ZEEST

ZEEST Spreading the word of goodness مفید معلومات، متنوع مضامین اور دلچسپ وڈیوز، سب ایک ساتھ

21 اپریل کو پاکستان کے قومی شاعر اور مفّکر اسلام علامہ محمد اقبال کا 81 واں یوم وفات عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا...
21/04/2024

21 اپریل کو پاکستان کے قومی شاعر اور مفّکر اسلام علامہ محمد اقبال کا 81 واں یوم وفات عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔

علامہ محمد اقبال نے تصوّر پاکستان پیش کر کے برصغیر کے مسلمانوں کی جدو جہد آزادی کو پہلی دفعہ باقاعدہ شکل میں پیش کیا ۔

اس کے ساتھ ساتھ انہیں عالم اسلام کے ایک معروف شاعر فلسفی اور مفّکر کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

حضرت اقبال، مولانا جلال الدین رومی کو اپنا مرشد کہتے تھے اور اپنے فلسفہ خودی و بیخودی میں انہوں نے مولانا جلال الدین رومی کی طرح قرآن کو اپنا رہبر بنایا۔

یہی وجہ ہے کہ فریڈرک نطشے، ہنری برگساں اور گوئٹے جیسے مفّکرین کے فلسفوں پر مکمل دسترس کے باوجود ان کے ہاں مولانا رومی اور ان کے اسلامی فلسفے کا رنگ حاوی دکھائی دیتا ہے۔

علامہ اقبال نے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے نسلی و فرقہ وارانہ تفریق کو بالائے طاق رکھ کر باہم متحد ہونے کی تلقین کی۔

ان کے دل میں صرف برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ہی نہیں پورے عالم اسلام کے لئے تڑپ تھی۔

خاص طور پر سلطنت عثمانی کے لئے انہوں نے بہت پُر اثر اشعار لکھے اور جنگ نجات کے دوران ترکوں کی مدد کے لئے مسلمانوں کو منّظم کیا اور جمع ہونے والی ڈیڑھ ملین اسٹرلن پر مشتمل رقم کو انقرہ بھیجا۔

علامہ اقبال نے 21 اپریل 1938 کو 61 سال کی عمر میں وفات پائی۔

ستّر ہزار افراد کے شرکت سے نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد انہیں لاہور میں بادشاہی مسجد کے سامنے سپرد خاک کیا گیا۔

بیگمائی چاول سوات کے مقبول ترین پکوانوں میں سے ایک ہے، لیکن اس کی اپنی کہانی ہے کہ وادی سوات میں اس فصل کا نام کب اور کی...
29/03/2024

بیگمائی چاول سوات کے مقبول ترین پکوانوں میں سے ایک ہے، لیکن اس کی اپنی کہانی ہے کہ وادی سوات میں اس فصل کا نام کب اور کیسے پڑا۔ چاول کا نام ایک معزز خاتون بیگم بلقیس افندی کے نام پر رکھا گیا تھا، جو 1949 میں افغانستان سے اس کے بیج لائی تھیں اور پہلی بار سوات کے علاقے باغ ڈھیرئی میں اس کی کاشت کی تھیں۔ سوات میں سکونت اختیار کرنے کے بعد یہ خاتون علاقے میں بیگم کے نام سے مشہور تھیں۔ بیگم شہزادی بلقیس آفندی، افغانستان کے شاہی خاندان کے غازی سردار ارحم خان ایفندی کی اہلیہ تھیں۔

جنت کا وارثمجھے یاد ہے، 1996 میں میں پنوں عاقل سی ایم ایچ میں بطور ڈاکٹر ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا، ایک دن ایک کرنل صاحب ...
19/03/2024

جنت کا وارث

مجھے یاد ہے، 1996 میں میں پنوں عاقل سی ایم ایچ میں بطور ڈاکٹر ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا، ایک دن ایک کرنل صاحب ایک نوزائیدہ بچے کو لے کر چیک اپ کے لیے آے۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی لیکن ان کو میرے بارے میں معلومات تھیں، کیونکہ ھم دونوں کا تعلق ایک علاقے سے تھا۔ تھوڑی گپ شپ کے بعد بے تکلفی اپنا رنگ جمانے لگی۔ کرنل صاحب اس وقت سروس کے آخری چند سال کھینچ رہے تھے اور میر ماتھیلو ( سندھ) رینجرز کی ایک یونٹ کمانڈ کر رہے تھے۔

اس نوزائیدہ بچے کی پیدائش پانچ بہنوں کے بعد اس عمر میں ہوئی جب عام طور خواتین میں تولیدگی کا عمل منقطع ھونے والا ہوتا ہے۔چونکہ کرنل کھرے اور سچے بندے معلوم ھونے تو میں نے بے تکلفی سے جملہ کسا، سر اب بس کریں، بولے اولاد نرینہ کی خواہش کس کو نہیں ہوتی۔ اب اللہ نے وارث دے دیا ہے اور اب بس۔

ہمارا تعلق بڑھتا گیا، کبھی وہ میرے پاس آ جاتے، کبھی میں ان کے ہاں۔

کرنل صاحب چند سالوں بعد ریٹائر ہو گئے اور میں مزید کئی سال فوج کی سروس میں مصروف رہا۔ کبھی کسی شادی بیاہ پر ملاقات ہو جاتی۔

"میری ان کے ساتھ آخری ملاقات تقریباً ساڑھے تین سال پہلے ہوئی جب وہ میرے جواں سال بیٹے کی مرگ ناگہانی کے موقع پر میرے گھر آئے۔ ہمراہ ایک خوبصورت سمارٹ نوجوان، تعارف کروایا یہ وہی پنوں عاقل والا احمد بدر ہے۔

اس کا معصوم چہرہ کبھی ایک نوزائیدہ بچے کی صورت میں تو کبھی ایک نوجوان لیفٹیننٹ کی صورت میں کافی دیر تک میرے ذہن گھومتا رہا۔

آج مدینہ منورہ میں کچھ دیر پہلے فیس بک
کھولی تو اچانک ایک پوسٹ پر نظر پڑی۔

"کیپٹن محمد احمد بدر شھید ہو گیا۔"

آج پھر وہی پنوں عاقل والا احمد میری نظروں میں گھوم رہا ھے۔ اس لمحے احمد کا بچھڑ جانا والدین کے لیے ایک عظیم سانحہ سہی مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج کرنل بدر کا وارث جنت کا وارث بن گیا۔
اللہ پاک احمد کے والدین، بہنوں اور دیگر لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
آمین ثم آمین

بریگیڈیئر شیر محمد ملک

11/03/2024
استغاثہ پاکستان اے پسر ہائے دل ربا !اے دختران مہ جبیں !برادران صف شکن !  اے صالحین و مومنیں ! وہ امن و انضباط کی تڑپ میر...
18/02/2024

استغاثہ پاکستان

اے پسر ہائے دل ربا !
اے دختران مہ جبیں !
برادران صف شکن !
اے صالحین و مومنیں !
وہ امن و انضباط کی تڑپ میری
اک آرزوے اتحاد انبساط آفریں
مثال مشک نافہ غزال تھی
تمہارے جذبے، ولولے
خلوص پہ بھی شک نہیں
مگر یہ میرے نام پر
کیوں تہمتوں کے پتھروں کی بارشیں
یہ بغض اور عناد سب کدورتیں ؟
مفاد و اقتدار کے
نواح و گرد گھومتی
خود غرض یہ صورتیں
مرے جگر پہ تیر انفجار ہیں
وہ پنجہ پلنگ در پتنگ ہو
کہ پارچہ چوب اک
مرے بدن پہ ضرب خونچکاں ہیں بس
ردائے جاں فگار و تار تار سی
بپا ہے یہ جو معرکہ سلطنت
بلک بلک کے رو اٹھی ہے خلق تو
سسک سسک کے دست بستہ میں بھی ہوں
وہ ملل جہاں میں کچھ وقار تھا رہا سہا
جو عکس دامن پدر میں مان تھا بچا کھچا
تصادمات روز شب کے درمیاں
تمہاری حرص تاج اور تخت میں
بہ دست پر فریب و رو سیاہ پھر
سبھی بھرم تو لٹ گئے
کہ جس کو تم پہ ناز تھا
وہ دل بھی آج کٹ گیا
مرا وجود بٹ گیا
تمہیں خبر ہی نہ ہوئی
۔۔۔۔

مجتبیٰ حیدران

" درخت "                 آیا   تو    ساتھ    لایا    قرابت  درخت    کی یوں  ہے   زمین  زاد سے نسبت درخت کی آرا   چلا   ت...
03/12/2023

" درخت "

آیا تو ساتھ لایا قرابت درخت کی
یوں ہے زمین زاد سے نسبت درخت کی

آرا چلا تو جانا یتیمی کا دکھ ہے کیا
گھرکے بزرگ جیسی تھی صحبت درخت کی

روتے ہوئے پرندے منڈیروں تک آ گئے
رکھی ہوئی تھی صحن میں میت درخت کی

فطرت سے ربط سبز دریچوں کی دین تھا
چھاؤں میں موجزن تھی محبت درخت کی

بے اختصاص دیتا ہے چھاؤں جہان کو
ماں باپ جیسی ہوتی ہے فطرت درخت کی

اک بار پھر دھوئیں کی کثافت نے آ لیا
اک بار پھر پڑی ہے ضرورت درخت کی

گملوں میں سبز آس اگائی تو ہے مگر
پوری نہ ہو سکے گی یوں قیمت درخت کی

سریے کے جنگلوں نے ہمیں بے اماں کیا
چھینی گئی ہے ہم سے یہ دولت درخت کی

چوتھا فلور ، ننگی سڑک ، بے امان شہر
فاعل یہاں نہیں ہے سہولت درخت کی

(محمد افتخار الحق)

19/10/2023

ترقی یافتہ اور مہذب کہلانے والی دنیا میں غزہ میں عشروں سے محصور مکینوں کا بلا تفریق قتل عام ایک ناقابل یقین المیہ، انسانیت کی توہین اور اقوام عالم کے اجتماعی ضمیر کے زندہ ہونے پر ایک تلخ سوال ہے۔

"ہم نے اس زندگی میں، زندگی سے بڑھ کر کوئی اور خواب نہیں دیکھا". "ونحن لم نحلم بأكثر من حياة... كالحياة".- محمود درويش فل...
18/10/2023

"ہم نے اس زندگی میں، زندگی سے بڑھ کر کوئی اور خواب نہیں دیکھا".

"ونحن لم نحلم بأكثر من حياة... كالحياة".
- محمود درويش فلسطيني

ہماری زندگیوں کو چیزوں کی کثرت کھا گئی ہے۔ کسی دور میں دس یا بارہ گانوں والا ایک کیسٹ ہوتا تھا۔ کوئی بہت شوقین ہوتا تو ا...
24/09/2023

ہماری زندگیوں کو چیزوں کی کثرت کھا گئی ہے۔ کسی دور میں دس یا بارہ گانوں والا ایک کیسٹ ہوتا تھا۔ کوئی بہت شوقین ہوتا تو اپنی پسند کی لسٹ دے کر گانے بھرواتا۔ سب گانے بہت مزے سے سنتے تھے اب ہزاروں گانے ہوتے ہیں USB میں اور کوئی پسند نہیں آتا۔
دو تین دوست ہوتے تھے جن سے ہر خوشی غم سانجھا ہوتا تھا۔ جب ضرورت ہو آ موجود ہوتے۔ اب سوشل میڈیا پر ہزاروں اور کانٹیکٹ لسٹ میں سینکڑوں لوگ ہیں مگر بےکار۔
یاد پڑتا ہے کہ گھروں میں بمشکل ایک سائیکل ہوتی تھی اسی پر گھر کی ساری شاپنگ بھی ہوتی تھی، سکول ٹیوشنز اور دوستوں سے ملنا بھی۔ یہ سب کر کے بھی فراغت کا وقت بچ جاتا تھا۔ اب گاڑیاں اور بائیکس کھڑی ہوتی ہیں مگر ان پر کام ختم نہیں ہوتے، بھاگ دوڑ میں ایسے دن گزر جاتا ہے پتہ بھی نہیں چلتا۔ ‏
اور اس سے بھی مزے کی بات اس ایک سائیکل کو بھی روز پنکچر لگتا یا ٹائر میں سپرنگ والے ہینڈ پمپ ہوا بھرنی پڑتی تھی۔ کبھی اس کے کُتے فیل ہو جاتے، توکبھی ہینڈل "وِنگا" (ٹیڑھا) ہو جاتا، کبھی چین اتر جاتی تو کبھی بریک فیل۔ ان سب مشکلات کے باوجود کبھی کام نپٹانے میں مشکل نہیں پڑتی تھی۔
پورے ہفتے میں سنڈے کو پکچر لگتی تھی اور بدھ کو چترہار۔ ‏‎اسی کے چکر میں اینٹینے ہلا ہلا کر باولے ہوئے رہتے تھے۔ سارے گھر میں ایک ٹی وی ہوتا وہ بھی ناب یا بٹنوں والا، اور سارے دن میں صرف ایک ڈرامہ لگتا تھا رات آٹھ بجے۔۔سب مل کر دیکھتے۔ اب کیبل پر سینکڑوں چینل ہزاروں ڈرامے مگر کسی پر دل نہیں ٹھہرتا۔
پیسے جمع کر کے لائبریری سے کرائے پہ رسالے لائے جاتے اور ایک ہی دن میں پورا ختم کر دیتے۔ گھر میں بچوں بڑوں ہر کسی کی بیڈ سائیڈ پر ناول، رسالہ یا کوئی کتاب ضرور ہوتی جو وہ رات کو پڑھ کر سوتے۔
پیسے ڈال کر وی سی آر منگوایا جاتا، فلموں کی لسٹ بنتی اور گروپ کی شکل میں بیٹھ کر فلمیں دیکھی جاتیں۔ اب تو موبائل پر جب چاہیں فلم دیکھ لیں مگر وہ مزہ اور طلب ختم ہوگئی۔
‏‎مجھے یاد پڑھتا ہے گرمیوں میں سر شام صحن میں چھڑکاو کر کے چارپائیاں ڈل جاتیں۔ سونے سے پہلے سارے دن کی رپورٹیں ایکسچینج ہوتیں۔ ایک پیڈسٹل فین ہوتا تھا اور لائن میں پانچ سے چھ چارپائیاں ہوتی تھیں۔ دور کی چارپائی تک ہوا مشکل سے ہی پہنچتی۔ اب ہر کمرے میں اے سی ہے مگر نیند غائب۔
وقت کیساتھ ضرورتیں بھی بدل گئیں اور خلوص بھی۔ *جب چیزیں تھوڑی تھیں تب قدر تھی اب ہر چیز کی بہتات ہے پر وہ کشش باقی نہیں رہی.

منقول

"معافی کا طلبگار ہوں" 16 ستمبر 2010 کو میری پوسٹنگ راولپنڈی سے ہیڈکوارٹر 5 کور کراچی میں بطور ڈاٸریکٹر میڈیکل سروسز ہوگٸ...
28/08/2023

"معافی کا طلبگار ہوں"
16 ستمبر 2010 کو میری پوسٹنگ راولپنڈی سے ہیڈکوارٹر 5 کور کراچی میں بطور ڈاٸریکٹر میڈیکل سروسز ہوگٸی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پورا ملک دہشتگردی کی لپیٹ میں تھا اور آرمی آفیسرز کی فیملیز پر بھی حملے ہونے لگے تھے اور خاص طور پر ہمارے بچوں کو اسکولوں میں دھمکیاں ملتی تھیں ۔ کسی فوجی گاڑی کو اکیلے کہیں بھی جانا منع تھا اور ضرورت کے وقت بیوی بچوں کے ساتھ بھی حفاظت کی خاطر سولجرز جاتے تھے ۔ میں اس وقت برگیڈیر تھا اور کور ہیڈکوارٹر میں گھروں کی کمی کی وجہ سے ہم عسکری 4 کراچی کے ایک فلیٹ میں ہی رہاٸش پذیر تھے ۔

میری بیٹی اے لیول کرنے کیلیے نکسر کالیج ڈی ایچ اے میں داخلہ لے چکی تھی ۔ آرمی کی ایس او پیز کے مطابق بچوں کی حفاظت کی خاطر یا تو بچے فوجی بسوں میں تعلیمی اداروں میں جاتے یا آفیسرز اپنے اپنے بچوں کو خود ہی پک ڈراپ کرتے تھے اور اس طرح مسلح سولجر بھی ساتھ ہوتے تھے ۔ میں صبح بیٹی کو خود کالیج چھوڑتا ہوا آفس جاتا ۔ دوپہر کو وہ کالیج میں کچھ انتظار کرتی اور میں آفس سے فارغ ہوکر اسے ساتھ گھر لے آتا ۔

نکسر کالیج ایسی جگہ ہے جہاں گاڑیوں کو پارکنگ کی جگہ میسر نہیں ۔ بس آپ قطار میں آہستہ آہستہ چلتے بچوں کو چھوڑتے یا لیتے ہیں اور آگے نکل جاتے ہیں ۔ اگر کوٸی کالیج کے گیٹ پر رک جاٸے تو سڑک بلاک ہو جاتی ہے ۔ بچے فوراََ ہی گاڑی میں نہ بیٹھیں تو گاڑی کو گھوم کر دوبارہ آنا پڑتا ہے ۔ یہ سب کچھ کیمروں کی آنکھ سے کالیج انتظامیہ دیکھتی ہے ۔ کسی بچے کی گاڑی ٹریفک بلاک کا سبب بنتی تو انتظامیہ کی طرف سے اس بچے کو کوٸی نہ کوٸی سزا سنا دی جاتی تھی ۔ ایک دن میں کور ہیڈکوارٹر میں کسی کانفرنس میں مصروف تھا تو ڈراٸیور اور گارڈز بچی کو لینے کالیج بھیجنا پڑا ۔ دوسرے دن بیٹی نے مجھے بتایا کہ ڈراٸیور اور گارڈز کے غلط رویے کی وجہ سے کالیج کے پرنسپل نے اسے کوٸی سزا سنا دی ہے اور اسے کالیج میں سخت شرمندگی کا سامنا ہے ۔ دراصل ڈراٸیور اور گارڈز کالیج کے گیٹ پر بچی کے انتظار میں ٹریفک بلاک کا سبب بنے اور سزا بچی کو مل گٸی ۔

بیٹی کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ قصوروار نہیں تھی تو وہ سزا کیوں بھگتے اس لیے مجھے کالیج انتظامیہ سے بات کرنی چاہیے تاکہ اسکی سزا ختم ہو ۔ میں نے اپنی بیٹی سے کالیج آنے کا وعدہ کرلیا ۔ دوسرے دن میں بیٹی کی چھٹی سے آدھ گھنٹہ پہلے ہی کالیج پہنچا ۔ گیٹ پر اتر کر کالیج کے اندر استقبالیہ پر گیا اور بتایا کہ میں برگیڈیر بشیر آراٸیں ہوں اور کالیج کی طالبہ معصومہ نوری میری بیٹی ہے اور میں پرنسپل صاحب سے ملنا چاہتا ہوں ۔ انٹرکام پر بتایا گیا تو پرنسپل گھبراٸے سے انداز میں خود آفس سے باہر نکل آیا اور مجھے کہا کہ برگیڈیر صاحب تشریف لاٸیے ۔

اس کی پریشانی دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ میرا کالیج میں اسطرح آنا انکے لیے کسی خوشی کا باعث نہیں ۔ میں نے آفس میں بیٹھتے ہی بغیر کسی تمہید کے پرنسپل سے کہا کہ دو دن پہلے میری بیٹی کو آپ نے کوٸی سزا سناٸی ہے جس کی وجہ سے میری بیٹی خفا مجھ سے ہے کہ قصور میرے ڈراٸیور اور گارڈز کا ہے تو سزا اسے کیوں ملے ۔ اس لیے میں آپ سے اور کالیج انتظامیہ سے معذرت کرنے حاضر ہوا ہوں کہ میری بیٹی کی سزا معاف کردی جاٸے تاکہ کالیج میں وہ شرمندگی سے بچ سکے ۔ میں اپنے اسٹاف کو پہلے ہی سخت تنبیہ کر چکا ہوں کہ وہ کالیج کے قوانین کی پوری پابندی کریں تاکہ آٸیندہ کالیج انتظامیہ کا شکایت کا موقع نہ ملے ۔

14 سال گزرنے کے بعد اب بھی پرنسپل کا نام یاد ہے مسٹر ندیم غنی جنہیں سب این جی کہتے تھے ۔ یہ بھی یاد ہے کہ انکی پریشانی میری بات سنتے سنتے کچھ کم ہو رہی تھی ۔ کہنے لگے برگیڈیر صاحب چاٸے پیتے ہیں ۔ میں نے کہا ضرور مگر پہلے میری معذرت قبول کیجیے ۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھے مجھ سے بڑھ کر دوبارہ ہاتھ ملایا اور کہا جی آپکی معذرت قبول کر لی ۔ چاٸے کا آرڈر ہوا اور مزید بات شروع ہوٸی ۔

کہنے لگے برگیڈیر صاحب میں اور میرا بھاٸی امریکہ سے صرف یہ کالیج چلانے کو لوٹے ہیں مگر یہاں آکر پتہ چلا ہے کہ اب بچے تو بگڑے ہوٸے ہیں ہی ماں باپ ان سے بھی دو قدم آگے ہیں ۔ کالیج میں بچوں کو کوٸی بات ناگوار گزرے تو والدین مسلح گارڈز کے ساتھ آکر ہمیں ذلیل کرتے ہیں اور دھمکاتے ہیں ۔ حیران ہوں کہ آپ آج باوردی اپنے سولجرز کے ساتھ معزرت کرنے آ پہنچے ہیں ۔ آپ کو کیمروں میں دیکھ کر میں سمجھا تھا کہ آج میرے آفس اور استقبالیے کے شیشے ٹوٹیں گے اور ہم ایک فوجی آفیسر کے ہاتھوں بے عزت ہونگے ۔ آپ کے رویے نے میرے دل میں فوج کی عزت بڑھا دی ہے ورنہ ہم امریکہ میں بیٹھ کر مختلف اندازے لگاتے رہتے تھے ۔ پاکستان آنے کے بعد آپ پہلے فوجی آفیسر ہیں جن سے مل رہا ہوں ۔ چاٸے پیتے پیتے انہوں نے کلاس سے میری بیٹی معصومہ کو بلوایا اور اسکو دی ہوٸی سزا ختم کردی ۔

میری ایک چھوٹی سی معذرت سے میری بیٹی کی سزا ختم ہوگٸی ۔ فوج کے بارے میں ایک انتہاٸی تعلیم یافتہ شخص کے خیالات میں بھی مثبت سوچ نے جنم لیا اور میرے ڈراٸیور اور گارڈز کی شرمندگی تو دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی کہ انکے رویے سے مجھے معزرت کرنا پڑی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پھر میری سی ایم ایچ ملیر کی پوسٹنگ تک کبھی انکی دوبارہ شکایت نہ آٸی ۔ بہت پختہ یقین کے ساتھ سوچتا رہتا ہوں کہ انسانوں کے سینکڑوں مسلے تو صرف ایک معذرت کرنے یا کسی کو معاف کرنے سے حل ہو سکتے ہیں تو پریشانی کیا ہے پھر ۔
بس ہم نے اپنے عہدوں ۔ رتبوں ۔ اپنی معاشرتی طاقت اور جھوٹی انا کے بل بوتے پر کیسی کیسی دشمنیاں پالی ہیں اور ایک دوسرے کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے ۔ کاش کبھی کوٸی اپنی غلطی مان کر دوسرے سے معاف کیجیے کہہ کر تو دیکھے یا کسی کی معذرت قبول کرکے معاف کرکے تو دیکھے ۔
#برگیڈیربشیرآراٸیں

13/07/2023

ایک فلم پروڈکشن ہاوس نے اعلان کیا کہ 8 منٹ کی ایک فلم نے دنیا کی بہترین مختصر فلم کا خطاب جیتا ہے لہذا ، یہ فلم سینما میں مفت ڈسپلے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاکہ اسے دیکھنے کے لئے بڑا ہجوم جمع ہو.
مووی ایک کمرے کی چھت کی تصویر سے شروع ہوئی تھی جو کسی بھی سجاوٹ اور کسی بھی نقش و نگار سے خالی ہے۔ صرف ایک سفید چھت ...
3 منٹ بغیر کیمرے کے حرکت کیے گزرے اور کسی دوسرے منظر کو نہیں دکھایا گیا... مزید 3 منٹ بغیر کیمرے کے حرکت کیے اور منظر کو تبدیل کیے بغیر گزرے ...
6 بورنگ منٹ کے بعد ، دیکھنے والوں نے آوازیں لگانا شروع کردی۔ ان میں سے کچھ ہال چھوڑنے والے تھے۔
اور ان میں سے کچھ لوگوں نے تھیٹر کے عہدیداروں پر اعتراض کیا کیونکہ انہوں نے چھت دیکھنے میں اپنا وقت ضائع کیا ...
پھر اچانک اکثریت میں تشویش پیدا ہونے لگی اور رخصت ہونے ہی والے تھے ،کہ بغیر کسی تفصیل کے کیمرہ آہستہ آہستہ چھت سے دیوار کی طرف چلا گیا یہاں تک کہ وہ نیچے کی طرف فرش تک پہنچا.
وہاں ایک بچہ بستر پر دکھائی دیا ، جو کسی وجہ سے مکمل طور پر معذور تھا۔ اس کے چھوٹے سے جسم میں ریڑھ کی ہڈی نہیں تھی اور نا ہی وہ حرکت کر سکتا تھا اُس کی نظریں اُسی خالی سفید چھت کی طرف تھیں اور انکھ میں آنسو نمایاں تھے.
کیمرا آہستہ آہستہ معذور کے بستر کی سمت چلا گیا ، بغیر پیٹھ کے پہیے والی کرسی دکھاتے ہوئے ... کیمرا دوبارہ چھت کے بورنگ مقام پر چلا گیا۔ اس بار اس نے ایک جملہ دکھایا: * "ہم نے آپ کو یہ منظر صرف 8 منٹ دیکھایا ، اور اس منظر کو یہ معذور بچہ اپنی زندگی کے سارے گھنٹے دیکھتا ہے ، اور آپ نے صرف 6 منٹ میں شکایت کرنا شروع کر دیں۔ آپ سے خالی چھت کو 6 منٹ کے لئے بھی دیکھنا برداشت نہیں ہوا.
لہذا اپنی زندگی کے ہر سیکنڈ کی قدر جانیں جو آپ خیریت سے گذارتے ہیں ، اور عطا کردہ ہر نعمت پر خدا کا شکر ادا کریں.

کوئی چالیس پچاس برس پہلے دیہاتی گھروں میں توے پر روٹی پکانے کا رواج بہت ہی کم تھا۔ہر گھر میں کم وبیش ایک تنوری ہوتی جو گ...
10/06/2023

کوئی چالیس پچاس برس پہلے دیہاتی گھروں میں توے پر روٹی پکانے کا رواج بہت ہی کم تھا۔ہر گھر میں کم وبیش ایک تنوری ہوتی جو گھر کے صحن میں یا چھت پر بنائی جاتی تھی۔ عام طور پر صبح وشام تنوری میں افراد خانہ کے حساب سے ایک ہی بار روٹیاں پکا لی جاتی تھیں جو دیر تک تر و تازہ رہتی۔ دیسی گندم خراس سے پسوا کر مزے دار، غذائیت سے بھر پور آٹا تیار کروایا جاتا۔ پھر اس کو بڑی محنت سے گوندھا جاتا اور بہت اہتمام سے تنوری میں روٹیاں سینکی جاتی تھیں ۔ اکٹر اوقات ہمسایہ خواتین بھی ایک ہی تنوری پہ روٹیاں پکانے آ جاتی تھیں ۔صبح کے وقت ان روٹیوں پر دیسی گھی یا مکھن بھی لگایا جاتا۔کبھی کبھار گرما گرم روٹی کی اوپری پرت میں انگلی سے سوراخ کرکے اس میں دیسی گھی یا مکھن ڈال کر روٹی کو دو بار تہہ کر دیا جاتا۔اس سارے عمل کو چونگا لگانا کہتے تھے جو بہت ذائقے والا ہوتا۔ بعض اوقات سادا روٹی کو گرم گھی میں مسل کر چوری بھی بنا لی جاتی۔ تنوری کی گرم گرم روٹیوں کے ساتھ بھنڈی توری، بھرے کریلے ، آم اور دودھ کی کچی لسی بہت ہی مزہ دیتے۔برسات کا موسم ہوتا تو دوپہر میں دیسی گندم کے آٹے میں بیسن، پیاز اور ہری مرچ ڈال کر میسی روٹیاں پکائی جاتی جو چاٹی کی نمکین لسی کے ساتھ عجب مزہ دیتی تھیں۔ بعض اوقات آٹے میں گڑ ڈال کر میٹھی روٹیاں پکانے اور کھانے کا شوق پورا کر لیا جاتا۔گھر کی چنگیر کبھی بھی روٹیوں سے خالی نہ ہوتی۔اماں کہتی تھیں، پتر! بھرے گھر کی چنگیر کبھی خالی نہیں ہونی چاہیے۔ نہ جانے کب اور کس وقت کوئی بھوکا آ جائے۔ کہا جاتا تھا دستر خوان میں روٹی موجود ہو تو سالن مل ہی جاتا ہے۔ سوندھی خوشبو میں بسی وہ حسین یادیں گاؤں والی تندوری کے وجود کے ساتھ نایاب ہو گئی ہیں۔

منقول

‏کس کو اب ہوگا وطن میں آہ میرا انتظار ‏کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار ‏خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا ‏اب د...
14/05/2023

‏کس کو اب ہوگا وطن میں آہ میرا انتظار
‏کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار
‏خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا
‏اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا

~ والدہ مرحومہ کی یاد میں
‏شاعر مشرق علامہ اقبال رح
‏⁦‪

جب آپ ایسا کچھ دیکھتے ہیں، تو خوفزدہ نہ ہوں، فائر فائٹرز یا پولیس کو نہ بلائیں، حرکت نہ کریں اور انہیں قتل نہ کریں۔ یہ ش...
12/05/2023

جب آپ ایسا کچھ دیکھتے ہیں، تو خوفزدہ نہ ہوں، فائر فائٹرز یا پولیس کو نہ بلائیں، حرکت نہ کریں اور انہیں قتل نہ کریں۔
یہ شہد کی مکھیاں ہیں جو صرف 24 گھنٹے سفر کرتی ہیں اور رکتی ہیں۔ انہیں پریشان نہ کریں اور ان کے قریب جانے سے گریز کریں، وہ آپ کو تکلیف نہیں دیں گے۔ ان سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
اگر آپ مدد کرنا چاہتے ہیں تو چینی کے پانی کے ساتھ ایک فلیٹ پلیٹ یا ٹرے رکھیں۔
شہد کی مکھیاں کھائیں گی، توانائی حاصل کریں گی اور اڑ جائیں گی۔ ہم سب کو ہجرت کرنے والی شہد کی مکھیوں کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہماری بقا کی ضمانت ہیں۔
تحقیق کار کہتے ہیں کہ شہد کی مکھیوں کے بغیر، زمین پر کوئی انسان نہیں ہوگا۔
اگر ھو سکے تو ان کی کالونی بنا کر رکھ لیں تاکہ یہ اس میں سیٹل ھو جائیں ان کی حفاظت کی وجہ سے موسم بہار میں آپکو تین سے پانچ گروپ بھی ملیں گے اور ساتھ ساتھ خالص شھد۔ سب سے بڑھ کر آپکے پاس پولینیشن کی کمی تو باکل بھی نہیں ھو گی بس اس معصوم مخلوق سے پیار کجیے یہ جو فایدہ ھمیں دے رھی ھیں ھم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔

منتخب

ایک صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے بچپن میں کسی نے ایک بات کہی تھی جس کے لیے میں مرتے دم تک ان کا شکر گزار رہوں گا۔انہوں نے کہا...
05/05/2023

ایک صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے بچپن میں کسی نے ایک بات کہی تھی جس کے لیے میں مرتے دم تک ان کا شکر گزار رہوں گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ جب تمہیں کسی کی کوئی بات بری لگے، غصہ دلائے تو کبھی اس وقت اس بات کا جواب نہ دینا بلکہ اگلے دن جواب دینا۔
وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات سمجھ تو نہ آئی لیکن میں نے اسے ذہن میں بٹھا لیا۔
پھر جب میں بڑا ہوا تو اس بات پر عمل کرنا شروع کردیا۔
میں غصہ دلانے والی بات کا فوراً جواب نہ دیتا بلکہ اگلے دن پر چھوڑ دیتا۔ لیکن اگلے دن مجھے احساس ہوتا کہ وہ بات تو تھی ہی بہت فضول۔ وہ تو جواب دینے کے قابل ہی نہیں تھی۔
پھر مجھے سمجھ آئی کہ دراصل انہوں نے مجھے غصے کا وہ لمحہ خاموش رہ کر گزار دینا سکھایا ہے۔
انسانی نفسیات کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ انسان کے جسم میں غصہ دلانے والا ہارمون صرف بارہ منٹ تک موثر رہتا ہے۔بس ہمیں ہمت کر کے، صبر سے اس وقت کو گزارنا ہوتا ہے۔

بہ شکریہ: دیا مرزا

یہ بیل گاڑی 1878 کے دور کی ہے جو سکھر سے شکار پور تک چلائی جاتی تھی۔ ایسی کئی گاڑیوں کا مالک ایک انگریز تھا جو اس مقامی ...
23/04/2023

یہ بیل گاڑی 1878 کے دور کی ہے جو سکھر سے شکار پور تک چلائی جاتی تھی۔ ایسی کئی گاڑیوں کا مالک ایک انگریز تھا جو اس مقامی ٹرانسپورٹ کو چلاتا تھا. رچرڈ برٹن جو کئی کتابوں کا مصنف بھی ہے ، اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ "میں نے کئی بار اس پر سفر کیا ہے ، یہ بہت ہی آرام دہ سفر ہوتا ہے ، صرف پانچ پیسے میں"۔
رات کو نو بجے سکھر سے چلنے والی یہ گاڑی صبح کو سات بجے شکار پور پہنچا دیتی تھی ۔ اس وقت مالدار لوگ اسی گاڑی میں سفر کیا کرتے تھے اور اس میں خواتین کے لیے پردے کا بھی انتظام موجود ہوتا تھا ۔

منتخب

"سفید پوش"لوگ کہتے ہیں ہم بھکاریوں کو نہ دیں تو پھر کیا کریں ، ہمیں سفید پوش نہیں ملتے اور نہ ہی معلوم ہے کہ سفید پوش کو...
01/04/2023

"سفید پوش"
لوگ کہتے ہیں ہم بھکاریوں کو نہ دیں تو پھر کیا کریں ، ہمیں سفید پوش نہیں ملتے اور نہ ہی معلوم ہے کہ سفید پوش کون کون ہے ۔
جو آپ کے گھر پانی سپلائی کرتا ہے وہ سفید پوش ہے ، کسی بینک کے باہر کھڑا گارڈ سفید پوش ہے ، آپ کے گھر کام کرنے والی خاتون ، گلی میں غبارے بیچنے والا ، چھان بورا خریدنے والا سفید پوش ہے ، کسی درخت کے سائے یا دھوپ میں کھڑا سبزی فروش بوڑھا سفید پوش ہے ، روزے کے ساتھ گھر گھر بائیک پہ فوڈ پانڈا پہنچانے والا نوجوان سفید پوش ہے ، کسی چوک میں دھوپ میں بیٹھ کر جوتے پالش اور گانٹھنے والا اور گلی کا خاکروب سفید پوش ہے ، آپ کے قریبی پارک کا مالی اور کسی مسجد میں پندرہ ہزار ماہانہ تنخواہ لینے والا امام سفید پوش ہے ۔ ورکشاپ پہ کام کرنے والے بارہ تیرہ سالہ بچے سفید پوش ہیں ۔ آپ کے خاندان میں بھی کئی سفید پوش ہوں گے ۔

ان کو تلاش کیجیے ، چہروں سے پہچانیے ۔۔۔ اور ان کے ہاتھوں میں ، ان کے گھروں میں دے آئیے ۔

20/02/2023
" میرے گاؤں کے پچاس فیصد لوگ چوبیس گھنٹے میں صرف ایک بار کھانا کھاتے ہیں " جب میں نے ہوٹل میں بیٹھ کر  پہلا لقمہ کھایا ت...
02/02/2023

" میرے گاؤں کے پچاس فیصد لوگ چوبیس گھنٹے میں صرف ایک بار کھانا کھاتے ہیں " جب میں نے ہوٹل میں بیٹھ کر پہلا لقمہ کھایا تو وہ مجھے دیکھ کر مسکرا دیا. مجھے اندازہ نہیں کہ میں نے دعوت پہلے دی یا وہ پہلے اُٹھا اور میرے ساتھ کھانے میں شریک ہو گیا. کھانے کے دوران میں اس نے یہ انکشاف کیا اور میں اسے حیرت زدہ ہو کر دیکھتا رہا. " اگر لوگ صرف ایک وقت کھانا کھاتے ہیں تو زندہ کیسے رہتے ہیں " میں نے پوچھا تو وہ بولا " باقی اوقات میں وہ سیب, خوبانی اور دیگر پھل کھاتے ہیں " میں مسکرا دیا تو وہ حیرانی سے بولا " آپ کتنے عرصے تک صرف ایک وقت کھانا اور باقی اوقات میں پھلوں پر گزارہ کر سکتے ہیں " میں سوچنے لگا کہ واقعی روٹی کے بغیر صرف پھلوں پر گزارہ کس قدر مشکل امر ہے. اس پہاڑی علاقے میں درختوں سے گر کر منوں کے حساب سے پھل ضائع ہو جاتے ہیں. جو پھل میدانی علاقے کے لوگ ہفتے میں ایک بار افورڈ نہیں کرتے ہیں. وہ یہاں بکثرت اور بے دام پایا جاتا ہے. اسے کھا کر زندہ رہ سکتے ہیں مگر گندم کے بغیر زندگی کا تصور سخت مشکل معلوم ہوتا ہے. کیا دنیا میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں لوگ گندم کے بغیر دوسری اجناس یا پھلوں کے عادی ہیں ؟ میرا خیال ہے کہ شاید ایسا نہیں ہے اور کہیں ایسا ہے بھی تو مستقل ایسا ممکن نہیں ہے.
کھانا کھانے کے بعد اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور بولا " آپ سے مل کر خوشی ہوئی, میدانی علاقے کے لوگوں کا ہم سارا سال انتظار کرتے ہیں. اُن کی آمد سے ہماری زندگی میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے, اس علاقے میں سیاح بہت کم آتے ہیں "
وہ جانے لگا تو اچانک پیچھے مڑ کر تشویش زدہ لہجے میں بولا " سنا ہے کہ اس سال میدانی علاقے میں کٹائی کے فوری بعد گندم کی قلت پیدا ہو گئی ہے . " میں کچھ کہتے کہتے رُک گیا تو وہ گویا ہوا " میری زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہمارے علاقے میں پھل دار درختوں پر کم مقدار میں پھل لگے ہیں اور بظاہر اس کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی ہے " مجھے بولنا پڑا اور میں نے کہا " وافر مقدار میں گندم کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے درختوں نے پھل دینا کم کر دیا ہے. اگلے سال نیّت درست ہوئی تو درخت پھر سے زیادہ مقدار میں پھل دینے لگ جائیں گے ,تشویش کی کوئی بات نہیں ہے . "

بہ شکریہ: شاہد اشرف

04/12/2022
25/11/2022

سائنس دانوں کو ایک لاکھ ستر ہزار سال پہلے کی تاریخوں میں کھانا پکانے کے لئے آگ کے استعمال کا ثبوت ملتا ہے لیکن جریدے نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولیوشن میں شائع ایک نئی ریس....

20/11/2022

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر اس وقت جتنا بھی ڈیٹا محفوظ ہے، اس کا سائز کیا ہے؟ اور پھر پاکستان کے شہر کوئٹہ کا اس ڈیٹا سے کیا تعلق ہے؟ یہ بات بہت حیر...

اقبال اور خوشحال ؛ سرقہ یا تواردتحریر : پروفیسر جاوید احساسعلامہ اقبال استحکام خودی پامردی بلند پروازی جیسے مضامین کی بن...
10/11/2022

اقبال اور خوشحال ؛ سرقہ یا توارد
تحریر : پروفیسر جاوید احساس

علامہ اقبال استحکام خودی پامردی بلند پروازی جیسے مضامین کی بنا پر خوشحال کی شخصیت و شاعری دونوں کے زبردست مداح تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف مقامات پر ان کی شخصیت و شاعری کا بھرپور اعتراف کرتے ہیں مثلا" انیس سو تیس کے عشرے میں دکن سے شایع شدہ رسالے میں خوشحال کو ایک نابغہ قرار دیا تھا۔
علاوہ ازیں
خوشحال خان خٹک کی وصیت
کے عنوان سے اقبال کی باقاعدہ ایک نظم بھی موجود ہے جس میں وہ خوشحال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
اردو کے علاوہ اقبال نے فارسی شاعری میں بھی خوشحال خٹک کی توصیف کی ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اقبال ہی نے خدیجہ فیروزالدین سے خوشحال پر پی ایچ ڈی کرنے کو کہا تھا۔ یہ خوشحال پر اولین پی ایچ ڈی تھی۔ خدیجہ ان دنوں ہمارے بنوں میں ملازمت کے سلسلے میں رہایش پذیر تھیں۔

مطلب یہ کہ اقبال نے تینوں زبانوں اردو فارسی اور انگریزی میں خوشحال کو بلند بانگ خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر اقبال بالفرض خوشحال سے سرقہ کرنا چاہتے ہوتے تو اس قدر وسیع اولین بھرپور اور جامع خراج عقیدت کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پھر تو وہ خوشحال کا ذکر تک نہ کرتے تاکہ لوگوں کا اس جانب دھیان ہی نہ جاۓ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبال بہت اونچی شخصیت واقع ہوۓ تھے۔ انہوں نے اس زمانے میں خوشحال کا اعتراف کیا جب دنیا پر خوشحال کی عظمت واضح ہی نہیں ہوتی۔ یہ تو اقبال کی عین عظمت ہے اور خاص کر پشتونوں کو تو اقبال کا ممنون احسان ہونا چاہیے کہ دنیا بھر سے خوشحال کے تعارف و اعتراف کا باعث ٹھہرے۔۔۔۔۔ انیس تیس کے عشرے میں دکن کے رسالے میں انگریزی میں اقبال کی جانب سے اس قدر جامع و مانع لفظوں میں خوشحال کا اعتراف ایک بہت بڑا ادبی تنقیدی تاریخی تھذیبی واقعہ تھا۔۔۔
چنانچہ خوشحال کے اس قدر وسیع اور جامع و مانع اعتراف کے بعد اقبال پر خوشحال کے ضمن میں سرقے کا الزام اگر دیانت داری سے دیکھا جاۓ، خود بخود تحلیل ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔۔
مزید برآن ایک اور امر بھی پیش نظر رہے کہ اقبال اور خوشحال کا معاملہ دراصل موضوعات کی یکسانیت تھی۔ خوشحال پشتونوں کو درس خودی و غیرت و عمل دے رہے تھے۔ جبکہ یہی سبق اقبال برصغیر کے مسلمانوں اور وسیع تناظر میں پوری ملت اسلامیہ کو دے رہے تھے۔ لھذا موضوعات کی یکسانیت اکثروبیشتر علامات کی یکسانیت پر بھی منتج ہوتی ہے۔ سو خوشحال کے ہاں اگر شاہین کی علامت مستعمل ہے تو بعینہ اقبال کے ہاں بھی شاہین ہی کی علامت کا استعمال بالکل فطری اور ناگزیر تھا۔۔۔۔۔ کیونکہ اس کے علاوہ کوئ ایسا بھرپور علامت ڈھونڈنا ممکن ہی نہیں۔۔۔۔۔۔
اسی طرح علامت کی یکسانیت کی بنا پر ظاہر بات ہے علامت کے وسیلے سے مختلف بنیادی اور ضمنی خیالات و افکار کے اظہار میں بھی یکسانیت در آنا بڑی حد تک لازم ہی ٹھہرتا ہے۔

مثلا" شاہین کی ایک صفت بلند پروازی ہے۔ اب مذکورہ صفت تو پوری دنیا میں معلوم و معروف ہے۔ اقبال لاکھ کوشش کریں شاہین سے متعلقہ صفت چھین تو نہیں سکتے۔ ظاہر بات ہے اقبال شاہین کی بلندپروازی کے محاورے میں ہی بات کریں گے۔۔ اسی طرح شاہین عمل و بے نیازی کے مقابلے میں کوے ہی کا استعارہ استعمال کیا جاۓگا۔۔ سو شاہین اور کوے یا دیگر متعلقہ علامات اور انہی علامات کے وسیلے سے مختلف مرکزی اور ضمنی خیالات کے اظہار میں مذکورہ یکسانیت کو اس نظر سے دیکھا جاۓگا۔ اسے کسی بھی صورت میں سرقہ نہیں کہا جا سکتا۔۔

علاوہ ازیں جنئیس لوگوں کے خیالات میں فطری یکسانیت بھی مدنظر رہے۔
یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ جنئیس شخصیات و شعرا کے خیالات میں عمومی طور پر انتہائ یکسانیت پائ جاتی ہے۔ اقبال اور خوشحال دونوں جینئیس شخصیات و شعرا تھے۔ ان کے خیالات و جذبات میں یکسانیت فطری اور یقینی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر خوشحال اور اقبال کے بنیادی سروکار یعنی بنیادی مسائل کو دیکھا جاۓ تو یہ ایک معلوم و معروف حقیقت ہے کہ ان کے مسائل بھی مشترکہ بنیاد رکھتے تھے۔ فرق محض پشتونوں اور مسلمانوں یا امت مسلمہ کے حوالے سے تھا۔۔ لہذا اگر دیانت سے کام لیا جاۓ تو ان کے خیالات میں یکسانیت کو سرقے کے نکتہ نظر سے ہرگز نہیں دیکھا جا سکتا۔

جدوجہد اور عمل کے فلسفے کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک معلوم و معروف حقیقت ہے کہ اقبال کے تمامتر فلسفے کی اصل بنیاد قرآن پاک ہی ہے۔ قرآن پاک کو دیکھا جاۓ تو کتاب زندہ، عمل پر ہی مستقل زور دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔۔۔ تفصیل کا یہ محل نہیں۔ چنانچہ اگر اقبال عمل پر مسلسل زور دیتے ہیں یا اس ضمن میں نوری یا ناری کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے پس پشت بھی دراصل قران ہی کا عملی فلسفہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری تو شاعری، اقبال نے اپنے انگریزی خطبات کے فلسفیانہ موضوعات کا آغاز بھی قرآن کے عمل پر زور دینے کی حقیقت کے اظہار سے کیا ہے۔ یہ کتنی بڑی اہم اور حیران کردینے والی حقیقت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال تھذیبی سیاسی اور فلسفیانہ موضوعات تک کو قرآنی فلسفہ کی روشنی میں دیکھتے تھے۔۔ چنانچہ عمل کے حوالے سے اشعار کو بھی قرانی فلسفہ سے مستعار و مستفاد سمجھنا چاہیے۔ انہیں کسی طرح بھی سرقے پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

ان ساری توضیحات کے باوجود اگر کسی کو شک ہو تو کہنا یہ ہے کہ اگر دیگر کے ہاں توارد کا درآنا بعید از امکان نہیں سمجھا جاتا تو اقبال کے معاملے کو توارد سے کیوں تعبیر نہیں کیا جاسکتا؟ اصل معاملہ یہ ہے کہ اقبال کے معاملے میں عین علمی بددیانتی اور تمام تعصب ہی سے کام لیا جارہا ہے۔ حالانکہ توارد ایک باقاعدہ تحقیقی و تنقیدی اصطلاح کے طور پر مستعمل چلا آ رہا ہے۔۔

13/10/2022

سیلاب متاثرین سے بھری یہ مسافر بس کراچی سے اندرون سندھ جارہی تھی جس میں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔

02/10/2022

چیونٹیوں کی تعداد کو اگر انسانوں کی تعداد سے دیکھا جائے تو ہر انسان کے مقابلے میں تقریباً 25 لاکھ چیونٹیاں ہیں۔

06/09/2022
29/08/2022

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ZEEST posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share