23/11/2024
مذہبی شدت پسندی اور دریا سندھ سے دریا کابل تک کا خطہ !
تحریر از جان محمد ہزارہ ۔
اس وقت پاکستان کو جن مشکلات کا سامنا ہے ۔ ان میں سر فہرست معاشی زوال اور خطے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی ہیں۔ تاریخی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو نو آبادیاتی دور سے لیکر آج تک اس خطے میں سیاسی، معاشی اور سماجی استحکام نہیں آیا ہے ۔ بلخصوص دریا سندھ سے دریا کابل کے درمیان تک جو خطہ ہے نوآبادیاتی دور میں بھی یہاں سب سے زیادہ شورشیں رہی ہیں ۔ اس کے پیچھے بہت سارے عوامل ہو سکتے ہیں ۔ لیکن عالمی قوتوں کی کردار سے اور نہ ہی قومی ، مذہبی و جغرافیائی تنازعات سے انکار کیا جا سکتا ہے ۔ 1947 کے بعد بھی یہاں پر وہی نوآبادیاتی پالیسیاں جاری رہی جس میں تشدد کے زریعے سے اپنی سیاسی مقاصد کا حصول سرفہرست رہتا ہے ۔ تا ہم مذہبی شدت پسندی کا نزول یہاں سرد جنگ کے دوران امریکی ایماء پر وجود میں آئی ۔
ویتنام جنگ کے بعد نام نہاد افغانستان ( بفر زون ) میں امریکہ نے اپنی روایتی حریف کمیونسٹ بلاک کو شکست دینے کیلئے اسلام کا سیاسی استعمال کرنا براہ راست شروع کی ۔ اس تمام کھیل میں مقامی اشرافیہ بھی برابر کے شریک رہے ۔ مذہب کے نام پر سیاست کا آغاز تو 1906 میں ہی برصغیر میں کاشت کیا گیا تھا ۔ لیکن فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے زمانے میں اس کو مزید توانائی عطا کی گی ۔
شیعت کے نام پر سیاست کا آغاز بھی جنرل ضیاء صاحب نے کرائی ۔ چونکہ انہوں نے غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قبضہ جمائے ہوئے تھے لہذا انہوں نے ایک خود ساختہ مذہبی سیاست کی آب یاری کی ۔
ذبیع اللہ بلگن اپنی کتاب پاکستانی جماعتیں اور غیر ملکی فنڈنگ میں لکھتے ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں مسلکی بنیادوں پر سیاست کو فروغ دیا اور شیعت کے نام پر سیاست کا اصل بانی بھی ضیاء الحق صاحب تھے ۔ وہ اس حوالے سے مزید لکھتے ہے کہ چونکہ ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ جماتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کو روندا تھا اور پیپلز پارٹی میں اکثریت کا تعلق مسلکی بنیادوں پر اہل تشیع سے تھا ۔ لہذا پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کیلئے ضیاء الحق نے اس وقت کے ایرانی پراکسی علامہ عارف حسین الحسینی کی مکمل حمایت کر رہے تھے کیونکہ اس سے ضیاء الحق کو دو اہم مقاصد حاصل ہوتے ۔ اول کہ شیعت کے نام پر سیاست سے پیپلز پارٹی کمزور ہوتی ، دوسری پاکستان میں دیگر مسلک کے لوگ اہل تشیع کے خلاف ہو کر خود بخود جناب ضیاء الحق کو مضبوط کرتے اور عرب ریاستوں کی سرپرستی بھی ضیاء الحق کو ملتی کیونکہ عرب اور ایرانیوں کے درمیان ایک جنگ ہمیشہ سے جاری ہے ۔ اور یہی کچھ ہوتا رہا بعد میں فوجی ڈکٹیٹر نے بھی ایم ڈبلیو ایم اور شیعہ علماء کونسل کی بنیاد رکھی ۔
چونکہ علامہ عارف حسین الحسینی کا آبائی علاقہ پارہ چنار تھا ۔ لہذا مذہب کے نام پر وہاں سیاست نے جڑ پکڑنا شروع کیا ۔ ضیاء الحق اور ایرانی حمایت یافتہ علامہ عارف حسین الحسینی دونوں نے ملکر بارہ چنار اور بلخصوص کرم ایجنسی میں مذہبی منافرت کی بنیاد رکھی ۔
در اصل اس مذہبی منافرت کے پیچھے اصل تخلیق کار ایران ، پاکستان اور امریکہ تھے ۔ ایرانیوں نے پارہ چنار کو چھوٹا قم بنایا اور وہاں سے خام مال انسانی شکل میں حاصل کرتے رہے ۔ پاکستانی اشرافیہ نے اسی کو جواز بناتے ہوئے امریکہ سے مزید ڈالر لیتے رہے اور تقسیم کرو حکومت کرو کے پالیسی پر بھی عمل پروا رہے ۔ یہ پروجیکٹ کثیر المقاصد تھے اور پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کے حوالے سے پالیسیاں اکثر کثیر المقاصد ہوتی ہے ۔ اس طرح تینوں کا فائدہ ہوا لیکن سب سے بڑی نقصان کا سامنا عام عوام کو ہوئی ۔
صوبہ سرحد میں سنی مسلک کے مقابلے میں شیعہ مسلک کے لوگ اقلیت میں ہے ۔ اسی نوعیت کے حالت کا شکار کویٹہ میں بھی بلخصوص ہزارہ قوم کے لوگ ہوئے ۔
بلوچستان بھی صوبہ سرحد کی طرح ہمیشہ سے شورشوں کا مرکز رہا ہے ۔ جبکہ موجودہ حالت میں صوبہ سرحد کے مقابلے میں بلوچستان کی اہمیت زیادہ ہے ۔ یہاں نہ صرف مذہبی شدت پسند تنظیمیں اپنی وجود کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ یہاں مسلح قوم پرست نظریات رکھنے والے گروہ بھی شورش کا حصہ ہے ۔
صوبائی محکمہ داخلہ کے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال نومبر کے پہلے عشرے تک بلوچستان میں فائرنگ اور دھماکوں سے 271 افراد جاں بحق جبکہ 590 افراد کے قریب زخمی ہوئے ہیں ۔ سال 2023 میں ٹوٹل 622 واقعات ہوئے تھے تا ہم اس سال نومبر کے پہلے عشرے تک کل 733 واقعات ہوچکے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال بلوچستان میں 17 سے 80 فیصد کے قریب شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے ۔ لیکن 1998 کے بعد 2024 وہ واحد سال ہے جس میں بلوچستان میں فرقہ وارنہ ٹارگیٹ کلنگ ، ہزارہ قوم اور ٹرینوں پر حملے نہیں ہوئے ہیں ۔
اس خطے میں نا امنی کے پیچھے کئ عوامل وجود رکھتی ہے ۔ تا ہم ناگفتہ نہ رہے کہ دریا سندھ سے دریا کابل کے درمیان جو خطہ ہے یہ ایک حوالے سے قدرتی وسائل اور اہم جغرافیائی خدو خال سے بھی مالا مال ہے ۔ پاکستان میں رہی سہی زراعت بھی موسمیاتی تبدیلیوں اور پاک بھارت خراب سیاسی تعلقات کی وجہ سے پہلے جیسی منافع بخش نہیں رہا ہے ۔ لہذا پاکستان کی واحد معاشیات کا انحصار بیرونی ممالک سے امداد اور قدرتی وسائل ہی اب رہا ہے ۔ بیرونی امداد کا واحد جواز تشدد پسندی کے خاتمے سے اکثر یہاں جوڑا گیا یے ۔
پارہ چنار کے اہل تشیع کی طرح بلوچستان اور بلخصوص کوئٹہ شہر میں ہزارہ قوم کے لوگ بھی محاصرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ یہاں پر بھی نام نہاد مذہبی دہشگردی کے بہانے سے مقامی زرایع کے مطابق 3000 سے زائد افراد کا قتل کیا جا چکا ہے اور ڈان نیوز کے ایک رپورٹ کے مطابق 70 ہزار کے قریب ہزارہ برادری کے لوگ 2002 سے 2018 کے درمیان تک کوئٹہ سے باہر ہجرت کر چکے ہیں ۔ ہیومن رائٹس کمیشن اف پاکستان کے ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سال 2009 سے 2014 کے درمیان تک 1 ہزار افراد کے قریب ہزارہ قوم کے لوگ دہشگردی کے شکار ہوئے ۔
اگر چند دونوں صوبوں میں مذہبی شدت پسند گروہ مقامی اہل تشیع کی قتل و غارتگری کی جواز ایرانی پراکسی سے جوڑتے رہے ہیں لیکن جنرل ضیاء الحق اور علامہ عارف حسین الحسینی جس طرح دنوں اتحادی تھے بلکل آج بھی پاکستانی اشرافیہ اور ایرانی اشرافیہ کچھ معاملوں کے حوالے سے نزدیک اور اتحادی ہے ۔
ایک مرتبہ پھر گزشتہ روز پارہ چنار سے پشاور جانے والے مسافر بردار گاڑیوں پر مسلح نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 42 افراد کے قریب جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ بظاہر مذہبی فرقہ وارنہ دیکھائی دیکھنے والا یہ واقعہ دونوں اتحادی اشرفیوں کا وسیع تر مفادات کیلئے آپسی کھیل بھی ہو سکتا ہے ۔
کیونکہ رواں سال کوئٹہ میں جلوس عاشورہ کے مواقعے پر بھی کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیموں کے جھنڈے نامعلوم افراد کی جانب سے بر آمد کرنے کی کوشش کی گئ تھی ۔ تا کہ اس سے صوبہ میں مذہبی فرقہ واریت اور شدت پسند مذہبی گروہوں کا جواز فراہم ہو جائے ۔ اس سلسلے میں ہزارہ سیاسی کارکنوں کی جانب سے اس پر شدید رد عمل آئی ۔ اس فعل کی عوام نے بھی شدید ردعمل دیکھتے ہوئے مذمت کی ۔
اور اگلے ہی چند ماہ بعد کوئٹہ کے ایک نجی ہوٹل میں لاہور سے در آمد شدہ ایک متنازعہ اور ایرانی پراکسی ملا کو سرکاری سرپرستی میں پروٹوکول دیا گیا ۔ جس سے اس بات میں وزن پیدا ہوتی ہے کہ عاشورہ والے دن کالعدم جھنڈوں کا بر آمد ہونے کی کوشش ایرانی اور پاکستانی اشرافیہ کی آپسی ملی بھگت سے ہوئی تھی ۔ اس بات کو وزنی مقامی قوم پرست سیاسی حلقوں کی خاموشی سے ہوتی ہے ۔
تا ہم ایک علمی سیمنیار میں کویٹہ سے ایم ڈبلیو ایم کے رہنما ملا حسنین نے کالعدم جماعتوں کے جھنڈوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ۔ اور نجی ہوٹل کے سیمنار میں بھی غائب رہے جبکہ اس کے مقابلے میں شیعہ علماء کونسل کے رہنما اس سرکاری سیمنار میں شریک تھے ۔
باز ہزارہ سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ بیس سالہ قتل عام کے دوران ایم ڈبلیو ایم کا بد نام ہونے کے بعد سرکار نے اپنا روایتی پتہ شیعہ علماء کونسل کو کوئٹہ میں مختلف ناموں اور بیانیوں کے ساتھ لانچ کر دی ہے ۔
ماہرین کے مطابق مذہبی شدت پسند گروہوں سے پاکستانی اور ایرانی اشرافیہ کو حقیقی طور پر زیادہ نقصان کا سامنا نہیں ہوتا جبکہ قوم پرست مسلح تنظیمیں دونوں کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس لیے کچھ سازشی تھیوریوں کے تحت یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ قوم پرست مسلح کالعدم جماعتوں کی بیخ کنی کرنے کیلئے بھی اس خطے میں نام نہاد مذہبی شدت پسندی کو پیدا کیا جاتا رہا ہے ۔
مشرقی وسطیٰ میں جاری جنگ کو ایک مرتبہ پھر موجودہ
موجودہ خطے میں منتقل کیا جا سکتا ہے کیونکہ سرد جنگ کے دوران یہ عالمی قوتوں کا روایتی میدان جنگ رہا ہے ۔
ایران اور اسرائیل سرد جنگ اب گرم جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ ایرانی سرکار نے اسرائیل کی مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے انسانی پراکسی لشکروں کا سہارا لینے کا اعلان کر چکے ہیں ۔
لبنان محاز پر مسلسل عرب جنگجووں کی شکست اور کمی کو پورا کرنے کیلئے دنیا بھر سے پراکسی وہاں منتقل کرنے کی ایران کا آزمودہ نسخہ ہو سکتا ہے ۔ جس کی جواب بھی امریکہ اور اسرائیل انسانی خام مال بر امد کرنے والوں پر زندگی تنگ کرکے ایرانی انسانی ایندھن کی راہ بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
دریا سندھ سے دریا کابل کے درمیان تک مذہبی شدت پسندی امریکہ ، پاکستان اور ایران کا اپنا پیدا کردہ کارنامہ ہے ۔
کوئٹہ میں مقیم اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہزارہ قوم کیلئے بہتر ہے کہ وہ وکٹ کے چاروں طرف کھیلنے کے بجائے آئین کا چھتری مضبوطی سے تھامے اور ہر قسم مذہبی سیاست سے گریز کرتے ہوئے مذہبی جواز فراہم کرنے والوں کا سیاسی قلع قمع کریں ۔
اور یہ بات بھی ضرور یاد رکھیں کہ خطے میں جغرافیائی تبدیلی سے قبل ہمیں اپنی سرنوشت کیلئے اپنی منزل کا انتخاب کرنا چاہیے بصورت دیگر اجتماعی قتل عام یا جبری ہجرت کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے ۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ۔
Reference:
Dawn Newspaper Article.
The Guardian Newspaper
Human Rights Commission of Pakistan
پاکستانی جماعتیں اور غیر ملکی فنڈنگ ۔ زبیع اللہ بلگن
پاکستان میں فرقہ واریت کی تاریخ ۔ حمزہ علوی ۔
The Ghost War By Steve Coll
The Creation of Muslim League 1906.
The New Great Game from Gilgit - Baldistan to Gawadar From kaka khail.