Umeed

Umeed urdu magazin ........HOPE

12/10/2024

گرچہ اک مٹّی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی

10/10/2024

میرے قصے_سر بازار اچھالے اس نے۔۔
جس کا ہر عیب زمانے سے چھپایا میں نے۔۔

08/10/2024

‏خسارہ ہے ہر وہ چیز, ہر وہ سہولت, ہر وہ شخص
جسکے بدلے کی قیمت آپکا ذہنی سکون ہو۔ ایسی دولت شہرت نہ منظور

تم پر صرف کوشش کرنا لازم زندگی میں لوگ صرف اپنے نصیب کے راستوں پر ہی چلتے ہیں!لہٰذا خود کو زیادہ سوچ میں مبتلا نہ کرو، ا...
23/09/2024

تم پر صرف کوشش کرنا لازم
زندگی میں لوگ صرف اپنے نصیب کے راستوں پر ہی چلتے ہیں!
لہٰذا خود کو زیادہ سوچ میں مبتلا نہ کرو، اور اپنے دل کو ان چیزوں سے پریشان نہ کرو جن پر تمہارا کوئی اختیار نہیں ہے!
اللہ کا حکم یقیناً پورا ہو کر رہے گا، چاہے تمہیں راستے کتنے ہی دشوار نظر آئیں یا دروازے بند محسوس ہوں!
تم پر صرف کوشش کرنا لازم ہے، اور تمہیں بس چلتے رہنا ہے۔ لیکن کب پہنچو گے، کیسے اور کہاں؟
یہ ایک غیب ہے جسے صرف اللہ ہی جانتا ہے۔

11/07/2024

دہ چے مے پہ ویختو کے سپین رازی
دہ مے پہ پختو باندے زوانی رازی

30/05/2024

زندگی میں اپ کے مقابلے کا کوئی نہ کوئی ہونا چاہئے ۔ تاکہ وہ اپ کو زندہ اور جگائے رکھے ۔ کہ اپ بھی اس دنیا میں ہو ۔

07/05/2024

یہ دنیا عالمی ممکنات ہے ۔ صبر کریں انتظار کریں ۔
یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔

24/04/2024
Creativity by Saleem Medias Page03479441713 Like and Follow then share   #امتحانات
19/03/2024

Creativity by Saleem Medias Page
03479441713
Like and Follow then share


#امتحانات

ریل کے سفر کے دوران ایک صاحب کی جب بھی سامنے بیٹھی خاتون سے نظر ملتی مسکرا دیتے،  جب یہ چوتھی بار ہوا تو خاتون بھی مسکرا...
29/02/2024

ریل کے سفر کے دوران ایک صاحب کی جب بھی سامنے بیٹھی خاتون سے نظر ملتی مسکرا دیتے، جب یہ چوتھی بار ہوا تو خاتون بھی مسکرائیں اور کہا۔۔۔
"جب بھی آپ مسکرا کر مجھے دیکھتے ہیں میرا دل کرتا ہے کہ آپ سے ملاقات ضرور کرنی چاہیئے"
یہ سن کر صاحب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کریں.
فوراً بولے ۔۔۔
جی ضرور ضرور، جب آپ کہیں، اور کہاں ملنا ہے ؟
خاتون نے اپنا کارڈ دیا اور کہا میرے کلینک میں....میں ڈینٹسٹ ہوں۔۔۔
آپ کے دانت میلے کچیلے، ٹیڑھے میڑے اور کالے ہیں. سائیڈ کی دو داڑھوں میں کیڑا بھی لگا ہوا ہے. مجھے لگتا ہے شاید ایک ملاقات کافی نہ ہو لیکن یہ گارنٹی ہے کہ مجھ سے ملاقات کے بعد آپ مسکراتے ہوئے کم از کم اتنے برے نہیں لگیں گے۔
مہذب خاتون تھیں اسی لیئے صرف "دانت" کے کیڑے کا بتایا"

06/01/2024

اگر تمہارے رزق میں سے دوسروں کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں
تو تم خوش قسمت ہو کہ تمہارا رب تمہارا رزق پاک کر رہا ہے
یہ دنیا فانی ہے 😊✨

13/08/2023

"We are trying to mentor our youth about the modern skills of Digital Platforms. We also Provide digital solutions to newly built companies and already working companies to enhance their efficiency with power of social media and with online presence"

09/08/2023

Saleem Media Service
"We are trying to mentor our youth about the modern skills of Digital Platforms. We also Provide digital solutions to newly built companies and already working companies to enhance their efficiency with power of social media and with online presence"
Mingora 03479441713

31/07/2023

14 اگست کے حوالے سے ہر قسم بیجز ماسک جھنڈے ہیڈ بینڈ وغیرہ تیار کئے جاتے ہیں ۔ اپنے تصاویر بھجے اور بنائے اپنے مرضی کے ڈئزائن ۔ سلیم میڈیا سروس 03479441713

24/05/2023
24/05/2023

وہ کون سے صحابی ؓ ہیں
جن کا آج بھی مدینہ منورہ میں بینک اکاؤنٹ
موجود ہے؟❤️❣️💞

09/04/2023

*ملا دو پیازہ* کون تھا؟
🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀

"ملا دو پیازہ" کا اصل نام "ابوالحسن بن ابو المحاسن بن ابو المکارم" تھا۔ مکّہ معظمہ کے قریب شہر طائف میں (عرب) میں 1540؁ کو پیدا ہوئے۔فطری طور پر ہنسوڑ اور ظریف تھے۔ ہنسنا ہنسانا عادت ثانیہ تھی۔

اس کے والد اس کی سوتیلی ماں سے لڑ جھگڑ کر گھر سے نکل گئے تو یہ اپنے والد کی تلاش میں نکلے اور قافلہ در قافلہ پھرنے لگے۔ آخرکار ایک ایرانی قافلے کے ہمراہ ایران پہنچے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نصیر الدین ہمایوں، شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر امداد لینے ایران آیا ہوا تھا۔ ہمایوں کے سپہ سالار بخش اللہ خان اور ایرانی سپہ سالار اکبر علی کی آپس میں گہری دوستی ہو گئی تھی۔ ابو الحسن کی خوش مزاجی، لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی نے سپہ سالار بخش اللہ خان کو بے حد متاثر کیا۔ اس نے سپہ سالار اکبر علی سے ابوالحسن کو بطور یادگار مانگ لیا۔

شو مئی قسمت ابو الحسن کا مربی سپہ سالار بخش اللہ خان کابل کے ایک محاصرے میں مارا گیا، اور ابو الحسن فوج کے ہمراہ ہندوستان پہنچا۔

1556؁میں ماچھی واڑے کی لڑائی کے بعد ابو الحسن دہلی آکر رہنے لگا۔ اس وقت ابو الحسن کی عمر 15،16 برس تھی مگر علم خاصا تھا۔ ابو الحسن نے دنیا سے بیزار ہو کر شمس الامراء محمد خان لودھی کی مسجد میں ٹھکانا کر لیا۔ علم کے اظہار اور خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا وصف بھی تھا، لہٰذا سب ابو الحسن کو "ملاّ جی، ملاّ جی" کہنے لگے۔

رفتہ رفتہ ان کی خوش خلقی اور لطیفہ گوئی نے شہر بھر میں دھوم مچا دی۔ ایک روز ملاّ جی ایک امیر کے ہاں دعوت پر گئے، وہاں ان کو ایک قسم کا کھانا بہت پسند آیا جو شخص ان کے برابر میں دسترخوان پر بیٹھا تھا اس سے دریافت کیا کہ اس کھانے کا نام کیا ہے؟ جواب ملا اسے "دو پیازہ" کہتے ہیں، کہ اس میں پکاتے وقت دو بار پیاز ڈالی جاتی ہے۔ ملاّ جی اس نام سے بہت خوش ہوئےاور یاد کر لیا، بلکہ عہد کر لیا کہ جب تک "دوپیازہ" دسترخوان پر نہ ہوگا وہ کسی کی ضیافت قبول نہ کریں گے۔

ملاّ جی کی یہ معصوم اور البیلی ادا بھی لوگوں کو بہت پسند آئی، پس لوگوں نے ملاّ جی کی دو پیازہ سے یہ رغبت دیکھ کر ان کا نام ہی "ملاّ دو پیازہ" رکھ دیا اور یہی نام انکی وجۂ شہرت بنا، اور اصل نام ابو الحسن پس پردہ رہ گیا۔

علامہ ابو الفیضی (ثم فیاضی) اور علامہ ابو الفضل دونوں بھائی ہی ملاّ دو پیازہ کے ہم جلیس اور مداح تھے۔ علامہ فیضی اور ملاّ دوپیازہ کی دوستی تو یہاں تک بڑھی کہ علامہ فیضی نے عبادت خانہ الہٰی کا انتظام و انصرام ملاّ دوپیازہ کے سپرد کر دیا۔ اور شہنشاہ اکبر تک ان کو پہنچا دیا۔ یوں قدرت نے انہیں ان کے صحیح مقام پر لا کھڑا کیا۔ ملاّ دوپیازہ کی ظرافت دربار میں پھلجھڑی چھوڑتی، باہر کا رخ کرتی تو کیا امیر کیا غریب سبھی سے خراج وصول کرتی۔‎

شہنشاہ اکبر کے دور میں ایک ایرانی عالم اور ملا دو پیازہ کا مشہور تاریخی مناظرہ منسوب کیا جاتا ھے۔ جس میں شرکا کو زبان کی بجائے صرف اشاروں سے کام لینا تھا۔ روایت کے مطابق جب ایرانی عالم اور ملا دو پیازہ آمنے سامنے بیٹھ گئے تو ایرانی عالم نے اپنی انگشت شہادت بلند کی۔ ملا نےجواب میں اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ایرانی کے چہرے کے سامنے لہرائی۔ ایرانی نے اثبات میں سر ہلایا۔ اُس کے بعد اُس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر ملا کے سامنے کیا جواب میں ملا نے داہنا ہاتھ مٹھی کی صورت میں بند کیا اور ایرانی کے سامنے مکّے کی طرح بلند کیا۔ ایرانی نے ستائش کے انداز میں سر ہلایا۔

پھر ایرانی عالم نے اپنے آدمی کے کان میں کچھ کہا اور اُس نے اپنی جیب سے انڈا نکال کر ملا کے سامنے رکھ دیا۔ ملا نے ایک نظر اُسے دیکھا اور اپنے آدمی کے کان میں سرگوشی کی وہ ذرا سی دیر میں ایک پیاز لے آیا جسے ملا نے ایرانی کے رکھے ہوئے انڈے کے ساتھ رکھ دیا۔ ایرانی نے بے ساختہ کھڑے ہو کر ملا کو گلے لگا لیا اور واخح الفاظ میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ملا کی علمی قابلیت اور حاضر دماغی کی زبردست تعریف کی۔ بادشاہ نے حسبِ اعلان اپنے گلے سے بیش قیمت موتیوں کی مالا اتار کر ملا کے گلے میں ڈال دی اور خلعت و زر نقد بھی عطا کیا ملا فتحیاب اور کامران دربار سے رخصت ہو گیا۔ ‎بعد میں شہنشاہ نے ایرانی عالم سے سوال و جواب کہ
تشریح چاہی تو اُس نے کہا؛
"جہاں پناہ آپ کا عالم بے حد ذہین، غضب کا حاضر دماغ اور علم و فن کا استاد ہے۔ میں نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ دیا کہ "اللّٰہ ایک ہے" - - ملا نے جواب میں دو انگلیاں دکھا کر واضح کیا کہ "مسلمانوں کے لیے اللّٰہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے" -

جواب درست تھا۔ پھر میں نے ہاتھ سے اشارہ دیا کہ "قادر مطلق کی کائنات ہتھیلی کی طرح وسیع اور پھیلی ہوئی ہے" - - - ۔جواب ملا کہ "اس کے باوجود وہ اللّٰہ کریم کے مکمل قبضہ قدرت میں ہیں اس طرح جیسے مٹھی میں بند کوئی چیز"۔ بڑی معقول تشریح تھی چنانچہ مجھے تسلیم
‎کرنا پڑی
جہاں پناہ تیسرا مسئلہ میں نے انڈا دکھا کر پیش کیا کہ "زمین شکل و صورت کے اعتبار سے انڈے کی طرح گول ہے"۔ ملا نے پیاز دکھا کر تصحیح فرمائی کہ "سات آسمان اور زمین پیاز کی طرح تہ بہ تہ لپٹے ہوئے ہیں" - -

تینوں جوابات مُسکت اور از حد عالمانہ تھے چنانچہ مجھے ملا کی علمیت تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں۔

اگلے روز بادشاہ نے ملا دو پیازہ سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگا؛ "عالم پناہ وہ عالم کہاں کا تھا، ایک جاہل اور گھامڑ تھا۔ چنانچہ معیار کم کرکے اُس کی سطح پر آکر جواب دینا پڑا"۔
"وہ کیسے؟" بادشاہ نے تعجب سے دریافت کیا۔
"حضور اُس نے بیٹھتے ہی اپنی انگلی میری آنکھ کی طرف بڑھائی اور دھمکی دی کہ میں تیری آنکھ پھوڑ دونگا " - -

‎پھر" ؟"
‎جہاں پناہ میں نے جواب میں اشارہ دیا کہ میں تیری دونوں آنکھیں پھوڑ دونگا اِس پر وہ اور زیادہ بد تمیزی پر اُتر آیا اور اشارہ دیا کہ تھپڑ ماروں گا ۔
‎اچھا؟ بادشاہ نے سمجھتے ہوئے کہا 'جی عالم پناہ، میں نے جواب دیا کہ ایسا گھونسہ ماروں گا کہ بتیسی باہر نکل آئے گی پھر جہاں پناہ، وہ مجھے انڈا دکھانے لگا کہ میں یہ کھاتا ہوں اتنی طاقت ہے کہ میں تمہارا بھرکس نکال دوں گا ۔ واقعی؟ جی جہاں پناہ، لیکن بندے نے جواب میں پیاز دکھا ئی کہ یہ انڈے میں ملا کر کھات ہوں جس سے طاقت دس گنا ہو جاتی ہے اس لیے جان نکال دوں گا بس عالی جاہ، پھر حضور کے اقبال کی بدولت وہ بھاگ نکلا"

ابو الحسن عرف ملاّ دوپیازہ نے 60 برس کی عمر پائی۔ مغل اعظم احمد نگر کے محاصرے سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں ملاّ دوپیازہ بیمار پڑ گئے، اور مہینہ بھر بیماری کاٹ کر 1600؁میں قصبہ ہنڈیا میں انتقال کرگئے، چنانچہ کسی ظریف نے اسی وقت کہا کہ ”واہ بھئی! ملاّ دو پیازے۔ مر کے بھی ہنڈیا کا پیچھا نہ چھوڑا۔ ملاّ دوپیازہ اور لالا بیربل کے چٹکلوں سے مہاب علی اکبر کا من خوب بہلتا تھا، سو ملا جی کی وفات پر اکبر کئی دن تک غمگین رہا۔

02/04/2023

میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ جب میں اپنی پسندیدہ کتب کا ذکر کروں گا تو اس میں کوئی آب بیتی بھی شامل ہوگی مگر ماہ پارہ صفدر صاحبہ کی “میرا زمانہ میری کہانی “ میری پسندیدہ کتب میں شامل ہوچکی ہے ـ
یہ کتاب محض آب بیتی نہیں یے بلکہ ایک عہد کی کہانی ہے ـ پاکستان ریڈیو کے روشن دور کی، پاکستان ٹیلی ویژن کی چمکتے دنوں کی ـ ایک عہد رفتہ کی کہانی ـ ناسٹیلجیا کی کہانی ہے ـ ہم خبریں تو پڑھتے اور سنتے ہیں، یوں سمجھیے کہ یہ ان خبروں کے پس پردہ کی کہانی ہے ـ ایک نیوز کاسٹر کی کہانی جس نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا ـ جس کی آواز، جس کا چہرہ سے پورا پاکستان واقف “تھا" ـ بھٹو کی کہانی، مارشل لا کے حقائق، 1965کی جنگ ،ضیا الحق کے “ مذہبی اقدامات“ کا پس پردہ منظر، بحثیت لڑکی پیش انی والی مشکلات، ایک عورت کا مقدمہ لڑتیں تحریریں، سبھی کچھ تو ہے کتاب میں ـ
کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے ـ
پلا باب تعارفی ہے، جس میں مصنفہ نے اپنا،عزیزواقارب اوردیگر ابتدائی حالات کا مفصل احوال بیان کیا ہے ـ
دوسرا باب مصنفہ کے 1990 تک کے پاکستان ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے دور کا احوال ہے اور میرا پسندیدہ باب بھی یہی ہے ـ مصنفہ نے نہایت نڈر ہوکر ایک ایک موضوع پر لکھا ہے ـ 65 کی جنگ، 71 کا سانحہ، مارش لا کے اسباب، بھٹو کا نعرہ جمہوریت اور آمرانہ انداز، ضیاالحق کے متضاد قول و فعل اور مذہب کارڈ،
یہ سب اور بہت کچھ بھی بیان کیا گیا یے ـ قابل ذکر بات یہ یے کہ مصنفہ نے ان موضوعات پر نہ صرف اپنی طرف کی کہانی لکھی ہے بلکہ بہت سی کتابوں کے حوالہ جات شامل کرکے ایک مستند اور جامع تحریر بنادیا ہے ـ ان پر اگرچہ لاتعداد بار لکھا گیا ہے مگر ناظر کی بجائے ٹی وی سکرین کی بیک سے ان تمام چیزوں کو دیکھنا ایک نہایت دلچسپ تجربہ ہے ـ ان تمام باتوں کا احاطہ کرتے یہ باب مصنفہ کے بی-بی-سی کے تین سالہ ملازمت کے کانٹریکٹ پر ختم ہوتا ہے ـ
تیسرا باب خاصا طویل ہے ـ مصنفہ نے لندن میں رہنے
کا تجربہ، بی -بی-سی کی آزاد صحافت، اپنی رپورٹنگ کے واقعات ، ایران عراق کا احوال تفصیل سے بیان کیا ہے ـ بلوچستان کا مقدمہ نہایت عمدگی سے پیش کیا یے کہ شاید تیرے دل میں اتر جائے میری بات ـ
مشاہیر سے ملاقاتوں کا ذکر جن میں احمد فراز، پروین شاکر ، احمد ندیم قاسمی و دیگر بہت سارے نامور ادبی ستارے وغیرہ شامل ہیں ـ اور ان سب کا شکوہ کہ لوگ نیا کلام سننا نہیں چاہتا دل میں کھب گیا ـ دلیپ کمار سے ملاقات،ساتھی رپورٹرز کا تفصیل سے تذکرہ، شاہی خاندان کا ذکر، گویا کہ ہر چیز شامل کی گئی ہے ـ ایک شخصیت جن کا تذکرہ نہیں ملا اور وہ طارق عزیز صاحب ہیں ـ شاید کبھی ملاقات نہیں ہوئی یا پھر مصنفہ ذکر کرنا بھول گئیں ـ
سیکنڈ لاسٹ تحریر میں اس بات کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ کیسے تین سال بی-بی-سی کا کانٹریکٹ جس کے لیے پاکستان چھوڑا تھا، اب تیس سال بعد بھی واپس نہ جاسکیں ـ یہ تحریر بیرون ملک رہنے والے ان لاتعداد پاکستانیوں کا مقدمہ ہے جن کے دلوں میں آج بھی پاکستان بستا ہے، جو آج بھی لوٹنا چاہتے ہیں مگر نہیں لوٹ پاتے ـ
اور آخری حصہ مصنفہ کی شاعری پر مشتمل ہے جس میں نظمیں، غزلیں اور متفرقات شامل ہیں ـ
بہت خوبصورتی سے بنی گئی کتاب، دل سے لکھا گیا حال، جس کے متعلق مجھے خدشہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کتاب امیدوں پر پورا نہ اترے مگر
کتاب حقدار ہے کہ اسے ضرور پڑھا جائے خصوصا وہ لوگ کہ جن کی یاداشت میں آج بھی ماہ پارہ صفدر کا لب و لہجہ تازہ ہے اور تصویر آج بھی نقش ہے ـ

29/03/2023

گرفتہ دِل ہیں بہت ، آج تیرے دِیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سِوا نہ پہچانے
مِٹی مِٹی سی اُمیدیں ، تھکے تھکے سے خیال
بُجھے بُجھے سے نگاہوں میں ، غم کے افسانے
ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
یہ اور بات کہ پُوچھا نہ اہلِ دُنیا نے
بقدرِ تشنہ لبی پرسشِ وفا نہ ہُوئی
چھلک کے رہ گئے ، تیری نظر کے پیمانے
خیال آ گیا مایوس رہ گُزاروں کا
پلٹ کے آ گئے منزل سے تیرے دِیوانے
کہاں ہے تو کہ ترے اِنتطار میں اے دوست
تمام رات سُلگتے ہیں ، دِل کے ویرانے
اُمیدِ پرسشِ غم کس سے کیجئے ناصرؔ
جو اپنے دِل پہ گُزرتی ہے ، کوئی کیا جانے
شاعر : ناصرؔ کاظمی
مجموعہ کلام : ”برگِ نے“

زرا سوچیئے!۔۔۔۔۔🧐یہ دریاۓ فرات کا منظر ہے جو ان 3 سالوں میں 80% خشک ہوا .اب وہ دن دور نہیں  جب یہ اپنے خزانے کا پہاڑ ظاہ...
23/03/2023

زرا سوچیئے!۔۔۔۔۔🧐
یہ دریاۓ فرات کا منظر ہے جو ان 3 سالوں میں 80% خشک ہوا .اب وہ دن دور نہیں جب یہ اپنے خزانے کا پہاڑ ظاہر کرے اور اس پر خون ریز جنگ ہوگی 100 میی 99 انسان مارے جائیں گے اس جنگ کے فورآ بعد امام مہدی کا ظہور ہوگا سن لو کان کھول کر .سیاست کے چنگل سے نکلو اور اپنے اللہ کے پاس آجاؤ ورنہ تباہ وبرباد ہوجاؤ گے .ظہور امام مہدی کی ساری نشانیاں پوری ہوچکی ہیں وقت یہ فیصلہ کرےگا کب کہاں کیسے وہ آۓگا اور بیت لےگا ..بیشک وہ 1 ہفتے کے اندر ہو یا مہینہ یا ایک سال ہو . اس کی آنے سے دنیا کے مسلمان پر امن ہو جائیںگے لیکن جنگوں کیلۓ ہماوقت تیار رہنا ہوگا
بہرحال جو نہیں جانتے تو انکے لیے یہ حدیث پیش خدمت ہے
عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعاً: «لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب يُقْتَتَلُ عليه، فَيُقْتَلُ من كل مائة تسعة وتسعون، فيقول كل رجل منهم: لعلي أن أكون أنا أنجو». وفي رواية: «يوشك أن يحسر الفرات عن كنز من ذهب، فمن حضره فلا يأخذ منه شيئا»
(صحیح-متفق علیہ)
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکل آئے جس پر لڑائی ہو

فلسطینی بھی اس انتظار میں تھے کہ چلو اس وقت زمینیں اسرائیلیوں پر فروخت کرکے پیسے لینگے اور امام مہدی کا ظہور ہونے والا ہے وہ ان کو مارکر واپس لینگے اس انتظار میں اپنے بیوی بچوں اور اپنے جانو اور گھروں سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔

‏بادل کے اس چھوٹے سے ٹکڑے کو دیکھ کر روز قیامت کی اور اللہ پاک کے عرش کی یاد آتی ہےکہ کیسے بروز حشر کچھ لوگوں پر اللہ کے...
29/12/2022

‏بادل کے اس چھوٹے سے ٹکڑے کو دیکھ کر
روز قیامت کی اور اللہ پاک کے عرش کی یاد آتی ہےکہ
کیسے بروز حشر کچھ لوگوں پر اللہ کے عرش کا سایہ ہوگا

📮اللہ کے عرش کا سایہ اور سات طرح کے لوگ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛سات آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں رکھے گا جس دن سوائے اس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا.

1⃣ عادل حاکم۔

2⃣ وہ شخص جو نو جوانی سے اللہ کی عبادت میں مشغول رہا ہو۔

3⃣ وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہو۔

4⃣ وہ دو اشخاص جو باہم صرف اللہ کے لئے دوستی کریں جب جمع ہوں تو اسی کے لئے اور جب جدا ہوں تو اسی کے لئے۔

5⃣ وہ شخص جس کو کوئی منصب اور جمال والی عورت زنا کیلئے بلائے اور وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اس لئے نہیں آسکتا۔

6⃣ وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔

7⃣ وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جائیں۔

*صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 626*

سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والا برطانیہ کا جاسُوس کرنل لارنس جسے دُنیا لارنس آف عریبیہ کے نام سے جانتی ہے، لارنس زب...
08/09/2022

سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والا برطانیہ کا جاسُوس کرنل لارنس جسے دُنیا لارنس آف عریبیہ کے نام سے جانتی ہے، لارنس زبور، توریت، انجیل اور قرآن کا حافظ تھا، وہ عربی، فارسی اور فرانسیسی زبانیں روانی سے بولتا تھا، اسے ایک عرب کی حیثیت سے عربوں میں پلانٹ کیا گیا، اس نے عالِم اسلام کے خلاف کیا کیا سازشیں کیں اسکی خفیہ فائلوں اور سازشوں کی مکمل داستان، اس کتاب کے مطالعے کے بعد آپ کو اسلامی دُنیا میں بہت سے لارنس سرگرم عمل نظر آیئں گے.
لارنس آف عریبیہ اور بغاوت عرب

امام بخاری اور صدر سوئیکارنو ۔۔۔۔حضرت امام بخاریؒ کا اصل نام محمدبن اسماعیل تھا لیکن تاریخ انھیں امام بخاری کے نام سے  ی...
23/08/2022

امام بخاری اور صدر سوئیکارنو ۔۔۔۔
حضرت امام بخاریؒ کا اصل نام محمدبن اسماعیل تھا لیکن تاریخ انھیں امام بخاری کے نام سے یاد کرتی ہے. انہیں اللہ تعالیٰ نے کرشماتی خوبیوں سے مالا مال رکھا ۔بچپن سے ہی انکا حافظہ غیر معمولی تھا ۔ اسے photogenic memory کہا جاتا ہے ۔۔ اپنی اکسٹھ سالہ زندگی میں بلا مبالغہ چھ لاکھ احادیث پر تحقیق کی اور سات ہزار احادیث کو علم حدیث کی سند اور دین و دانش کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد 'صحیح بخاری' جیسا شہرہ آفاق مجموعہ احادیث مدون کیا۔ جسے قرآن کریم کے بعد سب سے معتبر دینی منبع ہدایت تصور کیا جاتا ہے ۔۔ انہیں اپنے دور کے امام بے مثال امام احمد بن حنبل کی صحبت بھی میسر رہی۔۔۔۔
امام بخاری کی نظر بچپن میں ہی کمزور ہونا شروع ہو گئی ۔۔۔ اور وہ بالآخر نابینا ہو گئے ۔۔۔بیوہ والدہ دن رات دعا کرتیں ۔۔۔ صاحب ثروت خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ۔ بہتیرہ علاج معالجہ کروایا گیا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا ۔ آیک رات خواب میں انکی والدہ کو حضرت ابراھیم خلیل اللہ کی زیارت ہوئی جنہوں نے ماں کی گود میں نیم دراز بچے کے سر پہ دست شفقت رکھا اور شفا کی بشارت دی اور اگلی صبح امام بخاری کی بینائی بحال ہوگئی ۔۔ یہ کرامت شاید من جانب ایزدی تھی ۔کہ وہ چراغِ اور چاند کی روشنی میں بھی بخوبی لکھ پڑھ سکتے تھے ۔۔محض چھ برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا۔۔ ۔ امام بخاری نے جوانی میں حج کی سعادت حاصل کی اور نبی کریم کے روضہء مبارک سے متصل حجرہ میں دو سال قیام پذیر رہے اور محض اٹھارہ برس کی عمر میں دو کتب تحریر کیں ۔۔۔
امام بخاری نے عمر کا زیادہ حصہ۔۔۔بغداد اور سفر و حضر میں بسر کیا۔۔۔انکے شاگردوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز تھی ۔۔ عمر کے آخری ایام میں نیشاپور (ایران) میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے ۔۔مگر مقامی علماء کی تعصب نظری سے بیزار ہو کر بخارہ واپس آگئے ۔۔۔ بخارہ کے گورنر کو ان کی آمد کی اطلاع ہوئی تو اس نے خواہش ظاہر کی کہ امام اس کے بچوں کا اتالیق بننا قبول فرمائیں اور اشرفیوں کا تھیلا بھی ہمراہ بھجوا دیا۔۔۔جسے امام نے شکریہ کے ساتھ وآپس کردیا۔۔۔امام شہر چھوڑ کر سمر قند کے نواح میں خرتنگ نامی چھوٹے سے گاؤں میں جا آباد ہوئے ۔۔۔کتب بینی۔ تحقیق ۔ خلوت اور عبادت گزاری معمول تھا۔ شب بیدار تھے۔ تین راتوں میں قرآن مکمل کر لیتے۔ کہتے ۔۔ہر ختم قرآن ہر ایک دعا قبول ہوئی ہے۔ ۔اور وہیں وصال فرمایا ۔۔۔
وقت گزرتا گیا ۔۔ تیمور آیا، اس نے آپ کا مقبرہ تعمیر کروایا، تیمور گزر گیا اور اس کے گزرنے کے ساتھ ہی مقبرے کی نگہبانی بھی ختم ہو گئی، عمارت گری اور آہستہ آہستہ مقامی قبرستان میں گم ہو گئی، روس نے 1868ء میں سمرقند پر قبضہ کر لیا، سمرقند کی تمام عبادت گاہیں، روضے اور مزارات پابندی لگا دی گئی اور یوں امام بخاریؒ کا مزار گمنامی کی دبیز گرد میں گم ہو گیا۔اور لوگوں کے حافظے سے بھی یہ مقام محو ہو گیا ۔
سوئیکارنو ۔۔ انڈونیشیا کا مقبول ترین حکمران گزرا ہے ۔انہوں نے ملک کو ولندیزی حکمرانوں سے آزادی دلائی اور وہ اسکے بانی صدرِ تھے ۔اس ملک کی موجودہ ترقی میں انکی دور رس پالیسیوں کا گہرا عمل دخل ہے ان سے جڑا ایک دلچسپ واقعہ۔۔سمرقند میں ہمارے گائیڈ نے سنایا۔
روسی صدرِ خروشیف کی خصوصی دعوت پر سوئیکارنو نے 1961 میں روس کا دس روزہ دورہ کرنا تھا۔۔۔ سرد جنگ کے دن تھے ۔۔ ابھرتے ممالک کو اپنے کیمپ کی جانب راغب کرنے کے لیے عالمی طاقتوں میں رسہ کشی جاری تھی۔۔۔ کہتے ہیں کہ دورہ کے اعلان کے ساتھ ہی سوئیکارنو کو خواب میں ایک سے زائد مرتبہ یہ بشارت ہوئی کہ نبی کریم سے منسوب کوئی بزرگ خستہ حال میں انہیں یاد کررہے ہیں ۔۔۔ انہوں نے علماء کو بلایا اور استفسار کیا کہ روس میں کون سی نیک ارواحِ آسودہ خاک ہیں ۔۔ ایک عالم نے قیاس کیا کہ شاید سمرقند کے نواح میں مدفون امام بخاری کی جانب اشارہ ہے۔۔صدر سوئیکارنو نے روسی سفیر کے سامنے یہ شرط رکھی کہ روسی صدر سے ملاقات سے قبل وہ امام بخاریؒ کے مزار پر حاضری دیں گے۔
سوویت یونین کے لیے یہ دورہ انتہائی اہم تھا مگر وہ اس وقت تک امام بخاریؒ کے نام سے واقف نہیں تھے چنانچہ ڈھونڈمچی اور بعد تلاش بسیار روسی اہلکار سمرقند جا پہنچے، امام کا مزار اس وقت انتہائی خستہ حالی اور شکستگی کا شکار تھا۔۔ اور نہ ہی کسی سربراہ مملکت کے دورے کے لائق ۔ شایان شان یا عبادت کے قابلِ، روسی حکومت نے ٹالنے کی بہتیری کوشش کی لیکن سوئیکارنو کا اصرار قائم رہا، سوئیکارنو جون 1961ء کے شروع میں ماسکو پہنچے، حکومت نے انہیں ٹرین پر سوار کر دیا، یہ ٹرین چار دن بعد سمرقند پہنچی۔۔روسی حکام اس دوران دن رات محنت کرکے مزار کی حالت ٹھیک کرتے رہے لیکن اس کے باوجود سوئیکارنو جب وہاں پہنچے تو وہ مزار کی حالت دیکھ کر رو پڑے۔ مہمان صدر کیلئے مرقد کی زیارت کا دورانیہ نصف گھنٹہ مقرر تھا۔ مگر وہ فاتحہ خوانی کے بعد قبر کی پائنتی پر دوزانو بیٹھ گئے ۔ ساری رات نوافل کی ادائیگی اور قرآن خوانی میں گزاری۔ پروٹوکول ہر مامور بیسیوں اہلکار باہر سڑک پر انتظارِ کرتے رہے۔
ماسکو واپسی پر صدرِ خروشیف نے ازراہ تفنن سؤال کیا کہ اس دور افتادہ گاؤں میں کون سی خاص ہستی محو استراحت یے۔۔۔ سوئیکارنو نے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو اس قبر کے بدلے اتنے ہی وزن کا سونا اور جواہرات دے سکتے ہیں اور ان کے مقام سے صرف اہل ایمان ہی آگاہ ہیں۔۔۔خروشیف حکومت نے اس واقعے سے متاثر ہو کر مزار کی تعمیر نو کروائی اور امام بخاری ؒ کے روضے کو زائرین کے لیے کھول دیا، ازبکستان کی موجودہ حکومت نے مزار کی توسیع بھی کی اور اس کی تزئین و آرائش کا بہترین اہتمام کیا. ازبک حکومت نے امام بخآری کو سرکاری حیثیت میں پوری قوم کا روحانی پیشوا مقرر کیا ۔ یہاں ایک قرآن میوزیم بھی قائم کیا۔ شاہ خالد نے دنیا بھر سے قرآن پاک کے نادر نسخے یہاں بھجوائے ۔ آج یہ چھوٹا سا گاؤں مرجع خلائق ہے اور ہزاروں فرزندان توحید کشا کش دعا اور قرآن میوزیم کی زیارت کے لئے کچھے چلے آتے ہیں ۔۔
ان کے انتقال کے روز بہت سے اللہ والوں کو خواب میں صحابہ کرام کی زیارت نصیب ہوئی اور انہوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔خلد بریں میں خود ۔۔۔۔ ان کے منتظر کھڑے ہیں۔۔اور یہ لمحہ آفتاب حدیث کے عین غروبِ کا وقت تھا۔۔ نبی جی نے انہیں آپنی آغوش میں لے لیا یوگا۔۔اور وہ ہجوم مقربین میں شامل ہونگے ۔۔ ۔۔۔
امام بخاری کے مزار پر حاضری اور زیر زمین انکی آخری آرامگاہ میں دعائے مغفرت ۔ متصل قرآن میوزیم کی زیارت اور ملحقہ مسجد میں نوافل کی ادائیگی میری زندگی کی عظیم سعادت اور خوشبختی ہے۔۔۔
گزشتہ دنوں امام بخاری کی غیر معمولی کاوشیں زیرِ بحث رہیں ۔۔اور کچھ ناقدین کے تبصرے بھی نظر سے گذرے۔ ۔میرے نزدیک ان جیسے نابغہ روزگار ہزاروں برس میں اکا دکا ہی پیدا ہوتے ہیں اور وہ خود اللہ سبحان ۔ انبیاء کرام اور نبی کریم کے اذن سے اس کارہائے منصبی پر فائز ہوتے ہیں ۔۔۔۔ اللہ پاک ہمیں بھی ان کے اتباع کی توفیق عطا فرمائے ۔۔(ڈاکٹر تنویر زبیری)

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Umeed posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share