08/11/2024
اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد کی جانب سے جن عرب ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کیا گیا ان میں مصری، سعودی اور لبنانی عرب سائنسدان شامل تھے - وہ کون تھے اور کیوں مار دیئے گئے ؟
1- ڈاکٹر یحییٰ المشہد
ڈاکٹر یحییٰ امین المشد 1932 میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی زندگی اسکندریہ میں گزاری اور 1952 میں اسکندریہ یونیورسٹی کے شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ کی فیکلٹی سے گریجویشن کیا۔ انہیں 1956 میں نیوکلیئر ری ایکٹر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سوویت یونین بھیجا گیا۔اسکے بعد نیوکلیئر انرجی اتھارٹی کے نیوکلیئر ری ایکٹرز ڈیپارٹمنٹ میں تحقیقی کام تفویض کیا گیا، ڈاکٹر نے اسی حوالے سے 1963 اور 1964 میں ناروے کا سفر کیا، اور پھر اسکندریہ یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی فیکلٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کرنے لگے۔ کالج میں اپنے تدریسی دور کے دوران ڈاکٹر المشد نے 30 سے زیادہ ڈاکٹریٹ کے مقالوں کی نگرانی کی، ان کے نام سے پچاس سائنسی تحقیقی مقالے شائع ہوئے جن میں سے زیادہ تر نیوکلیئر ری ایکٹرز کے ڈیزائن اور جوہری لین دین کو کنٹرول کرنے کے شعبے پر مرکوز تھے۔
1975 کے آغاز میں صدام حسین جو اس وقت عراق کے نائب صدر تھے نے مضبوط عراق کے لئے 18 نومبر 1975 کو فرانس کے ساتھ ایٹمی تعاون کا معاہدہ کیا اور مصری سائنسدان ڈاکٹر یحییٰ المشد کو ملازمت کی پیشکش کی گئی جو اس وقت جوہری پراجیکٹس کے شعبے کے چند ممتاز لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے، المشد نے سائنسی ٹیکنالوجی کی دستیابی کی وجہ سے عراقی پیشکش پر رضامندی ظاہر کی۔
13 جون 1980 کو پیرس کے میریڈین ہوٹل کے کمرہ نمبر 941 میں ڈاکٹر یحییٰ المشد مردہ پائے گئے ان کا سر کٹا ہوا تھا، انکا مقدمہ نامعلوم قاتل کے خلاف درج کیا گیا۔
2- ڈاکٹر سمیرا موسیٰ
ایٹمی ریسرچ میں مصری سائنسدان اور ڈاکٹر علی مصطفی مشرف کی طالبہ تھیں۔ ڈاکٹر سمیرا امریکہ پڑھنے کے لئے گئیں اور تعلیم مکمل کرتے ہی اپنے ملک کو اپنی تحقیق سے فائدہ دینے کے لیے مصر واپس آنے کا ارادہ کیا، کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر سمیرا نے سستے داموں ایٹم بم تیار کرنے کی فارمولیشن کر لی تھی -
اسے امریکہ میں رہنے کی پیشکش ہوئی لیکن اس نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا "ایک پیارا وطن جسے مصر کہا جاتا ہے میرا انتظار کر رہا ہے۔" اپنی واپسی سے چند روز قبل اس نے 15 اگست کو کیلیفورنیا کے مضافات میں جوہری پلانٹس کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کی اور جوہری پلانٹ جو کیلیفورنیا کے مضافات میں تھا کی طرف جاتے ہوئے ایک ناہموار ہائی وے پر اچانک ایک ٹرک نمودار ہوا، جس نے اس کی کار کو زبردست ٹکر سے گہری کھائی میں پھینک دیا۔ ڈاکٹر کی کار کا ڈرائیور چھلانگ لگا کر غائب ہو گیا، تحقیقات سے پتہ چلا کہ ری ایکٹر انتظامیہ نے اسے لینے کے لیے کسی کو نہیں بھیجا تھا۔
3- سائنسدان سمیر نجیب
مصری جوہری سائنسدان سمیر نجیب کو عرب جوہری سائنسدانوں کی نوجوان نسل میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اس نے کم عمری میں ہی قاہرہ یونیورسٹی کی سائنس فیکلٹی سے گریجویشن کی اور ایٹمی فیکیلٹی میں اپنی سائنسی تحقیق جاری رکھی۔ اس کی سائنسی قابلیت کی وجہ سے اسے ایک مشن پر ریاست متحدہ امریکہ میں نامزد کیا گیا جہاں اس نے نیوکلیئر فزکس کے پروفیسروں کی نگرانی میں کام کیا-
اسکی صلاحیت کی وجہ سے اسے امریکہ میں رہنے کی پیشکش کی گئی لیکن اس نے مصر واپس آنے کا فیصلہ کیا۔
ڈیٹرائٹ شہر کی ایک ہائے وے پرڈاکٹر سمیر نجیب کو ایک ٹرک نے کچل کر ہلاک کر دیا اور موقعہ سے فرار ہو گیا - اس قتل کا مقدمہ نامعلوم قاتل کے خلاف درج کر لیا گیا۔
4- ڈاکٹر نبیل القلینی۔
اس سائنسدان کی کہانی بہت عجیب ہے وہ 1975 سے اب تک لاپتہ ہے اس سائنسدان کو جوہری تحقیق اور مطالعہ کرنے کے لیے قاہرہ یونیورسٹی کی سائنس فیکلٹی نے چیکوسلاواکیہ بھیجا تھا۔ اس نے جو جوہری سائنسی تحقیق کی اور سائنسی تجربات سے جو نتائج حاصل کیئے ان کے متعلق تمام چیک اخبارات و میڈیا نے لکھا - اس کے بعد ڈاکٹر نبیل نے یونیورسٹی آف پراگ سے ایٹم فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پیر کی صبح 27 جنوری 1975 کو اس اپارٹمنٹ میں فون کی گھنٹی بجی جہاں ڈاکٹر القلینی ٹھہرے ہوئے تھے، کال سننے کے بعد ڈاکٹر وہاں چلا گیا اور اب تک واپس نہیں آ سکا -
5- ڈاکٹر نبیل احمد فلیفل
نبیل احمد فلیفل ایک نوجوان عرب جوہری سائنسدان تھا جب وہ صرف تیس سال کا تھا تو ایک ایٹمی سائنسدان بن گیا۔
اگرچہ اس کا تعلق مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے "عماری" کیمپ سے تھا، لیکن اس نے ان تمام بیرون ملک کام کرنے کی پیشکشوں کو جو اسے خفیہ طور پر اور ثالثوں کے ذریعے کی گئی مسترد کر دیا - پھر اچانک ڈاکٹر نبیل غائب ہو گئے اور 28 اپریل 1984 بروز ہفتہ ان کی لاش "بیت اُر" کے علاقے سے ملی جس کے متعلق کچھ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ اسے کس نے قتل کیا -
6- ڈاکٹر جمال حمدان
ایک مصری جغرافیہ دان جسے کتاب "دی پرسنالٹی آف مصر" بہت پسند تھی۔ انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی میں فنون کی فیکلٹی میں جغرافیہ کے شعبہ میں استاد کے طور پر کام کیا اور اس دوران ہی کئی کتابیں شائع کیں۔ اس نے مشرقی بلاک کے زوال کی پیشین گوئی اس کے زوال سے 20 سال پہلے کی تھی، اور کتاب "یہودی بشریات" لکھ کر یہ ثابت کیا تھا کہ موجودہ یہودی ان یہودیوں کی اولاد نہیں ہیں جنہوں نے فلسطین چھوڑا تھا-
1993 میں ڈاکٹر کی لاش ملی تھی جس کا نچلا حصہ جھلسا ہوا تھا، جس سے سب کو یقین ہو گیا کہ ڈاکٹرحمدان جھلس کر جاں بحق ہو گیا ہے لیکن گیزا ریجن کے ہیلتھ انسپکٹر یوسف الکندی نے اپنی رپورٹ میں ثابت کیا کہ متوفی گیس کی وجہ سے دم گھٹنے اور جھلسنے کی وجہ سے جانبحق نہیں ہوا -
ڈاکٹر کے قریبی لوگوں کے مطابق اسکی موت کے ساتھ ہی اسکی کچھ کتابوں کے مسودے بھی غائب ہو گئے تھے جنہیں وہ شائع کرنے والا تھا خاص طور پر ان میں ایک کتاب "یہودیت اور صیہونیت" تھی - ڈاکٹر کے اپارٹمنٹ میں لگی آگ ڈاکٹر کی کتابوں اور کاغذات تک نہیں پہنچی تھی جس کا مطلب ہے ان مسودوں کو خود غائب کیا گیا تھا -
آج تک کسی کو ڈاکٹر کی موت کی وجہ معلوم نہ ہو سکی اور نہ یہ پتا چل سکا ہےکہ یہودیوں کے متعلق بتانے والی کتابوں کے مسودے کہاں غائب ہوئے؟
7- ڈاکٹر سلویٰ حبیب
ڈاکٹر سلویٰ حبیب کی کتاب "The Zionist Pe*******on in Africa" جو شائع ہونے والی تھی، اس سے جان چھڑانے کے لیے کافی بڑا جواز تھا۔ دی انسٹی ٹیوٹ آف افریقن سٹڈیز کی پروفیسر سلویٰ حبیب اپنے اپارٹمنٹ میں ذبح شدہ پائی گئی تھیں ، تحقیقاتی ایجینسیوں کی تمام کوششیں اس حادثے کے ذمہ داروں کے بارے میں حقیقت تک پہنچنے میں ناکام رہی ہیں، اس لیے ان کی موت کا معمہ بدستور الجھا ہوا ہے، اگر ہم اس کے سائنسی ذخیرہ کو دیکھیں تو ہمیں سیاسی، اقتصادی اور سماجی سطح پر افریقی ممالک میں صیہونی مداخلت کے بارے میں تقریباً تیس تحقیقی مطالعات ملتے ہیں جن کا جواب دینا کسی صیہونی کے لئے ممکن نہیں ہے -