KahaaNi

KahaaNi Short stories

21/12/2021

ساگ ایسی واہیات چیز ہے جو اول و آخر ایک جیسی رہتی ہے ،

کچا ہو تو ڈنگر کھاتے ، پتیلے میں گر کر پک جائے تو انسان کھاتے

گماں غالب ہے کہ زمین پر آنے کے بعد ساگ ہی کھایا گیا تھا یہی سزا تھی

ساگ اس مہنگائی کے دور میں واحد شئے ہے جس کو دیکھ کر برکت پہ یقین ہوتا ہے ، جتنا کھاو بڑھتا ہی جاتا ہے

پرانے زمانے میں اکثر سوتیلی مائیں بچوں کو بطور سزا ساگ کھلایا کرتی تھیں ، پھر یہ رواج سگی ماؤں نے نکمے بچوں کے لیے اپنایا اور پھر گجر اور آرائیوں کو ساگ کے فضائل کا علم ہوگیا یوں پاکستان کی قومی ڈش بن گیا

اکثر لوگوں کے پردیس جانے کی وجہ گھر میں آئے دن بننے والا ساگ ہی ہے ،

دنیا میں سب سے زیادہ بڑھنے والے ذخائر ساگ کے ہیں

پتھری ہونے کا واحد فائدہ یہی ہے کہ بندہ ساگ کھانے سے بچ جاتا ہے

ساگ کی کٹائی کے وقت جانور بددعا دیتے بھی پائے جاتے ہیں کہ انسان پہلے ہمیں کھاتے تھے اب ہماری خوراک تک کھا جاتے ہیں ہم بھوکوں مر رہے ہیں

ساگ اگر واقعی اتنی ہی اچھی ڈش ہے تو کوئی شادی بیاہ پر کیوں نہیں کھلاتا

مردے کیسے تصدیق کرتے ہیں کہ وہ مر چکے ہیں ۔۔۔ !!!شروع میں مردہ شخص کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ مر گیا ہے۔ وہ خود کو موت ...
05/12/2021

مردے کیسے تصدیق کرتے ہیں کہ وہ مر چکے ہیں ۔۔۔ !!!

شروع میں مردہ شخص کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ مر گیا ہے۔ وہ خود کو موت کا خواب دیکھتا ہوا محسوس کرتا ہے، وہ خود کو روتا، نہاتا، گرہ لگاتا اور قبر پر اترتا ہوا دیکھتا ہے۔ وہ ہمیشہ خواب دیکھنے کا تاثر رکھتا ہے
جب وہ زمین پر ڈھیر ہو جاتا ہے۔ پھر وہ چیختا ہے لیکن کوئی اس کی چیخ نہیں سنتا، جب ہر کوئی منتشر ہو جاتا ہے اور زمین کے اندر تنہا رہ جاتا ہے، اللہ اس کی روح کو بحال کرتا ہے۔ وہ آنکھیں کھولتا ہے اور اپنے "برے خواب" سے جاگتا ہے۔ پہلے تو وہ خوش اور شکر گزار ہوتا ہے کہ، جس سے وہ گزر رہا تھا وہ صرف ایک ڈراؤنا خواب تھا ، اور اب وہ اپنی نیند سے بیدار ہے۔ پھر وہ اپنے جسم کو چھونے لگتا ہے ، جو کپڑے میں لپٹا ہوا ہے ، خود سے حیرت سے سوال کرتا ہے "میری قمیض کہاں ہے
"میں کہاں ہوں ، یہ جگہ کہاں ہے ، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا کیوں ہے ، میں یہاں کیا کر رہا ہوں؟" پھر اسے احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ زیر زمین ہے ، اور جو کچھ وہ محسوس کر رہا ہے وہ خواب نہیں ہے، اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ واقعی مر گیا ہے۔
وہ ہر ممکن حد تک زور سے چیختا ہے ، پکارتا ہے: اس کے رشتہ دار جو اس کے مطابق اسے بچا سکتے تھے:
اسے کوئی جواب نہیں دیتا۔ وہ پھر یاد کرتا ہے کہ اس وقت اللہ ہی واحد امید ہے۔ وہ اس کے لیے روتا ہے اور اس سے معافی مانگتے ہوئے اس سے التجا کرتا ہے۔
"یا اللہ! یا اللہ! مجھے معاف کر دے یا اللہ ... !!!
وہ ایک ناقابل یقین خوف سے چیختا ہے جو اس نے اپنی زندگی کے دوران پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔
اگر وہ ایک اچھا انسان ہے تو مسکراتے ہوئے چہرے والے دو فرشتے اسے تسلی دینے کے لیے بیٹھ جائیں گے ، پھر اس کی بہترین خدمت کریں گے،
اگر وہ برا شخص ہے تو دو فرشتے اس کے خوف کو بڑھا دیں گے اور اس کے بدصورت کاموں کے مطابق اسے اذیت دیں گے۔
اے اللہ میرے اور میرے ماں ، باپ ، بیوی ، بچوں اور میرے خاندان اور دوستوں کے گناہ معاف فرما 🙏🏻
اور ہمیں ایمان پر موت نصیب فرما۔۔۔ آمین

ماسٹر صاحب کا ایک شہری دوست ان سے ملنے گھر آیا۔ ماسٹر صاحب نے بیٹھک میں بیٹھایا خاطر مدارت کی تھوڑی دیر میں ماسٹر صاحب ک...
12/04/2021

ماسٹر صاحب کا ایک شہری دوست ان سے ملنے گھر آیا۔ ماسٹر صاحب نے بیٹھک میں بیٹھایا خاطر مدارت کی تھوڑی دیر میں ماسٹر صاحب کے والد صاحب دھوتی باندھے سیدھا اندر آگئے۔ماسٹر صاحب کو اپنے والد کے حلیے سے شرمندگی محسوس ہوئی لہذا دوست کو والد صاحب کا تعارف ایسے کروایا!
یہ میرے والد کے دوست ہیں،
والد صاحب کو غصّہ آیا تپے ہوئے بولے او نہیں بیٹا جی میں اسکی ماں کا یار ہوں😂😂😂

14/06/2020

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے یا بشر؟

 #ٹوپیجنگل میں شیر نے حکم جاری کیا کہ آج سے ہر سینئر جانور جونئیر جانور کو چیک کر سکتا ہے بلکہ سزا بھی دے سکتا...😈باقی ج...
14/05/2020

#ٹوپی

جنگل میں شیر نے حکم جاری کیا کہ آج سے ہر سینئر جانور جونئیر جانور کو چیک کر سکتا ہے بلکہ سزا بھی دے سکتا...😈
باقی جانورں نے تو اسے نارمل لیا. لیکن بندر نے خرگوش پکڑ لیا اور رکھ کے چپیڑ ماری...😒
اور پوچھا کہ ٹوپی کیوں نہیں پہنی...؟ 😈
خرگوش بولا... سر میرے کان لمبے ہیں اس لیے نہیں پہن سکتا...😢
بندر نے کہا اوکے جاو...😕

اگلے دن پھر خرگوش چہل قدمی کر رہا تھا. بندر نے اسے بلایا اور رکھ کے ایک کان کے نیچے دی اور پوچھا ٹوپی کیوں نہیں پہنی...😕
خرگوش نے روتے ہوے کہا.... سر کل بھی بتایا تھا کہ کان لمبے ہیں نہیں پہن سکتا...😢😓
بندر نے کہا اوکے. دفعہ ہو جاو...👿

تیسرے دن پھر بندر نے یہی حرکت کی. تو خرگوش شیر کے پاس گیا اور ساری کہانی سنائی...😭
شیر نے بندر کو بلایا اور کہا ایسے تھوڑی چیک کرتے...😡
اور بھی سو طریقے ہیں جیسا کہ تم خرگوش کو بلاؤ اور کہو جاو سموسے لاؤ. اگر وہ صرف سموسے لائے تو پھڑکا دو چپیڑ اور کہو چٹنی کیوں نہیں لائے...😁
فرض کرو اگر وہ دہی والی چٹنی لے آئے تو لگاو چپیڑ اور کہو آلو بخارے والی کیوں نہیں لائے...😒
اور اگر وہ آلو بخارے والی لے آے تو ٹکا دینا کہ دہی والی کیوں نہیں لاے...😒

خرگوش نے یہ ساری گفتگو سن لی...😯

اگلے دن بندر نے خرگوش کو بلایا اور کہا جاو سموسے لاؤ...!
خرگوش بھاگا بھاگا سموسے لے آیا.

بندر نے پوچھا... چٹنی لائے ہو...؟
خرگوش بولا... ہاں سر ☺
بندر نے پھر پوچھا... کون سی 😏
خرگوش بولا.. سر دہی والی اور آلو بخارے والی دونوں لے کر آیا ہوں....☺😊

بندر نے رکھ کے ایک چپیڑ ماری اور پوچھا....

توں اے دس ٹوپی کیوں نہی پائی؟؟؟
😜😝😛😂😂😂😂😂

 #منافقپچھلے دنوں خلیل الرحمان قمر صاحب ایک انٹرویو میں  کہنے لگے: ”یہ معاشرہ بڑا منافق ہے میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پ...
01/05/2020

#منافق

پچھلے دنوں خلیل الرحمان قمر صاحب ایک انٹرویو میں کہنے لگے: ”یہ معاشرہ بڑا منافق ہے میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا اور غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ یا لنڈے کے کپڑے نہیں پہنتا تھا ایک بار میرے ابا کو کپڑے کا سوٹ گفٹ ملا تو میں نے اُن سے کہا مجھے کوٹ سلوانا ہے تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ_سلوا لیا جس کا اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔
وہ کوٹ پہن کر مَیں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا: ”اویے_خیلے_اے_کوٹ_کتھو_لیا_ای۔؟
میں نے کہا: ”سوایا ہے چاچی“ لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں لیکن اُن کو اعتبار نہ آیا خالہ اور پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا میں گھر آیا اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔۔
حالات کچھ ایسے تھے کہ کوٸی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔۔
پڑھنے لکھنے اور جاب کے بعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کا ممبر بنا تو بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈراٸی کلین کیا ہوا لنڈے کا کوٹ پہن کر گیا تو میرے کولیگز کوٹ کو ہاتھ لگا کر پوچھنے لگے: ”خلیل صاحب بڑا پیارا کوٹ اے کیہڑا برانڈ اے تے کھتو لیا جے؟ کلاتھ تے سٹیچنگ وی کمال اے “
مَیں نے بِنا کوٸی شرم محسوس کرتے ہوٸے کہا: ”بھاٸی جان لنڈے چوں لیا اے“ لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں پھر بھی اُن کو اعتبار نہ آیا۔۔ اور اب کی بار میں رونے کی بجاٸے ہسنے لگا.

 #مارو تالیﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯایک سابق ﺻﺪﺭ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ ﮐو اطلاع ملی کہ ﮐﺎﺑﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔...
10/04/2020

#مارو تالی

ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯایک سابق ﺻﺪﺭ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ ﮐو اطلاع ملی کہ ﮐﺎﺑﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔

ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﻋﺎﻡ ﻟﺒﺎﺱ ﭘﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ

"ﻣﺤﺘﺮﻡ، ﭘُﻞ ﭼﺮﺧﯽ (ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ) ﺗﮏ ﮐﺎ ﮐﺘﻨﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﻟﻮﮔﮯ؟"

ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺩﺍﺅﺩ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ،

"ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻧﺮﺥ ﭘﺮ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔"

ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 20 ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : اﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ۔
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 25 ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ: ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ۔
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 30 ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ۔
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : 35 ؟
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﻟﯽ

ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻓﻮﺟﯽ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺍﺷﺘﮩﺎﺭﯼ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺟﻨﺮﻝ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﻣﺎﺭﺷﻞ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﮐﮩﯿﮟ ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﻟﯽ

اُس کی آگے تاریخ کے پّنے غائب ہیں

 #حکیم صاحبپنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں ایک حکیم صاحب ہوا کرتے تھے، جن کا مطب ایک پرانی سی عمارت میں ہوتا تھا۔ حکیم صاحب ...
09/04/2020

#حکیم صاحب

پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں ایک حکیم صاحب ہوا کرتے تھے، جن کا مطب ایک پرانی سی عمارت میں ہوتا تھا۔ حکیم صاحب روزانہ صبح مطب جانے سے قبل بیوی کو کہتے کہ جو کچھ آج کے دن کے لیے تم کو درکار ہے ایک چٹ پر لکھ کر دے دو۔ بیوی لکھ کر دے دیتی۔ آپ دکان پر آ کر سب سے پہلے وہ چٹ کھولتے۔ بیوی نے جو چیزیں لکھی ہوتیں۔ اُن کے سامنے اُن چیزوں کی قیمت درج کرتے، پھر اُن کا ٹوٹل کرتے۔ پھر اللہ سے دعا کرتے کہ یااللہ! میں صرف تیرے ہی حکم کی تعمیل میں تیری عبادت چھوڑ کر یہاں دنیا داری کے چکروں میں آ بیٹھا ہوں۔ جوں ہی تو میری آج کی مطلوبہ رقم کا بندوبست کر دے گا۔ میں اُسی وقت یہاں سے اُٹھ جائوں گا اور پھر یہی ہوتا۔ کبھی صبح کے ساڑھے نو، کبھی دس بجے حکیم صاحب مریضوں سے فارغ ہو کر واپس اپنے گائوں چلے جاتے۔
ایک دن حکیم صاحب نے دکان کھولی۔ رقم کا حساب لگانے کے لیے چِٹ کھولی تو وہ چِٹ کو دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے۔ ایک مرتبہ تو ان کا دماغ گھوم گیا۔ اُن کو اپنی آنکھوں کے سامنے تارے چمکتے ہوئے نظر آ رہے تھے لیکن جلد ہی انھوں نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا۔ آٹے دال وغیرہ کے بعد بیگم نے لکھا تھا، بیٹی کے جہیز کا سامان۔ کچھ دیر سوچتے رہے پھشکر۔‘‘ چیزوں کی قیمت لکھنے کے بعد جہیز کے سامنے لکھا ’’یہ اللہ کا کام ہے اللہ جانے۔‘‘
ایک دو مریض آئے ہوئے تھے۔ اُن کو حکیم صاحب دوائی دے رہے تھے۔ اسی دوران ایک بڑی سی کار اُن کے مطب کے سامنے آ کر رکی۔ حکیم صاحب نے کار یا صاحبِ کار کو کوئی خاص توجہ نہ دی کیونکہ کئی کاروں والے ان کے پاس آتے رہتے تھے۔
دونوں مریض دوائی لے کر چلے گئے۔ وہ سوٹڈبوٹڈ صاحب کار سے باہر نکلے اور سلام کرکے بنچ پر بیٹھ گئے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ اگر آپ نے اپنے لیے دوائی لینی ہے تو ادھر سٹول پر آجائیں تاکہ میں آپ کی نبض دیکھ لوں اور اگر کسی مریض کی دوائی لے کر جانی ہے تو بیماری کی کیفیت بیان کریں۔
وہ صاحب کہنے لگے حکیم صاحب میرا خیال ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ لیکن آپ مجھے پہچان بھی کیسے سکتے ہیں؟ کیونکہ میں ۱۵، ۱۶ سال بعد آپ کے مطب میں داخل ہوا ہوں۔ آپ کو گزشتہ ملاقات کا احوال سناتا ہوں پھر آپ کو ساری بات یاد آجائے گی۔ جب میں پہلی مرتبہ یہاں آیا تھا تو وہ میں خود نہیں آیا تھا۔ خدا مجھے آپ کے پاس لے آیا تھا کیونکہ خدا کو مجھ پر رحم آگیا تھا اور وہ میرا گھر آباد کرنا چاہتا تھا۔ ہوا اس طرح تھا کہ میں لاہور سے میرپور اپنی کار میں اپنے آبائی گھر جا رہا تھا۔ عین آپ کی دکان کے سامنے ہماری کار پنکچر ہو گئی۔
ڈرائیور کار کا پہیہ اتار کر پنکچر لگوانے چلا گیا۔ آپ نے دیکھا کہ میں گرمی میں کار کے پاس کھڑا ہوں۔ آپ میرے پاس آئے اور آپ نے مطب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ادھر آ کر کرسی پر بیٹھ جائیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا اور کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔
ڈرائیور نے کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی تھی۔ ایک چھوٹی سی بچی بھی یہاں آپ کی میز کے پاس کھڑی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی ’’چلیں ناں، مجھے بھوک لگی ہے۔ آپ اُسے کہہ رہے تھے بیٹی تھوڑا صبر کرو ابھی چلتے ہیں۔
میں نے یہ سوچ کر کہ اتنی دیر سے آپ کے پاس بیٹھا ہوں۔ مجھے کوئی دوائی آپ سے خریدنی چاہیے تاکہ آپ میرے بیٹھنے کو زیادہ محسوس نہ کریں۔ میں نے کہا حکیم صاحب میں ۵،۶ سال سے انگلینڈ میں ہوتا ہوں۔ انگلینڈ جانے سے قبل میری شادی ہو گئی تھی لیکن ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔ یہاں بھی بہت علاج کیا اور وہاں انگلینڈ میں بھی لیکن ابھی قسمت میں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔
آپ نے کہا میرے بھائی! توبہ استغفار پڑھو۔ خدارا اپنے خدا سے مایوس نہ ہو۔ یاد رکھو! اُس کے خزانے میں کسی شے کی کمی نہیں۔ اولاد، مال و اسباب اور غمی خوشی، زندگی موت ہر چیز اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ کسی حکیم یا ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی دوا میں شفا ہوتی ہے۔ شفا اگر ہونی ہے تو اللہ کے حکم سے ہونی ہے۔ اولاد دینی ہے تو اُسی نے دینی ہے۔
مجھے یاد ہے آپ باتیں کرتے جا رہے اور ساتھ ساتھ پڑیاں بنا رہے تھے۔ تمام دوائیاں آپ نے ۲ حصوں میں تقسیم کر کے ۲ لفافوں میں ڈالیں۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ میرا نام محمد علی ہے۔ آپ نے ایک لفافہ پر محمدعلی اور دوسرے پر بیگم محمدعلی لکھا۔ پھر دونوں لفافے ایک بڑے لفافہ میں ڈال کر دوائی استعمال کرنے کا طریقہ بتایا۔ میں نے بے دلی سے دوائی لے لی کیونکہ میں تو صرف کچھ رقم آپ کو دینا چاہتا تھا۔ لیکن جب دوائی لینے کے بعد میں نے پوچھا کتنے پیسے؟ آپ نے کہا بس ٹھیک ہے۔ میں نے زیادہ زور ڈالا، تو آپ نے کہا کہ آج کا کھاتہ بند ہو گیا ہے۔
میں نے کہا مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔ اسی دوران وہاں ایک اور آدمی آچکا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ کھاتہ بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آج کے گھریلو اخراجات کے لیے جتنی رقم حکیم صاحب نے اللہ سے مانگی تھی وہ اللہ نے دے دی ہے۔ مزید رقم وہ نہیں لے سکتے۔ میں کچھ حیران ہوا اور کچھ دل میں شرمندہ ہوا کہ میرے کتنے گھٹیا خیالات تھے اور یہ سادہ سا حکیم کتنا عظیم انسان ہے۔ میں نے جب گھر جا کربیوی کو دوائیاں دکھائیں اور ساری بات بتائی تو بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا وہ انسان نہیں کوئی فرشتہ ہے اور اُس کی دی ہوئی ادویات ہمارے من کی مراد پوری کرنے کا باعث بنیں گی۔ حکیم صاحب آج میرے گھر میں تین پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔
ہم میاں بیوی ہر وقت آپ کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ جب بھی پاکستان چھٹی آیا۔ کار اِدھر روکی لیکن دکان کو بند پایا۔ میں کل دوپہر بھی آیا تھا۔ آپ کا مطب بند تھا۔ ایک آدمی پاس ہی کھڑا ہوا تھا۔ اُس نے کہا کہ اگر آپ کو حکیم صاحب سے ملنا ہے تو آپ صبح ۹ بجے لازماً پہنچ جائیں ورنہ اُن کے ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ اس لیے آج میں سویرے سویرے آپ کے پاس آگیا ہوں۔
محمدعلی نے کہا کہ جب ۱۵ سال قبل میں نے یہاں آپ کے مطب میں آپ کی چھوٹی سی بیٹی دیکھی تھی تو میں نے بتایا تھا کہ اس کو دیکھ کر مجھے اپنی بھانجی یاد آرہی ہے۔
حکیم صاحب ہمارا سارا خاندان انگلینڈ سیٹل ہو چکا ہے۔ صرف ہماری ایک بیوہ بہن اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان میں رہتی ہے۔ ہماری بھانجی کی شادی اس ماہ کی ۲۱ تاریخ کو ہونا تھی۔ اس بھانجی کی شادی کا سارا خرچ میں نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ ۱۰ دن قبل اسی کار میں اسے میں نے لاہور اپنے رشتہ داروں کے پاس بھیجا کہ شادی کے لیے اپنی مرضی کی جو چیز چاہے خرید لے۔ اسے لاہور جاتے ہی بخار ہوگیا لیکن اس نے کسی کو نہ بتایا۔ بخار کی گولیاں ڈسپرین وغیرہ کھاتی اور بازاروں میں پھرتی رہی۔ بازار میں پھرتے پھرتے اچانک بے ہوش ہو کر گری۔ وہاں سے اسے ہسپتال لے گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس کو ۱۰۶ ڈگری بخار ہے اور یہ گردن توڑ بخار ہے۔ وہ بے ہوشی کے عالم ہی میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی۔
اُس کے فوت ہوتے ہی نجانے کیوں مجھے اور میری بیوی کو آپ کی بیٹی کا خیال آیا۔ ہم میاں بیوی نے اور ہماری تمام فیملی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی بھانجی کا تمام جہیز کا سامان آپ کے ہاں پہنچا دیں گے۔ شادی جلد ہو تو اس کا بندوبست خود کریں گے اور اگر ابھی کچھ دیر ہے تو تمام اخراجات کے لیے رقم آپ کو نقد پہنچا دیں گے۔ آپ نے ناں نہیں کرنی۔ آپ اپنا گھر دکھا دیں تاکہ سامان کا ٹرک وہاں پہنچایا جا سکے۔
حکیم صاحب حیران و پریشان یوں گویا ہوئے ’’محمدعلی صاحب آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہا، میرا اتنا دماغ نہیں ہے۔ میں نے تو آج صبح جب بیوی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی چِٹ یہاں آ کر کھول کر دیکھی تو مرچ مسالہ کے بعد جب میں نے یہ الفاظ پڑھے ’’بیٹی کے جہیز کا سامان‘‘ تو آپ کو معلوم ہے میں نے کیا لکھا۔ آپ خود یہ چِٹ ذرا دیکھیں۔ محمدعلی صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ’’بیٹی کے جہیز‘‘ کے سامنے لکھا ہوا تھا ’’یہ کام اللہ کا ہے، اللہ جانے۔‘‘
محمد علی صاحب یقین کریں، آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ بیوی نے چِٹ پر چیز لکھی ہو اور مولا نے اُس کا اسی دن بندوبست نہ کردیا ہو۔ واہ مولا واہ۔ تو عظیم ہے تو کریم ہے۔ آپ کی بھانجی کی وفات کا صدمہ ہے لیکن اُس کی قدرت پر حیران ہوں کہ وہ کس طرح اپنے معجزے دکھاتا ہے۔
حکیم صاحب نے کہا جب سے ہوش سنبھالا ایک ہی سبق پڑھا کہ صبح ورد کرنا ہے ’’رازق، رازق، تو ہی رازق‘‘ اور شام کو ’’شکر، شکر مولا تیرا شکر..

 #جنازہایک علاقہ میں ایک بابا جی کا انتقال ہو گیا ، جنازہ تیار ہوا اور جب اٹھا کر قبرستان لے جانے لگے تو ایک آدمی آگے آی...
08/04/2020

#جنازہ

ایک علاقہ میں ایک بابا جی کا انتقال ہو گیا ، جنازہ تیار ہوا اور جب اٹھا کر قبرستان لے جانے لگے تو ایک آدمی آگے آیا اور چارپائی کا ایک پاوں پکڑ لیا اور بولا کہ مرنے والے نے میرے 15 لاکھ دینے ہیں۔ پہلے مجھے پیسے دو پھر اس کو دفن کرنے دوں گا۔
اب تمام لوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں، بیٹوں نے کہا کہ مرنے والے نے ہمیں تو کوئئ ایسی بات نہیں کی کہ وہ مقروض ہے، اس لیے ہم نہیں دے سکتے، متوفی کے بھائیوں نے کہا کہ جب بیٹے ذمہ دار نہیں تو ہم کیوں دیں۔
اب سارے کھڑے ہیں اور اس نے چارپائی پکڑی ہوئی ہے۔ جب کافی دیر گزر گئی تو بات گھر کی عورتون تک بھی پہنچ گئی۔
مرنے والے کی اکلوتی بیٹی نے جب بات سنی تو فورا اپنا سارا زیور اتارا اور اپنی ساری نقد دقم جمع کر کے اس آدمی کے لیے بھجوا دی اور کہا کہ اللہ کے لیے یہ رقم اور زیود بیچ کے اس کی رقم رکھو اور میرے ابو جان کا جنازہ نہ روکو۔ میں مرنے سے پہلے سارا قرض ادا کر دوں گی۔ اور باقی رقم کا جلد بندوبست کر دوں گی۔
اب وہ چارپائی پکڑنے والا شخص کھڑا ہوا اور سارے مجمع کو مخاطب ہو کے بولا۔۔ اصل بات یہ ہے کہ میں نے مرنے والے سے 15 لاکھ لینا نہیں بلکہ اسکا دینا ہے اور اس کے کسی وارث کو میں جانتا نہ تھا تو میں نے یہ کھیل کیا۔ اب مجھے پتہ چل چکا ہے کہ اس کی وارث ایک بیٹی ہے اور اسکا کوئی بیٹا یا بھائی نہیں ہے۔
اب بھائی منہ اٹھا کے اسے دیکھ رہے ہیں اور بیٹے بھی۔

 #سلیمانہمارے گاؤں میں یہ رواج عام تھا کہ جب بچہ بہت تنگ کرتا تو اسے  گھر سے دور کسی مدرسے میں بھیج دیا کرتے.. یہی کچھ م...
31/03/2020

#سلیمان

ہمارے گاؤں میں یہ رواج عام تھا کہ جب بچہ بہت تنگ کرتا تو اسے گھر سے دور کسی مدرسے میں بھیج دیا کرتے.. یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا.. میں نے کافی احتجاج کیا مگر کوئی اثر نہ ہوا اور مجھے مدرسے بھیج دیا گیا ۔یہاں میرا کچھ دل لگ گیا.. ہمیں پڑھنے کے ساتھ تفریح کا موقع بھی دیا جاتا.. مدرسہ کا نظام ہر لحاظ سے اچھا تھا.. ہر کمرے میں دو لڑکوں کو رکھا جاتا ۔میرا ساتھی بڑا ھی چلاک اور چاپلوس ٹائپ کا لڑکا تھا.. میں اس کے زیادہ بولنے کی عادت سے بہت پریشان تھا.. اس کا ذکر میں نے کئی بار مولوی صاحب سے کیا کہ مجھے اس سے الگ کیا جائے.

۔ایک دن مولوی صاحب نے مجھے کہا کہ اب تمہارے ساتھ سلیمان رہے گا. یہ بہت اچھی بات تھی کیونکہ سلیمان ایک کم گو اور سنجیدہ لڑکا تھا اور صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دیتا تھا.. اوباش قسم کے لڑکے اسے بہت تنگ کرتے مگر اس نے کبھی کسی کو کچھ نہیں کہا تھا.. اب جب وہ میرے ساتھ رہنے والا تھا تو میں نے سوچا تھا کہ میں اس سے پوچھوں گا کہ تم اتنے خاموش اور بزدل کیوں ہو ۔..

سلیمان مدرسے کا لائق طالب علم تو تھا ہی مگر اس کی آواز بھی بے حد پیاری تھی.. وہ جب نماز عشاء کے بعد کمرے میں قرآن شریف کی تلاوت کرتا تھا.. میں اس کی تلاوت سنتا.

۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب سردیاں آنے والی تھیں.. میری آنکھ کھلی تو سلمان اپنے بستر پر نہیں تھا.. رات کا پتہ نہیں کون سا وقت تھا.. بہرحال میں اٹھ کھڑا ہوا.. میں نے جیسے ہی سلیمان کو دیکھنے کے لیے اپنے جوتے پہنے تو ایک بلی فورا کمرے سے باہر نکل گئی.. مجھے بہت خوف محسوس ہوا.. میں دوبارہ اپنے بستر پر سو گیا..

صبح جب میری آنکھ کھلی تو سلیمان وہیں موجود تھا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری اور سلیمان کی بہت دوستی ہوگئی.. مگر سلیمان نے ابھی تک مجھے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا.. ایک بار میں نے پوچھا تو وہ ٹال گیا.. سلیمان کئ دفعہ میرے گاؤں جا چکا تھا مگر جب میں اس کے گاؤں جانے کی بات کرتا تو وہ ہمیشہ ٹال دیتا. ۔میں نے سوچا شاید وہ بہت غریب ہے اور غربت کی وجہ سے مجھے اپنے گھر نہیں لے جاتا...

ایک رات مجھے پیاس لگی. بستر سے اٹھا. یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سلیمان پھر اپنے بستر نہیں تھا. اس کمرے میں وہ بلی موجود تھی. اسے دیکھ کر میں پھر ڈر گیا اور آیۃ الکرسی پڑھ کر سونے کی کوشش کرنے لگا. ابھی میں سونے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ وہ بلی سلیمان کے بستر پر آ کر بیٹھ گئی.. میں اور زیادہ خوفزدہ ہوگیا ۔ڈرتے ڈرتے میں کسی وقت دوبارہ سو گیا..

صبح جب اٹھا تو سلیمان اپنے بستر پر بیٹھ قرآن شریف کی تلاوت کر رہا تھا.. پہلے میں نے سوچا اس سے رات والی بات کا ذکر کروں مگر میں خاموش ہوگیا ۔.

کچھ دنوں بعد سردی زوروں پر تھی.. میں بہت گہری نیند سویا ہوا تھا.. مجھے لگا جیسے کوئی مجھے جگا رہا ہے.. میں نے جیسے ہی آنکھ کھولی تو سامنے سلیمان کھڑا تھا..

وہ بولا چلو میں تمہیں اپنا گھر دکھاتا ہوں ۔۔ میں بہت حیران ہوا.. ایک تو آدھی رات کا وقت اور سردی بھی بہت شدید..

میں نے سلمان سے کہا. یار صبح چلے جائیں گے،، یہ کوئی وقت ہے گھر دیکھنے کا،،

مگر سلیمان کی ضد تھی کہ ابھی چلنا ہے. تو چلو ورنہ پھر کبھی مت کہنا کہ تمہارا گھر دیکھنا ہے..

اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے سلیمان کے ساتھ جانا پڑا،،

ہم نے سردی سے بچنے کا پورا انتظام کیا اور مدرسے سے نکل گئے. ہر طرف مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا. ۔سلیمان درازندہ کی پہاڑیوں کی طرف جا رہا تھا ۔اس نے جس طرف کا رخ کیا، وہاں کوئی آبادی نہیں تھی، اور گاؤں کے لوگ بھی وہاں کم ہی جایا کرتے تھے،، میں کچھ خوفزدہ ہوگیا..

درہ زندہ کی پہاڑیوں کا فاصلہ مدرسے سے کافی زیادہ تھا.. جس کی وجہ سے میں تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا.. پتہ نہیں ہم کتنا سفر طے کر چکے تھے کہ ایک جگہ سلیمان رکا اور پہاڑی پر چڑھنا شروع کر دیا.. میں سلمان کے پیچھے ہی تھا.. ہم نے آدھی پہاڑی عبور کی کہ سلیمان اچانک رکا اور غائب ہو گیا.

۔میرا خوف سے برا حال ہوگیا.. میرے پسینے چھوٹ گئے.. مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں ۔میں نے اس کو آوازیں دینا شروع کی تو جواب میں مجھے اسکی آواز سنائی دی.. وہ مجھے بلا رہا تھا، مگر وہ کہاں تھا، تب مجھے اندازہ ہوا کہ آواز زمین کے اندر سے آرہی ہے،، اس وقت میری نظر اس پر پڑی..

سلیمان کی آواز واقعی اندر سے آ رہی تھی.. وہ کہہ رہا تھا ۔اس طرف سے اندر آجاؤ.. میں بہت خوفزدہ تھا..

میں نے سلمان سے کہا اندر کیسے آؤں،،؟ یہ سوراخ تو بہت چھوٹا ہے،، اس کے اندر آنا تو میرے لیے ناممکن ہے..

۔سلیمان نے کہا.. آنکھیں بند کر لو.. پھر خود ہی اندر آ جاؤ گے.. جب میں نے آنکھیں بند کیں اور تب کھولی جب سلیمان نے مجھے کھولنے کو کہا.

۔جب میں نے آنکھیں کھولی.. میری حیرت کی انتہا نہ رہی میں ایک خوبصورت محل نما گھر میں تھا اور میرے سامنے ایک خوبصورت لڑکی موجود تھی.. میں اس کو بڑی حیرت سے دیکھ رہا تھا...

سلیمان نے کہا ..یہ میری بہن ہے جس بلی کو دیکھ کر تم خوفزدہ ہوجاتے تھے.. وہ یہی تھی ..یہ بلی کے روپ میں مجھ سے مدرسے ملنے آیا کرتی تھی.. ہم انسان نہیں بلکہ جنات ہیں اور میں نے حافظ قرآن بننے کے لیے انسانوں کا روپ دھارا ہوا ہے .

۔بعد میں اس نے مجھے اپنے گھر والوں سے ملایا ..اس کے امی اور ابو نے میری بہت عزت کی اور یہ بھی کہا کہ میں انکے اور سلیمان کے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتاؤں.

ہم کچھ دیر وہاں رہے اور صبح ہونے سے پہلے ہی مدرسے واپس آگئے.. بعد میں کئ بار میں ان کے گھر گیا اور ہر بار اس کے گھر والوں نے مجھے پہلے سے بھی زیادہ محبت دی.

۔ہر مہینے گرمیوں میں ہمیں دو مہینے کی چھٹیاں ہوتی تھیں.. ایک دفعہ جب دو مہینے کی چھٹیاں ملی تو سلیمان اپنے گھر چلا گیا اور میں اپنے بھائی کے ساتھ اپنے گھر آ گیا..

گھر آکر بھی سلیمان کے بارے میں سوچتا تھا.. محلے کے لڑکوں کے ساتھ میرا بلکل دل نہیں لگتا تھا.. میں چاہتا تھا جلدی جلدی چھٹیاں ختم اور میں مدرسے جاؤں..

۔ماں مجھے کہتی تھی.. کچھ دیر کے لیے باہر چلے جاو مگر میں صبح نماز کے لیے مسجد جاتا اور سارا وقت اپنے گھر میں گزارتا..

آخر دو مہینے گزر گئے... میں نے اپنی تیاری مکمل کی اور گھر سے مدرسے کے لئے روانہ ہوگیا تھا کہ سلیمان سے مل سکوں..

شام کو مدرسے پہنچا مگر سلیمان نہیں تھا.. میں نے سوچا آج پہلا دن ہے اس لیے نہیں آیا ۔۔ کیونکہ اور بھی کافی لڑکے نہیں آئے تھے ۔مگر دوسرے دن بھی سلیمان نہیں آیا.. پھر ایک ہفتہ گزر گیا.. مگر سلیمان کا کچھ پتہ نہیں تھا. مدرسے میں بھی ان کے گھر کا کسی کو پتا نہیں تھا.

۔جب ایک مہینہ گزر گیا اور سلیمان کا کچھ پتہ نہیں چلا تو ایک دن میں نے خواب میں سلیمان کی ماں کو دیکھا جو کہہ رہی تھی.. سلیمان مر گیا ہے.. اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا..

۔میری اچانک آنکھ کھل گئی اور میں بہت دیر تک روتا رہا.. دوسرے دن صبح سویرے میں درازندہ کی پہاڑیوں کی طرف چل پڑا.. اور اس پہاڑی پر پہنچ گیا.. مگر وہاں کوئی سراغ نہیں تھا.. میں کافی دیر وہاں سلیمان کو آوازیں دیتا رہا.. جب کوئی جواب نہ ملا تو تھک کر واپس مدرسے آگیا..

اس رات میں نے پھر اس کی ماں کو خواب میں دیکھا.. انہوں نے کہا،، اب ہمیں تلاش مت کرنا ۔کیونکہ اب ہم تمہارے سامنے نہیں آسکتے اور اس پہاڑی پر بھی مت آنا ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے جنات تم کو نقصان پہنچا دیں...

پھر میں نے کبھی ان پہاڑیوں کا رخ نہیں کیا.. آج کافی عرصہ گزر چکا ہے.. اپنے شہر کی ایک مسجد میں پیش امام ہوں مگر جب کبھی سلیمان کی یاد آتی ہے تو آنکھیں بھر آتی ہیں ۔

ﺍﻟﭩﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﻧﺎ؟ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﺥ ﻣﻮﮌﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮨﺎﮞ ﮨﺎﮞ ﺑﮭﺌﯽ ﮨ...
13/03/2020

ﺍﻟﭩﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﻧﺎ؟ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﺥ ﻣﻮﮌﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮨﺎﮞ ﮨﺎﮞ ﺑﮭﺌﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﮯ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﺐ ﺁﺅﮞ؟ ﺩﻭﭘﭩﮯ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﻮﻧﭽﮭﺎ ﺍﻭﺭﭘﮭﺮ ﺟﮭﭩﮏ ﮐﺮ ﻟﭙﯿﭧ ﻟﯿﺎ۔ﭘﯿﺴﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﺗﮏ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﭼﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﭘﮍﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﮐﻞ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﻟﮑﺎﻥ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺷﺮﭦ ﮐﮯ ﺑﭩﻦ ﻟﮕﺎﺋﮯ۔ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﻝ ﺳﻨﻮﺍﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺩﻓﺘﺮ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮﻧﮓ ﺭﻭﻡ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﮧ ﺍﯾﮏ ﻃﺎﺋﺮﺍﻧﮧ ﻧﻈﺮ ﺩﻭﮌﺍﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﺩﻓﺘﺮ ﮐﺎ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﯿﺮ ﺧﻮﺍﮦ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﮨﯽ ﺁ ﺟﺎﺅﮞ؟ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺨﺘﮧ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺗﮭﯽ۔ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻞ ﻧﮩﯿﮟ !!! ﻣﯿﮟ
ﮐﻞ ﻧﮩﯿﮟ !!! ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺭﻭﺯ ﯾﮩﺎﮞ ﺁ ﻧﮯ ﮐﺎ ﺭﺳﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺑﺲ ﺁﮦ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ۔ﮨﺎﺋﮯ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﻟﻌﻞ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﭘﯿﭻ ﻭ ﺧﻢ ﮐﻮ ﺗﻮﻟﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺍﺭﮮ ﺳﻨﻮ !! ﺗﻢ ﻧﮯ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺍﻟﭩﯽ ﭘﮩﻨﯽ ﮨﮯ۔ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﮭﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﺠﻞ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺳﮯ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﭘﮩﻦ ﻟﻮ۔ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﻧﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﮞ ! ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﻧﮧ ﻟﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ۔ﺯﯾﻤﻞ ﺧﺎﻥ ﭼﺎﺭ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮈﺍﮐﻮﺅﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺰﺍﺣﻤﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺳﮯ ﭨﺎﻧﮓ ﭘﺮ ﮔﻮﻟﯽ ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺑﺴﺘﺮ ﭘﺮ ﻻﭼﺎﺭ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮑﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺳﯽ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﭼﮑﺮ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﭩﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﺳﮯ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺩﯾﺎ۔
! ﻋﻤﺮ ! ﻋﻤﺮﺍﭘﺎﺭﭨﻤﻨﭧ ﮐﯽ ﺳﯿﮍﮬﯿﺎﮞ ﭼﮍﮬﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻋﻘﺐ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯼ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﯿﻨﮏ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﺮﮎ ﺗﮭﯽ۔ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺷﺨﺒﺮﯼ ﮨﮯ ﻋﻤﺮﻭﮦ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺁ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﺎﭼﮭﯿﮟ ﮐﮭﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ﻣﻨﯿﺠﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﮨﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺮﻭﻣﻮﺷﻦ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﮨﮯ۔ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮨﯿﻨﮉ ﺑﯿﮓ ﭨﭩﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺑﯽ ﻧﮑﺎﻝ
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻭﻗﺖ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﮐﺎﻡ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ﺍﺭﮮ ﻭﺍﮦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮨﻮ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺷﺪﻟﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﻣﺒﺎﺭﮐﺒﺎﺩ ﺩﯼ۔ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﻤﯿﺖ ﭘﺎﻧﭻ ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﮈﺍﺋﺮﯾﮑﭩﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻨﺖ ﺟﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﮐﺮﺗﯽ۔۔ﻭﮦ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺑﻮﻟﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﺘﺢ ﮐﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺤﻈﻮﻅ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ۔۔ ﺍﭼﺎ ﻧﮏ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﺍﻟﭩﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺭﯾﺸﻤﯽ ﺩﮬﺎﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺠﮫ ﮔﺌﯽ۔

پرانے دور کے جیب کترے بس سے اتر کر جیب میں ہاتھ ڈالا۔ میں چونک پڑا ۔ جیب کٹ چکی تھی ۔ جیب میں تھا بھی کیا؟ ٹوٹل 9 روپے ا...
11/03/2020

پرانے دور کے جیب کترے

بس سے اتر کر جیب میں ہاتھ ڈالا۔ میں چونک پڑا ۔ جیب کٹ چکی تھی ۔ جیب میں تھا بھی کیا؟ ٹوٹل 9 روپے اور ایک خط جو میں نے ماں کو لکھا تھا کہ "ماں ! میری نوکری چھوٹ گئی ہے ابھی پیسے نہیں بھیج پاؤں گا"۔

تین دنوں سے وہ پوسٹ کارڈ جیب میں پڑا تھا، پوسٹ کرنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ نو روپئے جاچکے تھے ۔ یوں نو روپئے کوئی بڑی رقم نہیں تھی ۔ لیکن جس کی نوکری چھوٹ گئی ہو اُس کے لیے نو سو سے کم بھی تو نہیں ہوتی ہے ۔

کچھ دن گزرے ۔ ماں کا خط ملا ۔ پڑھنے سے پہلے میں سہم گیا ۔ ضرور پیسے بھیجنے کو لکھا ہوگا ۔ لیکن خط پڑھ کر میں حیران رہ گیا !

ماں نے لکھا تھا: "بیٹا ! تیرا بھیجا پچاس روپئے کا منی آرڈر ملا ۔ تو کتنا اچھا ہے رے ۔۔۔ پیسے بھیجنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتا" ۔ میں کافی دنوں تک اس اُدھیڑ بُن میں رہا کہ آخر ماں کو پیسے کس نے بھیجے۔۔۔۔؟

کچھ دن بعد ایک اور خط ملا۔ "بھائی نو روپئے تمھارے، اور اکتالیس روپئے اپنے ملا کر میں نے تمھاری ماں کو منی آرڈر بھیج دیا ہے ۔ فکر نہ کرنا، ماں تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہے نا ! وہ کیوں بھوکی رہے؟

- تمھارا جیب کترا ۔

جب لیٹرین نہیں ہوتی تھی ۔جب دیہات میں لیٹرین کا رواج نہیں تھا رفع حاجت کے لیے کھیتوں کا رخ کرنا پڑتا تھا ۔عورتیں رات کو ...
07/03/2020

جب لیٹرین نہیں ہوتی تھی ۔

جب دیہات میں لیٹرین کا رواج نہیں تھا رفع حاجت کے لیے کھیتوں کا رخ کرنا پڑتا تھا ۔عورتیں رات کو یا صبح منہ اندھیرے یہ کام کرتیں۔ مرد و خواتین کے علاقے بھی مخصوص تھے۔ ہمیں یعنی بچوں کو بھی باہر جانا پڑتا تھا۔ ان دنوں بھوت پریت اور بردہ فروشی 'عام' تھی اسلئے ہمیں دن دہاڑے اور ٹیم کی شکل میں یہ کار سرانجام دینا پڑتا۔۔

فراغت کے بعد "گھسیٹی" ماری جاتی تھی۔ اس عمل کے دوران کانٹا کنکر چبھ جانا عام بات تھی۔ بارش میں بھی بھیگتے، کانپتے، کیچڑ میں لتھڑے وہیں جانا پڑتا اور کپڑے کی ٹاکیاں بطور ٹشو پیپر استعمال ہوتیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک لڑکا اس حالت میں پکڑا گیا کہ تربوز کے کھیت میں بیٹھا ' کام' بھی کرتا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ تربوز بھی مزے سے کھا رھا ہے.

ایک لڑکے کے پڑوسی گھر کو تالے ڈال کر ڈیرے پر شفٹ ہوئے تو اس کی موج لگ گئی۔ وہ منہ اندھیرے اٹھتا، ہمسایوں کی چھت پر بذریعہ سوراخ اپنا 'کام' کرتا اور چلتا بنتا۔ ایک دن ہمسایوں کی مائی کسی وجہ سے گھر آئی تو کمرے کی حالت دیکھ کر اس کا بھی 'تراہ' نکل گیا۔ ویسے تو کمرے میں بالن ڈنڈوں سوٹوں جیسا کاٹھ کباڑ ہی پڑا تھا لیکن مائی مجرم کو رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتی تھی۔ مائی سیانی تھی اس نے 'مال' کی نوعیت اور تازگی سے واردات کے وقت کا اندازہ لگا لیا اور چپکے سے واپس چلی گئی کہ کہیں مجرم بدک نہ جائے۔

اگلے دن لڑکا مقررہ وقت پر ہمسایوں کی چھت پر پہنچا۔ مٹی کا برتن اٹھا کر سائیڈ پر کیا۔ جب سوراخ پر براجمان ہو کر نشانہ باندھ رہا تھا، عین اسی وقت مائی بھی نیچے سے لمبا سا بانس پکڑے 'سوراخ' کا نشانہ لے رہی تھی۔

اس کے آگے تاریخ کے پنے غائب ہیں..
اور چراغوں میں روشنی نہ رہی۔😂😂

ایک لڑکا بہت کمزور تھا جسمانی طور پر بلکل ہڈیوں کا ڈھانچہ وہ بازار سے گزر رہا تھا ایک بہت ہی امیر لڑکی اس کے پاس اپنی قی...
06/03/2020

ایک لڑکا بہت کمزور تھا جسمانی طور پر بلکل ہڈیوں کا ڈھانچہ وہ بازار سے گزر رہا تھا ایک بہت ہی امیر لڑکی اس کے پاس اپنی قیمتی کار میں آکر رکی ۔ اور اس کو اپنے ساتھ اپنے گھر چلنے کی آفر کرنے لگی . بیچارہ حیران بھی تھا اور خوش بھی کہ اتنی امیر لڑکی اتنی

خوبصورت لڑکی کیا قیامت ڈھا رہی ہے کاش اس سے میری شادی ہوجاۓ

تو میں بھی امیر ہو جاؤں اور خوب عیش کروں ۔ وہ راضی ہوگیا اور لڑکی کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا
اسکا بنگلہ بہت عالیشان تھا، بہت سارے نوکر،
چاکر بھی تھے لڑکی نے اسے لے جاکر ڈراںٔنگ روم میں بٹھا دیا اور انتظار
کرنے کا کہا۔۔۔ اس کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے ،
مستقبل کے خوبصورت خواب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا…
کچھ دیر کے بعد وہ لڑکی اپنے 1 بچے کے ساتھ آئی اور لڑکے کی طرف اشارہ کر کے بولی دیکھو، اگر ٹینڈے نہیں کھاو گے تو ایسے ہو جاؤ گے😂😂

 #ایمانضلع تھر پار کر میں ایک بزرگ مستری برکت علی تھے جو لوہار کا کام کرتے تھے ۔ایک دن ان کے پاس ایک مرزائی آیا اور آتے ...
26/02/2020

#ایمان

ضلع تھر پار کر میں ایک بزرگ مستری برکت علی تھے جو لوہار کا کام کرتے تھے ۔ایک دن ان کے پاس ایک مرزائی آیا اور آتے ہی اس نے مرزا قادیانی کو نبی ماننے اور سچا نبی ہونے پر یقین رکھنے اور پھر اس کے دین میں مستری صاحب کو داخل کرنے کے لیے تبلیغ شروع کر دی۔
مستری صاحب اس وقت بیٹھے اپنے ہاتھ سے بنائی ایک کلہاڑی کی دھار تیز کرنے میں مصرو ف تھے۔ مرزائی جب تک بولتا رہا یہ کلہاڑی کی دھار تیز کرنے میں مصروف رہے۔ جب دھار خوب تیز ہو گئی تو یک دم اٹھے اور کلہاڑی کو اس مرزائی کی گردن پر رکھ دیا اور کہا:
کہو! مرزا قادیانی بےایمان اور جھوٹا تھا اور ایسا ویسا تھا۔ مستری صاحب نے جیسے جیسے کہا مرزائی ویسا ہی بولتا رہا۔ گویا مستری صاحب نے اس مرزائی سے اقرار کرا لیا۔ جب مستری صاحب مطمئن ہو گئے تو وہی کلہاڑی اس مرزائی کے ہاتھوں میں تھما کر کہنے لگے۔اب کلہاڑی میری گردن پر رکھو اور مجھ سے کہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کروں۔ اللہ کی قسم! میں ٹکڑے ٹکڑے ہو جاؤں گا مگر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا

 #کٹاہاتھتیز طوفانی رات میں ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺎﺭ پر ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ابھی منزل کافی دور تھی کہ کار خراب ھو گئی۔ آدھی رات کا وقت، ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ...
25/02/2020

#کٹاہاتھ

تیز طوفانی رات میں ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺎﺭ پر ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ابھی منزل کافی دور تھی کہ کار خراب ھو گئی۔ آدھی رات کا وقت، ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺗﮏ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮭﺮ میں ڈرتے ڈرتے ﻟِﻔﭧ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ لیے اپنی کار سے باہر نکلا۔
ﺭﺍﺕ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﻃﻮﻓﺎﻧﯽ ﺗﮭﯽ، بارش بھی فل زوروں پر تھی اور میں ﭘﻮﺭﯼ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﯿﮓ ﮐﺮ ﺗﮭﺮﺗﮭﺮ ﮐﺎﻧﭙﻨﮯ ﻟﮕﺎـ مجھے ﮐﻮﺋﯽ لفٹ نہ ﻣﻠﯽ ﺍﻭﺭ بارش اتنی تیز برس رھی تھی ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﻣﯿﭩﺮ ﺩﻭﺭ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ دے ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟـ
ﺗﺒﮭﯽ محسوس ہوا کہ میں ایک قبرستان کے بیچوں بیچ کھڑا ہوں، ایک انجانے خوف سے کلیجہ منہ کو آ رہا تھا کہ اچانک ﺍﯾﮏ ﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ، جس کی لائٹیں بند تھیں ﺟﺐ ﮐﺎﺭ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﺩﮬﯿﻤﯽ ﮨﻮﮔﺌﯽـ میں ﻧﮯ ﺁؤ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻧﮧ ﺗﺎؤ، ﺟﮭﭧ ﺳﮯ ﮐﺎﺭ ﮐﺎ ﭘﭽﮭﻼ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﻮﺩ ﮔﯿﺎـ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ کا ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ کے لیے ﺁﮔﮯ ﺟﮭﮑﺎ ﺗﻮ میرے ﮨﻮﺵ ﺍُﮌ ﮔﺌﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﯽ ﺳﯿﭧ ﺧﺎﻟﯽ ﺗﮭﯽـ
ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﯽ ﺳﯿﭧ ﺧﺎﻟﯽﺍﻭﺭ ﺍﻧﺠﻦ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﺭ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﺒﮭﯽ میں ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﮌ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﻮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺩﯾﮑﮫ کر ﺯﻭﺭ ﺯﻭﺭ سےﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎـ
اچانک میں نے دیکھا کہ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ کٹا ہوا ﮨﺎﺗﮫ اندر ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮐﺎﺭ ﮐﮯ سٹیئرنگ ﻭﮬﯿﻞ ﮐﻮ ﻣﻮﮌ ﺩﯾﺎـ ﮐﺎﺭ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻣﮍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﯽـ میں ﮨﯿﺒﺖ ﺯﺩﮦ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﺮ ﻣﻮﮌ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ خوفناک ﮨﺎﺗﮫ ﺍﻧﺪﺭ ﺁﺗﺎ ہے ﺍﻭﺭ سٹیئرنگ ﻭﮬﯿﻞ ﮐﻮ ﻣﻮﮌﺩﯾﺘﺎـ
ﺁﺧﺮﮐﺎﺭ مجھ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺭ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯼ میں ﺟﮭﭧ ﺳﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﻮﺩﺍ اور ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﻭﺍﺭ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻭﮌنے لگاـ وہ ایک چائے کا کھوکھا تھا۔ وہاں پہنچا اور خوف کی وجہ سے زاروقطار رونے لگاـ وہاں موجود ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻻﺳﮧ ﺩے کر ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ میں ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮭﯿﺎﻧﮏ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﻨﺎﻧﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ، کھوکھے ﻣﯿﮟ ایک دم ﺳﻨّﺎﭨﺎ ﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎ۔
کہ اچانک دو سردار کھوکھے ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺍﻭﺭ اُن میں سے ایک نے میری ﻃﺮﻑ ﺍِﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮ ﮐﮯ دوسرے کو کہا "ﺍُﻭﮮ ﯾﮩﯽ ہے ﻭﮦ ﺑﯿﻮﻗﻮﻑ ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮐﺎﺭ میں سوار ھوا تھا ﺟﺐ ﮨﻢ ﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺩﮬﮑّﺎ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔

 #ﺩﻭﺭﺍﻧﺪﯾﺶاﯾﮏ ﺑﺰﺭﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻮﮐﺮ ﮐﻮ فرمائش ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮔﮭﺎﻣﮍ ﮨﻮ ۔ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻣﯿﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﻧﻮﮐﺮ ﮨﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺩﻭﺭﺍﻧﺪﯾﺶ ﮐﮧ ﻣﯿﺮ ...
25/02/2020

#ﺩﻭﺭﺍﻧﺪﯾﺶ

اﯾﮏ ﺑﺰﺭﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻮﮐﺮ ﮐﻮ فرمائش ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮔﮭﺎﻣﮍ ﮨﻮ ۔ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻣﯿﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﻧﻮﮐﺮ ﮨﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺩﻭﺭﺍﻧﺪﯾﺶ ﮐﮧ ﻣﯿﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﺎ ﺑﻠﺐ ﻣﻨﮕﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺗﻞ ﻣﭩﯽ ﮐﮯ ﺗﯿﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﻣﻮﻡ ﺑﺘﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﻠﺐ ﻓﯿﻮﺯ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻻﻟﭩﯿﻦ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﭼﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱﮐﯽﭼﻤﻨﯽ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﻮﻡ ﺑﺘﯽ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ۔ﺗﻢ ﮐﻮ ﭨﯿﮑﺴﯽ ﻟﯿﻨﮯ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺗﮭﺎ , ﺗﻢ ﺁﺩﮬﮯ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﺎتھ ﻟﭩﮑﺎﺗﮯ ﺁﮔﺌﮯ ۔ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺟﯽ ﭨﯿﮑﺴﯽ ﺗﻮ ﻣﻠﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻮﭨﺮ ﺭﮐﺸﺎ کہیے ﺗﻮ ﻟﯿﺘﺎ ﺁﺅﮞ ۔ ﻣﯿﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﻧﻮﮐﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻣﻮﭨﺮ ﺭﮐﺸﺎ ﻟﮯ ﮐﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺩ ﻭﺑﺎﺭﮦ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺕ ﻧﮧ ﭘﮍﺗﯽ ۔ﻧﻮﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺁﻗﺎ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﻠﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﻟﯽ ۔ ﭼﻨﺪ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯ ﺁﻗﺎ ﭘﺮ ﺑﺨﺎﺭ ﮐﺎ ﺣﻤﻠﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﮑﯿﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﻻﻧﮯ ﮐﮯ لیے ﺑﮭﯿﺠﺎ ۔ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺣﮑﯿﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ۔ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺗﯿﻦ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮔﺌﮯ ۔
ﺁﻗﺎ ﻧﮯ ﻧﻮﮐﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ :" ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺎﮞ? "ﻧﻮﮐﺮ ﻧﮯ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﮐﺮﺍﯾﺎ" ﺟﻨﺎﺏ ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﺣﮑﯿﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﮩﺖ ﺣﺎﺫﻕ ﮨﯿﮟ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﺩﺧﻞ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﺧﺪﺍﻧﺨﻮﺍﺳﺘﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﻭﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﻮ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﻔﻦ ﮐﺎ ﮐﭙﮍﺍ ﺳاتھ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ ۔ ﯾﮧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺻﺎﺣﺐ غسّال ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﮔﻮﺭﮐﻦ ۔۔۔ ﺍﯾﮏ ﺳﺎتھ ﺍﺱ لیے ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺑﮭﺎﮔﻨﺎ ﻧﮧ ﭘﮍﮮ😜😂

 #لیڈر1999 میں " ٹائیگر ہل "  پر گھمسان کی لڑائی ھو رھی تھی. انڈین بریگیڈیئر M. P. S کے بقول دو لوگ پاکستانی فوج کو لیڈ ...
17/02/2020

#لیڈر

1999 میں " ٹائیگر ہل " پر گھمسان کی لڑائی ھو رھی تھی. انڈین بریگیڈیئر M. P. S کے بقول دو لوگ پاکستانی فوج کو لیڈ کر رھے تھے. ان میں سے ایک میجر اقبال تھے، جو بعد میں پتا چلا کہ SSG کمانڈو تھا اور اس کے ساتھ دوسرا کیپٹن کرنل شیر خان تھا، جس کا تعلق نادرن لائیٹ انفنٹری سے تھا، یہ باتیں ہمیں بعد میں پتا چلیں ھماری حیرت کی انتہا تو اس وقت نہیں رھی تھی جب ھم نے دیکھا کہ کیپٹن نے " ٹریک سوٹ" پہنا ھوا تھا، جبکہ سردی ھمارا خون جما رھی تھی. کیپٹن نے ٹائیگر ہل پر 5 پوزیشنیں بنا رکھی تھیں. انڈین بریگیڈیئر کہتا ھے کہ "" وہ فوجیوں کو ایسی زبان میں حکم دیتا تھا کہ " ہمیں ایک لفظ سمجھ نہیں آتا تھا"
مشہور انڈین مصنف " راوت" اپنی کتاب
Kargil, the untold story
میں لکھتی ہیں کہ " کیپٹن کو انڈین آرمی پیچھے دھکیلتی، وہ تھوڑی دیر بعد فوجی جمع کر کے پھر پلٹ آتا. حتیٰ کہ" کیپٹن نے بازی پلٹ دی تھی کہ انڈین آرمی کی تازہ دم کمک پہنچ گئی"
کیپٹن جھپٹتا، گھیرا تنگ ھونے پر پلٹتتا، اور پھر بچے کھچے جوان اکٹھے کر کے جھپٹتا. بریگیڈیئر کہتا ھے کہ
" میں بھی بریگیڈیئر تھا. کیپٹن کی ادائیں بتا رھی تھیں کہ وہ واپس نہیں جانا چاہتا. مجھے لگ رہا تھا کہ وہ تھوڑا تھوڑا شرمندگی محسوس کر رہا تھا کیونکہ اس سے وہ کچھ نہیں ھو پا رھا تھا، جو وہ کر گزرنا چاہتا تھا. اس نے تن تنہا ہمیں 3 دفعہ پیچھے دھکیلا. پھر کمک آ گئی. نئے آنے والے " کرپال سنگھ "
نے 10 گز کے فاصلے سے" پورا برسٹ " کیپٹن کے سینے میں اتار دیا. میں نے خاص طور پر" کیپٹن کی میت کو آرمی ہیڈ کوارٹر میں لے جانے کی ہدایت کی. وہاں ھمارے فوجیوں نے اس طرح کیپٹن کی میت کو رکھا کہ وہ باقاعدہ" دیدار " کرنے لگے. میں نے ٹریک سوٹ کی تلاشی لی. تب مجھے پتا چلا کہ وہ صوابی کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا ھے. اس کا تعلق نادرن لائیٹ انفنٹری سے ھے. بریگیڈیئر آگے کہتا ھے کہ " میں نے فوجی تاریخ میں بلکل نیا کام کیا، وہ یہ کہ" میں نے اپنے ہاتھ سے رقعہ لکھ کر کیپٹن کے ٹریک سوٹ کی جیب میں ڈال دیا کہ
Give him, what he deserves.
یہ پہلا موقع تھا کہ " دشمن" اپنے دشمن کے لئیے " اعزاز"
کی سفارش کر رھا تھا۔

Address


Telephone

+923066321662

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when KahaaNi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to KahaaNi:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share