Smart Wasif Official

  • Home
  • Smart Wasif Official

Smart Wasif Official Educational, Infotainment Blogs / Articles .

*بلڈ گروپس مختلف کیوں ہوتے ہیں؟* ہماری دنیا میں انسانوں کے مختلف بلڈ گروپس ہوتے ہیں، یعنی خون کے بنیادی عناصر تو یکساں ہ...
28/11/2022

*بلڈ گروپس مختلف کیوں ہوتے ہیں؟*

ہماری دنیا میں انسانوں کے مختلف بلڈ گروپس ہوتے ہیں، یعنی خون کے بنیادی عناصر تو یکساں ہوتے ہیں مگر اس میں کچھ مختلف چیزیں انہیں چار گروپس میں تقسیم کرتی ہیں۔
سائنسدان ابھی تک یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر انسانوں کے اتنے بلڈ گروپس کیوں ہیں مگر ان مختلف گروپس کا خیال نہ رکھنا جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
سائنسدانوں کے خیال میں یہ بلڈ گروپس لاکھوں برسوں سے انسانی جسم کا حصہ ہیں مگر ڈاکٹرز کو اس بارے میں 116 سال پہلے علم ہوا تھا۔
1900 سے قبل لاتعداد افراد کی ہلاکت اس وجہ سے ہوجاتی تھی کیونکہ ان کے جسم میں دوسرے گروپ کا خون چڑھا دیا جاتا تھا۔
مگر کیا چیز ہے جو کسی مخصوص بلڈ گروپ کو کسی کے لیے جان لیوا اور کسی کے لیے حیات بخش ثابت ہوتی ہے؟
ان چاروں بلڈ گروپس کو جو چیز ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے وہ اینٹی جنز ہے یعنی ایسے پروٹین یا کاربوہائیڈریٹ جو خون میں شامل ہوکر اینٹی باڈیز بنانے کا عمل تیز کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر اے بلڈ گروپ میں اینٹی جنز بھی اے ہوتے ہیں جبکہ بی بلڈ گروپ میں ٹائپ بی اینٹی جنز ہوتے ہیں۔
اگر اے اینٹی جنز اور بی اینٹی جنز کو ملایا جائے تو وہ جسم کے اندر ایک جنگ شروع کردیتے ہیں۔
ہمارے جسموں کے اندر بلڈ پلازما میں ایسے اینٹی باڈیز ہوتے ہیں جو کسی بھی انجان چیز کی روک تھام کرتے ہیں بشمول ان اینٹی جنز کے جو ہمارے بلڈ گروپ سے مطابقت نہیں رکھتے۔
جب جسم میں دوسرے گروپ کے اینٹی جنز داخل ہوتے ہیں تو یہ اینٹی باڈیز ان پر حملہ آور ہوجاتی ہیں جس کے نتیجے میں خون میں خرابی آنے لگتی ہے یعنی خون کی شریانیں بلاک ہوسکتی ہیں، دوران خون تھمنے کی وجہ سے موت کا خطرہ ہوتا ہے۔
کسی دوسرے گروپ کے خون کی چند ملی میٹر مقدار ہی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے یعنی اپنے بلڈ گروپ سے واقفیت بہت ضروری ہوتی ہے۔
ویسے تو سائنسدان خون کے گروپس کو 35 کی تعداد میں تقسیم کرتے ہیں (یعنی انسانوں اور جانوروں کے گروپس) مگر دنیا کی نوے فیصد انسانی آبادی 8 بلڈ گروپس کی حامل ہوتی ہے یعنی اے پازیٹو، اے نیگیٹو، بی پازیٹو، بی نیگیٹو، او پازیٹو، او نیگیٹو، اے بی پازیٹو، اے بی نیگیٹو۔
اے پازیٹو اور او پازیٹو ایسے بلڈ گروپس ہیں جو مجموعی طور پر 65 فیصد تمام انسانی بلڈ گروپس پر مشتمل ہیں جبکہ اے بی نیگیٹو سب سے زیادہ نایاب ہوتا ہے۔

یہ 1970 کا واقعہ ھے جب چین کے صدر کو کینسر کا مرض لاحق ہو گیا صدر صاحب نے ڈاکٹر کو کہا کہ میں علاج بعد میں کرواوں گا پہل...
08/08/2022

یہ 1970 کا واقعہ ھے جب چین کے صدر کو کینسر کا مرض لاحق ہو گیا صدر صاحب نے ڈاکٹر کو کہا کہ میں علاج بعد میں کرواوں گا پہلے مجھے یہ بتاو کینسر ھوتا کیوں ھے؟ صدر صاحب ڈاکٹر کے جواب سے مطمئن نہ ھوا تو صدر صاحب نے چین کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ھیلتھ آکسفورڈ یو نیورسٹی اور امریکہ کی کارنیل یونیورسٹی کو بیماریوں کی وجوھات معلوم کرنے اور ان کے قدرتی طریقہ علاج ڈھونڈنے پر لگا دیا انھوں نے 25 سال بعد اس تحقیق کو 2005 میں کتابی شکل میں امریکہ سے شائع کیا اور یہ کتاب نیشنل بیسٹ سیلر رہی اس کتاب کا نام "دا چائنا سٹڈی" رکھا گیا چائنا سٹڈی کے سائنسدانوں نے سب سے پہلے دنیا میں ایسے علاقے معلوم کیے جہاں کے لوگ سو سال سے زیادہ زندہ رہتے ہیں اور کبھی بیمار نہیں ہوتے گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ بھی ان علاقوں میں شامل ھے جہاں کے لوگ بیمار ہوے بغیر سو سال سے زیادہ زندہ رہتے ہیں چائنا سٹڈی کے لو گوں نے ھنزہ کے لوگوں کے کھانے کے انداز معلوم کرنے کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ بیمار رہنے والے لو گوں کے علاقے معلوم کیے جہاں کے سب لوگ کسی نہ کسی بڑی بیماری کا شکار رہتے ہیں ان میں ایک جگہ امریکہ میں ہے جہاں پیما انڈین لوگ رہتے ہیں جہاں پر ہر کوئی کینسر ہارٹ شوگر بی پی گردوں اور جوڑوں کے درد کا مریض ہے چائنا سٹڈی کے لوگ وہاں پہنچ گئے اور ان لو گوں کو اس خوراک پر لگا دیا جو ہنزہ کے لوگ کھاتے ہیں اور ان کی پرانی خوراک بند کر دی 6 ماہ ہی اس خوراک کو کھانے سے ان کی تمام بیماریاں ختم ہو گئیں اور وہ بلکل صحت مند ہو گئے اور ان کی دوائیوں سے جان چھوٹ گئی ہنزہ کے لوگ ایسا کیا کھاتے ہیں جس کی وجہ سے بیمار نہیں ہوتے وہ صرف خدا کی بنائی ہوئی قدرتی خوراک فروٹ کچی سبزیاں اور میوے کھاتے ہیں اور جو خوراک فیکٹریوں سے گزر کر آتی ہے یعنی پراسیس شدہ ہوتی ہے ایسی خوراک بلکل نہیں کھاتے یہ ہے صحت مند زندگی کا وہ راز جس کو معلوم کرنے اور دنیا کے ہزاروں کینسر شوگر ہارٹ بی پی فالج گردوں جوڑوں ہیپا ٹائٹس معدے ھاضمے قبض آنکھوں اور جلد کے مریضوں کو ایسی خوراک چھے ماہ تک کھلا کر مکمل صحتیاب کرنےاور ان کی دوائیوں سے جان چھڑا کر اس خوراک کے فوائد کو ثابت کرنے پر چائنا برطانیہ اور امریکہ کی تین یونیورسٹیوں کے 25 سال لگے یہ کتاب" دا چائنا سٹڈی" گوگل سے ڈاونلوڈ کر سکتے ہیں
امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن کے 2004 میں ہارٹ کے 4 بار بائی پاس آپریشن ہوے 2005 میں پھیپھڑوں کا آپریشن 2010 میں دو بار ہارٹ میں سٹنٹ رکھے گئے تو بل کلنٹن مرنے کے قریب لا علاج مریض بن گئے تو وائیٹ ہاءوس کے ڈاکٹروں نے آخری حربے کے طور پر صدر صاحب کو چائنا سٹڈی والی خوراک پر لگا دیا 5 ماہ میں ہی صدر صاحب بلکل ٹھیک ہو گئے اس بات کا ثبوت بل کلنٹن کے سی این این چینل کو دیئے گئے انٹریو میں دیکھ سکتے ہیں اس خوراک کے کرشماتی اثرات دیکھ کر صدر صاحب نے بل کلنٹن فاونڈیشن کے تحت یہ پراجیکٹ بنایا کہ میں جب تک زندہ ہوں امریکہ کے ہر سکول میں جا کر بچوں کو صحت مند زندگی کا راز ضرور بتاوں گا کہ فروٹ کچی سبزیاں اور میوے کھاو اور فیکٹریوں سے گزری ہوئی یعنی پراسیس شدہ خوراک بلکل نہ کھاو جس کو بھی اپنی صحت عزیز ہے وہ اس خوراک کو ضرور اپنا لے میں نے سوچا کہ اگر یہ اتنی سچی حقیقت ہے تو قرآن میں ضرور ہو گی دیکھیں سورت عبس آیت 24 تا 32
"پس انسان کو چاہیے کہ اپنی خوراک کی طرف دیکھے بیشک ہم نے خوب زور سے پانی برسایا پھر ہم نے زمین کو پھاڑ کر چیر ڈالا پھر ہم نے اس میں اناج اگایا اور انگور اور سبزیاں اور زیتون اور کھجور اور گھنے گھنے باغات اور ( طرح طرح کے ) پھل میوے اور چارہ خود تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے فائدے کے لیے-"
قرآن پاک کی ان آیات مبارکہ میں انسان کی خوراک کے سلسلے میں اناج کے بعد تین چیزوں پر زور دیا گیا ہے فروٹ کچی سبزیاں اور میوے
منقول

ﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﮯ 10 ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﻓﺎﺋﺪﮮ ﺟﻮ ﺁﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﮯ ﺑﯿﺞ ﺳﻔﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﮦ ﺩﻭ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺳﻔﯿﺪ ﺑﯿﺞ ﺯﯾﺎﺩﮦ ...
20/07/2022

ﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﮯ 10 ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﻓﺎﺋﺪﮮ ﺟﻮ ﺁﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ

ﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﮯ ﺑﯿﺞ ﺳﻔﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﮦ ﺩﻭ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺳﻔﯿﺪ ﺑﯿﺞ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭘﻮﺳﺖ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮔﻮﻝ ﺑﯿﺞ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﯾﮧ ﻋﻤﻮﻣﺎً ﻣﺨﺘﻠﻒ ﭘﮑﻮﺍﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺧﺼﻮﺻﺎً ﮐﻮﻓﺘﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺳﺎﻟﻦ ﺗﻮ ﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﺩﮬﻮﺭﺍ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﯿﺴﭩﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﮈﺑﻞ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﮭﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻃﺒﯽ ﻓﻮﺍﺋﺪ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﺎ ﺗﯿﻞ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﺎﻻ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺩﺭﺩ ﺟﻠﺪ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺧﺸﺨﺎﺵ ﻣﯿﮟ ﺻﺤﺖ ﺑﺨﺶ ﺍﺟﺰﺍﺀ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﮕﻨﯿﺸﯿﻢ، ﻣﯿﮕﻨﯿﺰ، ﺁﯾﻮﮈﯾﻦ، ﺯﻧﮏ، ﺗﮭﯿﺎﻣﻦ، ﻓﻮﻟﯿﭧ، ﮐﯿﻠﺸﯿﻢ ، ﺁﺋﺮﻥ، ﻓﺎﺳﻔﻮﺭﺱ ، ﺍﻭﻣﯿﮕﺎﺗﮭﺮﯼ ﻓﯿﭩﯽ ﺍﯾﺴﮉ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺋﺒﺮ ﭘﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﯾﻨﭩﯽ ﺍﻧﻔﻠﯿﻤﯿﺸﻦ ﺧﺼﻮﺻﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺩﯾﮕﺮ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻔﯿﺪ ﮨﮯ۔
۱۔ﺑﮭﺮﭘﻮﺭ ﻧﯿﻨﺪ
ﺧﺸﺨﺎﺵ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﺑﻮﺯ ﮐﮯ ﺑﯿﺞ ﮨﻢ ﻭﺯﻥ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭘﯿﺲ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﮟ ﺭﺍﺕ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﺩﮬﮯ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﭼﻤﭻ ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ ۔
۲۔ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺧﺎﺭﺵ
ﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮈﺭ ﻣﯿﮟ ﭼﻨﺪ ﻗﻄﺮﮮ ﻟﯿﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺭﺱ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﺐ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﻼﮐﺮ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺧﺎﺭﺵ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔
۳۔ﺩﻣﺎﻏﯽ ﺻﺤﺖ
ﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﺎ ﺣﺮﯾﺮﮦ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﺻﺤﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻣﻔﯿﺪ ﮨﮯ۔ﺍﮔﺮ ﺍﺳﮯ ﺑﺎﺩﺍﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﯿﺲ ﮐﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻓﺎﺩﯾﺖ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔
۴۔ﻭﺯﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ
ﺍﻭﻣﯿﮕﺎ ﺗﮭﺮﯼ ﻓﯿﭩﯽ ﺍﯾﺴﮉ ﺧﺸﺨﺎﺵ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻭﺯﻥ ﮐﻮ ﮔﮭﭩﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﮨﻢ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺭﻭﺯﻣﺮﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺳﮯ ﺁﭖ ﻭﺯﻥ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﮐﻤﯽ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
۵۔ﮔﺮﻣﯽ ﮐﺎ ﺳﺮ ﺩﺭﺩ
ﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﻮ ﭘﯿﺲ ﮐﺮ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﻼ ﮐﺮ ﭘﯿﺴﭧ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﻟﮕﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﮔﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﺮﺩﺭﺩ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
۶۔ﺁﻧﮑﮫ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻥ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ
ﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺳﯿﻨﮑﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺩﺭﺩ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
۷۔ﻧﺰﻟﮧ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﺴﯽ
ﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﭼﭩﮑﯽ ﻧﻤﮏ ﻣﻼ ﮐﺮ ﺟﻮﺷﺎﻧﺪﮦ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﭼﮭﺎﻥ ﮐﺮ ﭘﯽ ﻟﯿﮟ۔ ﻧﺰﻟﮧ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﺴﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔
۸۔ﺟﻮﮌﻭﮞ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ
ﺧﺸﺨﺎﺵ ﺟﻮﮌﻭﮞ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻔﯿﺪ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﯿﻞ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﻮﮌﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﻓﺎﻗﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﭘﯿﻦ ﮐﻠﺮ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻔﯿﺪ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔
۹۔ﺧﺸﮏ ﺟﻠﺪ
ﺧﺸﮏ ﺟﻠﺪ ﺳﮯ ﻧﺠﺎﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﮔﺮ ﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﻮ ﭘﯿﺲ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺩﮪ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺪ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﺩﮨﯽ ﻣﻼ ﮐﺮ ﺟﻠﺪ ﭘﺮ ﻟﮕﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺟﻠﺪ ﻧﺮﻡ ﻭﻣﻼﺋﻢ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔
۱۰۔ﺳﺮ ﮐﯽ ﺧﺸﮑﯽ
ﺳﺮ ﮐﯽ ﺧﺸﮑﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﮨﻢ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﺎﻝ ﺟﮭﮍﻧﮯ ﮐﺎ ﻋﻤﻞ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺰ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺧﺸﺨﺎﺵ ﮐﻮ ﭘﯿﺲ ﮐﺮ ﺩﮨﯽ ﻣﻼ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﯿﻠﭗ ﭘﺮ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺳﺮ ﮐﯽ ﺧﺸﮑﯽ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔

انسانی عمر تیزی سے بڑھ رہی ہے  ۔ بہتر صحت کی دیکھ بھال اور حفظان صحت، صحت مند طرز زندگی، کافی خوراک اور بہتر طبی نگہداشت...
15/05/2022

انسانی عمر تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔
بہتر صحت کی دیکھ بھال اور حفظان صحت، صحت مند طرز زندگی، کافی خوراک اور بہتر طبی نگہداشت اور بچوں کی اموات میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم چند نسلیں پہلے اپنے آباؤ اجداد سے کہیں زیادہ زندہ رہنے کی توقع کر سکتے ہیں۔
یورپی یونین میں پیدائش کے وقت متوقع عمر 1960 میں تقریباً 69 سال اور 2010 میں تقریباً 80 سال تھی جو کہ مستقبل میں تقریبا 100 سال ہونے کا امکان ہے۔
موجودہ متوقع عمر یا ایوریج ایج کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان میں اس وقت ایوریج ایج 67 سال ہے جو پانچ،دس سال پہلے 63 سال تھی مطلب اس میں بہتری آئی ہے لیکن اگر ہم علاقائی ممالک کے ساتھ موازنہ کریں تو ہم ان سے پیچھے ہیں کیونکہ بنگلہ دیش میں متوقع عمر 74 سال ہے سرلنکا میں متوقع عمر 72 سال، اور بھارت میں تقریبا ستر سال ہے۔
متاثرکن بات یہ ہے کہ لگاتار جنگیں لڑنے والا چٹیل اور بنجر زمینں رکھنے والا اسرائیل اب ہر میدان میں ترقی کر گیا ہے اور یہاں متوقع عمر تقریبا 80 سال ہے۔
اگر براعظم ایشیا میں دیکھیں تو جاپان اور سنگاپور کے بعد زیادہ عمر رکھنے والے ممالک میں اسرائیل تیسرے نمبر پر ہے، اور اگر ساوتھ ایسٹ ایشیا میں دیکھیں تو آنے والے سالوں میں بھی زیادہ متوقع عمر والے ممالک میں سنگاپور آگے ہے اس کے بعد تھائی لینڈ، ملائشیاء، انڈونیشیا وغیرہ کا نمبر آتا ہے۔
لیکن براعظم افریقہ میں متوقع عمر کا جائزہ لیں تو یہاں متوقع عمر کم ہو رہی ہے اور چند ایک افریقی ممالک میں تو متوقع عمر پچاس سال سے بھی کم ہے۔
خیر زیادہ عمر کو بھی ہم خوشحالی سے نہیں جوڑ سکتے کیونکہ یورپین ممالک میں ساٹھ، ستر سال کے بعد تقریبا تیس فیصد افراد الزائمر کا شکار ہو جاتے ہیں اس کے علاوہ زیادہ بڑھاپے والے افراد کو بھی کئی بیماریوں سے لڑنے کے لیے سہارے اور نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
بہرحال سائنس و ٹیکنالوجی کی وجہ سے جہاں ہم نے بہت سی جان لیوا بیماریوں سے نجات حاصل کی وہی بہتر طرز زندگی میں بھی اب ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔
اور یہ مان لیں کے ترقی کا راز علم، ٹیکنالوجی میں ہی ہے۔

بدن (15) ۔ دماغمعلوم کائنات میں پائی جانے والی سب سے غیرمعمولی شے آپ کے سر کے اندر ہے۔ کائنات کا چپہ چپہ چھانا جائے تو ...
15/05/2022

بدن (15) ۔ دماغ
معلوم کائنات میں پائی جانے والی سب سے غیرمعمولی شے آپ کے سر کے اندر ہے۔ کائنات کا چپہ چپہ چھانا جائے تو بھی غالباً کوئی بھی شے اس قدر پیچیدہ، شاندار اور زیادہ فنکشن کرنے والی نہ ملے جتنا آپ کے کانوں کے درمیان پایا جانے والا تین پاونڈ کا یہ عضو ہے۔
اس قدر حیران کن شے ہونے کے باوجود انسانی دماغ دیکھنے میں کچھ بھی غیرمعمولی نہیں لگتا۔ یہ 75 سے 80 فیصد کے درمیان پانی ہے۔ باقی زیادہ تر پروٹین اور فیٹ ہیں۔ حیرت انگیز یہ ہے کہ یہ تین عام سے مادے ایسے مل جاتے ہیں کہ ہماری سوچ، یادداشت، تصور، تصویر، جمالیاتی ذوق اور دیگر چیزیں پیدا کرتے ہیں۔ اگر دماغ کو سر سے نکال لیا جائے تو آپ کو حیرت ہو گی کہ یہ کتنا نرم ہے۔ یہ نرم مکھن کی طرح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اور دماغ کے ساتھ بڑا تناقض یہ ہے کہ ہمارے لئے دنیا کا تجربہ تخلیق کرنے والے اس عضو نے کبھی خود دنیا نہیں دیکھی۔ یہ خاموشی اور تاریکی میں رہتا ہے۔ جیسا کسی اندھیری کوٹھڑی میں بند قیدی۔ اس کے پاس خود تکلیف محسوس کرنے کا طریقہ نہیں۔ اس کے کوئی جذبات نہیں۔ نہ یہ گرم دھوپ اور نہ ہی نرم ہوا کو محسوس کر سکتا ہے۔ دماغ کے لئے دنیا برقی نبضوں کا کھیل ہے۔ اور اس سادہ اور برہنہ انفارمیشن میں سے یہ آپ کے لئے تین ڈائمنشن والی متحرک اور حسیات طور پر مصروف دنیا کی تخلیق کرتا ہے۔
خاموشی سے بیٹھا ہوا، کچھ نہ کرنے والا دماغ تیس سیکنڈ میں اتنی انفارمیشن پراسس کرتا ہے جو ہبل سپیس ٹیلی سکوپ نے تیس سال میں کی تھی۔ نیچر نیورسائنس کے ایک آرٹیکل کے مطابق، اس کا ایک کیوبک ملی میٹر (ریت کے ذرے کے برابر) حصہ دو ہزار ٹیرا بائیٹ انفارمیشن رکھنے کے قابل ہے اور مکمل انسانی دماغ اتنی انفارمیشن رکھنے کے، جو تمام دنیا کا ڈیجیٹل مواد ہے۔
اور اگر بالفرض کائنات میں پائی جانے والی سب سے غیرمعمولی شے یہ نہیں تو پھر ہم بہت ہی پرسرار عجائب رکھنے والی کائنات میں رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ کا وزن ہمارے جسم کا دو فیصد ہے جبکہ یہ بیس فیصد توانائی خرچ کرتا ہے۔ نوزائیدہ بچوں میں یہ 65 فیصد ہے۔ اور بچوں کی ہر وقت سوئے رہنے کی ایک وجہ یہ ہے۔ بڑھتا دماغ انہیں تھکا دیتا ہے۔
دماغ توانائی کے حساب سے مہنگا ہے لیکن اس کو استعمال کرنے میں انتہائی چابکدست ہے۔ اسے روزانہ کی چار سو کیلوریز درکار ہیں۔ یہ ایک پیسٹری کھانے سے مل جائیں گی۔ ذرا کوشش کریں کہ ایک پیسٹری کی توانائی سے لیپ ٹاپ کو چوبیس گھنٹے چلائے جانے میں کتنی کامیابی ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو سکتا ہے کہ کئی بار آپ نے سنا ہو کہ دماغ کا دس فیصد حصہ استعمال ہوتا ہے۔ معلوم نہیں اس غلط فہمی کی ابتدا کہاں سے ہوئی لیکن ہر کسی کے لئے یہ سو فیصد کام کر رہا ہوتا ہے۔ (ایسا ضرور ہے کہ کچھ لوگوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ بہتر کام لے سکتے تھے لیکن یہ الگ معاملہ ہے)۔
جسم کے دوسرے اعضا کے برعکس دماغ اپنی کیلوریز یکساں ریٹ پر خرچ کرتا ہے، خواہ آپ کچھ بھی کر رہے ہوں۔ گہرے دماغی کام سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ، آپ کے دماغ میں کچھ بھی ایسا نہیں جو انسانوں سے خاص ہے۔ بالکل وہی حصے ہیں ۔۔۔۔ نیورون، ایگزون، گینگلیا وغیرہ ۔۔۔۔ جو کسی چوہے یا بکرے کے دماغ میں۔ وہیل اور ہاتھی کا دماغ ہم سے بہت بڑا ہے۔ ان کے جسم بھی بڑے ہیں لیکن اگر ایک چوہے کو ہمارے سائز کا کر دیا جائے تو اس کا دماغ ہمارے جتنا ہی ہو گا۔ اور کئی پرندوں میں یہ تناسب اس سے بھی بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیورون دوسرے خلیات سے مختلف ہیں۔ یہ لمبے اور سخت تار کی طرح ہیں۔ ان کا کام برقی سگنل کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہے۔ اپنے سرے پر یہ شاخوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں، جنہیں ڈینڈرائٹ کہا جاتا ہے۔ یہ چار لاکھ تک ہو سکتی ہیں۔ ہر نیورون ہزاروں دوسرے نیورون کے ساتھ رابطہ رکھتا ہے اور یہ کھرب ہا کھرب کنکشن ہیں۔ ڈیوڈ ایگلمین کے مطابق، دماغ کے ٹشو کے ایک مکعب سینٹی میٹر میں اتنے کنکشن ہیں جتنے ہماری کہکشاں کے ستارے۔ اور اس الجھاوٗ میں ہماری ذہانت پنہاں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دماغ کے بارے میں سب سے غیرمعمولی اور تجسس والی چیز یہ ہے کہ یہ کتنا غیرضروری ہے۔ اس زمین پر رہنے کے لئے، آپ کو شاعری کرنے، فلسفہ کرنے یا یہ والا آرٹیکل پڑھنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ تو پھر اتنی توانائی اور رِسک ذہنی صلاحیت پر کیوں جس کی ضرورت نہ تھی؟۔ یہ سوال دماغ کے بارے میں ان کئی سوالات میں سے ہے جو آپ کا دماغ آپ کو نہیں بتا پائے گا۔

جب یہ چھوٹے چھوٹے روشنی کے ذرے جو آج ہبل کے کیمروں میں داخل ہوئے اپنا دو تہائی سفر مکمل کر چکے تھے، اس وقت(4.7 ار سال پہ...
15/05/2022

جب یہ چھوٹے چھوٹے روشنی کے ذرے جو آج ہبل کے کیمروں میں داخل ہوئے اپنا دو تہائی سفر مکمل کر چکے تھے، اس وقت(4.7 ار سال پہلے) گیس کے ایک گھومتے بادل سے سورج اور نظام شمسی کا جنم ہوا۔ یہ زمین پر پہنچنے ہی والے تھے جب(1 ارب سال پہلے) زمین پر پیچیدہ(Multi cell complex life) زندگی شروع ہوئی، اور کائناتی دھڑکن کے ایک چھوٹے سے حصے میں(25 لاکھ سال پہلے) انسان کا ارتقاء ہوا جس نے ایک عرصے کے بعد ہبل خلائی دوربین ایجاد کی اور اس کی مدد سے ان قدیم فوٹان کو پکڑ کر انکی کہانی دریافت کی۔

کائناتی وسعت اور قدامت کے مد مقابل انسان کی کوئی اہمیت نہیں، زمین کی حیثیت ایک ذرے سے بھی کم ہے، انسانی زندگی کائنات کی قدامت اور حیرت انگیز عظمت پہچاننے کے لئیے انتہائی کم ہے، اس کائناتی اکھاڑے میں ہماری زمین اور سورج کی کوئی وقعت نہیں، انسان کی تو بات ہی کرنا بے مقصد ہے۔ اس پر انسان کا یہ سراب کہ یہ کائنات اسکے لئیے بنی ہے بے وقوفی اور خوش فہمی پر مبنی ہے، کہکشاؤں ستاروں اور سیاروں کی جنگ میں انسان کہیں غائب ہو کر رہ جاتا ہے، ہم خلا میں معلق ایک تنہا پتھر پر مقید ایک ایسی چھوٹی سی مخلوق ہیں جسکو زمان اور مکان کی عظیم بندشوں نے جکڑ رکھا ہے، سائنسی تحقیق نے ہماری اس کال کوٹھڑی میں ایک ایسی حیرت انگیز کھڑکی کھول دی ہے جس کے ذریعے کائناتی اتھاہ گہرائیوں سے چھن چھن کر روشنی ہماری دنیا میں داخل ہو رہی ہے، ہمارے ذہنوں کو منور کر رہی ہے ہمارے غرور اور تکبر کے جھوٹے سحر کو توڑ رہی ہے اور ہمیں عاجزی اور رواداری کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اپ پورا منہ شیشے کے سامنے کھول کر دیکھے تو حلق نظر آتا ہے. انگریزی میں اسکو uvula کہتے ہے. گوشت کے اس عجیب لٹکتے لوہتھڑے...
15/05/2022

اپ پورا منہ شیشے کے سامنے کھول کر دیکھے تو حلق نظر آتا ہے. انگریزی میں اسکو uvula کہتے ہے. گوشت کے اس عجیب لٹکتے لوہتھڑے کو سمجنے میں سائنس نے بہت عرصہ لیا.اسکا کام یہ ہے جب ہم کھانا کھاتے ہے تو نگلتے وقت یہ اوپر اٹھ کر سانس کی نالی nasal cavity کو بند کر دیتا ہے.خوراک کے جانے کے بعد یہ کھل جاتا ہے.اگر اس خوراک کا کوئی بڑا ذرہ اس نالی میں چلا جائے تو سانس بند ہو جائے گی.پھر بھی کبھی کچھ ذرات چلے جائے تو پیھپڑے ہوا کا تیز پریشر بنا کر باہر نکال دیتے ہے.جسے ہم چھینک کہتے ہے. اور اسی نظام اور امکانی خطرے سے بچاؤ پر ہم الحمدللہ کہتے ہے یعنی ہر قسم کی تعریف الله کے لیے ہے.

گوگل نے language Smart Glasses پر کام شروع کردیا ہے جو دنیا کی ہر زبان کا ترجمہ کرکے براہ راست عینکوں میں دکھا سکے گی۔ آ...
15/05/2022

گوگل نے language Smart Glasses پر کام شروع کردیا ہے جو دنیا کی ہر زبان کا ترجمہ کرکے براہ راست عینکوں میں دکھا سکے گی۔ آپ کتاب ، ہوٹل کا مینیو، سائن بورڈ , حتیٰ کہ لوگوں کو بات کرتے ہوئے بھی اگر وہ کسی دوسری زبان میں گفتگو کر رہے ہونگے عینکوں میں اس کا فلموں کی طرح Caption یعنی ترجمہ لکھا ہوا آتا جائے گا آپ کی مادری زبان میں۔ گرچہ گوگل کے پاس پہلے ہی یہ ٹیکنالوجی موجود ہے لیکب وہ صرف ویب سائیٹ اور ایپ تک محدود تھی لیکن اب اس کو عینکوں کے زریعے لائیو Real Time میں بنایا جارہا ہے۔ یاد رکھیں ہم ویب ٹو سے ویب تھری دور میں شفٹ ہورہے ہیں جہاں حیران کن چیزیں دیکھنے کو ملنے والی ہیں۔ یہ عینک عام نظر والی یہ دھوپ سے بچائو والی ہی ہوگی لیکن اس میں لینگوئج کا یہ بہترین فیچر موجود ہوگا۔

انٹرنیٹ پر ایک اور دنیا بھی موجود ہے، جو ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کہلاتی ہے۔ ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کیا ہیں ؟ اور کس طرح کام ک...
13/05/2022

انٹرنیٹ پر ایک اور دنیا بھی موجود ہے، جو ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کہلاتی ہے۔ ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کیا ہیں ؟ اور کس طرح کام کرتی ہیں ؟ اس بارے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد زیادہ معلومات نہیں رکھتی۔ آج کی تحریر میں ہم ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کے بارے میں جانیں گے ۔

ہم جو انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں اس میں کوئی بھی ویب سائٹ اوپن کرنے کے لیے تین بار WWW لکھناپڑتا ہے۔ جس کا مطلب ہے ورلڈوائڈ ویب، اسے سرفس ویب، اور لائٹ ویب بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن آپ کے لیے سب سے حیرت انگیز بات یہ ہوگی کہ دن رات استعمال کرکے بھی جس انٹر نیٹ کو ہم ختم نہیں کرسکتے یہ کل انٹر نیٹ کا صرف چار پانچ فیصد ہے۔ باقی کا 95٪ انٹر نیٹ عام لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔

اب آپ کے ذہن میں سوالات پیدا ہوئے ہوں گے کہ:

یہ پچانویں فیصد انٹر نیٹ ہماری آنکھوں سے کیوں اوجھل ہے؟ ہم اسے کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ اس اوجھل انٹر نیٹ کی عظیم دنیا میں کیا کیا چھپا ہوا ہے؟ عام لوگوں سے اسے کیوں چھپایا ہوا ہے؟ وہاں کیا کیا جاتا ہے؟ تو آج کی اس تحریر میں ان سوالات کے جوابات پر بات ہوگی۔
ورلڈ وائڈ ویب کو ٹم برنرزلی نے 1989 میں ایجاد کیا اور 6اگست 1991 کو باقاعدہ منظر عام پر لایا۔ پھر یہ ٹیکنالوجی گولی کی رفتار سے ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئی۔ اس طرح پوری دنیا سمٹ کر ایک کمپیوٹر کی سکرین پر اکھٹی ہوگئی۔ ویب کے فوائد سے انسانیت مستفید ہونے لگی، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی محتاج بن کر رہ گئی۔ ویب کی تیز رفتاری کی وجہ سے دستاویزات کی منتقلی اور خط وکتاب ای میل کی شکل میں تبدیل ہوئی گئی۔ اور کمپنیوں اور اداروں نے اس کا استعمال شروع کردیا۔
ایک طرف پوری دنیا اس نعمت سے مستفید ہورہے تھی تو دوسری طرف ڈیوڈ چام نے ایک مضمون بعنوان Secutity without identification لکھا۔ جس میں انہوں نے خبردار کیا کہ ورلڈ وائڈ ویب کے حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے لوگ اپنی معلومات کی نگرانی سے محروم ہوتے جارہے ہیں ۔ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی معلومات درست ہیں ، یا پرانی ہیں ۔ چنانچہ جس خدشے کا اظہار ڈیوڈ چام نے کیا تھا آج ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ گوگل، فیس بک سمیت دیگر ویب سائٹس اپنے یوزر کے بارے اتنا کچھ جانتی ہیں کہ اس کے قریبی دوست یا سگے بھائی بہن بھی اتنا نہیں جانتے ہوں گے۔ چنانچہ انہی سورسز کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کے خفیہ اداروں نے جاسوسی کا جال بھی بچھا دیا۔

یہاں سے انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک نیا موڑ آتا ہے، اور حکومتیں یہ سوچنا شروع کردیتی ہیں کہ انٹر نیٹ پر ڈیٹا کے تبادلے کی سیکورٹی کے لیے کوئی نظام ہونا چاہیے تاکہ کوئی اسے چوری نہ کرسکے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے امریکی نیوی کے تین ریسرچر نے یہ بیڑا اٹھاتے ہوئے Onion Routing کا نظام پیش کیا ۔ اس نظام کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص کسی کے ڈیٹا کو چرا نہیں سکتا تھا اور نہ ہی بغیر اجازت کے ویب سائٹ کو اوپن کرسکتا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب امریکی نیول ریسرچ لیبارٹری نے اس نظام کو اوپن سورس کردیا۔ یعنی ہر کسی کو اس سے مستفید ہونے کی اجازت دے دی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کے جرائم پیشہ لوگوں نے اس نظام کو اپنے گھنائونے جرائم کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ اور اسی کا نام ڈارک ویب ہے۔

اس ساری بات کو سمجھانے کے لیے میں آپ کو ایک مثال دے کر سمجھانا چاہتا ہوں، فرض کریں برف کا ایک پہاڑ سمندر میں کھڑا نظر آرہا ہے، اس کا تھوڑا سا حصہ باہر ہے، اسے آپ ورلڈ وائڈ ویب یعنی وہ انٹر نیٹ سمجھ لیں جسے ہم استعمال کرتے ہیں ۔
پھر ایک بڑا حصہ زیر آب نظر آرہا ہے اسے ڈیپ ویب کہا جاتا۔ پھر اس سے بھی بڑا حصہ مزید نیچے گہرائی میں نظر آرہا ہے، اسے ڈارک ویب کہا جاتا ہے۔ پھر ڈارک ویب میں ریڈ رومز ہوتے ہیں ۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس برف کے پہاڑ سے نیچے جو سمندر کی تہہ ہے اسے Marianas web مریاناز ویب کہا جاتا ہے جس تک رسائی دنیا کے عام ممالک کی حکومتوں کی بھی نہیں ہے۔

اب میں ویب کے ان چاروں حصوں کی تھوڑی تھوڑی تشریح کرکے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔

1۔ ورلڈ وائڈ ویب وہ انٹر نیٹ ہے جسے ہم اپنے کمپیوٹر یا موبائل پر استعمال کرتے ہیں، اوراچھی طرح جانتے ہیں ۔ یہ ٹوٹل انٹرنیٹ کا صرف چار، پانچ فیصد ہے ۔

2۔ اس سے نیچے ڈیپ ویب ہے۔ یہ انٹر نیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جس تک رسائی صرف متعلقہ لوگوں کی ہوتی ہے، اور یہ عام طور پر مختلف کمپنیوں اور اداروں کے استعمال میں ہوتا ہے۔ جیسے بینکوں کا ڈیٹا یا مثلاً آپ یوفون کی سم اسلام آباد سے خریدتے ہیں اور پھر کراچی میں جاکر دوبارہ سم نکالنے کیلیے ان کے آفس جاتے ہیں تو وہ اپنا انٹر نیٹ کھول کر آپ کی تفصیلات جان لیتے ہیں کہ آپ واقعی وہی آدمی میں جس کے نام پر یہ سم ہے۔ یہ سارا ڈیٹا ڈیپ ویب پر ہوتا ہے، چنانچہ یوفون والے صرف اپنا یوفون کا ڈیٹا اوپن کرسکتے ہیں کسی اور کا نہیں اسی طرح ہر کمپنی کی رسائی صرف اپنے ڈیٹا تک ہوتی ہے۔

3۔ پھر ڈیپ ویب سے نیچے باری آتی ہے ڈارک ویب کی۔ یہ انٹر نیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی، سوائے اس کے جس کے پاس ڈارک ویب کی ویب سائٹ کا پورا ایڈریس ہو۔ عام طور پر ڈارک ویب کی ویب سائٹس کا ایڈرس مختلف نمبر اور لفظوں پر مشتمل ہوتا ہے اور آخر میں ڈاٹ کام کے بجائے ڈاٹ ٹور، یا ڈاٹ اونین وغیرہ ہوتا ہے۔ یہاں جانے کے لیے متعلقہ ویب سائٹ کے ایڈمن سے رابطہ کرنا پڑتا ہے، جو آپ سے رقم وصول کرکے ایک ایڈریس دیتا ہے۔ جب آپ پورا اور ٹھیک ٹھیک ایڈریس ڈالتے ہیں تو یہ ویب سائٹ اوپن ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں گوگل یا عام براوزر پر یہ اوپن نہیں ہوتیں، یہ صرف TOR پر ہی اوپن ہوتیں ہیں۔ اور یہ بھی یاد رکھ لیں کہ ان ویب سائٹ کو اوپن کرنا یا دیکھنا بھی قانوناً جرم ہے، اگر آپ کے بارے صرف اتنا پتا چل جائے کہ آپ نے ڈارک ویب پر وزٹ کیا ہے تو اس پر آپ کی گرفتاری اور سزا ہوسکتی ہے۔

پھر ڈارک ویب پر ریڈ رومز ہوتے ہیں ۔ یعنی ایسے پیچز ہوتے ہیں جہاں لائیو اور براہ راست قتل و غارت گری اور بچوں کے ساتھ زیادتی دکھائی جاتی ہے، ایسے لوگ جن کے پاس پیسہ زیادہ ہوتا ہے، اور ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہوتی ہے وہ اس قسم کے مناظر دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں ، چنانچہ وہ ان ریڈ رومز میں جاتے ہیں وہاں ہر چیز کی بولی لگتی ہے، مثلا زیادتی دکھانے کے اتنے پیسے، پھر زندہ بچے کا ہاتھ کاٹنے کے اتنے پیسے، اس کا گلا دبا کر مارنے کے اتنے پیسے، پھر اس کی کھال اتارنے کے اتنے پیسے وغیرہ وغیرہ۔
اس کے علاوہ ہر قسم کی منشیات، اسلحہ اور جو کچھ آپ سوچ سکتے ہیں وہ آپ کو وہاں بآسانی مل جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہاں ریٹ لگے ہوتے ہیں کہ فلاں لیول کے آدمی کو قتل کروانے کے اتنے پیسے مثلا صحافی کے قتل کے اتنے پیسے، وزیر کو قتل کرنے کے اتنے پیسے، سولہ گریٹ کے افسر کو قتل کرنے کے اتنے پیسے وغیرہ۔ اسی قسم کی ایک ویب سائٹ سلک روڈ کے نام سے بہت مشہور تھی جسے امریکی انٹیلی جنس نے بڑی مشکل سے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ٹریس کرکے2015 میں بلاک کیا تھا۔

4۔ Marianas web مریاناز ویب۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا کا سب سے گہرا حصہ ہے۔ حقیقی دنیا میں سمندر کا سب سے گہرا حصہ مریاناز ٹرنچ کہلاتا ہے اسی لیے اسی کے نام پر اس ویب کا نام بھی یہی رکھا گیا ہے۔انٹرنیٹ کے اس حصے میں دنیا کی چند طاقتور حکومتوں کے راز رکھے ہوئے ہیں ، جیسے امریکا، اسرائیل اور دیگر قوتیں وغیرہ۔ یہاں انٹری کسی کے بس کی بات نہیں ، یہاں کوڈ ورڈ اور کیز کا استعمال ہی ہوتا ہے۔

ایک سب سے اہم بات یہ بھی سن لیں کہ ڈارک ویب پر جتنا کاروبار ہوتا ہے وہ بٹ کوائن میں ہوتا ہے، بٹ کوائن ایک ایسی کرنسی ہے جو کسی قانون اور ضابطے میں نہیں آتی اور نہ ہی ٹریس ہوسکتی ہے، کسی کے بارے یہ نہیں جانا جاسکتا کہ اس کے پاس کتنے بٹ کوائن ہیں ۔ ڈارک ویب پر اربوں کھربوں ڈالرز کا یہ غلیظ کاروبار ہوتا ہے۔

اب آخر میں اس سوال کا جواب جو اس سارے معاملے کو پڑھ کر آپ کے ذہن میں پیدا ہوا ہوگا کہ اس ویب پر پابندی ہی کیوں نہیں لگا دی جاتی۔ ؟ تو بات یہ ہے کہ جیسے پستول یا کلاشن کوف ہم اپنی حفاظت اور سیکورٹی کے لیے بناتے ہیں ، چھری سبزی کاٹنے کے لیے بنائی جاتی ہے، اب اگر کوئی اس چھری کو اٹھا کر کسی کے پیٹ میں گھونپ دے تو قصور چھری کا نہیں بلکہ اس کے استعمال کا ہے، چھری پر اگر پابندی لگادی جائے تو تمام انسانوں کا حرج ہوگا لہٰذا اس کا حل یہی ہے کہ جو اس کا غلط استعمال کرے اسے عبرت کا نشان بنا دیا جائے اور باقی لوگوں کو پہلے سے ہی بتا دیا جائے کہ بھائی اس کا غلط استعمال آپ کی دنیا و آخرت برباد کرسکتا ہے۔

✍️درخت پہ لدے بیر اب خود ہی نیچے گرنے لگے ہیں کیونکہ بیروں کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ پتھر مارنے والا بچپن اب موبائل اور ...
12/05/2022

✍️درخت پہ لدے بیر اب خود ہی نیچے گرنے لگے ہیں کیونکہ بیروں کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ پتھر مارنے والا بچپن اب موبائل اور گیمز میں مشغول ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ 💯🙂

*رنگت*اگر جلد کا بالائی ایک ملی میٹر حصہ اتارا جائے تو یہ اس قدر باریک ہو گا کہ کسی حد تک شفاف ہو گا۔ اور بس یہی ۔۔۔ سیا...
09/05/2022

*رنگت*
اگر جلد کا بالائی ایک ملی میٹر حصہ اتارا جائے تو یہ اس قدر باریک ہو گا کہ کسی حد تک شفاف ہو گا۔ اور بس یہی ۔۔۔ سیاہ، سفید، بھورا ۔۔۔ یہ ہماری جلد کی رنگت ہے۔ انسانوں کی رنگت کا فرق صرف ایپی ڈرمس کی بالائی اور بہت ہی پتلی سی تہہ ہے۔
اور یہ غیرمعمولی بات ہے کہ ہمارے بدن میں اس حصے کی اس خاصیت کو اتنی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ لوگ یہ خیال کرتے رہے ہیں کہ اس کا کردار سے کوئی تعلق ہے جبکہ یہ صرف دھوپ سے ہونے والا ردِ عمل ہے۔ تاریخ میں اس کی وجہ سے لوگوں کی آزادی سلب کی گئی، انہیں مارا گیا اور ان کے حقوق چھینے گئے۔ اس سب کی بنیاد جلد کی بالائی پتلی سی پرت میں ہونے والا معمولی فرق رہا ہے۔
نینا جابلونسکی کی تیس سال کی تحقیق جلد کی رنگت پر ہے اور انہوں نے اس پر دو کتابیں لکھی ہیں۔ Skin جو 2006 میں لکھی تھی اور Living Color جو کہ 2012 میں لکھی گئی۔
رنگت سائنسی اعتبار سے کسی کے تصور سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ جابلونسکی کا کہنا ہے کہ ممالیہ کی رنگ میں 120 سے زیادہ جین اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ اپنی رنگ کئی اقسام کی پگمنٹ سے لیتی ہے جن میں سب سے اہم مالیکیول میلانن ہے۔ یہ بائیولوجی کا قدیم مالیکیول ہے اور یہ صرف جلد کی رنگت کے بارے میں ہی نہیں۔ یہ پرندوں کو ان کے پروں کے رنگ دیتا ہے۔ مچھلیوں کو ان کا texture دیتا ہے اور چمک فراہم کرتا ہے۔ سکوئیڈ کی خارج کردہ سیاہی کو رنگ دیتا ہے۔ اور جب آپ کے کاٹے ہوئے پھل بھورے ہو جاتے ہیں تو اس میں بھی اس کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ ہمارے بالوں کو رنگت دیتا ہے۔ اور عمر کے ساتھ اس کی پیداوار ڈرامائی طور پر گر جاتی ہے اور اس کے ساتھ بالوں میں چاندی اترنے لگتی ہے۔
جابلونسکی کہتی ہیں کہ میلانن ایک زبردست قدرتی sunscreen ہے۔ ہم سب، خواہ کسی بھی نسل کے ہوں، ایک ہی جتنے میلانوسائٹ رکھتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میلانن کس مقدار میں پیدا ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلد کی رنگت کنورجنٹ ایولیوشن کی مثال ہے۔ یعنی دو یا زیادہ جگہ پر ایک ہی شے کا ارتقا ہونا۔ پولی نیشیا کے لوگوں کی ہلکی رنگت اور یورپ کے لوگوں کی ہلکی رنگت کا آپس میں جینیاتی تعلق نہیں۔ ایک وقت میں خیال تھا کہ سیاہ رنگت کو ہلکا ہونے میں دس سے بیس ہزار لگے ہوں لیکن اب ہم جینومکس کی مدد سے یہ جانتے ہیں کہ یہ اس سے بہت جلد ہو سکتا ہے۔ محض دو سے تین ہزار سال میں۔ جابلونسکی کا کہنا ہے کہ ڈی پگمنٹیشن زمین پر کم سے کم تین مرتبہ ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خیال ہے کہ جلد کی ہلکی رنگت ہجرتوں اور زراعت کا نتیجہ ہے۔ قدیم طرزِ زندگی والے لوگ بہت سا وٹامن ڈی مچھلی اور شکار سے حاصل کر لیتے تھے اور جب فصلیں اگانا شروع ہوئیں تو خوراک تبدیل ہو گئی۔ خاص طور پر خطِ استوا سے شمال کے سفر میں۔ جلد کی ہلکی رنگ مفید تھی کیونکہ اس سے اضافی وٹامن ڈی اخذ کیا جا سکتا تھا۔
وٹامن ڈی صحت کے لئے ضروری ہے۔ یہ مضبوط ہڈیوں اور دانتوں میں مدد کرتا ہے۔ امیون سسٹم کے لئے مفید ہے۔ کینسر سے لڑائی اور دل کی دیکھ بھال میں کردار ہے۔ ہم اسے دو طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ خوراک سے یا دھوپ سے۔ دھوپ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کا الٹراوائلٹ حصہ خلیے کے ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور جلد کا کینسر کر سکتا ہے۔ ٹھیک توازن آسان نہیں۔
انسانی بدن نے اس چیلنج کو انواع و اقسام کی رنگت کی مدد سے حل کیا۔ زمین کے مختلف حصوں میں دھوپ کی شدت یکساں نہیں۔ جب بدن خود کو تبدیل شدہ حالات میں ایڈاپٹ کرتا ہے تو اسے فینوٹائپ پلاسٹسٹی کہا جاتا ہے۔
ہم اپنی جلد کا رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ دھوپ میں کالے ہو جاتے ہیں۔ شرم سے لال ہو جاتے ہیں۔ غصے میں چہرے کی سرخی کی وجہ ہمیں معلوم نہیں۔ جب جسم لڑنے کو تیار ہو تو عام طور پر یہ خون کو ان جگہوں کی طرف زیادہ بھیجنے لگتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہے۔ یعنی پٹھوں میں۔ تو پھر یہ خون چہرے کی طرف کیوں؟ معلوم نہیں۔ جابلونسکی کا خیال ہے کہ اس کی ایک ممکنہ وجہ حریف کو یہ سگنل دینا ہو سکتی ہے کہ آپ واقعی غصے میں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہمارے سفر سست رفتار تھے اور ہم عموماً ایک ہی جگہ پر رہتے تھے تو ارتقا کی سست رفتار بھی کام کر جاتی تھی۔ لیکن اب کے تیز تر سفر کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگ ان جگہوں پر رہتے ہیں جہاں جلد کا رنگ اور ماحول ہم آہنگ نہیں۔
شمالی خطوں، جیسا کہ کینیڈا یا شمالی یورپ، میں یہ ممکن نہیں کہ سردیوں کے مہینوں کے کمزور سی دھوپ سے مناسب مقدار میں وٹامن ڈی حاصل کیا جا سکے، خواہ رنگت کتنی ہی گوری کیوں نہ ہو۔ انڈے، پنیر اور مچھلی کا تیل اس مقدار میں نہیں کھایا جا سکتا کہ یہ کمی پوری ہو۔ کئی جگہوں پر دودھ میں اضافی وٹامن ڈی ملایا جاتا ہے لیکن اس وقت عالمی طور پر نصف آبادی کم از کم سال کا کچھ حصہ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہلکی رنگت کے ساتھ ہلکے رنگ کے بال اور آنکھیں بھی نمودار ہوئیں اور اسے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔
بحیرہ بالٹک کے پاس صرف چھ ہزار سال قبل ان کی آمد ہوئی۔ اور یہ معلوم نہیں کہ کیوں۔ بال اور آنکھ کا رنگ وٹامن ڈی میٹابولزم پر اثر نہیں ڈالتے۔ اور ان کا کوئی عملی فائدہ نہیں لگتا۔ شاید اس خاصیت کو دلکش سمجھا گیا ہو اور یہ آبادی میں رہ گئی ہو۔ اگر آپ کی آنکھ نیلی یا سبز ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ آنکھ میں یہ رنگ زیادہ ہیں بلکہ یہ کہ دوسرے رنگ کم ہیں جس وجہ سے آنکھ نیلی یا سبز لگتی ہے۔
جلد کی رنگت کم از کم ساٹھ ہزار سال سے حالتِ تغیر میں ہے لیکن یہ سیدھا سفر نہیں۔ کئی نسلوں میں ان میں تبدیلی آتی رہی، کئی میں جگہ کی تبدیلی کے بعد بھی نہیں۔ کئی بار یہ ہلکے رنگ کی طرف سفر رہا، کئی بار اس کے برعکس
مثال کے طور پر، جنوبی امریکہ کی مقامی آبادی کی رنگت اس سے ہلکی ہے جو اس latitude پر متوقع ہو سکتی ہے۔ یا افریقہ کی خوئی سان نسل صحرا میں رہتی رہی ہے اور کبھی زیادہ دور نہیں گئی لیکن ان کی رنگت ہلکی ہے۔
برطانیہ میں ایک اور ملنے والے باقیات چیڈرمین کے تھے۔ اس کے 2018 میں ہونے والے جینیاتی تجزیے سے لگتا یہ ہے کہ یہ سیاہ فام تھا اور نیلی آنکھیں تھیں۔ (اگرچہ اس تجزیے پر اچھا اعتماد نہیں)۔
جابلونسکی کا کہنا ہے کہ جہاں تک رنگت کا تعلق ہے تو اسے سمجھنے میں ہم ابھی ابتدا میں ہیں۔

 #کمفرٹ زون سے نکلنے کی کوشش کریں.کسی گاوں میں تین بھائی رہتے تھے. ان کے گھر پر پھل کا ایک درخت تھا جسکا پھل بیچ کر یہ د...
07/05/2022

#کمفرٹ زون سے نکلنے کی کوشش کریں.

کسی گاوں میں تین بھائی رہتے تھے. ان کے گھر پر پھل کا ایک درخت تھا جسکا پھل بیچ کر یہ دو وقت کی روٹی حاصل کرتے تھے. ایک دن کوئی اللہ والا انکا مہمان بنا. اُس دن بڑا بھائی مہمان کے ساتھ کھانے کیلئے بیٹھ گیا اور دونوں چھوٹے بھائی یہ کہہ کر شریک
نہ ہوئے کہ ان کو بھوک نہیں.

مہمان کا اکرام بھی ہو گیا اور کھانے کی کمی کا پردہ بھی رے گیا آدھی رات کو مہمان اٹھا جب تینوں بھائی سو رہے تھے ایک آری سے وہ درخت کاٹا اور اپنی اگلی منزل کی طرف نکل گیا.

صبح اس گھر میں کہرام مچ گیا سارا اہل محلہ اس مہمان کو کوس رہا تھا جس نے اس گھر


کی واحد آمدن کو کاٹ کر پھینک دیا تھا.

چند سال بعد وہی مہمان دوبارہ اس گاوں میں آیا تو دیکھا اس بوسیدہ گھر پر جہاں وہ مہمان ہوا تھا اب عالیشان گھر بن گیا تھا ان کے دن بدل گئے تھے.

تینوں بھائیوں نے درخت کے پھل نکلنے کے انتظار کی اُمید ختم ہونے پر زندگی کیلئے دوسرے اسباب کی
تلاش شروع کر دی تھی اور اللہ نے ان کو برکت عطا فرما دی.

جب بھی ہم پر دنیا میں اسباب کا کوئی دروازہ بند ہو جاتا ہے تو ہماری بھی زندگی میں ایک زلزلہ آجاتا ہے ہم سمجھتے ہیں جیسے سب کچھ ختم ہو گیا.

جبکہ یہ کسی نئی شروعات کیلئے قدرت کا پیغام ہوتا ہے انسان کی فطرت ہے وہ دستیاب
صورتحال میں کمفرٹ زون بنا لیتا ہے وہ حسرت سے دُنیا کو دیکھتا ہے

لیکن اپنا کمفرٹ زون چھوڑنے کی ہمت نہیں کر پاتا کبھی قدرت ہمیں اس کمفرٹ زون سے نکالتی ہے کبھی ہمارا امتحان ہی اس زون سے نکلنا بن جاتاہے

کہیں آپ زیتون کے دھوکے میں مالش والا تیل تو نہیں کھا رہے؟کچھ لوگ گھروں میں زیتون کا تیل کھانا پسند کرتے ہیں۔ لیکن بازار ...
28/04/2022

کہیں آپ زیتون کے دھوکے میں مالش والا تیل تو نہیں کھا رہے؟
کچھ لوگ گھروں میں زیتون کا تیل کھانا پسند کرتے ہیں۔ لیکن بازار میں دستیاب زیتون کا ایک تیل ایسا بھی جو کھانے کے لئے نہیں بلکہ مالش وغیرہ کے لئے ہوتا ہے۔ اور اگر آپ مالش والا تیل کھا رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ اس سے آپ زیتون کے فوائد حاصل نہیں کر سکتے بلکہ بعض صورتوں میں یہ آپ کی صحت کے لئے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپین، نیوزی لینڈ اور جرمنی سمیت کئی ممالک نے زیتون کے مالش والے تیل یعنی پومس آئل کی فروخت پر پابندی لگا رکھی ہے۔
آئیے اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ زیتون کا کھانے والا تیل کونسا مالش والا تیل کونسا ہے۔
زیتون کا پھل، شکل و صورت اور جسامت میں بیر سے ملتا جلتا ہوتا ہے۔ قدرت نے زیتون کے پھل کی گٹک (گھٹلی) اور گودے دونوں میں تیل رکھا ہوا ہے۔
زیتون کے درخت پر لگا ہوا پھل جو پکنے کے قریب ہے
زیتون کے ثابت پھل کو جب پہلی مرتبہ کولہو میں ڈالا جاتا ہے تو اس سے نکلنے والا تیل ایکسٹرا ورجن آئل کہلاتا ہے۔ پہلی مرتبہ نکلا ہوا تیل سب سے بہترین اور کھانے کے لئے سفارش کیا جاتا ہے۔
اب زیتون کے بچے ہوئے چُورے کو گرم کر کے پھر سے کولہو میں ڈالا جاتا ہے جس سے پھل میں موجود بچا کھچا تیل بھی نکل آتا ہے۔ پھل کے چُورے سے نکلا ہوا یہ بچا کھچا تیل ورجن آئل کہلاتا ہے جو کوالٹی میں ایکسٹرا ورجن آئل سے تو ہلکا ہوتا ہے لیکن پھر بھی کھانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اب آخر میں جو کچرا بچ جاتا ہے اس میں سے بھی تیل نکالنے کے لئے اس میں ایک خاص قسم کا کیمیکل ڈالا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل پٹرول کی طرح کا ہوتا ہے جسے انگریزی میں کہتے ہیں۔ اس کیمیکل کا کام یہ ہوتا ہے کہ یہ اس کچرے میں موجود ہر طرح کے تیل دار اجزاء کو اپنے اندر حل کر کے ایک محلول سا بنا لیتا ہے۔ اس کے بعد اس محلول کی صفائی وغیرہ کر کے کیمیکل کو الگ کر لیا جاتا ہے اور باقی بچنے والا تیل ، زیتون کا پومس آئل کہلاتا ہے۔
زیتون کے ڈبے پر واضح طور پر یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ پومس آئل ہے
دراصل یہی وہ تیل ہے جسے مالش وغیرہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پومس آئل کو اگر مالش وغیرہ کی بجائے کھانے کے لئے استعمال کیا جائے تو اس سے آپ وہ فوائد حاصل نہیں کر سکتے جس کے لئے عام طور پر زیتون کا تیل کھایا جاتا ہے۔
اگر آپ مارکیٹ میں جائیں تو زیتون کے تیل کے ہر ڈبے پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ کونسا آئل ہے یعنی ایکسٹرا ورجن آئل ہے، ورجن آئل ہے یا پومس آئل ہے۔ اس تینوں قسم کے تیل کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
زیتون کے ڈبے پر واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ یہ ایکسٹرا ورج آئل ہے
لہذا اگرآپ زیتون کا تیل کھانے کا شوق رکھتے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ آپ ایکسٹرا ورجن یا ورجن آئل میں سے ہی کسی ایک کا انتخاب کریں۔

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Smart Wasif Official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Smart Wasif Official:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share