ABDUL BAQI

ABDUL BAQI Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from ABDUL BAQI, News & Media Website, .
(1)

داخلے جاری ہیںبی اے دو سالہ (نیو نام AD)ایم اے ڈھائ سالہ (نیو نام  2.5BS)بی ایس چار سالہبی ایڈ وغیرہ
03/03/2024

داخلے جاری ہیں
بی اے دو سالہ (نیو نام AD)
ایم اے ڈھائ سالہ (نیو نام 2.5BS)
بی ایس چار سالہ
بی ایڈ وغیرہ

ڈیجیٹل دور سے ہم آہنگ
26/02/2024

ڈیجیٹل دور سے ہم آہنگ

پی ایس بی
26/02/2024

پی ایس بی

13/01/2024

قرآن کریم کی کون سی سورتیں بسیط کہلاتی ہیں؟
جن سورتوں کا آغاز ایک حرف سے ۔مثلا ق،ن،ص

پی ایچ ڈی سکالرشپ اب اپنے پنجاب میں
13/01/2024

پی ایچ ڈی سکالرشپ اب اپنے پنجاب میں

مجلد کتاب یا سافٹ بکس soft book؟ایک ہفتہ سے اس عنوان پر اہل علم و دانش کی گفت و شنید ہو رہی ہے کہ روایتی طرز ہی ٹھیک ہے ...
14/12/2023

مجلد کتاب یا سافٹ بکس soft book؟
ایک ہفتہ سے اس عنوان پر اہل علم و دانش کی گفت و شنید ہو رہی ہے کہ روایتی طرز ہی ٹھیک ہے ؟ یا سیکھنے والوں کو سافٹ بکس کی سہولت دی جائے ؟
اب تک ہم نے جتنی بھی رائے دیکھی ہیں ان میں اکثریت روایتی انداز کو ترجیح دے رہے ہیں
جبکہ کچھ احباب روایتی انداز ہی کو کچھ ترامیم کے ساتھ یعنی چند اضافی مضامین کے اخراج کے ساتھ جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔
اور ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ
1).تمام سیکھنے والوں کو حکومت کی جانب سے ہینڈ رائٹ /ٹیبلٹ/لیپ ٹاپ فراہم کردئیے جائیں
2)تقسیم شدہ لیپ ٹاپ میں جدید سلیبس انسٹال شدہ ہو
نقد فائدہ یہ ہے کہ سیکھنے والوں کی کمر سے بھاری بھرکم بوجھ اتر جائے گا اور بچوں کی قدرتی نشونما بہترین انداز میں مکمل ہوجائے گی۔
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آنے والی نسل ڈیجیٹل دور کے مطابق چلن اپنا لے گی۔
تیسرا اور اہم فائدہ مینول نظام پلک جھپکنے میں فائل ٹریکنگ سسٹم میں تبدیل ہو جائے گا
ان شاءاللہ

پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ منتخب ہونے والے نیو ہیڈ ماسٹر احباب کو مبارک باد پیش کرتے ہیں
24/10/2023

پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ منتخب ہونے والے نیو ہیڈ ماسٹر احباب کو مبارک باد پیش کرتے ہیں

سبجیکٹ سپیشلسٹتحریری امتحان کا شیڈول پبلک سروس کمیشن نے جاری کردیا
19/10/2023

سبجیکٹ سپیشلسٹ
تحریری امتحان کا شیڈول پبلک سروس کمیشن نے جاری کردیا

نیو ایڈورٹائزمنٹ
11/10/2023

نیو ایڈورٹائزمنٹ

09/10/2023

ہم نصابی سرگرمیوں کے فوائد:
اگر بچے میں خود اعتمادی،تخلیقی صلاحیت، لیڈر شپ، مشکل حالات کا سامنا کرنے اور مقابلہ کرنے،ڈسپلن ،ٹیم ورک کی صلاحیت جگانا چاہتے ہیں تو اسے ہم نصابی سرگرمیوں میں شرکت کا بھرپور موقع دیں۔
بچے کے ٹیلنٹ کو جلا بخشنا چاہتے ہیں تو اسے اس کی پسند کی ہم نصابی سرگرمی میں حصہ لینے کا موقع دیں ۔

ٹچ سکرین کے جدید دور میں اگر بچے کی جسمانی فٹنس کے اپ سپورٹر ہیں تو اسے کھیل کے میدان میں اترنے کا موقع ضرور دیں۔
ایک محنتی بچہ اگر ہم نصابی سرگرمیوں میں شرکت کی وجہ سے امتحان میں دو چار نمبر کم بھی لے تو کوئ مسئلہ نہیں کیوں کہ اس کی خود اعتمادی عملی میدان میں اسے رٹہ سسٹم کے ماہرین تیراکوں سے ضرور سبقت دلائے گی ان شاءاللہ۔
مزید وضاحت کے لیے ایک کالم منقول پیش خدمت ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔کسی بھی ملک کی ترقی اور اس کے نوجوانوں کے ذہنی ارتقا کا اندازہ وہاں کی تعلیمی حالت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ تعلیم صرف درسی کتب اور لیکچر تک محدود نہیں ،بلکہ ہم نصابی سرگرمیاں بھی اس کاحصہ ہوتی ہیں، جن سے طلباء کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی نشوونما ہو تی ہے۔نیز طلباء میں راہنمائی کی صفات، بلند کرداراور مضبوط اخلاق جیسی صفاتیں پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ طلباء کو طوطے کی طرح اسباق رٹانے کے بجائے بہترین ذہنی صلاحیتوں کے حامل بنایا جانا ضروری ہے۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں نوجوانوں کے لئے لازم و ملزوم ہیں، ان سے نوجوانوں کو ہمت و حوصلہ اور محنت کرنے کی لگن پیدا ہوتی ہے۔تعلیمی ادارے ایک مربوط نظام کے تحت قوم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ،جن میں مقررہ نصاب کو مقررہ وقت کے اندر مکمل کروانا اور امتحان لے کر اگلی جماعت میں ترقی دینا شامل ہے۔ یہ سلسلہ تعلیمی اداروں میں سیڑھیوں کی مانند جاری ہے ۔ تعلیم کے ساتھ مختلف سرگرمیاں بالکل ایسے ہی ضروری ہیں جس طرح کسی نخلستان کے لیے پانی ،جس کے بغیر وہ سر سبز و شاداب نہیں ہوسکتا۔ تعلیم کا مقصد طلبا ءکومحض کتابی کیڑا بنانا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں معاشرے کا ایک باکردار اور کار آمد شہری بھی بنانا مقصود ہوتا ہے۔ اس طرح طلباء مختلف مقابلوں میں حصہ لے کر، اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکتے ہیں۔بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کے جب کوئی نوجوان ملازمت کے لیے درخواست دیتا ہے تو تعلیمی سرٹیفکٹ کے ساتھ مختلف سرگرمیوں یعنی مختلف کھیلوں، اسکائوٹنگ اور اسکول، کالج کے میگزین میں حصے لینے پر ملنے والے سرٹیفکٹ بھی لگاتا ہے، تاکہ اضافی کارکردگی بھی سامنے آسکے۔ یہ وہ صلاحیتیں ہوتی ہیں جو نوجوان کی شخصیت و کردار کو مضبوط کرتی ہیں۔ طلبا اسکول ،کالج میں تقریری مقابلوں میں حصہ لے کر مستقبل کے اچھےمقرربن سکتے ہیں اور سیاست دان یا معاشرے کا مفید کارآمد ترجمان بن کر معاشرے کیے پیچیدہ مسائل کے لئے آواز بھی بلندکر سکتے ہیں۔ان سرگرمیوں کا ایک مقصد طلباء کو اپنے ادب اور ثقافت سے آگاہ کرنا بھی ہے۔ اس کے لئے تعلیمی اداروں میں ورائٹی پروگرام، بیت بازی اور مضمون نویسی کے مقابلوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے، تاکہ طلباء میں ادبی ذوق اُبھارا جاسکےاور انہیں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے۔ اس کے علاوہ اسکائوٹنگ کی تربیت سے طلباء میں نظم و ضبط کی پابندی کی عادت پڑتی ہے، اگر ملک پر خدانخواستہ کوئی ناگہانی آفت آجائے تو اسکاؤٹ عوام کی مدد کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔لہٰذا طلباء دوران تعلیم کالجوں میں اسکائوٹنگ میں شمولیت حاصل کریں۔ طلباء کو مطالعاتی دوروں پر بھی لے کر جانا چاہیے، اس سے ان کے سیکھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔ تعلیمی اداروں میں شجرکاری مہم میں بھی طلباء بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور پودے درخت لگاکر اپنے اسکول و کالج کو آلودگی سے پاک پرفضا مقام بنائیں۔سوشل میڈیا کا تیزی سے نوجوانوں میں بڑھتا ہوا رجحان اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ کورونا کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش نے نوجوانوں کو غیر نصابی سرگرمیوں سے بھی دور کردیا ہے۔ اس وجہ سے نوجوانوں کا لائف اسٹائل بالکل تبدیل ہوگیا ہے ۔ یہ طرزِ زندگی ہمارے میدانوں کو غیرآباد کرکے نوجوانوں کےزندگی پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے ۔اس لئے طلباء کوتعلیم کے ساتھ کھیل کی طرف رغبت دلانا وقت کی ضرورت ہے۔ فٹ بال، ہاکی، کرکٹ، باسکٹ بال، بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس وغیرہ کے باقاعدہ مقابلوں کے انعقاد سے مثبت نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ان کی شخصیت کو ہم آہنگی کے ساتھ پروان چڑھانے میں بڑی مدد ملے گی۔ کھیلوں کے ذریعے نوجوان طلباء اپنے ساتھیوں سے تعاون و ہمدردی، ضابطوں کی پابندی، مقابلہ و مسابقت میں اعتدال، اطاعت و قیادت اور دھاندلیوں کا مقابلہ اور اپنی باری کا انتظار کرنے کی تربیت ملتی ہے۔

06/10/2023

تحقیق سے منسلک احباب کی نذر
(منقول)
علوم اسلامیہ میں تحقیق کے جدید تقاضے
از مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی مدظلہ العالی
(۱۷ جون ۲۰۱۴ء کو علامہ اقبالؒ اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی اسکالرز کی نشست سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ! یہ میرے لیے خوشی اور افتخار کی بات ہے کہ علامہ اقبالؒ اوپن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالرز کے اس کورس میں ارباب فہم و دانش سے گفتگو کا موقع مل رہا ہے اور اس پر میں یونیورسٹی انتظامیہ کا شکر گزار ہوں۔ میں آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی علوم میں تحقیق کا ذوق رکھنے والے احباب کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔

پہلی بات یہ ہے کہ اسلامی علوم و فنون کے حوالہ سے تحقیق اور ریسرچ کے شعبہ میں ہم ایک عرصہ سے تحفظات اور دفاع کے دائرے میں محصور چلے آرہے ہیں۔ مستشرقین نے اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اعتراضات اور شکوک و شبہات پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا تو ہم ان کے جوابات میں مصروف ہوگئے اور تحقیق کے میدان میں ابھی تک ہمارا رخ وہی ہے۔ کم و بیش تین صدیاں گزر گئی ہیں کہ ہماری علمی کاوشوں کی جولانگاہ کم و بیش یہی ہے۔ میرے خیال میں اب ہمیں اس دائرے سے باہر نکل کر اقدام اور پیش قدمی کے امکانات کا جائزہ لینا چاہیے اور defense سے offence کی طرف بڑھنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب کے معاشرتی کردار سے انحراف کے اس فلسفہ کے تلخ نتائج بھگتنے کے بعد اب مغرب کو اس سے واپسی کے راستے تلاش کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اس کی جھلکیاں وقتاً فوقتاً دکھائی دینے لگی ہیں۔ اس لیے ہمیں عالمی سطح پر دکھائی دینے والی اس فکری تبدیلی پر نظر رکھتے ہوئے تحقیق اور ریسرچ کے نئے موضوعات تلاش کرنا ہوں گے اور امت مسلمہ کی راہ نمائی کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا۔

اس سلسلہ میں دو تین میدانوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جن کو علمی و فکری جدوجہد کی جولانگاہ بنایا جا سکتا ہے اور جن کے مختلف پہلو مسلم محققین اور مفکرین کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثلاً معاشیات کے شعبہ میں سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کی قائم کردہ ایک کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دنیا میں معاشی طور پر توازن اور انصاف قائم کرنے کے لیے قرآن کریم کے بیان کردہ معاشی اصولوں کی طرف رجوع ضروری ہے اور یہ بات صرف کمیٹی کی رپورٹ تک محدود نہیں رہی، بلکہ آج کی عملی صورت حال یہ ہے کہ مغربی دنیا میں اسلامی یا غیر سودی بینکاری کا مرکز بننے کے لیے لندن اور پیرس میں کشمکش عروج پر ہے۔ گزشتہ دنوں لندن میں منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعلان کیا ہے کہ وہ لندن کو غیر سودی بینکاری کا مرکز بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، جبکہ پیرس کے بارے میں معلومات یہ ہیں کہ فرانس کی حکومت نے غیر سودی بینکاری کی مرکزیت کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے اپنے معاشی قوانین میں ترامیم کی ہیں۔ یہ تحقیق و تجزیہ کا ایک بڑا موضوع اور میدان ہے اور ہمارے اسکالرز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس تبدیلی کا جائزہ لیں اور دنیا کو بتائیں کہ مغرب کو اتنی بڑی تبدیلی تک لے جانے کے عوامل کیا ہیں اور کون سے اسباب نے مغربی دنیا کو غیر سودی بینکاری کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے؟

اسی طرح خاندانی نظام کے منتشر ہوجانے کے حوالہ سے بھی مغرب کی پریشانی قابل دید ہے اور بہت سے مغربی دانش ور مسلسل اس بات پر اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے خاندانی نظام کی بحالی کے لیے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ روسی دانش ور میخائیل گوربا چوف نے اب سے ربع صدی قبل اپنی کتاب ’’پرسٹرائیکا‘‘ میں کہا تھا کہ ہم نے جنگ عظیم اول میں لاکھوں افراد کے قتل سے پیدا ہونے والے افرادی قوت کے خلا کو پر کرنے کے لیے عورت کو گھر سے نکال کر فیکٹری اور دفتر کی زینت بنایا تھا۔ اس سے ہم نے افرادی قوت کے خلا کو تو کسی حد تک پر کر لیا مگر ہمارا گھریلو نظام تتر بتر ہوکر رہ گیا ہے، اور اب ہمیں عورت کو گھر واپس لے جانے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے، جبکہ برطانیہ کے ایک سابق وزیر اعظم جان میجر باقاعدہ Back to Basics کے نعرے کے ساتھ فیملی سسٹم کی بحالی اور خواتین کو گھریلو ذمہ داریوں کو ترجیح دینے کی طرف راغب کرنے کی مہم چلاتے رہے ہیں۔ یہ بھی تحقیق اور ریسرچ کا ایک بڑا دائرہ ہے کہ مغرب میں فیملی سسٹم کے بکھرنے کے اسباب کیا ہیں اور خاندانی رشتوں اور نظام کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے اسلام دنیا کی کیا راہ نمائی کرتا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندانی زندگی کے بارے میں اسوۂ حسنہ آج بھی نسل انسانی کی راہ نمائی کے لیے کافی ہیں، لیکن اسے دنیا کے سامنے آج کی زبان و نفسیات کے مطابق پیش کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ مگر ہمیں اس کے لیے اپنے کردار اور طرز عمل کی نئی ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔

میڈیا اور ذرائع ابلاغ ایک مستقل موضوع بحث کی حیثیت رکھتے ہیں کہ میڈیا کے مختلف شعبوں کی کارکردگی نے انسانی سوسائٹی پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟ مثال کے طور پر اس کے ایک جزوی پہلو کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ کچھ عرصہ قبل بھارتی صوبہ ہریانہ کی ایک سکھ خاتون نے طلاق کی شرح میں مسلسل اضافے کو پی ایچ ڈی کے مقالہ کا موضوع بنایا اور اس کے مختلف اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے موبائل فون کو طلاق کی شرح میں ہوشربا اضافے کا سب سے بڑا سبب قرار دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ شادی سے ایک سال قبل اور ایک سال بعد تک لڑکی کے پاس موبائل فون نہیں ہونا چاہیے، جبکہ چند ماہ قبل برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کی تباہ کاریوں کی یہ کہہ کر دھائی دی ہے کہ ہماری نئی نسل برباد اور ناکارہ ہوتی جا رہی ہے، اس لیے ہمیں نیٹ اور موبائل کے بارے میں قانون سازی کرنا ہوگی۔ اس سے ہٹ کر فحاشی اور عریانی کے فروغ اور اسلامی اور مشرقی اقدار و روایات کو کمزور کرنے میں میڈیا کا کردار سب کے سامنے ہے۔ ہمارے دانش وروں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور موبائل، نیٹ، چینل اور دیگر ذرائع ابلاغ کے غلط استعمال کی مختلف صورتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کی تباہ کاریوں کو اجاگر کرنا چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی میں ان بین الاقوامی معاہدات اور قوانین کا بھی تذکرہ کرنا چاہوں گا جو اس وقت دنیا کے عملاً حکمران ہیں۔ میں یہ بات اکثر کہا کرتا ہوں کہ دنیا پر آج حکومتوں کی حکومت نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی حکمرانی ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ طاقت ور اور دولت مند ملک اپنے لیے راستہ نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر کمزور ممالک خود کو ان کے سامنے بے بس پاتے ہیں اور معاہدات کی پابندی پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان معاہدات کا اسلامی تعلیمات کی رو سے جائزہ لینا ضروری ہے اور ہمارے اسکالرز کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی معاہدات کا اسلامی تعلیمات کے ساتھ تقابلی مطالعہ کر کے قرآن و سنت کی روشنی میں امت مسلمہ کی راہ نمائی کریں۔ اس سلسلہ میں مثال کے طور پر ایک بات عرض کروں گا کہ مجھے گزشتہ چند سالوں کے دوران ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے زیر اہتمام مختلف سیمیناروں میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جنگی متاثرین کی امداد کے سلسلہ میں اپنی سرگرمیوں کے بارے میں مسلم علاقوں میں ریڈ کراس کو دشواریاں پیش آرہی ہیں اور ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی ان دشواریوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں نے اس سلسلہ کے ایک سیمینار میں عرض کیا کہ اگر ریڈ کراس کی تشکیل اور اس کے قوانین اور طریق کار کی تدوین کے وقت اسلام کو ایک زندہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اس کے نمائندوں کو بھی شامل کر لیا جاتا تو آج یہ مشکلات پیش نہ آتیں۔ اس وقت یہ سمجھ لیا گیا کہ مسیحی دنیا کی طرح مسلمان بھی اسلام کے معاشرتی کردار سے بالآخر دست بردار ہو جائیں گے، اس لیے بین الاقوامی قوانین کی تشکیل و تدوین میں مذہب کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا مگر عملاً ایسا نہیں ہو سکا، اس لیے کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی حصے میں مذہب کے معاشرتی کردار سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اسلام آج بھی انسانی معاشرہ کی ایک زندہ اور متحرک قوت و حقیقت ہے۔ اس لیے اس مسئلہ کا حل آج بھی یہی ہے کہ انسانی سوسائٹی میں اسلام کو ایک زندہ حقیقت اور نسل انسانی کے ایک بڑے حصے کے راہ نما کے طور پر تسلیم کیا جائے اور آج کے زمینی حقائق کی بنیاد پر بین الاقوامی قوانین و معاہدات کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مسلم محققین اور دانش ور حضرات اسی ایک میدان کو اپنی علمی تگ و تاز کا مرکز بنا لیں تو تحقیق و تجزیہ کے سینکڑوں موضوعات ان کی توجہ کے طالب دکھائی دیتے ہیں۔ ان گزارشات کا مقصد اور خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اسلام کے دفاع کے ساتھ ساتھ اب اقدام اور پیش رفت کو بھی موضوع بنانا چاہیے اور مغربی فلسفہ و نظام کی ناکامی کے اسباب و عوامل کو بے نقاب کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی افادیت و ضرورت کو واضح کرنے کی علمی و فکری محنت کرنی چاہیے کہ یہ آج کی اہم ضرورت ہے اور ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمت محنت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

04/10/2023

سلام ٹیچر ڈے!
ہمارا تو ہردن ٹیچر ڈے ہے بلکہ استاد محترم کا یہ حق کہ وہ ہمیں کسی بھی وقت کوئ کام سپرد کردے جس کی تعمیل ہم فرض عین سمجھتے ہیں۔
ھم اپنے تمام اساتذہ کرام کے مشکور و ممنون ہیں کہ جنہوں نے ہمیں الف ب سے والناس تک پڑھنا اور اے بی سے تھیسز لکھنا سکھایا احترام انسانیت اور حب الوطنی کا جذبہ موجزن کیا۔
اساتذہ کرام کی محبت و شفقت اور دعاؤں کی بدولت ناممکن سے ممکن ہوتے ہوئے دیکھا۔
اپنے اساتذہ کرام کے سامنے ادب سے سرجھکائے کھڑا رہنا تخت سلیمانی کی تسخیر سے زیادہ ہمیں پسند ہے۔
اور ہاں
جو سو فی صد اخلاص و محبت اساتذہ کرام نے ہمیں سکھائ تھی
اگر چہ وہ تمام ہم آئندہ نسل میں شاید منتقل نہ کرسکیں
لیکن اپنی بساط کے مطابق کوشاں ہیں۔
اور اس 4Gکے دور میں بھی ہم پر امید و مطمئن ہیں کہ ان شاءاللہ وہ تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ حصہ نئ نسل کو اس سے مستفید کروائیں گے ان شاءاللہ
اللہ تعالیٰ ہمارے اساتذہ کرام کو سلامت رکھے صحت کاملہ کے ساتھ برکت والی عمر دراز عطا فرمائے
اور جو دنیا سے رحلت فرما گئے ہیں اللہ تعالیٰ انکی کامل مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں اعلی رتبہ عنایت فرمائیں
امین

استادِ محترم کو میرا سلام کہنا

کتنی محبتوں سے پہلا سبق پڑھایا
میں کچھ نہ جانتا تھا، سب کچھ مجھے سکھایا
اَن پڑھ تھا اور جاہل ، قابل مجھے بنایا
دنیا ئے علم و دانش کا راستہ دکھایا
اے دوستو ملیں تو بس ایک پیام کہنا
استادِ محترم کو میرا سلام کہنا

مجھ کو خبر نہیں تھی، آیاہوں میں کہاں سے
ماں باپ اس زمیں پر لائے تھے آسمان سے
پہنچا دیافلک تک استاد نے یہاں سے
واقف نہ تھا ذرا بھی، اتنے بڑے جہاں سے
مجھ کو دلایا کتنا اچھا مقام، کہنا
استادِ محترم کو میرا سلام کہنا

جینے کا فن سکھایا،مرنے کا بانکپن بھی
عزت کے گر بتائے ، رسوائی کے چلن بھی
کانٹے بھی راہ میں ہیں ،پھولوں کی انجمن بھی
تم فخرِ قوم بننا اور نازشِ وطن بھی
ہے یاد مجھ کو ان کا ایک اک کلام، کہنا
استادِ محترم کو میرا سلام کہنا

جو عِلم کا عَلم ہے، استاد کی عطا ہے
ہاتھوں میں جو قلم ہے، استاد کی عطا ہے
جو فکر تازہ دم ہے، استاد کی عطا ہے
جو کچھ کیا رقم ہے، استاد کی عطا ہے
اُن کی عطا سے چمکا، حاطبؔ کا نام، کہنا
استادِ محترم کو میرا سلام کہنا

داخلے جاری ہیںدو سالہ ایم اے (بی ایس دو سالہ اہلیت: ایسوسی ایٹ ڈگری)ایم اے (بی ایس ڈھائ سالہ اہلیت: سمپل بی اے /بی ایس س...
03/10/2023

داخلے جاری ہیں
دو سالہ ایم اے (بی ایس دو سالہ اہلیت: ایسوسی ایٹ ڈگری)
ایم اے (بی ایس ڈھائ سالہ اہلیت: سمپل بی اے /بی ایس سی ڈگری ہولڈر )
دو سالہ بی اے (نیو نام A D اہلیت ایف اے )

گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مانسہرہ میں درج ذیل سبجیکٹ BS چار سالہ میں داخلہ لیا جاسکتا ہے
28/09/2023

گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مانسہرہ میں درج ذیل سبجیکٹ BS چار سالہ میں داخلہ لیا جاسکتا ہے

ایف اے /ایف ایس سی پاس کرنے والے تمام احباب کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔چار سالہ بی ایس کرنے کے لیے اپنی پسند کا مضمون منت...
27/09/2023

ایف اے /ایف ایس سی پاس کرنے والے تمام احباب کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔چار سالہ بی ایس کرنے کے لیے اپنی پسند کا مضمون منتخب کریں اور بسم اللہ کریں

05/08/2023

لیکچرر ایس ایس
(منقول)
لیکچرر یا کسی بھی مقابلے کے امتحان کی تیاری چند ماہ کی محنت نہیں ہوتی

یہ اپ کے تمام تعلیمی کیرئیر کا نچوڑ ہوتا ہے

سابقہ مطالعہ مقابلے کے امتحان کی تیاری میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے

اپلائی کرنے والے امیدوار کا جتنا سابقہ مطالعہ ہو گا وہ طے کرے گا کہ اسے مزید کتنا وقت اوٹ لائن کو تیار کرنے کے لیے چاہیے

اس کے ساتھ ساتھ یاداشت اور حافظہ جتنا مضبوط ہو گا اتنا کم وقت درکار ہو گا اور جتنا حافظہ کمزور ہو گا اتنا دہرائی در دہرائی کے لیے زیادہ وقت چاہیے ہو گا

اسی طرح ڈیلی مطالعے کا وقت جس قدر زیادہ ہو گا نسبتا کم وقت میں اوٹ لائن تیار ہو جائے گی

ذہنی اسودگی اور معاشی و خاندانی حالات اور ماحول سے بھی مطالعے اور یاداشت پر اثر پڑتا ہے تو اس سے بھی وقت کم وبیش ہو سکتا ہے

لیکچرر یا مقابلے کے کسی بھی امتحان کی تیاری وقت سے بہت پہلے شروع کر دینی چاہیے۔۔۔۔۔کیونکہ جیسے جیسے انسان کا مطالعہ بڑھتا ہے اور چیزیں ذہن میں دہرائی سے پختہ ہوتی جاتی ہیں تو بنیادی تصورات کلیئر ہو جاتے ہیں جس سے امتحان اور انٹرویو میں بہت معاونت ملتی ہے

موجودہ دور میں چونکہ جابز کنفرم نہیں کہ کب ائیں پھر ظاہر ہے بہت کم سیٹس ہوتیں۔۔۔۔۔۔تو تیاری کرنے والوں کو ساتھ میں اپنے معمولات جاری رکھنے چاہییں۔۔۔۔۔اس کے ساتھ جاب بزنس فیملی لائف سب معمول کے مطابق ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب سیٹس ائیں تو انسان کچھ زیادہ محنت کر کے سب کور کر سکتا ہے

30/07/2023

لیکچرر اسلامیات کی تیاری کیسے کی گئ ؟
(آصف عثمان صوبہ پنجاب ) کی آپ بیتی۔۔۔لیکچرر منتخب ہونا میرا اک خواب تھا۔ جس کی تکمیل 11 جنوری 2023 ء کو پنجاب پبلک سروس کمیشن کے اعلان کردہ فائنل رزلٹس سے ہو گئی، او ر میں پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرر اسلامیات منتخب ہو گیا۔ سوشل میڈیا کے مشاہدہ سے یہ بات سامنے آئی کہ جیسے ہی منتخب امیدواروں نے اپنے رزلٹس سوشل میڈیا پر شیئر کیے تو بہت سے لوگ ان سے تیاری کا تجربہ اور تیاری کے لیے مفید کتابوں کے حوالہ سے سوال کرتے نظر آئے، میری اس دیرینہ خواہش کی تکمیل کیسے ہوئی؟ اور لیکچرر اسلامیات کی تیاری کا میرا تجربہ کیسا رہا؟ اس کالم میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ خوابوں کی تکمیل بغیر محنت کے ممکن نہیں ہوتی۔ اس لیے سچے جذبے کے بعد سخت محنت کی عادت دوسری چیز ہے، جو کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ محنت میں پھر یہ بات بھی ضروری ہے کہ ایک جامع منصوبہ اور اچھی تدبیر کے ساتھ کی جائے۔ اگر بغیر کسی منصوبہ بندی کے محنت کی جائے تو اس کے ثمر آوری کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒنے تفسیر عثمانی میں لکھا ہے کہ اچھی تقدیر کامیاب تدبیر کے ضمن میں ہی ظاہر ہوا کرتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل تک مقابلہ کی فضا نسبتاً کم تھی، تب تک صرف معروضی کتابوں کی مدد سے بھی تحریری امتحان پاس کیا جاسکتا تھا۔ مگر اب مقابلہ کافی حد تک بڑھ گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ پی پی ایس سی نے تحریری امتحان کا پیٹرن بھی قدرے اپڈیٹ کر دیا ہے۔ روایتی اور نسبتاً آسان کی بجائے اب سوالات ایم اے کے سلیبس اور اصل مآخذ سے لیے جاتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ”None of these“ کا آپشن بھی بڑھا دیا گیا ہے، جسے وسیع مطالعہ کے بغیر حل کرنا نا ممکن ہو گیا ہے۔ اس لیے اب تقریباً انہی سکالرز کی کامیابی کے یقینی امکانات ہوتے ہیں، جو معروضی کتابوں، ایم اے کے سلیبس، بی ایس اسلامیات کے لیے مجوزہ کتب (Recommended Books) اور اصل مصادر و مراجع سے تیاری کرتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ ہم نے تیاری کیسے کی؟ اس سوال کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ ہماری تیاری کے تین مراحل تھے۔ پہلے مرحلہ میں ہم نے بازار میں دستیاب تقریباً نصف درجن سے زائد معروضی کتابیں پڑھیں، جن میں کاروان اور ایڈوانسڈ پبلشرز کی لیکچرر اسلامیات کی تیاری کے لیے معروضی کتابیں، گلدستہ معاون امتحانات، معلومات اسلامیہ اور نور اسلام کا مطالعہ شامل تھا۔ دوسرے مرحلہ میں پنجاب یونیورسٹی کا ایم اے پارٹ ون اور پارٹ ٹو کا سلیبس حاصل کیا۔

جبکہ تیسرے مرحلہ میں ہم نے ایم اے کے ہر پرچہ میں تجویز کردہ اصل کتابوں میں سے ایک یا دو کتابیں پڑھیں۔ جن میں بطور خاص علوم قرآن مفتی محمد تقی عثمانی، علوم قرآن صبحی صالح، علوم حدیث صبحی صالح، اصول الحدیث ڈاکٹر حمید اللہؒ، الوجیز فی اصول الفقہ سید عبد الکریم زیدان، آسان اصول فقہ خالد سیف اللہ رحمانی، الرحیق المختوم صفی الرحمن مبارکپوری، تاریخ اسلام محمد رفیق، تاریخ اسلام ڈاکٹر منور حسین چیمہ، ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ ثروت صولت، دنیا کے بڑے مذاہب عماد الحسن آزاد فاروقی، ادیان عالم کا تقابلی مطالعہ ڈاکٹر منور حسین چیمہ، تاریخ تصوف یوسف سلیم چشتی، ڈاکٹر محمود غازی کے محاضرات، اللو و المرجان فواد عبد الباقی اور فقہ میں ”الفقہ الاسلامی و ادلتہ“ ڈاکٹر وھبہ الزھیلی کے ایم اے کے سلیبس والا حصہ شامل ہیں۔ ہماری تیاری کے آخری دو مراحل میں طریقہ کار یہ تھا کہ ہر پرچہ کے ہم نے الگ الگ اپنے نوٹس بھی تیار کیے تھے۔ اس کے علاوہ میٹرک، ایف اے اور بی اے کی اسلامیات اور تاریخ اسلام بھی زیر مطالعہ رہی تھی۔

بیس نمبر کا جنرل نالج کا حصہ بھی تحریری امتحان میں کوالیفائی کرنے میں اہم ہوتا ہے۔ جنرل نالج نا صرف تحریری امتحان میں کوالیفائی کرنے کے لیے فیصلہ کن ہوتا جا رہا ہے بلکہ انٹرویوز میں بھی اپنے سبجیکٹ کے علاوہ عام طور پر جنرل نالج بالخصوص مطالعہ پاکستان سے متعلقہ سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ اس لیے جنرل نالج کا حصہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری طرف سے اس حصہ کو اس طرح تیار کیا گیا تھا، کہ پاکستان سٹڈی سے متعلقہ مواد کے لیے ہم نے بیچلر کے ”مطالعہ پاکستان“ کے نوٹس بنائے، جبکہ کرنٹ افیئرز سے متعلقہ سوالات کے لیے مملکت پاکستان کے صدور، وزراء اعظم، آرمی چیفس، چیف جسٹس صاحبان، گورنرز، وفاقی اور صوبائی کابینہ کے نام بطور خاص یاد کیے۔

انگلش کی تیاری میں بنیادی گرائمر جبکہ ریاضی کی تیاری میں مکمل اعداد، کسور عام، کسور اعشاریہ میں بنیادی عوامل (جمع تفریق ضرب تقسیم ) کی مشق، اس کے علاوہ تناسب، فیصد اور الجبرا کے بنیادی سوالات کی تفہیم پر بھی محنت کی۔ جنرل نالج میں شامل دیگر مضامین ( روزمرہ سائنس، کمپیوٹر سائنس اور اردو وغیرہ ) کی تیاری پر ہم نے بالکل بھی دھیان نہیں دیا۔

واضح رہے کہ لیکچرر اسلامیات کی تیاری کا اصل اور فطری طریقہ کار وہی ہے، جو سطور با لا میں ذکر کیا گیا ہے ، تاہم ایسی مثالیں بھی موجود ہیں، کہ بعض سکالرز نے صرف ایک یا دو معروضی کتابوں کو تیار کیا، قدرت اور قسمت ان پر مہربان ہوئی اور وہ مختصر تیاری کے ساتھ ہی لیکچرر منتخب ہو گئے۔ چنانچہ ایسے سکالرز جن کو وقت کی قلت کا سامنا ہو، تو وہ بھی بنیادی اور ضروری تیاری کے ساتھ قسمت آزمائی کر سکتے ہیں، نصیب ان کی سفینہ کو بھی برلب ساحل پہنچا دے تو کچھ بعید نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ پہلی دو بار ناکام ہونے کے بعد تیسری یا چوتھی بار منتخب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے مایوس ہونے اور ہمت ہارنے جیسے خیال تھوک کر ہمیشہ آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔

لیکچرر اسلامیات کی جاب حاصل کرنے کے خواہش مند سکالرز کو چاہیے کہ وہ آج سے ہی تیاری شروع کر دیں، اصل مصادر میں سے ہر پرچہ کی ایک ایک کتاب کے ترتیب وار نوٹس بنائیں، پھر ایم اے کا سلیبس حرف بحرف پڑھیں، کبھی بھی ایک یا دو معروضی کتابوں پر انحصار مت کریں، ایک سے زائد معروضی کتابوں کو ازبر کریں، جنرل نالج کا مطالعہ بھی جاری رکھیں۔ تیاری کے لیے ایک ٹائم ٹیبل بنائیں، دیگر مصروفیات کو سکیڑ کر زیادہ سے زیادہ وقت پڑھائی کے لیے مختص کریں اور پھر اس طے شدہ ٹائم ٹیبل کی مکمل پابندی کرتے رہیں۔
حالات حاضرہ سے آگاہ رہنے کے لیے سوشل میڈیا پر صحت مند پیجز، گروپس اور پلیٹ فارمز کو لائیک و جوائن کریں۔ سب سے ضروری اک بات یہ بھی کہ ان تمام اسباب سے اہم تر ایک سبب دعا بھی ہے۔ خود بھی تنہائی کے لمحات میں اللہ کے حضور دعاؤں میں مقصد میں کامیابی کے لیے دعائیں کرتے رہیں، اور اپنے دوست احباب بالخصوص ماں باپ سے بھی دعائیں لیتے رہیں۔ ان شاء اللہ ضرور کامیابی ملے گی۔

29/06/2023

تمام احباب کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے عید الاضحیٰ مبارک ہو ۔
اللہ تعالیٰ حج کی سعادت بھی نصیب فرمائے امین

26/06/2023

حتمی سینیارٹی لسٹ
SST (M) SST (F) & SST IT (F)
اپلوڈڈhttps://kpese.gov.pk/

20/06/2023

فائنل سینیارٹی لسٹ
مردانہ گریڈ 19 اور گریڈ 17 اپلوڈ
شکریہ

17/06/2023

قربانی
کون کون کرے ؟
آج چاندی کا ریٹ فی تولہ 2564 روپے ہے تو اس طرح ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت
134610
بن گئ تو جس کے پاس قربانی کے دنوں میں اتنی رقم موجود ہو خواہ نقدی یا کسی بھی صورت میں خواہ جی پی فنڈ وغیرہ تو قربانی کی نیت ابھی سے حاضر کر لیں

07/06/2023

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو بھی فری لیپ ٹاپ سکیم میں شامل کردیا گیا ہے۔
منقول

01/06/2023

اگر آپ نے کسی سرکاری یونیورسٹی سے BS/MA/MS/MSC/MBA/M.PHIL/PHDابھی ابھی کی ہے یا کررہے ہیں تو فری لیپ ٹاپ سکیم کے لیے اپلائی کر دیں۔

طلبہ کرام  فری  لیپ ٹاپ حاصل کرنے  کے لیے آن لائن اپلائی کریں Prime Minister’s Youth Laptop Scheme Phase-IIIBackground o...
29/05/2023

طلبہ کرام فری لیپ ٹاپ حاصل کرنے کے لیے آن لائن اپلائی کریں
Prime Minister’s Youth Laptop Scheme Phase-III
Background of the Scheme
In the past, two schemes had been executed by the Higher Education Commission (PM National Laptop Scheme Phase-I and II). Under PMNLS scheme II, the Higher Education Commission was the executing agency for the program, around 500,000 laptops have been successfully distributed through transparent online system across public sector universities and technical colleges including Federal and FATA colleges. In order to maintain the transparency and information were publicly published on HEC website.

It is an established fact that a country’s economic development is determined by its intellectual capital. Pakistan is unique in the sense that almost 63% of its population is below the age of 30. This youth bulge will critically impact Pakistan as a country if not dealt with appropriately, depending on how the country invests in the youth by providing them with quality education, employment, and meaningful engagement opportunities.

The Government has realized the importance of this fact and started specific programs for tapping potential of the youth, reduce unemployment by providing appropriate skills, and flourish a culture of entrepreneurship.

Introduction about Phase-III (2022-23):
The Honorable Prime Minister of Pakistan announced that government will provide laptops to talented students. The project aims to give opportunities in the form of laptops to the young and talented students studying in public sector Higher Education Institutes (HEIs) across the country and Azad Jammu & Kashmir. The project has been approved by ECNEC, as the Prime Minister Youth Laptop Scheme (PMYLS) Phase-III. In this regard, 100,000 laptops would be awarded to talented students on merit through an online transparent system. In the past, two such schemes have been successfully executed by the Higher Education Commission.

Objectives:
Government’s Vision:

Bringing improvement in quality of science and technology education, including ICT.
Developing partnerships between industries and their education & training providers.
Enabling smart campuses to facilitate instant networking and an improved learning environment.
Boost productivity and value addition in the manufacturing sector.
To ensure the potential of IT is fully used for benefiting the education sector.
Increase productivity and efficiency by providing advanced IT technologies.
Contours aligned with the Vision:

Computers are identified as one of the drivers of future development.
Helping in achieving the digitization of every school, college, and university.
Chipping in with the major component (i.e., devices) in the concept of Smart Campus Systems.
Helping in exploiting the full potential of IT benefiting the education sector.
The scheme is envisioned to promote outreach of youth to information and communication technologies (ICTs) as to bridge the digital divide not only within the higher education sector but across other sectors as well, and to the communities throughout the country.

ELIGIBLE UNIVERSITIES:
Students studying in public sector Universities/ Degree Awarding Institutes and sub-campuses duly recognized by HEC. (List will be displayed or link will be attached).

ELIGIBILITY CRITERIA:
Students enrolled not earlier than their respective program duration as per the table below:

The applicant must have a valid CNIC/ B-Form number.
Must be valid student as of closing date for application submission i.e., December 31, 2022.
Eligibility Criteria:
Students enrolled till December 31, 2022 but not earlier than their respective program duration as per the table below:

Degree Name Duration Date of Admission End Date
PhD 5 Years 31-Dec-17 31-Dec-22
MS/ MPhil or Equivalent 2 Years 31-Dec-20 31-Dec-22
MBA 3.5 Years 30-Jun-19 31-Dec-22
MBA 2.5 Years 30-Jun-20 31-Dec-22
MBA 1.5 Years 30-June-21 31-Dec-22
Masters (16 years) 2 Years 31-Dec-20 31-Dec-22
Undergraduate 5 Years 31-Dec-17 31-Dec-22
Undergraduate 4 Years 31-Dec-18 31-Dec-22
Students studying in public sector Universities/ Degree Awarding Institutes duly recognized by HEC (Except Distance learning).

Students enrolled in PhD/ MS/ MPhil or equivalent 18-year program.
Students enrolled in a 4-year or 5-year bachelor’s degree program (morning and evening).
Students enrolled in MBA Program (3.5 years, 2.5 years, and 1.5 years).
Ineligible:

Students enrolled at any private sector higher education institute (HEI).
Students enrolled at any government degree & postgraduate colleges and affiliated colleges.
Students who have already received a laptop under any Federal or Provincial Government scheme.
Foreign nationals, except students from AJK.
Any other students not listed eligible criteria and/ or as identified and decided by the Steering/Technical Committee.
If any student has not applied online or his/her application has not received through the online portal.
The eligibility for laptop award will also be determined at the time of distribution. If student(s) failed to produce the required documents and proof of academic performance, against the data which made him/ her qualified for a laptop, he/ she shall not be awarded a laptop.
Any selected student who passed out degree program prior to laptop distribution.
Distribution Strategy/Selection criteria:
Once the student has applied online (before the deadline) through the HEC online portal, the system will filter eligible and ineligible students accordingly.
The Focal Person of the relevant department will verify the student’s data through their online focal person account, specifically, Name, CNIC, Department, Degree Level, Last exam percentage/ CGPA, etc.
The sole responsibility of the verification rests with the University Focal Person.
Any discrepancy found in the student's data will be amended accordingly by updating/editing student data after obtaining student records from the Institute or from the students themselves.
The focal person, upon the nature of the application, can disapprove or verify the student or make the correction within the given timeline.
Each Institute will be given their share of laptops based on a predefined quote as outlined in eligibility and merit criteria.
Once the deadline for verification from HEC has expired, the automated process will run on the system to generate merit lists for each University by HEC.
Then HEC will share the provisional merit list among the institutes for their cross-checking, and institutes will cross-check and reply within 15 days.
After the removal of discrepancies from the provisional merit list, if any, HEC will share the final merit list among the Institutes accordingly.
Every Institute must display the final merit list on their Notice board, Website, or Social Media page with a timeline for the distribution.
Similarly, Final Merit Lists will be published on an online portal, where every student and the general public can view the merit status of each individual.
Distribution Criteria:
The distribution criteria have been defined as follows:

Laptops will be purely distributed on a merit basis in each degree program (PhD, MS/M.Phil., and 16 Years of education).
The share will be determined as per university enrollment, and the laptop quota for each degree program will be determined (i.e., University Quota, Campus Quota, Degree program Quota, Department Quota, and Years wise distribution).
As per the PM office directives, Balochistan HEI’s quota has been fixed i.e., 14% (14,000 Laptops) will be distributed in Balochistan HEI’s. (Note: - Students from Balochistan’s accredited universities would be accommodated under this allocated quota).
The remaining 86,000 laptops will be allocated among public sector HEIs in accordance with their enrollment preferences.
FEEDBACK COMPLAINTS:
In case, students have feedback or complaints relating to the program or their eligibility, students may register their grievances with Grievance Redressal Committees (GRCs) which have been constituted for the purpose or you may contact University Super Focal persons.

For further information or queries, please contact:

Students can also send an email to HEC if any additional information required on ([email protected])
Students can complain Online Complain
Contact No :- 051-111-119-432
Address : Higher Education Commission , Sector H9 Building Islamabad, Pakistan

Address


Telephone

+923135925266

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ABDUL BAQI posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share