Ismaili Qasidas And Ginans

Ismaili Qasidas And Ginans We upload Qasidas and Ginans with music.

امام برحق کون ؟عزیزان محترم آج ایک بہت اہم موضوع کو زیر بحث لانے جارہا ہوں۔اور یہ موضوع امام برحق کے بارے میں ہے ۔اس بات...
02/18/2025

امام برحق کون ؟

عزیزان محترم آج ایک بہت اہم موضوع کو زیر بحث لانے جارہا ہوں۔اور یہ موضوع امام برحق کے بارے میں ہے ۔اس بات کی اثبات میں کہ امام برحق کون ہے کے لئے قرآن و حدیث,ائمیہ برحق کی فرامین ,حجتان برحق و بزرگان دین سمیت آفاق و انفس کی گواہیوں سے ہم بتوفیق خداوند برحق دلائل و براہین پیش کرینگے۔مجھے قوی امید ہے کہ قارئیین کرام میرے اس کالم کا بغور مطالعہ کرینگے اور اس کے بعد ہی ان تصورات کی نفی یا اثبات میں اپنی رائے پیش کرینگے۔باردیگر میری گزارش ہے خاص کر پیج پہ موجود غیر اسماعیلی ممبران سے کہ آپ میری تحاریر کا بغور مطالعہ کرے اس کے بعد ہی کوئی رائے قائم کرلے ورنہ اکثر ممبران شروع کی ایک دو لائنیں یا صرف "کیپشن" کو پڑھ کے ہی جذباتی ہوجاتے ہیں اور تبصرے میں جذباتی گولے برسانے لگ جاتے ہیں جن کا حقیقت اور علم وحکمت سے ہزاروں میل تک کا بھی تعلق نہیں ہے۔چنانچہ اگر کسی کو ہمارے عقائید سے اختلاف ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ علمی و منطقی دلیل دے کر اپنا موقف پیش کرے۔تاکہ ایک علمی ماحول پیدا ہوسکے۔امید کرتا ہوں کہ معزز قارئین ان گزارشات کا خیال رکھینگے اور ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے میری تمام تحاریر کا مطالعہ کرینگے۔اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔

یوں تو پورا قرآن پاک امامت کی فضائیل میں ہے لیکن اہل ظاہر کو سمجھانے کے لئے کہ قرآن پاک میں امام برحق کی نشاندہی کیسے کی گئ ہیں ہم چند قرآنی آیات پیش کرتے ہیں اور ان آیات پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں تاکہ امام برحق کا تصور کا پتہ چل سکے۔۔

سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 71 میں امام علیہ السلام کی دائمیت کا تصور موجود ہے۔ارشاد بارئ تعالی ہے کہ "یوم ندعواکل اناس بامامھم"ترجمہ:جس دن ہم تمام(زمانوں کے) لوگوں کو اپنے اپنے امام کے ساتھ بلائینگے"۔ یاد رکھے کہ یہ آیت لفظی معنی کے لحاظ سے اس قسم کی ہے,جس طرح کہ: قد علم کل اناس مشربھم"(سورہ 2 ایت نمبر 60) سب قبیلوں نے اپنا اپنا گھاٹ جان لیا۔چناچہ اس آیت کی حکمت کے سلسلے میں یہاں سب سے پہلے لفظ "اناس" کا مطلب سمجھنا ضروری ہے ,اور وہ اس طرح سے ہے,اناس انس کی جمع ہے ,اور اس کی دوسری صورت اناسی ہے جو کہ قرآن میں لوگوں کی چھوٹی چھوٹی تقسیم کے لئے آیا ہے۔جیسے حضرت موسی کے لوگوں کو امت موسی یا قوم موسی کہا جاتا ہے ,اور انہیں کسی اضافت و نسبت کے بغیر ناس بھی کہا جاتا ہے,مگر سب کو ملاکر اناس نہیں کہاجاتا کیونکہ اناس قرآن میں لوگوں کی چھوٹی تقسیم کے لئے استعمال ہوا ہے ,یعنی حضرت موسی کی قوم کی بارہ (12) قبیلوں میں سے ہر قبیلے کو اناس کہا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام وقت کی نسبت سے انسانوں کو اناس کہا گیا ہے۔جس طرح پیغمبر کی نسبت سے لوگں کو امت یا قوم کہا جاتا ہے,چونکہ ہر ناطق پیغمبر کے دور میں کئ امام ہوا کرتے ہیں,پس ہر امام کے زمانے کے لوگ امت اور قوم نہیں کہلاینگے بلکہ اناس کہلایں گے۔

حقائیق بالا مظہر ہے کہ امام عالی مقام ہمیشہ سے دنیا والوں کے درمیان موجود و حاضر ہیں,اور یہی سبب ہے,کہ اللہ تعالی قیامت کے دن اپنی عدالت گاہ میں ہر زمانے کے لوگوں کو ان کے امام وقت کے ساتھ بلالے گا۔(دیکھیے کتاب :امام شناسی)۔

اس امر برحق کی توثیق پاک رسول ص کی احادیث سے بھی ہے۔جیسے کہ قول رسول ہے کہ:*مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مِیْتَةً جَاہِلِیَةً*
جو شخص اپنے زمانہ كے امام كی معرفت اور انھیں پہچانے بغیر مرجائے تو اس كی موت جاھلیت كی موت ھوگی" عزیزان گرامی یہاں زمانے کے امام کی جسمانی و روحانی و عقلی معرفت کا ذکر کیا ہے رسول پاک ص نے۔اسماعیلی نظریے کے مطابق ہر زمانے کے لئے امام برحق کا لوگوں کے درمیان بلباس بشریت موجود ہونا لازمی ہے کیوں کہ امام کا کام ہے کہ وہ اپنی براہ راست فرامین و ہدایات کے ذریعے لوگوں کی روحانی و عقلی ترقی کراسکے تاکہ اس سے مومنین والمومنات معرفت خداوندی حاصل کرسکے۔مثال کے طور پر ایک مسافر کو فلاں شہر میں پہنچنا ہے سو وہ شہر اس کا منزل ہے مگر وہ اس شہر میں پہلے کبھی داخل نہیں نہیں ہوا ہے نہ ہی اس شہر کی طرف جانے والے راستے سے آگاہ ہے تو ایسے میں اس شخص کو کسی ایسے رہنما کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ جس کو اس شہر کے بارے میں پتہ ہے اور اس کے چے چپے سے واقف ہے اور راستے میں آنے والی دقتوں سے بھی خوب جانکاری رکھتا ہے۔پس اگر مسافر ہوشمند اور عقل مند ہے تو اپنی منزل یعنی اس شہر تک پہنچنے کے لئے اس رہنما کا انتخاب کرے گا جو اس شہر سے واقف ہے لیکن اگر وہ بے وقوف ہے اور اپنی ہی مرضی سے وہاں اس نامانوس شہر کی طرف جانے کی کوشش کرے گا تو یا تو وہ آدھے رستے سے واپس آئے گا یا رستہ بٹھک کر کسی اور جگہیں میں داخل ہوگا اور اپنی منزل مقصود کو کھو بھیٹے گا۔اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی اصل منزل یعنی معرفت خداوندی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو ایک ایسے دینی رہنما کی ضرورت ہے جو خود راہ معرفت سے خوب واقف ہو اور اس راہ میں آنے والی مشکلات سے بھی آگاہ ہو۔ایسا شخص امام زمان کے سوا اور کون ہوسکتا?جو کہ بلباس بشریت لوگوں کے درمیان موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اسماعیلی کہتے ہیں کہ نور مولانا شاہ کریم الحسینی امام برحق ہے دوسری طرف لوگوں کی ایک اور قسم بھی ہے جو اللہ کی معرفت کے لئے کسی ھادئ برحق یا امام کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہوہ بغیر کسی رہنما کے منزل مقصود یعنی معرفت خداوندی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں,مگر ان کی یہ کوشش کارآمد ثابت نہیں ہوتی ہے اور اس میں بالکل ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ایک امام برحق کا موجود ہونا از روئے قانون فطرت لازم ہے۔

" امام برحق مومنوں کا ولی ہے"
اسماعیلی نظریئہ امامت میں امام برحق ولئ اللہ یعنی اللہ کی طرف مومنوں کا ولی ہے۔اس بات کا ثبوت قرآن پاک کی آیئہ ولایت سے ہمیں ملتا ہے جو کہ اکثر مورخین کے مطابق خصوصأ مولا علی کے لئے نازل ہوئی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے کہ:-

إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُواْ الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ ۔
سورۃ المائدہ:آیت،55

ترجمہ:تمہار ولی صرف اللہ اور اسکا رسول ؐ اور وہ اہلِ ایمان (مولا علی ؐ اور ان کی اولادآئمہ معصومین ؐ) ہیں جوصلاۃ قائم کرتے ہیں اور زکاۃ ادا کرتے ہیں جبکہ وہ رکوع کرتے ہیں۔
سورۃ المائدہ:آیت،55

پس حالت رکوع میں زکات مولا علی نے دیا تھا,جب آپ ع نماز کے دوران رکوع کی حالت میں تھے تو ایک سائیل آیا تو آپ ع نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور انگوٹھی سائیل کو دے دی۔سو آیئہ ولایت نازل ہوئی اور اللہ نے اپنے لئے,مولا محمد ص کے لئے اور مولا علی کے لئے ولی کا لفظ استعمال کیا اور ولایت امام علی سے ہی منصوب ہوئی۔پس مولا علی ع کے بعد ہر زمانے کا امام برحق ولایت کا حق دار ہے اور مومنوں کا سچا ولی ہے اور ولایت کا حقدار امام حئ و حاضر ہی ہے کیوں کہ سلسلئہ امامت ہر زمانے کے امام میں ہی برقرار رہتی ہے۔اس بات کی توصیق مولانا امام جعفر الصادق ع کے اس قول سے ہوتی ہے۔فرمان امام جعفر الصادق ع ہے کہ :-
"ولی کے معانی ہیں "اولی بکم "یعنی تم میں سب سے بہتر ہو جوتمہارے نفوس اور تمہارے اموال سے زیادہ تم پر اور تمہارے امور پر حق رکھتا ہواور اللہ اور اس کا رسولؐ اور وَالَّذِینَ آمَنُوا یعنی علی ؐ اور ان کی اولادمیں قیامت تک آنے والے آئمہ معصومین ؐ ہیں۔

حوالہ:الکافی،ج،1،ص،288،ح،3 ۔۔ تفسیر صَافی،ج،2،ص،521

پس امام زمانہ نور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلوات اللہ علیہ زمانے کا لئ برحق ہے۔اور اس بات کو ہم نے قرآن و فرمان امام ع سے ثابت کردیا۔

امام برحق اور امام باطل بابا حسن صباح کی نظر میں۔
امام برحق کی حق میں اور امام باطل کی رد میں چار عقلی دلائیل جو کہ سیدنا حسن صباح نے پیش کی ہے ان دلائیل کے ذریعے ان سب خود ساختہ اماموں کے لئے ایک ایسا علمی چیلنج دیا ہے جو کہ آج تک ان کا مفصل جواب اہل ظاہر نہیں دے سکے ہیں۔ہم بتوفیق خداوند برحق ان چار عقلی دلائیل کو قارئین کرام کی نظر کرتے ہیں تاکہ امام برحق کے بارے ان کی شکوک و شبہات دور ہوسکے۔ حسن صباح کے ان چار فصلوں کو ھم نے امام شہرستانی کی کتاب "کتاب الملل و النحل"سے نقل کیا ہے یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس کا اردو ترجمہ پروفیسر علی محسن صدیقی نے کی ہے

فصل اول۔
حسن کا قول ہے کہ اللہ کی معرفت کے لیے دو باتوں میں سے ایک کا قائل ہونا ضروری ہےیا تو وہ یہ کہے کہ میں باری تعالیٰ کو اپنی نظر سے پہچانتا ہوں اور اس کی معرفت کے لیے کسی معلم کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔یا پھر وہ یہ کہے کہ اللہ تعالی کی معرفت کی اپنی نظر سے کوئی سبیل وراہ نہیں بلکہ یہ ایک معلم کی تعلیم سے حاصل ہوتی ہے۔اب حسن نے کہا جو شخص پہلی بات کا قائل ہے اس کو اپنے سوا دوسرے کی عقل و نظر کی صداقت کا انکار کرنے کا حق نہیں ہے۔کیونکہ اگر اس نے اگر اس نے اس دوسرے شخص کی اصابت عقل و نظر کا انکار کیا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ معرفت الہی سے وہ آگاہ ہو گیا کیونکہ انکار تعلیم ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ جس کا انکار کیا گیا ہے وہ اپنے سوا دوسرے کا محتاج اور ضرورتمند ہے۔اور یہی دوسرا شخص امام ہے ۔حسن نے کہا کہ یہ دونوں قسمیں ضروری ہیں کیوں کہ جب کوئی آدمی کوئی فتویٰ دیتا ہے یعنی رائے قائم کرتا ہے یا کوئی بات کہتا ہے تو وہ تو یہ بات یا تو اس کی اپنی ذاتی تحقیق کی بنا پر یا دوسروں کی تحقیق کی بنا پر ہوتی ہے۔یہ یہ فصل اول ہے اور یہ اصحاب رائے و عقل کا توڑ ہے۔

فصل دوم۔
فصل دوم میں حسن نے بیان کیا ہے کہ جب ایک معلم کی ضرورت ثابت ہوگی تو کیا بلالحاظ وامتیاز ہر معلم معرفت الہی کی تعلیم کی صلاحیت رکھتا ہے یا کسی معلم صادق کا ہونا ضروری ہے؟اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہر معلم اس کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کو اپنے مخالف کے معلم کے انکار کا حق نہیں پہنچتا ۔اپنے مخالف کے معلم کا انکار کرکے اس نے یہ بات تسلیم کرلی کی ایک صادق اور قابل اعتماد معلم کی ضرورت ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہ دلیل اصحاب حدیث کے دعوے کا توڑ ہے۔

فصل سوم۔
فصل سوم میں حسن نے یہ ذکر کیا ہے کہ جب ایک
معلم صادق کی ضرورت ثابت ہو گئی تو کیا پہلے معلم کی معرفت اور اس کے بعد اس سے علم حاصل کرنا ضروری ہے یا یہ کہ ہر معلم سے اس کی ذات شخص کی تعین اور اس کے ذات کی توضیح کئے بغیر حصول علم جائز ہے؟اور دوسری بات پہلی بات ہی کی طرف لوٹ کر آتی ہے یعنی یہ کہنا کہ وہ معلم کے صدق اور ذات کی تعین کے بغیر بھی اس سے تعلیم لینی روا ہے۔دراصل اس بات کو مستلزم ہے کہ معلم کی تعیین و تصدیق لابدی ہے کیونکہ کسی پیشوا اور ساتھی کے بغیر راستہ طے کرنا ممکن نہیں ہے اور سفر سے پہلے ساتھی اور رہنما کا ہونا ضروری ہے یہ دلیل شیعہ یعنی امامیہ اثنا عشریہ کا رد ہے۔

فصل چہارم۔
فصل چہارم میں حسن نے یہ کہا ہے کہ لوگوں کے دو گروہ ہیں ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ہم کو اللہ تعالی کی معرفت کے حصول کے لیے ایک معلم صادق کی ضرورت ہے ،جس کی پہلی تعیین و تشخیص اور اس کے بعد اس سے تعلیم حاصل کرنی واجب ہے۔دوسرا گروہ وہ ہے جس نے ہر معلم و غیر معلم سے تمام علوم حاصل کیے۔ گزشتہ مقدمات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حق پہلے گروہ کے ساتھ ہے سوضروری ہوا کہ اس گروہ کا رئیس اہل حق کا رئیس ہو(رئیس المحققین) جب یہ بات واضح ہوگئی کہ باطل دوسرے فرقے کے ساتھ ہے تو ضروری ہوا کہ ان سب کے روساء، ائمہ پیشوا ،مذہبی سربراہ باطل پرستوں کے رئیس (رئیس المبطلین)ہوں۔

الحمدللہ نور مولانا شاہ کریم الحسینی ع زمانے کا امام برحق ہے ۔

امام برحق اور امام باطل۔پیر ناصر خسرو ق س کی نظر میں۔

حکیم پیر شاہ ناصر خسرو حجت خراسان و بدخشان اپنی گرانقدر اور پر حکمت کتاب وجہ دین میں فرماتے ہیں:
امام باطل کسی درخت کے پتوں کی مثال ہے، کہ پتے اپنے درخت کی زینت تو بن سکتے ہیں مگر اس کی ائندہ نوع کو باقی و جاری نہیں رکھ سکتے، اور امام حق درخت کے میووں کی مثال ہے کہ میوے اپنے درخت کی زینت بھی بن سکتے ہیں، اور اس کی ائندہ نوع کو بھی باقی و جاری رکھ سکتے ہیں، وہ اس طرح کہ جب ان پھلوں کی ہر گٹھلی سے وہی درخت اگے، تو اس کی نسلی جڑ نہیں کٹتی ہے۔ مگر پتے کوئی درخت نہیں اگا سکتے، بلکہ اگر پتوں نے پھلوں کو چھپا لیا تو پھل شروع ہی میں خشک ہو کر ضائع ہو جاتے ہیں، اور باغ کا مالک پھل نہ دینے کی وجہ سے ایسے درخت کو کاٹ دیتا ہے، پس معلوم ہوا کہ پتوں کی زیادنی کی وجہ سے درخت کی نوع بھی ختم ہو جاتی ہے، اور درخت کے فرد بھی، مگر پھل میں درخت کی نوع کی بہتری بھی ہے، اور اس کی فرد کی بہتری بھی، اور پتے صرف درخت کی زینت کے لحاظ سے پھل جیسے ہو سکتے ہیں، لیکن ان دنوں کے درمیان بہت سا فرق ہے، جس کا زکر ہو چکا۔ اللہ تعالی ایہ زیل میں یہی مثال بیان فرماتا ہے:۔
اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُہَا فِی السَّمَآءِتُؤْتِیْۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّہَا ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ
ترجمہ: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالی نے کیسی مثال بیان فرمائی ہے پاک کلمے کی، اس پاک درخت کی طرح جس کی جڑ مضبوط اور شاخ آسمان میں جا پہنچی ہے، اور ہمیشہ اپنے پروردگار ہی کی اجازت سے پھل دیا کرتا ہے، اور اللہ تعالی لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ سمجھ سکیں"
اس پاک درخت سے اللہ تعالی کی مراد رسول صلعم ہیں، جس کی جڑ مضبوط ہے۔ جس کو دینی دشمن اکھاڑ نہیں سکتے اور اس کی شاخ انحضرت کی آل ہیں، جو عالم روحانی سے تائد حاصل کرنے کے سلسلے میں روحانی آسمان سے متصل ہوئی ہیں، اور یہی انحضرت کے فرزند بموجب فرمان الہی لوگوں کو ہمیشہ حکمت کا پھل پہنچاتے رہتے ہیں، جو شخص اس مثال کو سمجھ سکے، تو وہی شخص اس درخت تک رسا ہو کر پھل کھا سکتا ہے، کیونکہ یہی پھل ہے جس میں ابدی زندگی پوشیدہ رکھی گئی ہے، اس کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے۔
وَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِۣ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ
ترجمہ: ناپاک کلمے کی مثال اس ناپاک درخت کی طرح ہے، جس کو زمین سے اکھاڑ لیا گیا ہو"
اور اس کی کوئی پائیداری ہی نہ ہو، ایسے بدترین درخت سے اللہ تعالی کی مراد خاندان رسول کے مخالفین ہیں، جنہوں نے امامت کا دعوی تو کر ہی لیا، مگر ان کی اولاد میں امامت جاری و باقی نہ رہی۔
مزکورہ بیان سے یہ ثابت ہوا، کہ امام بحقیقت وہ ہے جس کا فرزند بھی امام ہو، اور اس کی نسل منقطع نہ ہو، ورنہ جو شخص امامت کا دعوی کرے، اور اس کی نسل منقطع ہو جائے تو وہ جھوٹا ہے۔

امام برحق کی اثبات میں اور امام باطل کی رد میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں نقلی و عقلی دلائیل موجود ہیں مگر اختصار کی خاطر ہم نے چند ہی دلائیل پیش کئے ہیں تاکہ جو عاقل ہیں وہ سمجھ سکے۔

نوٹ: اس کالم کو جو بھی قاری پڑھتا ہے باردیگر گزارش آپ سے گزارش ہے کہ جذباتی تبصرے ہر گز نہیں کرنا بلکہ اپنی بات و دلیل سے پیش کرنا اور اختلافات کو بھی علمی انداز میں پیش کرے۔تاکہ علمی ماحول پیدا کرسکے۔

حوالہ جات : اس آرٹیکل کو تیار کرنے کے لئے درجہ ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔

1-دعائم السلام
2-امام شناسی
3_کتاب الولایہ
4-وجه دین
5-کتاب الملل والنحل

شکریہ کیساتھ: ایڈمن بحث الحکمہ

ذبیحہ کا مسلہعزیزان محترم!گلگت بلتستان و چترال میں اسماعیلیوں کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا اسلام کے دوسرے مسالک کے حضرات رواں ...
02/16/2025

ذبیحہ کا مسلہ
عزیزان محترم!گلگت بلتستان و چترال میں اسماعیلیوں کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا اسلام کے دوسرے مسالک کے حضرات رواں نہیں سمجھتے ہیں۔اگر اس کی وجوہات پوچھے تو آگے سے غیر منطقی جوابات ملتے ہیں۔جیسے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسماعیلی کلمہ میں اللہ کی وحدانت,رسول ص کی نبوت کے ساتھ علی ع و آل علی ع کی امامت کا اضافہ ہے:-

جیسے کہ ہم اسماعیلیوں کا کلمہ اس مطابق ہے:-

"لَااِلَاہَ اِللَّہُ مُحَمَّدُالرَّسُولُ اللَّہ عَلِیٌّ امیر المومنین عَلیُّ اللَّہ" اس کا ترجمہ کچھ اس مطابق ہے: "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد ص اللہ کے رسول ہے,امیر المومنین علی علیہ السلام اللہ کی جانب سے مومنوں کا امیر یعنی امام ہے۔

یعنی اس بنا پر کہ اسماعیلی کلمہ میں علی ع کی امامت کا اضافہ کرتے ہیں اس لئے ان کے ہاتھ ذبیحہ کھانا جائز نہیں ایک غیر عقلی اور کمزور دلیل ہے۔

کچھ لوگ تو حد ہی کرتےہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اسماعیلی ارکان دین کے منکر ہیں اس لے ہم ان کے ہاتھ کا ذبیحہ نہیں کھاتے ہیں۔جبکہ اہل علم حضرات کو معلوم ہے کہ جماعت اسماعیلیہ ہر گز ہر گز ارکان دین کا منکر نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان ارکان دین کی اصل روح اور حقیقی تشریح ہی اسماعیلی جماعت کے اندر موجود ہیں کیوں کہ اسماعیلیت مں ہر دینی حکم کی تاویل صاحب ولایت یعنی امام ع کرتے ہیں جو کہ آل نبی ص و اولاد وعلی ہے۔لہذا یہ سب باتیں غیر عقلی و علمی اور جہالت پہ مبنی ہیں۔سو میں نے ضروری سمجھا کہ اس بارے میں کچھ لکھ سکوں تاکہ جن شکوک و شبہات کی بنا پر عوام الناس میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں وہ سب دور ہوسکے۔

عزیزان گرامی قرآن پاک کے اندر ذبیحہ کھانے کے متعلق ارشاد ہے کہ:- "فکلو امھا ذکر اسم اللہ علیہ ان کنتم بآیاتہ مومنین" یعنی اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو جس ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اس کو کھاو۔

اس آیئہ قرآنی میں اللہ نے صاف صاف فرمایا ہے کہ اگر کوئی اہل ایمان مسلمان ہے تو اس کو وہ ذبیحہ کھانا ہے جس پر حق تعالی کا نام لیاگیا ہے۔اس میں اللہ پاک نے تنبیہ کرکے اس معاملے کو مخصوص کیا کہ اگر کوئی شخص اللہ کی آیتوں پر ایمان محکم رکھتا ہے تو وہ ضرور اس ذبیحہ کو کھائے گا جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔پس اگر جس شخص کو اللہ کی آیتوں پر ایمان کلی نہیں ہے وہ لوگ جس ذبیحہ پر اسم اللہ لیا گیا ہے اس کو کھانے سے انکار کرینگے اور جو لوگ اللہ کی آیت کو چھوڑ کر ایک ایسے شخص کی اتباع کرتے ہیں جو نہ تو اللہ کی طرف سے منتخب کردہ بلکہ خود لوگوں نے اس کو اپنے لئے رہنما منتخب کیا ہیں ,نہ اس شخص کے پاس علم لدنی ہے اور نہ ہی علم عطائی بلکہ وہ ایک چند ایک کتابیں پڑھ کے آکے اپنی خام علم سے لوگوں کو دین سکھاتا ہے تو ایسے میں اس شخص کی بات مان لی جائے یا اللہ اور اس کے منتخب کردہ بندے یعنی امام علیہ السلام کی?اس کا فیصلہ اہل علم قارئین ہی دینگے۔

اپنی شہرہ آفاق تصنیف "دعائم الاسلام "میں حضرت قاضی نعمان ق س اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :-

امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ سے یہودی,نصرانی,مجوسی اور اہل خلاف کے ذبیحہ کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے اللہ تعالی کا یہ ارشاد تلاوت فرمایا کہ "فکلو اھما ذکر اسم اللہ علیہ"(ترجمہ) جس ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اس کو کھاو"

آپ ع نے فرمایا کہ جب تم ان کو اللہ کا ذکر کرتےہوئے سنو تو کھاو اور جس پر اللہ کے نام کا ذکر نہ ہو اس کو نہ کھاو اور ان میں سے جو اللہ کانام ترک کرنےمیں متہم ہو اور بغیر اللہ کا نام لئے اسے حلال سمجھتا ہو تو اس کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں ہے۔حالانکہ ذبیحہ کو ذبح کرتے وقت مشاہدہ کیا گیا ہو اور اس نے سنت کےمطابق ذبع کیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا ہو تو پھر کھانا جائز ہے۔

جن بھائیوں کو کلمہ میں علی کی ولایت کےاعلان سے شک پیدا ہوتا ہے تو جاننا چاہیے کہ یہ ولایت و امامت کوئی ایسی چیز نہیں جس کو ہم اسماعیلیوں نے خود سے گھڑ لیا ہو یا یہ کوئی خود ساختہ شئ نہیں ہے بلکہ یہ قرآن و حدیث اور آفاق و انفس کی گواہیوں سے ثابت ہے۔اگر کسی بھائی کو اس بارے میں پتہ نہیں ہے تو کوئی بات نہیں ہم اہنے اس آرٹیکل میں قرآن و حدیث اور آفاق و انفس سے ولایت و امامت کے اثبات میں چند دلائل آپ کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ جو خدشات ہیں وہ بتوفیق خداوند کریم دور ہوسکے:-

ولایت /امامت کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ : انما ولیکم اللہ ورسوله والذین آمنو االذین یقیمونالصلوۃ ویوتون الزکوۃ وھم راکعون"-ترجمہ: تمہارے ولی اللہ اور اس کے رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز پڑھتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں"

چنانچہ امت پر جب اولی الامر کی ولایت فرض کی گئ تو لوگ سمجھ نہ سکے کہ ولایت کیا ہے۔اس وقت پروردگار عالم نے آنحضرت ص کو حکم دیا کہ آپ لوگوں کو ولایت کا مفہوم بھی اسی طرح سمجھا دے جس طرح طرح سے آپ ص نے نماز,زکات,حج ,روزہ کی صورت و کیفیت سے واقف کیا ہے پس مفہوم ولایت سمجھانے کا یہ حکم خداوند تعالی نے آنحضرت ص پر نازل کیا تو اس وقت آپ کا دل بیٹھ گیا۔اور آپ کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں خدانخواستہ لوگ آپ کے دین سے مرتد نہ ہوجائے اور آپ ص کی نبوت کی تکذیب نہ کر بیٹھیں اس اندیشے کی وجہ سے آپ ص امر ولایت کے متعلق دوبارہ رب العزت سے مخاطب ہوئے تو خداوند تعالی نے یہ وحی نازل کی:-

"یاایھاالرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعلو فما بلغت رسالته وللہ یعصمک من الناس"

ترجمہ: اے رسول جو کچھ (امر ولایت کے بارے میں ) آپ کے رب کی جانب سے آپ پر نازل کیا گیا ہے۔آپ اس کو پہنچا دیجئے اور اگر آپ ایسا نہ کرینگے تو آپ نے اللہ کا ایک پیغام بھی نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"

چناچہ آپ ص نے اس امر الہی کی تعمیل کی اور غدیر خم کے مقام پر مولا علی ع کی ولایت و امامت کا برملا اعلان و تذکرہ کردیا۔

جب آنحضرت نے عوام الناس میں ولایت علی ع کا اعلان کردیا تو اس کے بعد یہ آیت آپ ص پر نازل ہوئی:-
" الیوم اکملت لکم دینکم ونعمت علیکم نعمتی ورضیت لکم السلام دینا" ترجمہ : آج کے دن تمہارے لئے تمہارے دین کو میں نے کامل کردیا اور میں نے تم پر اپنا انعام تمام کردیا اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کے لئے پسند کیا۔"

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس آیت کے ذریعے جس میں تکمیل دین اور اتمام نعمت کی خبر دی گئ ہے پروردگار عالم امت کو اس بات سے آگاہ کردینا چاہتا ہے کہ اب میں فریضیئہ ولایت کے بعد جو آخری فریضہ ہے کوئی اور فریضہ اتارنے والا نہیں ہوں کیوں کہ میں تم پر تمام فرائض نازل کرچکا ہوں۔

رسول اکرم ص سے یہ روایت منقول ہے آپ ص فرماتے ہیں کہ جو لوگ مجھ پر اور خدا پر ایمان لے آئے ہیں اور میری نبوت کی تصدیق کرچکے ہیں میں ان کو امیر المومنین مولانا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کی وصیت کرتا ہوں کیوں کہ علی سے محبت کرنا مجھ سے محبت کرنے کے برابر ہے اور یہ ولایت ایک ایسا امر ہے جس کو پہچانے کا خدا نے مجھ کو حکم دیا ہے اور خدا نے مجھ سے عہد لیا ہے کہ میں اس امر ولایت کو خدا کی طرف سے تم لوگوں تک پہنچادوں۔

"انما لیکم اللہ ورسوله"والی آیت جس کا ذکر ہم نے شروع میں کیا تھا یہ آیت امام علی ع کے بارے میں نازل ہوئی تھی روایت مشہور ہے کہ ایک مرتبہ مولا علی ع نماز میں رکوع کی حالت میں تھے کہ ایک سائل آپ کے پاس کھڑا ہوگیا اس وقت رکوع کی حالت میں آپ ع نے اپنی انگھوٹی سائل کی طرف پھینک دی تھی۔اور اس وجہ سے مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تھی جس میں مولا علی و ذریت علی میں ولایت کا برقرار ہونے کا ثبوت موجود ہے۔

کتاب اللہ میں صاف صاف فرمایا گیا ہے کہ امام زمان جو کہ صاحب امر ہے ان کی اتباع کی جائے چنانچہ ارشاد ہے کہ:-

یا ایھالذین امنو اطیعواللہ واطیعوالرسول و اولی الامرمنکم_

"اے ایمان والوں تم اللہ کا کہا مانو اور رسول کاکہا مانو اور تم میں سے صاحبان امر ہیں ان کا بھی کہا مانو۔"

اس آیئہ مبارکہ میں اللہ ,رسول ص کی اطاعت کے ساتھ اولی الامر یعنی وہ لوگ جو الہی امر کے مالک ہیں ان کی اطاعت کو اہل ایمان پر فرض قرار دیا گیا ہے۔اولی الامر اہل ظاہر کے مطابق ان کے علماء,سلطنت کا امیر وغیرہ ہوتا ہے جب کہ اہل باطن یعنی اسماعیلیوں کے مطابق صاحبان امر صرف اور صرف مولا علی اور علی ع کی آل میں سے ہونے والے ایئمۂ طاہرین ہیں ,کیوں کہ جس طرح اللہ اور رسول ص کی اطاعت ایک پاکیزہ اطاعت ہے اور اللہ تعالی کی ذات مبارکہ تو کامل ہی کامل ہے اور اس کے محبوب یعنی محمد ص بھی انسان کامل ہے اور زمانے کے امام بھی انسان کامل ہے اور اللہ اپنی افضل ترین مخلوق یعنی انسان کو ہر وقت کامل ہستیوں کی اطاعت کا حکم دیتا ہے جو کہ زمانئہ سلف میں انبئیاء کی صورت میں تھے اور زمانیئہ حال میں امام برحق کی صورت میں حاضر و ناظر ہیں۔اور اللہ کبھی اپنی مخلوق افضل کی عقلی و روحانی پرورش کے لئے ان کو کسی نامکمل ہستی کے حوالے نہیں کرتا اور یہ اللہ کی شان کے برخلاف ہے۔پس معلوم ہوا کہ اولی الامر امام علیہ السلام ہی ہے ورنہ اگر اولی الامر سے مراد ظاہری بادشاہ یا صاحب اقتدار ہوتا تو یزید بھی اپنی دور میں صاحب اقتدار تھا جس نے رسول پاک ص کی اہل بیت پر جو مظالم کئے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں اور یہ بات ممکن ہی نہیں کہ یزید کو اولی الامر مانا جائے کیوں کہ اولی الامر کا تعلق دینی اقتدار سے ہے نہ کہ دنیاوی۔

اسلام کے ہر فرقے میں کسی نہ کسی طرح دینی رہنما کی موجودگی کو لازم سمجھا جاتا ہے۔جیسے اہل سنت و الجماعت میں دینی احکامات کی تشریح ان کے عالم دین جو کہ مفسر,مفتی,مولوی وغیرہ کے نام سے مشہور ہیں کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کل قرآن پاک کی سینکڑوں بلکہ ہزاروں اور اس سے بھی زیادہ تفاسیر موجود ہیں اور عوام الناس ان تفاسیر کو من و عن تسلیم کرتی ہے۔اسی طرح صوفیوں میں بھی پیر و مرشد کا تصور ہے۔شیعہ اثناعشریوں میں بھی ان کے شیوخ,ذاکر,آغا,آیت اللہ وغیرہ ان کو دین کی تعلیم و تشریح کرتے ہیں۔اور دیگر جتنے بھی فرقے ہیں ان سب میں امام یا رہنما کا تصور موجود ہے۔صرف اسلام ہی نہیں بلکہ ادیان عالم میں بھی مذہب تشریح کرنے کے لئے مختلف مذہبی رہنما موجودہیں جیسے عیسائیوں میں پادری,ہندوؤں میں پنڈت وغیرہ ہیں جو کہ ان کے دینی احکامات و مناسک کی تشریح کرتے ہیں۔اسی طرح اسلام کی باطنی شاخ یعنی اسماعیلیت میں بھی امام کا تصور ہے جو کہ اپنی جماعت کی عقلی,روحانی اور دینی و دنیاوی ترقی کا ضامن ہے۔ہم صرف ایک ہی امام برحق کے قائیل ہیں اور ہمارے مذہب میں امام الوقت کو مرکزیت حاصل ہے۔دینی معاملات میں فیصلے کرنا امام الوقت کے ذمے ہیں۔ہمارے امام آل نبی ص و اولاد علی ع سے منصوب ہے۔اگر اسی وجہ سے کچھ لوگ ہمارے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے سے کتراتے ہیں کہ یہ ایک ایسے امام کے معتقد ہیں جو نبی ص کی آل سے منسوب ہے تو پھر اس میں ہماری کیا غلطی?یہ سب ان کی اپنی بغض و دشمنی کے سوا اور کچھ نہیں۔

طوالت سے بچنے کے لئے میں نے اختصار سے کام لیا اور اس مختصر سے بیان میں قرآن و حدیث سے ولایت و امامت کے اثبات میں چند ایک دلائل آپ معزز قارئین کے سامنے رکھ دیا تو پس ثابت ہوا کہ کلمہ و ولایت علی و آل علی کو جواز بنا کر اسماعیلیوں کے ہاتھ سے ذبیحہ نہ کھانا درست نہیں ہے۔

بعض غیر اسماعیلی دوستوں سے اس بارے میں میری گفت و شنید ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے فلاں عالم نے اسماعیلیوں کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے سے منع کیا ہے اس لئے ہم نہیں کھاتے ہیں۔تو یہاں سے اصل بات مجھے سمجھ آئی کہ دراصل یہ عوام الناس کی غلطی نہیں ہے کیوں کہ بیچاری اورسیدھی سادی عوام کو اندھی تقلید سکھادی گئ ہے خود عوام کے اندر تحقیق و تدقیق کرنے کا رجحان نہیں ہے بلکہ جو بات کوئی عالم کہتا ہے تو اس کو حرف آخر سمجھتے ہیں اور اس کو جواز بناکر رائے قائم کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں مذہبی فسادات,بدامنی,تفرقہ بازی,غلط افواہیں اور ہر قسم کی ذہنی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔اور ان سب کا ذمہ دار میں ان نام نہاد عالم دین کو ٹہراتا ہوں جو خود تحقیق و تدقیق سے عاری اور علم و حکمت سے خالی ہیں بلکہ اس سے دور دور تک ان کا کوئی تعلق نہیں ہے لوگوں کو غلط گائیڈ کرتے ہیں جس کی وجہ سے عوام الناس میں بدگمانیاں اور شکوک و شبہات پائی جاتی ہیں۔

02/16/2025

مشکلوں اور مصیبتوں کے وقت اپنے حاضر و موجود امام شاہ رحیم الحسینی کا سہارا لو“
المدد یا امام الزمان

02/16/2025

کیا اس سوشل میڈیا کے دور میں اپنی عقائد کو چھپا سکتا ہے؟کیا ایسا ممکن ہے؟

02/16/2025

چترال میں ہمارے اک قابل قدر اسماعیلی جماب آفتاب صاحب پہ دہشت گردی کے دفعات لگانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست سپاہ صحابہ جیسے دہشت گرد تنظیموں کو تحفظ فراہم کررہی اور امن پسند لوگوں پہ دہشت گردی کے چارجز لگا رہی ہے اوت ان سے انکا بنیادی حق چھین رہی۔انسانی حقوق کی پامالی میں الباکستان کا کوئی ثانی نہیں۔

02/14/2025

جو شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مرا وہ جہالت کی موت مرا“
الحدیث

جان من جانان من ،شاہ رحیم مولائے منمن غلامِ کمترین ،شاہ رحیم آقائے منجلوۂ نورِ خدا،آلِ پاک مرتضیاے امامِ اتقیاء،تو ہی ہے...
02/14/2025

جان من جانان من ،شاہ رحیم مولائے من
من غلامِ کمترین ،شاہ رحیم آقائے من

جلوۂ نورِ خدا،آلِ پاک مرتضی
اے امامِ اتقیاء،تو ہی ہے حبلِ خدا

جملہ عالم میں علی کے نور کی بارش ہوئیدیکھ لوں میں بھی علی کو دل کی یہ  خواہش ہوئیچشمِ دل سے دیکھ لو مومن علی کے نور کوآج...
02/14/2025

جملہ عالم میں علی کے نور کی بارش ہوئی
دیکھ لوں میں بھی علی کو دل کی یہ خواہش ہوئی

چشمِ دل سے دیکھ لو مومن علی کے نور کو
آج بھی منکر نہ مانتا ہے علی کے نور کو

جس قدر جاہ و جلال سے شاہ رحیم مولا ہوئے
دونوں عالم بھی یقیناً شاہ میں یکجاء ہوئے

12/16/2024

Maulana Hazir Imam's Helicpoter ❤️

12/13/2024

Happy Salgira mubarak of our beloved maulana Hazir imam to all ismailis around the globe .

Bahas ul hikma Ismaili InfoThe Ismaili Fidaieen_اسماعیلی فدائی گروپIsmaili Mysticism

12/12/2024
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصممگر نازم بایں ذوقے کہ پیشِِ یار می رقصم(مجھےنہیں معلوم کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں...
12/10/2024

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بایں ذوقے کہ پیشِِ یار می رقصم

(مجھےنہیں معلوم کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقصاں ھوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقصاں ھوں)

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہر طرزے کہ رقصانی منم اے یار می رقصم

(توہر وقت جب بھی مجھے نغمہ سناتا ہے، میں ہر بار رقصاں ھوں، اور جس طرز پر بھی تو رقص کراتا ہے، اے یار میں رقصاں ھوں)

سراپا بر سراپائے خودم از بیخودی قربان
بگرد مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم

(سر سے پاؤں تک جو میرا حال ہےاس بیخودی پر میں قربان جاؤں،کہ پرکار کی طرح اپنے ہی گرد رقصاں ھوں)

خوشا رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

(واہ ! مے نوشی کہ جس کیلیے میں نے سینکڑوں پارسائیوں کو پامال کر دیا، خوب! تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقصاں ھوں)

مرا طعنہ مزن اے مدعی طرزِ ادائیم بیں
منم رندے خراباتی سرِ بازار می رقصم

(اے ظاہر دیکھنے والے مدعی !مجھے طعنہ مت مار،میں تو شراب خانے کا مے نوش ہوں کہ سرِ بازار رقصاں ھوں)

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خونخوار می رقصم

(تُو وہ قاتل ہے کہ تماشے کے لیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خونخوار خنجر کے نیچے رقصاں ھوں)

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

(آہ، اے محبوب ! اورتماشا دیکھ کہ جانبازوں کی بھِیڑ میں، میں سینکڑوں رسوائیوں کےسامان کےساتھ ،سر بازار رقصاں ھوں)

اگرچہ قطرۂ شبنم نپوئید بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بنوکِ خار می رقصم

(اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں پڑتا لیکن میں شبنم کا وہ قطرہ ہوں کہ کانٹے کی نوک پر رقصاں ھوں)

کہ عشقِ دوست ہر ساعت دروں نار می رقصم
گاہےبر خاک می غلتم , گاہے بر خار می رقصم

(عشق کا دوست تو ہر گھڑی آگ میں ناچتا ہے،کبھی تو میں خاک میں مل جاتا ہوں ،کبھی کانٹے پر رقصاں ھوں)

منم عثمانِ ھارونی کہ یارے شیخِ منصورم
ملامت می کند خلقے و من برَ،دار می رقصم

(میں عثمان ھارونی ،شیخ حسین بن منصور حلاج کا دوست ہوں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں سولی پررقصاں ھوں)

Address

Plano, TX

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ismaili Qasidas And Ginans posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share