Khuddam Fikr e Aslaaf

  • Home
  • Khuddam Fikr e Aslaaf

Khuddam Fikr e Aslaaf Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Khuddam Fikr e Aslaaf, Publisher, .

17/10/2023

14واں سالانہ درس قرآن وحدیث خدام فکراسلاف 30ستمبر2023 شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق خان بشیر صاحب دامت برکاتہم

17/10/2023

14واں سالانہ درس قرآن وحدیث خدام فکراسلاف 30ستمبر2023 نعت حضرت مولانا پیر محمد مدثرصاحب

17/10/2023

14واں سالانہ درس قرآن وحدیث خدام فکراسلاف 30ستمبر2023 تلاوت قاری محمود صدیق صاحب

17/10/2023
Shout out to my newest followers! Excited to have you onboard!Mohammed Shabbir Mughal, Sadaqat Ali
26/07/2023

Shout out to my newest followers! Excited to have you onboard!

Mohammed Shabbir Mughal, Sadaqat Ali

23/07/2023

سیاست واقتدار اور اہل بیت کرام کا اسوہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از مولانا عمارخان ناصر

تاریخ کی تعبیر یک رنگ اور متفقہ نہیں ہو سکتی، اس میں ہمیشہ اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے، خصوصاً‌ جب تنازعات تاریخ کا حصہ بن چکے ہوں۔ تاہم تاریخ کے ایک ایسے فہم کی ضرورت ہوتی ہے جس سے تہذیب کا سفر ماضی کی تاریخی بحثوں میں الجھ کر نہ رہ جائے، بلکہ اس سے کچھ سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذریت اسماعیل کو دیے گئے سیاسی اقتدار کی قیادت کے لیے قریش کی امتیازی حیثیت تو بیان فرمائی تھی، لیکن اپنے خاندان یعنی بنو ہاشم کی کوئی خصوصی حیثیت بیان نہیں فرمائی۔ آپ کے قرب وفات کے زمانے میں سیدنا عباس اور سیدنا علی کے مابین اس پر گفتگو ہوئی کہ کیا ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ضمن میں کوئی تصریح کروا لینی چاہیے یا نہیں کہ اس معاملے میں اہل بیت کا کردار کیا ہوگا؟ لیکن یہی طے ہوا کہ اس معاملے کا مبہم رہنا ہی بہتر ہے اور حالات کو خود ہی اپنا ایک رخ بنانے دینا چاہیے۔

صحابہ میں سے بعض، مثلاً‌ سلمان فارسیؓ اور عمار بن یاسرؓ کی رائے یہ تھی کہ اقتدار حضور کے خاندان کے لیے ہی مخصوص ہونا چاہیے اور یہ بھی کہ امت ان کو نظرانداز کر کے ایک طرح سے ان کی ناقدری کر رہی ہے۔ لیکن قریش کا عمومی رجحان، جیسا کہ سیدنا عمرؓ نے عبد اللہ بن عباسؓ کو بتایا، یہ تھا کہ اقتدار اگر قریش میں رہنا ہے تو پھر بنو ہاشم میں خلافت کو نہیں جانا چاہیے، کیونکہ نبوت اور خلافت دونوں کے ایک خاندان میں جمع ہو جانے سے سیادت غیر معمولی طور پر ایک ہی جگہ مرتکز ہو جائے گی۔

اب دیکھنا یہ چاہیے کہ اس صورت حال کو اہل بیت کرام نے کیسے دیکھا اور اپنے لیے کیا لائحہ عمل متعین کیا۔ اسی اسوے میں ہمارے لیے راہنمائی ہے اور اسی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے فہم کے مطابق سیاسی اقتدار کے باب میں اہل بیت کرام کے مجموعی اسوے کو درج ذیل نکات کی صورت میں متعین کیا جا سکتا ہے:

1- اگر امت کی سیاسی عصبیت کی تائید حاصل نہ ہو تو سیادت کی کشمکش میں فریق نہ بنا جائے بلکہ اولو الامر کی خیر خواہی اور معاونت کا طریقہ اختیار کیا جائے اور حسب موقع وضرورت مشورہ یا تنقید کی صورت میں امور کی انجام دہی میں ان کی مدد کی جائے۔ یہ اسوہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خلفائے ثلاثہ کے عہد میں پیش فرمایا۔

2- سیاسی حالات بگاڑ اور انتشار کا شکار ہوں اور زمام کار کو سنبھالنے کا تقاضا کر رہے ہوں تو کنارہ کشی اختیار نہ کی جائے، بلکہ اپنی بساط اور فہم کے مطابق مسلمانوں کی سیاسی قوت کو دوبارہ مجتمع کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ اسوہ سیدنا علی نے اپنے عہد خلافت میں پیش کیا، اگرچہ اس میں انھیں چند در چند مشکلات درپیش رہیں اور ان کی حکمت عملی پر کچھ سوالات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔

3- سیاسی عصبیت کے میدان میں پلڑا دوسری جانب جھک چکا ہو اور قتل وقتال کا سلسلہ موقوف ہو جانے کے بعد ازسرنو بیدار ہونے کے لیے آمادہ ہو تو مسلمانوں کی وحدت اور اجتماع کو ترجیح دی جائے اور باوقار شرائط کے ساتھ صلح کا امکان موجود ہو تو اسے اختیار کر کے اقتدار سے دستبرداری قبول کر لی جائے۔ یہ اسوہ سیدنا حسنؓ نے پیش فرمایا۔

4- اگر کسی مخصوص علاقے میں، محدود سطح کی ہی سہی، سیاسی عصبیت میسر ہو اور علیٰ منہاج النبوۃ، سیاست واقتدار کا نمونہ دوبارہ قائم کرنے کے امکانات بظاہر دکھائی دے رہے ہوں تو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے۔ یہ اسوہ سیدنا حسینؒ نے اہل کوفہ کی طرف سے دعوت موصول ہونے پر اختیار کیا۔

5- اگر سیاسی عصبیت کا مضمحل ہونا واضح ہو جائے تو بے فائدہ ٹکراو کے راستے پر بڑھتے چلے جانے کے بجائے مصالحت کے امکان پر دوبارہ غور کیا جائے، لیکن اس کا طریقہ اور شرائط باوقار ہونے کو بھی اہم سمجھا جائے۔ اگر باوقار صلح کا آپشن نہ ہو تو جان کی قربانی پیش کر دی جائے۔ یہ اسوہ سیدنا حسین اور ان کے اہل خانہ نے کربلا میں پیش کیا۔

6- سیاسی عصبیت کے امکانات محدود تر ہو جائیں اور ایسی کسی بھی کوشش کا، امت کے افتراق کو بڑھانے پر منتج ہو جانا یقینی ہو تو سیاسی کشمکش سے مکمل طور پر گریز کر کے علم، تقویٰ اور حسن کردار کے میدان میں امت کی راہنمائی تک خود کو محدود کر لیا جائے اور ارباب اقتدار کے باب میں کلمہ حق کہنے کی سنت کو زندہ رکھا جائے۔ یہ اسوہ واقعہ کربلا کے بعد ائمہ اہل بیت نے عموماً‌ اختیار فرمایا۔

اس بحث کو ایک بڑے تہذیبی سوال سے جڑے ہوئے مختلف امکانات کے تناظر میں دیکھا جائے اور اس پہلو پر نظر رکھی جائے کہ اہل بیت کرام نے مختلف احوال میں ہمارے لیے کیا اسوہ چھوڑا ہے تو یہی بحث فرقہ وارانہ انداز کی بحث وجدال سے اٹھ کر ہمارے لیے ایک بڑی تہذیبی راہنمائی کا ماخذ بن سکتی ہے۔

ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم

18/07/2023

صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

   pleas subscribe to
10/07/2023

pleas subscribe to

چینل کو سبسکرا ئب کریں شکریہ

https://youtube.com/برائے مہربانی  جماعت کا چینل بھی لائیک فرمائیں جزاکم اللہ خیراً
06/07/2023

https://youtube.com/
برائے مہربانی جماعت کا چینل بھی لائیک فرمائیں جزاکم اللہ خیراً

چینل کو سبسکرا ئب کریں شکریہ

Address


Telephone

+923007700180

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Khuddam Fikr e Aslaaf posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Khuddam Fikr e Aslaaf:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share