VOH - Urdu360

VOH - Urdu360 Voice of Hazara - Urdu360
is the international Media Channel of Hazaranation.

مذہبی شدت پسندی اور دریا سندھ سے دریا کابل تک کا خطہ ! تحریر از جان محمد ہزارہ ۔ اس وقت پاکستان کو جن مشکلات کا سامنا ہے...
23/11/2024

مذہبی شدت پسندی اور دریا سندھ سے دریا کابل تک کا خطہ !
تحریر از جان محمد ہزارہ ۔

اس وقت پاکستان کو جن مشکلات کا سامنا ہے ۔ ان میں سر فہرست معاشی زوال اور خطے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی ہیں۔ تاریخی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو نو آبادیاتی دور سے لیکر آج تک اس خطے میں سیاسی، معاشی اور سماجی استحکام نہیں آیا ہے ۔ بلخصوص دریا سندھ سے دریا کابل کے درمیان تک جو خطہ ہے نوآبادیاتی دور میں بھی یہاں سب سے زیادہ شورشیں رہی ہیں ۔ اس کے پیچھے بہت سارے عوامل ہو سکتے ہیں ۔ لیکن عالمی قوتوں کی کردار سے اور نہ ہی قومی ، مذہبی و جغرافیائی تنازعات سے انکار کیا جا سکتا ہے ۔ 1947 کے بعد بھی یہاں پر وہی نوآبادیاتی پالیسیاں جاری رہی جس میں تشدد کے زریعے سے اپنی سیاسی مقاصد کا حصول سرفہرست رہتا ہے ۔ تا ہم مذہبی شدت پسندی کا نزول یہاں سرد جنگ کے دوران امریکی ایماء پر وجود میں آئی ۔

ویتنام جنگ کے بعد نام نہاد افغانستان ( بفر زون ) میں امریکہ نے اپنی روایتی حریف کمیونسٹ بلاک کو شکست دینے کیلئے اسلام کا سیاسی استعمال کرنا براہ راست شروع کی ۔ اس تمام کھیل میں مقامی اشرافیہ بھی برابر کے شریک رہے ۔ مذہب کے نام پر سیاست کا آغاز تو 1906 میں ہی برصغیر میں کاشت کیا گیا تھا ۔ لیکن فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے زمانے میں اس کو مزید توانائی عطا کی گی ۔
شیعت کے نام پر سیاست کا آغاز بھی جنرل ضیاء صاحب نے کرائی ۔ چونکہ انہوں نے غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قبضہ جمائے ہوئے تھے لہذا انہوں نے ایک خود ساختہ مذہبی سیاست کی آب یاری کی ۔

ذبیع اللہ بلگن اپنی کتاب پاکستانی جماعتیں اور غیر ملکی فنڈنگ میں لکھتے ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں مسلکی بنیادوں پر سیاست کو فروغ دیا اور شیعت کے نام پر سیاست کا اصل بانی بھی ضیاء الحق صاحب تھے ۔ وہ اس حوالے سے مزید لکھتے ہے کہ چونکہ ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ جماتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کو روندا تھا اور پیپلز پارٹی میں اکثریت کا تعلق مسلکی بنیادوں پر اہل تشیع سے تھا ۔ لہذا پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کیلئے ضیاء الحق نے اس وقت کے ایرانی پراکسی علامہ عارف حسین الحسینی کی مکمل حمایت کر رہے تھے کیونکہ اس سے ضیاء الحق کو دو اہم مقاصد حاصل ہوتے ۔ اول کہ شیعت کے نام پر سیاست سے پیپلز پارٹی کمزور ہوتی ، دوسری پاکستان میں دیگر مسلک کے لوگ اہل تشیع کے خلاف ہو کر خود بخود جناب ضیاء الحق کو مضبوط کرتے اور عرب ریاستوں کی سرپرستی بھی ضیاء الحق کو ملتی کیونکہ عرب اور ایرانیوں کے درمیان ایک جنگ ہمیشہ سے جاری ہے ۔ اور یہی کچھ ہوتا رہا بعد میں فوجی ڈکٹیٹر نے بھی ایم ڈبلیو ایم اور شیعہ علماء کونسل کی بنیاد رکھی ۔

چونکہ علامہ عارف حسین الحسینی کا آبائی علاقہ پارہ چنار تھا ۔ لہذا مذہب کے نام پر وہاں سیاست نے جڑ پکڑنا شروع کیا ۔ ضیاء الحق اور ایرانی حمایت یافتہ علامہ عارف حسین الحسینی دونوں نے ملکر بارہ چنار اور بلخصوص کرم ایجنسی میں مذہبی منافرت کی بنیاد رکھی ۔

در اصل اس مذہبی منافرت کے پیچھے اصل تخلیق کار ایران ، پاکستان اور امریکہ تھے ۔ ایرانیوں نے پارہ چنار کو چھوٹا قم بنایا اور وہاں سے خام مال انسانی شکل میں حاصل کرتے رہے ۔ پاکستانی اشرافیہ نے اسی کو جواز بناتے ہوئے امریکہ سے مزید ڈالر لیتے رہے اور تقسیم کرو حکومت کرو کے پالیسی پر بھی عمل پروا رہے ۔ یہ پروجیکٹ کثیر المقاصد تھے اور پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کے حوالے سے پالیسیاں اکثر کثیر المقاصد ہوتی ہے ۔ اس طرح تینوں کا فائدہ ہوا لیکن سب سے بڑی نقصان کا سامنا عام عوام کو ہوئی ۔

صوبہ سرحد میں سنی مسلک کے مقابلے میں شیعہ مسلک کے لوگ اقلیت میں ہے ۔ اسی نوعیت کے حالت کا شکار کویٹہ میں بھی بلخصوص ہزارہ قوم کے لوگ ہوئے ۔
بلوچستان بھی صوبہ سرحد کی طرح ہمیشہ سے شورشوں کا مرکز رہا ہے ۔ جبکہ موجودہ حالت میں صوبہ سرحد کے مقابلے میں بلوچستان کی اہمیت زیادہ ہے ۔ یہاں نہ صرف مذہبی شدت پسند تنظیمیں اپنی وجود کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ یہاں مسلح قوم پرست نظریات رکھنے والے گروہ بھی شورش کا حصہ ہے ۔

صوبائی محکمہ داخلہ کے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال نومبر کے پہلے عشرے تک بلوچستان میں فائرنگ اور دھماکوں سے 271 افراد جاں بحق جبکہ 590 افراد کے قریب زخمی ہوئے ہیں ۔ سال 2023 میں ٹوٹل 622 واقعات ہوئے تھے تا ہم اس سال نومبر کے پہلے عشرے تک کل 733 واقعات ہوچکے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال بلوچستان میں 17 سے 80 فیصد کے قریب شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے ۔ لیکن 1998 کے بعد 2024 وہ واحد سال ہے جس میں بلوچستان میں فرقہ وارنہ ٹارگیٹ کلنگ ، ہزارہ قوم اور ٹرینوں پر حملے نہیں ہوئے ہیں ۔

اس خطے میں نا امنی کے پیچھے کئ عوامل وجود رکھتی ہے ۔ تا ہم ناگفتہ نہ رہے کہ دریا سندھ سے دریا کابل کے درمیان جو خطہ ہے یہ ایک حوالے سے قدرتی وسائل اور اہم جغرافیائی خدو خال سے بھی مالا مال ہے ۔ پاکستان میں رہی سہی زراعت بھی موسمیاتی تبدیلیوں اور پاک بھارت خراب سیاسی تعلقات کی وجہ سے پہلے جیسی منافع بخش نہیں رہا ہے ۔ لہذا پاکستان کی واحد معاشیات کا انحصار بیرونی ممالک سے امداد اور قدرتی وسائل ہی اب رہا ہے ۔ بیرونی امداد کا واحد جواز تشدد پسندی کے خاتمے سے اکثر یہاں جوڑا گیا یے ۔

پارہ چنار کے اہل تشیع کی طرح بلوچستان اور بلخصوص کوئٹہ شہر میں ہزارہ قوم کے لوگ بھی محاصرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ یہاں پر بھی نام نہاد مذہبی دہشگردی کے بہانے سے مقامی زرایع کے مطابق 3000 سے زائد افراد کا قتل کیا جا چکا ہے اور ڈان نیوز کے ایک رپورٹ کے مطابق 70 ہزار کے قریب ہزارہ برادری کے لوگ 2002 سے 2018 کے درمیان تک کوئٹہ سے باہر ہجرت کر چکے ہیں ۔ ہیومن رائٹس کمیشن اف پاکستان کے ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سال 2009 سے 2014 کے درمیان تک 1 ہزار افراد کے قریب ہزارہ قوم کے لوگ دہشگردی کے شکار ہوئے ۔

اگر چند دونوں صوبوں میں مذہبی شدت پسند گروہ مقامی اہل تشیع کی قتل و غارتگری کی جواز ایرانی پراکسی سے جوڑتے رہے ہیں لیکن جنرل ضیاء الحق اور علامہ عارف حسین الحسینی جس طرح دنوں اتحادی تھے بلکل آج بھی پاکستانی اشرافیہ اور ایرانی اشرافیہ کچھ معاملوں کے حوالے سے نزدیک اور اتحادی ہے ۔

ایک مرتبہ پھر گزشتہ روز پارہ چنار سے پشاور جانے والے مسافر بردار گاڑیوں پر مسلح نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 42 افراد کے قریب جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ بظاہر مذہبی فرقہ وارنہ دیکھائی دیکھنے والا یہ واقعہ دونوں اتحادی اشرفیوں کا وسیع تر مفادات کیلئے آپسی کھیل بھی ہو سکتا ہے ۔

کیونکہ رواں سال کوئٹہ میں جلوس عاشورہ کے مواقعے پر بھی کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیموں کے جھنڈے نامعلوم افراد کی جانب سے بر آمد کرنے کی کوشش کی گئ تھی ۔ تا کہ اس سے صوبہ میں مذہبی فرقہ واریت اور شدت پسند مذہبی گروہوں کا جواز فراہم ہو جائے ۔ اس سلسلے میں ہزارہ سیاسی کارکنوں کی جانب سے اس پر شدید رد عمل آئی ۔ اس فعل کی عوام نے بھی شدید ردعمل دیکھتے ہوئے مذمت کی ۔
اور اگلے ہی چند ماہ بعد کوئٹہ کے ایک نجی ہوٹل میں لاہور سے در آمد شدہ ایک متنازعہ اور ایرانی پراکسی ملا کو سرکاری سرپرستی میں پروٹوکول دیا گیا ۔ جس سے اس بات میں وزن پیدا ہوتی ہے کہ عاشورہ والے دن کالعدم جھنڈوں کا بر آمد ہونے کی کوشش ایرانی اور پاکستانی اشرافیہ کی آپسی ملی بھگت سے ہوئی تھی ۔ اس بات کو وزنی مقامی قوم پرست سیاسی حلقوں کی خاموشی سے ہوتی ہے ۔

تا ہم ایک علمی سیمنیار میں کویٹہ سے ایم ڈبلیو ایم کے رہنما ملا حسنین نے کالعدم جماعتوں کے جھنڈوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ۔ اور نجی ہوٹل کے سیمنار میں بھی غائب رہے جبکہ اس کے مقابلے میں شیعہ علماء کونسل کے رہنما اس سرکاری سیمنار میں شریک تھے ۔

باز ہزارہ سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ بیس سالہ قتل عام کے دوران ایم ڈبلیو ایم کا بد نام ہونے کے بعد سرکار نے اپنا روایتی پتہ شیعہ علماء کونسل کو کوئٹہ میں مختلف ناموں اور بیانیوں کے ساتھ لانچ کر دی ہے ۔

ماہرین کے مطابق مذہبی شدت پسند گروہوں سے پاکستانی اور ایرانی اشرافیہ کو حقیقی طور پر زیادہ نقصان کا سامنا نہیں ہوتا جبکہ قوم پرست مسلح تنظیمیں دونوں کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

اس لیے کچھ سازشی تھیوریوں کے تحت یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ قوم پرست مسلح کالعدم جماعتوں کی بیخ کنی کرنے کیلئے بھی اس خطے میں نام نہاد مذہبی شدت پسندی کو پیدا کیا جاتا رہا ہے ۔

مشرقی وسطیٰ میں جاری جنگ کو ایک مرتبہ پھر موجودہ
موجودہ خطے میں منتقل کیا جا سکتا ہے کیونکہ سرد جنگ کے دوران یہ عالمی قوتوں کا روایتی میدان جنگ رہا ہے ۔
ایران اور اسرائیل سرد جنگ اب گرم جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ ایرانی سرکار نے اسرائیل کی مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے انسانی پراکسی لشکروں کا سہارا لینے کا اعلان کر چکے ہیں ۔

لبنان محاز پر مسلسل عرب جنگجووں کی شکست اور کمی کو پورا کرنے کیلئے دنیا بھر سے پراکسی وہاں منتقل کرنے کی ایران کا آزمودہ نسخہ ہو سکتا ہے ۔ جس کی جواب بھی امریکہ اور اسرائیل انسانی خام مال بر امد کرنے والوں پر زندگی تنگ کرکے ایرانی انسانی ایندھن کی راہ بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

دریا سندھ سے دریا کابل کے درمیان تک مذہبی شدت پسندی امریکہ ، پاکستان اور ایران کا اپنا پیدا کردہ کارنامہ ہے ۔
کوئٹہ میں مقیم اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہزارہ قوم کیلئے بہتر ہے کہ وہ وکٹ کے چاروں طرف کھیلنے کے بجائے آئین کا چھتری مضبوطی سے تھامے اور ہر قسم مذہبی سیاست سے گریز کرتے ہوئے مذہبی جواز فراہم کرنے والوں کا سیاسی قلع قمع کریں ۔

اور یہ بات بھی ضرور یاد رکھیں کہ خطے میں جغرافیائی تبدیلی سے قبل ہمیں اپنی سرنوشت کیلئے اپنی منزل کا انتخاب کرنا چاہیے بصورت دیگر اجتماعی قتل عام یا جبری ہجرت کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے ۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ۔

Reference:
Dawn Newspaper Article.
The Guardian Newspaper
Human Rights Commission of Pakistan
پاکستانی جماعتیں اور غیر ملکی فنڈنگ ۔ زبیع اللہ بلگن
پاکستان میں فرقہ واریت کی تاریخ ۔ حمزہ علوی ۔
The Ghost War By Steve Coll
The Creation of Muslim League 1906.
The New Great Game from Gilgit - Baldistan to Gawadar From kaka khail.

نام کتاب " دوختر وزیر " مصنف : ڈاکٹر للیاس ہملٹن ترجمہ نگار : اشفاق بخاری تبصرہ : جے ایم ہزارہ کتاب  " دوختر وزیر " ایک ...
22/12/2023

نام کتاب " دوختر وزیر "
مصنف : ڈاکٹر للیاس ہملٹن
ترجمہ نگار : اشفاق بخاری
تبصرہ : جے ایم ہزارہ

کتاب " دوختر وزیر " ایک ناول استہ ، کی دہ بارے بیست ومنہ صدی " جنگ ھای کی منے قوم دلیر ھزارہ و قابض افغان ھا شدہ بیان شدہ ۔ ای ناول را یک انگریز ڈاکٹر و مصنفہ ڈاکٹر للیاس ہملٹن نوشتہ کدہ ۔ وہ خود شی دہ سال 1890 از شہر کلکتہ بنگال ہندوستان دہ کابل مورہ ۔ و تقریباً 6 سال زیاد وہ دہ کابل مومنہ ۔ ای انگریز خاتون ذاتی طور پر علاج و معالجہ " ملعون افغان بادشاہ عبدالرحمن " را ام موکد ۔

ای نوشتہ ازی باری اول دہ زبان انگریزی دہ سال 1900 چھاپ شد ، ازو باد ای کتاب " دوختر وزیر" ام دہ فارسی ھزارگی و ہم دہ اردو ترجمہ شدہ ۔

از انگریزی ایرا دہ اردو اشفاق بخاری ترجمہ کدہ ۔ کی خود مترجم استاد دانشگاہ در شعبہ زبان اردو بودہ ۔

کتاب دوختر وزیر از نام شی معلوم موشہ کی دہ باری دوختر وزیر ہی گب زدہ شودہ ، وزیر نام شی غلام حسین ہزارہ استہ کی یک از وزیر ھای امیر ھزارہ قوم استہ کی خلاف افغان قابض بادشاہ تا آخری حدود زندگی خو مبارزہ مونہ ۔
ای وزیر بیسار ادم قابل و فامیدہ و سر خلاص استہ ۔ و دوختر ازی نام شی استہ " گل بیگم ہزارہ " کی منے کتاب دوختر وزیر مخاطب شدہ ۔ وزیر دوختر خورہ ام بیسار بہترین تربیت مونہ ۔

زمانے کی افغان قابض فوج بلے ھزارستان حملہ آوار موشہ ، افغان قابض قوم را انگریز ھا مکمل پیسہ ، نفری و اسلحہ میدہ ، بیسار دہ تعداد کلان " ماہر نشانہ باز " کی انگریز استہ قد افغان فوج یک جای شدہ حملہ بلے ھزارستان مونہ ۔
ڈاکٹر للیاس ہملٹن نوشتہ کدہ کی مردم ھزارہ از صد ھا سال ازاد بطور قبائلی بلے سرزمین ھای خو زندگی موکد ۔ وقتی کی قابض افغان بادشاہ کوشش مونہ ھزارہ ھا تسلیم شونہ ، و ٹیکس بیدہ ، ونجی ھزارہ ھا از تسلیم شدو انکاری موشہ و تا آخری حدود را از سرزمین خو دفاع مونہ و جنگ مونہ ۔

از خاطر جنگ وزیر غلام حسین ھزارہ دوختر خورہ گل بیگم ھزارہ را از منطقے خود خو دہ جائ دیگہ رای مونہ ، تا کی خدا نخواستہ ناموس باد از جنگ دہ دست دشمن نرہ ۔
لیکن بالا آخر گل بیگم ھزارہ بادی ازی کی دہ جنگ ھزارہ ھا دوچار مسائل موشہ ، بطور جنگی قیدی کابل بور دہ موشہ ۔

گل بیگم ھزارہ انتہائی ہوشیار و عقل مند دوختر استہ ، دہ ہر جائ خود خورہ بچاو مونہ ، و تا آخری وقت را کوشش مونہ کی واپس دہ ھزارستان بایہ از کابل ،

منے ازی ناول چند بہترین صفات ھای گل بیگم ھزارہ را ام تذکرہ شودہ مثلآ " یک جائ کی دیگہ کی جنگی قیدی ھا گل بیگم ھزارہ را موگہ از مالکن برای خو نو کالا بیخایو ۔ انجی گل بیگم ھزارہ موگہ ما دہ نو کالا ضرورت ندروم ، ما دہ آزادی ضرورت دروم ۔

گل بیگم ھزارہ انتہائی آزاد پسند و خود دار دوختر استہ ۔ امزو خاطر تا آخری قطرے خون خو کوشش مونہ کی آز غلامی آزاد شونہ ۔

ای کتاب " دوختر وزیر " سیاسی ، معاشی و فرہنگ حالت امزو وقت و جنگ ھای منے فرزندانِ ھزارستان را قد قابض افغان ھا را بیسار دہ بہترین انداز احاطہ کدہ ۔ کلان ترین خوبی ازی کتاب اینی استہ کی نوشتہ گر ازی دہ امو زمان خود شی دہ کابل موجود بودہ ، و ہر چیز را کی ہوش کدہ امورہ نوشتہ کدہ ۔ یعنی پرائمری سورس امی خود شی بودہ ۔

و شودہ میتنہ کی بطور سند ازی کتاب استفادہ شونہ ، چون ظلم ھای کی قابض افغان سامراج باد از جنگ ھا قد مردم ھزارستان کدہ وہ غیر انسانی و زد قوانین جنگی بودہ ، کی تذکرے ازی منے ازی کتاب ام شودہ ۔

منے ازی کتاب مصنفہ کوشش کدہ کم و بیش وجوہات شکست مردم ھزارستان را ام بیان کنہ ، مثلآ یک از وجوہات شکست مردم ھزارستان ای بودہ بقول مصنفہ کی مردم ھزارستان مطابق امزو زمان و مکان اپڈیٹ نہ بودہ ،
اسلحہ ھای مردم ھزارستان روایتی بودہ ، جبکہ دہ مقابلے مردم ھزارستان افغان قابض فوج منظم و مکمل حمایت انگریز ھا را دشتہ بودہ ۔ یک ہم وجہ شکست ای ام بودہ کی افغان قابض فوج را انگریز ، نفری ، پیسہ و اسلحہ مسلسل کمک موکد ۔

دوئم منے ازی کتاب منظر کشی یک جاہل و پسماندہ قبائلی معاشرہ را ام کدہ کی منے معاشرے قد خواتین بیسار امتیازی سلوک ھا موشدہ بودہ ۔ و احساس بیگانگی را ام منظر کشی شی شدہ کی مختلف قبیلے ھزارہ ھا قد یک دیگے خو بیگانہ بودہ ، یعنی دہ نام قبیلہ اینا تقسیم در تقسیم بودہ ۔

مرکزی نقطہ ازی کتاب را کی ما فامیدوم وہ استہ کی ناول مکمل مکمل بلے جہد مسلسل و آزادی و خودمختاری مشتمل استہ ۔ ای ناول یک طرف ظلم و ستم ھای قابض افغان ھا را قد مردم ھزارستان نشان میدہ ، جبکہ دویم طرف ای وجوہات شکست را بیان مونہ ، سویم چیز عزم و ہمت ھزارہ ھا را نشان میدہ کی تا آخری حدود را از مادر وطن خو دفاع مونہ و حد تا یک دوختر کی نام شی گل بیگم ھزارہ استہ بے انتہا آزادی پسند و نفرت از غلامی مونہ ، چہارم چیز کی ای ناول بیان مونہ وہ ای استہ کی جنگ منے قابض افغان ھا و مردم ھزارستان از خاطر آزادی و خودمختاری ھزارہ ھا استہ ۔

برای کی اگو کس بوفامہ مسلہ ھزارہ ھا قد افغان ھا چی استہ ، بیسار لازم استہ کی ای کتاب را مطالعہ کنہ ، چون افغان ھا ایک قابض اجنبی طاقت استہ جبکہ ھزارہ ھا از خاطر دفاع مادر وطن خو جنگ مونہ ، و ای جنگ تا امروز را ام ادامہ درہ ۔ بلخصوص ای کتاب را مطالعہ برای ہر زن و دوختر ھزارہ مانندہ " نان خوردو " وری لازمی استہ کی مطالعہ کنہ ۔ چون واقعین ہمت و آزاد پسندی گل بیگم ھزارہ یک بہترین نمونہ برای نسل جدید و خواہران عزیز ازمو استہ ۔

ہزارہ کلچر ڈے ! تحریر از جان محمد ہزارہدنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جس کا اپنا کوئی کلچر نہ ہو اور نہ ہی کوئی کلچر قوم کے...
17/05/2023

ہزارہ کلچر ڈے !
تحریر از جان محمد ہزارہ

دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جس کا اپنا کوئی کلچر نہ ہو اور نہ ہی کوئی کلچر قوم کے بغیر وجود رکھتی ہیں۔ محکوم قوموں کیلئے کلچر ایک ہتھیار ہوتی ہیں کہ جس کے زریعے سے وہ قابض کے خلاف مزاحمت کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرتی ہیں ۔ کلچر سے ہی قوموں کی شناخت ہوتی ہیں ۔
اج ایک ایسے دور میں جب ہزارہ قوم انتہائی بحرانوں کا شکار ہیں ، کلچر کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔
کیونکہ
نسل خطرے میں ہے ۔
شناخت خطرے میں ہے ۔
تاریخ خطرے میں ہے ۔
زبان خطرے میں ہے ۔
قومی وقار خطرے میں ہے ۔
فرہنگ خطرے میں ہے
ہزارہ خطرے میں ہے اور ہزارستان خطرے میں ہیں۔

سامراجی طاقتوں کا پہلا حملہ محکوم قوموں کی کلچر پر ہوتی ہیں ۔ جب نازی جرمنی کے معروف پروپیگنڈا وزیر گوئبلز نے کچھ لوگوں کو ثقافت کے بارے میں گفتگو کرتے سنا تو غصے میں اکر پستول نکالا اور ان سب کو قتل کر ڈالا ، کیونکہ استعماری طاقت کے خلاف مزاحمتی عمل میں ثقافت کا کردار انتہائی اہمیت کے حامل ہوتی ہیں ۔

ثقافت کا بنیادی تعلق سرزمین سے ہوتی ہیں۔ ثقافت کو سیاست اور معیشت سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ نسل ، شناخت ، تاریخ ، زبان ، قومی وقار ، فرھنگ اور ہزارہ کے بعد آخر میں ہزارستان خطرے میں ہے کا ذکر اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ جب تک ہزارستان کو نہیں بچایا جائے گا اس وقت تک ( نسل ، تاریخ ، زبان ، شناخت، قومی وقار ، اور ہزارہ ) تمام چیزوں کو نہیں بچایا جاسکتا ہیں۔

افغان سامراج نے ہر دور میں یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ ہماری کلچر کو مسخ کرئے ، ہمیں افغان ملت میں ضم کریں ، چونکہ ہزارستان افغانیوں کیلئے ایک نوآبادیاتی ہے ۔ سامراجی بالا دستی کی بنیاد زیر دست سماج کی پیدوار قوتوں کو پسماندہ رکھنا ہوتی ہے ۔ اس کے زریعے عوام کو اپنی مخصوص تاریخی ترقی کے عمل کو روکا جاتاہے ۔ کسی بھی سماج میں پیداواری قوتوں کی ترقی کو سمجھنا در اصل اس سماج کے تمام پہلوں کو سمجھنے کا نام ہے ۔

پیداواری قوتوں کی ترقی کا تعلق ثقافت سے ہے ۔ چونکہ ہزارستان افغانیوں کیلئے ایک نو آبادیاتی ہے اس لئے تمام قوت پیداوار پر افغان قابض ہے اسی لیے ثقافتی لحاظ سے ہزارہ کافی کمزور نظر آتے ہیں۔

ثقافت کی اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا ۔ لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنا ہوگا کہ نو آبادیاتی نظام میں محکوم قوموں کی ثقافت بھی مسخ کی جاتی ہیں اور چی گویرا کے بقول جب غلاموں ، قابضوں اور ظالموں کیخلاف بغاوت نہیں کی جاتی ہے تو غلامی قوم کا کلچر بنتی ہیں ۔ چونکہ ہزارستان افغان نو آبادیاتی ہے لہذا نو آبادیاتی کلچر کی شناخت اور بیخ کنی اور کلچر کو بطور ہتھیار آزادی کیلئے استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہیں۔

ہزارہ کلچر کو ہزارستان کی آزادی کے بغیر نہیں بچایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو دنیا کے سامنے اس کی حقیقی چہرے کی مناسبت سے پیش کیا جاسکتا ہے ۔

غلامی میں رہتے ہوئے کلچر منانے کا مقصد کسی قومی ننگ سے کم نہیں ہے ۔ تاج برطانیہ کے احکام اعلیٰ جب ہندوستان کے دورے پر آتے تھے تو وہ مقامی لوگوں کو کہہ دیتے کہ وہ اپنی قومی لباس میں ملبوس ہو کر ان کا استقبال کریں۔

مقامی محکوم لوگ خوش ہوتے کہ وہ اپنی قومی لباس میں برطانیہ کے اعلیٰ حکام کے سامنے ہونگے جبکہ در اصل انگریز سامراج انہیں نفسیاتی طور پر شکست دینے کیلئے انہیں ان کے قومی لباس پہنا کر غلامی کرواتے تا کہ ان میں اور مقامی لوگوں میں واضح فرق ہوں اور یہ تصور دیا جائے کہ وہ تہذیبی طور پر انگریزوں سے کم تر ہیں۔

ایسے موقعے پر وہ مقامی لوگوں کو انگریزی لباس کے ساتھ ان کی استقبال سے منع کرتے کیونکہ اس سے وہ سب برابر نظر آئینگے ۔ یہ اور بھی خطرناک ہوگا کہ ہم اپنی قومی لباس ، زبان ، اور ثقافت کو اختیار کرتے ہوئے غلامی کریں کیونکہ جب غداروں ، قابضوں اور ظالموں کے خلاف بغاوت نہیں کیا جاتا تو غلامی کلچر بن جاتی ہیں۔ لہذا ہمیں کلچر ڈے مناتے ہوئے اپنی نئ نسل کو غداروں ، قابضوں اور ظالموں کے خلاف بغاوت اختیار کرنا سیکھنا چاہیے ۔

کلچر انسانوں کا تخلیق کردہ ہوتی ہیں ۔ کلچر ایک متحرک عمل ہوتی ہے ۔ اور نئ کلچر اختیار کیا جاسکتا ہیں۔ اگر کوئی ہزارگی ، ٹوپی ، شال ، اور ہزارگی زبان میں کسی کی غلامی کررہا ہوں تو یہ اور بھی خطرناک اور قومی ننگ ہوگی ۔ چونکہ ہم اس وقت غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں لہذا ہمیں کلچر ڈے اس طریقے سے منانے کی اشد ضرورت ہے کہ افغان سامراج کے خلاف اور ہزارستان کی آزادی کیلئے نوجوان نسل کو امادہ کیا جاسکے۔ اگر کلچر ڈے کی منانے سے ہم ہزارستان کی آزادی کے قریب نہیں ہورہے ہیں تو وہ یقیناً غلامی کا کلچر ہے ۔ کیونکہ جس طرح

" ملا کو جو ہے ہزارستان میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ ہزارہ ہے آزاد ،

ٹھیک کلچر ڈے والے بھی غلامی کا کلچر منانا کر خود کو ازاد خیال کریں گے جس سے نئ نسل گمراہی میں مبتلا ہوسکتی ہیں۔

17/03/2022

اہم پریس کانفرنس ۔
وزیر اعلی بلو چستان میر قدوس بزنجو اور مشیر داخلہ ضیاء لانگو اہم پریس کانفرنس کر رہے ہیں ۔

قزاقستان کے وزیر اعظم نزر بایوف  عوامی احتجاج کے بعد مستعفی ہوگئے۔
06/01/2022

قزاقستان کے وزیر اعظم نزر بایوف عوامی احتجاج کے بعد مستعفی ہوگئے۔


06/01/2022

کوئٹہ کے ایک پشتون تاجر حاجی رازق بڑیچ نے مدینہ مسجد کراچی کو بچانے کےلئے میدان میں آگیا۔

50 کروڑ روپے دینے کے لئے تیار ہوں لیکن مسجد کو شہید نہ کیاجائے.

• ‏اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹی وی چینلز کو آڈیو /وڈیو لیک چلانے سے منع کردیا• پیمرا نے ٹی وی چینلز کو مراسلہ جاری کر دیا. ...
06/01/2022

• ‏اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹی وی چینلز کو آڈیو /وڈیو لیک چلانے سے منع کردیا

• پیمرا نے ٹی وی چینلز کو مراسلہ جاری کر دیا.


استحکام اور مستقل بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے• ایس، ایس، پی ٹریفک کوئٹہ کیپٹن (ر) شیرعلی ہزارہ نے کالے شیشوں والی گاڑیوں،...
05/01/2022

استحکام اور مستقل بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے

• ایس، ایس، پی ٹریفک کوئٹہ کیپٹن (ر) شیرعلی ہزارہ نے کالے شیشوں والی گاڑیوں، پرائیوٹ گاڑیوں پر سرکاری نمبر پلیٹوں، پولیس سائرن و بوسٹر کو پرائیوٹ گاڑیوں پر لگانے کیخلاف زبردست اقدامات سے شہر میں عوام کا اعتماد بحال اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں حوصلہ شکنی ہوئی ہے،

• آئی جی پولیس بلوچستان بہتر کارکردگی کی بنیاد ایس، ایس، پی ٹریفک کوئٹہ کیپٹن (ر) شیرعلی کو حسن کارکردگی پر تعرفی اسناد سے نوازیں تاکہ شہر میں ٹریفک مزید بہتری کیجانب جائے اور اس میں مستقل بنیادوں پر بہتری آئے۔


وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کابینہ کے فیصلہ پر عملدرآمد کروائیں۔ عبدالمالک کاکڑ صدر بلوچستان سول سیکرٹریٹ آفیس...
05/01/2022

وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کابینہ کے فیصلہ پر عملدرآمد کروائیں۔

عبدالمالک کاکڑ
صدر بلوچستان سول سیکرٹریٹ آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن۔

سیکرٹریٹ کیڈر کے مسئلہ پر کابینہ کا واضح فیصلہ آچکا ہے عملدرآمد کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

وزیراعلی میر عبدالقدوس بزنجو سول سرونٹ کو ذاتی ملازم سمجھ کر تعیناتیاں کر رہے ہیں۔ عبدالمالک کاکڑ

سول سرونٹ ریاست کا ملازم ہے کسی سیاسی حکومت یا سیاسی جماعت کا نہیں۔ عبدالمالک کاکڑ

سول سروس میں سیاسی مداخلت، آئین کی خلاف ورزی ہے۔

سول سروس کی بنیاد قانون اور آئین ہے۔ انحراف معاشرے میں انارکی کا سبب بنتا ہے اور ادارے کمزور ہوتے ہیں۔

ایماندار اور پریشر میں نہ آنے والے آفیسرز کو OSD کیا جا رہا ہے۔ عبدالمالک کاکڑ

گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی کے لیے ایماندار، باکردار اور مضبوط بیوروکریسی کی ضرورت ہے۔

پوسٹنگ ٹرانسفر سیاسی بنیادوں پر غیر قانونی ہے۔ آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن غیر قانونی اقدام کے خلاف مزاحمت کرے گی۔

وزیراعلی بلوچستان کو بار بار یاد دلا رہے ہیں کہ بی ایس ایس اور بی سی ایس کے مابین شیئر ڈسٹریبیوشن کا مسئلہ ہمارے لیے بنیادی مقصد رکھتا ہے۔


کویٹہ : فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر ) 2019 ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق بلوچستان اسمبلی کے رکن صوبائی مشیر کھیل و ثقافت ...
05/01/2022

کویٹہ : فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر ) 2019 ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق بلوچستان اسمبلی کے رکن صوبائی مشیر کھیل و ثقافت عبدالخالق ہزارہ نے دس لاکھ 42 ہزار رقم ٹیکس ادا کیے۔


کوئٹہ، نیشنل پارٹی کے سربراہ و سابق وزیراعلی بلوچستان کی پریس کانفرنس کوئٹہ، معدنیات 18 ویں ترمیم سے پہلے صوبوں کے ہیں، ...
05/01/2022

کوئٹہ، نیشنل پارٹی کے سربراہ و سابق وزیراعلی بلوچستان کی پریس کانفرنس

کوئٹہ، معدنیات 18 ویں ترمیم سے پہلے صوبوں کے ہیں، ڈاکٹر مالک بلوچ

کوئٹہ، ریکوڈک پر 1994 میں پہلے معائدے میں 25 فیصد بغیر انوسٹمنٹ صوبے کا حصہ تھا

کوئٹہ، بعد میں بلوچستان کا حصہ 25 فیصد انوسٹمنٹ کیساتھ کیا گیا، ڈاکٹر عبدالمالک۔بلوچ

کوئٹہ، ان کیمرہ بریفنگ اس معائدے کو مشکوک بنارہا ہے، سابق وزیراعلی بلوچستان

کوئٹہ، ہم بلوچستان حکومت کے ان کیمرہ بریفنگ کو مسترد کرتے ہیں، سابق وزیراعلی بلوچستان

کوئٹہ، گوادر سے متعلق معائدوں کے پروپیگنڈہ کی مذمت کرتا ہوں، ڈاکٹر مالک

کوئٹہ، کسی ایک معائدے پر میرے دستخط ہوں تو قصوار ہوں، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

کوئٹہ، دو معائدے ہوئے وہ وفاقی حکومت نے کئے تھے، ڈاکٹرعبدالمالک

کوئٹہ، نیشنل پارٹی ملک بھر میں ریکوڈک بچاو تحریک چلائےگی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

کوئٹہ، موجودہ حکومت سے درخواست کا یہ معائدہ نہ کرے، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ
کوئٹہ، حکومت معائدے کے مندرجات کو پبلک کیا جائے، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

کوئٹہ، بلوچستان حکومت عوام کو اس معائدے پر اعتماد میں لے، سابق وزیراعلی بلوچستان

کوئٹہ، بند کمرے میں معائدے نہیں ہونا چاہیئے، ڈاکٹر مالک

کوئٹہ، ڈنڈے اور بندوق کے زور پر فیصلے کروائے جاسکتے ہیں دلوں کو نہیں جیتا جاسکتا ہے، ڈاکٹر مالک

کوئٹہ، بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے رولز بار بار تبدیلی کرکے ٹی تھیان کمپنی کو فائدہ پہنچایا، ڈاکٹر مالک بلوچ

کوئٹہ، ریکوڈک کی بدقسمتی تب شروع ہوئی جب سپریم۔کورٹ نے معائدہ منسوخ کرنے کا فیصلہ دیا، ڈاکٹر مالک بلوچ

کوئٹہ، انٹرنیشنل کورٹ کیس کے دوران بطور وزیراعلی 16 دن تک سماعتوں میں جاتا رہا، سابق وزیراعلی

کوئٹہ، 93 میں مائننگ کا لائسنس دیا گیا بعد میں پتا چلا ایک لاکھ ایکڑ زمین 80 کروڑ میں کمپنی کو بیچا گیا ہے، ڈاکٹر مالک بلوچ

کوئٹہ، ابھی ریکوڈک کی جو صورتحال آئی ہے یہ خوفناک ہے، ڈاکٹر مالک بلوچ


• بلوچستان اسمبلی کےکس رکن نےکتنا ٹیکس دیا، تفصیلات سامنے آگئیں• فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے 2019 میں...
05/01/2022

• بلوچستان اسمبلی کےکس رکن نےکتنا ٹیکس دیا، تفصیلات سامنے آگئیں

• فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے 2019 میں اراکین بلوچستان اسمبلی کی جانب سے جمع کرائے گئے ٹیکس کی تفصیلات سامنے آگئیں۔

• ایف بی آر کی 2019 کی ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق صوبائی مشیر اکبر اسکانی ایک کروڑ 33لاکھ روپے ٹیکس ادا کرکے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے رکن اسمبلی ہیں، سابق وزیر اعلیٰ جام کمال نے 1 کروڑ 17 لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا اور وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے دس لاکھ 61 ہزار روپے ٹیکس دیا۔

• رکن اسمبلی عارف جان محمد حسنی نے سب سے کم دو لاکھ 69 ہزار، اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے 8 لاکھ 78 ہزار روپے کا ٹیکس دیا ، سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے 3 لاکھ 43ہزار روپے، سابق وزیر اعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری نے پانچ لاکھ 81 ہزار روپے کا ٹیکس ادا کیا ۔

• رکن اسمبلی حمل کلمتی نے 28 لاکھ 84 ہزار روپے، سکندر عمرانی نے 21 لاکھ 10 ہزار روپے، سردار عبدالرحمان کھیتران نے 12 لاکھ 43ہزار روپے ، مٹھا خان کاکڑ نے گیارہ لاکھ 57 ہزار روپے، نواب زادہ طارق مگسی نے دس لاکھ 99 ہزار روپے ، عبدالخالق ہزارہ نے دس لاکھ 42 ہزار روپے کا ٹیکس ادا کیا ۔

• رکن اسمبلی عبدالواحد صدیقی نے چھ لاکھ 46 ہزار روپے، احمد نواز نے چھ لاکھ 53 ہزار روپے ، اختر حسین لانگو نے چھ لاکھ 62 ہزار روپے ، اسد اللہ بلوچ نے سات لاکھ 60 ہزار روپے ، اصغر علی ترین نے سات لاکھ 81ہزار روپے، بشرٰی رند نے سات لاکھ 92 ہزار روپے کا ٹیکس ادا کیا۔

• ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے چھ لاکھ 73 ہزار روپے ، نوابزادہ گہرام بگٹی نے پانچ لاکھ 94 ہزار روپے ،،اسپیکر بلوچستان اسمبلی جان محمد جمالی نے چھ لاکھ 40 ہزار روپے ، ماہ جبین شیران نے چار لاکھ بیس ہزار روپے ، مستورہ بی بی نے پانچ لاکھ 39 ہزار روپے کا ٹیکس ادا کیا۔

• میر نعمت اللہ زہری نے پانچ لاکھ 68 ہزار روپے ، میر ضیاء اللہ لانگو نے چھ لاکھ 39 ہزار روپے ، مبین خان خلجی نے پانچ لاکھ44ہزار روپے ، محمد نواز نےپانچ لاکھ66ہزار روپے ،سردار صالح محمد بھوتانی نے سات لاکھ 86 ہزار روپے ،نصر اللہ زیرے نے چھ لاکھ 52 ہزار روپے ، نور محمد دومڑ نے نو لاکھ 13 ہزار روپے، مولوی نور اللہ نے پانچ لاکھ 99 ہزار روپے ، سلیم احمد کھوسہ نے 8 لاکھ 26 ہزار روپے، سردار یار محمد رند نے پانچ لاکھ 96 ہزار روپے، سردار سرفراز چاکر ڈومکی نے سات لاکھ 29 ہزار روپے، شام لعل لاسی نے 6 لاکھ 24 ہزار روپے ،سید احسان شاہ نے 7 لاکھ 81 ہزار روپے ، ٹائٹس جانسن نے6 لاکھ 36 ہزار روپے اور عمر خان جمالی نے 8 لاکھ95 ہزار روپے کا ٹیکس ادا کیا ۔

• رکن اسمبلی یونس عزیز زہری نے چھ لاکھ 57 ہزار روپے ، زابد علی ریکی نے پانچ لاکھ 14 ہزار روپے ،ظہور احمد بلیدی نے چھ لاکھ 54 ہزار روپے ،زمرک خان اچکزئی نے 8 لاکھ 89 ہزار روپے کا ٹیکس ادا کیا۔

• بلوچستان اسمبلی کے 44 اراکین اسمبلی کے نام ٹیکس ڈائریکٹر ی میں شامل ہیں جب کہ 21 اراکین اسمبلی کے نام ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرنے کے باعث ٹیکس ڈائریکٹری میں شامل نہیں کیے گئے*


• وفاقی حکومت کے تعاون سے بلوچستان میں میگا پروجیکٹ پر کام جاری ہے، نور محمد دمڑ اسلام آباد/کوئٹہ: سینئرصوبائی وزیرخزانہ...
05/01/2022

• وفاقی حکومت کے تعاون سے بلوچستان میں میگا پروجیکٹ پر کام جاری ہے، نور محمد دمڑ

اسلام آباد/کوئٹہ: سینئرصوبائی وزیرخزانہ حاجی نور محمد خان دمڑ نے وزیراعظم کی ذاتی دلچسپی اور وفاقی حکومت کی تعاون سے بلوچستان میں بڑے بڑے میگا پروجیکٹ پرکام جاری ہے جوکہ صوبے کی ترقی و خوشحالی کیلئے سنگ میل ثابت ہوگا ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ لاجرز میں وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک سے ملاقات کے دوران بات چیت کرتے ہوئے کیا سنیئر صوبائی وزیر خزانہ حاجی نورمحمد خان دمڑ نے وفاقی وزیر دفاع سے ملاقات کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے منظور کردہ صوبے میں جاری مختلف ترقیاتی منصوبوں، بلوچستان کے بلوچ بیلٹ کی طرز بلوچستان کے،پشتون بیلٹ کے پسماندہ اضلاع کی پسماندگی ختم کرنے کیلئے خصوصی پیکج سمیت مختلف امورپر تبادلہ خیال کیا گیا سنیئر صوبائی وزیر خزانہ حاجی نورمحمد خان دمڑ نے کہاکہ وفاقی حکومت خصوصاََوزیراعظم عمران خان کے ذاتی اور بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے کیلئے بھرپور تعاون اور اقدامات کو سراہتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی حکومت کی تعاون سے بلوچستان حکومت بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے بھرپور اقدامات کررہے ہیں سنیئر صوبائی وزیر حاجی نورمحمد خان دمڑ نے کہاکہ بلوچستان کے ساتھ ماضی کی مرکزی حکومت اور حکمرانوں کی ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک رکھنے کے باعث بلوچستان مسائلستان بناہوا تھا لیکن جب عمران خان برسراقتدار آئے ہے انکی تمام تر توجہ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی پر ہے حاجی نورمحمد خان دمڑ نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان بلوچستان کی پسماندگی اور گوناگوں مسائل سے دوچار اضلاع جس سے ماضی میں ترقی و خوشحالی سے مکمل طورپر محروم رکھا گیا تھا ترقی کیلئے اربوں کے خصوصی پیکج کااعلان کرنے کے بعد پیکج پر عمل درآمد کیلئے وزیراعظم نے خود بھی دورہ کیا ہے اور اب بھی وفاقی وزراء پیکج میں شامل ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کررہے ہیں سنیئرصوبائی وزیر حاجی نورمحمد خان دمڑ نے کہاکہ وفاق کی تعاون سے بلوچستان کے تمام پسماندہ اور ترقی سے محروم اضلاع ترقی و خوشحالی کی راہ پرگامزن ہونگے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے یقین دلایا کہ وفاقی حکومت بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے مزید اقدامات کرنے کے ساتھ بلوچستان کے پشتون بیلٹ کے پسماندہ اضلاع کی ترقی کیلئے بھی جلد خصوصی پیکج کااعلان وزیراعظم کرینگے۔


• حکومت بلوچستان نے حالیہ بارشوں اور برف باری کے پیش نظر تمام متعلقہ محکموں کے آفیسران اور اہلکاروں کی چھٹیاں ایک ہفتے ک...
05/01/2022

• حکومت بلوچستان نے حالیہ بارشوں اور برف باری کے پیش نظر تمام متعلقہ محکموں کے آفیسران اور اہلکاروں کی چھٹیاں ایک ہفتے کیلئے منسوخ کردی۔

• تمام مشینری، خوراک اور دیگر ضروری لوازمات تیار رکھنے کی ہدایات جاری۔

• کمشنر ز اور ڈپٹی کمشنرز کو محکمہ کیلئے پی ڈی ایم اے سے رابطہ کرنے کی ہدایات۔

• ڈویژن کی سطح پر کمشنر اور ضلع کی سطح پر ڈپٹی کمشنر تمام صورتحال کی نگرانی کریں گے اور تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔


• لسبیلہ کے عوام کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے، جام کمال اوتھل:سابق وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ اپنے دور ا...
05/01/2022

• لسبیلہ کے عوام کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے، جام کمال

اوتھل:سابق وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ اپنے دور اقتدار میں بلوچستان سمیت ضلع لسبیلہ میں بے شمار ترقیاتی کام کروائے ضلع لسبیلہ کی عوام نے ہمیشہ عزت بخشی ہے لسبیلہ کی عوام کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑیں گے عوام کے مسائل عوام کی دہلیز پر حل کیئے تھے اور انشا اللہ ہمیشہ کرتے رہیں گے نہ ہم عوام سے دور ہیں اور نہ ہی عوام ہم سے دور ہے یہ پیار محبت خلوص کا رشتہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گا ان خیالات کا اظہار انہوں نے لسبیلہ کے صدر مقام شہر اوتھل میں چیف ٹرائبل سردار غلام فاروق شیخ کی جانب سے دیئے گئے اعشائیہ میں لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا جام کمال خان نے کہا کہ دور اقتدار میں نہ صرف لسبیلہ بلکہ پورے بلوچستان کے عوام کی نیک نیتی سے خدمت کی پختہ سڑکیں،کالجز،اسکولز اور پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ لسبیلہ کے سینکڑوں نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کیئے اور اقتدار ہو یا نہ ہو لیکن عوام کی خدمت کا سلسلہ جاری رہے گا اور ضلع لسبیلہ کی عوام کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑا ہے اور نہ ہی چھوڑیں گے انہوں نے کہا کہ لسبیلہ کی عوام ہمیشہ عزت بخشی ہے جس کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا انشا اللہ ماضی میں بھی عوام کے مسائل ان کے دہلیز پر حل کیئے اور آئندہ بھی عوام کی خدمت کا سلسلہ جاری رہے گا انہوں نے کہا کہ عوام آپس میں پیار محبت یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور اپنے بچوں کو تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کریں جبکہ سابق وزیراعلی بلوچستان نواب جام کمال خان نے سید عبدالحفیظ کاظمی کی خوشدامن اور کامریڈ ولی محمد جاموٹ کے والد کی وفات پر انکی رہائش گاہوں پر جاکر تعزیت و فاتحہ خوانی کیں بعدازاں سابق وزیراعلی بلوچستان نواب جام کمال خان کے اعزاز میں چیف ٹرائبل سردار غلام فاروق شیخ کی جانب سے پرتکلف اعشائیہ دیا گیا جس میں سید عبدالحفیظ شاہ کاظمی،پیر گلا شاہ جیلانی،پیر جمیل شاہ جیلانی،وڈیرہ عبدالستار جاموٹ،میر فتح جاموٹ،سردار عبدالرشید پھورائی،سردار حفیظ رونجھو،سردار علی اکبر آچرہ،غلام محمد عرف گلو جاموٹ،سردار امام بخش مانڈڑہ،ڈاکٹر تولا رام لاسی،وڈیرہ زبیر گجر،پریا مرس اللہ بچایا،وڈیرہ غلام نبی گنگو،پیر فرید شاہ،پیر اسد شاہ،سیف اللہ شیخ،غلام نبی شیخ،پیر غلام نبی شاہ،عبدالرحمن شیخ،سردار زادہ اللہ بخش مانڈڑہ،عطا اللہ مانڈڑہ،مہراللہ مانڈڑہ،عمر لاسی،حق نواز،پی ایس اعجاز علی،وڈیرہ ثنا اللہ جاموٹ،گلا جاموٹ،رمضان جاموٹ،حسین علی جاموٹ،رحیم جیالہ،اصغر نذیر،حنیف صابرہ،رمضان صابرہ،رسول بخش آچرہ،امین پٹھان،امام بخش دودا،مصطفی دودا،وڈیرہ علی محمد گدور،لطیف گدور،گل محمد،رزاق جاموٹ ودیگر شریک ہیں۔


• سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایف سی ساوتھ بلوچستان کی طرف سے امدادی کارروائیاں• ایف سی بلوچستان ساؤتھ کی جانب سے سیلاب س...
04/01/2022

• سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایف سی ساوتھ بلوچستان کی طرف سے امدادی کارروائیاں

• ایف سی بلوچستان ساؤتھ کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں مند، تربت، عبدوئ، جلبانی ، دشت اور بلنگور میں امدادی کارروائیاں زور و شور سے جاری ھیں۔ لوگوں کو نہ صرف محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا بلکہ ان کے لیے خشک راشن کا بندوبست بھی کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا تاکہ متاثرین کو بنیادی طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔

• ایف سی کے ان اقدامات کو مقامی لوگوں اور سول سوسائٹی اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے سراہا گیا۔


گوادر • ایم پی اے گوادر میر حمل کلمتی ، کا ڈپٹی کمشنر آفیس گوادر آمد ڈپٹی کمشنر گوادر کیپٹن ر جمیل احمد بلوچ سے ملاقات ۔...
04/01/2022

گوادر

• ایم پی اے گوادر میر حمل کلمتی ، کا ڈپٹی کمشنر آفیس گوادر آمد ڈپٹی کمشنر گوادر کیپٹن ر جمیل احمد بلوچ سے ملاقات ۔

• اس موقع پر گوادر کے معروف سیاسی و سماجی رہنماء میر ارشد کلمتی بھی موجود تھے

• ملاقات میں حالیہ بارشوں اور طوفانی ہواؤں کے باعث گوادر شہر بری طرح متاثر گوادر کے بیشر علاقوں میں گھروں میں پانی داخل صورتحال سے نمٹنے لیے کے حالات کا جائزہ لیا جا رہا ہے

• نکاسی آب کے لیے باؤزر جرنیٹرز ڈمپر روانہ کر دیے گئے ہیں اور مختلف سرکاری آفیسر ان کو درجنوں جرنیٹر ہنگامی بنیادوں پر خرید کر گھروں سے نکالنے کا عمل شروع کیا جائے گا ۔ میر حمل کلمتی

• جنوبی وسطی میں مختلف علاقے زیر آب آنے کے بعد اسکیوٹرز کے ذریعے راستہ بنا کر پانی کا رُک سمندر کی جانب کیا جارہا ہے ۔ میر حمل کلمتی

• گوادر شہر میں مکمل ایمرجنسی نافذ کر دیا گیا ہے ۔ ڈپٹی کمشنر گوادر

• گوادر کے مختلف ٹینکرز مالکان سے بھی رابطہ کرکے صورتحال کو قابو کرنے کی کوشش جاری ہے ۔ ڈپٹی کمشنر گوادر

• انتظامیہ کے درجنوں آفیسر ان شہر کے مختلف علاقوں میں اس وقت موجود ہیں لوگوں کی مدد جاری ہے ۔ ڈپٹی کمشنر گوادر


Address

Rajshahi Division

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when VOH - Urdu360 posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share