Soch News Times

  • Home
  • Soch News Times

Soch News Times منفرد نیوز پیج
(1)

12/06/2022

صوبائ حلقہ پی پی 282میں پی ٹی آئ کی ٹکٹ کے فیصلے کی تاخیر سے نقصان اٹھائے گی

پرانی گلوکارائیں جناب ناصر خان ناصر کی ایک عمدہ تحریرایک زمانہ تھا کہ سریندر کور اور پرکاش کور صاحبہ، دونوں بہنوں کے گائ...
27/02/2021

پرانی گلوکارائیں

جناب ناصر خان ناصر کی ایک عمدہ تحریر

ایک زمانہ تھا کہ سریندر کور اور پرکاش کور صاحبہ، دونوں بہنوں کے گائے پنجابی لوک گیت متحدہ پنجاب کے گلی کوچوں میں ہر طرف گونجتے تھے۔ یو ٹیوب پر ان کے بے شمار گیت موجود ہیں۔
لٹھے دی چادر سے لے کر عاشق حسین کے ساتھ گائے میرا لونگ گواچا تک ایک سے ایک خوبصورت گیت۔ میرا لونگ گواچا کو بعد میں مسرت نذیر صاحبہ نے تبدیل کر کے گایا۔ شہرت کمائی تو دونوں بہنوں کے سارے کے سارے لوک گیت دھڑا دھڑ گادیے۔ بالکل اسی طرح بینجمن سسٹرز نے نور جہاں اور پرانی سنگرز کی کاپی کی اور بے پناہ داد وصول کی۔
سریندر کور نے بمبئی جا کر بہت سی انڈین فلموں کے لیے بھی گایا تھا۔ کئ خوبصورت گانے جو ہم اب تک لتا جی اور شمشاد بیگم کے سمجھتے تھے، تحقیق پر محترمہ سریندر کور صاحبہ کے نکلے۔
لتا جی نے شروع میں شمشاد بیگم کی آواز کی ہی کاپی کی تھی۔ بعد میں کچھ شہرت ملنے کے بعد شمشاد بیگم صاحبہ کو فیڈ آوٹ کرنے کے لیے انھوں نے سوئی کی سی پتلی آواز میں گیت گانے کا آغاز کر دیا جو شومئ قسمت سے مقبول بھی ہوتے چلے گئے۔ شمشاد بیگم صاحبہ کی آواز قدرے بھاری تھی اور قدرتی لوچ اور گونج کی مالک، وہ بغیر مائیک کے گایا کرتی تھیں لہذا مقابلہ نہ کر پائیں اور گھر بیٹھ گئیں۔ بعد میں اپنی بہن آشا کے سوا لتا جی نے کسی کو ابھرنے کا موقع ہی نہ دیا۔ آشا جی نے ایک ترانہ پہلے گایا تھا مگر لتا جی نے بعد میں نہرو صاحب کے سامنے لال قلعہ میں یہ ترانہ گا کر اپنا نام پیدا کر لیا۔ اوشا بھی بے حد خوبصورت آواز کی مالک تھیں مگر سخت مقابلے کے بنا پر پنپ نہ پائیں۔
پاکستان میں بھی نور جہاں سے قبل بے شمار خوبصورت آوازیں تھیں۔ اوائل زمانہ میں زبیدہ خانم، ناہید نیازی، نسیم بیگم، مالا، مختار بیگم، فریدہ خانم، ثریا ملتانیگر اور اقبال بانو سمیت بے شمار نام ابھرے۔ زبیدہ خانم نے فلم پاٹے خاں میں سائیڈ ہیروئین کا کام کیا تھا۔ وہ اور بھی کئی فلموں میں آئیں۔ ان کی خوبصورت آواز ہرگز بھلائی نہیں جا سکتی۔
رونا لیلی' خوبصورت آواز رکھنے والی بہت اچھی گلوکارہ تھیں۔ اوائل عمر سے ہی انھیں پاکستانی فلم انڈسڑی میں بے حد مقبولیت اور شہرت حاصل ہو گئی تھی۔
اللہ معاف کرے مگر یہ حقیقت ہے کہ میڈم نور جہاں صاحبہ اپنے تعلقات پیسے اور پاور کی بنا پر کسی اور گلوکارہ کو حد سے زیادہ پنپنے اور مقبول ہونے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ رونا لیلی' بد دماغ ہرگز نہیں تھیں بلکہ ہوا کا رخ بھانپ کر انھوں نے میڈم کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور منہ کی کھائی۔ میڈم نور جہاں صاحبہ کے اسی نوعیت کے جھگڑے طاہرہ سید صاحبہ، ان کی والدہ ملکہ پکھراج صاحبہ، مہناز صاحبہ، نیرہ نور صاحبہ، تصور خانم صاحبہ اور دیگر کئی خواتین گلوکاروں سے ہو چکے تھے۔ تھپڑ والا واقعہ بھی بالکل درست ہے۔ یہ واقعہ کراچی کے ایک میوزک شو میں پیش آیا تھا۔ اس کے چشم دید گواہ ہمارے ایک عزیز بھی تھے۔
ان حالات سے دل برداشتہ ہو کر رونا لیلی' صاحبہ قسمت آزمانے بھارت گئی تھیں۔ وہاں لتا منگیشتر صاحبہ کی حکمرانی تھی اور عین مین وہی واقعات دہرائے گئے۔ لتا جی نے ایر پورٹ پر ہی رونا لیلی' کو گلدستہ اور واپس پلٹ جانے کا پیغام بھجوایا تھا۔ رونا لیلی کی پریس کانفرنس کی روداد ہم نے اخبار میں خود پڑھی تھی جس میں انھوں نے ملکہ ترنم صاحبہ اور لتا منگیشتر صاحبہ کو موسیقی کے خزانے پر بیٹھے دو زہریلے سانپ قرار دیا تھا۔
پرانی گائیکی میں ایک اور بے حد خوبصورت آواز زہرہ بائی کی تھی۔ ان کا گیت.. کس طرح بھولے گا دل ان کا خیال آیا ہوا.. سنیے اور سر دھنیے۔ انھوں نے اس گیت میں درد کو یوں مجسم کر دیا ہے کہ سوز سننے والے کو محسوس ہوتا ہے۔ نور جہاں نے یہی گیت بعد میں گایا تھا مگر زہرہ بائی کی خاک کو نہ پہنچ سکیں۔ زہرہ بائی بھی دو تھیں۔ ایک کلکتے والی اور ایک انبالے والی۔
ایک اور بےحد خوبصورت گیت جس کی گلوکارہ نے بے شمار فلموں میں کام بھی کیا تھا۔۔۔
گھبرا کے کوئ غم سے مر جائے تو اچھا ہو۔۔۔
موٹی موٹی آنکھوں والی خوبصورت اداکارہ و گلوکارہ راجکماری جنہوں نے پاکیزہ فلم میں بھی کئی گیت گائے، بے چاری سخت کسمپرسی کی حالت میں جہان فانی سے گزر گئیں۔ پاکیزہ میں ان کے دو دو تین تین سطروں والے گیت بطور بیک گراونڈ استعمال کیے گئے تھے۔
لجریا کی ماری مری موری گوئیاں
اس کی ایک مثال ہے۔
یہاں ملکہ غزل اختری بائی فیض آبادی جن کو بعد میں بیگم اختر کے نام نامی سے پکارا گیا، کا ذکر خیر بھی ہو جائے۔ فریدہ خانم سے پہلے ملکہ غزل کا خطاب ان کے پاس تھا اور وہ واقعی اس خطاب کی اصل حقدار بھی تھیں۔
بیگم اختر گائیکی کا وہ نام ہیں جو اب بهی تابندہ و رخشندہ ہے. اختری بائ فیض آبادی کے نام سے مشہور ہونے والی ان خاتون نے فلموں میں بهی کام کیا .محبوب کی فلم روٹی کی کاسٹ میں بیگم اختر بهی شامل تهیں.مگر زیادہ شہرت ٹهمری ، دادرہ اور غزل گائیکی کی بدولت پائی. عین عروج کے زمانے میں بیرسٹر اشتیاق احمد عباسی صاحب سے بیاہ رچا کر گائیکی ترک کر دی کہ شوہر نامدار کی اجازت نہیں تهی.سخت پس مژدہ اور اداس رہنے لگیں. سخت بیمار پڑیں اور علاج موسیقی کی دنیا میں واپسی ہی ٹھہرایا گیا تو پانچ برس بعد شوہر کی رضامندی سے دوبارہ گانا شروع کیا اور ہفت اقلیم کی شہرت دوام حاصل کرکے گویا اوج ثریا کو چهو لیا. بیگم اختر نہایت مخیر اور رحم دل خاتون تهیں. فلم کے زمانے میں اپنی آدهی تنخواہ غریب ورکروں میں بانٹ دیا کرتی تهیں. بہت سے راجے مہاراجے اور نواب ان کی شگفتگی سیرت و صورت پر دیوانے ہوئے. بیگم اختر کا نام برصغیر کی گائیکی میں ایک سنگِ میل کی حثیت رکهتا ہے. انهوں نے مشہور عالم فلمساز ستیہ جیت رے کی فلم جل ساگر میں بهی کام کیا. اسی فلم میں مشہور عالم گلوکارہ ذہرہ بائی انبالے والی کی دختر نیک اختر روشن کماری صاحبہ نے بهی اپنے کتهک کے فن کا مظاہرہ کیا. بیگم اختر نے سنگیت کا اکیڈمی ایوارڈ بهی حاصل کیا اور ملکہ غزل کا عوامی تخلص بهی.
ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم بھی اپنے وقت میں خاصے کی چیز تھیں۔ کلاسیکل غزلیں، ٹھمری، دادرے اور کافیاں گانے میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ غزل گائیکی میں شیکسپئر ہند آغا حشر کاشمیری کی بیگم مختار بیگم صاحبہ بھی بے حد کمال رکھتی تھیں۔ انھوں نے ملکہ ترنم نور جہاں صاحبہ کے علاوہ نسیم بیگم صاحبہ اور خصوصا" اپنی چھوٹی بہن فریدہ خانم صاحبہ کو بھی گروم کیا تھا۔ اداکارہ رانی کو بھی انھوں نے ہی پالا اور کلاسیکل رقص کی خصوصی تربیت دلوائی۔
پرانی گائیکاؤں میں گوہر جان، کلیانی، کجن، کانن بالا اپنے اپنے وقتوں کے بے حد اونچے نام تھے، جن کو آج کوئی جانتا بھی نہیں ہے۔ اپنے زمانوں میں یہ خواتین بھی ملکہ ترنم نور جہاں صاحبہ اور لتا منگیشتر صاحبہ جیسی ہی مشہور ہستیاں تھیں مگر رہے نام اللہ کا۔۔۔ شہرت چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات جیسی ہی ہوتی ہے۔ چند نسلوں کے بعد ش*ذ و ناز ہی کوئی فنکاروں کو یاد رکھتا ہے۔
زہرہ بائی بے حد سادہ مزاج باکمال گلوکارہ تھیں اور سادگی پسند۔ میک اپ اور بنے ٹھنے رہنے سے کوئی لگاؤ تھا نہ غرض۔ گوہر جان آفت کا پرکالہ تھیں۔ غضب کی جامہ زیبی، مہنگا ہار سنگھار۔ ہر لمحے چوتھی کی دلہن کی طرح سجی سنوری اور بنی ٹھنی رہتی تھیں۔ منہ پھٹ اور بذلہ سنج بھی خوب تھیں۔ ایک دن محفل میں سر عام زہرہ بائی کی سادگی پر ذرا سا چلتا ہوا فقرا کس دیا۔
بائی جی نے متانت سے تسلیم عرض کی اور جوابا" صرف اتنا کہا کہ وہ محض گلوکاری سے ہی رزق حلال کماتی ہیں، پیشہ نہیں کرتیں۔
گوہر جان یہ جواب سن کر پھیکی پڑ گئیں۔ پیشہ غارت گری اور پیسے سے تائب ہوئیں۔ عشق پیشہ تو تھیں، تجارت ٹھپ کی تو خود خوش شکل لوگوں پر عاشق ہونا شروع کیا۔ لوگوں نے بھی خوب چونا لگایا اور جی بھر کر لوٹا۔ آخری عمر میں کنگال ہو گئیں اور اندھی بھی۔
ایک پرانے قدر دان مہاراجہ بڑودہ نے وظیفہ مقرر کر دیا اور یوں ان کی مٹی پلید ہونے سے بچ گئی۔
گوہر جان اپنے وقت کی خاص چیز تھیں۔ رقص، موسیقی، شاعری، بذلہ سنجی، ادب آداب، گائیکی ہر شے میں اعلی دسترس کی بنا پر مقبول عوام و خواص رہیں۔ اردو، بنگالی، انگلش، فارسی،فرنچ سمیت سات زبانیں فر فر بولتی تھیں۔ آرمینیا کے یہودی خاندان سے تعلق تھا۔ جھوٹا پیالہ پی کر ڈیرہ دارنی بن گئیں۔ لکھنو کے مشہور رقاص استاد بندا دین کی ننوا بچوا کی طرح شاگرد رہیں اور کسب کمال حاصل کیا۔ ان کی والدہ ملکہ بنارسی وہ صاحب دیوان شاعرہ تھیں جن کی دوستی داغ سے قائم رہی۔ ملکہ بنارسی کا دوسرا دیوان برٹش میوزیم میں موجود ہے۔
گوہر جان نے تمام عمر انگریز حاکموں کی مٹی پلید کیے رکھی۔ اس زمانے میں دیسی لوگوں کو بگھی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی مگر محترمہ روزانہ بھاری جرمانہ ادا کر کے بگھی پر بیٹھ کر صبح کی سیر سے لطف اندوز ہوتی رہیں۔
محترمہ قرۃ العین حیدر صاحبہ نے اپنے ناول' گردش رنگ چمن' اور سوانحی ناول' کارِ جہاں دراز ہے' میں گوہر جان کا تفصیلی تعارف کروایا ہے۔
وااااہ۔
کیا زمانے تھے وہ بھی۔ پہلے سلولائڈ کے توے آئے وہ بھی دو مختلف سائز میں تینتیس ایم پی اور پچیس ایم پی۔ پھر بڑی ٹیپ کا دور آیا اور آخر کار چھوٹی ٹیپ کا۔۔۔ ان کا ایک انمول خزانہ ہمارے پاس بھی رکھا ہے بمعہ نئے نکور کیسٹ پلیئر کے۔ ہماری دختر نیک اختر کو تو پرانے توے جمع کرنے کا ہوکا ہے۔ امریکن گانوں کے بے حد پرانے ریکارڈز بطور ہابی جمع کرتی ہیں۔ ان کے ایک بے حد پرانے ریکارڈز پلیئر کی سوئی ٹوٹ گئی تو اب کہیں نہیں ملتی۔ شنیدن تھا کہ اس سوئی کی کنی پر ہیرے کا چھوٹا سا ٹکڑا لگتا تھا۔
پاکستان میں ہمارا بھی یہی حشر تھا۔ پرانے سے پرانے توے جمع کر رکھے تھے۔ راجکماری، کانن بالا، سریندر کور، پرکاش کور، سہگل، اختری بائی فیض آبادی، جانکی بائی الہ آبادی، زہرہ بائی۔۔۔ زہرہ بائی بھی دو تھیں، ایک انبالے والی، دوسری کلکتے والی۔۔۔
زہرہ بائی نے ایک گیت کس طرح بھولے گا دل ان کا خیال آیا ہوا
اسقدر پر سوز آواز میں ڈوب کر گایا تھا کہ آج بھی اسے سن کر درد منجمد ہو جاتا ہے۔ نور جہاں نے بھی یہی گیت گا کر ان کی کاپی کی مگر ان کی خاک کو بھی نہ پہنچ پائیں۔
آگرے کی جانکی بائی، ملکہ پکھراج، گوہر جان، کلیانی، کجن ان سب کی آوازیں ہز ماسٹرز وائس کے توے کے ساتھ ہی غائب ہو گئیں۔ پاکستان میں ہمارے پاس انہی سب گیت گانے والوں کے سینکڑوں توے موجود تھے جو ہم کباڑیوں کی دکانوں سے چن چن کر جمع کرتے تھے۔ پاکستان چھوٹا تو سارے بھرے پرے گھر کے دیگر سروسامان کے ساتھ یہ سب کچھ بھی غتر بود ہوا۔
باقی رہے نام اللہ کا۔۔۔
(بشکریہ اسلم ملک صاحب)

*میونسپل کمیٹی چوک اعظم کب اپنا کردار اداکرے گی؟*   تحریر۔محمد صابر عطاء تھہیم۔کسی بھی شہر کی ترقی اور وہاں کی عوام کی ز...
21/02/2021

*میونسپل کمیٹی چوک اعظم کب اپنا کردار اداکرے گی؟*

تحریر۔محمد صابر عطاء تھہیم۔

کسی بھی شہر کی ترقی اور وہاں کی عوام کی زندگی کو بہتر بنانے میں وہاں کے بلدیاتی ادارے کا بنیادی کردار ہوتاہے۔اس ادارے کی بنیادی ذمہ داریوں میں شہر کو روشن رکھنا،صاف اور شفاف رکھنا اور صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی شامل ہے۔لیکن چوک اعظم میں بلدیاتی ادارے ”میونسپل کمیٹی“کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔میونسپل کمیٹی چوک اعظم جو اس شہر کی ایک لاکھ سے زائد آباد ی کو میونسپل سروسز دینے کی پابندہے وہ اپنی ذمہ داری کو نبھانے سے قاصر ہے۔
2002ء سے اس شہر میں سیوریج سسٹم نصب کرنے کا کام شروع ہوا جو آج بھی سست روی،کرپشن اور اقرباء پروری کے ساتھ جاری ہے۔20کر وڑ روپے کی لاگت سے شروع ہونے والے اس منصوبے پراب تک کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں مگر آج بھی یہ منصوبہ عوام کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکا،بلکہ عوام کے لیے عذاب بن چکا ہے سابقہ دور میں اس منصوبے کی تنصیب میں اقربا ٗ پروری شامل ہوئی تو یہ منصوبہ بندر بانٹ کا شکار ہو گیا اور منظورِگلیوں میں سیوریج لائن بچھائی گئی جس سے نقصان یہ ہوا کہ سیوریج لائن کالیول خراب ہو ا اور متعدد گلیاں سیوریج سے محروم رہیں اوپر سے ستم یہ ہوا کہ سیوریج سسٹم کی تنصیب کی غرض سے درجنوں گلیاں اکھاڑ کر رکھ دی گئیں اور ان کی وجہ سے پہلے سے موجود نکاسی آب کا نظام بھی ختم ہو گیا۔
اب یہ عالم ہے نالیوں کے خاتمے اور سیوریج سسٹم کی ناکامی کے بعد شہر بھر میں گندے پانی کے جوہڑ قائم ہو چکے ہیں اور گھروں کا گندہ پانی گلیوں محلوں کے ساتھ ساتھ مین سڑکوں پر موجود ہے۔
میانوالی روڈ پر نور مسجد کے قرب وجوار میں سیوریج سسٹم کی ناکامی کے باعث گلی محلوں میں گند ہ پانی جمع ہو چکاہے اور اب وہی پانی اکرم گڈز اور ریاض بیڑے والے کے سامنے ایم ایم روڈ پرجوہڑ کی شکل اختیار کر چکاہے جو نہ صرف وہاں سے گزرنے والے ٹریفک کے لیے مشکلات پیدا کر رہاہے۔ بلکہ سڑک کی ٹوٹ پھو ٹ کا سبب بھی بن رہاہے۔مکینوں کا کہناہے کہ یہ پانی کئی کئی ہفتے کھڑا رہتاہے میونسپل کمیٹی کا عملہ اس پانی کو نکالنے کا نام ہی نہیں لیتا۔مکینوں کا کہناہے میونسپل کمیٹی والے اگر مین ہولز کی صفائی وقت پرکرتے رہیں تو یہ ایشو پیدا نہیں ہو سکتا۔مکینوں کا مطالبہ بھی ہے کہ مین روڈ پر سیوریج لائن بچھائی جائے تاکہ گلی محلے کی لائن کو اس سے لنک کیا جا سکے۔ان کا کہنا ہے کہ میونسپل کمیٹی کے پاس اس وقت کروڑوں روپے کی جدید مشینری موجود ہے جس میں سکر مشین،جیٹنگ مشین،روڈ گرومر،نئے ٹریکٹر،پیٹر انجن مشین،لوڈر رکشے وغیرہ لیکن اس سب کے باوجود شہر میں صحت و صفائی کے حوالے سے میونسپل کمیٹی کی کارکردی پر سوالیہ نشان ہے۔
اتنے بڑے شہر میں نکاسی نہ ہونے سے گھرو ں کا گندہ پانی جوہڑوں کی صورت ایک تو ماحول متعفن کر رہاہے دوسرا زیرِ زمین پانی کو بھی خراب کر رہاہے اسوقت شہر کے اکثر علاقو ں کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا۔اور اکثر شہری نہر کا فروخت ہونے والا پانی مہنگے داموں خرید کر پی رہے ہیں۔شہریوں کی سہولت کے لیے سابق ڈی سی او لیہ راناجاوید اقبال (مرحوم) نے میونسپل کمیٹی کے مین گیٹ پر واٹر پیوریفیکیشن پلانٹ نصب کرایا تھا جسے میونسپل کمیٹی کے حکام فعال نہ رکھ سکے اور وہ طویل عرصہ ناکارہ رہا،بعد ازاں مسلم لیگ ن کے ایم این اے سید ثقلین شاہ بخاری نے اسے نہر ٹیل منڈا کے پُل کے قریب نصب کروا کر نئے منصوبے کا افتتاح کر دیا اور بتایا گیا کی واٹر سپلائی کے اس نئے منصوبے پر پچاس لاکھ روپے کی لاگت آئی ہے۔بالائے ستم یہ کہ وہ منصوبہ بھی وڑائچ پٹرولیم تک ایک ہی دن چل سکا اس کے بعد ”چراغوں میں روشنی نہ رہی“ اور آج دن تک پلانٹ غیر فعال ہے اس کی بجلی کے بل بھی آرہے ہیں اور میونسپل کمیٹی ادا کر رہی ہے لیکن عوام کو پانی فراہمی کے اس منصوبے سے ایک بوند بھی میسر نہیں ہے۔
شہر کو روشن رکھنے کے لیے میونسپل کمیٹی کاکردار ہو نہ ہو اسے اندھیرے میں ڈبونے کے لیے میونسپل کا کردار واضح ہے،2002ء میں اس وقت کے تحصیل نائب ناظم عابد انوار علوی نے چوک اعظم کی چاروں سڑکوں پر لائیٹس نصب کروائیں تھیں۔جن کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اکثر پول چوری ہو چکے ہیں اور موجود کھمبو ں پر لائیٹیں نہیں ہیں اگرہیں تو وہ کئی سالوں سے آن نہیں ہوتیں۔گلی محلوں والی لائیٹس تو ہیں ہی نہیں۔گلی محلوں میں لاائیٹس نہ ہونے اور روڈز پر اندھیراہونے کی وجہ سے گلی محلوں میں چوری اور راہ زنی کی وارداتیں عام ہو رہی ہیں اور سڑک پر اندھیرے کی وجہ سے رات کے وقت راہ گیروں کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔شنید ہے کہ نئی لائیٹس نصب کی جا رہی ہیں مگر یہ بھی شنیدہے کہ سال سے زائد عرصہ سے ٹھیکیدار کو رقم ادا نہیں کی گئی اور یہی وجہ لائیٹس نصب کرنے میں تاخیر کا سبب ہے
میونسپل کمیٹی کی اس صورت ِحال سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چوک اعظم میں کروڑوں روپے ٹیکس کی مد میں دینے والی عوام کو یہ ادارہ کس قدر سہولیات فراہم کر رہاہے۔نئی جدیدمشینری کے باوجود سیوریج سسٹم غیر فعال ہے،گندے پانی کے جوہڑ بنے ہوئے ہیں۔شہر میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔متعفن اور اندھیرے کے اس ماحول میں جیتی ڈیڑھ لاکھ عوام کا کمشنر ڈیرہ غازی خان اور ڈی سی لیہ سے سوال تو بنتا ہے نہ کہ ”میونسپل کمیٹی چوک اعظم کب اپنا کردار اداکرے گی؟
ختم شُد

’’کدی بھال کرم دیاں اکھیاں ۔۔۔ڈُکھ ٹال غریباں دے ‘‘گلی گلی عیسیٰ خیلوی کے گیت گا کر جوتے پالش کرنے والے’’ اللہ کے ووست ‘...
04/12/2020

’’کدی بھال کرم دیاں اکھیاں ۔۔۔ڈُکھ ٹال غریباں دے ‘‘

گلی گلی عیسیٰ خیلوی کے گیت گا کر جوتے پالش کرنے والے’’ اللہ کے ووست ‘‘محمد پرویز بھٹی سے گفتگو

گفتگو ۔محمد صابر عطاء تھہیم

’’بارش تیز ہوئی تو میں نے اپنی موٹر سائیکل مسافر خانے میں کھڑی کی اور ساتھ والے حمام میں چلا گیا ۔اندر داخل ہوا تو ایک عجیب سماں تھا ۔کوئی 23سالہ نوجوان دونوں پائوں کے بھار بیٹھا گردن جھکائے جوتے بھی پالش کیے جا رہا ہے اور دردناک انداز میں گیت بھی گائے جا رہا ہے ۔

’’کدی بھال کرم دیاں اکھیاں ۔۔۔ڈُکھ ٹال غریباں دے ‘‘
’’میڈا سوہنڑا سُنڑدا تاں ہوسی ۔۔کہڑے حال غریباں دے ‘‘

اتنی پُر سوز آواز ،اتنی مہارت کے ساتھ سماعتوں کو پُر لُطف بنائے جا رہی تھی اچانک کسی شناسا نے فقرہ کس دیا ۔حضور ’’ہر خبر پر تو نظر ہے ‘‘ذرہ اس ٹیلنٹ پر بھی نظر دوڑائیے ۔میں تو پہلے ہی اس نوجوان کی آواز سے متاثر ہوا ہی کھڑا تھا لیکن اس چہرہ شناس کے جملے نے تو مجھے بس پھر ہِلنے ہی نہیں دیا ۔
اس کی آواز نے عجب سماں باندھا رکھا تھا ، ہر کوئی آواز کے سحر میں گم دکھائی دیتا تھا ،اور بڑے ذوق و شوق سے گیت بھی گائے جا رہا تھا
اس نوجوان کی پُر سوز آواز نے سب کو اپنا گرویدہ بنایا ہوا تھا۔ لوگ اس سے گیت بھی سنتے اور ساتھ ساتھ جوتے بھی پالش کرواتے جاتے تھے۔
جوتوں کو چمکا کر اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے والا محمد پرویز بھٹی 1992ء کو ضلع لیہ کے صحرائی علاقے چوبارہ میں محمد نواز بھٹی کے گھر دو بہنوں کے بعد پیدا ہوا ۔ محمد نواز بھٹی چوبارہ کے لق و دق صحراؤں میں سفر کرنے والے تھلوچیوں کے جوتے مرمت کر کے رزقِ حلا ل کماتا ۔ دو بیٹیوں کے بعد اللہ پاک نے بیٹا دیا تو اس کی خوشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی ۔ باپ اور ماں نے بیٹے کے لیے ڈاکٹر ، انجینئر پتہ نہیں کیا کیا خواب دیکھنے شروع کر دیئے ۔ مگر حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے ، تیزی سے بھاگتا ہوا وقت کا پہیہ اپنے ساتھ بہت کچھ بدل دیتا ہے ،کچھ ایسا ہے پرویز کے ساتھ بھی ہوا۔

’’خواب کی تعبیر پانے کی خاطر والدین نے مجھے مقامی گورنمنٹ پرائمری سکول میں داخل کر وا دیا ۔ محنت اور توجہ کے سبب پانچویں تک اول پو زیشن لیتا رہا ۔ پھر مجھے ہائی سکول میں داخل کر وا دیا گیا ۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ علاقہ خشک سالی کی لپیٹ میں آگیا ۔ والد کا کام رک گیا ۔ بہنیں جوان ہو چکی تھیں ۔

اور باپ ان بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر کے انھیں اگلے گھر سدھار نا چاہتا تھا ۔گھر میں غربت اور کام کی تنگی نے باپ کے خوابوں کو بالآخر ادھورا رہنے پر مجبور کر دیا ۔ اس طرح ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے خوابوں کی تعبیر یں ادھوری چھوڑ کر مجھے مقامی ہوٹل میں بیرا بننا پڑا ۔ جہاں مجھے 100روپے روزانہ 16 گھنٹے کام کے بعد ملتے تھے ۔ اتنا کم معاوضہ اور اتنی لمبی ڈیوٹی، ان پیسوں سے ہمارے گھر کا کچن بھی نہیں چلتا ، باپ اور ماں کی دوائی کے پیسے کہاں سے آئیں گے ؟ تب میں نے ایک اہم فیصلہ کیا۔‘‘

اس نے جوتے پالش کرتے ہوئے گفتگو جاری رکھی ’’میں نے سوچا کہ باپ کے کام کو آگے بڑھاتا ہوں ۔ لیکن اُس طرح نہیںکروں گا جیسے میرے والد کیا کرتے تھے ۔ میں نے ایک تھیلہ کاندھے پہ لٹکایا ۔ اس میں پالش کی دو ڈبیاں، دو برش رکھے اور چل پڑا ۔ پہلے پہل تو مجھے مشکل کا سامنا کرنا پڑا ۔ لوگوں کے عجیب رویے دیکھنے کو ملے ۔

لوگ پالش نہیں کرواتے تھے ۔ بالآخر دماغ نے سائنس لڑائی تو میں نے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے گیت گانے شروع کر دیے ۔ بازار میں اونچی آواز میں گیت شروع کر دیتا۔ لوگ توجہ دیتے تو میں ان سے جوتے پالش کرنے کا کہہ دیتا جس سے لوگ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے ، گانا بھی سنتے ہیں اور جوتے بھی پالش کراتے۔ ‘‘

گانے کے حوالے سے بتایا کہ سکول کے زمانے میں وہ بزمِ ادب کے پیریڈ میں نعتیں ، حمد باری تعالیٰ اورعارفانہ کلام سنایا کرتا تھا، اس کی آواز اچھی تھی، اساتذہ بھی فارغ وقت میں اسے بلا کر عطاء اللہ عیسٰی خیلوی کے گیت سنا کرتے تھے ۔ آج بھی لوگ عطاء اللہ کے گیت مزے سے سنتے ہیں ۔ وہ گیت بھی گاتا ہے اور جوتے بھی پالش کرتا ہے ۔

افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ محنت مزدوری کرنے والوں کے ساتھ لوگوں کا رویہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہوتا، اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنے لگا ’’ لوگوں کے رویے میں تضاد دیکھ کر دکھ ہوتا ہے، لوگ جوتے پالش کروانے کے لیے کسی تھڑے والے دستکار کے پاس چل کر جاتے ہیں اور وہاں انتظار بھی کرتے ہیں اور انہیں منہ مانگی رقم یعنی 20 روپے دیتے ہیں ۔ لیکن میں اورمیری طرح دیگر چل پھر کر جوتے پالش کرنے والے جب ان کے پاس جاتے ہیں تو دکاندار بھائی ہم سے بھاؤ طے کرنے لگ جاتے ہیں ۔کوئی پانچ روپے دینے کی بات کرتا ہے تو کوئی دس روپے میں جوتے پالش کرنے کا تقاضا کرتا ہے ۔ مجھے اس رویے سے بڑی تکلیف ہوتی ہے لیکن پھر عطاء اللہ کے گیت سے کتھارسز ہو جاتا ہے۔ ‘‘

محمد پرویز کا کہنا تھا کہ اس کی شادی ہو چکی ہے، 3 بچے ہیں اس کی خواہش ہے کہ وہ پڑھ لکھ جائیں، چاہے وہ بھی جوتے ہی کیوں نہ پالش کریں ۔ سب کو پتہ ہے کہ غریبوں کے بچے تعلیم مشکل سے ہی حاصل کر سکتے ہیں، انہیں نوکری کون دلائے گا ۔ مہنگائی سے شکوہ کناں محمد پرویز کہنے لگا کہ وہ روزانہ چوبارہ سے چوک اعظم کا دو طرفہ 60 کلو میٹر سفر کرتا ہے اور اس کی اس مسافت سے اللہ پاک اس کے سات افراد کے خاندان کو شام کو حق حلا ل کی روٹی نصیب کر دیتا ہے اور فکروں سے آزاد نیند بھی بخشتا ہے ۔

اس نے بتایا ’’ روزانہ دس روپے الگ رکھ دیتا ہوں اور ہر تین ماہ بعد ایک ہزار روپے شوکت خانم ہسپتال کو عطیہ کرتا ہوں ۔ ہوٹل پہ کام کرتا تھا تو اخبار پڑھنے کی عادت پڑ گئی ۔ یہ عادت آج بھی ساتھ ہے ۔ اخبار کا روزانہ مطالعہ کرتا ہوں ۔ صبح اخبار بھی خریدتا ہوں ۔ دوپہر کو جب کھانا کھاتا ہوں تو اخبار پڑھ لیتا ہوں ۔ وہی اخبار شام کو بچوں کو بھی پڑھنے کے لئے دیتا ہوں ۔‘‘

مطالعے کے بارے میں مزید پوچھا کہ اخبار کے علاوہ بھی مطالعہ کرتے ہو؟ توکہنے لگا کہ فرصت نہیں ملتی لیکن دل کرتا ہے۔کچھ عرصہ عمران سیریز پڑھی ۔ اس کا کہنا تھا کہ ریاست اور عوام کا تعلق ماں بیٹے جیسا ہے ۔ بیٹے غلطی بھی کر جائیں تو ماں اسے معاف کر دیتی ہے ۔ ماں کبھی اولاد کو دکھی نہیں دیکھ سکتی ، اسے بھوکا نہیں سونے دیتی لیکن آج کتنے لوگ بھوکے سو رہے ہیں؟ ۔ یہ ماں دھرتی کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی وجہ سے ہے ۔

اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے والے حکمرانوںکو کیا پڑی ہے ہم غریبوں کی ۔ ہر سال غربت کے خاتمے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن ایک فی صد بھی غربت کم نہیں ہوئی ، مہنگائی ہے کہ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جن دنوں کراچی میں گرمی کی وجہ سے لوگ مرے تھے ان دنوں لوگوں کے پاس اپنے پیاروں کو دفن کرنے کے لیے رقم نہیں تھی لیکن اسی دن ممبرانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا گیا اور یہ ثابت کر دیا کہ یہ طبقہ الگ ہے اور ہم عوام ان کے کچھ نہیں لگتے ۔

اتنی فکر انگیز گفتگو کرنے والا محنت کش محمد پرویز اپنی صبح کا آغاز اپنے بچوں اور والد کے ساتھ نماز پڑھنے سے کرتا ہے۔ تلاوتِ قرآن پاک بھی معمول ہے۔ اس کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ مل کر بچوں کو سکول بھیجنے کی تیاری کرواتا ہے ۔

اپنے خاندان کے ساتھ مل کر ناشتہ کرتا ہے ، بچوں کو سکول چھوڑ کر وہ اپنا تھیلہ اٹھا کر بس اڈے پر آجاتا ہے اور گاؤں سے لاہور سے آنے والی بس میں بیٹھ کر چوک اعظم کی طرف آجاتا ہے ۔ اس نے بتایا کہ ابتداء میں اس کے پاس کرایہ نہیں ہوتا تھا تو وہ اپنے سکول کی وردی پہن کر کپڑے تھیلے میں ڈال کر بس میں سوار ہو جاتا اور انہیں اپنی پرانی کتابیں دکھا کر طالب علم بن جاتا اور کرایہ دینے سے بچ جاتا ۔ لیکن پھر اس کے ضمیر نے ملامت کی کہ کب تک ایسا کر کے اپنے رزق کو حرام کرتا رہے گا ،بعد ازاں وہ کرایہ ادا کرکے سفر کرتا ہے ۔ اب اکثر گاڑی والے اسے جانتے ہیں اور اس سے کرایہ نہیں لیتے ۔

غریب آدمی کی حالت زار سے اس کے معاشی حالات از خود عیاں ہوتے ہیں ۔ ایسے میں درد دل رکھنے والے مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس حوالے سے کہنے لگا ’’ اکثر لوگ اسے زکوٰۃ یا صدقات دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور بتاتا ہوںکہ میں تو ایسا خود کرتا ہوں ۔‘‘

جوتے پالش کرتے کرتے گفتگو مسائل کی طرف گئی تو وہ جذباتی انداز میں کہنے لگا ’’ اس معاشرے میں چور ڈکیت، بے ایمان ، راہزن اور رسہ گیرکو عزت، روزگار اور حکومت آسانی سے مل جاتی ہے ۔ یہاں غریب پڑھے لکھے کو جاہل ،کمینے کو ذہین اور شاطر کو کامیاب انسان سمجھا جاتا ہے ۔ جب سے لوگوں نے شارٹ کٹ راستے اپنانے شروع کر دیئے ہیں اور اس کے لیے جائزو ناجائز کی تمیز بھول بیٹھے ہیں تب سے رزق میں برکت اُٹھ گئی ہے اور معاشرہ بے برکتی کا شکار ہو کر پریشانیوں کا گھر بن گیا ہے ۔‘‘

محمد پرویز بھٹی کھانوں کا شوقین نہیں ہے، اس کا کہنا ہے کہ جن کی عمر فاقوں میں گزرتی ہو ان کو کھانوںکا شوق کہاں ہوتا ہے، بس جو مل جائے خدا کا شکر ادا کر کے کھا لیتا ہوں ، تھل میں بارش کا منظر پسند ہے ۔ موسیقی میں عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی، میڈم نور جہاں کو سننا پسند کرتا ہوں ۔ جس دن قرآن کی تلاوت نہ کر سکوں دن بھر بے چینی اوراضطراب میں رہتا ہوں۔

04/10/2020
آخر کیوں؟رئوف کلاسراایک راجپوت کی موتاسلام آباد سے سینکڑوں کلومیٹر دور‘ لیہ میں چوک اعظم شہر سے پرے ریتلے قبرستان میں پن...
10/07/2020

آخر کیوں؟
رئوف کلاسرا

ایک راجپوت کی موت

اسلام آباد سے سینکڑوں کلومیٹر دور‘ لیہ میں چوک اعظم شہر سے پرے ریتلے قبرستان میں پنجاب انفارمیشن گروپ کے سینئر افسر رانا اعجاز محمود کی میت رکھی تھی۔
نمازِ جنازہ صبح نو بجے ادا کر دی گئی تھی۔ میں نے نظر اٹھائی ہر طرف افسردگی، رنج اور دکھ کی چادر نظر آئی۔ رضی الدین رضی، آصف کھتران، شوکت اشفاق، صابر تھہیم، محسن عدیل سب غمگین۔
قبر کا کچھ کام باقی تھا۔ میت چھائوں میں رکھ دی گئی تھی۔ رانا اعجاز کا سولہ سترہ برس کا بیٹا باپ کی میت کے پاس کھڑا زاروقطار رو رہا تھا۔ رانا صاحب نے اولاد نہ ہونے پر بڑے بھائی خالد محمود کا بیٹا اور چھوٹے بھائی جاوید محمود کی بیٹی کو اپنی اولاد بنا لیا تھا۔ وہ بیٹا اب مسلسل رو رہا تھا۔
میں کھڑا تو سجاد جہانیہ اور آصف کھتران کے ساتھ تھا لیکن میری آنکھیں مسلسل اس بچے پر تھیں جس کی آنکھوں سے دریا بہہ رہا تھا۔ اسے روتا دیکھ کر مجھے اپنا چھوٹا بیٹا یاد آیا جو مجھے کل رات تک یہ کہنے کی کوشش کرتا رہا کہ میں لیہ جنازے کے بجائے ویک اینڈ پر فیملی کے پاس فاتحہ کے لیے چلا جائوں؟ میں خالی آنکھوں سے بیٹے کو گم سم دیکھتا رہا تھا۔ اپنے دوست کے والد کا بتانے لگا کہ وہ بھی کسی کے جنازے پر گئے تو وہاں انہیں کورونا ہو گیا تھا۔ بولا: آپ کس کس کو منع کر سکیں گے کہ وہ ہاتھ نہ ملائے یا گلے نہ لگائے؟ وہاں تو سماجی فاصلے پر کوئی یقین نہیں کرتا۔
میں چپ رہا۔ اسے کیسے سمجھاتا کہ رانا اعجاز کی روح بے چین رہے گی۔ ایک راجپوت کو لگے گا‘ دھوکا ہوگیا‘ جسے عمر بھر بیٹا سمجھا وہ مٹی ڈالنے نہ آیا۔ میں ساری عمر مجرم بن کر زندہ رہوں گاکہ چھبیس برس کی طویل رفاقت کے بعد جب ایک راجپوت، دھرتی کا بیٹا مٹی کی چادر اوڑھ رہا تھا تو میں سینکڑوں میل دور گھر میں بیٹھا تھا۔ رات گئے رانا اشرف ساتھ گاڑی میں بیٹھنے لگا تو چھوٹا بیٹا پھر میرے پاس آیاکہ آخری کوشش کر لے۔ میں خاموش رہا تو وہ اندر سے میرے لیے بہت سارے ماسک، سینی ٹائزر اٹھا لایا‘ اور دیر تک سمجھاتا رہا کہ کیسے احتیاط کرنی ہے۔
پوری رات سفر کے بعد اب قبرستان میں رانا اعجاز کے بیٹے کو دیکھ رہا تھا جو باپ کی چارپائی پر رکھی میت کو مسلسل ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ باپ کو آنکھوں میں ہمیشہ کے لیے سمونا چاہتا ہے۔ رانا اعجاز کا چھوٹا بھائی جاوید مجھے دیکھ کر رونے لگ گیا۔ خالد بھائی جو اب تک حوصلے میں تھے مجھ پر نظر پڑتے ہی ان کی آنکھوں سے برسات شروع ہوگئی۔ تیسرا بھائی ناصر محمود دبئی سے نہ پہنچ سکا تھا۔ میری نظریں اب بھی میت پر جمی تھیں جس کے پاس بیٹا ثاقب مسلسل رو رہا تھا۔ مجھے اپنا بیٹا یاد آیاکہ ایک بیٹے کو اپنے زندہ باپ کی فکر تھی کہ جنازے میں احتیاط نہیں ہو سکے گی اور وہ پریشان تھاکہ جس سے ہاتھ نہ ملایا گلے نہ لگا وہ ناراض ہوگا۔ بولا: پہلے آپ کے دشمن کم ہیں‘ اب اس بات پر آپ مزید بنا کر آئیں گے جبکہ ایک اور بیٹا یہاں باپ کھو چکا تھا اور میت کے پاس کھڑا رو رہا تھا۔
نعیم بھائی، ڈاکٹر ظفر الطاف کے بعد وہ تیسرے انسان تھے جن کی میری سوچ اور زندگی پر گہری چھاپ تھی۔1994 میں‘ میں ملتان تھا اور اپنے لیہ شہر ایک کام پڑا تو مظہر عارف صاحب نے کہا: لیہ میں رانا اعجاز محمود انفارمیشن افسر ہیں‘ ان سے مل لو۔ اور پھر ایسی ملاقات ہوئی کہ جب ان کی وفات سے ایک دن پہلے میری آصف کھتران کے فون پر ان سے بات ہوئی تو میں نے کہا: بتائیں میں آپ کے لیے کیا کروں۔ بولے: مجھے بس ایک محبت بھرا بوسہ دو۔ بدھ والے دن موت سے چند لمحے پہلے سب اخبار منگوائے‘ پڑھے اور موت کی چادر اوڑھ کر سو گئے۔
میں نے سنا تھا‘ راجپوتوں نے تلوار ہی چلائی‘ ساری عمر جنگیں ہی لڑیں‘ لیکن یہ میری زندگی کا پہلا راجپوت تھا‘ جس کے پاس علم و دانش کا اتنا ذخیرہ تھاکہ لگتا‘ دنیا بھر کے عالموں کی روح اس میں رچ بس گئی ہے۔ سجاد جہانیہ نے درست لکھا کہ وہ قد کاٹھ اور شخصیت سے رانا سانگا کی فوج کے سپہ سالار لگتے۔ راجپوتوں کی روایات کے ایسے امین کہ ان کے آبائواجداد ان پر فخر کرتے۔ میں ملتان اور بعد میں اسلام آباد سے سفر کرکے لیہ آفس جاکر ان کے پاس ٹھہرتا۔ کئی راتیں اکٹھے گزارتے اور مسلسل بحث مباحثہ ہوتا رہتا۔ میری ابتدائی شخصیت بنانے میں ان کا ہی رول تھا۔ سیاست، لٹریچر، سماج، ورلڈ ہسٹری، کون سا موضوع تھا جس پر گرفت نہ تھی۔ ایسی انگریزی بولتے کہ ہر ڈی ایم جی اور پولیس افسر حیران ہوتا کہ ایک انفارمیشن افسر اور اتنی اعلیٰ انگریزی۔ میں کہتا تھا: آپ اسلام آباد ہوتے تو مشاہد حسین، ملیحہ لودھی اور حسین حقانی کو پیچھے چھوڑ جاتے۔ ہنس کر کہتے: پتر اتنی ترقی کا کوئی شوق نہیں ہے۔ ساری عمر لیہ میں نوکری کرتے گزار دی۔ پرموشن ہوئی تو پریشان ہوئے اور مجھے فون کیا: پتر جی! اس پروموشن کے ساتھ یہیں لیہ نوکری جاری نہیں رکھ سکتا؟ سفارش ڈھونڈو۔ خیر بہاولپور پوسٹنگ ہوئی۔ مجھے ایک دوست مرحوم صاحبزادہ حسن کے بیٹے شاہجہاں کی شادی پر بہاولپور دو گھنٹے کیلئے جمشید رضوانی کو ملتان ایئرپورٹ سے لے کر جانا پڑا اور رات کو ملتان لوٹ آیا‘ ان سے نہ ملا سکا۔ آخری سانس تک ناراض رہے۔
آتش جوان تھا۔ عشق کو ہمیشہ ایک رازداں کی ضرورت ہوتی ہے اور میرے رازداں رانا اعجاز بنے۔ جہاں رشتہ ہونا تھا وہ بھی راجپوتوں کی شاخ تھی۔ فوری طور پر راجپوتوں کی رشتہ داری ڈھونڈ نکالی اور یاری لگا لی۔ جب شادی ہوئی تو مجھے کہا ''پتر ایک بات ذہن میں رکھنا وہ راجپوتوں کی نسل سے ہے‘ کوئی شکایت ہوئی تو کاٹ ڈالیں گے‘ اسے مذاق نہ سمجھنا‘‘۔
ان کا ہر دوست سمجھتا‘ وہ بس صرف میرے دوست ہیں۔ ایک دن ان کے والد بڑے رانا صاحب بھڑک گئے کہ ان کا راجپوت پنجابی خون سرائیکی قوم پرست بن گیا ہے اور الگ صوبے کا حامی ہے۔ رانا اعجاز جب بڑے رانا صاحب کی ہمارے سامنے ڈانٹ کھاتے تو ہنستے اور ساتھ آنکھ مارتے کہ اب اباجی کو کیا کہیں۔ میں کہتا: بڑے رانا صاحب کو خوف ہے کہیں اس صوبے میں ان کی شناخت نہ چھن جائے۔ رانا اعجاز کہتے: ہمارے پنجابی کیوں نہیں سوچتے کہ یہ سرائیکی دھرتی ان کی ہے۔ انکا جینا مرنا سرائیکیوں کے ساتھ ہے تو پھر کیوں نئے صوبے کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اگرچہ انفارمیشن گروپ کے افسر تھے لیکن اس معاملے پر کمپرومائز نہ کرتے۔
میری نظر ثاقب پر پڑی وہ ابھی تک باپ کی میت ساتھ کھڑا مسلسل رو رہا تھا۔ قبر اب تقریباً تیار تھی۔ مجھے 1997 کی ایک رات یاد آئی جب میں زندگی کے ایک امتحان میں کوشش کے باوجود مطلوبہ نتیجہ نہ لے سکا تو انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا: سُن پُتر‘ بینظیر بھٹو نے کب سوچا تھا اس کے باپ کو قدرت ہٹاکر اسے وزیراعظم بنانا چاہ رہی ہے۔ سردار فاروق لغاری کو کب نیند آئی ہوگی کہ وہ 1988 میں نواز شریف سے وزیراعلیٰ کا الیکشن ہار گئے تھے۔ لغاری کو کیا پتہ تھا صرف دس برس بعد وہ اس ملک کا صدر ہوگا اور وزیراعظم اور چار وزیراعلیٰ اس کی قلم کی نوک پر ہوں گے؟ پتر دل نہ چھوٹا کر بس لگا رہ۔ تمہیں کیا پتہ تقدیر نے تمہارے لیے کیا انتخاب کر رکھا ہے۔
میت کو اب قبر کے قریب لایا جارہا تھا۔ ثاقب کی ہچکیوں کی آواز سب سن سکتے تھے کہ بچے کو اندازہ تھا‘ بس یہی وہ لمحہ ہے جس کے بعد یہ مہربان چہرہ کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔ جس دن نعیم بھائی فوت ہوئے رانا صاحب کو علم تھا ہم پر کیا قیامت گزر گئی ہے۔ قبرستان میں مجھے مسلسل بازوئوں کے گھیرے میں لیے رکھا۔ بارش برس رہی تھی اور وہ میرے لیے چھتری بن کر کھڑے رہے۔ رانا اعجاز کی قبر پر مٹی ڈالی جا چکی تھی۔ مجھے لگا‘ نعیم بھائی اور ڈاکٹر ظفر الطاف کے بعد ایک اور قبر میرے دل میں بن گئی ہے۔
شاید انسان کے دل کا قبرستان ایسے ہی دھیرے دھیرے بھرتا رہتا ہے‘ تب تک جب ایک دن وہ خود اس قبرستان میں دفن نہیں ہو جاتا۔

24/06/2020

ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ یہ ڈرامہ باز ہے۔بلیک میلر ہے۔بھتہ خور ہے ۔۔مگر اس کام کو کیا عنوان دیا جائے۔
س
موضع جھنگڑ ماہڑہ کے رہائشی عاقب جاوید ماہڑہ نہر میں نہاتے ہوئے ڈوب گیا۔ سنا ہے اس کا والد مظفر گڑھ انتظامیہ کے پاس گیا۔چیخا چلایا"میرا بیٹا ڈوب گیا ہے۔نہر بند کی جائے۔سرکار غوطہ خور فراہم کرے ۔بیٹے کو تلاش کرے"

مگرسرکار۔جاگیردار۔سرمایہ دار۔انتظامیہ کے اہل کار سب اپنی اپنی میں مگن رہے۔پانچ سال بعد غریب کو کچھ لمحوں کے لیے انسان اور "اپنا"سمجھنے والے سیاست دان وزیر مشیر بھی خاموش رہے۔
در بدر ہوئے باپ کی آواز سنی تو یہی "ڈرامے باز"اس باپ کے ساتھ اپنی ٹیم لیکر نہر پر جا پہنچا ۔دربدر ہوئے باپ کے ڈوب جانے والے بیٹے کو 28گھنٹے گزر چکے تھے۔6گھنٹے کی مسلسل تلاش کے بعد بالآخر نعش مل گئ۔یہ "ڈرامے باز"بیٹے کی نعش باپ کے حوالے کرآیا۔
میں ان شرفاء سے بس یہی پوچھنا چاہتا ہوں جو جمشید دستی کو پتہ نہیں کیا کیا منفی لقب دیتے رہتے ہیں۔کہ اس عمل پر جمشید دستی کے لیے کیا لقب عنایت کریں گے ۔؟

صابر عطاءتھہیم

آخر کیوں؟رئوف کلاسرالاہور‘ محبت اور چائے !اظہر علی لغاری نے پوچھا: چائے پینی ہے؟میں نے کہا: صاف ظاہر ہے کچھ دیر گپ شپ کر...
21/06/2020

آخر کیوں؟
رئوف کلاسرا

لاہور‘ محبت اور چائے !

اظہر علی لغاری نے پوچھا: چائے پینی ہے؟میں نے کہا: صاف ظاہر ہے کچھ دیر گپ شپ کرنی ہے‘ کچھ تو کھانا پینا ہوگا۔ اظہر کا تعلق پی ٹی آئی سے رہا ہے۔ وہ سندھ کے ان نوجوانوں میں سے ہے جو پیپلز پارٹی کی گورننس سے ناخوش تھے اور چاہتے تھے کہ سندھ میں کچھ تبدیلی ہو۔ سندھ کے چند پڑھے لکھے نوجوان‘ جن میں ذوالفقار ہالی پوتو اور اظہر لغاری بھی شامل ہیں‘ نے عمران خان کو جوائن کیا اور سندھ میں ہونے والی سیاسی اور دیگر زیادیتوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے؛ اگرچہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے علاوہ کسی اور پارٹی کیلئے جگہ بنانا تقریباً ناممکن ہے۔ سندھیوں بارے کہا جاتا ہے کہ وہ پانچ سال تک پیپلز پارٹی کے خلاف باتیں کرتے رہیں گے لیکن الیکشن والے دن مہر تیر پر لگائیں گے ۔ اب حکومت ملتے ہی اظہر لغاری اور ذوالفقار ہالی پوتو کا کوئی نام نشان نہیں ‘ سیاسی ورکرز کا یہی انجام ہوتا ہے۔ میں اظہر کو کچن میں چائے بناتے دیکھتا رہا ۔ اچانک وہ فلیٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا‘ واپس لوٹا تو اس کے ہاتھ میں پتی کا ڈبہ تھا ۔ میں نے کہا: اتنی جلدی کہاں سے پکڑ لائے ؟ بولا: وہی پرانا کام ہے ‘ساتھ والے فلیٹ سے مانگ لایا ہوں۔ میں ہنس پڑا اور بولا: کتنے اچھے ہمسائے ہیں تمہارے‘ ہم خود بیروزگاری کے دور میں یہ کام کرتے تھے۔
خیر‘ اظہر نے میرے سامنے چائے رکھی تو اس کا خوبصورت رنگ دیکھ کر یادوں کا ایک دریچہ کھل گیا۔ کسی بھی کھانے یا پینے کی چیز کی شکل ہی بتا دیتی ہے کہ وہ کیسی بنی ہے۔ چائے کے رنگ اور ذائقے نے موڈ بہتر کر دیا ۔میں نے کہا: اظہر لغاری‘ پتہ ہے اس چائے کے رنگ اور ذائقے نے مجھے کیا یاد کرا دیا ہے؟ 1996ء کے لاہور فیصل ٹائون میں کوٹھا پنڈ کے فلیٹس یاد آئے ہیں۔ میں ملتان سے نیانیا لاہور وارد ہوا تھا ‘ شعیب بٹھل‘ عبیداللہ اور میں وہیں اکٹھے رہتے تھے۔ شوق بس ایک ہی تھا‘ انگریزی اخبار میں نوکری مل جائے۔ ملتان سے مظہر عارف ‘ لیہ سے لالہ میرو اور لاہور میں رفیق اختر اور محمود زمان تک سب کی سفارشیں کرالی تھیں‘ لیکن کہیں بات نہ بنی ۔ ایک انگریزی اخبار میں نوکری کے لیے شعیب نے سفارش تلاش کی ‘ انٹرویو ہوا تو پوچھا گیا: آپ لاہور کب سے رہتے ہیں؟ میں نے کہا: ایک ماہ ہوا ہے۔ پوچھا گیا:لاہور میں کسی کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں ۔ پوچھا: کسی سرکاری افسر سے جان پہچان ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ پوچھا: لاہور میں خبر کے ذرائع ہیں؟ میں نے کہا: نہیں ہیں۔ انہوں نے جواب دیا تو پھر نوکری بھی نہیں ہے۔ شعیب نے پوچھا: کیا بنا ؟ میں نے کہا: اپنے جواب سن کر میں خود بھی اس کرسی پر بیٹھا ہوتا تو خود کو فیل کردیتا ۔
نعیم بھائی بہاولپور سے ہر ماہ کچھ رقم بھیج دیتے تھے‘ گزارہ چل رہا تھا۔ اس دوران مجھے شوق ہوا کیوں نہ تراجم کیے جائیں اور یوں میرا یہ شوق مجھے فکشن ہاؤس لاہور لے گیا۔ وہاں ڈاکٹر مبارک علی‘ قاضی جاوید‘ محمد کامران‘ اور دیگر بڑے لوگ اکٹھے ہوتے۔ ہفتے میں ایک دن محفل جمتی۔ رانا عبدالرحمن‘ ظہور احمد اور محمد سرور میزبان ہوتے۔ کتابوں‘ ادیبوں اور سیاست پر گفتگو ہوتی اور پھر جٹے کی دال اور گرم گرم روٹیاں منگوائی جاتیں جو ہم سیر ہو کر کھاتے ۔ میں نے انہی دنوں تراجم کا سلسلہ شروع کیا اور فکشن ہاؤس نے چھاپا ۔
شعیب اور میرے لیے مشکل دن تھے‘ لیکن ان مشکل دنوں میں ایک اور دوست شاہد کاہلوں نے بڑا ساتھ دیا ۔ شاہد کاہلوں ہمارا ملتان یونیورسٹی انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں سینئر تھا۔ شاہد نے یونیورسٹی کے دنوں سے ہی مجھے اور شعیب کو اپنے بچوں کی طرح adopt کر لیا تھا۔ کبھی ہمیں پروفیشنل مدد چاہیے ہوتی یا مالی امداد ‘ شاہد کاہلوں کا دماغ اور بٹوہ ہمیشہ ہمارے لیے کھلا رہتا ۔ اگرچہ ہم یونیورسٹی میں صرف ایک سال ہی ساتھ رہے‘ لیکن وہ ایک سال بہت سارے تعلقات بنا گیا۔ شاہد پبلک سروس کمیشن کے ذریعے لیکچررشپ لے کر لاہور کے قریب ہی ایک کالج میں لیکچرر لگ گیا ‘ میں ابھی تک ملتان میں پھنسا ہوا تھا‘ شعیب سیانا نکلا ور وہ بھی لاہور نکل گیا ۔میں بھی تین برس بعد ملتان چھوڑ کر لاہور کیرئیر بنانے کے چکر میں آیا توشعیب پہلے سے وہیں موجود تھا۔ شاہد کاہلوں پھر مل گیا ۔ ان تین سالوں میں میرے اور شعیب کے حالات نہ بدلے تھے اورویسے ہی ہم شاہد پر انحصار کررہے تھے جیسے ملتان میں کرتے تھے۔
شاہد کاہلوں کے والد صاحب اور بھائیوں نے فیصل ٹائون میں پراپرٹی کا کاروبار شروع کیا ہوا تھا اور وہیں قریب ہی گھر لیا ہوا تھا۔ اب شاہد کاہلوں صبح سویرے اٹھتا‘ کالج جاتا‘ وہاں انگریزی پڑھاتا اور دوپہر کے بعد ہمارے فلیٹ پر آجاتا۔ آتے ہی زور سے آواز لگاتا: او دامانی‘ زندہ ہو۔ اوئے غریبو... اوئے بیروزگارو... اوئے پیراسائیٹس۔ ہمارے درمیان دو تین ''مہذب الفاظ‘‘ کا تبادلہ ہوتا۔ شاہد دودھ کا ایک پائو والا پیکٹ لے آتا اور ساتھ بسکٹ ۔ وہ سیدھا کچن جاتا‘ چائے کی کیتلی لے کر اسے محبت سے دھونے لگ جاتا۔ کئی دفعہ عبیداللہ نے کہا ‘سر جی میں دھو دیتا ہوں۔ وہ بولتا: نہیں چائے کے کاموں میں مداخلت برداشت نہیں ہوگی۔ جتنی محبت اور محنت سے چائے میں نے شاہدکاہلوں کو بناتے دیکھا وہ میں نے کبھی پھر نہ دیکھا۔ وہ کیتلی کو اس وقت تک صاف کرتا جب تک اس میں اپنی شکل نہ دیکھ لیتا۔ جب وہ چائے بنا کر پیش کرتا تو ہم اس کا مزہ کافی دیر تک انجوائے کرتے۔ اور پھر چائے کی چسکیاں بھرتے ہوئے پوچھتا: ہاں بھائی دامانی کیسی بنی؟ میں نے ایک دن کہا :شاہد تم اتنی اچھی چائے کیسے بنا لیتے ہو؟ شاہد بولا: بات سن دامانی‘ ہر کام محبت‘ احتیاط اور محنت مانگتا ہے۔ چائے بھی محبت مانگتی ہے۔ وہ بولا: پتہ ہے اچھی چائے کیسے بنتی ہے؟ چائے کی کیتلی اچھی طرح صاف کرو‘ پھر اتنا ہی پانی لو جتنے کپ چائے بنانی ہے۔ اب پانی کو کافی دیر تک اُبلنے دو۔ جب پانی خوب اُبل جائے تو پھر چائے کی فریش پتی ڈال دو۔ اب گرم پانی اور چائے کی پتی کو میچ کھیلنے دو۔ جب پتی اور چائے اچھی طرح لڑائی کر لیں تو اس میں دودھ ڈال دو۔ اب دودھ اور پانی‘ پتی میں لڑائی چلنے دو۔ تم سائیڈپر کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے رہو‘ جونہی چائے ابلنے لگے اب تم چینی ڈال دو اور کچھ دیر بعد اتار لو۔ چینی سب سے آخر میں ۔ شاہد بولا‘ ہم چائے بناتے وقت پتہ ہے کیا کرتے ہیں؟ اکثر لوگ کیتلی کو صاف نہیں کرتے‘ پرانی چائے کی پتی کے ذرے وہاں موجود ہوتے ہیں‘ جو چائے کی فریش پتی کا ذائقہ خراب کردیتے ہیں۔ پھر اکثر لوگ پانی‘ چائے‘ دودھ اور چینی ایک ساتھ ڈال دیتے ہیں۔ پوری طرح انہیں ابلنے نہیں دیتے۔ شعیب نے کہا: شاہد خدا کا خوف کرو اب چائے کیلئے اتنا اہتمام اور اتنی ریسرچ کی ہوئی ہے تم نے؟ وہ بولا :دامانی ہر کام عزت مانگتا ہے‘ احترام مانگتا ہے۔ اچھی چائے پینی ہے تو پھر اچھی چائے کے لوازمات بھی آنے چاہئیں۔
اظہر لغاری حیرانی سے مجھے کہیں دور گم چپ چاپ دیکھ رہا تھا۔ کافی دیر بعد بولا: سائیں خیریت تو ہے‘ کدھر گم ہو؟ میں نے گہری سانس لی اور بولا: یار یہ زندگی بھی کیا عجیب گورکھ دھندا ہے ‘کیسے کیسے دوست ملے‘ کیسا ہمارا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھا ‘ کوئی لالچ نہ توقعات۔ ابھی شاہد کاہلوں کو دیکھ لو میرا اور شعیب کا کتنا خیال رکھا۔ شعیب لندن تو شاہد آج کل کینیڈا میں ہوتا ہے۔ وقت نے ہم دوستوں کو کہاں سے اٹھا کر کہاں پھینک دیا ۔
میں نے چائے کی پیالی میز پر رکھی ۔
کھڑکی کے قریب کھڑے ہوکر مارگلہ پہاڑیوں پر چھائے بادلوں کے اندر سے سرسبز پہاڑوں کی چوٹیاں گننے کی کوشش کرتے شاہد کاہلوں کی بات یاد آئی‘ آوئے بیروزگارو‘ اوئے دامانی‘ اوئے پیراسائیٹس... انسان تو انسان چائے بھی محبت مانگتی ہے!

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Soch News Times posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Soch News Times:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share