07/06/2025
استور: کشنت گاؤں میں افسوسناک حادثہ – ایک خاتون جاں بحق، دو زخمی اور اصل استور کے اہم مساٸل پر حقاٸق
تحریر: عبدالوہاب ربانی ناصر (صحافی)
ضلع استور کے یونین کونسل گدٸی کے نواحی گاؤں کشنت میں عیدالاضحی کے روز ایک کچے مکان کی چھت گرنے سے ایک خاتون جاں بحق اور دو افراد زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ شام کے قریب پیش آیا، جب متاثرہ خاندان عید کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ حادثے کے فوراً بعد مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو ملبے سے نکالا اور فوری طور پر ڈی ایچ کیو اسپتال استور منتقل کیا۔
عینی شاہدین اور مقامی افراد کے مطابق، اس مکان کو پچھلے سال کے شدید سیلاب کے باعث نقصان پہنچا تھا۔ گاؤں کشنت میں گزشتہ برس کا تباہ کن سیلاب کئی مکانات کو نقصان پہنچا چکا ہے، مگر متاثرہ خاندان اب تک خستہ حال مکان میں رہائش پذیر ہیں ۔ یہی ممکنہ طور پر چھت گرنے کی ایک بڑی وجہ بھی بتاٸی جا رہی ہے۔۔ حادثے کے بعد کشنت میں میڈیکل اسٹاف نے موقع پر فرسٹ ایڈ اور سی پی آر فراہم کیا۔ ایل ایس او ریسپانس ٹیم نے بھی امدادی کارروائی میں بھرپور کردار ادا کیا۔
فوری ڈی ایچ کیو ہسپتال زخمی مریضوں کو پہنچا وہاں پر موجود ڈاکٹر ز ،عملہ اپنے محدود مساٸل سے بھرپور کوشش کی، اس موقعے پر ایس پی نیک عالم ، مجسٹریٹ ،پولیس، عوامی و سماجی شخصیات سمت عزیز و اقارب کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔
بنیادی سہولیات کی سنگین کمی – ایک بڑا سوالیہ نشان
یہ واقعہ ایک بار پھر ضلع استور کی محرومیوں کو نمایاں کرتا ہے:
ڈی ایچ کیو اسپتال میں ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے۔
ایمبولینس کی ناکافی تعداد کی وجہ سے مریضوں کو گلگت منتقل کرنے میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔
فائر بریگیڈ کا محکمہ نہایت بدحالی کا شکار ہے — عملہ تو موجود ہے، مگر گاڑی جیسی بنیادی سہولت تک دستیاب نہیں۔
ریسکیو 1122 کی خدمات قابلِ ستائش ضرور ہیں، مگر وسائل کی کمی کے باعث بالائی علاقوں تک بروقت رسائی ممکن نہیں۔
سوالات اور مطالبات
استور جیسے پسماندہ ضلع میں ہر سال بارہا چھتیں گرنے، آگ لگنے، روڈ حادثات اور قدرتی آفات کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ مگر ہر حادثے کے بعد شور، بیانات اور چند دن کی سرگرمی کے بعد معاملہ سرد خانے کی نذر ہو جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ:
کب حکومتِ وقت ان علاقوں میں مکمل سروے ٹیم بھیجے گی؟
کب متاثرہ خاندانوں کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے؟
کب صحت، تعلیم اور سڑکوں جیسی بنیادی سہولیات دی جائیں گی؟
اور آخر کون ہوگا جو واقعی ان علاقوں کا مسیحا بن کر سامنے آئے گا؟
سیاحت کے دعوے اور زمینی حقیقت
استور کو سیاحتی ضلع قرار دیا جاتا ہے، مگر یہاں نہ اسپتالوں کی حالت بہتر ہے، نہ تعلیمی اداروں کی، نہ سڑکیں محفوظ ہیں اور نہ ہی ریسکیو نظام فعال ہے۔ سیاحتی مقامات پر فرسٹ ایڈ، ریسکیو یا ایمرجنسی یونٹ تک موجود نہیں۔
عوامی رویہ اور اجتماعی سوچ کی کمی
عوام کا رویہ بھی وقتی جذبات پر مبنی ہوتا ہے۔ حادثے کے وقت سب اکٹھے ہو جاتے ہیں، مگر جیسے ہی وقت گزرتا ہے، سب بھول جاتے ہیں۔ جب تک اجتماعی سوچ پروان نہیں چڑھے گی، تب تک یہ قوم حادثات، لاپروائی اور بے حسی کا شکار رہے گی۔
حکومت، متعلقہ اداروں اور عوام — سب کو اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی۔ صرف سیاسی بیانات، وعدے یا دعوے کافی نہیں۔ استور جیسے علاقوں کے مسائل صرف تب حل ہوں گے جب زمینی حقائق کو سنجیدگی سے لیا جائے، فوری اقدامات کیے جائیں اور وسائل فراہم کیے جائیں۔
Astore News Agency
Chief Minister Gilgit-Baltistan
Info-deptt GB
Abdul Wahab Rabbani Nasir