Ismaili Qasidas And Ginans

Ismaili Qasidas And Ginans We upload Qasidas and Ginans with music.

12/16/2024

Maulana Hazir Imam's Helicpoter ❤️

12/13/2024

Happy Salgira mubarak of our beloved maulana Hazir imam to all ismailis around the globe .

Bahas ul hikma Ismaili InfoThe Ismaili Fidaieen_اسماعیلی فدائی گروپIsmaili Mysticism

12/12/2024
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصممگر نازم بایں ذوقے کہ پیشِِ یار می رقصم(مجھےنہیں معلوم کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں...
12/10/2024

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بایں ذوقے کہ پیشِِ یار می رقصم

(مجھےنہیں معلوم کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقصاں ھوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقصاں ھوں)

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہر طرزے کہ رقصانی منم اے یار می رقصم

(توہر وقت جب بھی مجھے نغمہ سناتا ہے، میں ہر بار رقصاں ھوں، اور جس طرز پر بھی تو رقص کراتا ہے، اے یار میں رقصاں ھوں)

سراپا بر سراپائے خودم از بیخودی قربان
بگرد مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم

(سر سے پاؤں تک جو میرا حال ہےاس بیخودی پر میں قربان جاؤں،کہ پرکار کی طرح اپنے ہی گرد رقصاں ھوں)

خوشا رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

(واہ ! مے نوشی کہ جس کیلیے میں نے سینکڑوں پارسائیوں کو پامال کر دیا، خوب! تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقصاں ھوں)

مرا طعنہ مزن اے مدعی طرزِ ادائیم بیں
منم رندے خراباتی سرِ بازار می رقصم

(اے ظاہر دیکھنے والے مدعی !مجھے طعنہ مت مار،میں تو شراب خانے کا مے نوش ہوں کہ سرِ بازار رقصاں ھوں)

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خونخوار می رقصم

(تُو وہ قاتل ہے کہ تماشے کے لیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خونخوار خنجر کے نیچے رقصاں ھوں)

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

(آہ، اے محبوب ! اورتماشا دیکھ کہ جانبازوں کی بھِیڑ میں، میں سینکڑوں رسوائیوں کےسامان کےساتھ ،سر بازار رقصاں ھوں)

اگرچہ قطرۂ شبنم نپوئید بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بنوکِ خار می رقصم

(اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں پڑتا لیکن میں شبنم کا وہ قطرہ ہوں کہ کانٹے کی نوک پر رقصاں ھوں)

کہ عشقِ دوست ہر ساعت دروں نار می رقصم
گاہےبر خاک می غلتم , گاہے بر خار می رقصم

(عشق کا دوست تو ہر گھڑی آگ میں ناچتا ہے،کبھی تو میں خاک میں مل جاتا ہوں ،کبھی کانٹے پر رقصاں ھوں)

منم عثمانِ ھارونی کہ یارے شیخِ منصورم
ملامت می کند خلقے و من برَ،دار می رقصم

(میں عثمان ھارونی ،شیخ حسین بن منصور حلاج کا دوست ہوں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں سولی پررقصاں ھوں)

12/05/2024

yA Ali madad to all Ismailis around the globe

12/04/2024

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ
{۵۵/۱۷}
فرماتا ہے کہ " وہ مشرقوں کا پروردگار" جن سے اللّٰہ تعالیٰ کی مراد عقل و نفس ہیں ، کیونکہ نور وحدت انہی سے طلوع ہوا ہے ، اور فرماتا ہے ، کہ " دو معربوں کا پروردگار" جن سے ناطق اور اساس مراد ہیں ، کیونکہ جو نور ان دونوں مشرقوں سے طلوع ہوا ، وہ ان دونوں معربوں میں غروب ہوا۔
نیز ہم یہ بیان کریں گے ، کہ اس بارہ حرفی کالمہ شہادت کے سات پارے ایسے ہیں ، کہ ان میں سے تین پارے ایک ایک حروف کے ہیں ، جیسے :- ۱۱۱, تین پارے دو حروف کے ہیں ، جیسے : *لا* ، *له*، *لا* ایک اور پارہ تین حروف کا ہے جیسے : *لله*، چنانچہ ان یک حروفی پاؤں کی مثال عالم جسمانی میں طویل ، عرض اور عمق کی تین مسافتیں ہیں ، کیونکہ یہ مسافتیں ایک ایک خط { لکیر} ہیں ، دو حرفی پاروں کی مثال *اعضائے رئیسہ*ہیں ، جو کمیت ، کیفیت اور اضافت کے حامل ہیں، اور *سہ*حرفی ایک پارے کی مثال جسم ہے ، جو تین مسافتوں کا حامل ہے ۔
*از کتاب وجہ دین*

12/01/2024

اسماعیلی نوجوانو! اس پاک مذہب کے بارے میں پڑھو۔سوشل میڈیا کے دور میں اسماعیلی ادب ہر پلیٹ فارم پہ پھیلا ہوا ہے۔سوشل میڈیا پہ لوگوں کی ویڈیوز اور تصاویر دیکھتے گھنٹےضائح کرتے ہو تو کیوں نہ پانچ دس منٹ اس پاک مذہب کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے صرف کرتے؟ہمارے ائمہ کرام ع اور بزرگان دین نے بڑی محنت سے اللہ کا پاک دین ہم تک پہنچایا ہے تو اس پاک دین کی حقیقتوں سے روشناس ہونے کے لئے ہمہ وقت کوشش کرتے رہو۔حاضر زمان کے فتنوں سے پناہ مذہب اہل بیت میں تلاش کرو ۔ادھر ادھر بھٹکنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

11/30/2024

حکومتِ فاطمیہ
امام حاکم بِامر اللہ علیہ السلام کی خلافت

امام حاکم علیہ السلام نے اپنی خلافت کے دور میں تمام نشہ آور اشیاء کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر دی اور ان برتنوں کو سختی سے توڑ دینے کا حکم دیا جن میں شراب استعمال ہوتی تھی۔ مزید برآں، شراب پر مکمل پابندی نافذ کر دی۔

کتاب: نورِ مبین برائے شیعہ امامی اسماعیلی مسلمان، صفحہ 282

11/30/2024

ہم امام الوقت کے شیعہ ہیں۔امام زمان کا حکم ہمارے لئے حرف آخر ہے۔انکے علاوہ کسی ایرے غیرے کے آگےسر تسلیم خم نہیں کرتے ہیں۔نہ ہی کسی اور کی باتوں سے ہم متاثر ہوتےہیں۔

10/17/2024

یاعلی مدد۔
بحث الحکمہ نامی علمی پیج میری پروفائیل سے غائب ہوگیا ہے۔پچھلے چار مہینے سے ریکوور کرنے کی کوشش کیا مگر ہر بار ناکام ہوا۔۔اب کے بعد اس پیج سے ہم علمی آرٹیکلز شیئر کریمگے

This page aims to provide research base information regarding ismaili sect of islam.We encourage inte

يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَاللَّه...
10/17/2024

يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِين۔(مائدہ/67) اے رسول ! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ مفسرین اور مورخین اعتراف کرتے ہیں کہ یہ آیت امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کا پیغام پہنچانے کے لیے نازل ہوئی ہے۔ مشہور سنی محدث حاکم حسکانی نقل کرتے ہیں: ابن عباس اور جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں کہ: منصب خلافت پر حضرت علی علیہ السلام کا انتخاب حکم خدا سے انجام پایا ہے۔ ابن عباس اور جابر کہتے ہیں: خدا نے سول خدا(ص) کو حکم دیا کہ وہ علی کو لوگوں کی پیشوائی کے لیے منصوب کریں، مگر پیغمبر کو خوف ہوا کہ لوگ کہیں یہ طعنہ نہ دیں کہ انہوں نے اپنے چچازادے کی طرفداری کی۔ لہٰذا خدا نے وحی کی کہ: "يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ"۔ آیت نازل ہونے کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے غدیر خم میں ولایت کا اعلان کیا۔ یہ آیت اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ "امامت" ایک الٰہی عہدہ ہے جو خدا کے اختیار میں ہے اور کوئی بھی انسان یہاں تک کہ اس کا نبی بھی امام کو معین کرنے میں دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت علی(ع) کو غدیر میں اس منصب کے لیے معین کیا تو وہ امر خدا سے انجام دیا ہے۔ روایات جس طرح آیات قرآنی صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں کہ امامت کا مسئلہ خد ا کے ہاتھ میں ہے اسی طرح بےپناہ روایتیں بھی اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔ پہلی روایت: ابن کثیر نے سیرت نبویہ میں رسول خدا سے روایت نقل کی ہے کہ خلافت و امامت کا مسئلہ خدا کے ہاتھ میں ہے، میرے یا کسی اور کے اختیار میں نہیں ہے۔ زہری نے لکھا ہے: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ قبیلہ بنی عامر بن صعصعہ کے پاس گئے اور انہیں دین خدا کی دعوت دی اور اپنے آپ کو رسول خدا کے طور پر متعارف کروایا تو ان میں سے بیحرہ (یا بحیرہ) نامی شخص نے جو قبیلے کے بزرگوں میں سے تھا، اپنی قوم کی طرف رخ کرکے کہا: خدا کی قسم اگر قریش کے اس جوان کو میں انتخاب کرلوں تو اس کے ذریعے سے میں پورے عرب کو اپنے قابو میں کرسکتا ہوں۔ پھر اس نے رسول خدا(ص) سے کہا: اگر ہم آپ کی بات مان لیں اور خدا آپ کو مخالفین پر فتح عطا کردے تو کیا آپ کے بعد آپ کی جانشینی ہمیں ملےگی؟ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: "الامر لله يضعه حيث يشاء"۔ یہ مسئلہ خد اکے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہےگا دیگا۔ پھر اس شخص نے کہا: کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہمارے سینے عرب جنگجوؤں کے تیروں کا نشانہ بنیں اور جب خدا آپ کو کامیابی دیدے تو جانشینی کسی اور کی ہوجائے۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں آپ کی ضرورت نہیں۔ اس طرح انہوں نے رسول خدا(ص) کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ ابن کثیر نے بھی اسی روایت کو قبیلہ بنی کلاب کی دعوت کے حوالے سے لکھا ہے۔ اوپروالے سوال کی مانند جواب میں حضرت کی تعبیر اس طرح تھی کہ: "الْأَمْرُ لِلَّهِ فَإِنْ شَاءَ كَانَ فِيكُمْ وَكَانَ فِي غَيْرِكُمْ"۔ اختیار خد اکے ہاتھ میں ہے اگر اس نے چاہا تو امامت تم میں قرار پائیگی ورنہ پھر کسی اور قبیلہ میں۔دوسری روایت: دوسری روایت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے واضح کیا ہے کہ خدا نے مجھے اور میرے اہلبیت کو بندوں میں سے منتخب کیا ہے۔ مجھے نبی اور علی کو میرا وصی بنایا ہے اور اس انتخاب میں کسی بھی بندے کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ انس سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: خدا نے آدم کو مٹی سے جیسے چاہا خلق کیا۔ پھر خدا نے فرمایا: "ويختار" یعنی خدا نے مجھے اور میری آل کو تمام لوگوں پر منتخب کیا۔ ہمیں چنا، مجھے نبوت کا عہدہ دیا اور علی ابن ابی طالب کو وصی بنایا اور فرمایا: «ما كانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ» يَعْنِي مَا جَعَلْتُ لِلْعِبَادِ أَنْ يَخْتَارُوا وَلَكِنِّي أَخْتَارُ مَنْ أَشَاءُ فَأَنَا وَأَهْلُ بَيْتِي صَفْوَةُ اللَّهِ وَخِيَرَتُهُ مِنْ خَلْقِه۔ یعنی لوگوں کو انتخاب کرنے کا حق نہیں دیا ہے لیکن میں (خدا) جسے چاہونگا منتخب کرونگا۔ پس میں اور میرے اہلبیت لوگوں میں سے منتخب ہوئے۔ تیسری روایت: عمرو بن اشعث سے مروی ہے: ہم قریب بیس لوگ حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں تھے کہ حضرت نے لوگوں کی طرف رخ کرکے فرمایا: آپ یہ سوچتے ہیں کہ امامت کے مسئلے میں امام جسے چاہے اپنا جانشین معین کرسکتا ہے۔ پھر فرمایا: "وَاللَّهِ إِنَّهُ لَعَهْدٌ مِنَ اللَّهِ نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله إِلَى رِجَالٍ مُسَمَّيْنَ
نَ رَجُلٍ فَرَجُلٍ حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى صَاحِبِهَا"۔ خدا کی قسم یہ خدا کا عہدہ ہے کہ جسے خدا نے پیغمبر کو متعارف کروایا اور کچھ خاص لوگوں کے کے اسماء یکے بعد دیگرے بیان کئے تا کہ یہ عہدہ اس کے حقداروں تک پہنچ جائے۔() اس سلسلے میں روایتیں فراواں ہیں ہم اسی مقدار پر اکتفا کر رہے ہیں۔ کلی نتیجہ: آیات قرآنی اور مذکورہ روایات کے پیش نظر مجموعی طور پر نتیجہ نکلتا ہے کہ: منصب امامت(جو نبوت کا تسلسل اور نبوت اور خد اکے ساتھ انسان کے رابطے کا محور ہے)، نبوت کی مانند خدا کے اختیار میں ہے۔بایں معنیٰ کہ خدا ان عہدوں کو خود ہی وضع کرتا اور نبی یا امام کو اس منصب کے لیے منتخب کرتا ہے۔ اور ان امور کے وضع کرنے، نیز انہیں ادارہ کرنے والوں کے انتخاب میں بشر کو کوئی اختیار نہیں ۔

مشکل کشا صرف اللہ ہے! علی کیسا مشکل کشا ہے جس نے اپنے اوپر آنے والی تکلیف کو دور نہیں کر سکا! یہ بات ہم اس لئے کرتے ہیں...
10/01/2024

مشکل کشا صرف اللہ ہے! علی کیسا مشکل کشا ہے جس نے اپنے اوپر آنے والی تکلیف کو دور نہیں کر سکا!
یہ بات ہم اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ہم قرآنی حقائق سے آگاہ نہیں ہیں،ہم یہ نہیں سمجھ سکے ہیں کہ مشکلات دو طرح کے ہیں، ایک عارضی مشکل ہے جس کا تعلق ہمارے ظاہری جسم کے ساتھ ہے، اور دوسرا روحانی مشکل ہے جس کا تعلق ہماری روح کے ساتھ ہے، اور نہ ہی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کا خلیفہ اس دنیا میں انسانی صورت ہی میں آتا ہے، اور جس طرح دوسرے انسان اس دنیا میں زندگی گزارتے ہیں بالکل اسی طرح وہ بھی زندگی گزارتے ہیں، چونکہ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ خدا کا خلیفہ الٰہی نور کا حامل ہوتا ہے، اسی لئے وہ عالمِ امر(عالم ارواح) اور اس دنیا کے درمیان پل کا کام کرتا ہے، اور اسی نور کی بدولت وہ دنیا کے لوگوں کو پاک و صاف کرتا ہے، اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ہستی کس طرح لوگوں کی مدد کرتا ہے، اس کے لئے ہمیں قرآن ہی سے رجوع کرنا ہوگا۔
اللہ رب العزت جب ایک رسول کو مقرر فرماتے ہیں تو اس کی ذمہ داریوں کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ۔بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے، وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں بیان کرتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، (۳:۱۶۴)اس آیت سے ایسا لگتاہے کہ لوگوں کی روحوں کو پاک کرنے میں اللہ کے رسول ہی مدد دیتے ہیں، رسول کے زمانے میں اگر کوئی شخص یہ کہتا کہ نہیں میرے لئے اللہ کی بھیجی ہوئی یہ وحی ہی کافی ہے اس کے ذریعے میں خود پاک ہوجاونگا تو ایسے لوگوں کی اس آیت میں تردید کی گئی ہےاس سےایسا لگتا ہے کہ اس زمانے میں جن لوگوں کی زبان عربی تھی ان کو کتاب اور حکمت سکھانے کی اور ان کے روح کو پاک کرنے کی ذمہ داری رسول کی تھی، ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ-اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ۔ اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کروبیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے (۹:۱۰۳)اس مقدس آیت میںبھی اللہ تبارک و تعالیٰ رسول کو حکم دیتے ہیں کہ ان کے مال سے صدقہ لے لو اور اس کے بدلے میں ان کو پاک و صاف کرو، تو کیاکتاب سکھانا ،حکمت سکھانا اور پاک کرنا یہ سب مدد کے زمرے میںنہیں آتے ہیں؟ ان آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں مشکلات دو طرح کے ہیں ایک مشکل ایسی ہے جس کا تعلق ہمارے ظاہری جسم کے ساتھ ہے، جو فطری قوانین کے تحت ہیں، دوسرا مشکل روحانی ہے جس کا تعلق ہمارے روح کے ساتھ ہے، جو صراط مستقیم میں سفر کے دوران ہمارے ساتھ پیش آتا ہے۔ظاہری جسم کے ساتھ جب کوئی مشکل آتا ہے تو اس میں بھلائی ہوتی ہے ، لیکن جب روحانی طور پر مشکل آتی ہے تو یہ بہت ہی خطرناک ہوتا ہے، اسی مشکل کو دور کرنے کے لئے خلیفۂ خدا ہمیشہ اس دنیا میں موجود ہوتا ہے۔جس کی وضاحت قرآن پاک میں کئی جگہ کیا گیا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے حضور میں ایک مددگار کے لئے درخواست کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ-اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ۔اور میرا بھائی ہارون اس کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے تو اسے میری مدد کے لیے رسول بنا تاکہ وہ میری تصدیق کرے ، بیشک مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے۔(۲۶:۳۴)یہاں پہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ سے یہ دعا کیوں نہیں کرتے ہیں کہ تو میری مدد کر بلکہ یہ دعا کیوںکرتے ہیں کہ میرے بھائی ہارون کو میرا مددگار بنا؟
حضرت لوط علیہ السلام کے قصےمیں لوطؑ اپنے قوم کے مقابلے میں ایک سہارے کے لئے دعا کرتے ہیں قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِیْۤ اِلٰى رُكْنٍ شَدِیْدٍلوط نے فرمایا: اے کاش! تمہارے مدِمقابل میرے پاس کوئی قوت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔(۱۱:۸۰)حضرت لوط علیہ السلام اپنے قوم سے دو مہمانوں کو بچانے کے لئے ایک سہارے کے لئے آرزو کرتے ہیں، تو فرشتے کہتے ہیں جو انسانی شکل میں آئے تھے ، قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ یَّصِلُوْۤا اِلَیْكَ۔ فرشتوں نے عرض کی: اے لوط! ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ آپ تک ہر گز نہیں پہنچ سکیں گے، (ہم آپ کی مدد کے لئے آئے ہوئے ہیں) (۱۱:۸۱) فرشتوں کا یہ کہنا کہ یہ لوگ تمہیں کچھ گزند نہیں پہنچا سکتے کیونکہ ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں ہم تمہاری مدد کریں گے۔کیا یہاں پہ جو مدد اللہ کے فرشتے لوط کو پہنچا رہے تھےکیا یہ اللہ ہی کی طرف سے مدد تھا یا شرک تھا؟
ایک اور آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُم اے ایمان والو اگر تم خدا کی مدد کرو گے اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا.اللہ کی مدد ہم کس طرح کریں گے، نعوذ باللہ من ذالک کیا اللہ کسی کے مدد کے لئے محتاج ہے؟
اب یہاں پہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے مدد اس کےکسی وسیلہ کے ذریعے سے ہوتا ہے یا نہیں، کیونکہ ان چند آیات سے تو یہی واضح ہے کہ اللہ کی طرف سے مشکل کشا انسانوں کے درمیان اس کا خلیفہ ہی ہے، جس کا کام اپنے ماننے والوں کی روحانی اور باطنی مشکلات کو دور کرنا ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ نے مختلف پیغمبروں کے زمانے میں عملی طور پر ان پیغمبروں سے کرواکے ہمیں سکھایا ہے، موسیٰ ؑکی مدد کا وسیلہ ہارونؑ تھا، لوطؑ کی مدد کا وسیلہ انسانی شکل میں فرشتے تھے، حضور ﷺ نے جب قریش سے پوچھا کہ تم میں سے کون میری مدد کرے گا تو مولا علیؑ کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہاری مدد کرونگا،ان تمام حقائق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں مدد کا ایک وسیلہ ہمیشہ موجود ہوتا ہے، چونکہ وہ بشری لباس میں ہوتا ہے اور اسی لباس کی وجہ سے وہ لوگوں کے لئے امتحان بھی ہے، وہ فطرت کے قوانین کو اپنے اوپر لاگو کرتا ہے تاکہ لوگوں کے لئے یہ سوچ پیدا نہ ہو کہ اس دنیا میں روحانی ترقی کرنا ایک بشر کے لئے آسان نہیں ہے، اسی وجہ سے خدا کا خلیفہ بشری صورت میںموجود ہوتا ہے ہے تاکہ لوگوں کی روحانی تکالیف کو دور کرکے ان کو اصل مقام کی طرف رہنمائی کر سکیں۔

بَلْ ھُوَقُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَحْفُوْظٍ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) بلکہ وہ قرآنِ مجید  (بزرگ) ہے جو لوحِ محفوظ پر (روحان...
10/01/2024

بَلْ ھُوَقُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَحْفُوْظٍ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) بلکہ وہ قرآنِ مجید (بزرگ) ہے جو لوحِ محفوظ پر (روحانی تحریر میں) موجود ہے۔
اس مقام پر سوچنے کے لئے تین مختلف طریقے ہیں، پہلا یہ سوچنا کہ امامِ مبین سے امامِ ظاہر مراد نہیں بلکہ یہ لوحِ محفوظ کا نام ہے جو مادّی آسمان پر ہے، جس کے ساتھ امامِ ظاہر کا کوئی تعلق نہیں، دوسرا یہ ماننا کہ لوحِ محفوظ بیشک ایک الگ حقیقت ہے، مگر روحانی ہے، لہٰذا جس طرح قرآن ظاہراً دنیا میں ہے اور باطناً لوحِ محفوظ پر ہے، اسی طرح نورِ امامت کا روحانی پہلو لوحِ محفوظ سے متصل ہے اور جسمانی پہلو اس دنیا میں ظاہر ہے، اور تیسرا طریقہ یہ ہے جو کہا جائے کہ امامِ مبین کا مطلب امامِ زمان ہے جو ظاہر اور موجود ہے، اور لوحِ محفوظ بھی نورانیّت میں امام ہے، جس میں قرآن بکیفیّتِ روحانی محفوظ اور مجید (بزرگ) ہے۔
ان تین تصوّرات میں سے پہلے تصوّر میں کوئی حقیقت نہیں، کیونکہ خدا کی تمام چیزیں اس جہان سے الگ تھلگ اور لوگوں کی رسائی سے بالاتر ممکن نہیں، جبکہ نورِ نبیؐ کو خدا نے رحمتِ عالم قرار دیا، اور آپؐ کے جانشین میں وہی نور قائم ہے، یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ خداوندِ مہربان اپنے ان خزانوں کی تعریف و توصیف کرتا ہو، جن کے دروازے اہلِ جہان پر کبھی کھل نہیں سکتے ہوں، اور ایسی لوحِ محفوظ کہ اس میں روحانیّت اور علم کی تمام چیزیں محدود ہیں اور قرآن بھی اپنے روحانی جمال و جلال کے ساتھ اس میں درج ہے، درحالیکہ اس وقت تک لوگوں کو کوئی راستہ نہیں، اس سے ظاہر ہے کہ خدا کی ایک ایسی چیز ہے کہ وہی سب کچھ ہے، اور وہ نورِ امامت ہے، جس طرح عالمِ مادّیت کے لئے خدا نے مادّی نور کا ایک ایسا سرچشمہ بنا دیا ہے، جودنیائے ظاہر کے لئے وہی سب کچھ ہے، یعنی سورج، اسی طرح دنیائے انسانیّت اور عالم ِدین کا سورج امام ہے، جس میں روحانی اور علمی طور پر سب کچھ موجود ہے۔ (معرفت کے موتی حصّۂ اوّل)

بحث الحکمہ نامی  ہمارا علمی پیج ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔معلوم نہیں کیوں پیج پروفائیل میں نظر نہیں آتا۔
06/30/2024

بحث الحکمہ نامی ہمارا علمی پیج ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔معلوم نہیں کیوں پیج پروفائیل میں نظر نہیں آتا۔

Ghotolti Jamat khana located in Ishkoman valley of District Ghizer Gilgit Baltistan.Beautiful view.MashallahBahas ul hik...
04/27/2024

Ghotolti Jamat khana located in Ishkoman valley of District Ghizer Gilgit Baltistan.Beautiful view.Mashallah
Bahas ul hikma

فرمان نمبر۔۵۳:حضرت امام آقا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نےفرمایا: "تم خداوند تعالیٰ کو بھول نہ جانا،  اپنے دین سے غاف...
04/16/2024

فرمان نمبر۔۵۳:
حضرت امام آقا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نےفرمایا: "تم خداوند تعالیٰ کو بھول نہ جانا، اپنے دین سے غافل مت ہو جانا اور شیطان کے فریب میں نہیں آنا، تم اپنے دل میں شیطان کو جگہ نہیں دینا، ایمان ہے، وہ اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر تمہیں آخرت چاہئے تو اپنے روح کو خدا کے عشق اور محبت میں رکھنا، ہمیشہ خدا کے خیال میں رہنا۔ خدا کا خیال ، ایک گھڑی یعنی ایک لمحے کے لئے بھی نہ بھلانا۔ ہم یہ نہیں فرماتے کہ دنیا کا کاروبار چھوڑ دو ، لیکن دھندہ صفائی اور سچائی سے کرنا، حضرت امیر المومنین نے ایک مرتبہ خداوند تعالیٰ سے دُعا مانگی کہ " یا خدا! میں بہشت کی تمنا سے یا دوزخ کے خوف سے ڈر کر عبادت نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ خداوندا تو عبادت کے لائق ہے " انسان پر لازم ہے کہ خداوند تعالیٰ کا عشق دل میں رکھے ۔ انسان دنیا کے عشق کے لئے کتنا مشتاق رہتا ہے۔ اور کتنی زحمت اور بے قراری کرتا ہے؟ اس سے بھی ہزاروں درجے زیادہ عشق، خداوند تعالی کے لئے رکھنا چاہئے، تم سب لوگوں کے دل میں خُدا بیٹھا ہے، خُدا تمہاری آنکھوں سے بھی زیادہ ، تمہارے نزدیک ہے ۔ تمہارے اعمال اچھے ہوں ، ایسے کام کرو اور ہمیشہ خدا کو یاد کرو. بھول نہ جانا، خداوند کریم کا نور تمہارے دل میں بس رہا ہے ، اس نور کو محبت سے دن بہ دن بڑھاؤ، دن اور رات میں چوبیس گھنٹے ہیں، اس میں سے دس بارہ گھنٹے دنیا کے کام کرو، چھ گھنٹے سوو ، ایک گھنٹہ آرام سے بیٹھو اور تین سے چار گھنٹے ہمیشہ خدا کو یاد کرو، جھوٹ بولنا ، حرام خوری کرنا ، پرایا مال کھانا وغیره خراب کام چھوڑ دو .. خداوند تعالیٰ تمہارے لئے یہ چاہتا ہے کہ تم عبادت بندگی کرو ۔ اٹھتے بیٹھتے ، چلتے ہوئے خُدا کو یاد کرو پرایا حرام کا مال کھاؤ گے تو تمہارے دل میں خُدا کا عشق پیدا نہیں ہوگا اور اندھیرا ہو جائیگا. تم نماز وغیرہ ظاہر کی عبادت کرو اور دل کسی دوسری جگہ گھومتا ہو، تو اس میں کچھ فائدہ نہیں. جو عرب دو سے چار بیویاں کرتےہیں، وہ نماز بھی پانچ وقت کی پڑھتے ہیں، لیکن ان کا دل، انکی بیویوں کے لئے شہوت میں رہتا ہے ، تب نماز کیا فائدہ کرے ؟ ایسی نماز پڑھنے سے ، نہ پڑھنا زیادہ اچھا ہے. تم اپنی آنکھیں بد نظری سے ہمیشہ دور رکھو ، تم اپنے ہاتھوں کو پرائے مال سے اور اپنے پاؤں کو حرام کے راستے پر جانے سے بچانا۔ تم ہمارے فرزند ہو۔ ہمارے فرمان پر عمل کرو گے تو اچھا ہے، ورنہ تمہارے پاس یہاں آنے کا کیا فائدہ ہوا ؟ تم ہمیشہ ہمارے فرامین پر غور کرنا، ضرور غور کرنا ۔ بھولو گے نہیں تو ایسا سمجھا جائیگا کہ ہماری محنت کام آئی۔ اگر تم خراب کام کرو گے اور ہمارے فرمان کے مطابق نہیں چلو گے تو ہمارا آنا اور نصیحتیں کرنا سب ضائع ہوگا ، اس سے ہمارا دل بہت زیادہ رنجیدہ ہوگا۔ تم ایسے کام نہیں کرو، جس سے ہمیں غصہ آئے تم ہمت کرو ، جماعت خانے ہمیشہ آؤ، گنان کا مشاہدہ کرو، اور دن بدن ہمارے اسماعیلی دین پر ایمان کا پایہ مضبوط کرو. ہمارے اسماعیلی مذہب کی سچائی کا جھنڈا یعنی مائی فلیگ، دنیا میں لہراؤ، مطلب یہ کہ بہت سچائی سے چلو تاکہ دوسری قومیں ہمارے مذہب کی تعریف کریں اور کہیں کہ آغا خان کے مرید
کتنی سچائی سے چلتے ہیں؟ جب دنیا میں تمہاری اپنی تعریف ہو، تب ہی ایسا لکھا جائیگا کہ ہماری محنت کام آئی۔ تم اسماعیلی مذہب پر مستقیم رہو اور اس کی پیروی کرد. پرایا حق نہ کھاؤ کسی پر ظلم نہ کرنا، جھوٹ نہ بولنا ، خراب کاموں سے اپنے آپ کو بچانا، اپنا بھید یعنی راز ہیرے کی طرح سنبھالنا، اپنا دل صاف رکھنا، ہمارے مذہب میں عورت اور مرد سب برابر ہیں ، آپس میں فرق نہیں رکھنا چاہئے. عورتیں ، پرائے مرد کو اپنا بھائی باپ سمجھیں اور مرد پرائی عورت کو اپنی ماں بہن سمجھیں ،تم دنیا کا بیوپار برابر کرو، اپنی اولاد، عورت اور دین بھائیوں کے لئے محنت کرو ، لیکن دھندہ سچائی سے کرنا۔ مغرب کے وقت دنیا کا دھندہ چھوڑ کر ، جماعت خانے میں ضرور آتا۔ ایسا نہیں کرنا کہ دنیاوی کام کے لئے دین کا وقت ہاتھ سے نکل جائے۔ مغرب کے وقت جماعت خانے میں آؤ. ایک گھنٹہ خداوند تعالیٰ کے ساتھ دل باندھو اور بندگی کرد. آدھی رات یعنی مدھ رات کو آدھ گھنٹہ فراغت سے بیٹھے ، دین کا خیال برابر کرنا، ضرور کرنا۔ حاضر جامے کے فرمان اپنے دل میں سے نہیں بھلا دینا، مومن پر واجب ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو اچھے راستے پر چلائے اور دین کے کام سکھائے۔ اپنی بیوی کو صحیح بات سے اور میٹھی زبان سے اچھی طرح سمجھائے۔ تم ہمیشہ ہمارے اسماعیلی دین پر چلنا، ہمیشہ دیں کی خدمت کرنا ، دین کے کام فورا ًکرنا. ایسا خیال نہیں کرنا کہ یہ کام صبح کروں گا۔ صبح پر ملتوی نہیں کروگے تو تمہارے اسماعیلی دین کے ایمان کا پایہ ، دن بدن لو ہے کے پایے جیسا مضبوط ہوگا۔ تمہارا اسماعیلی دین سچائی کا دین ہے۔ تم ایسی سچائی سے چلو کہ فرشتے جیسے بنو ، سب تمہاری تعریف کریں،تم ایسے کام نہیں کرو کہ کوئی ہمیں طعنہ دے کہ آپ کے فلاں مرید نے ایسا کمتر کام کیا، حرام خوری کی ، پر ایا مال کھایا ۔ اگر ہم ایسا سنیں گے تو ہم بہت دلگیر ہونگے اور ہمارا دل بہت رنجیدہ ہوگا۔

تمہارا دین آزاد دین ہے۔ ہمارے مذہب میں مرد اور عورت سب برابر ہیں۔ خراب خوبصورت عورت سے بد صورت نیک عورت بہت اعلیٰ ہے۔ تمہارا مذہب حقیقتی ہے. یہ پاک دین ہے. ہم ہمیشہ جماعت خانے میں تمہارے پاس حاضر ہیں، دُور نہیں ۔ ہم تمہیں، تمہارے ہاتھ سے بھی زیادہ نزدیک ہیں۔ تم جماعت خانے میں ہمارا نام لیتے ہو، تب ہم تمہارے پاس موجود ہیں. تمہیں عشق ہو تو ہم دُور ہوں، تب بھی تمہارے پاس حاضر ہیں. ہم تمہیں نہیں بھولتے. تمہارا دین سلیمان پیغمبر کی انگشتری یعنی انگوٹھی ہے، اس انگوٹھی کو اپنے ہاتھ سے نہیں کھو دینا. ایسا نہ ہو کہ سلیمان پیغمبر کی انگوٹھی تمہارے ہاتھ سے نکل جائے. تم اپنے بچوں کو دنیاوی زبانوں کے علاوہ گنانوں کا مشاہدہ سکھاؤ، تم اپنے بچوں کو بے ایمان لوگوں کے پاس بٹھاؤ گے، تو ایمان میں نقصان ہوگا ، ان کو بے کار فارغ بیٹھا کر رکھو گے ، تو دنیا کے خیالات ان کے دل میں پیدا ہونگے۔ اس لئے گنان سکھا کر ان کو مصروف رکھو ،تم ہمیشہ دُعا کے وقت جماعت خانے آنا۔ جو انسان بدکار ہے ، وہ دنیا میں بھی جہنم میں ہے۔ کیونکہ بد کار آدمی اپنے دل میں خوش نہیں ہوتا۔ اس کا دل ہمیشہ اس کو گواہی دیتا ہے کہ میں فلاں کے پیسے کھا گیا ہوں، اور میں نے فلاں بُرا کام کیا ہے۔ اس کا دل رات اور دن اس کو الجھن میں رکھتا ہے، چین نہیں لینے دیتا. بد کار کبھی بھی آسودہ نہیں ہوگا۔ تم ہمیشہ صبح اٹھتے وقت اپنا دل خُدا کے ساتھ باندھنا، تم اپنے دل میں ہمیشہ غور کرو گے تو خود بخود روشنی پیدا ہوگی. ہمیشہ صبح شام جماعت خانے برابر آنا. خانہ وادان " ( بھاگا سویا ۲۱ ستمبر ۱۸۹۹ ء )

نور مولانا شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ علیہ نے فرمایا سینکڑوں برسوں سے ہماری روحانی بچے امامت کی راسی سے ہدایت حاصل کرتے...
04/15/2024

نور مولانا شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ علیہ نے فرمایا
سینکڑوں برسوں سے ہماری روحانی بچے امامت کی راسی سے ہدایت حاصل کرتے رہے ہیں ۔اپ نے تمام معاملات میں ہدایت اور مدد کے لئے زمانے کے امام کی طرف رجوع کیا ہے ، اور اپنے روحانی بچوں کے لیے آپ کے امام کی بے پناہ محبت اور شفقت کے ذریعے ان کی نور نے آپ کی رہنمائی کی ہے کہ روحانی اور دنیوی سکون حاصل کرنے کے لئے آپ کو کہاں اور کس طرف مڑنا چاہیے"
( کراچی ۱۳ دسمبر ۱۹۶۴)

حضرت یوسف علیہ السلام نے شروع شروع میں خواب دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے اور شمس و قمر آپؑ کو سجدہ کر رہے ہیں، (۱۲:۴) اس کی...
04/15/2024

حضرت یوسف علیہ السلام نے شروع شروع میں خواب دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے اور شمس و قمر آپؑ کو سجدہ کر رہے ہیں، (۱۲:۴) اس کی تاویل یہ ہے کہ اس وقت آپؑ بھی ایک ستارہ تھے، چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے وقت کے امامِ مستودع تھے، آپؑ کے بارہ فرزند بارہ ستارے، یعنی بارہ حجت تھے، ان میں سے ایک ستارے (حضرت یوسفؑ) خداوند تعالیٰ نے چاند پھر سورج (یعنی باب اور پھر امام) بنادیا، اس لئے گیارہ حجتوں، سابق امام، اور حجتِ اعظم نے ان کی اطاعت بجا لائی،لیکن یہاں چند ضروری سوالات پیدا ہوجاتے ہیں:

الف: آیا اس میں لیلی حجتّوں کا ذکر ہے؟ یا نہاری حجتّوں کا؟ یا دونوں کا؟ کیا دنیا کے بارہ جزائر نہیں ہوتے؟ اور ہر جزیرے میں حدودِ دین؟ ۔ ب: آیا تمام حجتانِ شب و روز امام ہی کے گھر سے ہوتے ہیں، جیسا کہ قصۂ یوسفؑ سے طاہر ہے؟۔ ج: حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے جب سجدہ کیا؟

جواب: اس میں لیلی اور نہاری دونوں حجتوں کا ذکر ہے، جی ہاں، سیّارۂ زمین کے بارہ جزیرے ہیں، اور ہر جزیرے پر حدودِ دین ہوا کرتے ہیں، وہ جسمِ کثیف میں بھی ہوسکتے ہیں اور جسمِ لطیف میں بھی، وارثِ تختِ امامت تو امام کے خاندان سے ہوا کرتا ہے۔ باقی حدود کیلئے جگہ اور خاندان شرط نہیں، ویسے تو قرآنِ حکیم سراسر احسن القصص ہے، تاہم یہ ارشاد سورۂ یوسفؑ (۱۲:۳) میں ہے، اور یہ اشارہ بھی ہے کہ اس میں حدودِ دین کے نظام اور قانونِ تاویل سے متعلق ہر سوال کے لئے جواب موجود ہے (۱۲:۷) پس ہم یقین کریں گے کہ مرکزِ امامت سے تمام حجتانِ جزائر کو ہر وقت نہیں تو کچھ خاص وقتوں میں روحانی رابطہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قصۂ یوسفؑ میں سب حجتّوں کو امام سے مربوط کرکے پیش کیا گیا ہے، یعنی ظاہری واقعہ کچھ ایسا لگتا ہے، جیسے یہ سب حضرت یعقوبؑ کے گھر کا معاملہ ہو، مگر یہ بات نہیں، بلکہ دراصل یہ حدودِ دین کا قصّہ ہے، جس میں تمام حجتّوں کی منفی اور مثبت حکمتوں کا یکجا ذکر فرمایا گیا ہے۔
( از کتاب حقائق عالیہ )

Address

Plano, TX

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ismaili Qasidas And Ginans posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share