/03/2023

"خواب"

صابر میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا جب ان کے والد جگر کے کینسر کی وجہ سے اللّٰہ کو پیارے ہوگئے۔ مرحوم یوں تو ایک فیکٹری میں اچھی ملازمت کرتے تھے، جس کی وجہ سے ان کی گزر بسر بہت اچھی ہو رہی تھی مگر ان کی زندگی کے آخری دو سال علاج معالجہ پر اٹھنے والے بے تحاشہ اخراجات کی وجہ سے زندگی مشکلات سے دوچار ہو چکی تھی کیونکہ جمع پونجی تقریباً ختم ہو گئی تھی۔

صابر بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ اس سے دو چھوٹی بہنیں تھیں جو آٹھویں اور پانچویں جماعت میں ہی یتیم ہو گئی تھیں۔ بہنوں سے چھوٹے دو بھائی تھے۔ دونوں ابتدائی جماعتوں میں تھے۔

یوں تو گھر کے حالات پہلے ہی کچھ بہتر نہیں رہے تھے مگر والد کے دنیا سے چلے جانے کے بعد جہاں سب سر پر موجود چھت سے محروم ہوگئے تھے وہیں اس خاندان کے لیے دو وقت کی روٹی بھی بہت بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ واحد مالی سہارا معمولی سی پینشن اور یکمشت ملنے والی کچھ رقم تھی۔

بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے وہ والدہ کے دکھ اور پریشانی کو بخوبی سمجھتا تھا۔ وہ والدہ کو دکھی اور رنجیدہ دیکھتا تو ان کے پاس بیٹھ جاتا اور بظاہر خود کو سنبھال کر اپنی والدہ کی ہمت بندھاتا اور ہر ممکن تسلی دیتا۔

ابتدائی جماعتوں سے ہی اس کی تعلیمی کارکردگی بہت اچھی تھی۔ اس کی قابلیت کا ہر کوئی معترف تھا۔ اسی وجہ سے اس کے والدین پرامید تھے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنے خاندان کے لیے باعث فخر ثابت ہوگا۔ مگر تقدیر کا لکھا بھلا کون بدل سکتا ہے۔ میٹرک کے بعد اپنے گھر کے حالات کے پیش نظر اس نے ایک دکان پر ملازمت شروع کر دی۔ والدہ نے بھی چاروناچار اس کے اس فیصلہ کو قبول کر لیا۔ اس کا یہ فیصلہ اس کی آنے والی ساری زندگی پر محیط ہو گیا۔

ان کے خاندان پر اصل قیامت تب ٹوٹی جب تین سال بعد ہی ان کی والدہ بھی چند دن بیمار رہ کر انہیں بالکل تنہا کر کے چلی گئیں۔ کچھ دن تو رشتہ داروں نے ہمدردی اور محبت کا مظاہرہ کیا مگر پھر سب اپنی اپنی دنیا میں مگن ہو گئے۔

صابر اس صدمہ سے ٹوٹ سا گیا تھا مگر اس حال میں بھی اپنے بہن بھائیوں کے خیال نے اسے ہمت دی اور وہ والدین کا دکھ دل میں سمو کر ان کے خواب پورے کرنے کے لیے کمر بستہ ہوگیا۔ اس نے اپنے والدین کی زمہ داری اپنے سر لے لی۔ وہ اپنا آپ بھلا کر چھوٹے بہن بھائیوں کی زندگیاں تعمیر کرنے میں جت گیا۔ خود پرائیویٹ پڑھا اور بہن بھائیوں کو باقاعدگی سے تعلیمی اداروں میں بھیجا۔

اسے دو تین بار بہتر ملازمت کی پیشکش ہوئی مگر اس نے اپنی بہنوں کی وجہ سے شہر سے باہر جانا مناسب نہ سمجھا۔ اس طرح جیسے تیسے کر کے سب کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان سب کے گھر بھی بسا دیئے۔ اس دوران کئی ایک قریبی رشتہ داروں اور احباب نے اسے شادی کا مشورہ دیا لیکن وہ ہر بار یہ کہ کر ٹال دیتا کہ مجھے میرے والدین کے خواب پورے کرنے دیں تاکہ ان کی ارواح کو تسکین پہنچے۔

اپنی زمہ داریاں پورے کرتے کرتے اس کی زندگی کی چار دہائیاں بیت گئیں۔اس دوران بہن بھائیوں کے گھر بسنے اور ان کے صاحب اولاد ہونے پر اس کی ساری توجہ ان کے بچوں پر مرکوز ہوگئی۔ اسے لگا کہ اس کا گلشن پھر سے آباد ہو گیا ہے۔ وہ بدستور اپنی ذات سے لاپرواہ سب کو پھلتا پھولتا دیکھنے میں مگن رہا۔

اسے اس وقت شدید صدمہ ہوا جب چھوٹے بھائیوں نے اسے اپنے لیے کوئی الگ مکان لینے کا کہا۔ اس کا سبب یہ بتایا کہ اب گھر چھوٹا پڑ گیا ہے اور اسے بیچ کر انہوں نے اپنے لیے شہر کے پوش علاقہ میں اپنی حیثیت کے مطابق نئے گھر لینے ہیں۔ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ گھر چھوڑنا پڑا جس میں رہتے ہوئے اس نے والدین کے خواب پورے کرنے میں اپنی عمر گزار دی تھی۔

بھائی اپنے نئے گھروں میں جا بسے اور صابر دربدر ہو گیا۔ بہنیں بھی اس سے لاتعلق ہو گئیں۔ چند ماہ ایک جاننے والی کی بیٹھک نما کمرے میں گزارے۔ پھر وہاں سے بھی نکلنا پڑا۔

ایک کمرہ کوئی دینے کو تیار نہیں تھا اور مکمل گھر لینا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ محلے کی مسجد میں دو چار راتیں بسر کیں۔ اس کےبعد اس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہ رہا۔ کبھی کسی مسافر خانہ میں رات گزرتی، کبھی قبرستان میں موجود مزار میں سونا پڑتا۔

حالات کی سنگینی نے اسے وقت سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا تھا، وہ جو والدین کے خواب پورے کرتے کرتے اپنا آپ بھلا بیٹھا تھا، ایک یخ بستہ رات مزار پر خاموشی کے ساتھ صاحب مزار کے جہان سدھار گیا۔

واجد حیدری
#واجدحیدری

Today, attended the Waleema Ceremony of chachoo Aadil Hameed
26/02/2023

Today, attended the Waleema Ceremony of chachoo Aadil Hameed

Some fresh clicks
25/02/2023

Some fresh clicks







22/02/2023

Nature is the real beauty of one's life.
Credit: Affectionate Aapees







09/02/2023




07/02/2023





Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Aoun Muhammad Khanعون محمد خان posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share