Gul Ho "Magar Gulaab Nahi"

  • Home
  • Gul Ho "Magar Gulaab Nahi"

Gul Ho "Magar Gulaab Nahi" گل_گلزار(کیونکہ زندگی گلزار ہے��)

03/12/2023

کچے ایمان کے ساتھ دعا ، وظیفہ اور نیکی ری ایکشن کر جاتے ھیں ،،

ایک دوست لکھتے ھیں کہ ایک بندہ عجب صورتحال لیکر ان کے پاس آیا اسکی بہت جائز اور غیر متنازعہ قسم کی حاجات جیسے قرض کی ادائیگی اور کچھ خاندانی فرائض جیسے والدین کاُعلاج معالجہ اور اسکے کاغزات اور کاروبار روزگار کے مسائل
اس نے عرصہ سات سال خدا کا خوف اپنے اوپر لازم رکھا تہجد نماز روزہ استغفار دعاء صدقات غرض ہر وہ کام جو دین میں رائج ہے کیا مگر اسکی کوئی ایک مشکل بھی حل نہ ہوئی
اس نے تنگ آکر شیطان کو اپنا مالک و مولا مان لیا اور منت مانی کہ اگر شیطان اسکی مشکلات حل کر دے تو کبھی خدا کی جانب نہ لوٹے گا
شیطان اس سے بنفس نفیس ملا اور اس سے عہد و پیمان لے لیا اور اسکو یقین دہانی کرا دی کہ فلاں وقت تک فلاں فلاں کام اسکا کر دیا جائگا
حسب وعدہ اس کے سارے مسائل اس کے نئے مالک نے حل کر دئے غرض عرصہ سات سال کی ریاضت گریہ اور تقوی اس کے کسی بھی مسئلہ کو حل نہ کر سکا مگر غیر یقینی طور پر سب کچھ تین دنوں میں جو جو وقت شیطان نے اسے بتایا اس سے ایک منٹ کی دیری نہ ہوئی
اب وہ شخص ہے تو مطمئن اور راضی پر اسکا اب بنے گا کیا یہ مجھے غیر مطمئن کر رہا ہے.

اس نے راتیں بھوک سے گزاریں اور رو رو کر روٹی مانگی رب سے اور سخت دوڑ دھوپ کرتا رہا
تہجد قیام الیل اور حلال روزی سب کچھ کیا اس نے رب کو پتہ نہیں کیوں ترس نہیں آیا اس پر ؟

گزارش ھے کہ اللہ بے نیاز ھے اس شخص کی مسلمانی سے بھی اور اس شخص کے کفر سے بھی ، اس کے ایمان سے اس مشروط ایمان سے خدا کا فائدہ کوئی نہیں تھا اور اس کے اس کفر سے خدا کا کوئی نقصان نہیں ھے ، اب اس شخص کا معاملہ یہ ھے کہ اس نے دنیا کا انتخاب کر لیا اور شیطان سے لے لیا ،، چاھے وہ شیطان نظامی تھا یا غلام رسول تھا یا انہی کا کوئی بھائی بند تھا ،، اور ایمان بیچ کر اپنے معاشی مسائل حل کر لئے ،، کچھ لوگ دنیا بیچ کر آخرت خرید لیتے ھیں کچھ آخرت بیچ کر دنیا خرید لیتے ھیں ،قرآن نے دونوں کا ذکر کیا ھے ،،اشتروا الحیوۃ الدنیا بالآخرہ،، والضلالۃ بالھدی ، والعذاب بالمغفرہ ،،، دنیا کی زندگی آخرت دے کر خرید لی ، ھدایت دے کر گمراھی لے لی اور اللہ کی مغفرت کی بجائے اللہ کے عذاب کو خرید لیا ،،

میں جب بھی لوگوں کو گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگتے اور لمبے لمبے سجدے کرتے ،وظیفے کرتے دیکھتا ھوں تو کانپ جاتا ھوں کہ یہ نقد والے ھیں اگر اللہ نے ان کے ساتھ ادھار کیا تو یہ کفر کی طرف بھاگ جائیں گے ، یہ عبادت و ریاضت ، یہ دعائیں اور وظیفے ھضم کرنے کے لئے ھاتھی کا پیٹ چاھئے یا ھمالیہ جتنا ایمان ،، اس لئے میں لوگوں کو وظیفوں کے چکر میں ڈالتا ھی نہیں ، اب اگر اس بھائی کو میں دو چار لاکھ روپیہ بھیج دیتا تو وہ مسلمان ھوتے بلکہ Paid Muslim ھوتے ، پہلے انہوں نے مجھ سے ھی رابطہ کیا تھا ، مگر نہ میرا خدا بلیک میل ھوتا ھے اور نہ ھی میں ھوتا ھوں ،جس کی بھی مدد کرتا ھوں بےلوث کرتا ھوں ،، مگر اس دھمکی سے کبھی نہیں کی کہ اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو میں بس کافر ھوا ھی چاھتا ھوں ،، اس طرح تو کوئی ایسی بیوی کو بھی خرچہ نہیں دیتا جو کہے کہ اگلے مہینے پیسے نہ آئے تو میں دلدار بھٹی کے ساتھ بھاگ جاؤں گی ،،،،،،،

ایمان نام ھی امتحان کا ھے مگر ھم پیدائشی مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ھی نہیں کہ ھمارے پاس کتنی بڑی دولت ھے ،لہذا اس کو بیچنے کے لئے ھاتھوں پہ دھرے پھرتے ھیں ،، ایمان نام ھے اپنی جان اور مال اللہ کے حوالے کر کے خود تہی دست ھو کر بیٹھ جانے کا ھے ،،
اللہ نے خرید لیا مومنوں سے ان کی جان اور مال بدلے اس کے کہ ان کے لئے ھے جنت ،،
إن الله اشترى من المؤمنين أنفسهم وأموالهم بأن لهم الجنة ،،، اب اس جان اور مال کے ساتھ وہ کیا کرتا ھے وہ خود اس کا فیصلہ کرنے کا مختار ھے ،چاھے تو اس بدن کو گلا گلا کر مار دے ، چاھے تو اس مال کو خساروں سے ختم کر کے رکھ دے صرف یہ چیک کرنے کے لئے کہ اس نے اپنا قبضہ ختم کیا ھے یا نہیں ، اگر قبضہ اللہ کو دے دیا ھے تو پھر جو گزرے گی اس کو اعتراض نہیں ھو گا ،، اور اگر قبضہ برقرار تھا تو ھر خسارے اور ھر تکلیف پر سانپ کی طرح بل کھائے گا ،،

دل ھو کہ جان ، تجھ سے کیونکر عزیز رکھئے،،
دل ھے سو چیز تیری ،جاں ھے سو مال تیرا ،،،

یہ جان اور مال لینے کے بعد فرمایا کہ اسے ھم اس طریقے سے لیں گے کہ تم تڑپ تڑپ جاؤ گے ، تمہارے ھاتھوں مال بھی جائے گا اور جان بھی جائے گا ،، ادھر ایمان لاؤ گے ادھر نقصان شروع ھو جائیں گے ،فصلیں پھل دینا بند کر دیں گی ،، لگے ھوئے پھل خراب ھو جائیں گے ،، بدن پر بیماریوں کا حملہ ھو گا ،جس جگہ تمہیں گلہ پیدا ھو گا ، ثابت ھو جائے گا کہ تم ابھی تک اس کو اپنا مال اور جان ھی سمجھ رھے ھو ورنہ رنج اور گلہ نہ ھوتا ،،

ولنبلونكم بشيء من الخوف والجوع ونقص من الأموال والأنفس والثمرات وبشر الصابرين-( البقرہ- 155 )
یہ صابرین یہ یقین رکھتے ھیں کہ ھم پلٹ کر اللہ کی طرف جانے والے ھیں اور جو کچھ بھی نقصان ھو رھا ھے اس ننے وعدہ کر رکھا ھے کہ آخرت میں منافعے سمیت ملے گا اور ھمیشہ کی زندگی سکون کی گزرے گی ، یہ وہ لوگ ھیں کہ جن پر اللہ کی طرف سے شاباش ھے اور رحمتیں متوجہ رھتی ھیں اور ایسا رویہ رکھنے والے لوگ ھی ھدایت یافتہ ھیں ،،

اللہ کی یہ سنت پہلے ایمان لانے والوں کے ساتھ بھی جاری رکھی گئ ھے اور اب بھی جاری و ساری ھے ،، سورہ العنکبوت انتہائی نامساعد حالات میں نازل ھوئی ھے ،جس کا اسٹارٹ ھی نہایت دھماکہ خیز ھے ،،

الف لام میم ،کیا لوگوں نے سمجھ رکھا ھے کہ ان کو چھوڑ دیا جائے گا صرف اتنا کہہ دینے پر کہ ھم ایمان لے آئے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا ؟ ھم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ھیں اور اللہ جان کر رھتا ھے ان کو جو کہ سچے ھیں ایمان میں اور ان کو بھی جو کہ جھوٹۓ ھیں ایمان میں ،،

الم (1) أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (2) وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ (العنکبوت- 3)

کیا یہ سارے حالات نبئ کریم ﷺ اور صحابہؓ پر نہیں گزرے ؟ شعب بنو ھاشم کی تین سالہ قید جس میں بچوں کو جوتے ابال کر ان کا پانی پلایا جاتا تھا اور ان بچوں کے رونے سے اھلِ مکہ کی نیندیں اچٹ جاتی تھیں یہ ایک دو دن کی بات نہیں تین سال کی بات ھے ،اسی قید نے حضرت خدیجہ کی صحت پر ناموافق اثر کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی جان بھی گئ تھی،، پھر ھما شما کے گلہ کرنے کی کیا مجال رہ جاتی ھے ،،

دعا کر کے ھضم کر لینا خالہ جی کا گھر نہیں اس کے لئے یا تو ھمالیہ جیسا ایمان چاھئے یا کے -ٹو جتنا گناہ -جوانسان کی گردن جھکا کر رکھے-گنہگار جب دعا مانگتا ھے تو ڈر ڈر کے مانگتا ھے،اسے اپنے گناھوں کے کلپ بار بار نظر آ رھے ھوتے ھیں،، پوری ھو جائے تو فبہا ،، نہ ھو تو وہ اپنے آپ کو ھی کوستا ھے کہ تو نے بھی کونسا کوئی اچھا کام کیا ھوا ھے ! یہ تو ھونا ھی تھا،، وہ مزید مسکینی اور عاجزی کا شکار ھو جاتا ھے ۔۔
اللہ معاف کرے نیک آدمی جب دعا مانگتا ھے تو دعا نہین مانگتا وہ تو الٹی میٹم دیتا ھے،،اپنی نمازوں ،اشراق و اوابین،، حج اور عمرے کے کلپ بار بار لگ رھے ھوتے ھیں،، جوں جوں قبولیت میں دیر ھوتی ھے موڈ خراب ھوتا جاتا ھے،، اور وہ سمجھتا ھے کہ اس کی انسلٹ کی جارھی ھے،، اور آخر بول پڑتا ھے، یار نمازیں بھی پڑھتے ھیں، صدقہ خیرات بھی کرتے ھیں مگر مصیبت نے ھمارا ھی گھر دیکھ لیا ھے،، یہ گلے شکوے کا انداز دعا کو کیا قبول کرائے گا عبادت کو بھی بے کار کر دیتا ھے،، دعا کر کے رب کی مرضی پر چھوڑ دینا چاھئے، یاد رکھئے دعا میں ٹائم فریم نہیں ھوتا،،منگتا کسی کو الٹی میٹم نہیں دیتا،، منگتا یہ نہیں کہتا کہ سرکار اتنے دو،، ڈالرز ھی دو،، وہ کشکول آگے کر دیتا ھے جو آپ کے جی میں آئے ڈال دو ،،

دعا کا ادب سیکھنا ھے تو موسی علیہ السلام سے سیکھیں - درخت کے نیچے کھڑے ھو کر فرمایا " ربِ انی لما انزلتَ الی من خیر فقیر ( القصص ) ائے میرے پالنہار میں ھر اس چھوٹی سے چھوٹی خیر کا محتاج اور قدردان ھوں جو تو میری جھولی مین ڈال دے، اس ادا پر رب کی رحمت کا ٹوٹ پڑنا دیکھو،، گھر بھی دے دیا، نوکری بھی دے دی، بیوی بھی اسی دن دے دی،، یہ ھے ھمارے رب کا مزاج ،،بلیک میلنگ اسے بالکل پسند نہیں ،، نہ وہ نسب سے بلیک میل ھوتا ھے نہ عبادت سے،، سر جھکا دو، آنکھیں نیچی کر لو، رو لو،، نہیں تو رونے کی صورت بنا لو،، پھر دیکھو وہ خود تمہاری ضرورتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے پورا کرے گا !

اللہ آپ کو سلامت اور اپنے در کا محتاج رکھے ! آمین

قاری حنیف ڈار صاحب کے قلم سے بکھرے موتی

24/11/2023

حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے 28 قسم کی مخلوقات آباد تھیں
سب سے حسین مخلوق کون سی ہے.?

کیا آپ جانتے ہیں سیدنا آدم علیہ نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے زمین پر اٹھائیس قسم کی مخلوقات آباد تھیں!
مختلف زمانوں میں کئی کئی ہزار سال عجیب و غریب مخلوقات یہاں آباد رہی ہیں.
جنات کے بارے تو سبھی جانتے ہیں کہ آدم علیہ السلام سے پہلے یہ آباد تھے پھر انہوں نے سرکشی کی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بھیجا جنہوں نے جنات کو قتل کیا اور زمین سے نکال کر جزیروں میں بھیج دیا.
مگر جنات سے پہلے ستائیس مخلوقات اور آباد تھیں!
ان میں سے بِن پھر خِن پھر مِن دنیا میں آباد رہے .
علامہ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا کہ بِن و خِن زمین میں رہتے تھے وہ سرکش ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے جن بھیجے جنہوں نے بِن و خِن کو زمین سے نکال دیا .
(یہاں یہ یاد رکھیں کہ ان سب کو قتل نہیں کیا بلکہ زمین کی حدود سے نکال دیا ممکن ہے وہ کسی اور زمین کسی اور سیارے پر آباد ہو چکے ہوں اور وہی خلائی مخلوق ہوں).
پھر جنات نے سرکشی کی تو فرشتوں نے ان کو قتل کیا اور جس کے لیئے زمین کی تخلیق کی گئی یعنی حضرت انسان وہ پیدا کیا گیا!
علامہ مسعودی نے لکھا کہ انسان سے پہلے 28 قسم کی مخلوقات زمین پر آباد تھیں.
اور علامہ شہاب الدین الاشبیہی نے بھی المستطرف میں لکھا کہ 28 قسم کی مخلوقات آباد تھیں!
اور ان میں سے کچھ
(1) پروں والی مخلوق تھی جن کی زبان بجنے جیسی تھی!
(2) کچھ کے دو جسم ایک سر تھا ایک جسم شیر سا اور ایک پرندے سا اور ان بال اور ناخن ہوتے
(3) کچھ کے دو سر ایک آگے کی جناب اور دوسرا پیچھے کی جانب ہوتا تھا
(4) کچھ نصف انسان جیسے تھے اور انکی کئی ٹانگیں تھیں
(5) کچھ کا منہ انسان سا اور پیٹھ کچھوے جیسی اور سر میں سینگ ہوتے تھے
(6) کچھ کے سفید بال اور گائے جیسی دم ہوتی تھی
(7) کچھ کے ناخن خنجروں کی طرح اور لمبے لمبے کان ہوا کرتے تھے.
علامہ مسعودی نے ایک جگہ لکھا کہ آدم علیہ السلام سے پہلے 120 مخلوقات آباد تھیں .
اصل میں 28 ہی تھیں باہم شادی کی وجہ سے وہ مزید الگ الگ ہوتے گئے اور یوں 120 عجیب و غریب مخلوقات بن گئیں.
اور سب سے آخر میں حضرت انسان کو پیدا کیا گیا جو سب مخلوقات میں حسین و جمیل ہے .
اللہ رب العزت نے فرمایا
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم
ہم نے انسان کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا.
اور حدیث پاک میں ہے کہ
ان اللہ خلق آدم علی صورتہ
اللہ رب العزت نے آدم علیہ السلام کو اپنی پسندیدہ ترین صورت پر پیدا کیا.
سابقہ مخلوقات میں سے کچھ کے نشانات ملتے رہتے ہیں جن کو سائنس دان ڈائنوسار وغیرہ قرار دیتے ہیں.
اور کچھ سمندروں جزیروں میں چھپے ہوئے ہیں .
الجزائر میں موجود بہت بڑے پہاڑی سلسلے کی غاروں میں مذکورہ کچھ مخلوقات کی ان کے زمانے کی تصاویر ہیں جو دریافت ہوئی ہیں.
اس سے پ کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں.
بعض کے نزدیک یاجوج و ماجوج انہی سابقہ مخلوقات میں سے ہیں جو اب تک سکندر اعظم ( ذوالقرنین) کی بنائی دیوار کے پیچھے بند ہیں!
اور بعض احادیث میں دو عظیم شہروں کا ذکر ہے جو اس دنیا سے بھی بڑے ہیں ایک مشرق میں ایک مغرب میں وہاں بھی مخلوق آباد ہے .
زیر نظر تصاویر الجزائر کے غاروں کی ہیں ماہرین کے مطابق یہ بِن،خِن اور مِن کی بنائی تصاویر ہو سکتی ہیں۔
منقول حقیقت تو میرا مالک ہی بہتر جاننے والا ہے ...

02/11/2023

حضرت عائشہؓ نے ایک دن رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ’’آپ ﷺ کی زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا؟‘‘حضورﷺ نے فرمایا
والدہ نے سات دن دودھ پلایا‘ آٹھویں دن دشمن اسلام ابو لہب کی کنیز ثوبیہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا‘ ثوبیہ نے دودھ بھی پلایا اور دیکھ بھال بھی کی‘ یہ چند دن کی دیکھ بھال تھی‘ یہ چند دن کا دودھ تھا لیکن ہمارے رسولؐ نے اس احسان کو پوری زندگی یاد رکھا‘ مکہ کا دور تھا تو ثوبیہ کو میری ماں میری ماں کہہ کر پکارتے تھے‘ ان سے حسن سلوک بھی فرماتے تھے‘ ان کی مالی معاونت بھی کرتے تھے‘ مدنی دور آیا تو مدینہ سے ابولہب کی کنیز ثوبیہ کیلئے کپڑے اور
بھجواتے تھے‘ یہ ہے شریعت۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضاعی ماں تھیں‘ یہ ملاقات کیلئے آئیں‘ دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور میری ماں‘ میری ماں پکارتے ہوئے ان کی طرف دوڑ پڑے‘ وہ قریب آئیں تو اپنے سر سے وہ چادر اتار کر زمین پر بچھا دی جسے ہم کائنات کی قیمتی ترین متاع سمجھتے ہیں‘ اپنی رضاعی ماں کو اس پر بٹھایا‘ غور سے ان کی بات سنی اور ان کی تمام حاجتیں پوری فرما دیں‘ یہ بھی ذہن میں رہے‘ حضرت حلیمہ سعدیہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا‘ وہ اپنے پرانے مذہب پر قائم رہی تھیں‘ فتح
مکہ کے وقت حضرت حلیمہ کی بہن خدمت میں حاضر ہوئی‘ماں کے بارے میں پوچھا‘ بتایا گیا‘ وہ انتقال فرما چکی ہیں‘ رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ روتے جاتے تھے اور حضرت حلیمہ کو یاد کرتے جاتے تھے‘ رضاعی خالہ کو لباس‘ سواری اور سو درہم عنایت کئے‘ رضاعی بہن شیما غزوہ حنین کے قیدیوں میں شریک تھی‘ پتہ چلا تو انہیں بلایا‘ اپنی چادر بچھا کر بٹھایا‘ اپنے ہاں قیام کی دعوت دی‘ حضرت شیما نے اپنے قبیلے میں واپس جانے کی خواہش ظاہر کی‘ رضاعی بہن کو غلام‘ لونڈی اور بکریاں دے کر رخصت کر دیا ‘ یہ بعد ازاں اسلام لے آئیں‘ یہ ہے شریعت۔13 جنگ بدر کے قیدیوں میں پڑھے لکھے کفار بھی شامل تھے‘ ان کافروں کو مسلمانوں کو پڑھانے‘ لکھانے اور سکھانے کے عوض رہا کیا گیا‘ حضرت زید بن ثابتؓ کو عبرانی سیکھنے کا حکم دیا‘ آپؓ نے عبرانی زبان سیکھی اور یہ اس زبان میں یہودیوں سے خط و کتابت کرتے رہے‘ کافروں کا ایک شاعر تھا‘ سہیل بن عمرو۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں بھی کرتا تھا اور توہین آمیز شعر بھی کہتا تھا‘ یہ جنگ بدر میں گرفتار ہوا‘ سہیل بن عمرو کو
بارگاہ رسالت میں پیش کیا گیا‘ حضرت عمرؓ نے تجویز دی‘ میں اس کے دو نچلے دانت نکال دیتا ہوں‘ یہ اس کے بعد شعر نہیں پڑھ سکے گا‘ تڑپ کر فرمایا ’’ میں اگر اس کے اعضاء بگاڑوں گا تو اللہ میرے اعضاء بگاڑ دے گا‘‘ سہیل بن عمرو نے نرمی کا دریا بہتے دیکھا تو عرض کیا ’’ مجھے فدیہ کے بغیر رہا کر دیا جائے گا‘‘ اس سے پوچھا گیا ’’کیوں؟‘‘ سہیل بن عمرو نے جواب دیا ’’ میری پانچ بیٹیاں ہیں‘ میرے علاوہ ان کا کوئی سہارا نہیں‘‘ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن عمرو کو
اسی وقت رہا کر دیا‘ یہاں آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے‘ سہیل بن عمرو شاعر بھی تھا اور گستاخ رسول بھی لیکن رحمت اللعالمینؐ کی غیرت نے گوارہ نہ کیا‘ یہ پانچ بچیوں کے کفیل کو قید میں رکھیں یا پھر اس کے دو دانت توڑ دیں‘ یہ ہے شریعت ۔غزوہ خندق کا واقعہ ملاحظہ کیجئے‘ عمرو بن عبدود مشرک بھی تھا‘ ظالم بھی اور کفار کی طرف سے مدینہ پر حملہ آور بھی ۔ جنگ کے دوران عمرو بن عبدود مارا گیا‘ اس کی لاش تڑپ کر خندق میں گر گئی‘ کفار اس کی لاش نکالنا چاہتے تھے لیکن انہیں خطرہ تھا‘ مسلمان ان پر تیر برسادیں گے‘ کفار نے اپنا سفیر بھجوایا‘ سفیر نے لاش نکالنے کے عوض دس ہزار دینار دینے کی پیش کش کی‘ رحمت اللعالمینؐ نے فرمایا ’’میں مردہ فروش نہیں ہوں‘ ہم لاشوں کا سودا نہیں کرتے‘ یہ ہمارے لئے جائز نہیں‘‘ کفار کو عمرو بن عبدود کی لاش اٹھانے کی اجازت دے دی ‘ خیبر کا قلعہ فتح ہوا تو یہودیوں کی عبادت گاہوں میں تورات کے نسخے پڑے تھے‘ تورات کے سارے نسخے اکٹھے کروائے اور نہایت ادب کے ساتھ یہ نسخے یہودیوں کو پہنچا دیئے اور خیبر سے واپسی پر فجر کی نماز کیلئے جگانے کی ذمہ داری حضرت بلالؓ کو سونپی گئی‘حضرت بلالؓ کی آنکھ لگ گئی‘ سورج نکل آیا تو قافلے کی آنکھ کھلی‘ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا ’’بلال آپ نے یہ کیا کیا‘‘ حضرت بلالؓ نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ﷺ جس ذات نے آپؐ کو سلایا‘ اس نے مجھے بھی سلا دیا‘‘ تبسم فرمایا اور حکم دیا ’’تم اذان دو‘‘ اذان دی گئی‘ آپؐ نے نماز ادا کروائی اور پھر فرمایا ’’تم جب نماز بھول جاؤ تو پھر جس وقت یاد آئے اسی وقت پڑھ لو‘‘ یہ ہے شریعت۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ سفر کر رہے تھے‘ کفار جنگ بدر کیلئے مکہ سے نکلے‘ کفار نے راستے میں حضرت حذیفہؓ کو گرفتار کر لیا‘ آپ سے پوچھا گیا‘ آپ کہاں جا رہے ہیں‘ حضرت حذیفہؓ نے عرض کیا ’’مدینہ‘‘ کفار نے ان سے کہا ’’ آپ اگر وعدہ کرو‘ آپ جنگ میں شریک نہیں ہو گے تو ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘ حضرت حذیفہؓ نے وعدہ کر لیا‘ یہ اس کے بعد سیدھے مسلمانوں کے لشکر میں پہنچ گئے‘ مسلمانوں کو اس وقت مجاہدین کی ضرورت بھی تھی‘ جانوروں کی بھی اور ہتھیاروں کی بھی لیکن جب حضرت حذیفہؓ کے وعدے کے بارے میں علم ہوا تومدینہ بھجوا دیا گیا اور فرمایا ’’ہم کافروں سے معاہدے پورے کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں صرف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہیں‘‘ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا‘ رسول اللہ ﷺ نے عیسائی پادریوں کو نہ صرف ان کے روایتی لباس میں قبول فرمایا بلکہ انہیں مسجد نبویؐ میں بھی ٹھہرایا اور انہیں ان کے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت بھی تھی‘ یہ عیسائی وفد جتنا عرصہ مدینہ میں رہا‘ یہ مسجد نبویؐ میں مقیم رہا اور مشرق کی طرف منہ کر کے عبادت کرتا رہا‘ ایک مسلمان نے کسی اہل کتاب کو قتل کر دیا‘ آپؐ نے مسلمان کے خلاف فیصلہ دیا اور یہ مسلمان قتل کے جرم میں قتل کر دیا گیا‘ حضرت سعد بن عبادہؓ نے فتح مکہ کے وقت مدنی ریاست کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا‘ یہ مکہ میں داخل ہوتے وقت جذباتی ہو گئے اور انہوں نے حضرت ابو سفیانؓ سے فرمایا ’’ آج لڑائی کا دن ہے‘ آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا‘‘ رحمت اللعالمینؐ نے سنا تو ناراض ہو گئے‘ ان کے ہاتھ سے جھنڈا لیا‘ ان کے بیٹے قیسؓ کے سپرد کیا اور فرمایا ’’نہیں آج لڑائی نہیں‘ رحمت اور معاف کرنا کا دن ہے‘‘۔ مدینہ میں تھے تو مکہ میں قحط پڑ گیا‘ مدینہ سے رقم جمع کی‘ خوراک اور کپڑے اکٹھے کئے اور یہ سامان مکہ بھجوادیا اور ساتھ ہی اپنے اتحادی قبائل کو ہدایت کی ’’مکہ کے لوگوں پر برا وقت ہے‘ آپ لوگ ان سے تجارت ختم نہ کریں‘‘۔ مدینہ کے یہودی اکثر مسلمانوں سے یہ بحث چھیڑ دیتے تھے ’’نبی اکرم ﷺ فضیلت میں بلند ہیں یا حضرت موسیٰ ؑ ‘‘ یہ معاملہ جب بھی دربار رسالت میں پیش ہوتا‘ رسول اللہ ﷺ مسلمانوں سے فرماتے ’’آپ لوگ اس بحث سے پرہیز کیا کریں‘‘۔ ثماثہ بن اثال نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کا اعلان کر رکھا تھا‘ یہ گرفتار ہو گیا‘ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی‘ اس نے انکار کر دیا‘ یہ تین دن قید میں رہا‘ اسے تین دن دعوت دی جاتی رہی‘ یہ مذہب بدلنے پر تیار نہ ہوا تو اسے چھوڑ دیا گیا‘ اس نے راستے میں غسل کیا‘ نیا لباس پہنا‘ واپس آیا اور دست مبارک پر بیعت کر لی۔ ابو العاص بن ربیع رحمت اللعالمین ؐکے داماد تھے‘ رسول اللہ ﷺکی صاحبزادی حضرت زینبؓ ان کے عقد میں تھیں‘ یہ کافر تھے‘ یہ تجارتی قافلے کے ساتھ شام سے واپس مکہ جا رہے تھے‘ مسلمانوں نے قافلے کا مال چھین لیا‘ یہ فرار ہو کر مدینہ آگئے اور حضرت زینبؓ کے گھر پناہ لے لی‘ صاحبزادی مشورے کیلئے بارگاہ رسالت میں پیش ہو گئیں‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ابوالعاص کی رہائش کا اچھا بندوبست کرومگر وہ تمہارے قریب نہ آئے کیونکہ تم اس کیلئے حلال نہیں ہو‘‘ حضرت زینبؓ نے عرض کیا ’’ابوالعاص اپنا مال واپس لینے آیا ہے‘‘ مال چھیننے والوں کو بلایا اور فرمایا گیا’’یہ مال غنیمت ہے اور تم اس کے حق دار ہو لیکن اگر تم مہربانی کر کے ابوالعاص کا مال واپس کردو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اجر دے گا‘‘ صحابہؓ نے مال فوراً واپس کر دیا‘ آپ ملاحظہ کیجئے‘ حضرت زینبؓ قبول اسلام کی وجہ سے مشرک خاوند کیلئے حلال نہیں تھیں لیکن رسول اللہ ﷺنے داماد کو صاحبزادی کے گھر سے نہیں نکالا‘ یہ ہے شریعت۔ حضرت عائشہؓ نے ایک دن رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ’’ زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا‘‘ فرمایا‘ وہ دن جب میں طائف گیا اورعبدیالیل نے شہر کے بچے جمع کر کے مجھ پر پتھر برسائے‘ میں اس دن کی سختی نہیں بھول سکتا‘عبدیالیل طائف کا سردار تھا‘ اس نے رسول اللہ ﷺ پر اتنا ظلم کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی جلال میں آ گئی‘ حضرت جبرائیل امین تشریف لائے اور عرض کیا‘ اگر اجازت دیں تو ہم اس پورے شہر کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیں‘ یہ سیرت کا اس نوعیت کا واحد واقعہ تھا کہ جبرائیل امین نے گستاخی رسول پر کسی بستی کو تباہ کرنے کی پیش کش کی ہو اور عبدیالیل اس ظلم کی وجہ تھا‘ عبد یالیل ایک بار طائف کے لوگوں کا وفد لے کر مدینہ منورہ آیا‘ رسول اللہ ﷺ نے مسجد نبویؐ میں اس کا خیمہ لگایا اور عبد یالیل جتنے دن مدینہ میں رہا‘ رسول اللہ ﷺ ہر روز نماز عشاء کے بعد اس کے پاس جاتے‘ اس کا حال احوال پوچھتے‘ اس کے ساتھ گفتگو کرتے اور اس کی دل جوئی کرتے‘ عبداللہ بن ابی منافق اعظم تھا‘ یہ فوت ہوا تو اس کی تدفین کیلئے اپنا کرتہ مبارک بھی دیا‘ اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور یہ بھی فرمایا‘ میری ستر دعاؤں سے اگر اس کی مغفرت ہو سکتی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ بار اس کیلئے دعا کرتا‘‘ یہ ہے شریعت۔ مدینہ کی حدود میں آپ کی حیات میں نو مسجدیں تعمیر ہوئیں‘ آپؐ نے فرمایا ’’تم اگر کہیں مسجد دیکھو یا اذان کی آواز سنو تو وہاں کسی شخص کو قتل نہ کرو‘‘ یہ ہے شریعت۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں‘‘ جواب دیا ’’غصہ نہ کرو‘‘ وہ بار بار پوچھتا رہا‘ آپؐ ہر بار جواب دیتے ’’غصہ نہ کرو‘‘ یہ ہے شریعت اور اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں فرمایا ’’ پیغمبرؐ اللہ کی بڑی رحمت ہیں‘ آپ لوگوں کیلئے بڑے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں‘ آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘
مسلم ، ترمذی ، سنن نسای

08/06/2023

کون سے دین پر عمل کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : استاذ محترم مفتی محمود اشرف عثمانی صاحب (مفتی و استاذ الحدیث جامعہ دارلعلوم کراچی)

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ مولانا ہم کونسے دین پر عمل کریں دیوبندی کچھ کہتے ہیں، بریلوی کچھ اورکہتے ہیں، اہلِ حدیث کچھ اور کہتے ہیں اور فلاں صاحب کچھ اور کہتے ہیں، فلاں کچھ اور کہتے ہیں شافعی یہ کہتےہیں، حنابلہ یہ کہتے ہیں
میں تو ان سے ایک ہی بات کہتا ہوں کہ جو باتیں متفق علیہ ہیں تم ان پر عمل کرو اور مختلف فیہ میں تمہیں اختیار دیتا ہوں جس مسلک پہ چاہے عمل کرلو لیکن جو متفق علیہ باتیں ہیں ان پر تو عمل کرو، اچھا یہ بتاؤ فجر کی کتنی رکعتیں ہیں؟ دو یا چار؟ وہ کہتے ہیں دو (فرض) ، میں کہتا ہوں اس میں کس کا اختلاف ہے؟ دیوبندیوں کا بریلویوں کا اہلِ حدیثوں کا؟ یا مالکیہ کا شافعیہ کا حنابلہ کا؟ کس کا اختلاف ہے؟ ساری دنیا کے تمام مسلمان علماء متفق ہیں کہ فجر کی دو رکعتیں ہیں، پھر فجر کی یہ دو رکعتیں صبح صادق کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے پڑھی جائیں گی اس میں کس کا اختلاف ہے؟ ظہر کی چار (فرض)، عصر کی چار(فرض)، مغرب کی تین(فرض)، عشاء کی چار (فرض)، ساری دنیا کے علماء متفق ہیں
آدمی جب نماز شروع کرے گا اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھے گا یہ متفق علیہ ہے، قیام سب کے نزدیک فرض ہے، رکوع سب کے نزدیک فرض ہے، سجدہ سب کے نزدیک فرض ہے، سجدہ دو ہوتے ہیں رکوع ایک ہوتا ہے اس میں کس کا اختلاف ہے؟
زکوة کی شرح ڈھائی فیصد ہے، اس میں کس کا اختلاف ہے؟ حنفیہ کا یا مالکیہ کا؟ شافعیہ کا یا حنابلہ کا؟ دیوبندیوں کا یا بریلویوں کا یا اہلِ حدیثوں کا؟ ساری دنیا متفق ہے کہ جناب زکوة ڈھائی فیصد ہوتی ہے.
رمضان کے جو روزے ہیں وہ انتیس ہوں گے یا تیس ہوں گے؟ اس میں کس کا اختلاف ہے؟
کونسا عالم ہے جو یہ کہتا ہے کہ روزے رمضان میں نہیں رکھے جاتے بلکہ جنوری میں رکھے جاتے ہیں؟
ساری دنیا کے مسلمان متفق ہیں کہ حج فرانس یا انگلینڈ میں نہیں ہوتا بلکہ مکہ مکرمہ، منی اور مزدلفہ میں ہوتا ہے
ساری دنیا کے مسلمان متفق ہیں کہ رمضان میں نہیں ہوتا ذوالحجہ میں ہوتا ہے
ساری دنیا کے مسلمان متفق ہیں کہ ذوالحجہ کی پہلی تاریخ کو نہیں ہوتا آٹھ ٨ سے لے کر تیرہ ١٣ کے درمیان ہوتا ہے
ساری دنیا کے مسلمان متفق ہیں کہ آٹھ ٨ کو منی میں ہونا چاہیے، نو ٩ کو عرفات میں ہونا چاہیے، نو ٩ کی شام کو مزدلفہ آئیں گے، مزدلفہ کے بعد منی آئیں گے، جمرات میں رمی کی جائے گی، طوافِ زیارت کیا جائے گا ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی طریقے سے حج کرتے ہیں ایک ہی انداز سے نماز پڑھتے ہیں بس اتنی سی بات ہے کہ کسی کا ہاتھ تھوڑا اوپر بندھا ہوتا ہے کسی ہاتھ تھوڑا نیچے بندھا ہوتا ہے یہ چند انچ کے فاصلے سے اصل نماز میں کیا فرق پڑتا ہے؟
آپ دیکھیں دنیا کے تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ زنا حرام ہے، شراب حرام ہے، سود حرام ہے، خنزیر کھانا حرام ہے وغیرہ. ساری دنیا کے مسلمان علماء متفق ہیں
لم يخالف فيه أحد من العلماء و لا أحد من المسلمين.
ساری دنیا کے مسلمان متفق ہیں کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے گا، رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے گا، پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے گا
کون عالم ہے جو کہتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں کیا جائے گا؟
اس لیے یہ سمجھنا کہ دین مختلف فیہ ہے اور اختلافات کو ہوا دینا اور پھر ان اختلافات کی بِنا پر مسلمانوں کی تکفیر کرنا، یہ سب کا سب گمراہی کے اندر داخل ہے کیونکہ دنیا کے تمام مسلمان اصولی باتوں پر متفق ہیں. (منقول)

14/10/2021

Read only when you are in a receptive state of mind and are patient enough to go through this while internalizing what's being said ___//💦

حرام تعلقات بے حیائی، بے شرمی اور فحاشی کی بنیاد پر کھڑی عمارت ہے جسے آپ بھلے "بعد میں نکاح کر لیں گے والی "اینٹ لگا کر جتنا مرضی حلال کرنے کی کوشش کریں ، یہ باطل ہی رہتی ہے ___ پھر آپ چاہے تہجد پڑھیں یا روزے رکھیں کہ فلاں شخص آپ کو مل جائے تو ایسی دعائیں کسی صورت مستجاب نہیں ___

بے شرمی کے راستے اللہ کیسے کھولے گا؟
بے حیائی کی اجازت کیسے مل جائے گی ؟
حرام کو حلال کیسے کردے گا اللہ آپ کے لیے ؟

یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ اللہ تعالی منکرات سے منع کرے اور انسان اسی ممنوعہ عمل کے ارتکاب کے لیے اللہ سے مدد مانگنے لگے ؟
جو تہجد اس لیے پڑھی جاتی ہے کہ اللہ تعالی کی رضا مطلوب ہو ، وہ تہجد آپ اس لیے پڑھتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنی نافرمانی کے راستے میں آپ کے لیے آسانیاں پیدا کردے ؟؟؟

اتنی زبردست بغاوت کہ صاف صاف اللہ سے مخاطب ہو کر کہہ دیں کہ اللہ تیری نہیں ماننی ، اپنی مرضی کرنی ہے ، اپنی لذت کے پیچھے میں نے نہیں دیکھنا کہ حرام ے یا حلال، میں نے سب حدیں پامال کرنی ہی کرنی ہیں ___ !

اتنی سرکشی کے باوجود بھی اس پار سے رحمت آئے جب آپ خود عذاب کے خواہشمند ہوں ___

"فین تذھبون" ____ کدھر جا رہے ہو ؟
یہ راستے تمہاری منزل کو نہیں جاتے ، یہ گمراہی کے راستے ہیں، یہاں عزت کا سودا کرنا پڑتا ہے ، یہاں ذلت خریدنی پڑتی ہے ، یہاں دل ٹوٹ جاتے ہیں ، یہاں دامن تار تار ہوتا ہے ، یہاں شیطان کی حکمرانی ہے، یہاں سکون لٹ جاتا ہے ___ کیوں خود پہ ظلم کرتے ہو ؟ حرام سے پیٹ نہیں بھرا کرتے ، تم حلال لے لو ، اللہ کیا قادر مطلق نہیں ہے ؟
تمہیں اس کے "الا قل شئی قدیر" ہونے پر شک ہے ؟
اس کے پاس اپنے نیک بندوں کے لیے نیک بندیوں کی کمی ہے ؟ وہ اپنی نیک بندیوں کو حلال ذرائع سے بہترین دینے کی قدرت نہیں رکھتا ہے ؟

حرام کے لیے راتوں کی نیندیں قربان کرتے ہو ، جائے نمازوں تک جاتے ہو ، گرگراتے ہو ، اتنی ریاضت حلال کے لیے کیوں نہیں کرتے ، اتنی تڑپ سے حلال کے لیے ہاتھ اٹھاو تو دیکھو کیسے دعائیں مستجاب نہیں ہوتی ، دیکھو اللہ کیسے تم پر غائب سے نعمتیں نہیں برساتا ، رحمان کا راستہ ہے نا تو پھر شیطان کے راستے پر کیوں چلتے ہو ؟؟؟

تمہیں اللہ کی رحمت پر تو یقین ہوا نہیں ، اس پر ایمان لے آئے ہو جس نے کھلی دشمنی کا اعلان کیا تھا ؟

آنکھوں پہ پٹی باندھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہو گئے ہو ؛ ذرا کچھ دیر کو دم لو ، خود سے پوچھو تو سہی کہ کہاں جانا تھا ___ اور کہاں جا رہے ہو ؟؟؟

یہ پہلیاں، افسانے، قصے ، کہانیاں نہیں ہیں واللہ !

یہ سوال ہیں ___ پوچھیئےخود سے یہ ___ جواب مانگئیے خود سے ان کے ___ مل جائیں تو سفر جاری رکھیں اور اگر نا ملیں تو اب بھی دیر نہیں ہوئی ____

"ففرو الی اللہ" ____ واپس آ جائیں اللہ کے پاس ___🥀
پلٹ آئیں ____ اتنی محبت کی کچھ تو لاج رکھیں ، اتنی نافرمانیوں کے باوجود بھی جو اپنی رحمت کی سایہ میں سمیٹنے کو تیار ہے ، اس سے اب بھی منہ پھیڑنا ہے آپ نے ؟

ومَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ
تو پھر آپ نے واقعی اللہ کی قدر ہی نا کی جیسے اس کی محبت ، اس کی رحمت کی قدردانی کا حق تھا ۔۔۔۔❤

14/10/2021

عبد القدیر خان اور ایٹمی پروگرام
لیکن پہلے ایک نشئي کا قصہ
ایک نشئی شام کو جب بھی گھر آتا ،بیوی سے پوچھتا کیا پکایا
وہ ہمیشہ کہتی دال ،سبزی ،چٹنی ،وہ خود مزدوری کرتی تھی
اور لوگ بھی خیرات دیتے تھے ،وہ بیوی کو مارنا شروع کر دیتا
روز روز کی مار سے تنگ آ کر ایک دن اس عورت نے کتا پکڑا ،اسکا گوشت
بنایا اور پکا کر رکھ دیا ،خاوند حسب روایت آيا بولا ،کیا پکایا ،بولی ،گوشت
بہت خوش ہوا جلدی لاؤ ،کتا پکانے کا عمل انکا آٹھ دس سال کا بیٹا دیکھ
رہا تھا ،جونہی ماں نے گوشت اس کے والد کے سامنے رکھا ،بچے نے دل دہلا دینے والی چيخ ماری ،باپ نے بھی کھانا چھوڑ دیا ،ماں بھی دوڑی اور محلہ
بھی اکٹھا ہوگيا ،ہر کوئی پوچھتا ،کیوں روتا ہے ،بولا عجیب الجھن میں ہوں
بولتا ہوں تو ماں ماری جاتی ہے ،نہیں بولتا تو باپ کتا کھاتا ہے
٭٭
ملکی راز بلکل اسی طرح ہوتے ہیں ،بتائے جائیں تو دنیا مارتی ہے ،نہ بتائے جائیں تو جاہل جگتیں اور طعنے مارتے ہیں
کوئی ملک ،حتی کہ انبیاء علیہ سلام بھی راز افشا نہیں کرتے ،ہر گھر کے راز
ہوتے ہیں ،کوئی بتاتا ہے کہ رات کو ابے نے امی کو پیٹا ہے ،
ملکوں کے بے شمار راز ہوتے ہیں ،سن 1974 میں انڈیا نے پہلا ایٹمی دھماکہ
کیا ،بھٹو نے بھی ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا پروگرام شروع کرنے کا کہا
کچھ بھی نہیں تھا ،سب کچھ چوری کرکے لانا تھا ،اور ایٹمی پروگرام بھی
خفیہ رکھنا تھا ،امریکا ایٹم بم استعمال کر چکا تھا ،اس نے وزنی بم جسکو
ڈرٹی بم کہتے ہیں وہ استعمال کیئے ،اس بم کو اٹھانے اور لے جانے کی صلاحیت کی پاکستان کو اس وقت امید نہیں تھی ،ہائيڈروجن بم ،یورنیم
بم اور پلوٹنیم بم کی آپشنز پاکستان کے پاس تھیں
ڈاکٹر اے کیو خان کو لایا گيآ ،انہوں نے کسی سخت پہاڑ کی تہہ میں ایٹمی
آلات لگآنے کا مشورہ دیا ،سرگودھا کریانہ اور کہوٹہ میں کھدائي کی گئی
سارے آلات چوری کرکے لائے گئے ،سمگل کرکے لائے گئے ،سنٹری فیوجز بنانے
کا مرحلہ بہت دشوار تھا ،وہ مٹیریل جو سنٹری فیوجز میں استعمال ہوتا
تھا دنیا دینے کو تیار نہیں تھی ،اسرائيل ،امریکا ،انڈیا اور یورپ کو یقین تھا
پاکستان ایٹم بم بنانے جا رہا ہے،لہذہ پابندیاں اور نگرانی شروع ہوئی
بے پناہ پیسہ خرچ ہونا تھا ،پیسہ غلام اسحاق خان کے حوالے کیا گيا ،اور
اے کیو خان انچارج تھے ،ڈاکٹر خان کہتے ایک ارب روپیہ دے دیں غلام اسحاق خان دے دیتے اور پوچھتے نہ کہ کیا کرنا ہے نہ لکھا جاتا نہ حساب
تھا ،تین جگہیں کریانہ ،کہوٹہ ،نیلور پر مشکوک سائیٹس بنائي گئیں تاکہ
دشمن کنفیوز رہے ،فوج ،ایئر فورس کو صرف سیکورٹی دی کئی ،صرف آرمی چیف اور غلام اسحاق خان اور ڈاکٹر خان کو معلوم تھا
بے شمار ہیروز ہیں گمنام اس پروگرام کے ،یاد رہے ڈاکٹر خان مرحوم صرف
مٹیریل فزکس کے ماسٹر ہیں یعنی سنٹری فیوجز بنا کر یورنیم کو ان رچمنٹ
کیلئے تاکہ وہ اس میعار پر پہنچ جائے جس سے بم بن سکے
یوں چند سالوں میں کولڈ ٹیسٹ کر دیا گيا اور اس وقت کے صدر ضیا الحق
مرحوم کو بتا دیا گيا کہ ایٹمی دھماکے کیلئے تیار ہیں ،پہلے چین میں برف میں ٹیسٹ کرنے کا پروگرام بنا ،لیکن ٹیکنالوجی لیک نہ ہو ،خاموشی
پھر کولڈ ٹیسٹ کریانہ پہاڑی میں کیا گيا جو کامیاب رہا
تب ضیا الحق نے چاغی میں سرنگ بنانے کا کہا تاکہ ہاٹ ٹیسٹ کیا جا سکے
لیکن پابندیوں کے ڈر سے ٹیسٹ روک دیا گيا ،لیکن ضیا الحق نے بم بنانے کا
حکم دے دیا ،یوں 55 بم تیار کر لیئۓ گئے ،بم کا وزن ایک ہزار کلو گرام تھا
اور اسکو انڈیا تک لے جانے کیلئے کچھ تھا نہیں ،ایف سولہ پر پابندی تھی
میراج بھی نگرانی میں تھے لیکن میراجز پر بم لگآنے کی جگہیں بنا دی
گئیں ،لیکن فوری طور پر چين سے ایم 11 میزائل خریدے گئے تب دنیا
کو یقین ہوا ،پاکستان نے بم بنا لیا ،تب انڈیا اور اسرائیل نے کہوٹہ پلانٹ
تباہ کرنے کا سوچا ،اسرائيلی ایف 15 انڈیا پہنچ گئے ،انڈیا فوج بارڈر
پر لے آيا ،تب ضیا الحق نے براہ راست راجیو کو دھمکی دی اور تاراپور
کا بھی بتایا ،انڈیا نے پھر دھماکے کیئے ،اور نواز شریف کی حکومت نے
29 مئی 1999 کو چاغی میں چھ دھماکے کروا دیئے
ضیا الحق نے خوشاب جوہر آباد میں پلوٹینیم کا پلانٹ لگآیا ،جسکو
بم کیلئے استعمال کرنے کیلئے مشرف نے دو پلانٹ اور بنا دیئے
اور یوں چھوٹے سے چھوٹا پلوٹینیم بم جو النصر پر فٹ ہو سکے تیار ہوا
ہمیں میزائل ٹیکنالوجی کی ضرورت تھی ،ڈاکٹر خان کا شمالی کوریا سے رابطہ تھا اور میزائل ٹیکنالوجی حاصل کر لی تھی لیکن نیو کلیئر کے بدلے
ساتھ ڈاکٹر خان نے سوچا اگر بم ایک ملک تک محدود رہتا ہے تو ایک ملک
تباہ ہونے کی صورت میں عالم اسلام خطرف میں ہوگا تو ڈاکٹر صاحب نے
ایران اور لبیا کو ٹیکنالوجی دینے کا کام شروع کیا اور سنٹری فیوجز دیئے
امریکی دباؤ پر دونوں ملکوں نے سنٹری فیوجز امریکا کے حوالے کیئے
تب دنیا کو پتہ چلا کہ پاکستانی یورنیم بم کتنے خطرناک ہیں
یوں پاکستان پر تین ملکوں کو ایٹمی ٹیکنالوجی دینے کا الزام ثابت ہوگيا
اور پاکستان کے خلاف کیس بن گيآ
پاکستان پر پوری دنیا بشمول اسلامی دنیا پابندی لگآ دیتی ،ایٹمی ٹیکنالوجی کا ادارہ کے لوگ پاکستان آئے اور جرائم کی لسٹ دی
چونکہ ساری ڈیلنگ ڈاکٹر خان نے کیں تھی ،یعنی ملک ،فوج اس میں ملوث
نہ تھے ،جو کاغذات دکھائے گئے سب ڈاکٹر خان کے دسخط تھے ،ایران کو سنٹری فیوجز ڈاکٹر خان نے دیں ،لیبیا کو ڈاکٹر خان نے دیں لیکن شمالی کوریا
نے عالمی ادارے سے تعاون نہیں کیا اور نام نہیں بتایا ،اور نہ انہیں گھسنے دیا
یوں سارا کیس پاکستان پر نہیں بنا نہ کسی آرمی چيف نہ کسی صدر کے دستخط تھے ،یہ راز کسی سویلین وزیراعظم نے بعوض ڈالرز امریکا کو بیچا
یا کسی ریٹائرڈ سائنسدان نے یا کسی ڈاکٹر صاحب کے دشمن نے
یوں دنیا نے ڈاکٹر خان پر ایٹمی ٹیکنالوجی پھیلانے کا کیس بنا اور ڈاکٹر خان
کو گرفتار کر کے عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جائے
یوں ڈاکٹر صاحب نے قوم سے معافی مانگي اور صدر نے اس جرم پر جو مشترکہ پاکستان نے کیا اس پر ڈاکٹر اے کیو خان کو معافی دے دی
اور کسی عدالت میں یا پاکستان سے باہر لے جانے پر پابندی لگآ دی
ڈاکٹر صاحب کو فوجی کمانڈوز کی نگرانی میں اسلام آباد میں رکھا گيا
تاکہ اغواء نہ ہوں
یاد رہے دو لوگ جو کشمیریوں کو اسلحہ فراہم کرتے تھے اسلام آباد سے
انڈیا نے اغواء کروائے ،زندہ ہیں یا مردہ معلوم نہیں ،انکی بیویاں آج تک
احتجاج کر رہی ہیں ،اسلام آباد سے اغواء ،،سری نگر یا جموں جو کلاشن کوف پہنچتی ہے وہ بندوق اتنی خطرناک نہیں وہ بندہ خطرناک ہے جو وہاں
تک پہنچاتا ہے کیسے پہنچاتا ہے جبکہ نو لاکھ فوج وادی میں موجود ہے
یہ خفیہ بم بنانا جرم نہیں تھا ،جتنا بڑا جرم ایران ،لیبیا اور شمالی کوریا کو
ٹکنالوجی دینا تھا ،جبکہ ایران اور لبیا نے معاہدوں سمیت ،سنٹری فیوجز سمیت سب کچھ امریکا کے حوالے کیا ،دھماکے ہو چکے تھے ،خفیہ طور پر
دنیا جان گئی تھی پاکستان کے پاس فرانس سے زیادہ بم ہیں ،یورپ غصے سے
پھٹ رہا تھا
اگر ڈاکٹر خان کو عالمی ادارہ عدم ایٹمی پھیلاؤ والے لے جاتے جس پر پاکستان
نے دستخط کیئے ہیں ،صرف این پی ٹی پر نہیں کیئے کہ پہلے انڈیا کرے
انڈیا کرتا نہیں ،لیکن ایٹمی بم کا مواد منتقل نہیں کیا جا سکتا
یوں فوج نے مرتے دم تک ڈاکٹر خان کی نگرانی کی تاکہ دشمن اغواء نہ کرے
ڈاکٹر صاحب کو اسلام آباد سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی
پاکستان کا ایٹم بم ڈاکٹر اے کیو خان کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے
ڈاکٹر خان کے ساتھ کسی نے زیادتی نہیں کی ،انکو ایم ایچ میں کرونا کا علاج
کیا گيا ،وہ فوج کے تھے اور فوج انکی
پرویز مشرف نے وہی کیا جو اسے کرنا چآہئیے تھا ،لیکن زرداری ،نواز شریف
اور عمران نے کیا کیا ،کیا انکی نظر بندی ختم کی ،جی نہیں
ڈاکٹر خان جب انٹرویو کیلئے جاتے تو ایئر فورس کے جہاز میں جاتے ،سٹوڈیو
کے باہر فوج ہوتی
پاکستانیوں کو جو کچھ باہر سے نظر آتا ہے وہ لگتا ہے ڈاکٹر صاحب کے
ساتھ زیادتی کی گئی ،لیکن اگن انہیں شہید کر دیا جاتا یا اغواء ہو جاتے
تو ملک کی کیا عزت رہ جاتی
اور پھر وہ اس عمر میں ٹارچر برداشت کر سکتے اور راز رکھ سکتے
جو کچھ ہوا ڈاکٹر صاحب کے اپنے مشورے اور مرضی سے ہوا
اور ڈاکٹر خان ہیرو ہمیشہ رہیں گے اور آج ثابت ہوگیا
ڈاکٹر خان کے ساتھ سلوک جو نظر آتا تھا اصل میں وہ نہیں تھا
آرمی چيف انہیں سیلیوٹ کرتے تھے
پرویز مشرف کے الفاظ کے ڈاکٹر خان میرے بھی ہیرو ہیں ،عقل والوں
کیلئے کافی تھے
بعض اوقات بیٹے قتل کرے تو باپ ذمے داری لے لیتا ہے ،اسکو قربانی کہتے ہیں
سارے ایرانی ٹاپ کے ایٹمی سائنسدان اسرائيل نے قتل کر دیئے ،چار ایرانی ایٹمی سائنسدان ملائشیا کی فلائیٹ ایم 417 پر سمندر برد ہوگئے
اور پاکستان کے کسی سائنسدان کی طرف کسی نے میلی آنکھ سے نہیں
دیکھا نہ دنیا کو معلوم ہے کتنے بم ہیں کہاں پڑے ہیں ،یہ سب کچھ مشرف بنوا گيا ،امریکی سی آئی اے نے کہا ہم پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوئے ابھی تک ایسا کوئی ایٹم بم نہیں بنا جو مشرف کے بنائے زمین دوز پہاڑوں کی تہہ میں پہنچ سکے
لیکن اندھے کیا جانیں
کاش ڈاکٹر صاحب تفصیل بتا جاتے

Address

Lahore
......

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Gul Ho "Magar Gulaab Nahi" posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share