Adv Adnan Goraya

  • Home
  • Adv Adnan Goraya

Adv Adnan Goraya Bar secretary Wazirbad Adv Adnan Goraya for your legal service �

12/10/2024
08/07/2024

‏"پتا ہے ہم انسانوں کی سب سے بڑی ٹریجڈی کیا ھے؛ ہم قدر کرنا اور کسی کے خلوص کو پہچاننا تب شروع کرتے ھیں
جب وہ شخص ختم ہوگیا ہو' مر چکا ہو (اندر سے) اور مــرے ہوئــے انسان کی قدر کی بھی تو کیا کی۔۔؟ نہ گزرا وقت واپس آتا ہے اور نہ مرا ھوا انسان واپس آئے گا لوگوں کی زندگی میں ان کی قدر کرنا اور اھمیت دینا سیکھیں!"🥀‏"پتا ہے ہم انسانوں کی سب سے بڑی ٹریجڈی کیا ھے؛ ہم قدر کرنا اور کسی کے خلوص کو پہچاننا تب شروع کرتے ھیں
جب وہ شخص ختم ہوگیا ہو' مر چکا ہو (اندر سے) اور مــرے ہوئــے انسان کی قدر کی بھی تو کیا کی۔۔؟ نہ گزرا وقت واپس آتا ہے اور نہ مرا ھوا انسان واپس آئے گا لوگوں کی زندگی میں ان کی قدر کرنا اور اھمیت دینا سیکھیں!"🥀

07/07/2024

‏نیا اسلامی سال مبارک !!!

‏محرم کا مہینہ ہمیں ایمان، صبر، اور قربانی کی عظیم داستانیں یاد دلاتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں اللہ کی رضا کے لیے اپنی جان و مال قربان کرنے والے حضرت حسین ابن علیؓ اور ان کے ساتھیوں کی قربانی کی یاد دلاتا ہے۔ نئے چاند کے ساتھ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ یہ مہینہ ہمارے لیے برکت، ایمان، سلامتی، اور اسلام کے ساتھ شروع ہو۔
‏اے اللہ!
‏ہمیں اس مقدس مہینے میں اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نواز، ہمارے دلوں کو ایمان سے بھر دے، اور ہمیں صبر و تحمل کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرنے کی توفیق عطا فرما۔
‏نئے مہینے کی آمد پر آپ کو اور آپ کے خاندان کو محرم مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی میں امن، خوشی، اور برکت عطا فرمائے۔

‏⁧‫ ‬⁩

01/07/2024

کسی نے جبران خلیل جبران سے پوچھا:
"انسانوں میں سب سے حیرت انگیز بات کیا ہے؟"
انہوں نے جواب دیا:
"انسان بچپن سے اکتا جاتے ہیں اور جلدی بڑے ہونے کی آرزو کرتے ہیں، پھر جب بڑے ہو جاتے ہیں تو دوبارا بچپن کی تمنا کرتے ہیں۔
اپنی صحت کی قربانی دے کر دولت کماتے ہیں، پھر اسی دولت کو صحت کی بحالی پر خرچ کرتے ہیں۔
مستقبل کی فکر میں حال کو نظرانداز کر دیتے ہیں، نتیجتاً نہ حال میں جیتے ہیں نہ ہی مستقبل میں۔
یوں زندگی بسر کرتے ہیں جیسے کبھی مرنا نہیں اور یوں مر جاتے ہیں جیسے کبھی جیا ہی نہیں۔"

جبران خلیل جبران
عربی سے ترجمہ: اسد اللہ میر الحسنی

22/06/2024

فائلر بننے کے فوائد/ نقصانات /
فائلر کون بن سکتا ہے

👈 فوائد NTN / فائلر
1-پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ٹیکس کی بچت۔۔۔۔
2-بینک سے رقم نکلوانے پر ٹیکس کی بچت (زیرو ٹیکس)
3-گاڑیوں کی خریدوفروخت پر ٹیکس کی بچت۔۔
4-سرکاری ملازمین کے لیے اضافی ڈیوٹیز میں بیس کی بجائے دس فیصد ٹیکس کٹوتی مثلا
بورڈ کی امتحانی ڈیوٹیز، اوپن یونیورسٹی ٹیوٹرشپ، الیکشن، مردم شماری اور دیگر ڈیوٹیز
5-ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے انٹرنیشنل پیمنٹ پر ٹیکس کی بچت ۔۔
6- بجلی کے بل میں انکم ٹیکس صفر
7-قومی سیونگ سرٹیفیکٹ اور پرائز بانڈ پر ٹیکس کی بچت ۔۔
8-کاروبار کو رجسٹرڈ کرواکر قانونی دائرے کار لانے پر فوائد حاصل کیجئیے ۔۔
9-بینک میں کاروباری اکاونٹ کھلوانے میں آسانی ۔۔
10-کمرشل ptcl بجلی ،گیس ، میٹر لگوانے میں آسانی ۔۔11-گورنمنٹ ٹھیکے لینے پر فائلر ہونا شرط۔
12-چیمبر اف کامرس کے ممبر کے لئیے فائلر ہونا ضروری ۔۔
13-کرائے داری انکم پر مالک کو ٹیکس کی بچت ۔۔
14-رئیل اسٹیٹ ،جیولرز ،وکلاء کیلئے DNFBP سرٹیفیکٹ کا اجراء ۔۔
15-فری لانسرز'اور آی ٹی سے وابستہ افراد کے لئیے ٹیکس کی چھوٹ ۔۔
16-اوورسیز پاکستانیوں کے لئیے فائلر کی صورت میں تیکس میں بھی رعایت ۔۔
17-پراپرٹی کی خریداری پر نان فائلر کے لئے لمٹ کی شرط۔
دیگر بے شمار فوائد

👈 نقصانات
ٹیکس فائلر بننے کا نقصان کوئی نہیں۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں اگر ہم ٹیکس فائلر بن جائیں تو ہمیں اضافی ٹیکس دینے پڑیں گے۔
ٹیکس تو وہی ہے جو آپ کی سیلری سے کٹ رہا ہے پہلے ہی۔ صرف آپ نے فائلر بن کر اپنی ریٹرن میں یہ بتانا ہے کہ میں نے سالانہ اتنا ٹیکس گورنمنٹ کو ادا کر دیا ہے۔ چونکہ آپ نے ٹیکس پہلے ہی ادا کر دیا۔ اس لیے آپ کو ڈیلی لائف میں ٹیکس کی بچت ملتی یے۔

👈 ٹیکس فائلر کون بن سکتا ہے؟
کوئی بھی پاکستانی شناختی کارڈ ہولڈر ٹیکس فائلر بن سکتا ہے۔ خواہ اس کی آمدنی صفر ہی کیوں نہ ہو۔
لیکن

جن کی ماہانہ گراس تنخواہ/آمدنی 50 ہزار سے زیادہ ہے۔ ان کے لیے فائلر بننا لازمی ہے۔ ورنہ قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔
اساتذہ کرام کے لیے خصوصی رعایت۔
گھر بیٹھے فائلر بننے کیلئے رابطہ کریں .
Adnan Shukar Adnan Goraya Advöcate03233131222

21/06/2024

جن لوگوں نے سوات میں ایک بندے کو زندہ جلایا ہے اور اس کی جلتی لاش پر نعرے مارے ہیں انہیں کس درجے پر فائز کیا جائے ؟
جب یہ سب لوگ چند برس پہلے ملا فضل اللہ اور صوفی محمد کی وجہ سے دربدر ہوئے، ہزاروں لوگوں نے گھر چھوڑے طا ل با ن کی وجہ سے تو انہی سوات کے لوگوں کے لیے پاکستان کے ہر کونے سے ہمدردی ابھری تھی۔
ان کے دکھ میں سب دکھی ہوئے، پاکستان کے ہر کونے سے لوگوں نے دل کھول کر امداد بھی بھیجی تھی جب وہ کیمپوں میں مشکل دن گزار رہے تھے۔
کیا سوات کے اس مجمع میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جسے اپنے وہ برے دن یاد ہوں؟ انہیں ط ل با ن تو ظالم لگتے تھے جو روزانہ چوک میں انہیں الٹا لٹکاتے تھے تو یہ لوگ اب خود کیا نکلے ہیں۔۔ یہ عام لوگ ظالم ہیں یا مظلوم ۔۔؟
لیو ٹالسٹائی کا ایک افسانہ یاد آتا ہے کہ جب زار روس نے 1862 میں لینڈ ریفامز کے بعد جاگیرداروں کی زمینوں پر کام کرنے والے ہاریوں کو آزاد کیا تو ان میں سے کچھ ہاریوں کو زمینیں بھی ملیں تو وہ ہاری روس کے پرانے جاگیرداروں سے بھی بڑے ظالم نکلے۔
وہ ہاری جو اب زمینوں کے مالک بن چکے تھے ایسے ایسے مظالم اپنے کھیتوں کے مزدورں اور ہاریوں ساتھ کرتے تھے جو پرانے جاگیرداروں نے بھی ان کے ساتھ نہ کیاتھا جب وہ ہاری تھے۔
ہاری سے بنے ان نئے زمینداروں نے تو مظالم میں پرانے جاگیرداروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
بس اتنی دیر لگتی ہے مظلوم کو ظالم بننے میں۔
سوات کے لوگوں نے کچھ نیا کام نہیں کیا، انسانی تاریخ میں مظلوم ہی بڑے ظالم بن کر ابھرے ہیں جب جب انہیں موقع ملا۔

نابالغان کا والد وفات پا گیا۔ انکا  دادا جو عبوری خرچہ نان و نفقہ نابالغان ادا کر رہا تھا وہ  بھی وفات پا گیا۔ لاہور ہائ...
20/06/2024

نابالغان کا والد وفات پا گیا۔ انکا دادا جو عبوری خرچہ نان و نفقہ نابالغان ادا کر رہا تھا وہ بھی وفات پا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ نابالغان کے چچا جو اپنے والد(نابالغان کے دادا) کی وفات کے بعد اسکی جائیداد کے مالک تھے اپنے نابالغ بھتیجوں کا دو تہائی خرچہ نان و نفقہ ادا کرنیکے پابند ہیں۔
خرچہ نان و نفقہ کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کا انتہائی تفصیلی معلوماتی فیصلہ

If the minor had no property or the income from his/her properties is insufficient to meet his/her needs after its possession has been handed over to him/her, the uncles would be liable to pay 2/3rd of the maintenance fixed by the court on account of their kinship and rest of 1/3rd would be contributed by the mother of the minor.
WRIT PETITION NO.50 of 2024
MUHAMMAD MAROOF and others versus Mst. MARIAM FAROOQ and others
Date of hearing:22.04.2024
2024 LHC 2111 @

18/06/2024

‏آج کل سوشل میڈیا پر فائلر اور نان فائلر کے بہت میمز چل رہے ہیں اور ہماری 70٪ عوام کو اس کا کے بارے میں کوئی معلومات ہی نہیں ۔ تو اس بارے میں معلومات شئر کی جارہی ہے۔

ٹیکس کیا ہے؟
ٹیکس ایک لازمی مالیاتی چارج یا محصول ہے جو حکومت افراد، کاروباروں اور دیگر اداروں پر عائد کرتی ہے تاکہ آمدنی حاصل کی جا سکے۔ ٹیکس حکومت کی آمدنی کا ایک بنیادی ذریعہ ہے اور عوامی خدمات کی فراہمی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔

ہمیں ٹیکس کیوں ادا کرنا پڑتا ہے؟

ٹیکس ادا کرنا کئی وجوہات کی بنا پر ضروری ہے:

1. **عوامی خدمات**:
ٹیکس تعلیم، صحت، بنیادی ڈھانچے (سڑکیں، پل)، پبلک ٹرانسپورٹ اور ایمرجنسی سروسز جیسے عوامی خدمات کی مالی اعانت کرتے ہیں۔

2. **حکومتی عملیات**:
یہ مختلف حکومتی محکموں اور اداروں کی فعالیت کو ممکن بناتے ہیں جو قانون و انصاف، دفاع اور انتظامیہ کو یقینی بناتے ہیں۔

3. **اقتصادی استحکام**:
ٹیکس دولت کی تقسیم میں مدد کرتے ہیں، اقتصادی عدم مساوات کو کم کرتے ہیں، اور بیروزگاری فوائد، پینشنز اور سبسڈیز جیسے سوشل سیکیورٹی نیٹ فراہم کرتے ہیں۔

4. **ترقیاتی منصوبے**:
یہ ترقیاتی منصوبوں کی مالی اعانت کرتے ہیں جو اقتصادی ترقی کو فروغ دیتے ہیں، ملازمتیں پیدا کرتے ہیں، اور مجموعی معیار زندگی کو بہتر بناتے ہیں۔

5. **عوامی بہبود**:
ٹیکس محروم طبقوں کے لیے بہبود کے پروگراموں کی حمایت کرتے ہیں، جس سے تمام شہریوں کے لیے ایک بنیادی معیار زندگی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

ٹیکس کی اقسام:

حکومتوں کی طرف سے عائد مختلف اقسام کے ٹیکس ہوتے ہیں۔ کچھ عام اقسام میں شامل ہیں:

1. **براہ راست ٹیکس* (Direct Tax)
یہ براہ راست حکومت کو ادا کیے جاتے ہیں۔

- **انکم ٹیکس**:
جو افراد اور کاروباروں کی کمائی پر لگایا جاتا ہے۔

- **کارپوریٹ ٹیکس**:
کمپنیوں کے منافع پر عائد ہوتا ہے۔

- **پراپرٹی ٹیکس**:
جائیداد، زمین اور عمارتوں کی ملکیت پر لگایا جاتا ہے۔

2. **بالواسطہ ٹیکس**
یہ ایک درمیانی فرد (مثلاً خوردہ فروش) کے ذریعے وصول کیے جاتے ہیں۔
- **سیلز ٹیکس**:
مال اور خدمات کی فروخت پر عائد ہوتا ہے۔

- **ویلیو ایڈیڈ ٹیکس (VAT)**:
مصنوعات اور خدمات کی پیداوار اور تقسیم کے ہر مرحلے پر لگایا جاتا ہے۔

- **ایکسائز ڈیوٹی**:
مخصوص مصنوعات، جیسے شراب، تمباکو، اور ایندھن پر عائد ہوتا ہے۔

- **کسٹمز ڈیوٹی**:
درآمد شدہ سامان پر عائد ہوتا ہے۔

پاکستان میں فائلر اور نان فائلر:

پاکستان میں، افراد اور اداروں کو ان کی ٹیکس کی تعمیل کی بنیاد پر فائلر یا نان فائلر کے طور پر درجہ بند کیا جاتا ہے۔ یہ درجہ بندی ان کی ٹیکس کی ذمہ داریوں اور فوائد پر کافی اثر انداز ہوتی ہے۔

**فائلر**
- **تعریف**:
وہ افراد یا ادارے جو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اور متعلقہ ٹیکس سال کے لیے اپنے انکم ٹیکس ریٹرنز جمع کرا چکے ہیں۔

- **ٹیکس کی شرحیں**:
بینکاری، جائیداد، اور گاڑیوں کی رجسٹریشن جیسے مختلف مالی لین دین پر کم ٹیکس کی شرحوں سے مستفید ہوتے ہیں۔

- **فوائد**:
حکومتی مراعات، ریبیٹ، اور ٹیکس کریڈٹ کے اہل ہیں۔ ان کا مالیاتی موقف درست ہونے کی وجہ سے قرضے اور کریڈٹ سہولیات حاصل کرنا آسان ہوتا ہے۔

- **قانونی ذمہ داریاں**:
باقاعدگی سے سالانہ انکم ٹیکس ریٹرنز اور دیگر مطلوبہ دستاویزات جمع کرانا لازمی ہے۔ انہیں کم قانونی اور مالیاتی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

**نان فائلر**
- **تعریف**:
وہ لوگ جو متعلقہ ٹیکس سال کے لیے اپنے انکم ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کراتے اور ایف بی آر کے ایکٹیو ٹیکس پیئر لسٹ (ATL) میں شامل نہیں ہوتے۔

- **ٹیکس کی شرحیں**:
فائلرز کے مقابلے میں مالی لین دین پر زیادہ ٹیکس کی شرحوں کا سامنا کرتے ہیں، جو عدم تعمیل کی حوصلہ شکنی کے طور پر کام کرتی ہیں۔

- **سزائیں**:
ٹیکس ریٹرنز جمع نہ کرانے پر قانونی سزاؤں، جرمانوں اور ممکنہ آڈٹس کا سامنا کر سکتے ہیں۔ انہیں فائلرز کے لیے دستیاب فوائد اور مالیاتی سرگرمیوں پر پابندیاں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔

- **مالیاتی مضمرات**:
کچھ حکومتی اسکیموں، سبسڈیز، اور مالی مراعات کے اہل نہیں ہوتے۔ ان کے لیے قرضے اور دیگر کریڈٹ سہولیات حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔

نتیجہ
پاکستان کے ٹیکس نظام کو سمجھنے کے لیے ٹیکس کا کردار اور فائلرز اور نان فائلرز کے درمیان فرق جاننا نہایت ضروری ہے۔ ٹیکس ادا کرنا ملک کی ترقی اور کارکردگی کے لیے اہم ہے، جو عوامی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھنے اور بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔ فائلر اور نان فائلر کی درجہ بندی تعمیل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ تمام اہل ٹیکس دہندگان ملک کی آمدنی میں اپنا حصہ ڈالیں، جس سے اقتصادی استحکام اور ترقی کو فروغ ملتا ہے۔

12/06/2024

Copy/ Paste

اپنی نفرت کو برف پر لکھو

کولمبیا کا شہرہ آفاق ادیب گیبرئیل گارسیا مارکیز جب کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا تھے اور طبیعت زیادہ بگڑنے پر اس نے موت کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اپنے ساتھی انسانوں کے لئے ایک پیغام تحریر کیا تھا۔

پیغام اس قدر خوبصورت ہے کہ مجھے اسے اُردو زبان میں منتقل کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے:

“اگر خدا مجھے دوبارہ زندگی دے تو میں جو کچھ سوچتا ہوں، اسے کہنے کے بجائے جو کچھ کہتا ہوں، اس کے بارے میں سوچوں گا۔
میں چیزوں کی قدر ان کی قیمت سے نہیں بلکہ ان کے بامعنی ہونے کی وجہ سے کروں گا۔

میں کم سوؤں گا اور جاگتے میں خواب دیکھوں گا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ ہر اس منٹ جب ہم آنکھیں بند کرتے ہیں، ہم پورے ساٹھ سیکنڈ کے لئے روشنی سے محروم ہوجاتے ہیں۔

جب دوسرے رُک جائیں گے میں چلتا رہوں گا۔ جب دوسرے سوئیں گے میں جاگوں گا۔ جب دوسرے بولیں گے میں سنوں گا۔

اے خدا! اگر میں دل گرفتہ ہوں گا تو اپنی نفرت کو برف پر لکھوں گا اور سورج نکلنے کا انتظار کروں گا تاکہ برف کے ساتھ میری نفرت بھی پگھل کر بہہ جائے۔

اے میرے خدا! مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں کوئی دن ایسا نہیں گزاروں گا جب لوگوں کو یہ پیغام نہیں دوں گا کہ مجھے ان سے پیار ہے۔ میں ہر مرد اور عورت کو بتاؤں گا کہ وہ مجھے محبوب ہیں۔ میں پیار سے پیار کروں گا۔

میں لوگوں کو بتاؤں گا کہ وہ غلط سمجھتے ہیں کہ جب وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو محبت نہیں کرسکتے۔ انہیں نہیں معلوم کہ جب وہ محبت کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو بوڑھے ہوجاتے ہیں۔

میں بچوں کو پرواز کے لئے پر دونگا، لیکن انہیں خود اُڑنے کی کوشش دوں گا۔ میں بوڑھوں کو بتاؤں گا کہ موت بڑھاپے سے نہیں آتی بلکہ یہ سب کچھ بھول جانے سے آتی ہے۔

اے انسان! میں نے تم سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ ہر کوئی پہاڑ کی چوٹی پر رہنا چاہتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ اصل خوشی اس بات میں ہے کہ چوٹی پر پہنچا کیسے گیا۔

میں نے یہ بھی جانا ہے کہ جب ایک نومولود بچہ اپنے ماں باپ کی اُنگلی پکڑتا ہے تو وہ باپ کو ہمیشہ کے لئے اپنی محبت میں قید کر لیتا ہے۔

میں نے یہ بھی جانا ہے کہ انسان کو نیچے کیطرف صرف اُس وقت دیکھنا چاہئے جب اُسے کسی دوسرے انسان کو اوپر اُٹھانا ہو۔

اے انسانوں! میں نے تم سے بہت کچھ سیکھا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اگر میں اس سب کو اپنے سینے میں لے کر جاؤں تو یہ بد قسمتی کی موت ہوگی۔

یہ نظم میں گارسیا کے نام کرتا ہوں:
اپنی نفرت کو برف پر لکھو،�جب بھی اُلفت کی دھوپ نکلے گی،�برف پگھلے گئی،�اور اس کے ساتھ نفرت بھی!

(عاصم دستگیر)

07/05/2024

محکمہ خوراک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سالانہ بنیاد پر پاکستان میں ہر شہری 115 کلو آٹا کھاتا ہے۔

محکمہ خوراک کا کہنا ہے کہ ملک میں سالانہ 2 کروڑ 80 لاکھ ٹن گندم کی کھپت ہے، رواں برس چاروں صوبوں میں گندم کا پیداواری ہدف 3 کروڑ 21 لاکھ ٹن مقرر کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق رواں برس 2 کروڑ 96 لاکھ ٹن گندم کی پیداوار متوقع ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پنجاب کو 12 کروڑ 78 لاکھ لوگوں کے لیے 1 کروڑ 47 لاکھ ٹن گندم کی ضرورت ہے جبکہ انہیں بیج کے لیے 8 لاکھ 72 ہزار ٹن گندم کی ضرورت ہے۔

محکمہ خوراک کے مطابق پنجاب کی گندم کی ضرورت 1 کروڑ 55 لاکھ 55 ہزار ٹن ہے جبکہ پنجاب کا پیداواری ہدف 2 کروڑ 41 لاکھ ہے۔

محکمہ خوراک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ کا پیداواری ہدف 44 لاکھ ٹن، خیبر پختو نخواہ کا 14 لاکھ اور بلوچستان کا 13 لاکھ ٹن مقرر کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ رواں برس پنجاب اپنی ضرورت سے 86 لاکھ ٹن زائد گندم پیدا کرے گا جبکہ پاکستان میں مجموعی کھپت سے 18 لاکھ ٹن زائد گندم پیدا ہوگی۔

Kashmir❤️
05/05/2024

Kashmir❤️

04/05/2024

ﺳﯽ _ ﺍﯾﺲ _ﺍﯾﺲ

سی ایس ایس ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﮨﮯ ۔
داخلے اکتوبر ، نومبر میں جاتے ہیں ۔
داخلہ فیس 2200 ۔
پیپرز فروری میں ہوتے ہیں ۔
ٹوٹل مارکس 1200 ۔
لازمی مضامین 06 ۔
اختیاری مضامین 06 ۔
لازمی مضامین کے نمبر 600 ۔
اختیاری مضامین کے نمبر 600 ۔

س ایس ایس ایک مقابلے کا امتحان ہے ﺟﺲ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ FPSC ﮐﮯ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﮐﮯ ﺯﯾﺮ نگرانی گریڈ17 ﻣﯿﮟ ﺁﻓﯿﺴﺮ ﺑﮭﺮﺗﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺍﯾﮕﺰﻡ ﺳﺎﻝ میںﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﻣﻨﻌﻘﺪ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮭﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﻭﺭ ذہین ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺳﻠﯿﮑﺸﻦ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ انہیں ﺑﯿﻮﺭﻭ ﮐﺮﯾﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﯿﻮﺭﻭ ﮐﺮﯾﺴﯽ حکومتی ﻣﺸﯿﻨﺮﯼ ﭼﻼﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﮍﮪ ﮐﯽ ﮨﮉﯼ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ رکھتی ہے ۔

تعلیمی قابلیت اور عمر کی حد ۔
ہر سال اس امتحان کا اعلان بذریعہ FPSC کیا جاتا ہے ۔
جس میں گریجویشن( آرٹس ، سائنس ، کامرس ، میڈیکل یا انجینئرنگ ) میں سیکنڈ ڈویژن رکھنے والے 21 سے 30 سال کے مرد و خواتین اور خصوصی افراد امتحانات دینے کے اہل ہوتے ہیں ۔ خصوصی افراد کے لیے عمر میں 2 سال کی رعایت ہوتی ہے ۔ اکتوبر ، نومبر ﮐﮯ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ درخواست ﻓﺎﺭﻡ بھرے ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ امتحان فرﻭﺭﯼ ﮐﮯ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﻌﻘﺪ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔

امتحانی مراکز ۔
سی ایس ایس کے امتحانات ملک کے تقریباً 19 شہروں جن
میں ایبٹ آباد، بہاولپور، ڈی جی خان، ڈی آئی خان، فیصل آباد، گلگت، گوجرانوالہ، حیدرآباد، اسلام آباد، کراچی، لاہور، لاڑکانہ، ملتان، مظفر آباد، پشاور، کوئٹہ ، راولپنڈی اور دیگر شامل ہیں میں منعقد ہوتے ہیں ۔

امتحانی طریقہ کار ۔
اس سال سے سی ایس ایس کے امتحان میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں ، اب Css امتحانات سے قبل ایک سکرین آؤٹ ٹیسٹ approve کیا گیا ہے. جو 200 نمبر کا ہوگا ہے ۔ جو لوگ اس میں کامیاب ہونگے وہ written ٹیسٹ دے سکیں گے. ٹیسٹ 200 MCQs سوالات پر مشتمل ہوگا جس میں انگلش پاکستان سٹڈیز اسلامیات اور جنرل سائنس+ میتھ میں سے سوالات پوچھے جائیں گے.
لہذا اب امیدوار جو سی ایس ایس کےامتحانات میں شرکت کرنا چاہتے ہیں اُنہیں پہلے اسکریننگ ٹیسٹ کلیئر کرنا ہوگا ۔
اس کے بعد ہی وہ پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) پورٹل پر درخواست جمع کرا سکتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ درخواست دہندگان اپنی درخواست کی ہارڈکاپی لازمی دستاویزات کے ساتھ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کے ہیڈکوارٹر میں MPT ٹیسٹ کلیئر ہونے کے بعد ہی جمع کروا سکتے ہیں ۔

اس کے علاؤہ آپشنل مضمون ریوائز ہو گئے ہیں اور جو لازمی ہیں وہ اسی طرح ہیں۔

امتحان کی اقسام ۔
سی ایس ایس میں 4 ﻗﺴﻢ ﮐﮯ امتحان/ ﭨﯿﺴﭧ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
1 ۔ ﺗﺤﺮﯾﺮﯼ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ written test
2 ۔ ﻧﻔﺴﯿﺎﺗﯽ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ psychological test
3 ۔ ﻃﺒﻌﯽ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ medical test
4 ۔ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ vivavoce/interview

ﺍﻥ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺮﺍﺣﻞ ﺳﮯ ﮔﺬﺭﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﮔﺮﻭﭖ ‏( ﻣﺎﺭﮐﺲ ﮐﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ‏) ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﮔﺮﻭﭘﺲ ۔۔1 Districtt Management Group
2. Police Services of Pakistan
3. Custom and Excise
4. Postal group
5. Income tax group
6. Information group
7. Foriegn Services of Pakistan
8. Commerce and Trade
9. Millitary lands and Contonments
10. Office Management group
11. Pakistan Audit and Accounts
12. Railways (commercial & transportation)group

مضامین کی تعداد ۔
امتحان کے مضامین ﮐﻮ ﺩﻭ ﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔
1 Compulsary subjects
2. Optional subjects

Compulsary subjects : 1. Normal English (precis and composition). عمومی انگریزی 2. English Essay & precie. انگریزی مضمون نویسی3. Pakistan affairs. مطالعہ پاکستان4. islamic studies Or comparative study of Major Religion for Non Muslims . اسلامیات5. Current affairs. حالات حاضرہ6. Everyday Science . روزمرہ سائنس

لازمی مضامین میں پاسنگ نمبر 44 ہوتے ہیں اور اختیاری مضامین میں 33 ہوتے ہیں ۔
لازمی مضامین میں حالات حاضرہ ، مطالعہ پاکستان ، اور روزمرہ سائنس میں اگر نمبر 40 سے کم ہوں لیکن دیگر مضامین میں نمبر زیادہ ہوں اور ایگریگیٹ 120 ہو یا اس سے زیادہ ہو تو بھی پاس ہوگا ۔

ﺁﭘﺸﻨﻞ یعنی اختیاری مضامین کی تعداد تقریباً 55 ہے جو سات گروپ پر مشتمل ہیں اور جس میں سے 6 منتخب کرنے ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﯿﭙﺮﺯ 100 ﻣﺎﺭﮐﺲ ﮐﮯ ہوتے ﮨﯿﮟ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﭨﻮﭨﻞ ﻣﺎﺭﮐﺲ 1200 ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ اﻣﯿﺪﻭﺍﺭ ﮐﮯﻟﮱ %50 ﻣﺎﺭﮐﺲ ﺣﺎﺻل ﮐﺮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﯿﮟ۔آﭘﺸﻨﻞ ﺳﺒﺠﯿﮑﭩﺲ ﮨﯽ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮨﺎئی ﺍﺳﮑﻮﺭﻧﮓ ﺳﺒﺠﯿﮑﭩﺲ
ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﻠﯿﮑﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﺫﮬﺎﻧﺖ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺎ جائے
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﺒﺠﯿﮑﭩﺲ منتخب ﮐﺮﯾﮟ ﺟﻮ ﺁﭖ کو پسند ہوں ،ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﮨﻮ، اور کافی حد ان پر عبور ہو ۔ ۔ ۔

28/04/2024

پاکستان کے آم کے متعلق حاصل کی گئی معلومات پیش خدمت ہیں
آموں کی 121 اقسام:
پاکستان میں آموں کی معلوم نہیں کتنی ورائٹی ہے؟ مجھے ایک ذریعے سے 121 اقسام کی تصویریں ملی ہیں جو سندھ ،پنجاب اور دیگر صوبوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ نام ملاحظہ کیجئے۔ اللہ کا شکر ادا کریں اور سوچیں کہ اگر صرف اسی ایک پھل کی صحیح نگہداشت اور مارکیٹنگ ہو تو زر مبادلہ کس قدر کمایا جا سکتا ہے؟
پاکستانی آم اور ان کی اقسام
پاکستان متعدد پھلوں خصوصاً آم کی پیداوار کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ پاکستان میں آم کو مٹھاس اور بہترین ذائقے کے سبب پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ پاکستانی آم کے بارے میں دنیا بھر کے زرعی سائنس دانوں کی متفقہ رائے ہے کہ اس سے زیادہ میٹھا اور خوش ذائقہ آم کرہ ارض پر کہیں اور پیدا نہیں ہوتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں پیدا ہونیوالی آموں کی اقسام کے مقابلے میں پاکستانی آم اپنے ذائقے، تاثیر، رنگ اور صحت بخش خوبیوں کے لحاظ سے سب سے منفرد ہیں۔ آم کے پھل کا شمار پاکستان میں پیداوار کے لحاظ سے دیگر پھلوں کی نسبت دوسرے نمبر پر کیا جاتا ہے۔ پاکستان سالانہ تقریباً 18 لاکھ ٹن آم کی پیداوار حاصل کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں آم کی پیداوار ہوتی ہے، مگر قومی پیداوار کا بڑا حصہ پنجاب اور سندھ سے حاصل ہوتا ہے۔

ملک میں آموں کی دو سو سے زائد اقسام ہیں مگر ان میں سے بیس اقسام کے آم کو تجارتی بنیاد پر کاشت کیا جاتا ہے اور انہیں برآمد کر کے زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ آموں کی مشہور اقسام میں سندھڑی، نیلم، چونسا، انور رٹول، دوسہری، بیگن پھلی، انفانسو، گلاب خاصہ، زعفران، لنگڑا، سرولی، اور دیسی آم شامل ہیں۔پاکستان کے علاوہ آم کی کاشت انڈونیشیا، تھائی لینڈ، فلپائن، ملائیشیا، سری لنکا، مصر، امریکہ، اسرائیل، فلوریڈا، برازیل اور ویسٹ انڈیز میں کی جاتی ہے۔
پاکستان میں سال 2002 تا 2012ء کے دوران آم کی مجموعی پیداوار بالترتیب دس لاکھ چونتیس ہزار ٹن، دس لاکھ پچپن ہزار ٹن، سولہ لاکھ تہتر ہزار ٹن، سترہ لاکھ تریپن ہزار ٹن، سترہ لاکھ انیس ہزار ٹن، سترہ لاکھ ٹن، اٹھارہ لاکھ دس ہزار ٹن، اٹھارہ لاکھ ٹن اور دس لاکھ ٹن تھی جبکہ میڈیا اطلاعات کے مطابق رواں سال موسم میں ناخوشگواری کے باعث آم کی پیداوار میں ۰۳ فیصد کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان سے ساٹھ فیصد آم دبئی برآمد کیا جاتا ہے اور دیگر ممالک میں سعودی عرب کے علاوھ کویت، مسقط، بحرین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، نوروے، ہولینڈ، بیلجیئم، سنگا پور، ملائیشیا اور ہونگ کونگ شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق گزشتہ گیارہ برسوں میں آم کے قابل کاشت رقبہ میں صرف دو فیصد اضافہ ہوا جبکہ پرانے کاشتہ باغات میں کمی آئی ہے۔ 1990ء میں آم کی پیدوار تیرہ لاکھ گیارہ ہزار آٹھ سو بیاسی میٹرک ٹن تھی اور آج بھی پیداور وہی ہے۔ ملک بھر میں آم ایک سو چھپن ہزار ایکڑ رقبے پر کاشت کئے جاتے ہیں، لیکن اکثر علاقوں میں آم کے درختوں کی درست طریقے سے نگہداشت نہ ہونے کے علاوہ کھاد اور اسپرے کے بروقت استعمال میں کوتاہی کے باعث عام کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ درختوں سے پھل اتارنے کے بعد ہونے والے نقصانات پر قابو پانے کے ناکافی اقدامات، پکنے سے پہلے ہی پھلوں کا اتار لینا، اسٹوریج تک معیاری ترسیل کیلئے سہولیات کا فقدان اور پھل ذخیرہ کرنے کی غیرمناسب سہولیات ایسے عوامل ہیں جو اندرون ملک اور برآمدی منڈیوں میں آم کی زیادہ سے زیادہ فروخت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
آم کی فصل تیار ہونے کے بعد کاشتکار کو آم خراب ہونے کے باعث 30 سے 40 فیصد تک نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے آم کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ باغباں آم کو پکنے کے بعد جدید مشینری کے بجائے ہاتھوں سے اتارتے ہیں جس سے آم کو نقصان پہنچتا ہے اور پیداوار میں کمی ہوتی ہے۔ آم کا بہترین حالت میں رہنے کا عرصہ بہت کم ہوتا ہے جبکہ آم کی فصل کی تیاری کے موسم میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پھلوں کی حفاظت کے لیے سرد خانوں کا معقول انتظام نہ ہونا آم کی پیداوار میں غیر تسلی بخش اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کسانوں نے حکومت کے عدم تعاون پر آموں کی کاشتکاری کم کر دی ہے۔ ساتھ ساتھ ایئر لائن اور شپنگ کمپنیز کی جانب سے فریٹ چارجز میں مسلسل اضافے کے باعث ایکسپورٹرزکی دلچسپی میں بھی کمی ہوتی جارہی ہے۔ اگر حکومت آم کی کاشت پر توجہ دے تو عام کی پیداوار کو دگنا کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں آم کی پیداوار کو بہتر بنانے کے لئے امریکی ادارے برائے عالمی ترقی یو ایس ایڈ کے تعاون سے صوبہ سندھ اور بلوچستان میں آموں کی پیداوار بڑھانے کے لئے مینگو پروگرام پر کام کیا جا رہا ہے۔ امریکی حکومت اپنے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کے توسط سے سال دو ہزار نو سے پاکستان میں اس منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ یو ایس ایڈ کی اعانت سے صوبہ سندھ کے حیدر فارمز پر بہتر زراعتی طریقوں پر عمل پیرا ہوکر ’سپلائی چین ‘ قائم کی گئی ہے۔
یو ایس ایڈ ذرائع کے مطابق اِس وقت ادارہ پنجاب اور سندھ میں آموں کے ۵۱ سے زائد باغات میں پروسیسنگ کے آلات نصب کرنے میں مدد کر رہا ہے جِس کی وجہ سے آموں کو بین الاقوامی منڈیوں بشمول مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور یورپ میں برآمد کرنے میں مدد ملے گی۔ یو ایس ایڈ اب تک 3000 سے زائد کسانوں کو آموں کی پروسیسنگ اور ان کی ذخیرہ کرنے کی مدت بڑھانے کے حوالے سے تربیت فراہم کر چکا ہے۔ یہ اعانت ۰۲ لاکھ پاکستانیوں کے لیے براہِ راست فائدے مند ثابت ہوگی، بیشمار کاروباروں کی آمدن میں اضافہ کرے گی، ملازمت کے مواقع پیدا کرے گی اور پاکستان بھر میں، بالخصوص جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ میں معیشت کو فروغ دے گی۔
پاکستان میں مختلف اقسام کے آم پائے جاتے ہیں جو اپنے ذائقے کی بدولت دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ دسہری، چونسا، سندھڑی، فجری، دیسی اور الماس مارکیٹوں میں آنے کو ہیں۔ پاکستان میں پھلوں کے بادشاہ آم کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔
پہلا نمبر آتا ہے “دُسہری” لمبوتر، چِھلکا خوبانی کی رنگت جیسا باریک اور گودے کے ساتھ چِمٹا ہوتا ہے۔ گودا گہرا زرد، نرم، ذائقےدار اور شیریں ہوتا ہے۔
جب کہ “سِندھڑی” کا سائز بڑا، چِھلکا زرد، چکنا باریک گودے کیساتھ ہوتا ہے، گودا شیریں، رس دار اور گُٹھلی لمبی اور موٹی ہوتی ہے۔
دوسری جانب “چونسے” کا ذائقہ تو اپنی مثال آپ ہے یہ آم کی لاجواب قسم ہے جو دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہے چونسا کا چھلکا درمیانی موٹائی والا مُلائم اور رنگت پیلی ہوتی ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد، نہایت خوشبو دار اور شیریں ہوتا ہے۔ اِس کی گُٹھلی پتلی لمبوتری، سائز بڑا اور ریشہ کم ہوتا ہے۔
سب سے مقبول “انور رٹول” کا سائز درمیانہ ہوتا ہے۔ چِھلکا چِکنا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے، گودا بے ریشہ، ٹھوس، سُرخی مائل زرد، نہایت شیریں، خوشبودار اور رَس درمیانہ ہوتا ہے۔
اور یہ “لنگڑا” نہ جانے کیوں اسے لنگڑا آم کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ لنگڑا مختلف سائز کا ہوتا ہے، اس کا چِھلکا چِکنا، بے حد پتلا اور نفیس گودے کے ساتھ چِمٹا ہوتا ہے، گودا سُرخی مائل زرد، مُلائم، شیریں، رَس دار ہوتا ہے۔،
اور یہ ہیں جی “الماس” جس کی شکل گول ہوتی ہے اور سائز درمیانہ، چِھلکا زردی مائل سُرخ، گودا خوبانی کے رنگ جیسا مُلائم، شیریں اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے، گولا شکل و صورت میں بھی گول ہوتا ہے۔ سائز درمیانہ، چِھلکا گہرا نارنجی اور پتلا ہوتا ہے۔ گودا پیلا ہلکا ریشے دار اور رسیلا ہوتا ہے۔
مالدا سائز میں بہت بڑا ہوتا ہے، مگر گُٹھلی انتہائی چھوٹی ہوتی ہے۔ سہارنی سائز میں درمیانہ اور ذائقہ قدرے میٹھا ہوتا ہے۔

04/04/2024

سب بھائئوں کی تشریف آوری کا بھت شکرئہ۔

24/03/2024

Iftaaar dinner by younger brother Umair Shah❤️

Address


Telephone

+923233131222

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Adv Adnan Goraya posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share