CNN Kashmir

CNN Kashmir No 1 Digital Media Company of AJK

25/07/2025
مظفرآباد جنسی ہراسانی اسکینڈل: انصاف کی راہ میں خاموشی یا ریاستی سرپرستی؟تحریر: سردار جنید ظفرآزاد کشمیر کے دارالحکومت م...
23/07/2025

مظفرآباد جنسی ہراسانی اسکینڈل: انصاف کی راہ میں خاموشی یا ریاستی سرپرستی؟
تحریر: سردار جنید ظفر

آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں سامنے آنے والا جنسی ہراسانی اسکینڈل محض ایک فرد کا جرم نہیں، بلکہ پورے ریاستی نظام، اس کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے تعفن اور بے حسی کی کھلی عکاسی ہے۔ جب ریاستی ادارے، جن کا کام شہریوں کی عزت اور حرمت کا تحفظ ہے، خود ان کے استحصال میں ملوث پائے جائیں، تو پھر سوال یہ نہیں کہ انصاف ملے گا یا نہیں بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ “کیا ریاستی نظام کا کوئی اخلاقی وجود باقی بچا ہے؟” اس کیس میں وزیراعظم سیکریٹریٹ کے بااثر افسران، محکمہ اطلاعات کے اہلکار، اور دیگر سرکاری چہروں کے ملوث ہونے کے سنگین الزامات سامنے آئے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جنسی ہراسانی جیسے حساس مسئلے پر آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت نے ایک مؤثر پالیسی تو دور ایک باضابطہ بیان دینا بھی گوارا نہ کیا۔ الٹا ان افسران کے خلاف خبریں شائع کرنے والے اخبارات پر اشتہارات کی بندش کا حربہ اختیار کیا گیا، جو نہ صرف بدترین میڈیا سنسرشپ کی علامت ہے بلکہ خود ظلم پر پردہ ڈالنے کی مذموم کوشش ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عوامی نمائندوں، بیوروکریسی، اور میڈیا تینوں کا ضمیر سو جائے تو ایک مظلوم کہاں فریاد کرے؟ کیا محض وزارتی سطح پر بیان دے دینا، یا نوٹس لے لینے کا دعویٰ کر دینا، متاثرہ خواتین کی عزت نفس کو بحال کر سکتا ہے؟ یہ کیس ہمیں ایک تلخ سچ سے روشناس کراتا ہے اگر مجرم بااختیار ہو، اور متاثرہ کمزور تو انصاف کا حصول خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ بدقسمتی سے اس اسکینڈل کی فائلیں عدالتوں اور انکوائری کمیشنوں کے دفاتر میں تو گردش کر رہی ہیں، لیکن عملی اقدام یا سزاؤں کی کوئی مثال تاحال سامنے نہیں آئی۔ اگر مظفرآباد جیسے مرکز میں ایسا اسکینڈل دبایا جا سکتا ہے، تو دیہی علاقوں، مدرسوں، اور چھوٹے شہروں میں ہونے والی زیادتیوں کا تصور ہی لرزا دینے والا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ آزادکشمیر کی سول سوسائٹی، سیاسی جماعتیں، اور عوامی نمائندے اپنی خاموشی توڑیں، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں صرف اس لیے معاف نہیں کریں گی کہ ہم نے مظلوموں کے بجائے ظالموں کا ساتھ دیا۔ بلاشبہ مظفرآباد جنسی ہراسانی اسکینڈل ایک سنگین اور شرمناک واقعہ ہے، اور اس کا مرکزی کردار مقصود میر جو وزیراعظم آزادکشمیر کے پریس سیکرٹری کی حیثیت سے کام کرتا رہا اس وقت تک وزیراعظم سیکرٹریٹ ہی میں روپوش رہا جب تک گرفتاری کے وارنٹس جاری نہیں ہو گئے۔ بعد ازاں وہ پراسرار طور پر منظرعام سے غائب ہو گیا، اور اب تک کسی کے علم میں نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کیس میں سیاسی مداخلت اور بیوروکریسی کی سرپرستی جیسے سنگین سوالات جنم لے رہے ہیں۔ مختلف رپورٹس اور باخبر حلقے اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ وزیراعظم انوارالحق کے قریبی افسران اور کچھ بااثر بیوروکریٹس نے نہ صرف مقصود میر کو تحفظ فراہم کیا بلکہ اس کی گرفتاری کے احکامات کو بھی مؤخر کرنے کی کوشش کی۔ یہ محض غفلت نہیں بلکہ ایک مربوط حکومتی پردہ پوشی کی کوشش معلوم ہوتی ہے جس کا مقصد صرف ایک شخص کو بچانا نہیں بلکہ پورے سیکریٹریٹ اور نظام کو بچانا ہے جس پر یہ الزامات براہ راست آ رہے ہیں۔ اگر واقعی مقصود میر وزیراعظم سیکریٹریٹ میں رہا اور پھر غائب ہو گیا تو یہ کس کی اجازت سے ممکن ہوا؟ کس نے اسے فرار میں مدد دی؟ اس سوال کا جواب صرف اعلیٰ سطحی شفاف عدالتی انکوائری سے ہی ممکن ہے۔ یہ سکینڈل اب محض ایک فرد کی بدکرداری نہیں بلکہ ریاستی اداروں کی ساکھ، شفافیت، اور انصاف کے نظام کے وقار کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اگر قانون کی نظر میں سب برابر ہیں تو پھر وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں کو بھی جواب دہ ہونا پڑے گا اور مقصود میر کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ اسے تحفظ دینے والوں کا تعین اور احتساب بھی لازم ہے۔

انوار حکومت کے خلاف عوامی و ادارہ جاتی بغاوتتحریر: نقاش چغتائیآزادکشمیر کی سیاسی فضا اس وقت شدید اضطراب کا شکار ہے۔ ایک ...
23/07/2025

انوار حکومت کے خلاف عوامی و ادارہ جاتی بغاوت

تحریر: نقاش چغتائی

آزادکشمیر کی سیاسی فضا اس وقت شدید اضطراب کا شکار ہے۔ ایک جانب مہنگائی، بے روزگاری اور بے یقینی کے سائے عوام کی زندگیوں کو نگل رہے ہیں، تو دوسری جانب ریاستی مشینری کے ستون پولیس، ان لینڈ ریونیو و ٹیکس ڈیپارٹمنٹ، اور دیگر سرکاری ملازمین چیخ چیخ کر انصاف کی فریاد کر رہے ہیں مگر افسوس، اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھا شخص وزیراعظم چوہدری انوارالحق اب بھی خود کو عوامی حکمران کے بجائے نوآبادیاتی حاکم سمجھتا ہے۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں کہ آزادکشمیر کی تین اہم ترین ریاستی مشینریاں پولیس، ان لینڈ ریونیو، اور اب محکمہ مال حکومت کے خلاف ہڑتال پر چلی گئی ہیں۔ ان کے مطالبات کیا ہیں؟ صرف اتنا کہ انہیں ان کا جائز حق دیا جائے: تنخواہیں، مراعات، ٹائم اسکیل، اور شہداء کے پیکجز۔ مگر موجودہ حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ چوہدری انوارالحق کی حکومت کا یہ اندھا، بہرا اور بے حس رویہ صرف ملازمین تک محدود نہیں رہا اس سے قبل نابینا افراد، معذور بچے، اور بے سہارا والدین بھی مظفرآباد کی سڑکوں پر وزیراعظم کے خلاف نعرے لگا چکے ہیں۔ حوا کی بیٹیاں مظفرآباد کے چوراہوں میں نوکریوں کی بندربانٹ پر سراپا احتجاج رہیں یہ وہ مظلوم طبقے ہیں جو عام طور پر خاموشی اختیار کرتے ہیں جب وہ بھی چیخنے لگیں تو سمجھ لیجیے کہ ظلم نے اپنی انتہا کو چھو لیا ہے۔
وزیراعظم انوارالحق کے بیانات محض نمائشی ہیں وعدے تو کیے جاتے ہیں مگر عمل کا کہیں نام و نشان نہیں ملازمین کے جائز مطالبات پر اجلاس تو ہوتے ہیں مگر نتیجہ صفر۔ آخر کب تک عوام کو “نوٹیفکیشن زیر غور ہے” جیسے فریب سے بہلایا جائے گا؟ دوسری طرف ان احتجاجوں کو دبانے کے لیے تادیبی کارروائیوں، اظہارِ وجوہ کے نوٹسز، اور دباؤ کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے، جو کہ ہر جمہوری اور آئینی اصول کے خلاف ہے۔ یہی تو وہ طرزِ حکمرانی ہے جو آمریت کی نشانی ہوا کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب عوام، سرکاری ملازمین، مزدور، معذور افراد، اساتذہ، اور پولیس سب ہی چیخ رہے ہوں تو یہ حکومت آخر کس کی نمائندہ ہے؟ یہ کیسی ریاستی قیادت ہے جس کے دامن پر روزانہ احتجاج کی گرد جم رہی ہے اگر وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے فوراً ہوش کے ناخن نہ لیے، تو یہ بغاوت صرف محکموں تک محدود نہیں رہے گی۔ عوامی سطح پر جو لاوا پک رہا ہے، وہ جلد یا بدیر سڑکوں پر لاوے کی صورت بہے گا۔ اس وقت حالات کو سنبھالنے کے لیے محض یقین دہانیاں کافی نہیں تحریری، عملی، اور باعزت حل ہی حکومت کی ساکھ کو بچا سکتا ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب ریاستی تاریخ چوہدری انوارالحق کو عوام دشمن، وعدہ شکن، اور ناکام حکمران کے طور پر یاد رکھے گی۔ یاد رہے کہ اگر عوامی آوازوں کو مسلسل دبایا جائے تو اقتدار کا غرور لمحوں میں خاک میں مل سکتا ہے، وزیراعظم انوار کو سوچنا ہو گا کہ کیا وہ تاریخ میں اپنا نام مظلوموں کے دشمن کے طور پر درج کرانا چاہتے ہیں؟ یا وہ ایک باشعور، اصلاح پسند رہنما کے طور پر یاد رہنا چاہیں گے۔ کیا وہ یہ نہیں سوچتے کہ جب اقتدار کی روشنیاں ان کا ساتھ چھوڑ دیں گی تو کیا ان غریبوں اور مجبور لوگوں معذور بچوں نابینا افراد کی سسکیاں اور آہیں ان کے گرد گھیرا سخت نہیں کرلیں گی۔ جن مظلوم اور محکوم عوام کی دعائیں لینے کے بجائے انوار حکومت نے ان کی آہیں اور بددعائیں سمیٹیں، کیا یہ آہیں ان کا گھیراؤ نہیں کریں گی؟ تاریخ گواہ ہے کہ جب اقتدار کے نشے میں بدمست حکمران عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان پر نمک چھڑکتے ہیں، تو وہی مظلوموں کی آہیں آسمانوں تک جاتی ہیں اور پھر وہی آہیں فیصلہ کن نتائج کی صورت میں واپس آتی ہیں۔ ان معذور بچوں کی سسکیاں، نابینا افراد کا احتجاج، پولیس اہلکاروں کی فریادیں، اور مالیاتی محکموں کے ملازمین کی فاقہ کشی پر مبنی آوازیں یہ سب کسی عدالت، ادارے یا میڈیا کے محتاج نہیں، بلکہ یہ مظلوموں کے دلوں سے نکلی ہوئی وہ صدائیں ہیں جو قدرت کے قانونِ مکافات عمل کو متحرک کر دیتی ہیں۔ جنہیں اقتدار نے وقتی طور پر اندھا کر دیا ہے، وہ شاید سمجھ نہیں پا رہے کہ عوام کی بددعائیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔ جب وہ آہیں طوفان بن کر لوٹتی ہیں تو نہ محلات باقی رہتے ہیں نہ سنگھاسن باقی رہتی ہے فقط عبرت کی ایک داستان، جو وقت کی دیواروں پر ہمیشہ کے لیے کندہ ہو جاتی ہے۔

انوار حکومت کے خلاف عوامی و ادارہ جاتی بغاوتتحریر: نقاش چغتائیآزادکشمیر کی سیاسی فضا اس وقت شدید اضطراب کا شکار ہے۔ ایک ...
22/07/2025

انوار حکومت کے خلاف عوامی و ادارہ جاتی بغاوت

تحریر: نقاش چغتائی

آزادکشمیر کی سیاسی فضا اس وقت شدید اضطراب کا شکار ہے۔ ایک جانب مہنگائی، بے روزگاری اور بے یقینی کے سائے عوام کی زندگیوں کو نگل رہے ہیں، تو دوسری جانب ریاستی مشینری کے ستون پولیس، ان لینڈ ریونیو و ٹیکس ڈیپارٹمنٹ، اور دیگر سرکاری ملازمین چیخ چیخ کر انصاف کی فریاد کر رہے ہیں مگر افسوس، اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھا شخص وزیراعظم چوہدری انوارالحق اب بھی خود کو عوامی حکمران کے بجائے نوآبادیاتی حاکم سمجھتا ہے۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں کہ آزادکشمیر کی تین اہم ترین ریاستی مشینریاں پولیس، ان لینڈ ریونیو، اور اب محکمہ مال حکومت کے خلاف ہڑتال پر چلی گئی ہیں۔ ان کے مطالبات کیا ہیں؟ صرف اتنا کہ انہیں ان کا جائز حق دیا جائے: تنخواہیں، مراعات، ٹائم اسکیل، اور شہداء کے پیکجز۔ مگر موجودہ حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ چوہدری انوارالحق کی حکومت کا یہ اندھا، بہرا اور بے حس رویہ صرف ملازمین تک محدود نہیں رہا اس سے قبل نابینا افراد، معذور بچے، اور بے سہارا والدین بھی مظفرآباد کی سڑکوں پر وزیراعظم کے خلاف نعرے لگا چکے ہیں۔ حوا کی بیٹیاں مظفرآباد کے چوراہوں میں نوکریوں کی بندربانٹ پر سراپا احتجاج رہیں یہ وہ مظلوم طبقے ہیں جو عام طور پر خاموشی اختیار کرتے ہیں جب وہ بھی چیخنے لگیں تو سمجھ لیجیے کہ ظلم نے اپنی انتہا کو چھو لیا ہے۔
وزیراعظم انوارالحق کے بیانات محض نمائشی ہیں وعدے تو کیے جاتے ہیں مگر عمل کا کہیں نام و نشان نہیں ملازمین کے جائز مطالبات پر اجلاس تو ہوتے ہیں مگر نتیجہ صفر۔ آخر کب تک عوام کو “نوٹیفکیشن زیر غور ہے” جیسے فریب سے بہلایا جائے گا؟ دوسری طرف ان احتجاجوں کو دبانے کے لیے تادیبی کارروائیوں، اظہارِ وجوہ کے نوٹسز، اور دباؤ کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے، جو کہ ہر جمہوری اور آئینی اصول کے خلاف ہے۔ یہی تو وہ طرزِ حکمرانی ہے جو آمریت کی نشانی ہوا کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب عوام، سرکاری ملازمین، مزدور، معذور افراد، اساتذہ، اور پولیس سب ہی چیخ رہے ہوں تو یہ حکومت آخر کس کی نمائندہ ہے؟ یہ کیسی ریاستی قیادت ہے جس کے دامن پر روزانہ احتجاج کی گرد جم رہی ہے اگر وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے فوراً ہوش کے ناخن نہ لیے، تو یہ بغاوت صرف محکموں تک محدود نہیں رہے گی۔ عوامی سطح پر جو لاوا پک رہا ہے، وہ جلد یا بدیر سڑکوں پر لاوے کی صورت بہے گا۔ اس وقت حالات کو سنبھالنے کے لیے محض یقین دہانیاں کافی نہیں تحریری، عملی، اور باعزت حل ہی حکومت کی ساکھ کو بچا سکتا ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب ریاستی تاریخ چوہدری انوارالحق کو عوام دشمن، وعدہ شکن، اور ناکام حکمران کے طور پر یاد رکھے گی۔ یاد رہے کہ اگر عوامی آوازوں کو مسلسل دبایا جائے تو اقتدار کا غرور لمحوں میں خاک میں مل سکتا ہے، وزیراعظم انوار کو سوچنا ہو گا کہ کیا وہ تاریخ میں اپنا نام مظلوموں کے دشمن کے طور پر درج کرانا چاہتے ہیں؟ یا وہ ایک باشعور، اصلاح پسند رہنما کے طور پر یاد رہنا چاہیں گے۔ کیا وہ یہ نہیں سوچتے کہ جب اقتدار کی روشنیاں ان کا ساتھ چھوڑ دیں گی تو کیا ان غریبوں اور مجبور لوگوں معذور بچوں نابینا افراد کی سسکیاں اور آہیں ان کے گرد گھیرا سخت نہیں کرلیں گی۔ جن مظلوم اور محکوم عوام کی دعائیں لینے کے بجائے انوار حکومت نے ان کی آہیں اور بددعائیں سمیٹیں، کیا یہ آہیں ان کا گھیراؤ نہیں کریں گی؟ تاریخ گواہ ہے کہ جب اقتدار کے نشے میں بدمست حکمران عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان پر نمک چھڑکتے ہیں، تو وہی مظلوموں کی آہیں آسمانوں تک جاتی ہیں اور پھر وہی آہیں فیصلہ کن نتائج کی صورت میں واپس آتی ہیں۔ ان معذور بچوں کی سسکیاں، نابینا افراد کا احتجاج، پولیس اہلکاروں کی فریادیں، اور مالیاتی محکموں کے ملازمین کی فاقہ کشی پر مبنی آوازیں یہ سب کسی عدالت، ادارے یا میڈیا کے محتاج نہیں، بلکہ یہ مظلوموں کے دلوں سے نکلی ہوئی وہ صدائیں ہیں جو قدرت کے قانونِ مکافات عمل کو متحرک کر دیتی ہیں۔ جنہیں اقتدار نے وقتی طور پر اندھا کر دیا ہے، وہ شاید سمجھ نہیں پا رہے کہ عوام کی بددعائیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔ جب وہ آہیں طوفان بن کر لوٹتی ہیں تو نہ محلات باقی رہتے ہیں نہ سنگھاسن باقی رہتی ہے فقط عبرت کی ایک داستان، جو وقت کی دیواروں پر ہمیشہ کے لیے کندہ ہو جاتی ہے

انوار حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف سرکاری ملازمین سراپا احتجاج: پولیس اور انکم ٹیکس کے بعد محکمہ مال نے بھی 24 جو...
22/07/2025

انوار حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف سرکاری ملازمین سراپا احتجاج: پولیس اور انکم ٹیکس کے بعد محکمہ مال نے بھی 24 جولائی سے دفاتر کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا

مظفرآباد (نمائندہ خصوصی)
آزادکشمیر میں وزیراعظم چوہدری انوارالحق کی حکومت کی عوام دشمن معاشی اور انتظامی پالیسیوں کے خلاف سرکاری محکموں میں شدید بے چینی پھیل گئی ہے۔ پولیس اور محکمہ انکم ٹیکس کے بعد اب محکمہ مال (ریونیو ڈیپارٹمنٹ) نے بھی حکومت کے خلاف علمِ احتجاج بلند کر دیا ہے اور 24 جولائی 2025 کے بعد احتجاجی دھرنے اور دفاتر کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔

محکمہ مال کے ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ کئی ماہ سے اپنے جائز مطالبات کے لیے اعلیٰ حکام کو یاد دہانیاں کراتے آ رہے ہیں، جن میں تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ، ٹائم اسکیل پروموشنز، الاؤنسز کی ادائیگی، اور خالی آسامیوں پر بھرتیاں شامل ہیں، تاہم حکومت کی مسلسل عدم دلچسپی اور وعدہ خلافی نے انہیں سخت احتجاج پر مجبور کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ قبل ازیں محکمہ پولیس نے نخواہوں میں فرق اور شہداء پیکجز کی عدم ادائیگی پر احتجاجی تحریک شروع کی، جو اب تادیبی کارروائیوں کے باوجود بھی رکنے کو تیار نہیں۔ پھر محکمہ ان لینڈ ریونیو (انکم ٹیکس) نے مطالبات تسلیم نہ ہونے پر سیاہ پٹیوں کے ساتھ علامتی ہڑتال اور آئندہ قلم چھوڑ ہڑتال کا اعلان کیا اور اب محکمہ مال نے بھی احتجاجی دائرے کو وسعت دیتے ہوئے ریاست گیر دھرنوں اور مکمل بائیکاٹ کی دھمکی دی ہے، جس سے سرکاری مشینری مفلوج ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

محکمہ مال کے ملازمین کی تنطیم ریونیو ایمپلائزآرگنائزیشن کے رہنماؤں نے واضح کیا ہے کہ اگر 24 جولائی تک ان کے مطالبات پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو 25 جولائی سے دفاتر کی تالہ بندی کی جائے گی اور کسی قسم کی ریونیو وصولی، انتقالات، زمین کے ریکارڈ، اور دیگر خدمات بند کر دی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب چیف سیکرٹری اور وزیراعظم صرف اعلانات کرتے ہیں اور عملی اقدامات نہیں اٹھاتے، تو ہمیں احتجاج کا حق حاصل ہے۔ اگر حکومت کو انتظامی بحران سے بچانا ہے تو فوری نوٹس لے۔

سیاسی حلقے اس ابھرتی ہوئی احتجاجی تحریک کو حکومت کی بدانتظامی اور سرکاری ملازمین کے ساتھ روا رکھی گئی ناانصافیوں کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ عوامی سطح پر بھی ان احتجاجوں کی حمایت کی جا رہی ہے، کیونکہ حکومتی پالیسیاں مہنگائی، بے روزگاری، اور خدمات کے بگاڑ کا باعث بنی ہیں۔

دوسری جانب حکومتی ترجمان کی جانب سے کسی قسم کی باضابطہ وضاحت یا مذاکرات کی یقین دہانی تاحال سامنے نہیں آ سکی، جس سے ملازمین کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

آزادکشمیر میں انوار حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی سرکاری مزاحمت ایک سنجیدہ انتظامی بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر سنجیدہ مذاکرات اور تحریری یقین دہانیوں کا راستہ نہ اپنایا، تو آنے والے دنوں میں ریاستی امور کی مکمل مفلوجی خارج از امکان نہیں۔

22/07/2025

اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی سمیت 80 پی ٹی آئی کارکنوں کو مئی 9 کیس میں 10 سال قید کی سزا

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)

سرگودھا کے اینٹی ٹیررزم کورٹ نے اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد خان بھاچار، ایم این اے محمد احمد چٹھا اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 80 کارکنان کو مئی 9 فسادات کے مقدمے میں 10 سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ یہ کیس اُس شورش سے متعلق ہے جو سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پھیل گئی تھی ۔

عدالتی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ ملزمان نے 2023 کے فروری میں عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج کے دوران حکومتی اور عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچایا تھا۔ ملزمان میں رمنا پولیس اسٹیشن پر حملہ کرنے والے نیز مختلف شہری عمارتوں کو آگ لگانے والے بھی شامل تھے۔

اینٹی ٹیررزم کورٹ نے عدالت کے فیصلے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت 10 سال قید کی سزا کے ساتھ 200,000 روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔ اس کے علاوہ خلافِ قانون اسلحہ کے تحت پانچ سال اور عوامی املاک کے نقصان کے لیے چار سال مزید سزا بھی شامل کی گئی۔

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when CNN Kashmir posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to CNN Kashmir:

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share