10/27/2024
اسکول میں استانی نے بچوں سے ٹیسٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعام دینے کا وعدہ کیا کہ جو بھی فرسٹ آیا اس کو نئے جوتے ملیں گے ٹیسٹ ہوا مگر حیرت انگیز طور پر فرسٹ پوزیشن کیلئے مقابلہ ٹائی ہوگیا اب ایک جوڑا سب کو دینا نا ممکن تھا اس لیے استانی نے کہا کہ چلیں قرعہ اندازی کرتے ہیں جس کا بھی نام نکل آیا اس کو یہ نئے جوتے مل جانے اور قرعہ اندازی کے لیے سب کو کاغذ پر اپنا نام لکھنے اور ڈبے میں ڈالنے کا کہا گیا۔
استانی نے ڈبے میں موجود کاغذ کے ٹکڑوں کو مکس کیا تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہوجائیں اور پھر سب کے سامنے ایک پرچی کو اٹھایا پرچی کھلنے پراس پر لکھا نام تھا ‘وفا عبد الکریم‘ سب نے تالیاں بجائی بچی اشکبار آنکھوں سے اٹھی اور اپنا انعام وصول کیا۔ کیوں کہ وہ اپنے پھٹے پرانے کپڑوں اور جوتے سے تنگ آگئی تھی۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا اور ماں لاچار تھی اس لیے جوتوں کا یہ انعام اس کے لیے بہت معنی رکھتا تھا۔
جب استانی گھر گئی تو روتے ہوئی یہ کہانی اپنے شوہر کو سنائی جس پر شوہر نے خوشی کا اظہار کیا مگر رونے کی وجہ دریافت کی تو وہ استانی مزید پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کہ مجھے رونا وفا عبد الکریم کے جوتوں سے زیادہ دیگر بچوں کی احساس اور اپنی بے حسی پر آرہا ہے کیونکہ قرعہ انداز ہونے کے بعد ایسے ہی جب میں نے ڈبے میں موجود دیگر ناموں کی پرچیوں کو کھول کر چیک کیا اگر انعام زیادہ ہوتا تو دوسرے نمبر پر کون ہوتا تو سب نے اپنی پرچیوں پر ایک ہی نام لکھ دیا تھا “وفا عبد الکریم” ان معصوم بچوں کو وفا عبد الکریم کے چہرے پر موجود لاچاری کے درد اور کرب محسوس ہوتا تھا لیکن ہمیں نہیں جس کا مجھے افسوس ہے۔
میرے ایک استاد بتایا کرتے تھے کہ بچوں کے اندر احساس پیدا کرنا اور عملا سخاوت کا درس دینا سب سے بہترین تربیت ہے۔ ہمارے کئی اسلاف کے بارے میں کتابوں میں موجود ہے کہ وہ خیرات، صدقات اور زکوات اپنے ہاتھوں سے نہیں دیتے بلکہ بچوں کو دے کر ان سے تقسیم کرواتے تھے اس سے بچوں میں بھی ایثار ، ہمدردی و رواداری کا احساس و جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔
اچھی بات پڑھنے اور پھیلانے میں بھی نیکی ملتی ہے یہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت بھی ہے اللہ تبارک تعالی ہم سب کو اچھائی پھیلانے اور اچھا بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین 🥰