![پردیس کا پانی یا زندگی کے کٹھن امتحان؟جب پردیسیوں سے ان کی زندگی کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے، تو اکثر ان کے جواب کسی مذ...](https://img5.medioq.com/213/903/540391742139033.jpg)
24/11/2024
پردیس کا پانی یا زندگی کے کٹھن امتحان؟
جب پردیسیوں سے ان کی زندگی کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے، تو اکثر ان کے جواب کسی مذاق سے کم نہیں لگتے۔
سوال: تمہارے بال کیوں سفید ہو گئے؟
جواب: باہر کے ملکوں کا پانی ہی ایسا ہے۔
سوال: بھائی، آپ کو شوگر کیسے ہو گئی؟
جواب: تمہیں نہیں پتہ، باہر کے پانی میں شوگر ہوتی ہے۔
ایسے جوابات سننے والے ہنس کر بات کو بھول جاتے ہیں، لیکن ان پردیسیوں کی اصل کہانی کوئی نہیں جانتا۔ یہ لوگ اپنی زندگی کے دکھ اور قربانیوں کو پانی کے بہانے میں چھپا دیتے ہیں۔ ان کے چہرے کی مسکراہٹ کے پیچھے کئی کہانیاں اور کئی خواب دفن ہیں۔
پردیس کی حقیقت:
کسی کے سفید بال، شوگر، یا کمزور نظر کا اصل سبب پانی نہیں بلکہ وہ کٹھن حالات ہیں جن سے یہ لوگ گزر رہے ہیں۔ باہر کے ملکوں میں کام کرنے والے اکثر اپنی زندگی کے قیمتی سال اپنوں کی خوشیوں کے لیے قربان کرتے ہیں۔
کسی کو بہن یا بیٹی کی شادی کا غم ہے۔
کسی کو بیمار والدین کی دیکھ بھال کا فکر ہے۔
کسی نے بچوں کی تعلیم کے لیے دن رات مشقت کرنی ہے۔
کسی کو والد کے قرضے اتارنے کا بوجھ اٹھانا ہے۔
یہ سب ذمہ داریاں انہیں دن رات محنت کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ پردیسی اپنی ضروریات کو بھول کر صرف اپنوں کے خواب پورے کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
جب کوئی پوچھتا ہے کہ تم پاکستان کیوں نہیں گئے؟
جواب ملتا ہے:
"باہر کے ملک کا پانی ایسا ہے، جانے کو دل ہی نہیں کرتا۔"
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ خود کو روک لیتے ہیں تاکہ ایک چھوٹا سا اور بڑا مقصد پورا ہو سکے۔ وہ اپنی زمین کی خوشبو، اپنوں کی ہنسی، اور دوستوں کے قہقہوں کو یاد کرتے ہیں لیکن اپنے خواب قربان کر دیتے ہیں۔
پردیسیوں کی کہانی ہر چمکتی چیز کے پیچھے چھپے اندھیروں کی طرح ہے۔ ان کی قربانیوں کو پانی کے بہانے سمجھنے کے بجائے ان کے درد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اللہ ان کی محنت کو قبول کرے، ان کی مشکلات آسان کرے، اور انہیں جلد اپنے پیاروں سے ملنے کے مواقع عطا کرے۔ آمین۔