24/09/2023
بھارت میں شیڈول ورلڈ کپ کے لیے 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کردیاگیا ہے، لیکن کیا اس اسکواڈ میں بعض کھلاڑیوں کو میرٹ پر شامل کیا گیا ہے؟چیف سلیکٹر انضمام الحق کےاس فیصلے پر کرکٹ کے شائقین اس بحث میں الجھ گئے ہیں اوران کی اس اسکواڈ کے حوالے سےکی جانے والی تنقید کچھ غلط بھی نہیں ہے.
آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ کے لیے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی قیادت بدستور بابر اعظم کریں گے اور مینجمنٹ کمیٹی کی مخالفت کے باوجود شاداب خان ان کے نائب ہوں گے جب کہ فاسٹ بولر نسیم شاہ انجری کے باعث ٹیم سے باہر ہوگئے۔ چیف سلیکٹر انضمام الحق کے مطابق نسیم شاہ کی جگہ ’تجربہ کار‘ حسن علی کو شامل کیا گیا ہے، جب کہ ایشیا کپ میں زخمی ہونے والے پیسر حارث رؤف نے صحتیابی کے بعد اسکواڈ میں جگہ بنا لی ہے۔
آؤٹ آف فارم جارح مزاج اوپنر فخر زمان پر سلیکٹرز نے اپنا اعتماد برقرار رکھا ہے تاہم آل راؤنڈر فہیم اشرف کو پھر باہر کر دیا گیا ہے۔ اسکواڈ میں بابر اعظم (کپتان)، شاداب خان (نائب کپتان)، محمد رضوان (وکٹ کیپر)، حارث رؤف، حسن علی، سعود شکیل، محمد نواز، امام الحق، محمد وسیم جونیئر، سلمان علی آغا، افتخار احمد، عبداللہ شفیق، اسامہ میر، شاہین شاہ آفریدی شامل ہیں جب کہ محمد حارث، ابرار احمد اور زمان خان ریزرو کھلاڑی ہوں گے۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق نے حسن علی کو ٹیم میں شامل کرنے کی جو منطق پیش کی ہے اس کے مطابق کھلاڑی نے لنکا پریمیئر میں عمدہ کارکردگی دکھائی ہے اور محمد حسنین، احسان اللہ ان فٹ ہیں اسی لیے حسن علی کو ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ انضمام الحق نے کہا کہ محمد عامر اور عماد وسیم کے لیے پی سی بی کے دروازے بند نہیں ہوئے، وہ ڈومیسٹک میں پرفارم کرکے ٹیم میں جگہ بناسکتے ہیں۔
چیف سلیکٹر صاحب یہ بتائیں کہ حسن علی نے کتنی ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی ہے اور تین سال میں ان کی پرفارمنس کیا رہی ہے؟ انہیں صرف لنکا پریمیئر لیگ کی کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم میں شامل کر لیا گیا ہے جب کہ عماد وسیم اور محمد عامر سی پی ایل میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں، لیکن اسے نظرانداز کر دیا ہے۔
محمد حفیظ نے بھی کرکٹ کمیٹی اجلاس میں عماد وسیم کو ورلڈ کپ کے لیے ٹیم میں شامل کرنے کی حمایت کی تھی لیکن ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ خود ہی ایک طرف ہوگئے اور اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔
اسکواڈ پر نظر دوڑانے کے بعد یہ کہا جائے کہ اس موقع پر دوستیاں نبھائی گئی ہیں اور پرفارم نہ کرنے کے باوجود فخر زمان، محمد نواز، شاداب خان کو ٹیم میں برقرار رکھا گیا ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔
بابر اعظم کی کپتانی پر بات کی جائے تو وہ بھی سوالات کی زد میں ہے۔ وہ میچوں میں چھوٹی ٹیموں کے خلاف بھی فل اسٹرینتھ کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نسیم شاہ جیسے فاسٹ بولرز انجرڈ ہو جاتے ہیں، ایشیا کپ میں نیپال کے خلاف نسیم شاہ، حارث رؤف اور شاہین آفریدی میں کسی کو آرام کروایا جاسکتا ہے لیکن کپتان نے یہ مناسب نہیں سمجھا۔
اب ’تجربہ کار‘ حسن علی کو اسکواڈ میں شامل کیا گیا جب کہ زمان خان کو ریزرو کھلاڑی کے طور پر رکھا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ زمان خان 15 رکنی اسکواڈ میں ہوتے اور حسن علی کو اگر شامل ہی کرنا تھا تو ریزرو کھلاڑیوں میں شامل کیا جاتا۔
کھیل کے میدان میں نئے مقابلے کے لیے اترنے والوں کے ناموں کا اعلان ہوچکا ہے، اب اس میں ردوبدل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ہم دعا گو ہیں کہ یہی ٹیم بھارت جاکر اچھا پرفارم کرے تاکہ ایک طرف چیف سلیکٹر اپنے ناقدین کے سامنے سرخرو ہوسکیں اور دوسری طرف اس اسکواڈ کے اعلان سے مایوس ہوجانے والے شائقینِ کرکٹ کو خوشی میسر آئے۔