
02/18/2025
امام برحق کون ؟
عزیزان محترم آج ایک بہت اہم موضوع کو زیر بحث لانے جارہا ہوں۔اور یہ موضوع امام برحق کے بارے میں ہے ۔اس بات کی اثبات میں کہ امام برحق کون ہے کے لئے قرآن و حدیث,ائمیہ برحق کی فرامین ,حجتان برحق و بزرگان دین سمیت آفاق و انفس کی گواہیوں سے ہم بتوفیق خداوند برحق دلائل و براہین پیش کرینگے۔مجھے قوی امید ہے کہ قارئیین کرام میرے اس کالم کا بغور مطالعہ کرینگے اور اس کے بعد ہی ان تصورات کی نفی یا اثبات میں اپنی رائے پیش کرینگے۔باردیگر میری گزارش ہے خاص کر پیج پہ موجود غیر اسماعیلی ممبران سے کہ آپ میری تحاریر کا بغور مطالعہ کرے اس کے بعد ہی کوئی رائے قائم کرلے ورنہ اکثر ممبران شروع کی ایک دو لائنیں یا صرف "کیپشن" کو پڑھ کے ہی جذباتی ہوجاتے ہیں اور تبصرے میں جذباتی گولے برسانے لگ جاتے ہیں جن کا حقیقت اور علم وحکمت سے ہزاروں میل تک کا بھی تعلق نہیں ہے۔چنانچہ اگر کسی کو ہمارے عقائید سے اختلاف ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ علمی و منطقی دلیل دے کر اپنا موقف پیش کرے۔تاکہ ایک علمی ماحول پیدا ہوسکے۔امید کرتا ہوں کہ معزز قارئین ان گزارشات کا خیال رکھینگے اور ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے میری تمام تحاریر کا مطالعہ کرینگے۔اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
یوں تو پورا قرآن پاک امامت کی فضائیل میں ہے لیکن اہل ظاہر کو سمجھانے کے لئے کہ قرآن پاک میں امام برحق کی نشاندہی کیسے کی گئ ہیں ہم چند قرآنی آیات پیش کرتے ہیں اور ان آیات پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں تاکہ امام برحق کا تصور کا پتہ چل سکے۔۔
سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 71 میں امام علیہ السلام کی دائمیت کا تصور موجود ہے۔ارشاد بارئ تعالی ہے کہ "یوم ندعواکل اناس بامامھم"ترجمہ:جس دن ہم تمام(زمانوں کے) لوگوں کو اپنے اپنے امام کے ساتھ بلائینگے"۔ یاد رکھے کہ یہ آیت لفظی معنی کے لحاظ سے اس قسم کی ہے,جس طرح کہ: قد علم کل اناس مشربھم"(سورہ 2 ایت نمبر 60) سب قبیلوں نے اپنا اپنا گھاٹ جان لیا۔چناچہ اس آیت کی حکمت کے سلسلے میں یہاں سب سے پہلے لفظ "اناس" کا مطلب سمجھنا ضروری ہے ,اور وہ اس طرح سے ہے,اناس انس کی جمع ہے ,اور اس کی دوسری صورت اناسی ہے جو کہ قرآن میں لوگوں کی چھوٹی چھوٹی تقسیم کے لئے آیا ہے۔جیسے حضرت موسی کے لوگوں کو امت موسی یا قوم موسی کہا جاتا ہے ,اور انہیں کسی اضافت و نسبت کے بغیر ناس بھی کہا جاتا ہے,مگر سب کو ملاکر اناس نہیں کہاجاتا کیونکہ اناس قرآن میں لوگوں کی چھوٹی تقسیم کے لئے استعمال ہوا ہے ,یعنی حضرت موسی کی قوم کی بارہ (12) قبیلوں میں سے ہر قبیلے کو اناس کہا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام وقت کی نسبت سے انسانوں کو اناس کہا گیا ہے۔جس طرح پیغمبر کی نسبت سے لوگں کو امت یا قوم کہا جاتا ہے,چونکہ ہر ناطق پیغمبر کے دور میں کئ امام ہوا کرتے ہیں,پس ہر امام کے زمانے کے لوگ امت اور قوم نہیں کہلاینگے بلکہ اناس کہلایں گے۔
حقائیق بالا مظہر ہے کہ امام عالی مقام ہمیشہ سے دنیا والوں کے درمیان موجود و حاضر ہیں,اور یہی سبب ہے,کہ اللہ تعالی قیامت کے دن اپنی عدالت گاہ میں ہر زمانے کے لوگوں کو ان کے امام وقت کے ساتھ بلالے گا۔(دیکھیے کتاب :امام شناسی)۔
اس امر برحق کی توثیق پاک رسول ص کی احادیث سے بھی ہے۔جیسے کہ قول رسول ہے کہ:*مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مِیْتَةً جَاہِلِیَةً*
جو شخص اپنے زمانہ كے امام كی معرفت اور انھیں پہچانے بغیر مرجائے تو اس كی موت جاھلیت كی موت ھوگی" عزیزان گرامی یہاں زمانے کے امام کی جسمانی و روحانی و عقلی معرفت کا ذکر کیا ہے رسول پاک ص نے۔اسماعیلی نظریے کے مطابق ہر زمانے کے لئے امام برحق کا لوگوں کے درمیان بلباس بشریت موجود ہونا لازمی ہے کیوں کہ امام کا کام ہے کہ وہ اپنی براہ راست فرامین و ہدایات کے ذریعے لوگوں کی روحانی و عقلی ترقی کراسکے تاکہ اس سے مومنین والمومنات معرفت خداوندی حاصل کرسکے۔مثال کے طور پر ایک مسافر کو فلاں شہر میں پہنچنا ہے سو وہ شہر اس کا منزل ہے مگر وہ اس شہر میں پہلے کبھی داخل نہیں نہیں ہوا ہے نہ ہی اس شہر کی طرف جانے والے راستے سے آگاہ ہے تو ایسے میں اس شخص کو کسی ایسے رہنما کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ جس کو اس شہر کے بارے میں پتہ ہے اور اس کے چے چپے سے واقف ہے اور راستے میں آنے والی دقتوں سے بھی خوب جانکاری رکھتا ہے۔پس اگر مسافر ہوشمند اور عقل مند ہے تو اپنی منزل یعنی اس شہر تک پہنچنے کے لئے اس رہنما کا انتخاب کرے گا جو اس شہر سے واقف ہے لیکن اگر وہ بے وقوف ہے اور اپنی ہی مرضی سے وہاں اس نامانوس شہر کی طرف جانے کی کوشش کرے گا تو یا تو وہ آدھے رستے سے واپس آئے گا یا رستہ بٹھک کر کسی اور جگہیں میں داخل ہوگا اور اپنی منزل مقصود کو کھو بھیٹے گا۔اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی اصل منزل یعنی معرفت خداوندی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو ایک ایسے دینی رہنما کی ضرورت ہے جو خود راہ معرفت سے خوب واقف ہو اور اس راہ میں آنے والی مشکلات سے بھی آگاہ ہو۔ایسا شخص امام زمان کے سوا اور کون ہوسکتا?جو کہ بلباس بشریت لوگوں کے درمیان موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اسماعیلی کہتے ہیں کہ نور مولانا شاہ کریم الحسینی امام برحق ہے دوسری طرف لوگوں کی ایک اور قسم بھی ہے جو اللہ کی معرفت کے لئے کسی ھادئ برحق یا امام کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہوہ بغیر کسی رہنما کے منزل مقصود یعنی معرفت خداوندی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں,مگر ان کی یہ کوشش کارآمد ثابت نہیں ہوتی ہے اور اس میں بالکل ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ایک امام برحق کا موجود ہونا از روئے قانون فطرت لازم ہے۔
" امام برحق مومنوں کا ولی ہے"
اسماعیلی نظریئہ امامت میں امام برحق ولئ اللہ یعنی اللہ کی طرف مومنوں کا ولی ہے۔اس بات کا ثبوت قرآن پاک کی آیئہ ولایت سے ہمیں ملتا ہے جو کہ اکثر مورخین کے مطابق خصوصأ مولا علی کے لئے نازل ہوئی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے کہ:-
إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُواْ الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ ۔
سورۃ المائدہ:آیت،55
ترجمہ:تمہار ولی صرف اللہ اور اسکا رسول ؐ اور وہ اہلِ ایمان (مولا علی ؐ اور ان کی اولادآئمہ معصومین ؐ) ہیں جوصلاۃ قائم کرتے ہیں اور زکاۃ ادا کرتے ہیں جبکہ وہ رکوع کرتے ہیں۔
سورۃ المائدہ:آیت،55
پس حالت رکوع میں زکات مولا علی نے دیا تھا,جب آپ ع نماز کے دوران رکوع کی حالت میں تھے تو ایک سائیل آیا تو آپ ع نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور انگوٹھی سائیل کو دے دی۔سو آیئہ ولایت نازل ہوئی اور اللہ نے اپنے لئے,مولا محمد ص کے لئے اور مولا علی کے لئے ولی کا لفظ استعمال کیا اور ولایت امام علی سے ہی منصوب ہوئی۔پس مولا علی ع کے بعد ہر زمانے کا امام برحق ولایت کا حق دار ہے اور مومنوں کا سچا ولی ہے اور ولایت کا حقدار امام حئ و حاضر ہی ہے کیوں کہ سلسلئہ امامت ہر زمانے کے امام میں ہی برقرار رہتی ہے۔اس بات کی توصیق مولانا امام جعفر الصادق ع کے اس قول سے ہوتی ہے۔فرمان امام جعفر الصادق ع ہے کہ :-
"ولی کے معانی ہیں "اولی بکم "یعنی تم میں سب سے بہتر ہو جوتمہارے نفوس اور تمہارے اموال سے زیادہ تم پر اور تمہارے امور پر حق رکھتا ہواور اللہ اور اس کا رسولؐ اور وَالَّذِینَ آمَنُوا یعنی علی ؐ اور ان کی اولادمیں قیامت تک آنے والے آئمہ معصومین ؐ ہیں۔
حوالہ:الکافی،ج،1،ص،288،ح،3 ۔۔ تفسیر صَافی،ج،2،ص،521
پس امام زمانہ نور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلوات اللہ علیہ زمانے کا لئ برحق ہے۔اور اس بات کو ہم نے قرآن و فرمان امام ع سے ثابت کردیا۔
امام برحق اور امام باطل بابا حسن صباح کی نظر میں۔
امام برحق کی حق میں اور امام باطل کی رد میں چار عقلی دلائیل جو کہ سیدنا حسن صباح نے پیش کی ہے ان دلائیل کے ذریعے ان سب خود ساختہ اماموں کے لئے ایک ایسا علمی چیلنج دیا ہے جو کہ آج تک ان کا مفصل جواب اہل ظاہر نہیں دے سکے ہیں۔ہم بتوفیق خداوند برحق ان چار عقلی دلائیل کو قارئین کرام کی نظر کرتے ہیں تاکہ امام برحق کے بارے ان کی شکوک و شبہات دور ہوسکے۔ حسن صباح کے ان چار فصلوں کو ھم نے امام شہرستانی کی کتاب "کتاب الملل و النحل"سے نقل کیا ہے یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس کا اردو ترجمہ پروفیسر علی محسن صدیقی نے کی ہے
فصل اول۔
حسن کا قول ہے کہ اللہ کی معرفت کے لیے دو باتوں میں سے ایک کا قائل ہونا ضروری ہےیا تو وہ یہ کہے کہ میں باری تعالیٰ کو اپنی نظر سے پہچانتا ہوں اور اس کی معرفت کے لیے کسی معلم کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔یا پھر وہ یہ کہے کہ اللہ تعالی کی معرفت کی اپنی نظر سے کوئی سبیل وراہ نہیں بلکہ یہ ایک معلم کی تعلیم سے حاصل ہوتی ہے۔اب حسن نے کہا جو شخص پہلی بات کا قائل ہے اس کو اپنے سوا دوسرے کی عقل و نظر کی صداقت کا انکار کرنے کا حق نہیں ہے۔کیونکہ اگر اس نے اگر اس نے اس دوسرے شخص کی اصابت عقل و نظر کا انکار کیا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ معرفت الہی سے وہ آگاہ ہو گیا کیونکہ انکار تعلیم ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ جس کا انکار کیا گیا ہے وہ اپنے سوا دوسرے کا محتاج اور ضرورتمند ہے۔اور یہی دوسرا شخص امام ہے ۔حسن نے کہا کہ یہ دونوں قسمیں ضروری ہیں کیوں کہ جب کوئی آدمی کوئی فتویٰ دیتا ہے یعنی رائے قائم کرتا ہے یا کوئی بات کہتا ہے تو وہ تو یہ بات یا تو اس کی اپنی ذاتی تحقیق کی بنا پر یا دوسروں کی تحقیق کی بنا پر ہوتی ہے۔یہ یہ فصل اول ہے اور یہ اصحاب رائے و عقل کا توڑ ہے۔
فصل دوم۔
فصل دوم میں حسن نے بیان کیا ہے کہ جب ایک معلم کی ضرورت ثابت ہوگی تو کیا بلالحاظ وامتیاز ہر معلم معرفت الہی کی تعلیم کی صلاحیت رکھتا ہے یا کسی معلم صادق کا ہونا ضروری ہے؟اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہر معلم اس کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کو اپنے مخالف کے معلم کے انکار کا حق نہیں پہنچتا ۔اپنے مخالف کے معلم کا انکار کرکے اس نے یہ بات تسلیم کرلی کی ایک صادق اور قابل اعتماد معلم کی ضرورت ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہ دلیل اصحاب حدیث کے دعوے کا توڑ ہے۔
فصل سوم۔
فصل سوم میں حسن نے یہ ذکر کیا ہے کہ جب ایک
معلم صادق کی ضرورت ثابت ہو گئی تو کیا پہلے معلم کی معرفت اور اس کے بعد اس سے علم حاصل کرنا ضروری ہے یا یہ کہ ہر معلم سے اس کی ذات شخص کی تعین اور اس کے ذات کی توضیح کئے بغیر حصول علم جائز ہے؟اور دوسری بات پہلی بات ہی کی طرف لوٹ کر آتی ہے یعنی یہ کہنا کہ وہ معلم کے صدق اور ذات کی تعین کے بغیر بھی اس سے تعلیم لینی روا ہے۔دراصل اس بات کو مستلزم ہے کہ معلم کی تعیین و تصدیق لابدی ہے کیونکہ کسی پیشوا اور ساتھی کے بغیر راستہ طے کرنا ممکن نہیں ہے اور سفر سے پہلے ساتھی اور رہنما کا ہونا ضروری ہے یہ دلیل شیعہ یعنی امامیہ اثنا عشریہ کا رد ہے۔
فصل چہارم۔
فصل چہارم میں حسن نے یہ کہا ہے کہ لوگوں کے دو گروہ ہیں ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ہم کو اللہ تعالی کی معرفت کے حصول کے لیے ایک معلم صادق کی ضرورت ہے ،جس کی پہلی تعیین و تشخیص اور اس کے بعد اس سے تعلیم حاصل کرنی واجب ہے۔دوسرا گروہ وہ ہے جس نے ہر معلم و غیر معلم سے تمام علوم حاصل کیے۔ گزشتہ مقدمات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حق پہلے گروہ کے ساتھ ہے سوضروری ہوا کہ اس گروہ کا رئیس اہل حق کا رئیس ہو(رئیس المحققین) جب یہ بات واضح ہوگئی کہ باطل دوسرے فرقے کے ساتھ ہے تو ضروری ہوا کہ ان سب کے روساء، ائمہ پیشوا ،مذہبی سربراہ باطل پرستوں کے رئیس (رئیس المبطلین)ہوں۔
الحمدللہ نور مولانا شاہ کریم الحسینی ع زمانے کا امام برحق ہے ۔
امام برحق اور امام باطل۔پیر ناصر خسرو ق س کی نظر میں۔
حکیم پیر شاہ ناصر خسرو حجت خراسان و بدخشان اپنی گرانقدر اور پر حکمت کتاب وجہ دین میں فرماتے ہیں:
امام باطل کسی درخت کے پتوں کی مثال ہے، کہ پتے اپنے درخت کی زینت تو بن سکتے ہیں مگر اس کی ائندہ نوع کو باقی و جاری نہیں رکھ سکتے، اور امام حق درخت کے میووں کی مثال ہے کہ میوے اپنے درخت کی زینت بھی بن سکتے ہیں، اور اس کی ائندہ نوع کو بھی باقی و جاری رکھ سکتے ہیں، وہ اس طرح کہ جب ان پھلوں کی ہر گٹھلی سے وہی درخت اگے، تو اس کی نسلی جڑ نہیں کٹتی ہے۔ مگر پتے کوئی درخت نہیں اگا سکتے، بلکہ اگر پتوں نے پھلوں کو چھپا لیا تو پھل شروع ہی میں خشک ہو کر ضائع ہو جاتے ہیں، اور باغ کا مالک پھل نہ دینے کی وجہ سے ایسے درخت کو کاٹ دیتا ہے، پس معلوم ہوا کہ پتوں کی زیادنی کی وجہ سے درخت کی نوع بھی ختم ہو جاتی ہے، اور درخت کے فرد بھی، مگر پھل میں درخت کی نوع کی بہتری بھی ہے، اور اس کی فرد کی بہتری بھی، اور پتے صرف درخت کی زینت کے لحاظ سے پھل جیسے ہو سکتے ہیں، لیکن ان دنوں کے درمیان بہت سا فرق ہے، جس کا زکر ہو چکا۔ اللہ تعالی ایہ زیل میں یہی مثال بیان فرماتا ہے:۔
اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُہَا فِی السَّمَآءِتُؤْتِیْۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّہَا ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ
ترجمہ: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالی نے کیسی مثال بیان فرمائی ہے پاک کلمے کی، اس پاک درخت کی طرح جس کی جڑ مضبوط اور شاخ آسمان میں جا پہنچی ہے، اور ہمیشہ اپنے پروردگار ہی کی اجازت سے پھل دیا کرتا ہے، اور اللہ تعالی لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ سمجھ سکیں"
اس پاک درخت سے اللہ تعالی کی مراد رسول صلعم ہیں، جس کی جڑ مضبوط ہے۔ جس کو دینی دشمن اکھاڑ نہیں سکتے اور اس کی شاخ انحضرت کی آل ہیں، جو عالم روحانی سے تائد حاصل کرنے کے سلسلے میں روحانی آسمان سے متصل ہوئی ہیں، اور یہی انحضرت کے فرزند بموجب فرمان الہی لوگوں کو ہمیشہ حکمت کا پھل پہنچاتے رہتے ہیں، جو شخص اس مثال کو سمجھ سکے، تو وہی شخص اس درخت تک رسا ہو کر پھل کھا سکتا ہے، کیونکہ یہی پھل ہے جس میں ابدی زندگی پوشیدہ رکھی گئی ہے، اس کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے۔
وَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِۣ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ
ترجمہ: ناپاک کلمے کی مثال اس ناپاک درخت کی طرح ہے، جس کو زمین سے اکھاڑ لیا گیا ہو"
اور اس کی کوئی پائیداری ہی نہ ہو، ایسے بدترین درخت سے اللہ تعالی کی مراد خاندان رسول کے مخالفین ہیں، جنہوں نے امامت کا دعوی تو کر ہی لیا، مگر ان کی اولاد میں امامت جاری و باقی نہ رہی۔
مزکورہ بیان سے یہ ثابت ہوا، کہ امام بحقیقت وہ ہے جس کا فرزند بھی امام ہو، اور اس کی نسل منقطع نہ ہو، ورنہ جو شخص امامت کا دعوی کرے، اور اس کی نسل منقطع ہو جائے تو وہ جھوٹا ہے۔
امام برحق کی اثبات میں اور امام باطل کی رد میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں نقلی و عقلی دلائیل موجود ہیں مگر اختصار کی خاطر ہم نے چند ہی دلائیل پیش کئے ہیں تاکہ جو عاقل ہیں وہ سمجھ سکے۔
نوٹ: اس کالم کو جو بھی قاری پڑھتا ہے باردیگر گزارش آپ سے گزارش ہے کہ جذباتی تبصرے ہر گز نہیں کرنا بلکہ اپنی بات و دلیل سے پیش کرنا اور اختلافات کو بھی علمی انداز میں پیش کرے۔تاکہ علمی ماحول پیدا کرسکے۔
حوالہ جات : اس آرٹیکل کو تیار کرنے کے لئے درجہ ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔
1-دعائم السلام
2-امام شناسی
3_کتاب الولایہ
4-وجه دین
5-کتاب الملل والنحل
شکریہ کیساتھ: ایڈمن بحث الحکمہ