![سرکنڈے کا پودا ۔۔۔زیر نظر تصویر ایک خود رو پودے کی ہے جو بے آباد جگہوں اور انہار کے کناروں پر اگا ہوتا ہے۔یہ زیادہ تر دی...](https://img4.medioq.com/497/541/1038361024975410.jpg)
27/12/2024
سرکنڈے کا پودا ۔۔۔
زیر نظر تصویر ایک خود رو پودے کی ہے جو بے آباد جگہوں اور انہار کے کناروں پر اگا ہوتا ہے۔یہ زیادہ تر دیہاتی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
اس کو سر کنڈے یا کانے کا پودا کہتے ہیں۔اس کی سبز رنگ کی شاخوں کے اندر چمک دار سنہری رنگ کا کانا ہوتا ہے اور سب سے اوپر سفید رنگ کے پھول ہوتے ہیں جو رات اور دن میں بہت بھلے محسوس ہیں،دور سے دیکھنے میں ہوں لگتا ہے جیسے کئی سفید پوش ہلکے ہلکے جھوم رہے ہوں۔
سرکنڈا دس بارہ فٹ اونچا گھاس کی قسم کا سبز پتلی پتی، ایک انگلی موٹا کئ کانوں اور سفید بھولوں یا ریشوں پر مشتمل ہوتا ہے اس کو انگلش میں reed کہتے ہیں۔ قدرت کا یہ بے مول پودا انسان کے لئیے بڑے کام کی چیز ہے۔
سرکندا انسانی استعمال کی کئ چیزیں بنانے کے کام آتا ہے۔دیہاتیوں اور بنجاروں کی گھریلو دستکاری مصنوعات کے لئیے سرکنڈا ایک بنیادی جزو ہے۔
سرکنڈے کے کانوں کو دھاگے کی مدد سے باندھ کر سرکی یا چھپر تیار کرتے ہیں جس کو کچے گھروں اور ڈھابوں کی چھت ڈالنے کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے۔سرکی ڈالنے کے بعد اس پر توڑی ملی مٹی کا لیپ کرتے ہیں تاکہ چھت ٹپک نہ جائے۔کئ لوگ اس سرکی کو اپنی جھونپڑی اور ڈھابوں پر ویسے ہی ڈال لیتے ہیں اور مٹی کی جگہ پلاسٹک کی چادر یا کوئی موٹا ترپال نما کپڑا ڈال لیتے ہیں۔اکثر شہروں کے درمیان سفر کرتے ہوئے بنجاروں کی ایسی جھونپڑیاں اور کھانے پینےکے ڈھابے نظر آتے ہیں۔دوران بارش ان ڈھابوں میں بیٹھ کر کھانے کا بہت مزہ آتا جب ہلکی پھلکی بارش کی پھوار مونہہ اور جسم پر پڑتی ہے۔کوئی پچاس برس قبل جب تعمیرات میں اتنی ترقی اور جدت نہیں آئی تھی تو اس وقت زیادہ تر گھروں کی چھتیں لکڑی کے شہتیروں، بالے اور لکڑی کے پتلے تحتوں یا سرکی پر مشتمل ہوتی تھیں۔
سرکی بنانے کے علاوہ کانے دروازوں کے آگے ڈالنے والی چقیں بنانے میں بھی استعمال ہوتے تھے جو دھوپ اور حدت کو کمروں میں جانے سے روکتی تھیں۔اس وقت دفاتر اور امیر گھروں میں چقیں استعمال کرنے کا بہت رجحان تھا۔کئ پنجابی نغموں میں چق کا لفظ بھی استعمال ہوا تھا۔۔۔
عاشقاں توں سوہنا مکھڑا لکان لئ
سجناں نیں بوہے اگے چق تان لئی
سرکی اور چقوں کے علاوہ کانے بیٹھنے کے لئیے موڑھے بنانے کے لئیے بھی استعمال ہوتے تھے۔اب بھی کبھی جہلم اورگوجر خان کے آس پاس گزریں تو سڑک کنارے کانے کے موڑھے اور دیگر اشیاء برائے فروخت نظر آتی ہیں۔
کانوں کا ایک اور استعمال قلم بنانے کے لئیے بھی ہوتا تھا۔ایک تیز دھار چاقو سے کانے کو ترچھا کاٹ کر اس کی نب بناتے اور نب کے درمیان میں ہلکا سا ٹک لگا دیتے تھے تاکہ جب قلم پر لکھتے ہوئے تھوڑا سے زور پڑے تو نب ٹوٹنے کی بجائے پھیل جائے۔ جب گاچنی سے لیپ شدہ لکڑی کی تختی پر اس قلم سے لکھتے تو باریک سی آواز پیدا ہوتی جو کانوں کو بہت بھلی لگتی تھی۔کانے کے اوپر سے سنہری پرت اتار کر اس کو گوند سے سیاہ کپرے پر چپکا کر رنگ برنگے تصویری اور خطاطی کے قطعے تیار ہوتے تھے۔پرت اترے کانے کے گودے کو ایک جانب سے سلگا کر سیگریٹ پینے کا شوق بھی پورا کر لیتے تھے۔باریک کانوں کو قلفیوں کے تیلوں کے لئیے استعمال کرتے تھے۔تھوڑے موٹے اور ڈیڑھ فٹ لمبے کانوں کو دیہاتی خواتین اپنے گھروں میں ازار بند اور پراندے بننے کے لئیے بھی استعمال کرتی تھیں۔
بنجاروں کے لئیے سرکنڈے کے پودے ایک نعمت سے کم نہیں ہوتے تھے۔وہ لمبے چھوٹے اور موٹے باریک کانے استعمال کرکے ان سے گھریلو استعمال کی چیزیں اور بچوں کے کھلونے بناتے۔
استعمال کرنے کی ان گھریلو اشیاء میں چھاج،ٹوکریاں،پٹاریاں، چھابے اور چنگیریں ہوتی تھیں۔چھاج سے گندم اور چاولوں کو پٹاکا لگا کر مٹی وغیرہ سے صاف کیا جاتا اور خوشی کے مواقع پر شرینی اور بتاشے ڈال کر لوگوں کے گھروں میں بیجھتے۔۔۔۔
میں چھج پتاشے ونڈاں
اج قیدی کر لیا ماہی نوں
بنجارے بچوں کے لئیے سرکنڈے استعمال کرکے بہت سے چھوٹے،چھوٹےکھلونے بناتے جو بنجارنیں اپنی ہی تیار کردہ ٹوکریوں میں ڈال کر سر پر اٹھائے گلی گلی بیچتی تھیں اور یہ ان کے روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہوتے تھے۔ان کھلونوں میں ہوا میں چلنے والی پھرکیاں،ٹک ٹک کرنے والے جھنجھنے، بیل گاڑی، ہوا میں لمبا ہونے والا سانپ،زمین پر چلنے والا سانپ اور سب سے مزے دار ٹر ٹر کرنے والی گاڑی ہوتی تھی جو جب چلتی تھی تو ایک موٹا کانا گاڑی پر لگی نوبت پر لگتا تھا جس سے ٹر ٹر کی آواز نکلتی تھی اور یہ سب کچھ سرکنڈے،مٹی اور کاغذ سے بنا ہوتا تھا جن میں بنجاروں کی ہنر مندی اور محنت شامل ہوتی تھی۔
سرکنڈوں کی جھاڑیوں کی جڑوں میں اگنے والی پتلی اور سخت سبز گھاس جس کو دب کہتے ہیں وہ بھی بہت کام کی چیز ہوتی تھی۔اس گھاس کو سکھا کر رسی بناتے جس سے چارپائیاں بنی جاتی تھیں۔اسی دب کو گول رسی بنا کر اس کے اوپر کجھور کے مختلف رنگوں سے رنگے ہوئے پتے لپیٹ کر خوبصورت چھابے اور چنگیریں بناتے تھے جن میں روٹیاں رکھتے تھے۔یہ چھابے اور چنگریں اج بھی کئ گھروں،ڈھابوں اور اعلی طعام گاہوں میں بطور استعمال و آرائش نظر آتے ہیں۔