Safeer-e-Awam Jalal Pur

  • Home
  • Safeer-e-Awam Jalal Pur

Safeer-e-Awam Jalal Pur News

ایف آئی اے کے نام سے جعلی نوٹسسز کے اجرا کےواقعات میں اضافہمشکوک نوٹس موصول ہونے پر بھیجنے والے سے ہرگز رابطہ نہ کریں ،...
10/06/2024

ایف آئی اے کے نام سے جعلی نوٹسسز کے اجرا کےواقعات میں اضافہ
مشکوک نوٹس موصول ہونے پر بھیجنے والے سے ہرگز رابطہ نہ کریں ، ایف آئی اے
https://urdu.samaa.tv/2087316239
فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے شہریوں کو خبردار کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا جس میں شہریوں کو تنبیہ کی گئی ہےکہ شہری ہوشیار رہیں ایف آئی اے کے نام سے جعلی نوٹسسز کے اجرا کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، جعلی نوٹسز ای میل ، واٹس ایپ کے ذریعے پھیلائے جا رہے ہیں ۔

ایف آئی اے اعلامیہ کے مطابق نوٹسز میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی جعلی تفصیلات درج ہوتی ہیں ، قانونی کارروائی کی دھمکیاں دے کر بھی دھمکایا جاتا ہے ،جعلی افراد تصدیق یا تعمیل کے بہانے ذاتی معلومات حاصل کرنےکی کوشش کرتے ہیں ۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے نے اعلامیہ کے ذریعے سےشہریوں کو مطلع کیا ہے کہ ایف آئی اے کبھی بھی حساس معلومات ،نوٹسز یا فون کالز کے ذریعے طلب نہیں کرتا ، جعلی اور مشکوک نوٹس موصول ہونے پر بھیجنے والے سے ہرگز رابطہ نہ کریں ۔

Find latest breaking, trending, viral news from Pakistan and information on top stories, weather, business, entertainment, politics, sports and more. For in-depth coverage, Samaa English provides special reports, video, audio, photo galleries, and interactive guides.

07/06/2024

خبر غم!
ایم پی اے ملک لعل محمد جوئیہ کے چچا زاد بھائی ،سابق چیئرمین یونین کونسل بہلی شرہف ملک اقبال حسین جوئیہ کے چھوٹے بھائی ، ملک شاہد جوئیہ کے والد ملک عنایت حسین جوئیہ وفات پا گئے ہیں۔ مرحوم کا نماز جنازہ آج 7 جون بروز جمعہ 3 بجے بمقام بہلی شریف تحصیل جلالپور پیر والا ڈسٹرکٹ ملتان میں ادا کیا جائے گا.
شرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔
اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن

06/06/2024

*اعلان نماز جنازہ*
**بستی بندوقی نزد بستی ناچنگ موضع بیٹ کیچ تحصیل جلال پور کے رہائشی صفدر عباس (HC) نائب محرر تھانہ سٹی جلال پور اور غلام عباس اہلکار پنجاب پولیس کے والد محترم عاشق حسین وفات پا گئے ہیں جن کے نماز جنازہ آج مورخہ 6جون بروز منگل بوقت 11:00 بجے دن بمقام بستی بندوقی نزد بستی ناچنگ موضع بیٹ کیچ تحصیل جلال پور میں کیا جائے گا ۔شرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔ اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن*
*سوگواران:*
*صفدر عباس (HC) نائب محرر تھانہ سٹی جلال پور*
*03003760361*
*غلام عباس اہلکار پنجاب پولیس*
*03002295813*

*جلال پور کیلئے ایک اور اعزاز*  *جلال پور: موضع بہلی شریف تحصیل جلال پور پیروالا کے رہائشی ٹیلنٹڈ نوجوان ملک محمد ارسلان...
30/05/2024

*جلال پور کیلئے ایک اور اعزاز*

*جلال پور: موضع بہلی شریف تحصیل جلال پور پیروالا کے رہائشی ٹیلنٹڈ نوجوان ملک محمد ارسلان سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گزشتہ دنوں منسٹری آف ڈیفینس میں آفیسر تعینات ہوگئے ہیں انکے بطور آفیسر تعینات ہونے پر تحصیل جلال پور کے سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے مبارکباد ۔یاد رہے کہ ملک ارسلان ملک عابد حسین جوئیہ کے برادر ان لاءہیں* ۔

09/05/2024

*اعلان نماز جنازہ*
*بستی جھبیل نزد پھرانیں موضع کرموں والی تحصیل جلال پور کے رہائشی معروف کاشتکار جام محمد اقبال جھبیل اور جام زوار حسین جھبیل دبئی والے کے والد محترم جام گل محمد دنیا فانی سے رخصت ہوگئے ہیں.جنکی نماز جنازہ آج مورخہ 9مئی بروز جمعرات بوقت شام 4:00بجے بمقام بستی جھبیل نزد پھرانیں موضع کرموں والی میں ادا کیا جائے گی ۔شرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں ۔*
*اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن*
*سوگواران:*
*جام محمد اقبال 03012330224*
*جام زوار حسین 03008995408*

*1000روپے کے نوٹ کی پہچان کے لیے حفاظتی علامات* ❗
08/04/2024

*1000روپے کے نوٹ کی پہچان کے لیے حفاظتی علامات* ❗

08/04/2024

🧎🧎🕋🧎🧎
*جلال پور پیر والہ سٹی میں نماز عیدالفطر کے اوقات*
Updates......

👈 *06:45 بجے*
◀️ جامع مسجد سید الشہدا امیر حمزہ پُرانی کچہری چوک فورہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 *07:00 بجے*
◀️ جامع مسجد الرضا متصل گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر 1 (نماز عید سے قبل میاں شعیب حسن قادری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 *07:15 بجے*
◀️ بلال جامع مسجد مغربی بازار ( نماز عید سے قبل مولانا محمد عمر فاروق خطاب کریں گے)
◀️ جامع مسجد ابو ایوب انصاری محلہ حکیماں والہ (قاری محمد یوسف)
◀️ پلاٹ بالمقابل جامع مسجد محمدی اہلحدیث چاہ سہراب والہ نزد بسم اللہ ہوٹل المعروف دال والہ ہوٹل چوک کمہارانوالہ
◀️ جامع مسجد رحمت اللعالمین ، اسسٹنٹ کمشنر آفس (علامہ شعیب حسن قادری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 *07:30 بجے*

◀️ مرکزی عید گاہ چوک فوارہ (امامت و خطابت مولانا قاضی محمد ارشد قریشی)
◀️ جامعہ رحمانیہ شجاعت پور روڈ (پروفیسر عبدالشکور شاکر)
◀️ مدرسہ عربیہ نقشبندیہ موسویہ، محلہ نقشبندیہ (مولانا محمد ابوبکر یوسف)
◀️ مدرسہ عربیہ دارلسلام (مرکز جماعت اسلامی) گلی ورکشاپ والی نزد دفتر واپڈا شجاع آباد روڈ
◀️ مدرسہ سراج العلوم صرافہ بازار
◀️مسجد المرتضیٰ ، محلہ غریب شاہ
◀️ عید گاہ گلزارِ مدینہ محلہ خواجگان (خطیب علامہ محفوظ احمد ہاشمی)
◀️ مسجد محکم الدین السیرانی ، چوک ظاہر پیر
◀️ خطبہ عید مولانا قاری کاشف فدا چشتی جامیع مسجد گلزار مدینہ نیو لاری اڈا شہر جلالپور پیر والہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 *07:45 بجے*
◀️ مدرسہ صراط الحسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 *08:00 بجے*

◀️ عید گاہ اہلحدیث ، گلستان عائشہ نزد پروفیسر سکول پُرانا لودھراں روڈ (پروفیسر محمد یحییٰ)
◀️ مدرسہ قائم آل محمد محلہ خواجگان
◀️ مدرسہ صادق آل محمد المعروف دربار غریب شاہ قلندر محلہ غریب شاہ (مولانا صفدر حسین کانجو)
◀️ عید گاہ سعیدی رضوی ، عید گاہ موڑ نزد شیل پٹرول پمپ پرمٹ روڈ (مفتی سجاد حسین سعیدی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 *08:30 بجے*
◀️ دربار پیر قتال (مولانا نادر عباس عباس عسکری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 *09:00 بجے*
◀️ گلستان فاطمہ نزد میونسپل کمیٹی (خطاب علامہ شعیب حسن قادری، امامت میاں حسین احمد قادری)

*پیشکش : سویٹ جلال پور پیر والہ سوشل میڈیا نیٹ ورک اینڈ ویلفئر سروسز*

ایچیسن کالج: غلطی کا مداوا کریںسہیل وڑائچ کا کالم جو روزنامہ جنگ میں 26 مارچ 2024 کو شائع ہوا ہےhttps://urdu.geo.tv/late...
27/03/2024

ایچیسن کالج: غلطی کا مداوا کریں
سہیل وڑائچ کا کالم جو روزنامہ جنگ میں 26 مارچ 2024 کو شائع ہوا ہے
https://urdu.geo.tv/latest/359857-
بڑے لوگ بڑی غلطیاں تو کر دیتے ہیں مگر جب انہیں اس غلطی کا احساس دلایا جائے تو وہ فوراً اس کا مداوا کرتے ہیں اسی لئے وہ بڑے لوگ کہلاتے ہیں، جو لوگ اپنی غلطیوں پر اڑتے ہیں، ضد کرتے ہیں وہ نہ صرف خود ٹوٹتے ہیں بلکہ تاریخ کے کوڑے دان کی بھی نذر ہو جاتے ہیں۔

ایچی سن کالج کے نیک نام پرنسپل مائیکل تھامسن کوتنگ کرکے استعفے پر مجبور کرنے کا فیصلہ ایک فاش غلطی ہے اس کا فوراً مداوا ہی اس کا واحد حل ہے اس غلطی کے حق میں دلیلوں اور تشریحات میں نہ کوئی وزن ہے اور نہ کوئی اسے مانے گا۔

یادش بخیر ، پنجاب کے سخت گیر حاکم نواب امیر محمد خان آف کالا باغ نے فقیر منش اور سائیکل سوار پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور ڈاکٹر نذیر کا تبادلہ کردیا۔گورنمنٹ کالج لاہور کے طلباء اور شہری سڑکوں پر آگئے ، گورنر کالا باغ کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اسی طرح کنیئرڈ کالج لاہور کی مقبول پرنسپل میرافیلبوس سے پنجاب کی بیورو کریسی ناراض ہوگئی اور یکا یک ان کے ٹرانسفر کے آرڈر کردیے گئے۔ کالج کی طالبات نے زبردست احتجاج کیا، حکومت وقت کے پاس فیصلہ واپس لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ پھر میرا فیلبوس نے اپنی ریٹائرمنٹ تک کنیئرڈ کالج کو اعلیٰ تعلیمی اور تربیتی درس گاہ بنائے رکھا۔

آسٹریلوی نژاد مائیکل تھامسن بھی ڈاکٹر نذیر اور میرا فیلبوس کا نعم البدل ہیں وہ سائیکل پر سوار ہو کر کالج میں کھیلوں اور تدریس کی ہر سرگرمی کا خود مشاہدہ کرتے ہیں۔ انہوں نے ایچی سن کالج میں تعلیم کا معیار ہی بدل ڈالا، اسکول میں سیاسی اثر و رسوخ ختم کردیا، میرٹ کی بالادستی کو مدنظر رکھا، بڑی سے بڑی سفارش سن کر بھی وہ فیصلہ میرٹ پر ہی کرتے رہے۔

ان سے پہلے کالج میں ہر روز لڑائی جھگڑے ہوتے تھے، منشیات تک کے استعمال کی خبریں تھیں مگر مائیکل تھامسن نے اپنے اقدامات سے ایچی سن کالج کی نشاط ثانیہ کو بحال کردیا۔ سب سے پرانے ایچی سونین سید بابر علی نے اپنے استعفے میں مائیکل تھامسن کی کارکردگی کی جس طرح تعریف کی ہے اس کے بعد ان کےخلاف کسی بھی اشارے تک کی گنجائش نہیں۔سید بابر علی سے زیادہ نہ کوئی ایچی سن کو جانتا ہے اور نہ کوئی ان جیسا وزن رکھتا ہے انکی گواہی سب پر بھاری ہے۔

بظاہر یہ فیصلہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے کیاہے جہاں تک میں نے بلیغ الرحمٰن کی شخصیت کا مشاہدہ کیا ہے وہ صلح کل اور متوازن شخصیت ہیں ان میں انتقام پسندی کی بو نہیں ہے البتہ ان کی ماتحت بیوروکریسی نے انہیں گمراہ کرکےیہ فیصلہ کروایا ہوگا، فیصلہ جیسے بھی ہوا جس نے بھی کروایا گورنر بلیغ الرحمٰن کے بے داغ کیریئر پر ایک سیاہ دھبہ ہے جسے فوراً دھونے کی ضرورت ہے، گورنر فوراً اپنے پروٹوکول اور لاؤلشکر کو چھوڑ کر خود پرنسپل کے گھر جائیں ان سے معذرت کریں اور انہیں اپنا کام جاری رکھنے پر منائیں، اس سے گورنر کا قد بھی بڑا ہوگا اور ہماری اسلامی روایت بھی زندہ ہوگی کہ استاد کا مقام بادشاہوں اور حکمرانوں سے کہیں بلند ہے۔

اس واقعہ کے اہم کردار احد چیمہ صاحب ہیں وہ وفاقی کابینہ کے غیر منتخب ٹیکنو کریٹ رکن ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نوجوانی میں شہباز شریف سے لندن میں ملے انہیں چیمہ صاحب اس قدر پسند آئے کہ جونیئر ہونے کے باوجود انہیں صوبائی سیکرٹری تعلیم کے سینئر عہدے پر فائز کردینے پر کئی لوگوں نے اعتراض کیا لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی۔

پہلا اسکینڈل جو ان دنوں منظر عام پر آیا وہ ان کی ایک ماتحت سے سخت کلامی تھی پھر انہیں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا سربراہ بنا دیا گیا، اربوں روپے کے بجٹ کا حامل یہ ترقیاتی ادارہ انہوں نے چلایا، میٹرو ٹرین جیسے کئی منصوبے مکمل کئے، طویل عرصہ جیل میں رہے، نیب کے مقدمات بھی بھگتے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کی بیوروکریٹ بیگم انصاف کیلئے عدالتوں میں دھکے کھاتی رہیں۔ توقع یہ تھی کہ چیمہ صاحب جیل سے نکلیں گے تو احساس تفاخر کے رویے میں تبدیلی لا کر عاجزی اپنائیں گے مگرشہباز شریف کے مشیر کے طور پر ان کا رویہ اور بھی سخت ہوگیا، نگران وزیر بنے تب بھی ان کا رویہ یہی رہا۔ غالب نے شاید ان ہی کے لئے کہا تھا:

گرمی سہی کلام میں لیکن، نہ اس قدر

کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی

غالب ہی کے بقول :بنا ہے شاہ کا مصاحب ، پھرے ہے اتراتا۔ شہباز شریف کی مہربانی سےوفاقی حکومت میں عہدہ ملا تو پنجاب کی بیورو کریسی کوبھی انہوں نے چلانا شروع کردیا۔ ایل ڈی اے میں آج بھی ان کے پسندیدہ برسراقتدار ہیں اور جو ان کا ناپسندیدہ ہو جائے اس کے لئے ان کے دل میں کوئی رحم نہیں۔

ایک ایماندار صوبائی سیکرٹری نے ان کا ایک ناجائز کام نہ کیا اس کے خلاف مقدمات بنوا کر اسے جیل میں بند کروا دیا۔ وہ شریف آدمی اب تک اپنے ناکردہ گناہ کے بارے میں ہر ایک سے سوال پوچھتا پھرتا ہے ۔ میرا اندازہ ہے ایچی سن کالج کے پرنسپل کےخلاف کارروائی میں بھی اسی نام نامی کا زیادہ کردار ہے۔ اس کالج کی برسوں سے روایت ہے کہ اگر آپ نے کالج میں داخلہ برقرار رکھنا ہے تو چاہے آپ بیرون ملک یا پاکستان کے کسی اور شہر میں پڑھیں آپ کو پوری فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ میرے ایک عزیز کا بچہ بورڈر سے ڈے اسکالر بنا تو اسے 8 سال تک بورڈنگ ہاؤس کی فیس دینی پڑی۔ یہ ایک قدیمی اصول ہے اور چیمہ کے بچوں نے اگر داخلہ برقرار رکھنا ہے تو پھر فیس بھی ادا کرتے، عام لوگوں پر تو اصول لاگو ہوتے ہیں لیکن مانگے تانگے کے غیر منتخب وزیروں پر کیا کسی اصول کااطلاق نہیں ہوتا؟

میں نے سنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب عملیت پسند ہونے کے باوجود احد چیمہ صاحب کے ناکردہ کارناموں کے اس قدر سحر میں ہیں کہ تمام تر اسکینڈلز اور شکایات کےباوجود ان کی آنکھیں بند ہیں لیکن باقی اہل اقتدار تو جاگ رہے ہیں کم از کم وہ مداخلت کرکے مائیکل تھامسن کا استعفیٰ واپس کروائیں، انہیں عزت وتوقیردیں۔سید بابر علی کی منت سماجت کرکے انہیں بھی منائیں۔

اگر مائیکل تھامسن چلا گیا تو آئندہ ہمارے تعلیمی نظام کوبہتر کرنے کوئی نہیں آئے گا، تھامسن چلا گیا تو غیر ملکی سرمایہ کار کیوں پاکستان آئیں گے؟، اگر تھامسن چلا گیا تو جن ہزاروں بچوں کامستقبل اس نےسنوارا ہے وہ کیا ملک سے مایوس نہیں ہو جائینگے؟اگر تھامسن واپس چلا گیا تو کیا کوئی غیر ملکی ہم پر اعتبار کریگا؟ اگر تھامسن واپس چلا گیا تو کیا یہ ثابت نہیں ہو جائیگا کہ تضادستان میں احد چیموں کا دور دورہ ہے یہاں اصول پسندوں کی کوئی گنجائش نہیں۔

اگر تھامسن واپس چلا گیا توطے ہو جائیگا کہ یہاں اب وزیروں اور طاقتوروں کیلئے اصول اور ہیں اور عامیوں کیلئے اور۔تھامسن کی واپسی انصاف و قانون کا خون ہوگا، میرٹ کا دھڑن تختہ ہوگا، نظام تعلیم کے لئے مایوسی کا دور ہوگا۔ ہے کوئی تو آگے بڑھ کر اس غلطی کا فوراً مداوا کرے اور زوال پذیر معاشرے کو ایک گہرے گڑھے میں گرنے سے بچالے۔ ہے کوئی؟۔

جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

بڑے لوگ بڑی غلطیاں تو کر دیتے ہیں مگر جب انہیں اس غلطی کا احساس دلایا جائے تو وہ...

نہیں لگتا حکومت ڈیلیور کرسکے گی، جرم کوئی اور کرتا ہے سیاستدان ذمہ داری لے لیتے ہیں: فضل الرحمانیہ ایسے نتائج پر مبنی حک...
27/03/2024

نہیں لگتا حکومت ڈیلیور کرسکے گی، جرم کوئی اور کرتا ہے سیاستدان ذمہ داری لے لیتے ہیں: فضل الرحمان
یہ ایسے نتائج پر مبنی حکومت ہے جو ہمیں قبول نہیں، ہم ان اداروں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جنہوں نے الیکشن کوکھیل بنا رکھا ہے: سربراہ جے یو آئی
https://urdu.geo.tv/latest/359974-
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مجھے نہیں لگ رہاکہ یہ حکومت ڈیلیورکرسکے گی، عوام سڑکوں پر آئیں گے تو حکومت خودگر جائے گی، جرم کوئی اور کرتا ہے سیاستدان اپنےسرذمہ داری لے لیتے ہیں۔

جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتےہوئے فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ تعین ہونا چاہیے معاملات ہیں کیا، ہمارا مؤقف واضح ہے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے ، وہ قوت فوکس ہوگی جس نے نتائج تبدیل کیے دھاندلی کی طاقت استعمال کی، یہ ایسے نتائج پر مبنی حکومت ہے جو ہمیں قبول نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان اداروں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جنہوں نے الیکشن کوکھیل بنا رکھا ہے، عوام سڑکوں پر آئیں گے تو حکومت خودگر جائے گی، جرم کوئی اور کرتا ہے سیاستدان اپنےسرذمہ داری لے لیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ نہیں لگ رہاکہ یہ حکومت ڈیلیورکرسکے گی، پارلیمنٹ ربر اسٹیمپ ہوگی، چیلنجز بہت زیادہ ہیں یہ حکومت چیلنجز کا مقابلہ نہیں کرسکے گی، بالآخر تمام ناکامیوں کی ذمہ داریاں سیاستداں اپنےسر لے لیں گے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ پی ٹی آئی کے حوالے سے ہمیں اپنے صوبے کے نتائج پراعتراض ہے، ان سے تحفظات الیکشن سے متعلق نہیں نظریاتی تھے، اگر ان کےلیے ماحول بن سکتا ہے تو ہم خیرمقدم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ جماعت نے فی الوقت ایسا فیصلہ نہیں کیاکہ ہم پی ٹی آئی سے مل کرکوئی تحریک چلارہےہیں، پی ٹی آئی کے رویے میں تبدیلی نظر آ ر ہی ہے جو اچھی بات ہے، سیاست میں مثبت رویہ ہے اس طرح ہم آگے بڑھتے ہیں تو مضائقہ نہیں۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ نوازشریف سے ملاقات میں بتایا اُنہیں نیا لاڈلہ سمجھتا ہوں۔

یہ ایسے نتائج پر مبنی حکومت ہے جو ہمیں قبول نہیں، ہم ان اداروں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جنہوں نے الیکشن کوکھیل بنا رکھا ہے: سربراہ جے یو آئی

پنجاب: مہلک دھاتی ڈور سے تحفظ کیلئے موٹرسائیکلوں پر حفاظتی وائرز کی تنصیبدھاتی ڈور، پتنگ بازی کے خونی کھیل میں ملوث افرا...
27/03/2024

پنجاب: مہلک دھاتی ڈور سے تحفظ کیلئے موٹرسائیکلوں پر حفاظتی وائرز کی تنصیب
دھاتی ڈور، پتنگ بازی کے خونی کھیل میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے، مریم نواز
https://www.dawnnews.tv/news/1229618/
شہریوں کو پتنگ کی مہلک ڈور سے بچانے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے موٹر سائیکلوں پر سیفٹی وائر گارڈ تنصیب کی مہم کا آغاز کر دیا ۔

وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ٹریفک پولیس آبشار خدمت مرکز لاہورکا دورہ کیا جہاں انہوں نے مختلف کاونٹرز کا معائنہ کیا اور سیلف آپریٹنگ سسٹم کا جائزہ لیا۔

مریم نواز نے آٹومیٹڈ اسٹیمولیٹر پر ڈرائیونگ بھی کی، وزیر اعلیٰ نے خدمت مرکز میں موجود شہریوں سے ملاقات کی اور مرکز میں موجود سہولیات بارے دریافت کیا۔

اس موقع پر دھاتی ڈور سے بچاؤ کے لئے شہریوں میں سیفٹی وائرز تقسیم کی گئیں۔

وزیر اعلیٰ نے ٹریفک پولیس کو موٹرسائیکلز پر سیفٹی وائر گارڈ کی پابندی کرانے کی ہدایت کی۔

مریم نواز کا کہنا تھا دھاتی ڈور اور پتنگ بازی کے خونی کھیل میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ کسی کو عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

واضح رہے کہ چند روز قبل پنجاب کے شہر سرگودھا اور فیصل آباد میں پتنگ کی ڈور سے ہلاکتوں کے بعد پنجاب پولیس نے پتنگ بازی کے خلاف صوبے بھر میں کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے۔

خیال کیا جارہا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے بڑے ڈیلر پتنگیں، دھاتی ڈور اور منشیات فروخت کر رہے، رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ سینکڑوں ویب سائٹس ممکنہ خریداروں تک پہنچنے کے لیے غیر قانونی کاروبار کر رہی ہیں۔

تنگ کی ڈور سے ہونے والے واقعات کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے امن و امان اور جرائم کی صورتحال پر اجلاس بلا لیا تھا، مریم نواز نے کیمیکل سٹرنگ بنانے، فروخت کرنے اور خریدنے کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا تھا۔

راولپنڈی پولیس نے تازہ ترین کارروائی کے دوران 7 ملزمان کو گرفتارکر کے ان سے سیکڑوں پتنگیں اور ڈوریں برآمدکرلی اور ملزمان کے خلاف الگ الگ مقدمات درج کرلیے۔

ایس ایس پی آپریشنز راولپنڈی کا کہنا تھاکہ پتنگ بازی جان لیوا اورخونی کھیل ہے، پتنگ بازی اورپتنگ فروشی میں ملوث ملزمان قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔

دھاتی ڈور، پتنگ بازی کے خونی کھیل میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے، مریم نواز

وزیر اعظم آج چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کریں گےدوپہر 2 بجے سپریم کورٹ میں ہونے والی ملاقات میں اٹارنی جنرل، وزیرقانون او...
27/03/2024

وزیر اعظم آج چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کریں گے
دوپہر 2 بجے سپریم کورٹ میں ہونے والی ملاقات میں اٹارنی جنرل، وزیرقانون اور سینئر جج منصور علی شاہ بھی شریک ہوں گے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1229622/
''وزیر اعظم شہبازشریف آج چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کریں گے۔

’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات سپریم کورٹ میں ہوگی۔

ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہوں گے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آج ہونے والی ملاقات کی تصدیق کر دی ہے۔

وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات آج دوپہر دو بجے سپریم کورٹ میں ہوگی۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملاقات میں چیف جسٹس کے علاوہ سینئر جج منصور علی شاہ بھی شریک ہوں گے۔

واضح رہے کہ دو روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججوں کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا، خط کے معاملے پر غور کے لیے گزشتہ روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا۔

فل کورٹ اجلاس 2 گھنٹے تک جاری رہا تھا جب کہ وقت کی کمی کے باعث فل کورٹ اجلاس میں ججز کے خط کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا تھا، اجلاس کے دوران تمام ججز نے خط پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

اس سلسلے میں اجلاس آج بھی فل کورٹ اجلاس جاری رہے گا۔

واضح رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججوں کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا خط سامنے آیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

خط میں لکھا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟

ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کی اوپن کورٹ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر ہوگئی۔

میاں داؤد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی جس میں سپریم کورٹ سے با اختیار کمیشن تشکیل دے کر انکوائری کروانے استدعا کی گئی ہے۔''

دوپہر 2 بجے سپریم کورٹ میں ہونے والی ملاقات میں اٹارنی جنرل، وزیرقانون اور سینئر جج منصور علی شاہ بھی شریک ہوں گے۔

🅱️🅱️©️غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد میں امریکہ کی عدم شرکت اس کے اسرائیل سے تعلقات کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟امریکہ کے بارے...
27/03/2024

🅱️🅱️©️
غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد میں امریکہ کی عدم شرکت اس کے اسرائیل سے تعلقات کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟
امریکہ کے بارے میں نتن یاہو کی مخالفت کبھی اتنی طویل یا تلخ نہیں رہی اور امریکہ اسرائیل کے طویل اتحاد میں کوئی بحران اتنا سنگین نہیں رہا جتنا کہ غزہ جنگ کے تقریباً چھ ماہ بعد پیدا ہوا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cndje0nr9g0o
کئی ہفتوں سے امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی حکومت کے سینئیر عہدیداروں کے صبر کا پیمانہ غزہ میں اسرائیل کی لڑائی کے انداز کی وجہ سے لبریز ہو رہا تھا۔

انھوں نے اسرائیل اور دیگر دُنیا تک اپنی ناراضی پہنچانے کے لیے سخت زبان استعمال کی۔

سکیورٹی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے حالیہ قرارداد کا پیش ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ صدر بائیڈن نے فیصلہ کر لیا ہے کہ صرف سخت الفاظ کے استعمال سے معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا۔

امریکہ کی جانب سے غزہ میں جاری جنگ سے متعلق ایک سفارتی تحفظ ختم کر دیا گیا ہے جو ایک اہم قدم ہے۔
یہ عمل اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو اور وائٹ ہاؤس کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

وزیراعظم نتن یاہو نے امریکہ کی جانب سے سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اس قدم نے جنگ اور سات اکتوبر کو حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔

صدر بائیڈن اور امریکی حکام نے شاید اسرائیلی وزیرِاعظم کے بیان کو احسان فراموشی کے طور پردیکھا ہو گا۔

صدر بائیڈن کو اسرائیل سے بہت لگاؤ ہے اور وہ خود کو صیہونی کہتے ہیں اور انھوں نے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیلی عوام کو نہ صرف جذباتی مدد دی بلکہ حکومت کو عسکری اور سفارتی طور پر بھی معاونت فراہم کی۔

اسرائیلی وزیراعظم اپنے ملک کے یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کی تباہی چاہتے ہیں لیکن امریکی صدر بائیڈن چاہتے ہیں کہ اسرائیل یہ کام دُرست طریقے سے کرے۔

جنگ کے ابتدائی تباہ کن ہفتوں میں صدر بائیڈن نے اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ اسرائیل غصے میں اندھا نہ ہو اور 7 اکتوبر کے حملے پر ویسا ردِ عمل نہ دے جیسا ردِ عمل امریکہ نے 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد دیا تھا۔
امریکی صدر نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ انھوں نے حماس کے حملوں سے متاثرہ ہونے والے خاندانوں کو دلاسہ دیا اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ وہ اپنے اس دورے کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو سے بھی ملے جن کے ساتھ ان کے کبھی بھی اچھے تعلقات نہیں رہے تھے۔

صدر بائیڈن اور ان کے وزیرخارجہ اینتھونی بلنکن سات اکتوبر سے اب تک چھ مرتبہ اسرائیل جا چکے ہیں اور کئی بار اسرائیل کو بتا چکے ہیں کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔

جنگ کے آغاز میں جب پہلی امریکہ تنبیہ کی تیاری کی جا رہی تھیں وزیراعظم نتن یاہو نے اسرائیلی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سخت انتقام لیں گے۔

غزہ کی تباہی، فلسطینی شہریوں پر منڈلاتے قحط اور جنوبی غزہ میں رفح کے علاقے میں بہت سی اور اموات کے خدشات کی وجہ سے لگتا ہے کہ صدر بائیڈن کے لیے اپنی تجاویز کو مسترد ہونے کے لیے یہ کافی تھا۔

اسرائیل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ جنگی قوانین کا احترام کرتا ہے اور وہ انکار کرتا ہے کہ اس نے انسانی بنیادوں پر غزہ کے لوگوں کے لیے پہنچائی جانے والی امداد کو بند کیا۔

لیکن شواہد اکھٹے ہو چکے ہیں کہ اسرائیل سچ نہیں بتا رہا، وہاں بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور ان سے کچھ ہی میلوں کی دوری پر اسرائیل اور مصر میں خوراک کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

امریکہ اور باقی دنیا اقوام متحدہ اور امدادی ایجنسیوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے ان شواہد کو دیکھ سکتی ہے جن میں کہا جا رہا ہے کہ غزہ قحط کے دہانے پر ہے۔

امریکی فوج فضا سے طیاروں کے ذریعے غزہ میں امداد گرا رہی ہے اور بحر اوقیانوس کے اس پار ایک عارضی ’ڈاک‘ قائم کی تاکہ بحری راستے سے غزہ تک رسد ممکن بنائی جا سکے جبکہ اسرائیل ’اشدود‘ کی بندرگاہ کے ذریعے صرف تھوڑی مقدار میں ہی رسد کی اجازت دیتا ہے۔

اشدود ایک جدید کنٹینر ٹرمینل ہے جو غزہ کے شمال میں صرف آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔
امریکی صدر نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ انھوں نے حماس کے حملوں سے متاثرہ ہونے والے خاندانوں کو دلاسہ دیا اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ وہ اپنے اس دورے کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو سے بھی ملے جن کے ساتھ ان کے کبھی بھی اچھے تعلقات نہیں رہے تھے۔

صدر بائیڈن اور ان کے وزیرخارجہ اینتھونی بلنکن سات اکتوبر سے اب تک چھ مرتبہ اسرائیل جا چکے ہیں اور کئی بار اسرائیل کو بتا چکے ہیں کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔

جنگ کے آغاز میں جب پہلی امریکہ تنبیہ کی تیاری کی جا رہی تھیں وزیراعظم نتن یاہو نے اسرائیلی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سخت انتقام لیں گے۔

غزہ کی تباہی، فلسطینی شہریوں پر منڈلاتے قحط اور جنوبی غزہ میں رفح کے علاقے میں بہت سی اور اموات کے خدشات کی وجہ سے لگتا ہے کہ صدر بائیڈن کے لیے اپنی تجاویز کو مسترد ہونے کے لیے یہ کافی تھا۔

اسرائیل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ جنگی قوانین کا احترام کرتا ہے اور وہ انکار کرتا ہے کہ اس نے انسانی بنیادوں پر غزہ کے لوگوں کے لیے پہنچائی جانے والی امداد کو بند کیا۔

لیکن شواہد اکھٹے ہو چکے ہیں کہ اسرائیل سچ نہیں بتا رہا، وہاں بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور ان سے کچھ ہی میلوں کی دوری پر اسرائیل اور مصر میں خوراک کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

امریکہ اور باقی دنیا اقوام متحدہ اور امدادی ایجنسیوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے ان شواہد کو دیکھ سکتی ہے جن میں کہا جا رہا ہے کہ غزہ قحط کے دہانے پر ہے۔

امریکی فوج فضا سے طیاروں کے ذریعے غزہ میں امداد گرا رہی ہے اور بحر اوقیانوس کے اس پار ایک عارضی ’ڈاک‘ قائم کی تاکہ بحری راستے سے غزہ تک رسد ممکن بنائی جا سکے جبکہ اسرائیل ’اشدود‘ کی بندرگاہ کے ذریعے صرف تھوڑی مقدار میں ہی رسد کی اجازت دیتا ہے۔

اشدود ایک جدید کنٹینر ٹرمینل ہے جو غزہ کے شمال میں صرف آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔
جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کے امریکی فیصلے کی وجہ بھی یہی کہ ان الزامات کو رد کیا جا سکے جن میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل سب کچھ امریکی ایما پر کر رہا ہے۔

یہ پیشرفت اس وقت پر ہوئی ہے جب وزیر اعظم نتن یاہو نے بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے دیرینہ مشرق وسطیٰ کے بدترین بحران سے نکلنے کے منصوبے کو مسترد کیا۔

امریکی انتظامیہ یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ بین الاقوامی دباؤ سے اسرائیل کے استثنیٰ کی بھی کوئی حد ہے۔

سلامتی کونسل کی قراردادوں کو عام طور پر بین الاقوامی قانون کی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ اس قرارداد کا احترام کرے گا، جس کا حماس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ میں فلسطینی نمائندے نے بھی خیر مقدم کیا۔

نتن یاہو کی مخلوط حکومت یہودی انتہا پسندوں کی حمایت پر انحصار کرتی ہے۔ وہ سب اتحادی اس پر زور دیں گے کہ وہ اس قرارداد کو نظر انداز کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر امریکہ کو بھی جواب دینا پڑے گا۔

اگر الفاظ کا اثر نہیں ہوتا تو پھر صدر بائیڈن عملاً اسرائیل کو فضا کے ذریعے ملنے والی ہتھیاروں کی سپلائی بند کر سکتے ہیں۔

اس وقت اسلحے سے بھرے درجنوں جہاز اسرائیل کا رخ کر رہے ہیں اور یہی اسلحہ اسرائیل موجودہ جنگ میں بھی استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل کو ابھی رفح تک اپنی زمینی جنگ کو وسعت دینے کے منصوبے کے لیے بھی اسلحے کی شدت سے ضرورت ہو گی۔

امریکہ اسرائیل اتحاد بہت گہرا ہے۔ سنہ 1948 میں صدر ہیری ٹرومین نے اسرائیل کی آزادی کے اعلان کے 11 منٹ بعد اسے تسلیم کیا تھا لیکن بعض اوقات یہ تعلق سرد مہری کا شکار ہو جاتا ہے۔

یہ بحران اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اسرائیل امریکی صدور کی خواہشات کے برعکس آگے بڑھتا ہے اور امریکی مفادات کا خیال نہیں رکھتا۔

یہ پہلا موقع نہیں جب نتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں بیٹھی امریکی انتظامیہ کو مشتعل کیا ہو۔

سنہ 1996 میں پہلی بار اسرائیل کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے وہ باقاعدگی سے ایسا کر رہے ہیں۔

لیکن امریکہ کے بارے میں ان کی مخالفت کبھی اتنی طویل یا تلخ نہیں رہی اور امریکہ اسرائیل کے طویل اتحاد میں کوئی بحران اتنا سنگین نہیں رہا جتنا کہ غزہ جنگ کے تقریباً چھ ماہ میں پیدا ہوا۔

امریکہ کے بارے میں نتن یاہو کی مخالفت کبھی اتنی طویل یا تلخ نہیں رہی اور امریکہ اسرائیل کے طویل اتحاد میں کوئی بحران اتنا سنگین نہیں رہا جتنا کہ غزہ جنگ کے تقریباً چھ ....

27/03/2024

*اعلان نماز جنازہ*

*شیخ ماسٹر بلال احمد ،شیخ امتیاز احمد (اہلکار پیٹرولنگ پولیس ) شیخ اشفاق احمد اور شیخ الطاف احمد کے والد محترم شیخ نذر محمد وفات پاگئے ہیں جن کا نماز جنازہ آج مورخہ 27مارچ بروز بدھ ابھی 11:00بجے صبح بمقام بستی شیخ اسماعیل میں ادا کیا جائے گا* *۔شرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔رب العزت مرحوم کے درجات بلند اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔آمین*
*اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن*

*اعلان نماز جنازہ*  *ملک فیاض حسین  بھلار پٹواری انتقال کر گئے ہیں۔جن کا نماز جنازہ آج مورخہ19مارچ بوقت 11:00بجے صبح بمق...
18/03/2024

*اعلان نماز جنازہ*

*ملک فیاض حسین بھلار پٹواری انتقال کر گئے ہیں۔جن کا نماز جنازہ آج مورخہ19مارچ بوقت 11:00بجے صبح بمقام مین چوک فوارہ عید گاہ جلال پور پیروالا میں ادا کیا جائے گا۔شرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔یاد رہے کہ مورخہ 10مارچ 2024 بروز اتوار ملک فیاض بھلار گرداور کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا جسے ایمرجنسی ملتان نشتر ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔جہاں وہ زیر اعلاج رہے ہیں شدید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ انتقال کر گئے ۔رب العزت مرحوم کو جنت الفروس میں اعلی مقام اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔آمین* *
*اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن*

11/03/2024

*اعلان نماز جناز*

*القدیر کالج جلال پور پیروالا کے چیف کوارڈینیٹر و ریٹائرڈ نیوی آفیسرمختار احمد بھٹی کی زوجہ محترمہ، عبدالمجید بھٹی کی بھابھی صاحبہ، پنجاب پولیس فرنٹ ڈیسک اہلکار مدثر مشتاق بھٹی کی والدہ صاحبہ آج وفات پاگئیں ہیں جن کا نماز جنازہ کل مورخہ12مارچ 2024 بروز منگل بوقت11:00 بجے دن بمقام گورنمنٹ پرائمری سکول بستی کوٹلہ جعفریں روڈ خانبیلہ(تحصیل جلال پور پیر والا ) میں ادا کیا جائے گا۔شرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں* ۔

*سوگواران: مختار احمد بھٹی 03342841228*
*عبدالمجید بھٹی*
*03008906916*
*مدثر مشتاق بھٹی*
*(اہلکار فرنٹ ڈیسک پنجاب پولیس)*
*03036683916*

08/03/2024

45 ارب کا راشن تقسیم کرنے سے بہتر یہ تھا کہ
45 ارب کی فیکٹریاں لگا لیتے تاکہ غریب عوام کو مستقل روزگار میسر ہوتا اور غربت کا خاتمہ ممکن ہو پاتا

میرا شہزادہ عاصم منیر پہلے دن دی سپیرٹ گرائمر سکول جانے تیاری کی چند تصویر
04/03/2024

میرا شہزادہ عاصم منیر پہلے دن دی سپیرٹ گرائمر سکول جانے تیاری کی چند تصویر

24/02/2024

طاقت کے زور پر عزت ملتی تو فرعون دنیا کا سب سے عزت دار شخص ہوتا بھروسہ طاقت پر نہیں صرف اللہ پر رکھو❤️💫

احمدی کمیونٹی کے فرد کی ضمانت پر مذہبی جماعتوں کی چیف جسٹس پر تنقید، معاملہ کیا ہے؟وائس آف امریکہ اردو سروس کے عاصم علی ...
22/02/2024

احمدی کمیونٹی کے فرد کی ضمانت پر مذہبی جماعتوں کی چیف جسٹس پر تنقید، معاملہ کیا ہے؟
وائس آف امریکہ اردو سروس کے عاصم علی رانا کی رپورٹ
https://www.urduvoa.com/a/religious-organizations-criticize-the-cj-for-granting-bail-to-a-member-of-the-ahmadi-community-22feb2024/7497751.html
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شخص کو ضمانت دینے کے معاملے پر ملک کی مختلف مذہبی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں اور فیصلہ سنانے والے ججز پر احمدیوں کی حمایت کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے حال ہی میں ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مبارک احمد ثانی نامی ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جن کا تعلق احمدی کمیونٹی سے ہے۔

اگرچہ سپریم کورٹ نے مبارک احمد کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ چھ فروری 2024 کو سنایا تھا۔ مگر دو روز قبل سوشل میڈیا پر بعض اکاؤنٹس کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشہیر کی گئی جس کے بعد مذہبی جماعتیں اس معاملے پر ہم آواز ہوگئی ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت تحریک لبیک کے سربراہ علامہ سعد رضوی،عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، مجلس احرار پاکستان، جمعیت اہلحدیث پاکستان کے ہشام الہیٰ ظہیر، نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید پراچہ اور تحریکِ تحفظ ناموس رسالت پاکستان کی طرف سے مذمتی بیانات سامنے آچکے ہیں۔

مذکورہ مذہبی تنظیمیں چیف جسٹس سے فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے حوالے سے بات کرنا ہمیشہ سے حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اس بارے میں ماضی میں کئی افراد کو صرف الزام لگنے پر ہی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔

معاملہ کیا ہے؟

چھ دسمبر 2022 کو پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا جس کے مدعی تحفظ ختم نبوت فورم نامی تنظیم کے سیکریٹری جنرل محمد حسن معاویہ تھے۔

ایف آئی آر میں مدعی کے مطابق سات مارچ 2019 کو مدرستہ الحفظ عائشہ اکیڈمی کی سالانہ تقریب کے دوران مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر 'تفسیرِ صغیر' 30 بچوں اور 32 بچیوں میں تقسیم کی گئیں۔

مدعی کے مطابق ممنوعہ تفسیر کی تقسیم کا یہ عمل آئین کے آرٹیکل 295 بی، 295 سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے جب کہ مدعی نے اپیل کی تھی کہ "تقریب کا اہتمام کرنے والے اور تحریف شدہ قرآن تقسیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔"

واضح رہے کہ 'تفسیرِ صغیر' احمدی کمیونٹی کی جانب سے مرتب کردہ قرآنی تفسیر ہے جس کی تقسیم کے خلاف دسمبر 2022 میں درج ہونے والے مقدمے کے بعد پولیس نے مبارک احمد ثانی نامی شخص کو سات جنوری 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم مقدمے میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔

مبارک احمد کی گرفتاری کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اور بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کی تھی۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے چھ فروری 2024 کو فیصلہ سناتے ہوئے مبارک احمد ثانی کو پانچ ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض فوراً ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا کہتا ہے؟

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ملزم کے خلاف دفعہ C-295, 298 اور پنجاب کے اشاعت قرآن ایکٹ کی دفعہ سات اور نو کے تحت 6 دسمبر 2022 کو مقدمہ درج ہوتا ہے جس میں ملزم پر الزام ہے کہ وہ ممنوعہ کتاب 'تفسیرِ صغیر' کی تقسیم میں ملوث ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم پر بنیادی طور پر تین الزامات تھے جن میں پہلا الزام یہ تھا کہ پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2010 کی دفعہ سات اور نو کے تحت 'تفسیرِ صغیر' کی تقسیم کی گئی۔

دوسرا الزام یہ تھا کہ دفعہ295 بی کے تحت توہینِ قرآن کی گئی جب کہ تیسرا الزام دفعہ 298 سی کے تحت احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ ان الزامات کے تحت چھ دسمبر 2022 کو ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم کو سات جنوری 2023 کو گرفتار کیا گیا جس کے بعد 10 جون اور 27 نومبر 2023 کو ایڈیشنل سیشن جج اور لاہور ہائی کورٹ سے ملزم کی ضمانت خارج کر دی جاتی ہے جس کے بعد اس کیس کی ابتدا سپریم کورٹ میں ہوتی ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کے سامنے اس کیس میں دو سوالات تھے جن میں پہلا تو ملزم کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست تھی اور دوسرا معاملہ ملزم پر جو فردِ جرم عائد کی گئی تھی، اس فرد جرم سے مختلف جرائم کو حذف کرنے کی درخواست تھی۔
عدالت کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران ملزم کے وکیل نے پہلا نکتہ یہ اٹھایا کہ ملزم کے خلاف چھ دسمبر 2022 کو جو ایف آئی آر درج کی گئی، اس کے مطابق ملزم پر الزام ہے کہ اس نے 2019 میں 'تفسیرِ صغیر' تقسیم کی ہے جو کہ پنجاب کے اشاعتِ قرآن قانون کے تحت جرم ہے لیکن ایسی کوئی تفسیر تقسیم کرنے پر پابندی 2021 میں لگی ہے یعنی اگر 2021 کے بعد اگر کوئی ایسی تفسیر تقسیم کرے گا تو وہ جرم کے زمرے میں آئے گا۔

فیصلے کے مطابق فوجداری مقدمات میں مقدمہ بروقت دائر کرنا اہمیت کا متقاضی ہوتا ہے لیکن اس کیس میں 2019 کے الزام کی بابت ایف آئی آر 2022 کے آخر میں درج کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 12 واضح ہے کہ کسی کو بھی کسی ایسے جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی جسے کرتے وقت وہ کام کسی قانون کے تحت جرم کی تعریف میں نہ ہو۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ چوں کہ 'تفسیرِ صغیر' 2019 میں تقسیم کرنا جرم نہیں تھا، اس لیے پنجاب اشاعت قرآن قانون کے تحت ملزم کے خلاف فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی تھی۔

سپریم کورٹ نے ملزم کے خلاف دیگر دو الزامات یعنی توہینِ قرآن اور خود کو مسلمان ظاہر کرنا، کے حوالے سے فیصلے میں کہا کہ ملزم کے خلاف نہ تو ایف آئی آر اور نہ ہی پولیس کے چالان میں ان الزامات کے حوالے سے کوئی بات ہے۔ اس وجہ سے عدالت نے دونوں دفعات فردِ جرم سے حذف کرنے کا فیصلہ کیا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں قرآن کی سورة البقرة کی آیت نمبر 256، سورة الرعد کی آیت نمبر 40 اور سورة یونس کی آیت نمبر 99 کا حوالہ بھی دیا ہے۔

سورۃ البقرہ کی آیت میں کہا گیا ہے کہ "دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں کی جاسکتی۔"

'کیس سے وابستہ تمام افراد کا زور یہ ثابت کرنے پر تھا کہ قرآن کی بے حرمتی کی گئی'

سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ دین کے معاملے میں جبر سے آخرت میں محاسبہ کے متعلق خدائی نظام کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ رسول اللہ تک کو خالق نے یہ کہا تھا کہ ان کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور وہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کریں گے۔ عقیدے کی آزادی اسلام کے بنیادی تصورات میں سے ہے لیکن افسوس ہے کہ دینی امور میں جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور قرآنی فریضہ بھلا دیا جاتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ قرآن کا تقاضا ہے کہ تمام اہم امور سے متعلق غور و فکر کیا جائے اور سوچا جائے لیکن اس کیس سے وابستہ تمام افراد کا زور یہ ثابت کرنے پر تھا کہ قرآن کی بے حرمتی کی گئی اور اللہ کے آخری رسول کی توہین کی گئی ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ قرآن کے اس اصول کو، کہ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، آئین میں ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ آئین کی دفعہ 20 کی شق اے طے کرتی ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسے بیان کرنے کا حق ہوگا۔ دفعہ 20 کی شق بی کہتی ہے کہ کسی مذہبی گروہ کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، ان کی دیکھ بھال اور ان کے انتظام کا حق ہوگا۔
آئین کی دفعہ 22 یہ لازم اور مقرر کرتی ہے کہ کسی مذہبی گروہ یا فرقے کو کسی ایسے تعلیمی ادارے میں جس کا انتظام کلی طور پر اس گروہ یا فرقے کے پاس ہو، اس گروہ یا فرقے کے طلبہ کو مذہبی تعلیم دینے سے نہیں روکا جائے گا۔ آئین میں درج ان بنیادی حقوق سے انحراف یا گریز نہیں کیا جاسکتا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ریاست کے حکام صرف قرآن پر عمل اور آئین پر غور کرتے تو ان جرائم پر ایف آئی آر درج نہ کرائی جاسکتی تھی۔ اس لیے ان اپیلوں کو منظور کیا جاتا ہے اور ہائی کورٹ کے حکمنامے کو منسوخ کرتے ہوئے فردجرم سے پنجاب طباعت وضبط قانون کی دفعہ 7 اور 9 اور مجموعہ تعزیزات کی دفعات 298 سی اور 295 بی کو حذف کیا جاتا ہے۔

ملزم کا جرم بنتا ہے لیکن وہ دگنی سزا کاٹ چکا: فیصلہ

عدالت نے ملزم کی طرف سے درخواست ضمانت کے متعلق کہا کہ فوجداری ترمیمی قانون 1932 کی دفعہ پانچ کے تحت ملزم پر 'تفسیر صغیر' کی تقسیم کرنے کا جرم بنتا ہے جس پر اسے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ لیکن ملزم کو سات جنوری 2023 کو گرفتار کیا۔ اس طرح ملزم 13 ماہ سے قید ہے جو زیادہ سے زیادہ سزا سے بھی دگنا عرصہ ہے۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ ملزم پر فوجداری ترمیمی قانون 1932 کی دفعہ پانچ کے تحت ملزم پر فردِ جرم عائد نہیں کی گئی۔ لہذا اگر یہ جرم ہوا بھی ہے تو اس کی سزا سے زیادہ ملزم سزا کاٹ چکا ہے۔ لہذا ملزم کو پانچ ہزار روپے کے ذاتی مچلکے پر فوراً ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔

اس کیس میں اہم معاملہ یہ بھی ہے کہ جرم کا ارتکاب مبینہ طور پر سات مارچ 2019 کو ہوا تھا جب کہ اس کی ایف آئی آر چھ دسمبر 2022 کو درج کی گئی۔
سپریم کورٹ نے فیصلے کے آخر میں لکھا کہ اس طرح کے کیسز کا بنیادی تعلق کسی عام آدمی یا اس کی پراپرٹی کے ساتھ نہیں بلکہ ریاست کے ساتھ ہے۔

'عدالتی فیصلے میں سقم ہے'

سپریم کورٹ کے فیصلے پر قانون دان اور سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق کہتے ہیں سپریم کورٹ کے سامنے موجود ملزم پر الزام تھا کہ اس نے تحریف شدہ قرآن کا ترجمہ تقسیم کیا۔ اس بارے میں عدالت نے کہا کہ 2021 میں اس حوالے سے قانون بنا لیکن قرآن طباعت سے متعلق 2011 سے قانون موجود ہے۔

ان کے بقول عدالت کا یہ کہنا غلط ہے کہ قانون 2021 میں بنا کیوں کہ قانون 2011 سے موجود ہے جس میں 2021 میں صرف اس حد تک ترمیم کی گئی تھی کہ سوشل میڈیا یا دیگر الیکٹرانک ذرائع کے ذریعے تحریف شدہ قرآن یا اس کے ترجمے کی ترویج نہیں کی جاسکے گی۔ لہذا جب 2019 میں یہ جرم ہوا تو اس وقت قرآن کے تحریف شدہ ترجمے کی اشاعت اور تقسیم غیر قانونی تھی۔

عدالتی فیصلے پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے قانون دان عمران شفیق نے کہا کہ دفعہ 7 بی کے مطابق قرآن کا ترجمہ مسلمانوں کے عقائد کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔

عمران شفیق کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک سقم یہ بھی ہے کہ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ دین میں جبر نہیں ہے اور کسی بھی مذہب کو اپنے اعتقادات کی ترویج کی اجازت ہے۔ لیکن اس بارے میں آئین کے آرٹیکل 20 کی تشریح اور 'امتناع قادیانیت ایکٹ 1984' کے بارے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے۔
ان کے بقول سپریم کورٹ امتناع قادیانیت ایکٹ 1984 میں قرار دے چکی ہے کہ قادیانیوں کو اپنی چار دیواری کے اندر عبادت کرنے کا حق حاصل ہے لیکن انہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ شعار اسلام کو اپناتے ہوئے اپنے مذہب کی ترویج کرسکیں۔ اس صورتِ حال میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ دو رکنی بینچ پر بائنڈنگ ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ان کے بقول اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا بھی فیصلہ ہے کہ احمدیوں کو ایسی چیز کی اجازت نہیں دی جاسکتی جس کے ذریعے وہ خود کو مسلمان ظاہر کر سکیں۔

دوسری جانب بیرسٹر سدرہ قیوم کہتی ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے میں پاسنگ ریمارکس اگرچہ کچھ سخت ہیں لیکن عدالتی فیصلے پر حقیقت سے زیادہ پروپگینڈا کیا جارہا ہے۔

انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ہر طرف کافی کنفیوژن پھیلائی جارہی ہے کہ چیف جسٹس نے قادیانیوں کو تبلیغ کی کھلی اجازت دے دی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حالاں کہ یہ بات اس فیصلے کا سرے سے موضوع ہے ہی نہیں۔

'سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں'

جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک ویڈیو بیان کہا ہے کہ کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک قادیانی کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے قادیانیوں کو مذہب کی تبلیغ کی اجازت دی ہے جو کہ مذہب، قانون اور آئین سے متصادم ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے الزام عائد کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مغربی خواہشات کے تابع کیا گیا ہے جس میں قرآن کی جن آیات کا حوالہ دیا ہے وہ اس فیصلے سے مطابقت نہیں رکھتی۔

انہوں نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اور ان کی جماعت علما سے اپیل کرتی ہے کہ وہ جمعے کے روز اپنے خطبوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف آواز بلند کریں، ختم نبوت کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائیں اور عدالتی فیصلے کی مذمت کریں۔

انہوں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سے درخواست کی کہ وہ تمام مذہبی جماعتوں اور آئینی ماہرین سے رابطہ کر کے لائحہ عمل بنائیں تاکہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم

پاکستان میں احمدی گروہ کے حوالے سے بات کرنا ہمیشہ سے حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اس بارے میں ماضی میں کئی افراد کو صرف الزام لگنے پر ہی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک باقاعدہ مہم موجود ہے جب کہ فیصلے پر بحث کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

چیف جسٹس کے خلاف سوشل میڈیا پر جہاں توہین آمیز ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں وہیں کئی ایسی ویڈیوز بھی موجود ہیں جن میں انہیں دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔

ایسی ہی ایک ویڈیو مفتی حنیف قریشی کی بھی ہے جس میں وہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کر رہے ہیں۔ مفتی حنیف قریشی وہی عالمِ دین ہیں جنہوں نے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے خلاف آسیہ بی بی کی حمایت پر فتویٰ دیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف سے منسلک ماہر قانون اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں وہ وکلا کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں ان کے ہاتھ میں موجود بینر پر تحریر تھا کہ قاضی فائز عیسٰی حدود اللہ سے تجاوز مت کرو۔ اگر تم توہینِ عدالت برداشت نہیں کر سکتے تو ہم توہینِ رسالت برداشت نہیں کر سکتے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شخص کو ضمانت دینے کے معاملے پر ملک کی مختلف مذہبی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں اور فی....

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Safeer-e-Awam Jalal Pur posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Safeer-e-Awam Jalal Pur:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share