18/01/2023
(داستان گو) حصہ سوم
مرے ہم گناہو!
تصور کے بے تاج و بے تخت و بے آبرو بادشاہو!
تم آج اس جگہ پر
خیالوں سے معمور کوہ ندا پر
کسی آرزو کی بھٹکتی صدا پر
پھر آئے ہو آج اپنے بوجھل دماغوں کا کشکول تھامے
میں کیا دیکھتا ہوں
سوالوں کے پنجرے میں روحیں ہیں بسمل
نگاہوں کے اندر خلا کا سمندر
بلا کا سمندر
مرے حرف کے نوح کا منتظر ہے
مگر ہم نصیبو!
تصور پرستی میں امکان_صدق و صفا کے رقیبو
مرے پاس کوئی کہانی نہیں ہے!
مرے پاس غم ہے
ان آنکھوں کا نم ہے
یا وہ ایک جھوٹی قسم جو مری آگہی کا بھرم ہے
اور آنکھیں تو گاگر ہیں بس ان کے بہنے کی کوئی وجہ ہو
مرے ہم گناہو!
کہاں پر کہانی کہاں میں تمنا کے ریشم کا کیڑا
مرے جیسے کتنے ہزاروں برس سے خیالوں کے ریشم سے مکڑی کے جالوں کو بنتے رہے ہیں
وہ صدیوں کے موتی ہوس کے پھٹے اور برباد کپڑوں میں چنتے رہے ہیں
خدا کی قسم میں فقط آئینہ تھا!
میں حرفِ تمنّا کے بت کا پجاری
سخن کا مداری
میں شہر غمِ ذات کا شاہزادہ
تمہیں اپنے آنسو پلاتا رہا ہوں
میں تم کو تمہارے ہی چہرے کے غازے پہ غازے بدل کر دکھاتا رہا ہوں
سمرقند کے شاہزادے کی غیرت
گڈریے کے بیٹے کی آزردگی ہے
خراسان کی شاہزادی کی چاہت
جولاہے کی بیٹی کی زندہ دلی ہے
ندی میں دہکتے ہوئے چاند کا آبشاروں سے کوئی بھی رشتہ نہیں ہے
میں ساسان کے شہنشاہوں کو اکثر پہاڑی قبیلوں کے سردار کے روپ سے ڈھالتا ہوں
میں حرص و ہوس اور حسرت کے محلوں میں بےتاب جن و پری پالتا ہوں
وزیرِ خداد ہے وہ گڈریا جو بھیڑوں کے ریوڑ خطرناک پگڈنڈیوں پر لئے جا رہا ہے
فسانے کا دشمن ہے وہ زر کا بندہ
جو بازار میں جانتے بوجھتے سامنے خون ناحق کئے جا رہا ہے
محلات شاہی تمہاری ہی وادی کے بادام کے کھیت کا کوئی گھر ہیں
محبت کے قصے
کساں زادیوں کی چمکتی نگاہوں کا انمول ڈر ہیں
مرے ہم گناہو!
مجھے کیا پتہ کہ سکندر کی دارا سے کیا دشمنی تھی
میں اندھا مصور تباہ انگلیوں سے چٹانوں پہ چہرے کھرچتا رہا ہوں
صدا ایک بچھڑی ہوئی گونج ہے آسمانی وحی کی
جسے وحشیوں نے یہاں پسلیوں کے جہنم میں صدیوں سے جکڑا ہوا ہے
میں اظہار کے کرب میں مبتلا زندگی کی صدا ہوں
صدا جس کو ہونا تھا اور اس صدا کا کوئی ایک یکتا معانی نہیں ہے
صدا جو مجھے اب سنانی نہیں ہے
مرے پاس کوئی کہانی نہیں ہے!
(عمران فیروز)